سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل ومناقب

سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل ومناقب
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
خاتم النبیین نبی کریمﷺ کے خانوادۂ عالیہ کے ہر فرد کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے فضائل وکمالات کا جامع بنایا اور بے شمار خصائص سےنوازحضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو حضور اکرمﷺ کی ذات اقدس سے خصوصی تعلق ہے،انہیں اہل بیت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے اور وہ صحابیت کے شرف سے بھی مشرف ہیں،اسی وابستگی وتعلق کے سبب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں حق وصداقت کا پیکر بنایا،وہ گفتار وکردار کے پاکیزہ ہیں اور ان کا ہر طریقۂ کار بے مثل وبے مثال اور امت کے لئے عمدہ نمونہ ہے،ان کی تابناک زندگی امت کے لئے مشعل راہ ہے۔سیدناحضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اور خاتون جنت سیدتنا فاطمۃ الزھراء کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ آپؓ کی ولادت باسعادت 15/ رمضان المبارک 3/ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ رسول اﷲ ﷺ نے آپ کا نام ’’حسنؓ‘‘ رکھا اور کنیت ’’ابومحمد‘‘ تجویز فرمائی ۔ ساتویں دن آپؓ کا عقیقہ کیا گیا ۔ آپؓ نبی اکرم ﷺ کے چہیتے نواسے ہیں۔ امام بخاری نے حضرت انس سے روایت کی آپؓ نے کہا کہ کوئی بھی نبی کریم ﷺ سے حسن بن علی ؓسے زیادہ مشابہ نہیں تھا۔( تاریخ الخلفاء،ج:1،ص:76)ایک حدیث مبارکہ میں ہے جوحضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے بڑے شہزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کانام مبارک حمزہ اور سید نا حسین رضی اللہ عنہ کا نام مبارک ان کے چچا حضرت جعفر کے نام پر رکھا،پھر حضو راکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کا نام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رکھا۔ (معجم کبیر طبرانی ، حد یث نمبر:2713)اورحسن اور حسین یہ دونوں نام اہل جنت کے اسماء سے ہیں اور قبل اسلام عرب نے یہ دونوں نام نہ رکھے۔ ( تاریخ الخلفاء،ج:1 ص:76)چشمِ فلک نے روئے زمین پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے خلقت اور اخلاق میں جگر گوشۂ شہزادی کونین سیدنا امام حسنِ مجتبیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے زیادہ مشابہ کسی فردبشر کو نہیں دیکھا ۔ آپؓ کا پرنور چہرہ پر جلال قد و قامت جمالِ نبوت کی یاد تازہ کردیتی ۔ آپؓ کی پرہیبت و پروقار مجلس ، بارگاہ رسالت کا حسین نظارہ پیش کرتی ۔ آپؓ کے قدسی صفات ، صفاتِ نبوت کے آئینہ دار ہیں ۔ حضرات صحابہ کرام بالخصوص شیخین کریمین سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور سیدنا عمر فاروق ؓ نیز سیدنا عثمان غنی ؓ اور سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے حددرجہ آپؓ کا احترام کیا ۔ بلاشبہ آپؓ کی محبت ایمان کا حصہ ہے ۔ حسنین کریمین کی محبت کے بغیر محبتِ رسول ؐ کا تصور ہی نہیں ۔خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراءرضی اللہ تعالی عنہاسے روایت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !یہ آپ کے شہزادے ہیں، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں! تو حضور اکرم ﷺ نےارشاد فرمایا : حسن میری ہیبت و سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات و سخاوت کا ۔(معجم کبیر طبرانی) صحیح بخاری میں ہےکہ جب خاتم الانبیاء جناب نبی کریم ﷺ منبر شریف پر رونق افروز ہوئے،آپ کے پہلو مبارک میں حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ تھے،حضور اکرم ﷺ کبھی لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے اور کبھی آپ کی طرف متوجہ ہوتے ، آپ نے ارشاد فرمایا:میرا یہ بیٹا سردار ہے،یقینا اللہ تعالی اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح فرمائے گا۔
حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انھوں نے کہا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے حسن و حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے بارے میں فرمایا وہ دونوں میرے پھول ہیں۔ ( بخاری )حضرت امام حسنؓ وہ پھول اور خوشبو ہیں جسکی خوشبو اس وقت سے چلی آرہی ہے اور پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے اور قیامت تک پھیلتی ہی جائے گی یہ وہ خوشبو ہے جس سے عظیم ہستیاں اس نسل سے پیدا ہونگی یعنی وہ عظیم ہستیاں امام حسنؓکی نسل سے پیدا حضرت امام حسنؓجو شبہیہ مصطفیٰﷺہیں جو سیرت مصطفیٰ ﷺ اور صورت مصطفیٰﷺ کا مجموعہ ہیں ان کی نسل بھی انہی صورتوںاور سیرتوں کا حامل رہی ہے۔
حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں: (اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ)اے میرے رب میں اپنے نواسے سے محبت کرتا ہوںمیر رب تو بھی اس سے محبت کر۔حضورﷺ آگے ارشاد فرمارہے ہیں (وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ) اے اللہ تعالیٰ تو اس سے بھی محبت کر جو حضرت حسنؓ سے محبت کرتا ہے۔یعنی محبت کا یہ معاملہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ حضورﷺ کے امتیوں کی محبت کا مرکز نگاہ بننا چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔(ابن ماجہ)حضرت عقبہ بن الحارث روایت کرتےہیںکہ میں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو دیکھا انہوں نے حضرت امام حسن ؓکو اٹھایا ہوا تھا۔حضورﷺ ایک عمل کریں اور حضرت ابوبکرصدیق نہ کریں تویہ محبت تو نہ ہوئی،محبت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ حضورﷺ جیسا عمل اختیار کریں حضرت ابو بکرؓ بھی ویسا ہی طرز عمل اختیار کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضورﷺ تو حضرت امام حسن ؓ کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں اورحضرت ابو بکر نہ اٹھائیں ۔حضرت ابن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکرؓکو دیکھا کہ امام کو اٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ حضرت حسن ؓپر قربان ہو جائیںحضرت امام حسن تو حضورﷺ سے مشاہبت رکھتے ہیں یہ حضرت علیؓ سے مشاہبت نہیں رکھتےاور حضرت علیؓ ساتھ کھڑے ہیں یہ سن ک رمسکرانے لگے۔ذرا غور فرمائیںکہ کیسے تعلقات ہیں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے اہل بیت سے کتنی محبت ہےاب اگر کو ئی یہ کہے کہ حضرت ابوبکرؓکو حسنؓ سے محبت نہیں تھی تو وہ کتنا بڑا جھوٹا ہے۔
امام ترمذی نے ابوسعید خدریؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : حسن اور اور حسین نوجوان جنتیوں کے سردار ہیں۔امام حسن رضی اﷲ عنہ کی ابتدائی زندگی اپنے نانا جان اور والدین کے سایۂ عاطفت میں گزری ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد میں حضرت امام حسنؓ کی صغرسنی کا زمانہ تھا اور حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حددرجہ اہلبیت اطہار کا لحاظ فرماتے ۔حضرت عمرفاروق نے اپنے عہدخلاف میں دیوان ( دفتر) اور بیت المال کو قائم فرمایا اور مسلمانوں کے لئے علی قدر مراتب سالانہ وظیفے مقرر کئے ۔ جنگ بدر میں شریک صحابہ کرام کو سب سے زیادہ وظیفے مقرر ہوئے ۔سیدنا حضرت امام حسنؓ اورسیدنا حضرت امام حسینؓ اگرچہ جنگ بدر کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تاہم حضرت عمرؓ کے عہد میں آپ دونوں بھی جنگ بدر میں شریک صحابہ کرام کے برابر پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ پاتے تھے جبکہ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نیز امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا وظیفہ بھی اتنا ہی تھا ۔ اس دیوان میں پہلا نام حضرت عباسؓ کا تھا ، دوسرا حضرت علی مرتضیٰؓ اور تیسرا حضرت حسن مجتبیٰ ؓ کا۔ ( البلاذری: فتوح البلدان ، ذکرالعطاء فی خلافۃ عمر بن الخطاب ؓ )حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا برتاؤ بھی حضرت حسنؓ کے ساتھ شفقت آمیز تھا ۔ ان کے عہد میں آپؓ جوان ہوچکے تھے اس لئے جہاد میں شریک ہوئے ۔ چنانچہ 30ہجری میں حضرت سعید بن العاس کی سرکردگی میں طبرستان پر فوج کشی ہوئی تو حضرت حسنؓ نے بھی اس میں حصہ لیا۔جب حضرت عثمانؓ کے خلاف فتنے کا طوفان اُٹھا تو حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لئے متعین کردیا ۔ اس حفاظت میں حضرت حسنؓ زخمی بھی ہوئے، باغی اس دروازے سے داخل نہ ہوسکے جہاں حضرت حسنؓ کا پہرہ تھا۔ تاہم وہ ایک دوسری دیوار پھاندکر داخل ہوئے اور حضرت عثمانؓ کو بہ حالت تلاوتِ قرآن پاک شہید کردیا گیا۔ (السیوطی: تاریخ الخلفاء)
