وکاس نند بر ہما چاری(معظم حسین)

میں نے کیوں اسلام قبول کیا

وکاس نند بر ہما چاری(معظم حسین)

میرا آبائی وطن ہندستان میں مغربی بنگال کا ایک علاقہ مدنا پور ہے۔ ٢٥ ، اکتوبر ١٩٥٥ میری تاریخ پیدائش ہے۔ بردوان یونیورسٹی مغربی بنگال سے میں بنگالی ادب میں بی اے آنرز کیا اور بعد ازاں سنسکرت ادب کی اعلی ترین ڈگری ”کاپیا تیرتھ” حاصل کی۔

قبول اسلام سے قبل میں وکاس نند برہما چاری ضلع پرولیا مغربی بنگال میں شیام سندر آشرم کے تحت ایک مٹھ میں تقریباً سات برس تک مہاراج کی حیثیت سے رہا۔ میرے والد بردوان اسٹیٹ کے راج پروہت تھے۔ اس وقت ان کی مٹھ میں دو تا ڈھائی ہزار شاگرد رہتے تھے۔ جو ان سے ویدک گرنتھوں اور ہندو دھرم کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مٹھ دراصل ہندو راجا مہاراجاؤں کی طرف سے تحفے میں دی گئی زمینیں اور جاگیریں ہوتی ہیں جن کو آباد کر کے وہ اپنے دھرم کی اشاعت کا کام کرتے ہیں۔ سنسکرت ادب میں ”کاپیا تیرتھ” جیسی اعلی ڈگری حاصل کر کے میں ویدک گرنتھوں کا پرچار کرتے ہوئے دھارمک خدمت انجام دے رہا تھا لیکن کسے معلوم تھا کہ اللہ تعالی مجھے سنسکرت زبان ہی کے ذریعے اسلام و دین کی خدمت کی سعادت عطا کرنے والا ہے۔ جس کا اظہار ١٩٩٢ میں قبول اسلام اور ہدایت کی شکل میں ہوا اور میں وکاس نند برہما چاری سے معظم حسین بن گیا۔

ایک دھارمک میلے میں میں اپنے دھرم کی کتابیں مفت تقسیم کر رہا تھا کہ کسی مسلمان نے مجھ سے یہ سوال کیا، بھائی صاحب، آپ کی گرنتھوں میں کیا مذہب اسلام اور اللہ کے آخری نبی محمد صلی اللہ علہت وسلم کا ذکر بھی آیا ہے۔ کیا اس معاملے میں آپ ہماری کچھ مدد کر سکتے ہں ۔ میں نے کہا اس قسم کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اس پر اس مسلمان نے مجھے کئی حوالے دیے۔ اسوقت میری انا کو ٹھیس پہنچی کہ میں سنسکرت کا ماہر، ویدوں کا عالم ہوں لیکن ایک مسلمان مجھ سے زیادہ پراچین گرنتھ کے بارے میں جانتا ہے۔ چوں کہ حق تعالی کی جانب سے ہدایت کا فصلہ ہو چکا تھا اور حق کا بجی میرے دل میں گھر کر چکا تھا اس لیے میں نے حق کی تلاش کا سفر شروع کیا۔ ہندو دھرم کی پرانی کتابوں کو بار بار دیکھا اور مختلف جگہوں پر جا کر ویدوں کے متعلق مزید معلومات حاصل کیں۔ آخر میں اپنے والد کے استاد گرودیو پنچاتن کاپیا تیرتھ سے ملاقات کے لیے گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا ویدوں اور گرنتھوں میں مذہب اسلام اور محمد صلی اللہ علہک وسلم کے بارے میں کچھ لکھا ہے۔ انہوں نے چند اشارے اور نکات فوراً بتا دیے۔ لیکن ساتھ ہی بری طرح ڈانٹ بھی دیا کہ تمہارا اس سے کیا کام؟ پوجا پاٹ میں ان چیزوں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ تم یہ سب کیوں جاننا چاہتے ہو۔

مجھے حق کی تلاش تھی لہذا میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ میں مسیحی مشنری بھی گیا بدھ مت کے مذہبی مقامات پر بھی حاضری دی لیکن کہیں سے اطمینان بحش جوابات نہ مل سکے اس جدوجہد میں ایک دن میری ملاقات جامعۃ العلوم کھڑک پور مغربی بنگال کے مفتی محمد عثمان سے ہو گیت۔ میں نے ان سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں سوالات کیے تو انہوں نے مدرسے میں آنے کی دعوت دی۔ وہاں انہوں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات اور محمد صلی اللہ علہں وسلم کی سیرت کی تفصیلات بتائیں۔ قرآن کریم کی مختلف آیات سن کر میرا سینہ اسلام کے لیے کھل گیا حتی کہ مزید جستجو کے بعد میں نے ١٥ اگست ١٩٩٢ کو مفتی عثمان صاحب ہی کے ذریعے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بھی حق کا ساتھ دیتا ہے تو باطل اس کے مدمقابل آ کھڑا ہوتا ہے۔ قبول اسلام کے بعد میرے لیے بھی مصائب کا پہاڑ کھڑا ہو گیا۔ اپنا منصب، جاگیر اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ گھر سے بے گھر ہونا پڑا۔ جسم کے کپڑوں کے ساتھ خالی ہاتھ، خالی جیب چار ماہ تک در در کی ٹھوکریں کھائیں اور مختلف آزمایشوں سے گزرنا پڑا۔ آخر میں نے مفتی صاحب کے مدرسے میں ملازمت اختیار کر لی۔ اس کے بعد لکھنؤ کا سفر ہوا جہاں چند اہل علم اور بزرگوں کی سر پرستی میں تقریباً چار سال تک دعوت و تبلیغ کے مشن میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد ایک ہندی رسالے ”وشو ایکتا سندیش” میں ویدک گرنتھ پر مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور ویدک گرنتھ کے حوالے سے توحید، رسالت اور آخرت پر روشنی ڈالنی شروع کی۔ اور ساتھ ہی یہ بتانا شروع کیا کہ شرک اور مورتی پوجا کی ابتدا کیسے ہوئی۔

