نورانی مخلوق فرشتے

ہم اللہ تعالی کی نورانی مخلوق فرشتوں کوکس طرح مانیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد
ہم حاملینِ عرش و چار بڑے فرشتوں کوکس طرح مانیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد
ہم کراماً کاتبین و منکر نکیر فرشتوں کوکس طرح مانیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد
ہم نظامِ عالم اور تکوینی امور پر مامور فرشتوں کوکس طرح مانیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد
ہم میدانِ محشر’ جنت وجہنم پر مامورفرشتوں کوکس طرح مانیں اور ان سے متعلق احکام و عقائد

فرشتوں پر ایمان کا مفہوم: ایمانیات کا اہم جزء ہے، نبی ﷺ نے اللہ پر، اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر ، آخرت پر ، تقدیر پر ایمان کے ساتھ ساتھ فرشتوں پر ایمان کی بھی دعوت دی ہے۔ مبادیات کے بیان میں ایمان کی تعریف گذری ہے کہ نبی ﷺ جو باتیں اپنے رب کے پاس سے لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کرنا ایمان ہے، اس میں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جو باتیں نبی ﷺ بتلائیں ان کو محض آپ ﷺ کے بتلانے سے ماننا یہ ایمان ہے خواہ ہم نے اس کا مشاہدہ و تجربہ کیا ہو یا نہ کیا ہو، اور خواہ و ہ بات ہماری عقل پر اترتی ہو یا نہ اترتی ہو، یہی ایمان بالغیب بھی ہے، کہ وہ باتیں جو ہمارے حواس اور تجربہ سے غائب ہیں ان کو محض نبی /اور انبیاء علیہم السلام کے کہنے سے مان لینا ’’غیب پر ایمان‘‘ لانا ہے۔
فرشتے بھی عام آدمی کےلئے ’’غیب‘‘ میں داخل ہیں، جن کا عام لوگ تجربہ نہیں کرتے اس لئے فرشتوں پر ایمان لانا غیب پر ایمان لانا ہے۔
فرشتوں پر ایمان لانا فرض ہے ، اور ان کا انکار کرنا کفر ہے، اجمالاً اس طرح سے کہ :میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں، اور اس بات پر بھی ایمان لاتا ہوں کہ فرشتوں سے متعلق جو بھی باتیں اللہ اور اس کے رسول نے بتلائی ہیں وہ بر حق ہیں۔
فرشتوں سے متعلقہ ماننے والی جو باتیں قرآن وحدیث میں بیان کی گئیں ہیں ان کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے، تاکہ یہ معلوم ہو کہ ہمیں فرشتوں کے بارے میں کیسے ایمان رکھنا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق ہیں، لطیف جسم والے ہیں جو نظر نہیں آتے۔تشریح
فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں نہیں بلکہ مخلوق ہیں: جس طرح اور بھی بہت ساری اللہ تعالیٰ کی مخلوقات ہیں اسی طرح فرشتوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، فرشتوں کی پیدائش کا وقت متعین طور پرنہیں معلوم ہے البتہ اتنا یقینی ہے کہ فرشتے انسانوں سے بہت پہلے پیدا کردئیے گئے تھے۔
جب فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں تو ان کا الوہیت میں کوئی حصہ نہیں ہے ، وہ بھی اللہ کے بندہ ہیں، اور اپنے وجود و بقا میں اللہ کے حکم کے محتاج ہیں، مشرکین مکہ یہ خیال کرتے تھےکہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، یا دنیا کے دیگر خطوں میں دیویوں کا جو تصور ہے وہ مشرکین مکہ کے عقیدہ سے ملتا جلتا عقیدہ ہے، یہ ایک بے بنیاد اور باطل خیال ہے، فرشتوں کو اللہ کی مخلوق کے علاوہ کچھ اور جیسے دیوی دیوتا تصور کرنا، اور ان کو بندگی کے مقام سے بلند مقام دینا کفر ہے، اور ان کو الوہیت اور عبادت میں اللہ کے ساتھ شریک کرنا شرک ہے، جس کا انجام ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتےنر و مادہ سے پاک ہیں،ان میں نکاح، توالد و تناسل کا سلسلہ نہیں ہے۔تشریح
فرشتوں میں توالد و تناسل نہیں ہوتا: فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے انور سے پیدا کیا ہے، فرشتوں میں نر و مادہ اور توالد و تناسل کا نظام نہیں ہے، وہ اس فرق سے ہٹ کر اللہ کے حکم سے پیدا کی گئی مخلوق ہے۔جو مشرکین و کفار فرشتوں کو بیٹیاں /دیویاں قرار دیتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے سخت تنبیہ کی ہے، اور کہا ہے کہ انہیں اس بہتان کی جرأت کیسے ہوئی ، کیا وہ ان فرشتوں کی تخلیق کے وقت موجود تھے اور دیکھ رہے تھے کہ اللہ انہیں مؤنث بنا رہا ہے، ان کی یہ گواہی لکھی جارہی ہے، اور اس بارے میں ان سے قیامت کے دن سوال ہوگا۔
خود انسان کا یہ حال ہے کہ وہ خود کےلئے نرینہ اولاد پسند کرتا ہے، اور اگر اس کے یہاں بیٹی پیدا ہوتو اس کو باعث عار شمار کرتا ہے اور اس کےچہرے پر تاریکی چھا جاتی ہے، اور اللہ کی جانب بیٹیاں منسوب کرتا ہے، یہ تو بڑی نا انصافی کی تقسیم ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ بے بنیاد اندازے ہیں، اور نفس کے بہکاوے ہیں، اس کے لئے کوئی علم و دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے کھانے پینے وغیرہ جسمانی تقاضوں سے پاک ہیں ۔دلائل
عقیدہ:
فرشتے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔ دلائل
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو غیر معمولی قوت سے نوازا ہے، انسانوں یا جنوں میں سے کوئی اس قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔تشریح
ملائکۃ کی صفات اور ان کی قوت و عظمت: فرشتوں کی عظمت کا بیان اس اعتبار سے خود اللہ کی کبریائی اور عظمت کا بیان ہے کہ وہ اللہ ایسی عظیم اور قوت والی مخلوق کا خالق ہے۔ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے جیسا عظیم و قوی بنایا ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اس سے خوب معلوم ہو تا ہے کہ خود ان کے خالق کی عظمت و کبریائی کا اندازہ کرنا ہمارے بس سے باہر ہے، کہ فرشتوں جیسی عظیم و قوی مخلوق اس اللہ کے آگے بندہ بنی رہتی ہے ، صف در صف اس کے آگے جھکی رہتی ہے، تسبیح و تقدیس بیان کرتی ہے، سجدہ میں پڑی رہتی ہے، اس کے ذکر میں لگی رہتی ہے، اور اس کے احکامات کی تعمیل اور اس کی بندگی میں رہنے سے سر مو انحراف کرنے کی جرأت نہیں کرتی۔
فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے پر دئیے ہیں، کسی کو دو کسی کو تین اور کسی کو چار ، اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ان کے پروں میں اضافہ بھی فرماتا ہے، چنانچہ حضرت جبریل علیہ السلام کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ان کے چھ سو پر ہیں، اور وہ اتنے بڑے ہیں کہ ایک جانب کے پرآسمان میں مشرق کو اور ایک جانب کے پر مغرب کو گھیرلیتے ہیں۔
فرشتے آسمانوں میں تیرتے ہوئے اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچتے ہیں ، ان کی رفتار کا حال نہ صرف ناقابل بیان ہےبلکہ اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے، فرشتے وہ مسافت جو انسانوں کےلئے ہزاروں سال کی ہے لمحوں میں طے کرتے ہیں، فرشتے ملأ اعلیٰ سے زمین پر جس کے درمیان کی مسافت ہزاروں برس کی ہے صبح و شام آتے جاتے رہتے ہیں ۔نبی ﷺ سے جب کبھی کوئی سوال کرنے والا سوال کرتا تو ملاأعلیٰ سے فرشتہ اللہ کا جواب لے کر نبی ﷺ کے پاس آتا، اور ابھی سائل اپنی بات پوری بھی نہیں کرتا تھا کہ فرشتہ ہزاروں برس کی مسافت کو طے کرتے ہوئے آ موجود ہوتا، اور نبی ﷺ کو جواب پہنچاتا ۔یہ تیزی انسانی قوت و پیمائش بلکہ تصور سے بھی ما وراء ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ قوت اور سرعت رفتار فرشتوں کو عطاء کی ہے۔
حاملین عرش کی جسامت کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ ان کے پنجوں اور گھٹنہ کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہے جتنا ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی مسافت ہوتی ہے۔اور اسی طرح فرمایا کہ ان فرشتوں کی کان کی لو سے گردن تک کی مسافت سات سو برس کی ہے۔
حضرت جبرئیل کو اللہ تعالیٰ نے خود قوت والا بتلایا ہے، وہی وحی الہیٰ انبیاء تک لاتے تھے، قرآن مجید کا غالب حصہ بھی وہی اللہ کے پاس سے نبی ﷺ کے پاس لاتے۔ قوموں پر عذاب بھی حضرت جبرئیل کے ذریعہ بھیجا گیا۔ قوم لوط پر جب عذاب کا وقت آیا تو حضرت جبرئیل نے ان کی بستی کو الٹنے کےلئے اپنے ایک پر سے پوری بستی کو اس کی جڑ سے اکھاڑا اور آسمان کی جانب بلند کرکے انہیں زمین پر دے مارا ، احادیث میں آتا ہے کہ دنیا سے متصل آسمان والوں نے بستی کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کی آوازوں تک کو سنا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نہایت غیر معمولی تعداد میں پیدا کیا ہے۔تشریح
فرشتوں کی تعداد: فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی تعداد میں پیدا کیا ہے، احادیث میں آیا ہے کہ بیت معمور جو آسمانوں میں اللہ کا گھر ہے روزانہ ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں اور پھر دوبارہ ان کی باری نہیں آتی، اس اعتبار سے فرشتوں کی تعداد کا اندازہ سوائے اللہ کے کسی کو نہیں ہے، فرشتے اللہ تعالیٰ کا لشکر ہیں، اور کائنات کے نظام میں اللہ تعالیٰ نے انہیں جگہ جگہ مختلف کاموں میں مقرر کرکھا ہے، اسی طرح آخرت میں بھی حشر کے میدان میں ، جہنم سے متعلقہ اور جنت سے متعلقہ فرشتے الگ ہوں گے، صرف جہنم کو کھینچ کر میدان حشر میں لانے والے فرشتوں کی تعداد احادیث میں چار ارب نود لاکھ بیان کی گئی ہے۔
یہ صرف ایک کام سے متعلقہ فرشتوں کی تعداد کا بیان ہے ایسے ہزاروں لاکھوں کام ہیں جو اس کائنات میں اللہ کے حکم سے فرشتوں کی نا قابل بیان تعداد انجام دے رہی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے اللہ کے بندے ہیں، اللہ تعالیٰ سے انتہائی خوف و خشیت رکھتے ہیں ۔بندگی سے بلند الوہیت کا کوئی مقام انہیں حاصل نہیں ہے۔ تشریح
فرشتوں کی اللہ کے آگے بندگی : فرشتوں کا خود اللہ کے یہاں بہت اونچا مقام ہے،فرشتوں میں صرف خیر ہی خیر ہے، اور ان کا مستقر آسمان اور ملأ اعلیٰ ہے، وہ وہیں سے زمین میں آتے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب سے پہلے بالعموم فرشتوں تک ہی پہنچتا ہے، لیکن ان سے کے باوجود فرشتے اللہ کے آگے بندہ بنے رہتے ہیں، غیر معمولی قوت اور تعداد میں ہونے کے باوجود وہ اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ جو بھی حکم دیتے ہیں اس کو ویسے ہی انجام دیتے ہیں، ان میں سے جس کی جو حد اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دی ہے وہ اسی حد میں رہتے ہیں، اور اس کے احکام سے سر مو انحراف نہیں کرتے۔ اس کی تسبیح و تحمید بیان کرتے ہیں، انہیں الوہیت میں کوئی حصہ حاصل نہیں ہے، الہ صرف ایک ہے اور وہ اللہ ہے، باقی سب اس کے بندہ ہیں، اور اگر کوئی اللہ کے آگے بندگی سے انحراف کرنا چاہے خواہ وہ اس قوت و تعداد کے حامل فرشتے ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرکے انہیں جہنم رسید کرنے کی قدرت رکھتا ہے، کوئی نہیں ہے جو اللہ رب العزت کے آگے سر اٹھا سکے، اسی کی عطاء ہے کہ فرشتے اس قوت و عزت کے حامل ہیں۔
فرشتوں کی اللہ کا انتہائی خوف رکھتے ہیں، جب اللہ تعالیٰ کوئی حکم دیتا ہے وہ اس کے آگے جھک جاتے ہیں، نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: معراج کی رات میں ساتویں آسمان سے ورے ملأ اعلیٰ سے گذرا نے اور دیکھا کہ جبرئیل اللہ کے خوف سے سوکھے پتہ کی طرح کانپ رہے ہیں۔
فرشتوں سے کو الہ ماننا یا ان سے دعائیں کرنا یا ان کو عبادت کی کسی قسم اللہ کے ساتھ شریک کرنا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتوں کا علم بھی عطائی ہے، یعنی اللہ نے انہیں جو علم دیا ہے وہ وہی جانتے ہیں۔ تشریح
فرشتوں کا علم: اللہ تعالیٰ نے جس فرشتے کو جس کام پر لگایا ہے، اس کو اس کا علم بھی عطاء فرمایا ہے، اور فرشتوں کا علم ان کے کاموں کے لحاظ سے یقیناً بہت وسیع ہے، لیکن اول تو یہ علم عطائی ہے اور جو علم اللہ تعالیٰ نے انہیں نہیں دیا ہے فرشتے اس کو نہیں جانتے ہیں۔ کوئی مخلوق خواہ کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو وہ اللہ کے آگے جھکی ہوئی ہے، اور وہ اللہ کے علم سے اتنا ہی حاصل کر پاتی ہے جتنا اللہ انہیں دینا چاہتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتوں پر بھی فنا اور موت طاری ہوگی، اور پھر وہ بھی دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔تشریح
فرشتوں پر موت طاری ہونا: اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ایک پر فنا طاری ہونا ہے، فرشتے بھی مخلوق ہیں ان پر بھی قیامت کے موقع پر موت طاری ہوگی، جب پہلے صور کے نتیجہ میں آسمانوں اور زمین میں تمام انسان و جن اور تمام مخلوقات مر جائیں گے سوائے ان کے جن کو اللہ تعالیٰ زندہ رکھنا چاہیں ، اس کے بعد موت کا فرشتہ اللہ تعالیٰ کے پاس آئے گا اور کہے گا: کہ ائے اللہ سوائے ان چند کے جن کو آپ نے زندہ باقی رکھا ہے سب مر چکے ہیں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : مرنا تو سبھی کو ہے، اور پھر باقیوں کی روح بھی قبض کرلی جائے گی، اور سب سے آخر میں مرنے والے خود ملک الموت ہوں گے، جب مر چکیں گے، اللہ تعالیٰ ندا دیں گے : بتاؤ آج بادشاہت کس کی ہے؟ اور کسی مدعی کا کوئی وجود نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ پھر خود ہی جواب دیں گے: اللہ واحد قہار کی بادشاہت ہے۔ پھر اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے سب سے پہلے اسرافیل علیہ السلام کو زندگی دیں گے اور انہیں حکم دیں گے کے دوسرا صور پھونکیں تاکہ مرنے والوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں لگے رہتے ہیں۔تشریح
فرشتوں کی عبادات: فرشتے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں لگے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کام دیا ہے اس کے ساتھ ہمیشہ اللہ کی تسبیح و حمد بیان کرتے رہتے ہیں، حاملین عرش عرش کو بھی اٹھائے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ان کی زبان پر تسبیح و حمد باری تعالیٰ جاری ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں: سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، لَكَ الْحَمْدُ عَلٰى حِلْمِكَ بَعْدَ عِلْمِكَ. اور بعض کہتے ہیں : سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، لَكَ الْحَمْدُ عَلٰى عَفْوِكَ بَعْدَ قُدْرَتِكَ۔
بے شمار فرشتے جن کی تعداد سوائے اللہ کوئی نہیں جانتا عرش کے اطراف اللہ کی تسبیح بیان کرنے میں مشغول ہیں۔
اسی طرح بے شمار فرشتے وہ ہیں ہمیشہ جو آسمانوں میں اللہ کے آگے سجدہ ریز ہیں۔ حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: میں بہت سی ایسی باتیں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے، اور بہت سی ایسی باتیں سنتا ہوں جن کو تم نہیں سن سکتے۔ پھر آپ نے فرمایا: آسمان چرچراتا ہے، اور اس کو حق ہے کہ وہ چرچرائے، کیونکہ آسمان میں چار انگل (انگلیوں) کی جگہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ اپنی پیشانی ٹکائے اللہ کے آگے سجدہ ریز نہ ہو۔ اگر تم وہ باتیں جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور روتے زیادہ، اور اپنے بستروں پر اپنی بیویوں کے ساتھ لذت حاصل کرنا بھول جاتے ، اور جنگلوں میں نکل کھڑے ہوتے تاکہ اللہ کے سامنے گڑ گڑاؤ اور اس کی پناہ مانگو۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ساتوں آسمانوں میں کوئی قدم بلکہ ہتھیلی جتنی جگہ بھی ایسی خالی نہ ہو جہاں کوئی فرشتہ یا سجدہ یا رکوع میں نہ ہو۔
اسی طرح فرشتے آسمانوں میں اللہ کے گھر بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں، حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے کہ روزانہ بیت المعمور کا ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں، اور ایک مرتبہ جس کو وہاں طواف کرلے دوبارہ اس کو موقع نہیں ملتا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتوں کا احترام ضروری ہے، کسی فرشتے کے احترام کو مجروح کرنا ایمان کے منافی ہے۔فرشتوں کو دشمن سمجھنا اور ان سے عداوت اور بغض رکھنا ایمان کے خلاف اور کفر ہے۔تشریح
حقوقِ ملائکۃ’احترام ملائکۃ: فرشتے اللہ تعالیٰ کے منتخب بندے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی بہت بڑی تعداد کو خود انسانوں کی خدمت و فلاح میں لگا رکھی ہے، چنانچہ وہ انسانوں کے خیر خواہ ہیں، اور سب فرشتے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور عبادات میں لگے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے یہاں خود ان فرشتوں کا بڑا مقام ہے، وہ آسمانوں کے مکین ہیں اور اللہ کا لشکر ہیں، یہ سب باتیں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ ان کا احترم کیا جائے، ان سے محبت ہو اور دلی دوستی کا تعلق ہو، یقیناً فرشتے نافرمانوں اور کفار کے دوست نہیں ہیں، ا ور ان کے ہاتھوں سرکشوں اور کفار کو زک پہنچتی ہے، اور جن سرکشوں کو اس بات کا شعور ہے کہ ان کو فرشتوں کے ہاتھوں سزا دی گئی ہے وہ ان فرشتوں سے دشمنی رکھتے ہیں یعنی ان فرشتوں کو اپنا دشمن سمجھ کر خود کو بھی ان کا دشمن سمجھتے ہیں، جیسے یہود کا حال تھا کہ وہ حضرت جبرئیل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ بات صاف کردی ہے کہ جو کوئی جبرئیل اور میکائیل کو اپنا دشمن سمجھے ایسے کافروں کا اللہ بھی دشمن ہے۔
جو شخص مطلق ملائکۃ کے احترام کو مجروح کرے، یا نام بنام جبرئیل و میکائیل یا دیگر جن فرشتوں کا نام بیان کیا گیا ہے ان کو دشمن کہے یا کسی اور طریقے سے ان کے احترام کو مجروح کرے وہ بلاشبہ کافر ہے۔
.بند
عقیدہ:
بعض چیزیں ایسی ہیں جن سے ملائکۃ کو تکلیف پہنچتی ہے ان سے گریز کرنا لازم ہے۔تشریح
ملائکۃ کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرنا۔ فرشتے جو نیک اور علم و ذکر کی مجالس میں شرکت کرتے ہیں، ایسی مجالس میں شرکت کرنے والوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ شرکاء کو ان کی جانب سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے، پیاز لہسن اور گندنا کی بو سے فرشتوں کو اذیت پہنچتی ہے، اس لئے یہ چیزیں کھا کر مساجد میں جانا یا علم و ذکر کی مجلسوں میں شرکت کرنا نا مناسب ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتوں میں بھی فرق مراتب ہے، بعض فرشتے دوسروں سے افضل ہیں۔ دلائل
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی فرشتے کو انسانی شکل عطاء فرمائی تو اُسے مردانہ شکل عطاء فرمائی۔تشریح

کسی فرشتے کو نسوانی شکل میں ظاہر نہیں فرمایا، حتیٰ کہ حضرت مریم علیہا السلام کے خلوت کدے میں ان کے پاس آنے والا فرشتہ بھی مرد کی شکل میں آیا تھا۔
دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے مختلف کاموں پر مقرر ہیں اور ان کاموں کی بجاآوری میں مشغول رہتے ہیں۔تشریح
مثلاً بعض فرشتے انسانوں کے اعمال لکھنے پر مقرر ہیں، بعض فرشتے انسانوں کی حفاظت پر مقرر ہیں، بعض فرشتے دن رات اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول ہیں، بعض فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کو تھامے ہوئے ہیں، بعض فرشتے جنت کے خازن اور بعض دوزخ کے خازن ہیں، بعض فرشتے عرش کے ارد گرد صف بستہ کھڑے ہیں، بعض فرشتے بیت المعمور کا طوار کر رہی ہیں، بعض فرشتے امت کی طرف سے پڑھا جانے والا درود و سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنے پر مقرر ہیں، بعض فرشتے قبر میں میت سے سوالات کرنے پر مقرر ہیں، بعض فرشتوں کے دو، بعض کے تین اور بعض کے چار چار پر ہیں، بعض فرشتوں لوگوں کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں، بعض فرشتے مسلمانوں کی مدد کے لے نازل ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ غزوۂ بدر وغیرہ میں ہوا، بعض فرشتے نافرمان لوگوں کو عذاب دینے کے لئے بھی آسمانوں سے نازل ہوتے رہتے ہیں، جیسے قومِ لوط، قومِ عاد اور قومِ ثمود وغیرہ پر عذاب کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے، بعض فرشتے جنت کے اندر جنتیوں کی خدمت کے لئے مقرر ہوں گے اور بعض فرشتے دوزخ میں دوزخیوں کو طرح طرح کے عذاب دینے کے لئے مقرر ہوں گے، ان میں سے بڑے فرشتے اُنّیس (۱۹) ہیں۔
دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے نیک بندوں کے جنازہ میں شرکت کرتے ہیں۔بعض خاص نیک بندوں کے جنازہ کو غسل بھی دیتے ہیں۔

حاملینِ عرش: اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اور کائنات میں تدبیر امور کا مرکز بھی عرش ہے، اس عرش کے حاملین عظیم فرشتے ابھی چار ہیں اور قیامت کے دن یہ فرشتے آٹھ ہوجائیں گے، جن کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان فرشتوں کی لمبائی اتنی ہے کہ صرف پنجوں سے ان کے گھٹنے تک کی مسافت ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کی مسافت کے برابر ہے، اسی طرح ان کے کان کی لو سے گردن تک کی مسافت سات سو برس کی ہے ، اللہ اکبر اس کا حاصل تو یہ ہوا کہ ساتوں آسمانوں کی جتنی مسافت ہے اتنی ان میں سے ایک فرشتہ کی لمبائی ہے، کیا ہی عظمت و کبریائی اس خالق کی جس نے ایسی عظیم مخلوق بنائی ۔
خود عرش اطراف میں بے شمار فرشتے ہیں جن کی صحیح تعداد صرف اللہ جانتے ہیں، یہ مقرب فرشتے ہیں، یہ فرشتے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و حمد بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ائے اللہ! باوجود یہ کہ آپ ہر چیز جاننے والے ہیں پھر بھی آپ بردباری سے کام لیتے ہیں، اور باوجود یہ کہ آپ ہر طرح کی قدرت رکھتے ہیں پھر بھی آپ در گذر سے کام لیتے ہیں۔ حاملین عرش اور عرش کے اطراف تسبیح و تقدیس میں مشغول فرشتے مؤمنین کےلئے استغفار بھی کرتے ہیں، وہ دعائیں کرتے ہیں کہ ائے اللہ ! آپ کی رحمت ہر چیز کو عام ہے، جو لوگ توبہ کرلیں اور آپ کے بتائے ہوئے راستہ پر چل پڑیں ان کی بخشش فرمادیجئے، اور انہیں جہنم کے عذاب سے نجات دے دیجئے۔ ائے ہمارے پروردگار!انہیں عدن کے باغات میں داخل فرمائیے، جس کا آپ نے ان سے وعدہ فرمایا ہے، اور ان کے آباء ، ان کے جوڑوں اور ان کی اولادوں کو بھی ان کے ساتھ جو ایمان لائیں شامل فرمائیے۔ ائے پروردگار انہیں گناہوں سے بچائیے، آپ جن کو آج گناہوں سے بچالیں وہ آپ کی رحمت میں ضرور آجائے گا، اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔ یہ فرشتے عرش کے پاس مؤمن بندوں کےلئے یہ دعائیں کیا کرتے ہیں۔
اللہ کا عرش پر مستوی ہونے اور صفات متشابہات کی تفصیل ’’ایمان باللہ‘‘ میں صفات متشابہات کی بحث میں ملاحظہ کی جائے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بہت سے فرشتے وحی لانے اور اللہ تعالیٰ اور نبیوں کے درمیان پیغام رسانی پر مأمور ہیں۔تشریح
پیغام رسانی پر مأمور فرشتے: جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے ظاہری مفادات مثلاً رزق ، بارش، ہواؤوں ، حفاظت وغیرہ پر فرشتوں کو مأمور کیا ہے اسی طرح انسانوں کے باطنی اور روحانی مفادات کے سلسلوں پر بھی فرشتوں کو کام پر لگایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت بندوں تک پہنچانے کےلئے جس طرح بندوں میں پیغام بر نبی و رسول منتخب فرمائیں ہیں، اسی طرح فرشتوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے چند فرشتوں کو منتخب کرکے اپنے اور انسانی رسولوں کے درمیان پیغام رسال بنایا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام لے کر خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ تک تمام انبیاء کی جانب اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے رسولوں کے ذریعہ انسانی رسولوں تک پیغام پہنچاتے رہے ہیں۔
انبیاء تک وحی پہنچانے کا عام طور پر ذریعہ یہی پیغام بر فرشتے رہے ہیں، ہاں اللہ تعالیٰ نے راست بھی اپنے پیغمبروں سے کلام کیا ہے، مثلاً حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت محمد ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے راست فرشتوں کے واسطہ کے بغیر کلام کیا ہے، اور وحی کے دیگر اورذریعے بھی رہے ہیں جن کا ذکر ’’ایمان الکتب‘‘ میں آئے گا۔
پیغام بر فرشتوں کے سردار حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں، عام طور پر انبیاء ورسولوں کے پاس پیغام لے کر حضرت جبرئیل ہی آیا کرتے تھے، ہاں ان کے ساتھ دیگر فرشتے بھی ہوتے ہیں، مثلاً سورۃ انعام کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ اس کے نزول کے وقت ستر ہزار فرشتے ساتھ تھے جو تسبیح بیان کررہے تھے اور آسمان و زمین ان کی تسبیح کی آواز سے گونج رہی تھی۔
حضرت جبرئیل کے اور بھی کام ہیں جن کا ذکر آگے اپنی جگہ آئے گا، ان کا خاص اہم کام انبیاء و رسولوں تک وحی پہنچانا رہا ہے۔
قرآن مجید کی وحی بھی حضرت محمد ﷺ تک حضرت جبرئیل علیہ السلام ہی لاتے تھے، ہاں بعض قرآن کے حصے بعض خاص فرشتوں کے ذریعہ بھی بھیجے گئے ہیں،
کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ قرآن مجید کا کوئی خاص حصہ حضرت جبرئیل کے علاوہ کوئی اور فرشتہ لائے ہوں ، مثلاً سورۃ فاتحہ کی خوشخبری لانے والا فرشتہ دوسرا ہے، ہاں اس فرشتہ کی آمد کے وقت خود حضرت جبرئیل بھی نبی ﷺ کے پاس تھے۔
اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ انبیاء و رسولوں کو وحی بھیجے ہیں یہ قطعی عقیدہ ہے، جس پر ایمان لازمی ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضرت جبرئیل علیہ السلام، بہت زیادہ طاقتور، امانت دار اور مکرم ہیں، ہر زمانہ میں انبیاء کرام علیہم السلام پر وحی لانے کے لئے مقرر تھے۔دلائل
عقیدہ:
حضرت میکائیل علیہ السلام، بارش برسانے، غلّہ اُگانے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی مخلوق کو روزی پہنچانے پر مقرر ہیں۔ دلائل
عقیدہ:
حضرت اسرافیل علیہ السلام، جو قیامت کے دن صور پھونکیں گے، جس کی آواز کی شدت سے ہر چیز فناء ہوجائے گی، سب جاندار مرجائیں گے، دوبارہ پھر صور پھونکیں گے جس سے سب مردے زندہ ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔ دلائل
عقیدہ:
حضرت عزرائیل علیہ السلام، یہ مخلوق کی جان نکالنے پر مقرر ہیں اور وقتِ مقررہ پر ان کی روحیں قبض کرتے ہیں۔تشریح
قبض ِروح سے متعلقہ فرشتے: کچھ فرشتے بندوں کی روح قبض کرنے پر مأمور ہیں، جب کسی بندہ کی مدت عمر پوری ہو جاتی ہے تو اللہ کے یہ فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں، یہ فرشتے نہ اس کی مدت سے قبل اس کی روح قبض کرتے ہیں اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی ڈھیل دیتے ہیں۔ ظالموں کی جب موت کا وقت قریب آتا ہے فرشتے ان کی جانب ہاتھ بڑھا کر کہتے ہیں چلو آؤ آج تمہارے لئے ذلت والا عذاب تیار ہے، اور ان کے چہروں پر اور ان کی پیٹھ پر ضربیں لگاتے ہیں اور ان کی روح کو قبض کرلیتے ہیں ۔جبکہ مؤمنین کی روح قبض کرتے ہیں تو انہیں تسلی دیتے ہیں،اور اطمینان دلاتے ہیں کہ تمہارے لئے کسی قسم کا کوئی خوف و حزن نہیں ہے، تمہارے لئے تو جنت کی خوشخبری ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
جو فرشتے روح قبض کرنے پر مأمور ہیں ان کے سربراہ حضرت عزرائیل علیہ السلام ہیں، روح قبض کرنے والے فرشتہ کو ملک الموت کہا جاتا ہے۔
ملک الموت اور حضر ت موسی علیہما السلام:
ملک الموت کے ساتھ حضرت موسی کے ساتھ ایک خاص واقعہ بھی پیش آیا ہے، حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے کہ :جس وقت حضرت موسی کی موت کا وقت قریب آیا ملک الموت حضرت موسی کے پاس ان کی روح قبض کرنے آئے اور کہا اپنے رب کی دعوت پر چلے آئیے، حضرت موسی نے ملک الموت کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا جس سے ان کی آنکھ پھوٹ گئی، ملک الموت اللہ تعالیٰ کے پاس گئے اورکہا کہ آپ نے مجھے اپنے ایسے بندہ کے پاس بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتے، اور انہوں نے تو میری آنکھ ہی پھوڑ دی، اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں صحیح حالت میں کردی اور کہا : میرے بندہ کے پاس جاؤ اور کہو: کیا اور جینا چاہتے ہو؟ اگر ایسا ہے تو کسی بیل کے پیٹھ پر ہاتھ رکھ دو اور جہاں تک اس کی پیٹھ کے جتنے بال چھپ جائیں اتنے سال اور جی سکتے ہو، ملک الموت نے حکم کی تعمیل کی، حضرت موسی نے اس تجویز پر کہا پھر کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا پھر موت کا سامنا کرنا ہوگا، تب حضرت موسی نے فرمایا: تب تو یہی وقت ٹھیک ہے۔
