میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ سارہ جوزف:

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

سارہ جوزف

میں ہمہشے سے بہت مذہبی واقع ہوئی ہوں۔ میری امی کا کہنا ہے کہ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا، جب میں نے خدا کا ذکر نہ کیا ہو۔ دوپہر کے کھانے کے وقفے میں مذہبی رسوم ادا کرنے کی غرض سے میں عام طور پر گرجا گھر چلی جاتی تھی۔ اتوار کو علی الصبح بیدار ہو کر عبادت کے لیے جانا بیا میرے معمولات میں شامل تھا۔ میرے والدین کو مذہب سے میری اس دلچسپی کی کوئی پروا نہ تھی۔ کیونکہ انہیں مذہب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ دس برس کی عمر میں ہی مجھے یہ احساس ہو چلا تھا کہ ایٹمی اسلحہ انسانیت کے لیے کتنی بڑی تباہی لا سکتا ہے چنانچہ چھوٹی عمر ہی سے میں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف کیے جانے والے مظاہروں میں شریک ہونا شروع کر دیا تھا۔ میں اس زمانے میں رونالڈ ریگن، یوری اندروپوف اور مارگریٹ تھیچر کے نام خطوط میں ان سے درخواست کرتی تھی کہ وہ اپنے اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخیروں کو تباہ کر دیں۔ سماجی انسان کا مجھے نہایت گہرا شعور حاصل تھا اور مجھے پختہ یقین اور اعتماد حاصل تھا کہ میں بالکل صحیح نظریات اور درست انداز فکر کی حامل ہوں۔ اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ بہت چھوٹی عمر سے مجھے بڑوں کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع مل گیا تھا۔ میری والدہ ایک ماڈلنگ ایجنسی چلا رہی تھیں اس لیے ہر طرز فکر کے لوگوں کا ہمارے گھر آنا جانا تھا جن میں عیسائی، یہودی اور مسلمان سبھی شامل تھے۔ میری پرورش اسی ماحول میں ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ میں اور میرے بھائی بہن مذہبی تعصبات سے دور ہی رہے۔ میرے بھائی نے ہندستان کی ایک مسلمان لڑکی سے شادی کرنے کی غرض سے اسلام بھی قبول کر لیا تھا۔ میرے والدین نے اپنے بیٹے کے قبول اسلام پر کوئی بڑا ہنگامہ کھڑ ا نہ کیا تاہم میں بہت زیادہ خوف زدہ ہو گیں۔ جب میری بھاوج کے ہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی اور اس کا نام رکھا گیا تو وہ میرے لیے بالکل اجنبی تھا اور میں سوچنے لگی کہ ایسا نام کیسے ہو سکتا ہے۔ اپنے مذہبی رجحانات کے سبب میں خود ہی اپنے مذہبی تعصبات کا شکار ہو چلی تھی۔ میں نے بھائی کے قبول اسلام کو ذہنی طور پر قبول نہ کیا تھا۔ بہر کیف جس انداز میں میری تربیت ہوئی تھی اس نے مجھے یہ سمجھنے مں بڑی مدد دی کہ ”دنیا میں ہر خوف کی بنیاد اصل میں لاعلمی ہوتی ہے” چنانچہ میں نے اس لاعلمی کو دور کرنے کے لیے اسلام کے مطالعہ کا فیصلہ کیا۔ اس مطالعے اور تحقیق کے دوران یہ بات مجھ پر منکشف ہوئی کہ کیتھولک چرچ کی تاریخ میرے لیے بالکل قابل قبول نہیں۔ یہ سب انکشافات میرے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔ عیسائیت سے میرا ایمان اٹھ چکا تھا۔ اور کچھ عرصہ کے لیے میں خود کو برزخ میں محسوس کر رہی تھی۔ میرے ذہن میں عجیب طرح کے خیالات آنا شروع ہو گئے۔ اور میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ آخر مذہب کی ضرورت ہی کیوں ہے؟

جوں جوں میں اسلام کا مطالعہ کرتی رہی، اسلام سے میری دلچسپی بڑھتی ہی چلی گئی۔ کیتھولک چرچ کی تعلیمات میں ازلی گناہ کا تصور میرے لیے بالکل بھی قابل قبول نہ تھا مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسلام میں اس طرح کا کوئی تصور موجو د نہیں۔ میں خود کو اسلام کے بہت قریب محسوس کرنے لگی۔ تاہم جب میں نے اپنے والدین کو اپنے خیالات سے آگاہ کیا تو انہوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ سر پر حجاب پہننے کا تصور ان کے لیے سوہان روح تھا۔ اور یہ تھا بھی عجیب کا ایک ماڈل ایجنٹ کی بیٹی سر پر حجاب رکھنے جا رہی تھی۔ جب میں اکیس برس کی ہوئی تو میری ملاقات محمود سے ہوئی جو اب میرے شوہر ہیں۔ میرے باس اور ان کے دوست محمود کا خیال تھا کہ ہم خیال اور ہم مسلک لوگوں کے مابین شادی زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نے محمود سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔

نائن الیون کے بعد ہم دونوں لیکچر دینے کی غرض سے دورے پر روانہ ہو گئے۔ اس دوران میں اسلام کے بارے میں جاننے اور اس کی تعلیمات کو جاننے کا جنون مغرب میں پیدا ہو چکا تھا چنانچہ ہم نے ان کے اس جنون سے فائدہ اٹھایا اور ہر ہر جگہ لوگوں کو اسلام کی اصل تعلیمات سے آگاہ کیا۔ ہم دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت کیا کرتے تھے کہ مسلمان ہونے کا اصل مطلب کیا ہے؟ اور ایک مسلمان کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔ اس سفر میں میرے بیٹے کی عمر فقط تین ہفتے کی تھی اور بعض اوقات لیکچر کے دوران بھی مجھے اسے ساتھ رکھنا ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ جن باتوں اور جن چیزوں کے آپ خلاف ہیں صرف ان کا تذکرہ کر کے ہم اپنے آپ کو ٹھیک طور سے متعارف کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے بلکہ ہمیں لوگوں کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ مسلمان کا بنیادی مقصد اور نصب العین کیا ہے؟ مسلم کمیونٹی کس قدر متنوع ہے اور کس طرح اس کمیونٹی میں اپنی شناخت کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہم نے امید کے نام سے ایک میگزین جاری کیا جس میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسلمان دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی مانند بالکل نارمل ہوتے ہیں۔ اس میگزین کو توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی اور اب غیر مسلم بھی اسے خرید کر پڑھتے ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ اسلام اور عیسائیت کے پیروکاروں کے مابین سنجیدگی سے مکالمہ، تبادلہ خیال اور گفت و شنید کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں ایک ایسا ماحول تخلیق کرنا چاہیے کہ جہاں بچے آزادی کے ساتھ پروان چڑھ سکیں۔ وہ چاہیں تو اسلام قبول کریں چاہیں تو نہ۔ ایی ہی دنیا ہم سب کے لیے محفوظ ترین اور پرامن مقام ہو سکتا ہے۔ میں اب اسی کوشش میں مصروف ہوں۔

(بشکریہ ، ماہنامہ اللہ کی پکار ، نئی دہلی ، دسمبر ٢٠٠