تقدیر و قضاء

ہم تقدیروقضاءپرکس طرح ایمان لائیں اس سے متعلق احکام و عقائد

تقدیر کے معنیٰ و مفہوم
تقدیر کے لغوی معنیٰ ہیں اندازہ کرنا، اور اصطلاحِ شریعت میں تقدیر کہتے ہیں، جو کچھ اب تک ہوچکا اور جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ آئندہ ہوگا سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اسی کے مطابق ہو رہا ہے، اس پر ایمان لانا فرض ہے۔
حق جل شانہ نے اس کارخانۂ عالم کو پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم ازلی میں اس کانقشہ بنایا اور ابتداء تا انتہاء ہر چیز کا اندازہ لگایا، اس نقشہ بنانے اور طے کرنے کا نام تقدیر ہے اور اس کے مطابق اس کارخانۂ عالم کو بنانے اور پیدا کرنے کا نام قضاء ہے، اسی کو تقدیر و قضاء کہتے ہیں۔
’’قدر یا تقدیر‘‘ ایمانیات کا اہم ترین حصہ ہے، تقدیر پر ایمان ایسے ہی لازم ہے جیسے اللہ پر ایمان لازم ہے، جب تک کوئی شخص تقدیر پر ایمان نہ لائے وہ مؤمن ہو ہی نہیں سکتا، اور در حقیقت تقدیر پر ایمان کا تعلق ’’ایمان باللہ‘‘ سے ہی ہے، اور یہ موضوع اصالۃً’’ایمان باللہ‘‘ ہی کا ہے، لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو مستقل ذکر کیا جاتا ہے۔
تقدیر کامفہوم یہ ہےکہ اللہ کی تخلیق میں ہر چیز اللہ کی جانب سے مخصوص پیمانہ اورخاص مقرر کردہ اندازہ سے بنائی گئی ہے،جس طرح اللہ کی تخلیقات وسیع ترین ہے جس کی انتہاؤں کا علم صرف اللہ کو ہے، اسی طرح ہر مخلوق کس پیمانہ اور مقررہ اندازہ سے تخلیق کی گئی ہے؟ اس کاعلمِ کامل بھی صرف اللہ ہی کو ہے، اس علم میں سے کچھ حصہ اللہ نے بندوں کو دیا ہے لیکن اس علم کا غالب حصہ صرف اللہ جانتے ہیں ، اس کی غالب تفصیلات بندوں کو نہیں دی گئی ہیں، اور نہ صرف یہ کہ یہ علم بندوں کو نہیں دیا گیا ہے بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس میں دخل نہ دیں !ورنہ وہ گمراہی کا شکار ہوں گے۔
اس علم کی جملہ تفصیلات بندوں کو کیوں نہیں دی گئیں بالکل واضح اور صاف ہے کہ اس علم کا تعلق اللہ کے افعال اور اس کی حکمتوں اور مصلحتوں سے ہے، ظاہر ہے بندہ ان کا کیا احاطہ کر سکتا ہے اور نہ ہی ان کا تحمل کر سکتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو اس علم سے متعلق جتنے حصہ کی ضرورت تھی وہ بہت ہی واضح طور پر دیا گیا ہے جیسا کہ آگے کی تفصیلات سے معلوم ہوگا، عام طور پر لوگ اللہ کی جانب سے دئے گئے اس علم سے انحراف کی وجہ سے ہی تقدیر کی بابت ٹھو کر کھاتے ہیں اور گمراہی کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ بندوں پر لاز م ہے کہ وہ اس علم سے چمٹے رہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عطاء کیا ہے، اسی میں ان کی نجات ہے۔
تمام مخلوقات اور تمام بندوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص تقدیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ان کی زندگی اور موت اور ان سے متعلقہ ہر بات اللہ تعالیٰ نے ایک مقررہ پیمانہ کے ساتھ مقدر کر رکھی ہے۔تقدیر پر ایمان ایسے ہی فرض ہے جیسے اللہ پر ایمان فرض ہے، اور تقدیر کا انکار کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تقدیر مبرم اور تقدیر معلّق بندوں کے اعتبار سے ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر تقدیر مبرم ہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر کام کے انجام اور خاتمہ کے متعلق ازل سے ہی واقف اور پوری طرح آگاہ ہے۔تشریح
تقدیر کی دو قسمیں ہیں (۱) تقدیر مبرم (۲) تقدیر معلّق:
(۱) تقدیرِ مبرم:یہ وہ تقدیر ہے جو اٹل ہوتی ہے، اس میں کچھ بھی تغیُّر و تبدُّل نہیں ہوتا، لوحِ محفوظ میں ایک ہی بات لکھی ہوتی ہے جو ہو کر رہتی ہے۔
(۲) تقدیرِ معلّق:یہ وہ تقدیر ہے جو اٹل نہیں ہوتی بلکہ اس میں تغیُّر و تبدُّل ہوتا رہتا ہے، اس تقدیر کو اللہ تعالیٰ کسی دوسری چیز کے ساتھ معلق کرکے لکھتے ہیں کہ اگر فلاں کام ہوا تو فلاں دوسرا کام بھی ہوگا اور اگر فلاں کام نہ ہوا تو فلاں دوسرا کام بھی نہ ہوگا، مثلاً زید نے اپنے والدین کی خدمت کی تو اس کی عمر لمبی ہوگی اور اگر خدمت نہ کی تو اس کی عمر لمبی نہ ہوگی۔
تقدیر کے پانچ درجات اور مراتب ہیں:
