کیا غائب کے لئے لفظ ‘حضرت’ استعمال کرسکتے ہیں؟

سوال: ادب واحتراما عرض ہے کہ ہم اکثر لفظ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا عام عالم کے لئے استعمال کرتے ہیں جو حاضر نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ ہم غائب کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں ۔۔۔
یہ کس حد تک درست ہے؟ کیا غائب کے لئے لفظ ‘حضرت’ استعمال کرسکتے ہیں؟دلائل کی روشنی میں فیضیاب کریں، نوازش ہوگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
الفاظ کی حقیقت لغویہ مراد لینا ہی اصل ہے۔لیکن اگر کسی لفظ کے معنی حقیقی کچھ ہوں اور عرف و استعمال میں اس کی مراد دوسری ہو تو اب عرف و استعمال کے رواج کی وجہ سے لفظ کے معنی حقیقی متروک ہوجاتے ہیں:
الحقيقة تترك بدلالة العادة
العادة محكمة
جیسے فقہی قواعد میں اسی حقیقت کو بتایا گیا ہے
حضرت اور حضور جیسے الفاظ کے معنی حقیقی اگرچہ “موجودگی” کے ہیں!
لیکن عرف وعادت میں اسے ہر مرجع الخلائق اور مرکزی شخصیت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ خواہ وہ حاضر ہو یا غائب۔
یعنی اب اس لفظ کا غلبہ استعمال تعظیم وتکریم میں ہونے لگا ہے۔ اور ہر قابل تعظیم واحترام شخصیت کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں۔ خواہ غائب ہو یا حاضر!
قبوریوں کی طرح اسے غائب کے لئے استعمال کرکے حاضر وناظر مراد لینا فقہی قاعدہ اور عرف و استعمال کے خلاف ہے۔ جس کی گنجائش نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی