فضائل و مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ
سیدنا حضرت علی المرتضی کے فضائل و مناقب اور کردار و کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے ایک روایت کے مطابق اندرون خانہ کعبہ چھٹی صدی عیسوی میں پیدا ہوئے۔ بعض اقوال کے مطابق حضرت علیؓ کی ولادت مکہ شریف میں عام الفیل کے سات سال بعد ہوئی ۔ بعض سیرت نگار لکھتے ہیں کہ نبی اکرم کی ولادت کے تیس سال بعد حضرت علی ؓ پیدا ہوئے ۔ حضورنبی اکرم نے حضرت علیؓ کو اپنی کفالت میں لے لیا تھا ۔ اس طرح حضرت علیؓکو رسول اکرم کی آغوش محبت میں تعلیم و تربیت نصیب ہوئی ۔ اس بنا ءپرحضرت علیؓابتدائی طور پر امورخیر کی طرف راغب اور بت پرستی جیسی جاہلانہ رسوم سےاجتناب کرتے تھے۔ دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بتوں کی پوجا کبھی نہیں کی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھ سے پہلے کسی نے خدا کی عبادت نہیں کی۔آپؓکا نام علی، لقب حیدر و مرتضٰی، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ۔آپؓکا نسب حضور کے بہت قریب ہے، آپؓکے والد ابو طالب اور حضور کے والد ماجد حضرت عبد اللہ دونوں بھائی بھائی ہیں، آپؓکی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں، ماں باپ دونوں طرف سے آپ ہاشمی ہیں۔ سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ میں ہاشمی سرداروں کی تمام خصوصیات موجود اور چہرے سے عیاں تھیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے ۔ یہ خاندان حرم کعبہ کی خدمات ، سقایہ زمزم کے انتظامات کی نگرانی اور حجاج کرام کے ساتھ تعاون و امداد کے لحاظ میں مکہ کا ممتاز خاندان تھا ۔ علاوہ ازیں بنی ہاشم کو سب سے بڑا شرف اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے نصیب ہوا وہ نبی آخرالزمان ، سرور عالم ﷺکی بعثت ہے جو دوسرے تمام اعزازات بلند تر ہے ۔ حضرت علیؓکے والد ابو طالب اور والدہ فاطمہ دونوں ہاشمی تھے۔ اس طرح حضرت علی نجیب الطرفین ہاشمی پیدا ہوئے ۔فاطمہ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ہجرت مدینہ کا شرف بھی حاصل کیا ۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں وفات پائی ۔ خاتم النبیین حضورنبی کریمﷺ خود ان کے کفن دفن کے انتظامات فرمائے تھے اور اپنا قمیص مبارک ان کے کفن میں شامل فرمایا اور قبر کے تیار ہونے پر پہلے خود اس میں داخل ہوئے اور اسے متبرک فرمایا ۔ حضور نبی پاک نے مرحومہ کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ ابوطالب کے بعد میری نگہداشت اور ضروریات پورا کرنے میں ان کی بہت بڑی خدمات ہیں اور میں نے ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ ان پر قبر کے شدائد آسان ہوں ً۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی اورنسبی تعلق، ایک عمر کی رفاقت اور روز مرہ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی وجہ سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو آپ کے مزاج افتاد طبع سے اور ذات نبوی کی خاص صفات و کمالات سے گہری مناسبت ہوگئی تھی، جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا تھا، وہ آپ کے میلان طبع اور مزاج کے رخ کو بہت باریک بینی اور چھوٹی بڑی باتوں کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے، جن کا آپ کے رجحان پر اثر پڑتا ہے، یہی نہیں بلکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو ان کے بیان کرنے اور ایک ایک گوشہ کواجاگر کرکے بتانے میں مہارت تھی، آپ نے خاتم الانبیاءرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و رجحان اور طریق تامّل کو بہت ہی بلیغ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔“