(۱) پہلا درجہ: وہ امور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ازل میں فیصلہ فرمالیا تھا، ان امور سے متعلقہ تقدیر کو تقدیرِ ازلی کہتے ہیں۔
(۲) دوسرا درجہ: وہ امور انہیں اللہ تعالیٰ نے عرش کو پیدا کرنے کے بعد اور زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے پہلے طے فرمایا۔
(۳) تیسرا درجہ: وہ امور جو صلبِ آدم علیہ السلام سے ذریتِ آدمؑ کو نکالنے کے وقت ’’یومِ عہدِ الست‘‘ میں طے کئے گئے۔
(۴) چوتھا درجہ: وہ امور جو بچہ کے لئے اس وقت طے کئے جاتے ہیں جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔
(۵) پانچواں درجہ: وہ امور جو دیگر بعض امور پر موقوف کئے گئے ہیں۔
تقدیر کے ان پانچ درجات میں سے پہلے چار درجات تقدیر مبرم کے درجات ہیں جوکہ اٹل ہیں، ان میں کسی قسم کا تغیُّر و تبدُّل نہیں ہوتا، آخری درجہ تقدیر معلّق کا ہے، اس میں تغیُّر و تبدُّل ہوتا رہتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جو بات اللہ تعالیٰ نے کسی کے بارے میں لکھ دی ہے وہ ٹل نہیں سکتی، اور جو بات اللہ تعالیٰ نے کسی کے بارے میں نہیں لکھی ہے وہ اس کو پیش نہیں آسکتی۔تشریح
آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے پہلے تقدیر کا لکھا جانا:
تقدیر سے متعلقہ اللہ کی صفات میں اہم ترین صفت اللہ رب العزت کا علم کامل ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے سے ہی ان کی جملہ تفصیلات سے باخبر تھا، کوئی مخلوق اور ان سے متعلقہ کوئی امر ایسا نہیں جو اللہ کے علم میں نہ ہو، جو کچھ پیش آنے والا ہے از اول تا آخر سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم کامل میں ہمیشہ سے ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے قلم کو پیدا کرکے ان تمام تفصیلات کو لکھوا دیا، جس لوح میں ان تفصیلات کو لکھوایا اس کو ’’لوح محفوظ‘‘ کہتے ہیں، یہ اللہ کی کتاب ہے جس میں مخلوقات سے متعلق سب کچھ لکھا ہوا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا، اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی لکھوا دیا تھا۔ (صحیح مسلم)
ابو حفصہ سے منقول ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: ایمان کی حقیقت کا مزہ تم اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک کہ تم میں یہ بات یقین تک نہ پہنچ جائے کہ جو حالات تم تک پہنچنے والے تھے وہ تم سے کسی طرح نہیں ٹل سکتے تھے اور جو کچھ تم کو پیش نہیں آیا وہ تمہیں کبھی پیش آہی نہیں سکتا تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے کہا: لکھو! قلم نے کہا : پروردگار میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تا قیامت ہر چیز کی تقدیر لکھو! حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: بیٹے !میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جو شخص اس بات پر ایمان لائے بغیر مر جائے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (سنن ابی داؤد)
ایک اور صحیح روایت میں ہے کہ حضرت ولید بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں اپنے والد کے پاس اس وقت آیا جب وہ مرض الموت میں تھے، میں نے ان سے کہا: ابا جان! مجھے کوئی خاص نصیحت کیجئے، انہوں نے کہا: مجھے بٹھاؤ! (میں نےاٹھاکر بٹھادیا) تب انہوں نے کہا: میرے بچے! تم ایما ن کا مزہ چکھ ہی نہیں سکتے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم تقدیر خواہ وہ خیر سے متعلق ہو یا شر سے متعلق ہو اس پر ایمان نہ لاؤ، میں نے کہا :ابا جان !مجھے تقدیر کے خیر و شر کا علم کیسے حاصل ہوگا؟ انہوں نے کہا: تم اس بات پر یقین رکھو کہ جو تم سے چھوٹ گیا وہ تمہیں ملنے والا ہی نہیں تھا اور جو تمہیں ملا ہے وہ تم سے کبھی چھوٹ نہیں سکتا تھا، میرے بچے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے کہا: لکھو! اور جب اللہ نے اس کو حکم دیا اس نے لکھنا شروع کردیا یہاں تک کہ قیامت تک جو بھی پیش آنے والا ہے اس کو لکھ دیا، میرے بچے! اگر تمہاری موت اس حالت پر آئے کہ تمہار اس پر ایما ن نہ ہو تو تم جہنم میں داخل ہو گے۔ (مسند احمد،صحیح)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ائے لڑکے کیا میں تمہیں ایسے کلمات سکھلاؤ جن کو تم اگر یاد رکھو گے تو اللہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، جب بھی تم اللہ کو کو یاد کرو گے اس کو وہیں پاؤ گے، جب بھی تم مانگو تو اللہ سے مانگو، جب بھی تم مدد طلب کرو تو اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ جان لو کہ اگر پوری امت جمع ہو کر تمہیں کوئی نفع پہنچانا چاہے تو وہ اس سے زیادہ کسی چیز کا نفع نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ سب جمع ہو کر تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو اس کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم لکھ کر اٹھ چکے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔ (سنن ترمذی) دلائل
.بند
عقیدہ:
بندوں میں کون سعید اور جنتی ہے اور کون شقی اور جہنمی ہے؟ لکھا جا چکا ہے۔قلم لکھ چکا ہے، صحیفے خشک ہو چکے ہیں، اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
عقیدہ:
تقدیر کا پہلے لکھ دیا جانا اعمال میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ، چونکہ اللہ نے لکھ دیا ہے اس لئے بندے وہی کریں گے، ایسا نہیں ہے؛ بلکہ بندے جیسا کرنے والے ہیں اللہ پہلے سے جانتا ہے اسی کو اللہ نے لکھ دیا ہے۔
عقیدہ:
ہر شخص کےلئے وہی عمل آسان ہوگا جس کےلئے وہ پیدا ہوا ہے، اس لئے حکم ہے کہ بندہ ہر حال میں عمل کرتا رہے۔تشریح
بندوں میں سے کون سعید یا شقی ہے ان کی پیدائش سے پہلے لکھ دیا گیا ہے:
اللہ کے علم کامل سے جو کچھ لوح محفوظ میں لکھا جا چکا ہے اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کونسے بندہ کا کیا انجام ہوگا، کون شقی ہے کون سعید ہے، کون کامیاب ہوگا اور کون ناکام ہوگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں شرکت کےلئے آئے، تدفین کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تدفین کے انتظار میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا انجام کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ہے لکھا جا چکا ہے، وہاں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہؐ! تو کیا ہم اس لکھے ہوئے پر سب کچھ چھوڑ کر عمل چھوڑ نہ دیں؟ آپؐ نے فرمایا: عمل کرتے رہو، اس لئے کہ جو شخص بھی جس انجام کےلئے پیدا ہوا ہے اس کےلئے اسی کے مناسب عمل آسان ہوگا، جو کامیاب ہونے والوں میں سے ہوگا اس کے لئے کامیابی کے اعمال آسان ہوں گے اور جو نا کام ہونے والا ہوگا اس کےلئے ناکام ہونے والے اعمال آسان ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ اللیل کی آیات فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰى وَاتَّقٰى (۵) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى (۶) فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰى (۷) پڑھیں۔ (صحیح بخاری)
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارا دین کیا ہے ہمیں بیان کیجئے؟ گویا کہ ہم ابھی پیدا ہوئے ہیں آج عمل کس طرح ہوگا؟ کیا قلم جو کچھ لکھ چکے ہیں اور تقدیر جاری ہو چکی ہے اسی سے متعلقہ عمل ہے، یا اب ہم مستقبل میں جو کچھ کریں عمل اس سے متعلقہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل تو وہی ہوگا جو قلم لکھ چکا ہے اور تقدیر جاری ہو چکی ہے، تو انہوں نے کہا : پھر عمل کا کیا فائدہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو! جو جس کےلئے پیدا کیا گیا ہے اس کےلئے اسی کا عمل آسان ہوگا۔ (صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں، آپ نے کہا: جانتے ہو ان دو کتابوں میں کیا ہے؟ ہم نے کہا : نہیں یا رسول اللہ! آپ ہی بتلائیں تو معلوم ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جو داہنے ہاتھ میں کتاب ہے یہ اللہ رب العالمین کی جانب سے ہے اس میں جنتیوں کے نام ان کے آباء و اجداد اور قبائل کے ناموں کے ساتھ ہیں اورآخر میں ان کا اجمالاً خلاصہ مذکور ہے، اس کتاب میں اب نہ کمی ہوگی اور نہ زیادتی ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں ہاتھ کی کتاب کے بارے میں فرمایا: یہ کتاب بھی اللہ رب العالمین کی جانب سے ہے، اس میں جہنمیوں کے نام ان کے آباء و اجداد کے ناموں اور قبائل کے ناموں کے ساتھ مذکور ہیں اور آخر میں ان کا خلاصہ ذکر کردیا گیا ہے، اس میں اب کبھی کمی یا زیادتی نہیں ہوگی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہؐ! اگر سب کچھ طے ہو چکا ہے تو اب عمل کس لئے کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدھی راہ چلو اور میانہ روی اختیار کرو! کیونکہ جنّتی کا خاتمہ جنت والے عمل پر ہوگا خواہ وہ پہلے کچھ بھی عمل کرتا رہا ہو اور جہنمی کا خاتمہ جہنم والے عمل پر ہوگا خواہ وہ پہلے کچھ بھی عمل کرتا رہا ہو، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کتابوں کو ڈال دیا اور فرمایا :تمہارا پروردگار بندوں کے معاملہ سے فارغ ہو چکا ہے، ایک فریق جنت میں جائے گاا ور ایک فریق جہنم میں جائے گا۔ (سنن ترمذی، حدیث صحیح) دلائل
.بند
عقیدہ:
ہر سال شب قدر میں نئے سال کے تقدیری امور کو لوح محفوظ سے متعین کیا جاتا ہے۔تشریح
شب قدر میں تقدیر کا طے ہونا:
یہ اللہ تعالیٰ کے علم کامل ہی کا حصہ ہے کہ ہر سال اللہ تعالیٰ اس تقدیر سے جو پہلے سے طے شدہ ہے ایک خاص رات میں اس سال میں مخلوقات سے متعلقہ پیش آنے والے مثلاً موت و حیات ، رزق و بارش وغیرہ امور کو علیحدہ کرتے ہیں اور ان میں سے جو امور فرشتوں کو سونپا جاناہو انہیں تفویض کرتے ہیں، یہ عمل اللہ کی جانب سے مقررہ ایک رات میں ہوتا ہے، اس رات کو قدر کی رات کہتے ہیں، قدر کی رات کو اس امتیاز کے علاوہ یہ مقام بھی حاصل ہے کہ وہ ایک بہت ہی بابرکت رات ہے، اس رات میں عبادت کا اہتمام کرنے سے بندہ کو ایک ہزار مہینوں کے برابر عبادت کا اجر و ثواب عطاء کیا جاتا ہے۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَ الْمِنَّۃُ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
رحم مادر میں پروان چڑھ رہے جنین کے بارے میں اس کی تقدیر کی تجدید کی جاتی ہے۔تشریح
رحم مادر میں جنین کےلئے پیدا ہونے سے پہلے چار چیزوں کا تعیّن:
یہ بھی اللہ تعالیٰ کے علم کامل کا حصہ ہے کہ جب کوئی نطفہ رحم مادر میں قرار پاجاتا ہے اور اس کی زندگی اللہ کی جانب سے مقرر ہو جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنے علم سے اور لکھی ہوئی تقدیر سے رحم مادر سے متعلقہ فرشتے کے ذریعہ اس جنین کےدنیا میں آنے سے پہلے اس کی مدتِ عمر، اس کے رزق، اس کے عمل اور اس کے شقی یا سعید ہونے کو لکھوا دیتے ہیں، پھراس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے، خواہ ایک شخص زندگی میں جو کچھ بھی عمل کرتا رہا ہو مرنے سے پہلے اس کی تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے وہی چیز سبقت لے جاتی ہے، کوئی جنتی ہو تو وہ جنتی اعمال کرتا ہے اور اگر کوئی جہنمی ہو تو وہ جہنمی اعمال کرنے لگتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مخلوقات کی تقدیر اللہ کے علم کامل، اس کی مشیت اور اس کی قدرت کاملہ کی مظہر ہے۔تشریح
اللہ کا علم کامل ، مشیت اور قدرت کاملہ:
اس بات کو سمجھ لینا تقدیر سمجھنے کےلئے کافی ہے کہ تقدیر کا تعلق اللہ تعالیٰ کی چند خاص صفات سے ہے،یعنی اللہ کا علم کامل ، اس کی مشیت اور اس کی قدرت کاملہ، جو کچھ ہوتا ہے صرف اللہ کی مشیت اور اس کے اذن سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کیا ہے اپنے کمال علم اور کمال قدرت سے کیا ہے، مخلوقات کا کوئی جزء ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم کے دائرہ سے خارج ہو اور مخلوقات کا کوئی جزء ایسا نہیں ہے جو اس کی قدرت سے باہر ہو اور کوئی شئے ایسی نہیں ہے جو اس کی مشیت اور اذن کے بغیر وجود میں آ جائے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تکوینی حکم اور تشریعی حکم دونوں کو ماننا لازم ہے۔تشریح
تقدیری اور تکوینی حکم اور تشریعی اور دینی حکم:
