بت شکنی سنتِ ابراہیمی
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
سوشل میڈیا پر ایک خبر کے مطابق مردان میں اپنی زمین میں کھدائی کے دوران ملنے والے گوتم بدھ مجسمے کو توڑنے پر اسلامی جمہوریہ پاکستا ن کے مسلمان گرفتار ۔۔۔۔ !من حیث القوم ہم اس قدر ذلیل ہوچکے ہیں کہ :”سنت ابراھیمی پر عمل کرنے والے پابند سلاسل کئے جاتے ہیں اور “سنت ابی جہل”پر عمل کرنے والے ہم پر حکومت کرتے ہیں، اسلام کے نام پر وجود میں آئے ملک میں یہ کیسا وقت آیا ہےاللہ رب العزت ہماری حالت پر رحم فرمائے آمین !
اسلام بت پرستی کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ اور بت شکنی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہیں توڑنے کا حکم دیتا ہے۔ کیونکہ کفار ان بتوں کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں، ان کو معبود سمجھ کر ان کی عبادت کرتے ہیں، ان کو سجدے کرتے ہیں، عقیدت سے ان کے سامنے نذرانے پیش کرتے ہیں، ان سے منتیں مرادیں مانگتے ہیں۔ ان کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں۔یاد رکھیے! بت شکنی انبیاء علیہم السلام کی سنت بھی ہے اور کافروں کی طاقت توڑنے کا ایک بڑا سبب بھی!
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے آبائی علاقے میں موجود کفار کی مرکزی عبادت گاہ میں رکھے گئے بتوں کو پاش پاش کر دیا تھا۔ خاتم النبیین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے 360 بتوں کو توڑ ڈالاتھا۔ نہ صرف بیت اللہ میں بلکہ پورے حجاز کے علاقے میں جہاں جہاں بھی بت موجود تھے، رسول امین خاتم النبیین ﷺاور فرمانروان مدینہ کی حیثیت سے ان سب کو توڑنے کے لیے خصوصی احکامات جاری فرمائے تھے اور اس مہم کے لیے خصوصی افراد کے دستے تیار کیے تھے۔چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا بھی اسوۂ نبی پر عمل کرتے ہوئے یہی طرز عمل رہا تھا۔اور سلطنت غزنویہ (976ء سے 1186ء) کے سب سے مشہور حکمران سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کیے اور سومنات کے مشہور زمانہ مندر پر حملہ کرکے تمام بتوں کو توڑ کر خود کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے بطور “بت شکن” معروف کردیا۔ اس نے “بت فروش” بننے کے بجائے “بت شکن” بننا اور کہلوانا اپنے لیے باعث افتخار سمجھا۔ ازل تا ابد بت پرستی کے بجائے بت شکنی مسلمان کا طرز عمل رہا ہے اور رہنا چاہیے۔
قرآن وسنت کے واضح احکامات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے شہرہ آفاق آئمہ اربعہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور دیگر فقہاء رحمہ اللہ علیہم اجمعین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلامی حکومت سے پہلے اگر کسی علاقے میں غیر مسلموں کے عبادت خانے موجود ہوں تو اسلامی حکومت کو ان کی صورت حال پر رہنے دینا چاہیے اور ان کو مسمار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کفار کے عبادت خانے اسلامی حکومت بننے کے بعد تعمیر کیے گئے ہوں تو انہیں مسمار کر دینا ضروری ہوتا ہے۔
نہ جانے موجودہ حکومت نے ابھی اور کیا کیا کارنامے انجام دینے ہیں۔ کبھی گوردوارے تعمیر کرنے کے پراجیکٹ کا اعلا ن ہے، اور کبھی مندروں کی تعمیر کا کام شروع ہے۔اور دشمنان ِ اسلام کے اشاروں پراسلام کے نام پر وجود میںآنے والےملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی مسجدیں اور مدرسیں گرانے کو کارِ ثواب سمجھنے لگتی ہےبلکہ گذشتہ سال ہی سےپی ٹی آئی حکومت نے ملک بھر میں ہندو مندر کھولنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کبھی یہ حکومت قادیانیوں کے لیے سیاسی و مذہبی اعتبار سے باالخصوص ختم نبوت کے معاملے میں آسانیاں بہم پہنچانے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے۔ غالباً اسے اقلیتوں کے حقوق کا بہت زیادہ احساس اور خیال ہے ۔ہماری حکومت اقلیتی جماعتوں کے مذہبی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ان کی عبادت گاہیں کھولنے میں مصروف ہے۔ حالانکہ اسلامی حکومت کے لیے شریعت اسلامیہ کے صریح احکامات کے مطابق غیر مسلموں کو ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت دینا یا ان کی تعمیر میں سہولت فراہم کرنا جائز نہیں ۔کسی قوم کی بد نصیبی کے لئے اتنی ہی بات کافی ہوتی ہے کہ حکومت ملک اوراپنی قوم کی بہ نسبت یہوو ہنود کی دل جوئی زیادہ مطلوب ہو اوروہ بھی محض اس لئے کہ ان کے شخصی مصالح پورے ہوتے ہوں، وہ پوری قوم کے مصالح اور مستقبل کو بھی بیچ کھاتے ہوں۔
اسلام اور توحید کا اپنا ایک مزاج اور رنگ و بُو ہے، اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا اسوۂ حسنہ اسلام اور توحید کی سچی تفسیر،اوراصلی تعبیر ہے۔اللہ کریم نے واضح کر دیا ہے کہ تمہارے لیے ابراہیم کی زندگی میں ایک بہتر نمونہ ہے ۔ (قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم) ان حالات میں سنت ابراھیمی ہی وہ لائحہ عمل اور وہ راہ نجات ہے جس پر عمل کر کے حالات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