حضور نبی کریم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے وقت حضرت علیؓکی عمر تیئیس سال تھی ۔ سرور کائنات نے مشرکین مکہ کے محاصرے اور ان کے برے ارادوں کی اطلاع پا کر حضرت علی مرتضی کو اپنے بستر پر استراحت کرنے کا حکم دیا اور مکہ کے لوگوں کی امانتیں جو حضور نبی پاک کے پاس رکھی گئی تھیں ،ان کے مالکوں کے سپرد کردینے کی ہدایت فرمائی ۔ اس شدید خطرے کی حالت میں حضرت علیؓحضور نبی کریم کے بستر پر سکون و اطمینان کے ساتھ محو خواب ہو گئے ۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے رہے کہ حضور نبی پاک ہی اپنے بستر پر موجود ہیں ۔ وہ علی الصبح اپنے ناپاک ارادہ کی تکمیل کے لئے اندر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضور نبی کرﷺیم کی جگہ آپکا ایک جاں نثار اپنے آقا پر قربان ہونے کے لئے موجود ہے ۔ درآں حالیکہ حضور نبی کریم ﷺ،حضرت ابوبکر صدیقؓکو ساتھ لے کر رات کے وقت ہی مدینہ منورہ جانے کے لئے نکل چکے تھے ۔ مشرکین اپنی اس غفلت کی بنا پر ایک دوسرے پر برہم ہوتے رہے اور حضرت علیؓکو چھوڑ کر اپنے اصل مقصود کی تلاش میں روانہ ہوگئے ۔حضرت علیؓنبی اکرم کے مکہ سے تشریف لے جانے کے بعد دو یا تین دن مکہ میں رہے اورخاتم النبیین حضورنبی پاک کی ہدایت کے مطابق لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کرکے اور لین دین کے معاملات سے فراغت حاصل کرکے تیسرے یا چوتھے دن عازم مدینہ منورہ ہوئے ۔
خاتم النبیین حضورکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ان کے اعزاز کو بلند کیا کہ ”علی تم اسے پسند نہیں کرتے کہ میرے نزدیک تمہارا وہ مقام اور درجہ ہو جو ہارون کا موسیٰ کے نزدیک تھا۔ حضرت علی کی اہمیت حضورکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم اہم اور مشکل ترین امور کی انجام دہی کے لیے حضرت علی کو مامور فرماتے۔ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے، دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر لحاظ سے حضور کی فرماں برداری اور اطاعت کرتے رہے۔ اسی جاں نثاری کو دیکھ کر حضور نے ایک خطبہ میں فرمایا کہ: ”جو علی کا دشمن ہے وہ میرا بھی دشمن ہے اور جو علی کا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں جو لوگ اعلیٰ درجہ کے فصیح و بلیغ اور اعلیٰ درجہ کے خطیب اور شجاعت و بہاد ری میں سب سے فائق مانے جاتے تھے ان میں آپؓکا مقام و مرتبہ بہت نمایاں تھا۔خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰی میدانِ جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہدِ شب بیدار تھے، مفتی و قاضی اور علم و عرفان کے سمندر تھے، عزم و حوصلہ میں ضرب المثل، خطابت و ذہانت میں بے مثل، حضور کے چچا زاد بھائی اور داماد،، سخی و فیاض، دوسروں کا دکھ باٹنے والے، عابد و پرہیز گار، مجاہد و جانباز ایسے تھے کہ نہ دنیا کو ترک کیا نہ آخرت سے کنارہ کشی فرمائی، نہایت سادہ زندگی گزاری، غلاموں کو آزاد کرتے، کھیتی کی دیکھ بھال کرتے، کنویں سے پانی نکالتے، اپنے دور خلافت میں بازاروں کا چکر لگا کر قیمتوں کی نگرانی فرماتے، گداگری سے لوگوں کو روکتے تھے۔ جب نماز کا وقت آتا تو آپؓکے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ ”اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے“۔ آپؓمیں عجز و انکساری نمایاں تھی، اپنے عہدِ خلافت میں بازاروں میں تشریف لے جاتے وہاں جو لوگ راستہ بھولے ہوئے ہوتے انہیں راستہ بتاتے، بوجھ اٹھانے والوں کی مدد کرتے، تقویٰ اور خشیت الٰہی آپؓمیں بہت زیادہ تھی۔ ایک بار آپؓایک قبرستان میں بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا کہ! اے ابو الحسن آپؓیہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ فرمایا میں ان لوگوں کو بہت اچھا ہم نشین پاتا ہوں یہ کسی کی بدگوئی نہیں کرتے اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپؓقبرستان میں تشریف لے گئے اور وہاں پہنچ کر قبر والوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا!اے قبر والو! اے بوسیدگی والو! اے وحشت و تنہائی والو! کہو کیا خبر ہے کیا حال ہے، ہماری خبر تو یہ ہے کہ تمہارے جانے کے بعد مال تقسیم کر لیے گے اور اولادیں یتیم ہو گئیں بیویوں نے دوسرے شوہر کر لیےیہ تو ہماری خبر ہے، تم بھی اپنی خبر سناؤ! اس وقت کمیل نامی شخص آپؓکے ہمراہ تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت علیؓنے فرمایا کہ! اے کمیل اگر ان (مُردوں) کو بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ جواب دیتے کہ بہترین سامانِ آخرت پرہیز گاری ہے، اس کے بعد حضرت علیؓرونے لگے اور فرمایا اے کمیل قبر اعمال کا صندوق ہے اور موت کے وقت یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ ایک موقعہ پر حضور نے فرمایا کہ ”علیؓسب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں“۔ سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے، ہر معرکہ میں سیدنا حضرت علیؓنے اپنی شجاعت و بہادری اور فداکاری کا لوہا منوایا۔ بدر و احد، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرات و بہادری کے خوب جوہر دکھائےاور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ سوم کے زمانےتک حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اہم کارنامے اور خدمات انجام دیں اور جنگی معرکے سرکیے۔
سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ ہی وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کو حضور نے جنگ خیبر کے موقعہ پر فتح کا جھنڈا عنایت فرمایا ۔حضرت سہیل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ حضور نے جنگ خیبر کے دن فرمایا کہ کل یہ جھنڈا میں ایسے شخص کو دونگا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا، وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو گا۔ پھر جب صبح ہوئی تو لوگ حضور کے پاس گئے، سب لوگ اس بات کی امید (اور خواہش) رکھتے تھے کہ جھنڈا ان کو دیا جائے مگر آپ نے پوچھا کہ علی ابن ابی طالبؓ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ان کی آنکھیں آشوب کی ہوئی ہیں، آپ نے فرمایا کہ ان کو بلواؤ…. وہ (حضرت علیؓ) لائے گئے، حضور نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ اچھے ہو گئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں، پھر آپ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا (صحیح بخاری و مسلم)
کاتبان وحی میں حضرت علیؓکا نام بھی شامل ہے ۔ نبی اکرم کی طرف سے بعض مکاتیب و فرامین حضرت علیؓکے دست مبارک سے لکھے ہوئے تھے۔ حدیبیہ کا صلح نامہ بھی حضرت علیؓ نے لکھا تھا ۔ صلح نامہ کے شروع میں انہوں نے لکھا کہ یہ صلح نامہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مکہ کے قریش کے درمیان طے پایا ہے ۔ اس پر قریش مکہ کے نمائندے نے اعتراض کیا کہ ہم تو محمدکو اللہ کا رسول نہیں مانتے تو حضور نبی کریمنے حضرت علیؓسے فرمایا کہ آپ رسول اللہ کے الفاظ کاٹ دیں ۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ان الفاظ کو میں تو اپنے ہاتھ سے نہیں مٹاسکتا(کیونکہ یہ حقیقت پر مبنی ہیں)اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے ان الفاظ کو کاٹ دیا ۔
قرآن وسنت او رفقہ واجتہاد میں گہری بصیرت کی بناءپر حضرت علیؓمنصب قضاءکے لئے بہت زیادہ موزوں تھے۔ حضرت عمرؓفرمایا کرتے تھے کہ ”ہم میں سے مقدمات کے فیصلے کے لئے سب سے موزوں حضرت علیؓ ہیں۔“حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے فرمایا :”ہم (صحابہ ؓ)کہا کرتے تھے کہ مدینہ والوں میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والے حضرت علیؓ ہیں۔حضورنبی کریم نے یمن کے قاضی کے طورپر حضرت علیؓکو مقرر فرمایا تھا ۔ ان کے حق میں دعا بھی کی اور قضاءکے بنیادی اصول کی تعلیم بھی دی ۔ حضورنبی کریمنے انہیں فرمایاتھا:”علی!جب تم دوآدمیوں کا جھگڑا چکانے لگو تو صرف ایک آدمی کا بیان سن کر فیصلہ نہ کرو۔ اس وقت تک اپنے فیصلے کو روکو جب تک دوسرے کا بیان بھی نہ سن لو۔“
خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓنے بھی حضرت علیؓکو مدینہ کا قاضی مقرر فرمایاتھا۔ حضرت علیؓ نے ماہر ، عادل اور قابل قاضی کے طور پر اپنے فرائض ادا کئے تھے۔خلافت راشدہ کے زمانہ میں حضرت علیؓخلیفہ اول ابوبکرصدیقؓاور خلیفہ دوم حضرت عمرؓاور خلیفہ سوم حضرت عثمان ؓکے مشیر رہے تھے ۔ حضرت علیؓکو مجلس شوریٰ میں شامل رکھا گیاتھا۔ حضرت عمرؓکو جب کوئی مشکل معاملہ پیش آجاتا تو حضرت علیؓسے مشورہ کرتے تھے ۔ ”انہوں نے فرمایا تھااگر علیؓنہ ہوتے تو عمرؓہلاک ہوجاتا۔“
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زرہ اسی جنگ میں گم ہوگئی اوراسے ایک یہودی کے ہاتھ میں دیکھی گئی، یہاں تک کہ یہ معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا، قاضی نے امیر المومنین سے گواہ طلب کیا، علی نے حضرت حسن اور غلام قنبر کو گواہی کے لیے پیش کیا مگر قاضی نے دونوں کی گواہی کو رد کردتے ہوئے فیصلہ یہودی کے حق میں کردیا۔
اس واقعہ سے جو درس ملتا ہے وہ اسلامی تعلیم کا شاہکار ہے جو حضرت علی کے ذریعہ ظہور ہوا۔ وہ خود قاضی کے پاس آئے اور ان کے فیصلہ پر عمل کیا جو اخلاق و کردار کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس سے متاثر ہوکر یہودی نے نہ صرف زرہ واپس کردی بلکہ کلمہ شہادت پڑھ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوگیا، مگر پھر حضرت علی نے زرہ اسے واپس کردی اور یہ شخص ہمیشہ آپ کے ساتھ رہا اور صفین کے موقع پر شہید ہوا۔”حضرت علی کوئی انتظامی امور کے حاکم اعلیٰ یا اس طرح کے عرفی خلیفہ نہیں تھے، جیسے اموی و عباسی خلیفہ تھے، بلکہ وہ شیخین (حضرت ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما) کے انداز و نہج کے خلیفۃ المسلمین تھے۔
پہلا نکاح حضرت علی کا حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔ حضرت فاطمہ کی حیات تک کسی اور سے حضرت علی نے نکاح نہیں کیا۔ حضرت فاطمہ کے بطن سے حضرت علی کے تین بیٹے: حسن، حسین اور بعض نے کہا: محسن بھی، اور دو بیٹی: زینب کبریٰ، ام کلثوم کبریٰ پیدا ہوئیں۔ محسن بچپن میں انتقال کرگئے۔ ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر بن الخطاب کے ساتھ ہوا۔
دوسری بیوی: ام البنین بنت حزام تھیں۔ ان سے عباس، جعفر ، عبداللہ ، عثمان ۔ حضرت عباس کے سوا یہ سب کربلا میں شہید ہوگئے تھے۔تیسری بیوی: لیلیٰ بنت مسعود ، ان سے عبید اللہ ، ابوبکر پیدا ہوئے۔ یہ دونوں بھی کربلا میں شہید ہوگئے تھے۔چوتھی بیوی: اسماء بنت عُمیش ، ان سے یحییٰ ، محمد اصغر ، بعض نے محمد اصغر کی جگہ عون لکھا ہے، پیدا ہوئے۔پانچویں بیوی: ام حبیب بنت ربیعہ ، ان سے عمر اور رقیہ پیدا ہوئے۔چھٹی بیوی: ام سعید بنت عروہ بن مسعود، ان سے دو لڑکیاں ام الحسن اور رملہ کبریٰ پیدا ہوئیں۔ساتویں: بنت امریٴ القیس ، ان سے صرف ایک لڑکی پیدا ہوئی۔آٹھویں: اُمامہ بنت ابی العاص بن الربیع، ان سے محمد اوسط پیدا ہوئے۔اور خولہ بنت جعفر بن قیس ، سے محمد بن الحنفیہ پیدا ہوئے۔اور بہت سی باندیاں تھیں جن سے یہ لڑکیاں پیدا ہوئیں: ام ہانی، میمونہ ، زینب صغریٰ ، رملہ صغریٰ ، ام کلثوم صغریٰ ، فاطمہ، امامہ ، خدیجہ ، ام الکرام ، ام سلمہ ، ام جعفر ، جمانہ ، نفیسہ ۔ غرض حضرت علی کے کل ۱۴/ لڑکے اور ۱۷/ لڑکیاں تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ ان میں سے پانچ سے سلسلہٴ نسل جاری رہا۔ اور وہ پانچ یہ ہیں: حضرت حسن، حضرت حسین، محمد بن الحنفیہ ، عباس ، عمر۔ (البدایہ والنہایہ: ۱۱/ ۲۵تا ۲۷اور تاریخ اسلام: شاہ معین الدین ندوی، ص: ۳۲۸)۔
صحیح روایت کے مطابق خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ تین ماہ کم پانچ سال تک تختِ خلافت پر متمکن رہےاور کوفہ کی جامع مسجد میں چالیس ہجری سترہ رمضان بروز جمعۃ المبارک نماز فجر کے وقت عبد الرحمن ابن ملجم نے قاتلانہ حملہ کیا۔قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے سر پر زہر بجھی تلوار سے وار کرکے زخمی کردیا، زخمی ہونے پر آپ کے لبوں پر جو پہلی صدا آئی وہ تھی کہ ’’ربِ کعبہ کی قسم آج علی کامیاب ہوگیا۔دو روز تک حضرت علیؓ بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخرکار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ انیس رمضان المبارک کو شہید ہو گئے۔ کفن دفن حضرت حسن، حسین، حنیفہ اور عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم نے کیا اور باقی لوگ بھی ساتھ تھے۔جنازہ حضرت حسن بن علی بن ابی طالب نے پڑھایا اور آپ رضی اللہ عنہ کو گورنر ہاؤس کے پاس کوفہ میں ہی دفن کیا گیا لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کو خفیہ رکھا گیا کیونکہ خارجیوں کے بے حرمتی کرنے کا ڈر تھا۔(حافظ ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ، 7 : 330، 331، مکتبۃ المعارف بیروت)