اللہ تعالیٰ کے امر اور قضاء کی دو قسمیں ہیں: ایک تقدیری اور تکوینی امر و قضا اور دوسرا تشریعی اور دینی امر و حکم، پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے تکوینی اور تقدیری امر اور حکم کی مخاطب ہے، جس میں تمام مخلوقات شامل ہیں، تمام جاندار، حیوانات، نباتات، جمادات، انسان، جن اور فرشتے سب اس میں داخل ہیں اور ان سب کےلئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک مخصوص پیمانہ اور مقررہ اندازہ مقدر ہے، اور سب اس مقررہ پیمانہ میں گھوم رہے ہیں اور اس کے تقدیری حکم کی تعمیل میں جُٹے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا دوسرا امر و حکم تشریعی و دینی ہے، یہ خاص مکلّف بندوں یعنی انسانوں جنوں کےلئے ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک تقدیر مقرر ہے، جس میں مکلّف بندوں کےلئے رہنمائی اور ہدایت ہے، اور اس میں ابتلاء و آزمائش کےلئے انہیں ارادہ اور اختیار کا دیا جانا، ان کے کسب اعمال کےلئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اعمال کی تخلیق شامل ہے۔
یہاں ہم پہلے اللہ تعالیٰ کے تکوینی اور تقدیر ی امر اور حکم کی کچھ تفصیل پیش کریں گے ، کیونکہ یہ مخلوقات کےلئے اللہ کی جانب سے مقررہ تقدیر کو کھولنے والا مضمون ہے اور پھر تشریعی و دینی امر و حکم اور اس سے متعلقہ تقدیری پہلو کو ذکر کریں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
کائنات کی ہر چیز کو اللہ نے خاص اندازہ اور پیمانہ سے بنایا ہے اور اس کی تقدیر لکھ رکھی ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص اندازہ میں پیدا کیا ہے:
اللہ تعالیٰ کی صفت الخالق کے ساتھ اہم ترین صفت ہے قدرت، یعنی اللہ تعالیٰ القدیر، القادر اور المقتدر ہے، اللہ تعالیٰ کے القدیر ہونے میں جہاں یہ شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں، کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے، وہیں اس میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص پیمانہ اور مقررہ اندازہ میں پیدا کیا ہے۔
ہر چیز کی ساخت اللہ تعالیٰ نے ایک خاص اندازہ میں بنائی ہے اور وہ خاص اندازہ اتنا کامل و مکمل ہوتا ہے کہ نہ اس سے کچھ زیادہ کا پیمانہ صحیح اور درست ہو سکتا ہے نہ اس سے کم کا پیمانہ صحیح و درست ہو سکتا ہے۔
تخلیق اور تقدیر دونوں صفات لازم و ملزوم ہیں، اللہ تعالیٰ جس شئے کو بھی پیدا کرتے ہیں ایک خاص اندازہ اور پیمانہ میں پیدا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ہر تخلیق اس کاثبوت ہے، گویا ہر تخلیق میں اللہ کی تقدیر شامل ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ جس بھی شئے کو ایک مخصوص پیمانہ میں پیدا کرتے ہیں، اس کےلئے اس کا صرف حکم کن ہی کافی ہے، اللہ مخصوص اندازہ اور مقررہ پیمانہ میں بناتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو کسی چیز کو کسی مقررہ پیمانہ میں پیدا کرنے کےلئے اور منصوبہ بندی کےلئے وقت نہیں لگتا وہ صرف کسی شئے کو ہونے کا حکم دیتا ہے اور اس کے علم اور قدرت کے کمال کا یہ حال ہے کہ وہ شئے فوراً اس کامل و مکمل پیمانہ میں وجود میں آ موجود ہوتی ہے۔
ہاں اللہ تعالیٰ بعض چیزوں کو مراحل میں بھی پیدا کرتا ہے، مثلاً رزق کو پیدا کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے بارش، زمین کی اگانے، سورج سے پکانے وغیرہ کے مراحل رکھے ہیں، لیکن کسی چیز کی مراحل اور تدریج میں تخلیق سے اللہ کی حکمتیں وابستہ ہوتی ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور زمین میں مختلف مخلوقات کو مراحل میں پیدا کیا ہے اور خاص طور سے ان کا ذکر کیا ہے، ان کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
زمان و مکان ہر دو کا خالق اللہ ہے، ہر دو کو اللہ نے خاص اندازہ اور خاص پیمانہ سے بنایا ہے۔تشریح
زمان و مکان کی تقدیر:
کائنات کی ہر شئے اللہ کے حکم کن کے ذریعہ سے پیدا ہوئی ہے اور اللہ کی مخلوق ہے، زمان و مکان بھی اللہ کی مخلوق ہے ، زمان ومکان یعنی کائنات کی ہر چار ابعادی شئے اللہ کی جانب سے ایک خاص اندازہ اور پیمانہ میں بنائی گئی ہے، یہ پوری کائنات جس کی حیرت انگیز وسعتوں کی انتہاء صرف اللہ جانتا ہےمکان اور زمان پر مشتمل ہے اور اللہ کی تخلیق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مخصوص پیمانوں اور مقررہ اندازوں پر بنایا اور استوار کیا ہے۔