والد صاحب کی عمر ٩٦ برس اور والدہ کی عمر ٩٠ برس تھی۔ انتقال سے چند برس قبل ایک دن میں نے انہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ والد صاحب چونکہ خود پروہت تھے اس لیے میں نے ان کو ان ہی کی زبان میں سمجھانا شروع کیا۔ ویدوں اور گرنتھوں کے مختلف حوالے دیے۔ مرنے کے بعد کے حالات بیان کیے اور جنت دوزخ کی تفصیلات بیان کیں۔ میری والدہ نے کہا کہ آپ دونوں باپ بیٹا آپس میں اسلام کے بارے میں گفتگو کرو میں تم دونوں کی باتیں سن کر اپنا فیصلہ دوں گی۔ تفصیلی گفتگو کے بعد ماتا جی نے کہا کہ انہیں تو اسلام کے بارے میں اطمینان ہو رہا ہے۔ بعد ازاں دونوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد وہ تقریباً دو برس زندہ رہے۔ لیکن میرے دوسرے بھائیوں نے انہیں گھر ہی میں نظر بند رکھا۔ میں نے ان کی لاکھ منت سماجت کی کہ مجھے کوئی وراثت نہیں چاہیے بس مجھے ماں باپ دے دیجیے لیکن کسی نے میری ایک نہ مانی۔ میرے والدین میرے بھائیوں کے پاس ہی فوت ہوئے اس پر بھی میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ ان کی لاشوں کو میرے سپرد کر دو تا کہ میں ان کی اسلامی طریقے سے تدفین کر سکوں مگر وہ بضد رہے اور انہیں نذر آتش کر دیا۔ اور میں صبر کے گھونٹ پی کر ان کے حق میں مغفرت کی دعا کرتا رہا۔

وید تقریباً دس تا گیارہ ہزار برس قبل کی کتاب ہے لیکن فی الوقت موجودہ شکل میں تقریباً ساڑھے تین ہزار قبل کی ہے اس سے پہلے اسے کتابی شکل نہیں دی گئی تھی۔

ہندو شریعت میں رشی منو کی لکھی ہوئی ایک کتاب ‘منوسمرتی’ یا جیون ودھان گرنتھ ایک معروف کتاب مانی جاتی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ ویدک اصولوں کے مطابق کس طرح زندگی گزاری جائے۔ میں نے منوسمرتی کے بہت سے اصولوں اسلامی مسائل اور طور طریقوں کے بہت قریب پایا۔ اس طرح پران میں جل پلاون منو کے عنوان سے نوح علیہ السلام کی کشتی کا پورا واقعہ موجود ہے۔ ویدوں میں نبیوں کو منو کہا گیا ہے۔ آدم علیہ السلام کو پہلا منو کہا گیا ہے اور آدم علیہ السلام کی ساتویں نسل میں کشتی کا پورا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ کلکی پران میں نبی صلی اللہ علہہ وسلم کے بارے میں تمام تفصیلات درج ہیں کہ کلکی اوتار کس طرح پیدا ہوں گے۔ آپ کی والدہ کا نام سمتی یعنی آمنہ اور والد کا نام وشنویس یعنی مالک کی عبادت کرنے والا (عبداللہ) ہو گا اور انہیں جنگ میں مالک کی مدد ملے گی اور ان کے چار خلفا دنیا سے شروفساد کو مٹا دیں گے۔

اتھر وید کا ایک اپنشد ہے جسے اللہ اپنشد کہتے ہیں۔ اس میں دس منتر ہیں۔ جس میں توحید ، رسالت اور اسلامی عقائد کا کھلا اظہار ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کبریائی بیان کرنے کے لیے ایک منتر ہے۔ ”ہند ہوتارو، مندرو، اندر ہوتاروم، ہاسوندرا، اللہ جیشننگھ، اللہ شر شننگھ پرم پررن، برہمان اللہ ہوالام” یہ اندر کی تعریف میں کہے گئے الفاظ ہیں کہ وہ ساری کائنات کا بادشاہ ہے اس کا نام اللہ ہے وہ بہت بڑا ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے او روہی برہما (اللہ) ہے۔

مسلم بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اسلام جیسی نعمت کی قدر کریں اور اسلام پر مکمل عمل کریں اور دوسروں کو حق و صداقت کی دعوت دیں۔

ہندوؤں کو میں یہ سندیس دینا چاہتا ہوں کہ اس سارے سنسار کا مالک و ایشور ایک ہی ہے بس اسی کو مانو، اور اسی کی مانو، اور جس کلکی اوتار کا آپ انتظار کر رہے ہیں وہ چودہ سو برس پہلے عرب کی دھرتی پر آ چکے ہیں ان کا نام ہے محمد صلی اللہ علہہ وسلم۔ وہی سمتی یعنی آمنہ کے لعل اور وشنویس یعنی عبداللہ کے بیٹے ہیں انہوں نے ہی کم وقت میں جزیرہ عرب و قرب و جوار میں کے علاقے میں ساری برائیاں مٹا دیں۔ ان ہی کو مالک کی طرف سے جنگ بدر میں کھلے طور پر مدد حاصل ہوئی اور ان ہی کے خلفا نے ایک بڑے حصے کو فتح کیا اور حق کا بول بالا کیا۔ اس لیے اس کلکی اوتار کو مان لو اسی میں تمہاری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔

٭٭٭