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کے بعد ہی جنگ جمل پیش آئی ۔ حضرت علی مرتضیٰؓ نے حضرت امام حسنؓ کو کوفہ روانہ کیا تاکہ امداد کے لئے لوگوں کو آمادہ کریں۔ چنانچہ امام حسنؓ نو ہزار چھ سو پچاس کوفیوں کو لیکر اس مقام پہنچے جہاں حضرت علیؓ مقیم تھے ۔ معرکۂ صفین میں آپ سالار میمنہ تھے ۔ اس معرکہ میں حضرت علی مرتضیٰ کے دونوں صاحبزادے شریک ہوئے ۔رمضان ۴۰ ھ ؁ میں حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی شہادت ہوئی ۔ حضرت علیؓ کی تجہیز و تدفین سے فراغت کے بعد کوفے کی جامع مسجد میں حضرت حسنؓ کے لئے بیعت خلافت ہوئی ۔ بیعت کے چار ماہ بعد حضرت حسنؓ اور حضرت امیر معاویہؓ اپنے اپنے لشکر کے ساتھ جنگ کے لئے نکلے ، بعد ازاں نانا جان کی اُمت کا خون بچانے کی خاطرسیدنا حضرت امام حسنؓ نے صلح کی پیشکش کی ورنہ آپ کے لشکر جرار سے مقابلہ کرنا آساں نہ تھا۔ اس طرح نبی اکرم ﷺ کی پیشن گوئی صادق ہوئی اور دو مسلم جماعتوں میں اصلاح ہوئی اور اس سال کی ’’ عام الجماعۃ ‘‘ سے شہرت ہوئی ۔
حضرت اعمش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ آپ نے فرمایا کہ ایک بدبخت شخص نے سید نا امام حسن رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر بدبختی سے بول وبراز کیا تو وہ اسی وقت پاگل اور مجنون ہوگیا اور مرتے دم تک کتوں کی طرح بھونکتا رہا ، پھر مرنے کے بعداس کی قبرسے بھیانک آواز سے کُتا بھونکنے کی آواز سنائی دیتی۔(تاریخ دمشق لابن عساکر ،ج 13، ص305 ،الحسن بن علی،جامع کرامات الاولیاء ،ج1،ص 131) یہ واقعہ امت مسلمہ کے لئے بڑی عبرت کا باعث اور نصیحت کا ذریعہ ہے ، اللہ تعالی ہم سب کو صحابہ واہل بیت ادب واحترام ملحوظ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔حضرت عمیر بن اسحق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے ‘آپ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھے ،آپ حمام میںگئے پھر تشریف لاکرفرمایا: مجھے کئی باردھوکہ سے زہر پلایا گیا مگر اس بارکی طرح شدید نہیں ،اسکا اثر ہے کہ میں نے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا تھو کا ہے، حیرت میں لکڑی سے اسکو الٹاتا،پلٹاتارہا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :بھائی جان!آپ کو کس نے زہر دیا؟سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا:آپ کیا چاہتے ہیں؟کیااُسے قتل کردوگے ؟ سیدناحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں!آپ نے فرمایا:میں جس کو مجرم سمجھتاہوں اگر وہی ہے تو اللہ تعالی بہت سخت سزادینے والاہے،اور اگر کوئی دوسرا شخص ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے بے گناہ کو سزادی جائے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، باب الافراد فی الحاء ، الحسن بن علی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ آپ نے فرمایا :ایک وقت اندھیری رات میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بے پناہ محبت فرمایا کرتے، امام حسن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں اپنی والدئہ محترمہ کے پاس جانا چاہتا ہوں ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے عرض کیا میں ان کے ساتھ جاؤں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ اتنے میں آسمان سے ایک نورظاہر ہوا جس کی روشنی میں چلتے ہوئے سیدناحضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اپنی والدہ محترمہ کے پاس پہنچ گئے۔(دلائل النبوۃ للاصفھانی،باب ذکراضاء ۃ العصا،حدیث نمبر:487)
سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت عظمی پانچ (5) ربیع الاول،50 ہجری اور ایک روایت کے مطابق 49 ہجری ،مدینہ منورہ میں ہوئی،آپ کو زہر دیکر شہید کیا گيا،آپ کا مزار مقدس جنت البقیع شریف میں ہے۔(تاریخ الخلفاء،ج:1،ص:78)