امام ابن حجر نے کہا ہے کہ : بعض مبتدعین اس حدیث کا انکار کر بیٹھتے ہیں، جبکہ صحیح احادیث جس میں غیب کی باتوں کا ذکر ہے ان کامحض عقل و نظر کی بنیاد پر انکار کرنا کہ ہماری عقل و سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے ایمان کے بالکل خلاف بات ہے۔ متقین کی اولین صفات میں سے اہم یہ ہے کہ وہ غیب کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ باقرہ کے فواتح میں ذکر کیا ہے، چنانچہ جب کوئی بات اللہ اور اس کے رسول سے صحت کے ساتھ منقول ہو تو سوائے تصدیق کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

اعمال کو محفوظ کرنے والے فرشتے: ہر بندہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حفاظت کرنے والے فرشتوں کے علاوہ ان کے اعمال کا ریکارڈ تیار کرنے والے فرشتے بھی لگا رکھے ہیں، انسان کوئی بھی کام کرتا ہو، کوئی بات کہتا ہو، اس کی ہر حرکت کو وہ محفوظ کرلیتے ہیں، چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی ان سے نہیں چھوٹتا۔ یہ فرشتے بندہ کے ساتھ ہمیشہ لگے رہتے ہیں، نیک کاموں کو محفوظ کرنے والا فرشتہ داہنی جانب ہوتا ہے، اور برے کاموں کو محفوظ کرنے والا فرشتہ بائیں جانب ہوتا، یہ فرشتے اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے سوائے اس کے کہ کوئی قضاء حاجت کے لئے جائے یا بیوی سے اپنی حاجت پوری کرے۔
احادیث میں آیا ہے کہ ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے رکھی ہے کہ جب کوئی بندہ برائی کا محض ارادہ کرے تو اس کو اس وقت تک نہ لکھو جب تک کہ وہ اس کو کر نہ گذرے، اگر وہ برائی کا ارتکاب کرلیتا ہے تو اس کو ایک برائی لکھ لو، اور جب کوئی بندہ نیکی محض ارادہ کرے اور ابھی وہ نیکی عملاً نہ کرے تب بھی ایک نیکی لکھ لو ، اور جب اس نیکی پر عمل کرلے تو اس کےلئے دس نیکیاں لکھو۔
یہ فرشتے بندہ کے ساتھ موت تک لگے رہتے ہیں، اور پھر قیامت کے دن میدان حشر میں اپنے ریکارڈ کے ساتھ اس بندہ کے ساتھ آ لگتے ہیں، اور حساب کتاب کے وقت اس کے اعمال کو پیش کرتے ہیں۔
اعمال کے ریکارڈ کو فرشتے محفوظ کرتے ہیں قطعی نصوص سے ثابت عقیدہ ہے، اس پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قبر میں ہر آدمی سے دوفرشتے(منکر ،نکیر) سوال کریں گے۔تشریح
منکر و نکیر کے سوالات: ہر شخص کی برزخی زندگی کے شروع ہوتے ہی دو فرشتے اس کے پاس سوال و جواب کےلئے آتے ہیں جن کے نام مُنکَر نَکِیر ہیں۔ مُنکَر نَکِیر ہر شخص سے اس کے رب اس کے دین او ر اس کےرسول کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔

دجال سے مکہ اور مدینہ کی حفاظت: بہت سے فرشتے اس بات پر بھی مأمور ہیں کہ دجال کے فتنہ سے مکہ اور مدینہ کو محفوظ رکھیں۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ مکہ و مدینہ میں داخل ہونے کے جتنے ممکنہ راستے ہیں ان تمام پر فرشتے صف در صف موجود ہوں گے جو ان راستوں کی حفاظت کریں گے۔ مدینہ کے بارے میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ اس وقت اس کے سات دروازے ہوں گے۔ جب بھی دجال مدینہ کی طرف کا رخ کرے گا وہاں فرشتوں کو چوکنا پائے گا ، وہ جب بھی اس میں داخل ہونے کا ارادہ کرے گا فرشتے تلوار لئے اس کے مقابلہ پر ہوں گے، اور پھر وہ اس کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حضرت عیسی علیہ السلام قیامت سے پہلے جب دنیا میں نازل ہوں گے تب وہ فرشتوں کے ذریعہ ہی دنیا میں پہنچیں گے۔تشریح
نزول عیسی کے وقت فرشتوں کی معیت: حضرت عیسی کے نزول کے وقت بھی فرشتوں کی معیت ہوگی۔ حضرت عیسی دمشق کے مشرقی حصہ میں مینارہ بیضاء کے پاس دوسفرشتوں کے بازووں پر ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
قیامت کے واقع ہونے اور دوبارہ زندہ کئے جانے کےلئے صور پھونکنے پر بھی فرشتہ مأمور ہے۔تشریح
نفخ صور پر مأمور فرشتہ۔ قیامت کے واقع ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے صور پھونکنے کو ذریعہ بنایا ہے، اس صور کےپھونکنے پر بھی فرشتہ مأمور ہے، اس فرشتے کا نام اسرائیل ہے، اللہ تعالیٰ نے صور پیدا کرکے اسرافیل علیہ السلام کو دیا ، تاکہ جب انہیں قیامت کے واقع ہونے کےلئے صور پھونکنے کا حکم دیا جائے تو وہ صور پھونک دیں۔ اسرافیل علیہ السلام صور منہ میں لئے ہوئے اس حالت میں بیٹھے ہیں کہ ان کا ایک پاؤں کھڑا ہوا جبکہ ایک دوسرے پاؤں کا گھٹنہ ٹکا ہوا ہے اور ان کی نگاہیں عرش کی جانب لگی ہوئی ہیں ،جیسے ہی انہیں صور پھونکنے کا حکم ملے گا وہ صور پھونک دیں گے، اس دوران وہ کبھی پلک بھی نہیں جھپکاتے مبادا اسی وقت انہیں حکم ہو تو وہ صور پھونکنے میں پلک جھپکنے کی دیر کردیں۔ پہلے صور کے ساتھ ہی سب ختم ہو جائیں گے۔
پھر اسی طرح مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کےلئے بھی یہی فرشتہ اللہ کے حکم سے دوبارہ صور پھونکے گا، جس کے بعد تمام مردے زندہ اٹھ کھڑیں ہوں گے۔
.بند
عقیدہ:
مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے بعد سب کو حشر میں جمع کرنے پر بھی فرشتے مأمور ہیں۔تشریح
بعث بعد الموت کے وقت حشر پر مأمور فرشتے: کچھ فرشتے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر بندوں کو حشر کے میدان میں جمع کرنے پر بھی مأمور ہیں، فرشتوں کی جانب ہی سے جمع ہونے کے لئے ندا دی جائے گی، اور فرشتے زندہ ہونے والوں کو ہانک رہے ہوں گے، اور ایک ایک فرد ان کی جانب سے گن گن کر جمع کیا جائے گا۔
نیکوکاروں کا فرشتے استقبال کریں گے، اور کافروں اور بدکاروں کے ساتھ سخت معاملہ ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
میدان حشر میں حساب کتاب کے مراحل بھی اللہ کے حکم سے فرشتوں کے ذریعہ پورے ہوں گے۔تشریح
میدان حشر میں فرشتوں کے کام: میدان حشر میں فرشتے جہنم کو کھینچ کر لائیں گے، اس دن جہنم کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے کھینچ رہے ہوں گے۔ گویا صرف جہنم کو کھینچنے والے فرشتوں کی تعداد چار ارب نود لاکھ ہوگی۔
حساب کتاب کےلئے اللہ تعالیٰ کی آمد کے موقع پر فرشتے صف در صف کھڑے تسبیح بیان کررہے ہوں گے۔
جب حساب کتاب شروع ہوگا تو وہ فرشتے جنہوں نے اعمال کا ریکارڈ تیار کیا تھا وہ ہر ہر بندہ کے اعمال کا ریکارڈ پیش کریں گے۔اور کچھ وہ ہوں گے جو ان اعمال پر گواہی دیں گے۔
اللہ کے حکم سے مجرمین کو پکڑ کر انہیں پا بہ زنجیر کریں گے اور ان کی گروہ بندی کرکے جہنم کی جانب ہنکا لے جائیں گے، جبکہ مؤمنین کو خوشخبریاں دیں گے اور پھر جہنم کے پل پر سے گذرنے کے بعد اہل جنت کا جنت کے دروازہ پر استقبال کریں گے۔
.بند
عقیدہ:
جہنم کے انتظام پر بھی فرشتے مأمو رہوں گے۔جہنم کے فرشتے بڑے سخت اور تند خو ہوں گے، ان میں کوئی رحم نہیں ہوگا، وہ جہنمیوں سے بڑی سختی سے پیش آئیں گے، ان کے بڑے افسروں کی تعداد انیس ہوگی، ہاں باقیوں کی اصل تعداد نا قابل بیان ہے، اس کو صرف اللہ بہتر جانتے ہیں۔تشریح
جہنم پر متعین فرشتے۔ جہنم کے انتظام پر بھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے، جہنم کے فرشتے نہایت سخت مزاج اور بہت مضبوط اور قوی ہیں ، نہ کوئی ان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی پر رحم کرتے ہیں، اللہ انہیں جو حکم دیتا ہے اس کی وہ نافرمانی نہیں کرتے، بس وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ملتا ہے۔ جہنمی جب ان کے آگے روئیں گے گڑگڑائیں گے وہ صاف کہہ دیں گے یہاں معذرتیں کرنے کا کوئی حاصل نہیں ہے جو تم کرتے رہے ہو یہاں اس کا بدلہ ضرور ملے گا(القرآن)۔
جہنم پر مقرر بڑے افسر فرشتوں کی تعداد ۱۹ ہے، لیکن ان کی ما تحتی میں کام کرنے والے فرشتوں کی تعداد غیر معلوم ہے، اللہ تعالیٰ کے لشکر کی تعداد کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے(القرآن)۔
احادیث صحیحہ سے صرف جہنم کو کھینچ کر میدان حشر میں لانے والے فرشتوں کی تعداد جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوئی ہے۴ ارب ۹۰ لاکھ بیان ہوئی ہے، جہنم کے دیگر کاموں پر مأمور فرشتوں کی صحیح تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
جہنم کے داروغہ کا نام مالک ہے، مشرکین داروغہ جہنم کے آگے فریادیں لائیں گے لیکن وہ ان سے یہی کہے گا کہ ان سب کا کچھ حاصل نہیں ہے تمہیں یہیں اسی عذاب میں رہنا ہے(القرآن)۔
جہنم کے فرشتوں کے بارے میں مذکورہ بالا امور قرآن مجید سے ثابت تفصیلات ہیں اور بالکل بر حق ہے، ان کی تصدیق لازمی ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جنت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کومقرر کیا ہے۔ جنت میں اہل جنت سے فرشتے ملاقاتیں کریں گے اور انہیں دعائیں دیں گے۔تشریح
جنت میں متعین فرشتے: جنت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کومقرر کیا ہے۔یہ فرشتے اول تو اہل جنت کا جنت میں استقبال کریں گے، انہیں سلامتی کی دعائیں دیں گے۔
فرشتے جنت میں اہل جنت سے ملاقات کیا کریں گے ، اور ااور ان کو سلامتی کی دعائیں دے کر جنت کی نعمتوں پر مبارک باد دیں گے۔(القرآن)احادیث میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ فرشتے اہل جنت کی رہائش گاہوں پر حاضر ہو کر ان کے خادمین سے داخلہ کی اجازت طلب کریں گے اور جب انہیں اجازت ملے گی تو ان کے لئے دروازہ کھولا جائے گا وہ آئیں گے اور انہیں سلام کرکے لوٹ جائیں گے۔

