یوم وفات علامہ ایثار القاسمی شہید رحمہ اللہ

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
10 جنوری علامہ ایثارالقاسمی شہید رحمہ اللہ کا یوم وفات ہے ،یوم وفات یا اس قسم کے دیگر ایام کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے البتہ اس کے ذریعے آج کے دور میں کسی شخصیت، واقعہ یا مسئلہ کے ساتھ عوامی وابستگی اور جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمہ اللہ کے بعدآپ اس قافلہ کے سالار تھے۔ وہ ایک ، مدبر راہنما، اور پرجوش قائد تھے۔ انہوں نے اپنے پرجوش قافلہ کی جرأت مندانہ راہنمائی کے ساتھ ساتھ اپنے موقف کی جس طرح علم و استدلال کے ساتھ عوامی اور علمی حلقوں میں ترجمانی کی ہے اسے ان کے امتیازی وصف کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
مولانا حق نواز شہیدؒ اور ان کے رفقاء ’’سپاہ صحابہ‘‘ کے نام سے سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مشن کو ملک گیر عوامی تحریک کی شکل دے دی۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کی توجہ کو رب ذوالجلال نےتحفظ ناموس صحابہؓ کی مبارک اور سعادت مندانہ جدوجہد کی طرف مبذول کیا تو وہ اس کی طرف مسلسل بڑھتے چلے گئے اور اپنے ہم ذوق دوستوں کا ایک قافلہ تشکیل دیا جس نے سپاہ صحابہؓ کے نام سے پورے ملک میں صحابہ کرامؓ کی ناموس و حرمت پر مر مٹنے کا جذبہ و نعرہ کی گونج پیدا کی اور قربانیوں اور شہادتوں کی لائن لگا دی۔ مولانا حق نواز جھنگویؒ اور ان کے رفقاء و کارکنوں کا جذبہ و خلوص اور ایثار و قربانی ہمیشہ شک و شبہ سے بالاتر رہے ہیں اور اپنے مشن کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ اور اس پر کٹ مرنے کے جذبہ کو ہم نے ہمیشہ خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
اہل السنہ والجماعہ کی اساس قرآن کریم کے بعد سنت رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کے تعامل پر ہے۔ اسی لیے وہ اہل السنہ والجماعہ کہلاتے ہیں۔ چنانچہ دین کی تعبیر و تشریح میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے اساسی مقام اور ان کے ناموس و حرمت کا تحفظ و دفاع ان کے فرائض کا حصہ ہے جس کے لیے مختلف حوالوں سے جدوجہد کا سلسلہ قرن اول سے جاری ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا ارشاد گرامی ہے کہ’’تم میں سے جو شخص کسی کی اقتداء کرنا چاہتا ہے تو اس کی اقتداء کرے جو فوت ہو چکا ہے اس لیے کہ زندہ شخص کسی وقت بھی فتنہ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ وہ اقتداء کے قابل لوگ اصحاب محمدؐ ہیں جو سب سے زیادہ نیک دل ہیں، گہرے علم والے ہیں، اور سب سے کم تکلف والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبیؐ کی صحبت و رفاقت کے لیے او راپنے دین کی امامت کے لیے چنا ہے، پس ان کے نقش قدم پر چلو او ران کے طریقوں کی پیروی کرو کیونکہ وہی ہدایت اور صراط مستقیم پر ہیں‘‘۔
حضرات صحابہ کرامؓ چونکہ قرآن و سنت کی صحیح تعبیر و تشریح کا معیار ہیں اس لیے ان کی حرمت و عدالت کو مجروح ہونے سے بچانا اور ان کی ثقاہت و صداقت کو شک و شبہ سے بالاتر سمجھنا بھی اس کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اور اسی وجہ سے ان کے ناموس اور عدالت کے دفاع و تحفظ کو اہل سنت نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں میں شمار کیا ہے۔ اسی بنا پر صحابہ کرامؓ کی توہین و تنقیص اور ان پر ایسی جرح و تنقید کو، جس سے ان کے ایمان و عدالت اور مقام صحابیت پر زد پڑتی ہو، ہمیشہ گمراہی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ امام ابو زرعہ رازیؒ کا کہنا ہے کہ’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کی توہین و تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرامؓ قرآن کریم کے نزول اور جناب رسول اللہؐ کی سنتوں کے گواہ ہیں اور گواہوں کو مجروح کرنے والے دراصل دین کا اعتماد ختم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
