اصل نام کیا تھا؟
کبھی کچھ عرفی اوراضافی نام اتنے مشہور اور غالب آجاتے ہیں کہ اصل نام نسیا منیسا یعنی بھولا بسرا ہوجاتا ہے اور کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ اصل نام کیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ہی بطور مثال سامنے رکھیں۔ ان کا اصل نام کیا تھا، اس بارے میں تقریبا پچاس نام مورخین اور محدثین اور اصحاب سیرسوانح نے گنوائے ہیں لیکن سب پر غالب ابوہریرہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد اور عطاکردہ اسم غالب رہا اور ویسے بھی حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے فرمان سے اورکون سا فرمان (سوائے کلام الہی کے) وزنی اور بھاری ہوسکتا ہے۔
اخبار میں کام کرنے والوں کو معلوم ہے کہ کسی بھی خبر کی سرخی ہی آدھی نیوز کاکام کرتی ہے۔ اگر سرخی میں خبر کا خلاصہ آگیا اور وہ قاری کو اپنی جانب متوجہ کرسکتی ہے تو وہ سرخی کامیاب ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر قارئین خبر کی جانب توجہ نہیں دیتے۔
بعینہ یہی کاوش اور محنت کسی مصنف اور مولف کی اپنی تصنیف وتالیف کیلئے ہواکرتی ہے۔ وہ اپنی تصنیف وتالیف کا نام بہت چن کر اور ایسا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کتاب کے مضمون کی جانب اجمالی طور پر اشارہ ہوجائے۔ اس لحاظ سے کتاب کے نام کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ وہ پوری کتاب کا ایک اجمالی اور مختصر تعارف ہے۔
اصل نام کے آگے وصفی اور صفاتی نام کا مشہور ہوجانے کی مثال ہمیں بخاری مسلم اور ترمذی کے سلسلہ میں بھی ملتی ہے ان کے وصفی اور اضافی نام اتنے مشہور ہوگئے کہ ان کے مصنفین نے جو ان کا نام رکھا تھا وہ پس پشت چلاگیا اور اب اچھے اچھے مشتغلین بالحدیث کو معلوم نہیں ہوتا کہ بخاری شریف کا اصل نام کیا ہے۔ مسلم شریف کا اصل نام کیا ہے اور امام ترمذی نے اپنی کتاب کا نام کیا رکھا تھا۔ آج ہم ان کتابوں کو یا تو ان کے مؤلف کی نسبت سے جانتے ہیں۔ کبھی بخاری شریف کہہ لیا۔ کبھی مسلم شریف کہہ لیا، کبھی صرف بخاری یا مسلم کہہ لیا اور ترمذی شریف یا سنن ترمذی اور جامع ترمذی کہہ لیا یا صرف جامع ترمذی سے کام چلالیا۔
الجامع الصحیح البخاری
امام بخاری کی تالیف کو عمومی بخاری شریف اور بخاری کے نام سے جانا جاتا ہے یا کچھ لوگ اسے صحیح کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن یہ صرف اس کا عرفی اور وصفی نام ہے اس کا وہ نام نہیں جو امام بخاری نے رکھا تھا۔
بخاری شریف کو عموما محدثین نے الصحیح اور الجامع الصحیح کے نام سے یاد کیا ہے۔ اس سے بہت سے لوگ شبہ مین پڑجاتے ہیں کہ شاید یہی نام امام بخاری نے اپنی تالیف کا رکھا ہو، جب کہ یہ غلط ہے۔جیسا کہ آئندہ واضح ہوگا۔
کچھ مصنفین نے امام بخاری کی تصنیف کا نام ذکر کرنے میں سہوا یا قلت یا اصل نام معلوم نہ ہونے کے باعث غلطی کی ہے۔
اس کے علاوہ بہت سے دوسرے علماء وہ ہیں جنہوں نے بخاری کو الجامع الصحیح کہہ کر ذکر کیا ہے تو وہاں پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ انہوں نے بخاری شریف کی ایک امتیازی خصوصیت جامعیت اور صحت کا ذکر کیا ہے کتاب کا صحیح نام ذکر کرنے کا التزام انہوں نے نہیں کیا ہے۔
علاوہ ازیں کچھ حفاظ حدیث نے بخاری شریف کا مذکورہ نام تھوڑے سے تغیر یا اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے تو یہ شاید انہوں نے نام میں اپنی جانب سے اختصار کیا یا نام لکھتے وقت شاید ان کو ذہول ہوگیا ہو۔
مثال کے طورپر قاضی عیاض جو مشہور مالکی فقیہہ اور محدث ہیں۔ انہوں نے “مشارق الانوار علی صحاح الآثار” صحیح بخاری کا نام یوں ذکر کیا ہے۔
الجامع المسند الصحیح المختصر من آثار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اس میں جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں انہوں نے تھوڑے اختصار اور تصرف سے کام لیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ کا علم حدیث میں جو مقام ومرتبہ ہے وہ سب کو معلوم ہے انہوں نے بخاری کی شرح لاجواب اندازمیں لکھی ہے اور حق یہ ہے کہ شرح بخاری کا حق ادا کردیا ہے. انہوں نے فتح الباری کے مقدمہ ہدی الساری میں وہ لکھتے ہیں:
الجامع الصحیح المسند میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ (ہدی الساری1/6)
اس میں شک نہیں کہ حافظ ابن حجر متاخرین میں علم حدیث میں سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں انہیں حافظ الدنیا کا بھی لقب دیاگیا ہے مگر اس کے باوجود یہاں بخاری شریف کا نام بیان کرنے میں ان سے سہو وتسامح ہوا ہے اس پر اتنا ہی کہا؛جاسکتا ہے لکل جواد کبوۃ کہ ہر شہسوار کو کہیں کہیں ٹھوکر لگتی ہی ہے۔
امام بخاری نے اپنی کتاب کی طرح اس کا نام بھی بے نظیر رکھاہےجوکتاب کے پورے موضوع پر روشنی ڈالتاہے اوریہ بھی پتہ چلتاہے کہ امام بخاری کے ذہن میں اپنی تالیف کے تعلق سے کیابات تھی اورخود ان کی اپنی نگاہ میں اس تالیف کی کیاخصوصیات تھیں۔
حافظ ابونصرالکلاباذی (ولادت 323ہجری متوفی398ھجری)نے اپنی کتاب “رجال صحیح البخاری “(ص 24)میں بخاری شریف کا نام یوں ذکر کیاہے۔
الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ۔۔۔۔۔۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب جامع ہے امور دین کو سنداحضورپاک تک سے متصل ہے، صحیح ہے، رسول اللہ کی تمام صحیح احادیث کا احاطہ نہیں کیا
گیا بلکہ مختصر انتخاب ہے اوراس کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ کے حالات وکیفیات آپ کی سنتیں اورطریقے اورآپ کے دور کے حالات معلوم ہوسکتے ہیں۔
یہی نام قاضی ابومحمد عبدالحق بن غالب بن عطیہ اندلسی(مولود 418،متوفی541ہجری) جومشہور مفسر،محدث اورفقیہہ ہیں، نے اپنی کتاب فہرست ابن عطیہ میں ذکر کیاہے۔چنانچہ وہ اپنی مایہ ناز تالیف “فہرست ابن عطیہ “امام بخاری سے ان کی کتاب کے کئی طریقوں سے مروی ہونے کی بات لکھ کر امام فربری کی سند ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
قرات علیہ رحمہ اللہ کتاب “الجامع الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ”تصنیف اللہ الامام ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم البخاری رضی اللہ عنہ
(فہرست ابن عطیہ ص45)
میں نے ان پر (ابن عطیہ اپنے والد محترم کے بارے میں کہہ رہے ہیں)امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری کی کتاب “الجامع الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ”پڑھی۔
یہ نام ابن عطیہ کے شاگرد اورمشہور مالکی محدث ابن خبرالاشبیلی الاندلسی نے بھی اپنی تصنیف “فہرست مارواہ عن شیوخہ”میں ذکر کیاہے۔چنانچہ وہ ذکر المصنفات المسندہ کا باب قائم کرکے لکھتے ہیں
مصنف الامام ابی عبداللہ محمد بن اسمعیل البخاری وھو”الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ”
امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری کی تصنیف جویہ ہے”الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ
بخاری شریف کا یہی نام امام نووی نے بھی ذکر کیاہے چنانچہ انہوں نے بخاری شریف کے ایک حصے کی جو شرح کی ہے اس میں اورتہذیب الاسماء واللغات میں لکھتے ہیں
امااسم صحیح البخاری فسماہ مولفہ ابوعبداللہ البخاری رحمہ اللہ (الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ)
صحیح بخاری کا وہ نام جو اس کے مولف ابوعبداللہ البخاری نے رکھاتھاوہ یہ ہے:الجامع المسند الصحیح المختصرمن اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ
(تہذیب الاسماء واللغات جلد1/73،وقطعۃ التی شرحھا من صحیح البخاری ص7)
اوریہی نام حافظ ابن صلاح انے اپنے شہرہ آفاق مقدمہ ابن الصلاح میں صحیح کی بحث میں ذکر کیا ہے ۔
(مقدمہ ابن الصلاح24/25)
یہی نام حافظ ابن رشید البستی نے “افادۃالنصحیح فی التعریف بسند الجامع الصحیح “میں ذکر کیاہے ۔
(ص:16)
یہی نام حافظ بدرالدین عینی نے بھی عمدۃ القاری میں ذکر کیاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں
“سمی البخاری کتابہ: الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم وسننہ وایامہ”۔۔۔۔۔۔
(عمدہ القاری:1/5)
بخاری نے اپنی کتاب کا نام “الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ”رکھاہے۔
یہاں تک آپ نے دیکھ لیاکہ کس طرح اجلہ علماء نے بخاری شریف کا نام ذکر کیاہے اس نام پر سبھی متفق ہیں۔ [hr]
مسلم شریف