ہر سہ ابعاد ی شئے یعنی جس کو (۱) لمبائی، طول Length (۲) چوڑائی ،عرض Width (۳)اور اونچائی ،بلندی Height کے پیمانوں سے ناپا جا سکے مکانیت کی تعریف میں آتی ہے، مکانیت کےلئے یہ سہ ابعاد خاص اندازہ سے بنائے گئے ہیں، اور اس کے ساتھ جڑا ہوا چوتھا عنصر یعنی زمانہ جو مکانیت کا لازمہ اور اضافیت ہے، یعنی مکان کے متحرک ہونے کا دورانیہ وہ بھی مکان کے ساتھ اللہ کی تخلیق ہے، زمانہ کاکوئی اپنا مطلق وجود نہیں ہے بلکہ مکانیت کی تحریک کا وقت زمانہ بنتا ہے، پوری سہ ابعادی کائنات جس میں کائنات کا ہر جزء اور ہر گوشہ شامل ہے اپنی پیدائش سے متحرک ہے اور وسیع پذیر ہورہا ہے ، اس سہ ابعادی کائنات کے آغاز سے آخر تک اس کی تحریک کا دورانیہ اس کی اجل اور اس کا زمان ہے۔
یہ چاروں ابعاد یعنی زمان و مکان کا کوئی وجود نہیں تھا، پھر ایک مخصوص مرحلہ پر اللہ کے حکم کن سے پیدا ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص اندازہ اور مقررہ پیمانہ میں پیدا کیا ہے، اور ایک وقت آئے گا جب اس کو ختم کردیا جائے گا اور اپنے مقررہ وقت میں ختم ہونے میں نہ پہل ہوگی نہ دیری ہوگی، اس کے آغاز انجام اور درمیانی وقفہ سب میں اللہ کی تقدیر کار فرما ہے۔
زمین کے دن اور رات وقت کا ایک پیمانہ ہے؛ لیکن پوری کائنات کےلئے نہیں بلکہ صرف زمین کے لئے ہے، جو سورج کے طلوع ہونے اور غروب ہونے سے بنتا ہے، گویا سورج جو سہ ابعادی ہے زمین کے گرد اس کی تحریک کا ایک مخصوص دورانیہ دن اور رات بناتا ہے، کائنات کی وسعتوں میں دن و رات کے پیمانے ایسے ہی سیاروں اور کہکشاؤں کی تحریکات سے بڑے ہوتے جاتے ہیں، بعض دن ایسے بھی ہیں جو ہماری زمین کے دن کے حساب سے ایک سال کا ایک دن ہوتا ہے، اور مزید وسعتوں میں بعض دن ایسے ہیں جو ہماری زمین کے دن کے حساب سے پچاس ہزار سال کا صرف ایک دن ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیا تھا تو وہ پچاس ہزار سال کسی کےلئے صرف ایک دن ہے، باقی اللہ کے لئے زمانیت کوئی چیز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے لئے ہماری تخلیق اور سب کے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانے ایک پلک جھپکنے کے دورانیہ جیسا ہے، زمان و مکان کی طرح اللہ کی مخلوق ہے اور ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص اندازہ اور مقررہ پیمانہ سے پیدا کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن بنایا ہے، جبکہ آسمان اور زمین مکان اور ان کی تحریک زمان ہے، پھر وہ ایام کونسے تھے جس میں اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ہے، اس کو سمجھنے کےلئے اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ قرآن نے کہا ہے کہ جنت میں صبح و شام رزق ملے گا، حالانکہ صبح شام کا تعین سورج کی تحریک اور طلوع و غروب سے ہوتا ہے، جبکہ جنت میں سورج کی تحریک اور طلوع و غروب کا کوئی موقع نہیں ہے، اس کا مفہوم ایک مقررہ مقدار وقت میں انہیں مستقل رزق ملتا رہے گا۔
اسی طرح ایک مقررہ مقدار وقت میں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی ہے، جس کو ایام اور چھ ایام سے تعبیر کیا ہے، یہ ایام ہمارے پیمانہ کے ایام بھی ہو سکتے ہیں، ہمارے پیمانہ سے ایک ہزار سال کے دورانیہ کے ایام بھی ہو سکتے ہیں، اور ہمارے پیمانہ سے پچاس ہزار سال کے دورانیہ کے ایام بھی ہو سکتے ہیں۔
آخری اور اہم بات وہ لمحہ جس میں کائنات حکم کن کے ذریعہ عدم سے وجود میں آئی اور ذوات اشیاء وجود پذیر ہوئے وہ بیک لمحہ اللہ کے حکم سے وجود پذیر ہوئے ہیں، ہاں ان کو اللہ نے اپنی حکمتوں اور مصلحتوں سے اپنی اپنی جگہ پر قرینہ سے چھ ایام میں لگایا ہے۔ ان سب میں اللہ کی تقدیر اور مخصوص پیمانہ اور مقررہ اندازہ کار فرما ہے اور ان کی ان پیمانوں اور اندازہ میں تخلیق ہی ان کی تقدیر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
افلاک اور ستاروں و سیاروں کو اللہ نے خاص اندازہ اور پیمانہ سے پیدا کیا ہے اور ان میں بھی اللہ کی جانب سے مقررہ تقدیر کار فرما ہے۔تشریح
افلاک اور سیاروں کی تخلیق اور ان کی توسیع میں اللہ کا پیمانہ:
خلاء اور افلاک میں موجود سورج، چاند، زمین، اور دیگر ستاروں اور سیاروں کی ساخت اور ان کا قطر اللہ تعالیٰ نے ایک خاص اندازہ سے بنایا ہے، ان میں چھوٹے بڑے ستارے اور سیارے ہیں، جن کے درمیان اللہ تعالیٰ نے فاصلہ ایک خاص اندازہ سے رکھا ہے، اور ان کے درمیان ایک خاص قسم کی کشش رکھی ہے، ایک ستارہ و سیارہ دوسرے ستاروں اور سیاروں کو اپنی کشش سے اپنی جانب کھینچتا ہے، جبکہ ایک دوسرا ستارہ اس کو اپنی جگہ پر باقی رکھنے کےلئے دوسری جانب سے اپنی کشش سے کھینچ رہا ہے، اگر یہ دوسرے ستارے کشش کے تناسب کو باقی رکھنے کےلئے نہ ہوتے تو یہ ستارے آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا کر ختم ہو جاتے، ان میں کشش کا تناسب اس ذریعہ سے بھی برقرار رکھا گیا ہے کہ کچھ کا حجم چھوٹا کچھ کا بڑا اور کچھ کا اتنا بڑا ہے کہ ان کا بیان تک الفاظ میں کبھی اس حقیقت کو ظاہر نہیں کر سکتا جیسے کہ وہ بڑے ہیں۔
زمین کا رقبہ سات ہزار مربع میل سے زائد ہے، اور سورج زمین سے ۱۰۳ گنا بڑا ہے، اگر زمین اپنی کشش کھودے تو وہ سورج کی جانب تیزی سے کھینچ کر جائے اور ایک تنکہ کی طرح اس سے لگ جائے، جبکہ خلاء میں بے شمار تعداد میں ستارے اللہ تعالیٰ نے سورج سے لاکھوں گنا بڑے بنائے ہیں۔ یہ ستارے آپس میں ایک خاص قسم کی کشش سے مربوط کئے گئے ہیں، اور انھیں ستاروں اور سیاروں سے کہکشائیں وجود میں آئیں، اب تک دریافت شدہ ایسی کہکشائیس اس کائنات میں تقریباً ۳۰۰؍بلین ہیں، جن میں سے ہر کہکشاں میں تقریباً ۲۵۰؍بلین سیارے موجود ہیں، جن میں جیسا کہ اوپر کہا گیا لا تعداد ستارے ہمارے سورج سے ہزاروں اور لاکھوں گنا بڑے ہیں، یہ فضا میں چکر لگا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و قدرت سے انہیں ایک ایسے نظام میں مربوط کر رکھا ہے کہ یہ سیارے ایسی ناقابل یقین تعداد میں ہونے کے باوجود آپس میں ٹکراتے نہیں ہیں، ربط اور کشش سے ٹوٹ کر بسیط خلاء میں کہیں گِر نہیں جاتے،ان سب کے درمیان ایک خاص فاصلہ کا پیمانہ مقرر ہے کہ اگر ان دوریوں میں ذرا بھی کمی ہو تو آپس میں ٹکرا جائیں، یا ان کے فاصلہ میں زیادتی ہو جائے تو یہ خلاء میں بکھر جائیں، یہ اپنے درمیان لاکھوں کروڑوں نوری سالوں کا فاصلہ رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی کشش کے رابطہ میں لاکھوں سال سے مربوط ہیں، اور ایک دوسرے کو بکھرنے نہیں دیتے ۔
پھر اللہ کی قدرت اور اندازہ کا ایک حیرت انگیز مظہر یہ ہے کہ یہ لاکھوں کروڑوں سیارے اس کشش کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان میں آپس میں مسلسل وسعت ہورہی ہے، یعنی ان کے آپس کا درمیانی فاصلہ ہر آن اور ہر لمحہ دور ہو کر پھیل رہا ہے، اگر یہ پھیلاؤ رک جائے یا تیز ہو جائے تو بھی یہ نظام کائنات درہم برہم ہو جائے، یہ پھیلاؤ ان کی تخلیق کے آغاز سے ہو رہا ہے اور مستقل اور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، یہ پھیلاؤ اس تناسب اور موزونیت اور Fine Tuning کے ساتھ ہورہا کہ اس میں اگر دسواں یا سواں یا ہزارواں یا لاکھواں نہیں بلکہ کروڑواں حصہ بھی تیزی یا سست رفتاری آ جائے تو بھی یہ عظیم کائنات سیاروں کی آپسی کشش ٹوٹنے سے تباہ و برباد ہوجائے گی، گویا یہ پھیلاؤ ایک پل صراط پر ہورہا ہے، لیکن پھر بھی یہ سب کچھ ١٥؍ بلین برس سے مستحکم طورپر جاری ہے۔
یہ اللہ کا مقرر کردہ پیمانہ اور اندازہ ہے افلاک کی تخلیق، اور ان کی بقاء اور ان کی توسیع میں یہ اللہ کی تقدیر ہے جو ازل سے اللہ کے علم میں ہے اور اس کی مشیت اور قدرت سے وجود میں آئی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
زمین اور اس میں موجود ہر شئے کو اللہ تعالیٰ نے خاص پیمانہ اور مقررہ اندازہ سے بنایا ہے، زمین کی ہر شئے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تقدیر کا ر فرما ہے۔تشریح
تخلیق زمین اور اس کے متعلقات کی ساخت میں پیمانہ:
انھیں کہکشاؤں اور سیاروں کا ایک حصہ زمین بھی ہے، جو حیوانات کا گھر ہے یعنی انسانوں اور جنوں کا بھی، اللہ تعالیٰ نے اسی زمین میں انسان کو اپنا خلیفہ بنانا طے کیا اور اسی زمین کی جانب انسانوں اور جنوں کو ایک مخصوص وقت میں اتارا کہ ایک مقررہ وقت تک انہیں اس زمین میں رہنا ہے، جس وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین پر اتارا اور جس وقت تک ان کو زمین میں رہنا ہے سب پہلے سے اللہ کی جانب سے مقدر اور طے ہے۔