کائنات کے امور کی تدبیر سے متعلقہ فرشتے: تمام امور کی تدبیر درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ ہے، ہاں اس نے اپنے فرشتوں کو اس کام پر اپنی حاکمانہ شان سے مأمور فرمایا ہے، تمام فرشتے خواہ وہ ملأاعلیٰ کے مقرب فرشتے ہوں یا عام فرشتے ہوں سب اپنی پوری توجہ اللہ رب العزت کی جانب رکھتے ہیں، اور صف باندھے اللہ تعالیٰ کے احکام کے منتظر رہتے ہیں، اور جب بھی انہیں کوئی حکم تفویض ہوتا ہے وہ اس کی تعمیل میں لگ جاتے ہیں۔
چنانچہ کائنات کے تمام کاموں کی تدبیر پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے، اور سب اللہ کے حکم کے مطابق تمام کاموں کو انجام دیتے ہیں۔احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان والوں کو اپنا کوئی فیصلہ سناتے ہیں تو فرشتے اس کے آگے اپنی تابعداری ظاہر کرنے کےلئے اپنے پروں کو حرکت دیتے ہیں اور اس سے ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے لوہے کی زنجیر کو پتھر کی چکنی چٹان پر رگڑا جارہا ہو،جب ان کی گھبراہٹ ختم ہوتی ہے وہ آپس میں پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے وہ کہتے ہیں : اس نے جو کچھ کہا وہ حق ہے وہ بلند و برتر ہے۔ اور ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ سناتے ہیں حاملین عرش اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، اور پھر ان سے متصل فرشتے اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، یہاں تک کہ آسمان دنیا تک کے تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پھر وہ فرشتے جو حاملین عرش کے پاس ہوتے ہیں وہ ان سے سوال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے؟حاملین عرش انہیں وہ بات بتلاتے ہیں جو اللہ نے فرمائی ہے۔ اس طرح وہ بات تمام آسمان والوں تک پہنچتی ہے۔
ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب بطور خاص وحی کے لئے کلام فرماتے ہیں آسمان پر اللہ کے خوف سے ایک سخت کپکپی طاری ہو جاتی ہے، اور جب آسمان والے اس کو سنتے ہیں تو وہ سجدہ میں گر پڑتے ہیں، اور سب سے پہلے حضرت جبرئیل سر اٹھاتے ہیں، اور اللہ جو چاہتا ہے ان سے بطور وحی کے کلام فرماتا ہے، اور وہ بات پھر تمام تک اس طرح پہنچتی ہے کہ جب بھی وہ کسی آسمان سے گذرتے ہیں اس آسمان والے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے رب نے کیا کہا ہے؟ وہ فرماتے ہیں : کہ جو بھی کہا ہے حق ہے اور پھر وہ اس بات کو ان تک پہنچاتے ہیں۔
کائنات اپنی حیرت انگیز وسعتوں کے ساتھ اپنے کاموں میں بھی اتنی ہی وسعت رکھتی ہے، ان فرشتوں کو اللہ نے کون کونسے کام سپرد کئے ہیں ان کی تفصیلات اللہ ہی بہتر جانتے ہیں، ہاں فرشتوں کے جن کاموں کی تفصیلات کو اللہ نے اپنی کتاب میں اور اپنے پیغمبر ﷺکے ذریعہ بتلایا ہے ان کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بہت سے فرشتے اہل زمین کے مفادات مثلاً ہواؤں بادلوں اور بارش برسانے پر مأمور ہیں۔تشریح
ہواؤوں، بادلوں اور بارش سے متعلقہ فرشتے: انسانی مفادات کےلئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بہت سے کاموں پر لگایا ہے، جن میں سے سب سے اہم رزق کی فراہمی ہے، اور رزق کی فراہمی میں بارش کو خاص دخل ہے، اور بارش کےلئے ہواؤں کو خاص دخل ہے، چنانچہ ہوائیں ،بادل، بارش یہ سب امور فرشتوں کی ماتحتی میں دئیے گئے ہیں ۔
جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے نرم اور مفید ہوائیں اور جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے سخت خطرناک ہوائیں اللہ کے حکم ہی سے فرشتے چلاتے ہیں۔
بارش کےلئے سمندروں پر تیز ہواؤں کو چلا کر ان سے پانی کے ذرات بنا کر ان کو اٹھانے ،اور بادلوں کو پانی سے بھرنے، پھر ان کو ہنکا کر متعلقہ مقامات تک لے جانے اور متعینہ جگہوں پر متعینہ مقدار میں پانی برسانے پر بھی فرشتے مأمور ہیں۔
فرشتے ہواؤں اور بادلوں پر حکم جاری کرتے ہیں اور وہ اس طرف چل پڑتے ہیں جدھر وہ ان کو ہنکاتے ہیں۔
جہاں اللہ چاہتا مناسب اور معتدل مقدار میں مفید بارش ہوتی اور زمین سے رزق کے خزانے اگلوائے جاتے ہیں، جہاں اللہ چاہتا ہے غیر معتدل بارش ہوتی ہے اور فصلیں تباہ ہو جاتی ہے، یا جہاں اللہ چاہتا سخت اور گرم ہوائیں چلتی ہیں اور اس سے بھی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، ان سب کاموں پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مأمور کررکھا ہے، اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق ان کاموں پر لگے ہوئے ہیں۔
حدیث میں وارد ہوا ہے کہ فرشتے بارش پر اس حد تک گرفت رکھتے ہیں کہ وہ جہاں چاہیں ایک تنہا فرد کے مفاد کےلئے تک ان کو برساتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے جنگل میں بادلوں میں ایک آواز سنی کہ کوئی بادل سے خطاب کرکے کہہ رہا ہے، چلو اور فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو، اور وہاں موجود بادل چل پڑا، بادل آگے بڑھ کر ایک جگہ برس پڑتا ہے اور اس کا پورا پانی نالیوں کی شکل میں بہہ کر ایک باغ تک جاتا ہے جہاں ایک موجود شخص اس پانی کو درختوں کی کیاریوں تک پہنچاتا ہے، وہ جنگل والا شخص اس پانی کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ کر یہ سب دیکھتا ہے، وہ شخص باغ والے آدمی پوچھتا ہے کہ ائے اللہ کے بندہ ! تمہارا نام کیا ہے؟ جب وہ اپنا بتاتا ہے تو اس کو یاد آتا ہے کہ یہ وہی نام ہے جو بادلوں کو خطاب کرکے لیا گیا تھا کہ اس کے باغ کو سیراب کرو۔ باغ والا اس شخص اس آدمی پوچھتا ہے کہ تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو، وہ شخص جواب دیتا ہے کہ میں نے بادلوں میں تمہارا نام سنا کہ تمہارا نام لے کر انہیں حکم دیا گیا ہے کہ یہ تمہارے باغ کو سیراب کریں۔ آخر تمہارا ایسا کونسا عمل ہے جس کی بنیاد پر یہ معاملہ پیش آرہا ہے۔ باغ والا شخص جواب میں کہتا ہے کہ: میں اپنی پیداوار کا ایک تہائی حصہ صدقہ کر دیتا ہوں، اور ایک تہائی حصہ اپنے اور اپنے اہل کےلئے نکال لیتا ہوں اور ایک تہائی حصہ پھر اسی پیداوار کےلئے خرچ کرتا ہوں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بعض فرشتے اہل زمین کے دیگر مفادات مثلاً پہاڑوں پر مأمور ہیں۔تشریح
پہاڑوں سے متعلقہ فرشتے: ہواؤں اور بادلوں کے علاوہ زمین کے اور دیگر کاموں پر دیگر فرشتے مأمور ہیں، زمین کے مفادات میں ایک معاملہ پہاڑوں سے جڑا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں پر مستقل فرشتے مقرر رکھے ہیں جو ان کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ طائف کے موقعہ پر جب اہل طائف نے نبی ﷺ کو سخت ترین تکلیف اور اذیت پہنچائی ، اس وقت آپ ﷺ نے ایک بہت ہی درد بھری دعا کی، جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کو بھیجا اور ساتھ ہی پہاڑوں پر مأمور فرشتے کو بھی بھیجا ، حضرت جبرئیل نے اللہ کا پیغام پہنچایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے جواب کو دیکھا ہے اور آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے آپ ان کےلئے اس فرشتہ کو جو چاہیں حکم دے سکتے ہیں۔ پہاڑوں کا فرشتہ آپ کو سلام عرض کرکے کہتا ہے: میں پہاڑوں پر مأمور فرشتہ ہوں، پروردگار نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو حکم دیں اس کی تعمیل ہو، اگر آپ حکم دیں تو انہیں ان پہاڑوں کے درمیان کچل دیا جائے؟آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ نہیں ، مجھے امید ہے کہ ان کی نسلوں میں وہ لوگ پیدا ہوں گے جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
رحم مادر پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کیا ہے کہ وہ اس کے مختلف مراحل کے مفادات کی نگرانی کریں، اور جس جنین کی زندگی کا فیصلہ ہو جائے اس کی تصویر کشی کرکے اس کے تخلیقی مراحل کی تکمیل کریں۔جب جنین رحم میں چار ماہ مکمل کرلیتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے اس کی عمر، اس کا رزق ، اس کا عمل اور اس کا نیک بخت ہونا یا بدبخت ہونا لکھ دیتے ہیں۔شریح
جنین سے متعلقہ فرشتے: رحم مادر میں جنین پر بھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مأمور کررکھا ہے، کہ وہ جنین کے مختلف مراحل کے مفادات کی نگرانی کرے، جب مادہ منویہ شہوت کے وقت وفور کے ساتھ خارج ہو کر رحم میں منتشر ہوتا ہے اگر اس کو اللہ کے علم مطابق محفوظ کرنا ہوتو اللہ تعالیٰ اس کو جمادیتے ہیں، اور اس پر تخلیق کے آغاز کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے، اور چالیس دن اس پر گذرتے ہیں، اس دوران فرشتہ اس کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے، پھر نطفہ علقہ کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور اس حال میں چالیس دن گذرتے ہیں، پھر علقہ مضغہ کی شکل اختیار کرتا ہے، اور اس حال میں چالیس دن گذرتے ہیں، اور ان تینوں :نطفہ، علقہ اور مضغۃ کے مراحل میں سے ہر مرحلہ پر وہ فرشتہ اللہ تعالیٰ کو اس مرحلہ کی رپورٹ دیتا ہے، اور آگے کے بارے میں سوال کرتا ہے، کہ وہ اپنی مدت پوری کرکے اگلا مرحلہ طے کرے یا ساقط کردیا جائے وغیرہ، اسی دوران اس کے مذکر و مؤنث ہونے کا فیصلہ بھی کیا جاتا ہے۔ جب جنین چار ماہ پورے کر لیتا ہے تو اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ کے حکم سے فرشتہ اس کی تصویر کشی ہوتی ہے، اس کو سمع بصر دئیے جاتے ہیں، اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ اس کے بارے میں چار امور لکھ دیتا ہے کہ اس کی زندگی میں اللہ نے اس کےلئے کیا رزق مقدر کیا ہے، اس کی عمر کیا ہوگی، اس کا عمل کیا ہوگا، اور انجام کے اعتبار سے وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بہت سے فرشتے بندوں کی حفاظت پر مأمور ہیں۔تشریح
بندوں کی حفاظت پر مأمور فرشتے: اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی حفاظت کےلئے فرشتوں کو مقرر کرکھا ہے، انہیں ’’حَفَظَہ‘‘ کہتے ہیں، یہ چار فرشتے ہیں، صبح میں دو فرشتے اور شام میں دو فرشتے جو اپنی اپنی باری میں بندہ کی ان چیزوں سے حفاظت کرتے ہیں جن سے اللہ اس کی حفاظت چاہتا ہے، چنانچہ اگر کسی بندہ کےلئے مقدر امور سے ہٹ کر اس کے آس پاس کوئی آفت آتی ہے تو وہ بندہ اس سے صاف بچا لیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس بندہ کی موت کےلئے مقررہ وقت تک جاری رہتا ہے، جب کسی بندہ کی موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ حفاظت کرنے والے فرشتے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہر بندہ کی حفاظت کےلئے باقاعدہ نظام بنایا، اور حفاظت کرنے والوں کو ہمارے ساتھ لگادیا، أللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ لَکَ الشُّکْرُ۔
احادیث میں وارد ہوا ہے کہ صبح کے فرشتے فجر کی نماز سے اور شام کے فرشتے عصر کی نماز سے اپنی ذمہ داریاں شروع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے نیک بندوں کے بارے میں سوال بھی کرتے ہیں فرشتوں نے ان بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے احوال کو خوب جانتا ہے، فرشتے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ ائے اللہ ! ہم نے ان کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز ادا کررہے تھے، اور اس حال میں ان کے پاس آئے کہ وہ نماز ادا کررہے تھے۔
یہ فرشتے ان فرشتوں سے الگ ہیں جو اعمال کا ریکارڈ تیار کرتے ہیں ان کا ذکر آگے اپنے مقام پر آئے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتوں میں سے جن کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ان کو انسانی جسم میں ظاہر ہونے کی قدرت عطاء فرمائی ہے۔ایسے فرشتے انسانی شکل میں انبیاء اور غیر انبیاء میں سے اور جن سے اللہ چاہتا وہ ملاقات کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام و ہدایات پہنچاتے ہیں۔تشریح
فرشتوں کا انسانی شکل میں ظاہر ہونا: فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ قدرت عطاء فرمائی ہے کہ وہ انسانی شکل میں ظاہر ہوں، بالعموم فرشتے انسانوں خاص کر انبیاء اور ان کی امتوں کے سامنے انسانی شکل میں ہی ظاہر ہوئے ہیں۔ خود صحابہ کے سامنے حضرت جبرئیل کبھی اجنبی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں جبکہ انہوں نے ایمان، اسلام ،احسان اور قیامت کی علامات سے متعلق سوالات کئے۔ اور اکثر حضرت جبرئیل آپ ﷺ کے پاس حضرت دحیہ کلبی کی شکل میں ظاہر ہوتے تھے۔ انبیاء میں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط اور ان کی قوم کے سامنے فرشتے انسانی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں، ایسے ہی روح القدس حضرت مریم کے سامنے انسانی شکل میں ظاہر ہوئے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے جب اللہ کے حکم سے ظاہر ہوں تو انسان ان کو دنیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں، خواہ وہ انسانی شکل میں ہوں یا اپنی اصلی حالت میں ہوں، لیکن یہ اللہ کی مشیت پر منحصر ہے کہ کون ان کو دیکھ سکتا ہے۔تشریح
فرشتے جب انسانی ہیئت میں ظاہر ہوتے ہیں توانسان فرشتوں کو بآسانی دیکھ سکتے ہیں، جیسا کہ صحابہ نے حضرت جبریل کو انسانی ہیئت میں دیکھا ہے، حضرت ابراہیم سے فرشتوں نے انسانی شکل ملاقات کی ہے، حضرت لوط اور ان کی قوم کے سامنے بھی فرشتے انسانی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں، حضرت مریم کے سامنے روح القدس انسانی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں۔ہاں فرشتوں کو ان کی اصل شکل میں دیکھنا عام انسانوں کےلئے آسان نہیں ہے، ہاں ممکن ضرور ہے، نبی ﷺ نے حضرت جبرئیل کو دو مرتبہ ان کی اصل شکل میں بھی دیکھا ہے۔
روح قبض کرنے والے فرشتوں کو بھی وہ شخص دیکھتا ہے جس کی روح قبض کی جا رہی ہے، ملک الموت کو انبیاء نے دیکھا ہے، برزخ میں ہر شخص ’’منکر نکیر‘‘ فرشتوں کو دیکھے گا، اور پھر قیامت کے دن تو میدان حشر میں فرشتے سب کے سامنے ہوں گے لیکن اس دن کفار کا فرشتوں کو دیکھنے میں کوئی بھلائی اور خوشخبری نہیں ہوگی۔
انبیاء اپنی قوموں کو جب دعوت دیتے تو عام طور پر ان کی قومیں اس بات کا مطالبہ کرتی تھیں کہ تمہارے ساتھ ایک فرشتہ کو کیوں نہیں مأمور کیا گیا کہ ہم اس کو تمہارے ساتھ دیکھتے تو ہم تم پر ایمان لے آتے، لیکن ان کے اس مطالبہ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہر دور میں سختی کے ساتھ رد کیا گیا ہے ، کیونکہ ایمان کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ غیب پر ہو، اگر ایمان غیب پر نہیں ہوگا تو وہ اس کا اعتبار ہے، جب فرشتے ظاہر ہو جائیں تو وہ غیب کہاں شہود ہو جائے گا، اس لئے اللہ کی جانب سے یہی جواب دیا جاتا کہ اگر فرشتہ آجائیں تو پھر وہ عذاب کا دن ہوگا، کیونکہ غیب شہود بن جانے کے بعد پھر خاتمہ ہو جاتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جہاں اللہ کی مشیت ہوتی ہے افرادِ قوم کی اذیت کے مقابلہ میں فرشتے رسولوں کی ظاہری حمایت بھی کرتے ہیں۔ بعض نیک بندوں کی بھی فرشتے اللہ کے اذن سے عام عادت سے ہٹ کر مدد کرتے ہیں۔تشریح
فرشتوں کی جانب سے انبیاء و رسل اور نیکو کاروں ﷺ کی حمایت ومدد۔ انبیاء و رسل اپنی دعوت کے اظہار کے بعد اپنی قوم کی مخالفت اور ان کی ایذا رسانیوں کو ہر طرح سے برداشت کرتے ہیں، وہ ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہیں، حتی کہ انہیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کی اپنے فرشتوں کے ذریعہ ان کے آگے رکاوٹ نہیں بنتے، کیونکہ اصل فیصلہ کی جگہ آخرت ہے۔
ہاں کبھی اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی حمایت بھی کرتے ہیں، اور سرکشوں کو ان کی سرکشی سے باز رکھا جاتا ہے۔
ایک مرتبہ ابو جہل نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ کیا محمد تمہارے سامنے عبادت کرتے ہیں ہوئے کبھی سجدہ ریز ہوتے ہیں،انہوں نے کہا: ہاں۔ ابوجہل کہنے لگا : اگر میں نے انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو (نعوذ باللہ) میں ان کا چہرہ مٹی میں روند دوں گا، اس ارادہ سے وہ وہاں آیا جہاں آپﷺ نماز ادا کررہے تھے، ابو جہل نے جب اپنا ناپاک ارادہ کیا تو جیسے ہی وہ آگے بڑھتا تیزی سے پیچھے ہٹ جاتا اور اپنے دونوں ہاتھ تیزی سے آگے کرکے جھٹکنے لگتا، لوگوں نے اس سے وجہ پوچھی تو بتلایا کہ جیسے ہی میں آگے بڑھتا آگ کی ایک خندق سامنے آجاتی اور اس میں ایک مخلوق تھی جس کے بازو اور پر تھے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ : اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے اعضاء کے تکڑے تکّڑے کردیتے۔
اسی طرح بعض نیک بندوں کی بھی فرشتے عام عادت سے ہٹ کر مدد کرتے ہیں، ایک مضطر جو ہر طرح کے ظاہری اسباب سے محروم ہو جائے اور وہ اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد کےلئے فرشتوں کو بھیجتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ کو حضرت اسماعیل کے ساتھ مکہ کی سر زمین پر چھوڑا تو حضرت اسماعیل گود کے بچہ تھے، ایک وقت آیا جب حضرت ہاجرہ کے پاس مشکیزہ میں پانی کا ذخیرہ ختم ہوگیا، وہ خود بھی پیاسی تھیں اور حضرت اسماعیل پیاس سے بلک رہے تھے، حضرت ہاجرہ نے پانی کےلئے بہت دوڑ دھوپ کی، صف و مروہ پہاڑی پر بار بار چڑھ جاتیں اور تلاش جاری رکھتیں، اس حالت میں ان کی دعائیں جاری تھیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول کیا، اور ایک فرشتے کو بھیجا ، اس فرشتے نے انہیں آواز دی لیکن وہ دکھائی نہیں دیا، حضرت ہاجرہ نے اس آواز کو محسوس کرکے کہا کہ : میں نے تمہاری آواز سن لی ہے اگر تم مدد کر سکتے ہو تو کرو، اس فرشتے نے اپنے بازو سے زمین پر مارا اور زمین سےسے پانی کا چشمہ ابل پڑا، یہی چشمہ زم زم ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے انبیاء اور مؤمنین کے پاس اللہ کی جانب سے خوشخبریاں پہنچانے پر بھی مأمور ہیں۔تشریح
نیکوکاروں کو خوشخبریاں دینے والے: اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی جانب خوشخبریاں سنانے کےلئے بھی فرشتوں کو مأمور بناتے ہیں، چنانچہ یہ فرشتے اللہ کا پیغام لے کر ان نیک بندوں کے پاس جاتے ہیں اور انہیں اللہ کی جانب سے دی گئی خوشخبری سناتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب معمر ہوگئے، اور ان کی بیوی حضرت سارہ بھی معمر تھیں اور ساتھ ہی بانجھ بھی تھیں، انہیں اولاد کی بہت خواہش تھی، وہ اللہ سے صالح اولاد کے لئے دعا کرتی تھیں، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ انہیں اولاد کی خوشخبری سنائی، حضرت سارہ کےلئے یہ خوشخبری ایک انوکھی اور خوشگوار حیرت کی وجہ بنی، انہوں نے فرشتوں کے سامنے اپنے خدشہ کا اظہار کیا کہ میں بانجھ ہو اور میرے شوہر بوڑھے ہو گئے ہیں ہمیں اولاد کیسے ہو سکتی ہے، یہ ایک عجیب بات ہے، فرشتوں نے ان سے خطاب کرکے کہا : کیا تم اللہ کی جانب سے مقدر بات پر تعجب کررہی ہو، یہ تو اللہ کی جانب سے تمہارے گھر پر رحمتوں اور برکتوں کا معاملہ ہے، بلاشبہ اللہ حمد والا اور مجد والا ہے۔
اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام بے اولاد تھے، ان کی بڑی خواہش تھی کہ اللہ انہیں ایک اولاد عطا فرمائے، جو ان کے آباء و اجداد کے دین کا وارث بنے، وہ بکثرت اللہ سے دعائیں مانگتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء کو قبول فرمایا، اور جب وہ اپنی عبادت کی جگہ اللہ کی جانب متوجہ تھے، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ انہیں حضرت یحیٰ کی خوشخبری دی۔
یہ معاملہ صرف انبیاء و رسل کا ہی نہیں ہے بلکہ فرشتے اللہ کے حکم سے غیر انبیا ء مؤمنین اور نیکوکاروں کو بھی اللہ کی جانب سے خوشخبریاں سناتے ہیں۔ حضرت مریم کو حضرت عیسی کی خوشخبری حضرت روح الامین حضرت جبرئیل نے دی، اسی طرح حضرت خدیجہ کو حضرت جبرئیل نے جنت میں ایک محل کی خوشخبری نبی ﷺ کے ذریعہ دی۔
حدیث پاک میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی ایک گاؤں میں اپنے بھائی سے ملاقات کے لئے گیا، اس کے راستہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کو بھیجا، فرشتہ نے اس سے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ: اس گاؤں میں میرا ایک بھائی رہتا ہے اس سے ملنے جا رہا ہوں، فرشتے نے سوال کیا : کیا اس نے تم پر کوئی احسان کیا تھا؟ اس نے جواب میں کہا : میں اس سے صرف اللہ واسطے کی محبت رکھتا ہوں اور صرف اسی لئے اس سے ملنے آیا ہوں، فرشتہ نے اس سے کہا میں تمہاری جانب اللہ کا پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں کہ: اللہ تعالیٰ تم سے ایسے ہی محبت کرتا ہے جیسے تم اس سے اللہ کے واسطہ سے محبت رکھتے ہو(صحیح مسلم)۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
کافروں اور اللہ کے نافرمانوں پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔ تشریح
کفار و مشرکین اور نافرمانوں پر لعنت کرنے والے: وہ لوگ جنہیں رسولوں کی حقانیت کا یقین ہوتا ہے، پھر بھی وہ رسولوں کی مخالفت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرشتے اور انسان سبھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔
وہ شخص جو اپنے بھائی پر ہتھیار اٹھاتا ہے یا محض ہتھیار سے اشارہ کرتا ہو کہ وہ اس پر ہتھیار بھی اٹھا سکتا ہے اس فساد پر فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
اسی طرح جو شحص قتل عمد کا مرتکب ہوا ہو اس کے قصاص کے درمیان اگر کوئی رکاوٹ بنتا ہے تو وہ بھی اللہ اور انسانوں کے ساتھ فرشتوں کی لعنت کا مستحق بنتا ہے۔
اور اسی طرح احادیث میں مدینہ کے احترام کو مجروح کرنے والے پر اللہ تعالیٰ اور انسانوں کے ساتھ فرشتوں کی لعنت کو بیان کیا گیا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بہت سے فرشتے قوموں پر عذاب نازل کرنے کےلئے بھی مأمور ہیں۔ تشریح
کفار و مشرکین کو عذاب دینے والے: انبیاء و رسولوں کی دعوت کےبعد جب کوئی قوم اپنے نبی کی بات کو رد کردیتی ہے یا معجزہ دکھانے کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتی ہے، یا سرکشی اور انسانوں پر ظلم میں حد سے بڑھ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ ان پر عذاب نازل کرتا ہے، جس سے پوری پوری قوم اور بستی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
قوم عاد پر سخت ہواؤوں کے ذریعہ عذاب بھیجا گیا، وہ فرشتے جو ہواؤوں پر مأمور ہیں ان کے ذریعہ یہ عذاب مسلط کیا گیا۔
اسی طرح قوم ثمود جس پر اللہ تعالیٰ نے ایک طرف سے زمین میں شدید زلزلہ کا عذاب بھیجا اور دوسری طرف اوپر کی جانب سے فرشتہ کی چیخ کے ذریعہ عذاب کو بھیجا اور اس سے ان سب کا خاتمہ ہوگیا۔
اسی طرح قوم لوط ان کی پوری کی پوری بستی کو فرشتہ اپنے پر سے زمین سے اکھاڑا اور آسمانوں کی جانب بلند کرکے بری طرح زمین پر دے مارا اور پوری کی پوری قوم ختم ہو گئی۔
اسی طرح قوم شعیب پر بھی جب عذاب بھیجنا مقدر ہو گیا تو ان پر بھی فرشتہ کی چیخ /دھاڑ کے ذریعہ عذاب بھیجا گیا اور وہ سب کے سب مارے گئے۔
اللہ تعالیٰ نے قوموں پر جب اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت نے تقاضا کیا فرشتوں کے ذریعہ عذاب بھیجا ہے، یہ عقیدہ قطعی ہے، اس پر ایمان لازمی ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔
کسی پر عذاب استیصال بھیجا گیا کہ پوری کی پوری قوم کو ختم کردیا گیا، یا پھر کسی قوم پر جزوی عذاب بھیجاگیا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حق و باطل کی میدان جنگ میں لڑائی میں فرشتے بھی اہل حق کی تائید و نصرت کے لئے معرکوں میں شریک ہوتے ہیں۔تشریح
مؤمنین کے ساتھ مل کر کافروں سے قتال: اہل حق اور باطل پرستوں کے درمیان جب میدان جنگ میں معرکہ آرائی ہوتی ہے تو شیطان اور اس کے چیلے باطل پرستوں کو بہکانے اور تمنائیں دلانے میں لگے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کے حکم سے فرشتے اہل حق کی تائید میں ان کی نصرت کرتے ہیں، کہیں صرف غیر محسوس انداز میں ان کی ہمت بندھاتے ہیں اور کفار کے دلوں میں مؤمنین کا رعب پیدا کرتے ہیں اور کہیں خود بھی معرکہ میں حصہ لیتے ہیں۔
ایک ہی فرشتہ اس بات کی قوت رکھتا ہے کہ پوری کی پوری بستیوں کو الٹ دے، لیکن ایسے معرکوں میں وہ انسانی قوت کے برابر ہی زور لگاتے ہیں، بلکہ فرشتوں کی مدد ایک طرح سے حق کی تائید میں باطل پرستوں سے مقابلہ کرنے کےلئے مؤمنین کے قلبی اطمینان کا ذریعہ ہے۔چنانچہ خود معرکہ بدر میں اللہ تعالیٰ ہزاروں کی تعداد میں فرشتوں کو بھیج کر مؤمنین کی ہمت بندھائی۔
اسی طرح غزوہ خندق میں فرشتے معرکہ میں شامل رہے ۔ اور غزوہ خندق سے جب آپ ﷺ کی واپسی ہوئی فوری حضرت جبرئیل آپ ﷺ کے پاس آئے، اور کہا کہ: آپ نے ہتھیار رکھ دیا، اللہ کی قسم ہم نے ابھی ہتھیار نہیں رکھا ہے، اور کہا کہ ان کی طرف چلئے، آپ ﷺ نے پوچھا کدھر کا ارداہ ہے، حضرت جبرئیل نے بنو قریظہ کی جانب اشارہ کیا، اور نبیﷺ اور صحابہ نے پھر بنو قریظہ کا ارادہ کیا ۔ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ بنو قریظہ اور یہودی ہی جنگ خندق /اور غزوہ احزاب کے اصل سازشی تھے،اس معرکہ میں بھی فرشتے شامل تھے۔
معرکہ بدر وغیرہ میں مؤمنین کی حمایت و نصرت کےلئے فرشتوں کی آمد قطعی نصوص سے ثابت ہے، خواہ وہ صرف مؤمنین کی ہمت بندھانے کےلئے ہو یا معرکہ میں عملاً حصہ لینے کےلئے ہو فرشتوں کی یہ آمد یقینی ہے ، اس پر ایمان لازم ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتوں کی زمین پر آمد اور ان کا ہر کام اللہ کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔تشریح
فرشتوں کی صبح و شام آمد: فرشتوں کی انسانوں کے درمیان آمد مسلسل جاری رہتی ہے، لیکن ہر آمد اللہ کے اذن اور حکم سے ہوتی ہے، فرشتے کہیں بھی محض اپنی مرضی سے آتے جاتے نہیں ہیں، وہ اپنے ہر عمل میں اللہ کے حکم کے پابند رہتے ہیں۔
ایک موقعہ پر نبی ﷺ نے حضرت جبرئیل سے اپنی خواہش ظاہر فرمائی کہ آپ جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ آیا کریں، اس پر قرآن پاک آیت وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا نازل ہوئی کہ ان فرشتوں کی آمد اللہ کے حکم کے تابع ہوتی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے انسانوں کے اللہ کی مخلوق کے خیر خواہ ہیں، اور وہ اللہ کے بندوں کی نصرت و حمایت میں لگے رہتے ہیں۔تشریح
مؤمنین کے لئے فرشتوں کی خیر خواہی: ہر بندہ کےلئے بالعموم اور خاص طور سے مؤمنین کے فرشتے خیر خواہ ہوتے ہیں، ہر بندہ کےلئے ان کی خیر خواہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر ایک لئے ہدایت کی دعاء کرتے ہیں، جبکہ مؤمنین کےلئے ان کی خیر خواہی خاص طور سے ہوتی ہے اور وہ اس بات پر مأمور ہیں کہ مؤمنین کےلئے جہاں ضرورت ہو اور اللہ کی مشیت ہو مدد فرمائیں۔ حضرت حسان کے بارے میں نبی ﷺ نے دعاء فرمائی کہ ائے اللہ حسان کی روح القدس کے ذریعہ مدد فرمائیے۔
ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ کہ وہ آج رات اپنی تمام بیویوں کے پاس جائیں گے (اور ان سے ہم بسرتی کریں گے) اور ان سے جو اولاد ہوگی وہ اللہ کی راہ میں قتال کریں گے، ان سے فرشتہ نے کہا کہ اس موقع پر انشاء اللہ کہہ لو، لیکن وہ بھول گئے، جس کے نتیجہ میں صرف ایک بیوی کو اولاد ہوئی اور وہ بھی ناقص۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
نیک بندوں سے فرشتے محبت کرتے ہیں۔تشریح