اسی پاکیزہ جماعت کا ایک محافظ ،ایک پہریدار علامہ ایثار القاسمی اکتوبر 1964 میں چک484 گ ب تحصیل سمندری فیصل آباد میں پیدا ہوئے .آپ کے والد کا نام رانا عبد المجید تھا جو راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔1972 میں جب آپ کی عمر 8 سال تھی آپ کے والد سمندری سے ترک سکونت اختیار کرکے لاہور منتقل ہو گئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم لاہور کے ایک انگریزی میڈیم اسکول سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کو جامعہ اسلامیہ گلبرگ لاہور میں داخل کرایا گیا۔ جہاں سے آپ نے حفظ قرآن اور تجوید کی سند حاصل کی۔ بعد ازاں آپ نے دار العلوم حنفیہ اور جامعہ عثمانیہ سے مزید دینی تعلیم حاصل کی جہاں آپ نے مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد مولانا عبد العلیم قاسمی سے درس نظامی مکمل کیا۔ درس نظامی مکمل کرنے کے بعد آپ لاہور کے ہی ایک مدرسہ مخزن العلوم میں قرآن مجید اور درس نظامی کی تدریس سے وابستہ رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسجد دارالاسلام میں خطابت کے فرائض بھی انجام دیے۔بعد ازاں آپ اوکاڑہ منتقل ہوئے اور صدیق نگر کی مسجد صدیقیہ کی امامت سنبھالی۔ کچھ عرصہ یہاں خدمات انجام دینے کے بعد جامع مسجد انواریہ نزد ریلوے اسٹیشن کے خطیب مقرر ہوئے .1988 میں تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ کے نواح میں آباد اایک معزز راجپوت خاندان میں آپ کی شادی ہوئی۔ سیاسی مذہبی معاملات کے گہری نظر رکھنے کے باعث آپ نے جلد ہی اوکاڑہ کے سیاسی ومذہبی حلقوں میں اہمیت حاصل کرلی۔
ساہیوال میں منعقد ایک جلسے میں آپ کی ملاقات مولانا حق نواز جھنگوی رحمہ اللہ سے ہوئی جس کے بعد آپ نے اپنی زندگی کو ناموس صحابہ کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا اور سپاہ صحابہ میں شمولیت اختیار کی۔ یہیں آپ کو پہلی بار پابند سلاسل کیا گیا اور کئی روز آپ نے ساہیوا ل جیل میں گزارے .22 فروری کو مولانا حق نواز جھنگوی کے شہید ہونے کے بعد سپاہ صحابہ کے سرپرست اعلی مولانا ضیاءالرحمن فاروقی نے آپ کو سپاہ صحابہ کا امیر مقرر کیا۔اکتوبر 1990 میں ہونے والے عام انتخابات میں آپ نے مولانا سمیع الحق رحمہ اللہ کے اصرار پر آپ نے اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کے حلقہ68 اور صوبائی حلقہ65 پر انتخابات میں حصہ لیا۔ آپ نے 61000 ووٹ لے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔31 دسمبر 1990 میں آپ نے پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کیا۔ جس میں آپ نے، صدر پاکستان کی تقریر، نفاذ شریعت، پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت کا جائزہ، اسلامی جمہوری اتحاد کی نئی قائم شدہ حکومت کے فرائض، بے روزگاری کے تدارک کے علاوہ ایک پڑوسی ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت جیسے حساس معاملات پر روشنی ڈالی۔
10 جنوری 1991 کو آپ اپنی خالی کی ہوئی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر پولنگ اسٹیشنوں کے دورے پر تھے کہ بستی گھوگیاں والی ضلع جھنگ کے پولنگ اسٹیشن پر شقی القلب دہشت گردوں نے آپ کو گولیوں کا نشانہ بنا کرشہیدکر دیا۔آپ تحفظ ناموس صحابہؓ اور اہل سنت کے عقائد و حقوق کے دفاع کے محاذ کے ایک اہم راہنما تھے جن کی پوری زندگی اسی مشن میں گزری اور بالآخر حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس کے تحفظ کی جنگ لڑتے ہوئے انہوں نے اپنے پیش رو مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمہ اللہ کی طرح جام شہادت نوش کر لیا۔ آپ کی نمازجنازہ 11 جنوری 1991 بروز جمعہ المبارک شفقت شہید گراونڈ میں مولانا پیرذو الفقار احمد نقشبندی نے پڑھائی۔ آپ جامعہ محمودیہ جھنگ میں مولانا حق نواز جھنگوی رحمہ اللہ کے پہلو میں محو استراحت ہوئے ۔آپ مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے قافلے کے مشن کو جاری رکھنے والے راہنماؤں میں سے تھے۔ اس قافلے نے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور ناموس صحابہؓ کے تحفظ کے عنوان سے شہادتوں کی لائن لگا دی ہے۔ ان کے طریقہ کار سےکسی کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا خلوص اور استقامت ہمیشہ مسلمہ رہی ہے۔پاکیزہ اور مبارک جماعت کی ناموس کی خاطر قربان ہونے والے محسنوں اور مجاہدوں کو یاد رکھنا قوموں کی زندگی کی علامت ہوتا ہے اور اس سے نئی نسل کو راہنمائی بھی ملتی ہے۔ اللہ تعالٰی ان کی قربانیاں قبول فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