ایمان اور عمل صالح

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
خاتم النبیینﷺ نے فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو اور یومِ آخرت یعنی روزِ قیامت کو حق مانو۔‘‘ ایمان کے اصل معنی کسی کے اعتبار اور اعتماد پر کسی بات کو سچ ماننے کے ہیں اور دین کی خاص اصطلاح میں ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے پیغمبر ایسی حقیقتوں کے متعلق جو ہمارے حواس اور آلات ادراک کی حدود سے ماورا ہیں جو کچھ بتائیں اور ہمارے پاس جو علم اور جو ہدایات اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائیں ‘ ہم ان کو سچ مان کر اس میں ان کی تصدیق کریں اور اس کو حق مان کر قبول کرلیں۔ بہرحال شرعی ایمان کا تقاضا اور تعلق اصولاً امورِ غیب ہی سے ہوتا ہے جن کو ہم اپنے آلات احساس و ادراک اور آنکھ ‘ ناک ‘ کان وغیرہ کے ذریعے معلوم نہیں کرسکتے۔ مثلاً اللہ اور اس کی صفات اور اس کے احکام اور رسولوں کی رسالت اور ان پر وحی کی آمد کے متعلق ان کی اطلاعات وغیرہم تو اس قسم کی جتنی باتیں اللہ کے رسول نے بیان فرمائیں‘ ان سب کو ان کی سچائی کے اعتماد پر حق جان کر ماننے کا نام اصطلاح شریعت میں ایمان ہے اور پیغمبر کی اس قسم کی کسی ایک بات کو نہ ماننا‘ یا اس کو حق نہ سمجھنا ہی اس کی تکذیب اور جھٹلانا ہے جو آدمی کو ایمان کے دائرے سے نکال کر کفر کی سرحد میں داخل کرادیتی ہے۔
چند سیدھے سادھے اصول جو تمام ذہنی سچائیوں اور واقعی حقیقتوں کا جوہر اور خلاصہ ہیں‘ ان کا نام عقیدہ اور ان پر یقین کرنے کا نام ایمان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صریح الفاظ میں ایمان کے صرف پانچ اُصول تلقین کیے۔ خدا پر ایمان‘ خدا کے فرشتوں پر ایمان‘ خدا کے رسولوں پر ایمان‘ خدا کی کتابوں پر ایمان اور اعمال کی جزا و سزا کے دن پر ایمان۔ یہی پانچ باتیں اسلام کے ایمانیات کے اصلی عناصر ہیں یعنی اللہ تعالیٰ پر اور اس کے تمام رسولوں پر‘ اس کی کتابوں پر‘ اس کے فرشتوں پر اور روزِ جزا پر ایمان لانا۔
سورہ نساء میں انہی عقائد کی تعلیم ہے :’’اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے ہو‘ ایمان لاؤ خدا پر اور اس کے رسول پر اور اس کی کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اُتاری اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے اُتاری اور جو شخص خدا کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور روز آخرت کا انکار کرے گا وہ سخت گمراہ ہوا۔‘‘
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ’’ایمان کا مزہ اس نے چکھا اور اس کی لذت اسے ملی جو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب اور اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رسول اور ہادی ماننے پر دل سے راضی ہوگیا۔ ‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایمان کی حلاوت اس کو نصیب ہوگی جس میں تین باتیں پائیں جائیں گی۔ ایک یہ کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت زیادہ ہو‘ اس کو تمام ماسوا سے ۔ دوسرے یہ کہ جس آدمی سے بھی اس کو محبت ہو‘ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہو اور تیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹنے سے اس کو اتنی نفرت اور ایسی اذیت ہو جیسی کہ آگ میں ڈالے جانے سے ہوتی ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب تم کو اپنے اچھے عمل سے مسرت ہو اور برے کام سے رنج و قلق ہو‘ تو تم مؤمن ہو۔‘‘مطلب یہ ہے کہ ایمان کے خاص آثار اور علامات میں یہ ہے کہ آدمی جب کوئی نیک عمل کرے تو اس کے دل کو فرحت و مسرت ہو اور جب اس سے کوئی برا کام سرزد ہو جائے تو اس کو رنج و غم ہو۔ جب تک آدمی کے ضمیر میں یہ حس باقی رہے ‘ سمجھنا چاہیے کہ ایمانی روح زندہ ہے اور یہ احساس اس کا ثمرہ ہے۔
تمام نیکیاں اور خوبیاں جس ایک جڑ کی شاخیں ہیں‘ وہ ایمان ہے اوراسی لیے وہ مذہب کا اصل الاصول ہے وہ نہ ہو تو انسانی نیکیوں کی ساری عمارت بے بنیاد ہے ۔ اس سے کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ ایمان کے بعد عمل کی ضرورت نہیں‘ اسلام نے اسی نقطہ کو بار بار ادا کیا ہے کہ نجات کا مدار ایمان اور عمل صالح دونوں پر ہے۔ اس لیے ’’اٰمنوا‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’وعملوا الصٰلحت ‘‘ پر بھی اس نے ہمیشہ زور دیا ہے بلکہ اوپر جوکچھ کہا گیا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ ان دونوں میں ایمان اصل اور عمل اس کی فرع ہے۔ ایمان ملزوم اعمال حسنہ اس کے خصوصیات اور لوازم ہیں۔ یعنی ان دونوں میں اصل اور فرع اور لازم و ملزوم کا تعلق ہے جو ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہوسکتے۔ اس لیے جس طرح ایمان کے بغیر عمل سرسبز نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح عمل کے بغیر ایمان ایک بے برگ و بار درخت ہے جو فائدے کے لحاظ سے عدم و وجود برابر ہے۔ اسی بناء پر جہاں ایمان ہے اس کے عملی نتائج و آثار کا وجود بھی ضروری ہے۔
غرض ایمان ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے۔ وہ ہماری سیرابی کا اصلی سرچشمہ ہے جس کے فقدان سے ہمارے کاموں کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں رہتی کیونکہ وہ دیکھنے میں تو کام معلوم ہوتے ہیں مگر روحانی اثر و فائدہ سے خالی اور بے نتیجہ ہوتے ہیں۔