فرشتوں کی نیک بندوں سے محبت: فرشتے اللہ کے حکم سے نیک بندوں سے محبت کرتے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتے ہیں تو حضرت جبرائیل کو ندا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندہ سے محبت کرتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو، حضرت جبرئیل اس بندہ سے محبت کرتے ہیں، پھر حضرت جبرئیل آسمان والوں میں ندا لگاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندہ سے محبت کرتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو، اور تمام آسمان والے اس بندہ سے محبت کرنے لگتے ہیں، اور پھر زمین والوں میں بھی ایسی ہی ندا لگائی جاتی ہے اور اس بندہ کی محبت لوگوں میں عام ہوتی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے بندوں کے حق میں نیک کاموں کی دعائیں کرتے ہیں ، اور جو بندے نیک کام کرتے ہیں فرشتے ان کے حق میں نعمتوں اور برکتوں کی دعائیں کرتے ہیں۔فرشتے بندوں کےلئے استغفار بھی کرتے ہیں۔تشریح
بندوں کے حق میں دعا کرنے والے فرشتے: حدیث پاک میں آیا ہے کہ ہر روز جب بندے صبح اٹھتے ہیں تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ایک فرشتے کہتا ہے :ائے اللہ !مال خرچ کرنے والے کو پھر سے مال دیجئے۔اور دوسرا فرشتہ کہتا ہے :ائے اللہ ! کنجوس کے مال کو تلف کردیجئے۔
حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ علم سیکھنے سکھانے والے کے حق میں اللہ تعالیٰ فرشتے اور تمام آسمان و زمین والے یہاں تک کہ بلوں میں چیونٹیاں اور سمندر میں مچھلیاں تک دعائیں کرتے ہیں۔
جب تک ایک نمازی اپنے مصلیّٰ پر ہوتا ہے فرشتے اس کے حق میں دعاء کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ائے اللہ! اس بندہ کی مغفرت فرمائیے، ائے اللہ! اس بندہ پر رحم فرمائیے ۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹ جائے۔
اسی طرح وہ لوگ جو صف اول میں نماز ادا کرتے ہیں ان کےلئے فرشتےخاص دعاء کرتے ہیں۔
اسی طرح وہ بندے جو راتوں میں اٹھ کر عبادت میں مشغول ہوتے ہیں فرشتے ان کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔
وہ بندہ جو دیگر انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کرتے ہیں فرشتے ان کے حق میں بھی دعائیں کرتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ کسی بیمار بندہ کی شام کے وقت عیادت کرتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے لگے جاتے ہیں اور صبح تک اس کے حق میں اللہ سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اور جو بندہ صبح کسی مریض کی عیادت کرتا ہے اس کے حق میں ستر ہزار فرشتے شام تک اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
حدیث پاک میں یہ بھی آیا ہے کہ جب کوئی بندہ کسی دوسرے بندہ کے لئے اس کے غیاب میں دعاء کرتا ہے وہ ضرور قبول ہوتی ہے، ایسے وقت اس کے پاس ایک فرشتہ ہوتا ہے جو اس کی دعاء پر پر آمین کہتا ہےاور خود دعاء کرنے والے کے حق میں بھی اسی کے مثل دعاء دیتا ہے۔
اور بندہ جو بھی دعاء کرتا ہے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں، اس لئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے حق میں دعاء خیر ہی کیا کرو۔
اسی طرح زمین والے جن گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں فرشتے اللہ تعالیٰ سے ان کےلئے استغفار کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان بندوں کی بخشش فرمائیں۔
فرشتوں کی آمین سے موافقت کا اثر:
فرشتوں کی اللہ تعالیٰ کے یہاں مقام ،ان کی مزاجی نیکی کی وجہ اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ جب وہ کسی کے حق میں دعاء کرتے ہیں وہ ضرور قبول ہوتی ہے، اور جس کسی کی دعاء پر وہ آمین کہتے ہیں اور دعاء کرنے والے کی آمین اور فرشتوں کی آمین میں موفقت ہو جائے تو دعاء کرنے والے کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔دلائل
.بند
عقیدہ:
علم و ذکر کی مجلسوں میں فرشتے اہتمام سے شرکت کرتے ہیں۔تشریح
علم و ذکر کی مجلسوں میں فرشتوں کی آمد: فرشتہ اس بات پر بھی مأمور ہیں کہ وہ دین کے علم اور اللہ کے ذکر کی مجالس میں شرکت کیا کریں، چنانچہ وہ زمین میں گھومتے رہتے ہیں، اور جب کوئی مجلس ایسی پاتے ہیں جہاں اللہ کا ذکر ہوتا ہے وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو ندا دیتے ہیں کہ جس بات کی تلاش میں ہم تھے وہ یہاں ہے اور وہ سب اس مجلس کو آسمان دنیا تک گھیر لیتے ہیں۔
اسی طرح وہ طالب علم کی قدموں میں اپنے پروں کو بچھاتے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جمعہ میں شرکت کا ریکارڈ فرشتے خاص طور سے تیار کرتے ہیں۔تشریح
فرشتے جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لئے آنے والوں کا بھی اہتمام سے ریکارڈ جمع کرتے ہیں، جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، جو شخص سب سے پہلے مسجد پہنچتا ہے اس کا نام محفوظ کرلیتے ہیں، اور پھر اس کے بعد جو آتا ہے اس کا نام لکھتے ہیں، اور اسی مناسبت سے ان کے لئے نیکیوں کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، اور پھر جب امام آجاتا ہے تو وہ اپنے لکھنے کے صحیفہ کو لپیٹ لیتے ہیں اور خود بھی خطبہ سننے میں لگ جاتے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بہت سے فرشتے نبی ﷺکو امتیوں کا سلام پہنچانے پر مأمور ہیں۔تشریح
نبی ﷺ کو امتیوں کا سلام پہنچانا۔ جو امتی نبی ﷺ پر سلام بھیجتے ہیں فرشتے ان کو نبی ﷺ تک پہنچانے پر بھی مأمور ہیں، آپ ﷺ کا ارشاد ہے : چند فرشتے ایسے ہیں کو زمین میں گھومتے رہتے ہیں، اور میری امت میں جو کوئی مجھ پر سلام پڑھتا ہے وہ اس کو مجھ تک پہنچاتے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بہت سے فرشتے جو اللہ کی عمومی رحمت اور برکت تقسیم کرنے پر مأمور ہیں،لیکن جن گھروں میں کتے پالیں جائیں یا وہاں تصویریں اور مجسمے رکھیں جائیں وہاں رحمت و برکت کے فرشتے نہیں جاتے ہیں۔ تشریح
فرشتے جن سے اجتناب کرتے ہیں: وہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندوں کے لئے خیر و برکت پہنچانے پر مأمور ہیں ، کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں یہ برکت و رحمت والے فرشتے نہیں جاتے۔ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس گھر میں کتا پالا جاتا ہے، یاجس گھر میں تصویر یا مجسمہ ہو وہاں یہ فرشتے نہیں جاتے۔
اسی طرح یہ فرشتے کافر کے جنازہ میں شرکت نہیں کرتے، اور ایسے ہی جُنُبی کے قریب بھی نہیں جاتے، ہاں اگر اس کو غسل میں تاخیر ہو اور تب تک کےلئے وہ وضو کرلے تو فرشتے اس کے پاس جا تے ہیں۔ اور وہ مرد جو زعفران ملی خوشبو استعمال کرتا ہے رحمت کے فرشتے اس کے بھی قریب نہیں جاتے۔
یہ فرشتے اعمال کا ریکارڈ تیار کرنے والے فرشتوں سے الگ ہیں، اعمال کا ریکارڈ تیار کرنے والے فرشتے مکلف سے اگ نہیں ہوتے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فرشتے اللہ تعالیٰ کا لشکر ہیں، جو کائنات کے تمام کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے انجام دے رہے ہیں۔تشریح
فرشتوں کے کام: کائنات اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے، جو اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کا مظہر ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بے پناہ علم کی بنیاد پر نہایت منظم، مستحکم اور خوبصورت بنایا ہے، جس کی وسعتیں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زندگی سے یہاں حیات ہے، اسی طرح اسی کی توجہ سے سب کچھ اپنی جگہ پر باقی اور جاری ہے، چنانچہ الحیی اور القیوم صرف اللہ ہے۔
ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی حاکمانہ شان سے اس کے انتظام کےلئے فرشتوں جیسی عظیم قوت والی مخلوق کو پیدا فرمایا ، اور انہیں اپنے لشکر کے طور پر ہر جگہ الگ الگ کاموں پر مأمور فرمایا ہے، چنانچہ فرشتے اللہ کے حکم سے کائنات کے انتظامی امور اور اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے کام انجام دے رہے ہیں۔
.بند
عقیدہ:
فرشتے اپنے کاموں میں نہایت نظم و ضبط کے ساتھ رہتے ہیں، نہ وہ خود کوئی کوتاہی برتتے ہیں، اور نہ کوئی اور ان کو ان کے کاموں سے روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔تشریح
مستحکم تنظیم امور: فرشتے اپنے متعینہ کاموں میں نہایت نظم و ضبط کے ساتھ لگے رہتے ہیں، نہ وہ خود کوئی کوتاہی برتتے ہیں، اور نہ ہی کسی اور میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ فرشتوں کا مقابلہ کرکے ان کو ان کے کام سے روک سکے۔ وہ اللہ رب العزت کے آگے بکھرے ہوئے نہیں بلکہ صف بند ہوتے ہیں۔ وہ جہاں بھی متعین ہوتے ہیں انتہائی انتظام کے ساتھ اس کو انجام دیتے ہیں، معراج کی رات جب نبی ﷺ کو آسمانوں پر بلایا گیا آپ کا ارشاد ہے کہ ہر آسمان کا دروازہ باقاعدہ تفتیش کے بعد کھولا گیا، اور حضرت جبرئیل جب کوئی دروازہ کھلواتےتو سوال ہو تا کون کون ہے، اور جب آپ ﷺ کی آمد کے بارے میں اطلاع ہوتی تو یہ بھی سوال ہوتا کہ کیا آپ کو مدعو کیا گیا ہے، اور پھر دروازہ کھولا جاتا۔ اسی طرح جنت کے دروازے پر بھی پہلے سوال ہوگا کہ کس نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے، جب آپ ﷺ جواب دیں گے کہ ’’محمد‘‘، تو وہ فرشتے جواب دیں گے : ہاں آج اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے آپ کےلئے دروازہ کھولا جائے۔
غرض فرشتے اپنے اپنے کاموں کی جگہ نہایت پابند، مستحکم اوراعلیٰ درجہ کے نظم و ضبط کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔
یہ خیال کہ فرشتوں کو جو کام دیا گیا اس میں انہوں نے کوتاہی برتی، یا جیسے وحی کسی کو بھیجنا تھا غلط فہمی میں کسی اور کو پہنچا دی یہ لغو خیال ہے، اور کفریہ عقائد ہیں، ان سے گریز لازمی ہے۔