اس زمین کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص اندازہ سے بنایا ہے، جس میں ہر وہ شئے انتہائی تنظیم و ترتیب اور تناسب و موزونیت کے ساتھ خاص مقدار اور اندازہ میں جمع ہے جو حیاتِ حیوانات اور ان کی بقاء کےلئے ضروری ہو، زبانِ حال سے مخلوقات نے جو کچھ چاہا ان کےلئے اس میں مہیا کردیا گیا، اگر انسان اللہ کی ان نعمتوں کو گننا چاہے تو ان کا شمار نہیں کر سکتا جس کا اندازہ ذیل کی تفصیلات سے لگا سکتا ہے، جو اللہ کی نعمتوں کی صرف ایک معمولی سی جھلک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
پانی کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص اندازہ اور مقررہ پیمانہ میں پیدا کیا ہے، اس میں بھی اللہ کی تقدیر کار فرما ہے۔تشریح
سر چشمہ حیات پانی کا پیمانہ:
اللہ تعالیٰ نے حیات کی بنیاد پانی کو بنایا اور اس پانی کو اس زمین پر نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس کے ذخیرے اس میں کردئے، حیات کی یہ بنیاد کسی دوسرے سیارے میں نہیں ہے، پھر ذخیرہ آب کا کرۂ ارض پر ایساانتظام فرمایا کہ یہ یہاں ختم ہی نہیں ہوتا۔
پانی اپنے مرکبات سے جس طریقہ سے بنتا ہے اس کا ایک خاص پیمانہ مقرر ہے، اگر اس کے مرکبات میں نہایت درجہ کا تغیر ہو جائے کچھ کمی یا زیادتی ہو جائے تو پانی کبھی پانی نہیں بن سکتا ہے، یہ خاص پیمانہ اللہ کا مقرر کردہ ہے۔
پھر جتنا پانی بننا تھا بن چکا، اب پانی کی طبیعت بدل کر جب ہواؤں کی شکل اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسی کو پھر پانی میں بدلنے کا نظام بنایا، اور اللہ تعالی نے زمین پر بارش کا نظام جاری فرمایا، یہ سیارے جو خلاء میں گھومتے رہتے ہیں، ان کو اللہ نے ایک نظم میں اس زمین سے متعلق کردیا، چنانچہ خود یہ زمین اور اس کے اطراف کے سیارے جیسے سورج چاند وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کے گرد گھومتے ہیں، انہیں کے گھومنے سے موسم کی تبدیلی ہوتی ہے جس سےایک مخصوص اور اللہ کی جانب سے مقررہ وقت میں زمین پر گرمی رہتی ہے، ایک مخصوص اور اللہ کی جانب سے مقررہ وقت میں سردی رہتی ہے، ایک مخصوص اور اللہ کی جانب سے مقررہ وقت میں بارش ہوتی ہے اور ایک مخصوص اور اللہ کی جانب سے مقررہ وقت میں بہار کا موسم رہتا ہے، یہ سب امور ہزاروں سال سے جاری ہیں، یہ اللہ کی جانب سے مقررہ نظام ہے، اور اللہ کی تقدیر کا حصہ ہےکہ اللہ نے ہر چیز کو ایک خاص اندازہ سے پیدا کیا ہے اور ایک خاص اندازہ سے اس کو چلا رہا ہے، جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
زمین میں اللہ نے رزق کو ایک خاص اندازہ میں پیداکیا ہے اور مقررہ پیمانہ میں نازل کرتا رہتا ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ تقدیر کار فرما ہے۔تشریح
تخلیق رزق کا پیمانہ:
اللہ تعالیٰ نے اسی زمین کو حیوانات کے رزق کا ذریعہ بنایا، زمین پر بارش ہوتی ہے، اور زمین رزق کے خزانے اگلتی ہے، زمین سے جو پیدا وار اگتی ہے اس کو پکانے کےلئے پھر وہی سیاروں کا زمین کے گرد گھومنے کا نظام ذریعہ بنتا ہے، سورج کی گرمی زمین سے اگنے والی کھیتیوں اور درختوں پر ظاہر ہونے والے پھلوں کو پکاتی ہے ، یہ نظام اللہ نے ایک خاص اندازہ اور پیمانہ سے مقرر کیا ہے، بارش کی مقررہ مقدار کی کثرت سے کھیتی تباہ ہوجاتی ہے،اور سورج کی گرمی کی کمی یا حد سے زیادہ گرمی فصلوں کو خراب کردیتی ہے، یہ سب اسباب ایک مخصوص پیمانہ میں رزق کی پیداوار دینے میں مصروف ہیں ، یہ اللہ کی جانب سے مقرر اور اس کی تقدیر کا حصہ ہے۔ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اس معمول کے نظام میں اپنی آیات دکھانے، یا غفلت سے بیدار کرنے کےلئے فرق بھی کردیتا ہے، جس کے بعد بندہ چار و نا چار اس کے آگے گڑگڑانے اور اس کے سامنے اپنے فقر کا اظہار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، لیکن جب یہ اسباب اپنے معمول کے مطابق کام کرتے ہیں تو بہت کم شکر گذاری کرتے ہیں، اکثر ان نعمتوں اور رحمتوں سے بالکل غفلت میں پڑے رہتے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
زمین کو ستاروں اور افلاک کے نقصانات اور حادثات سے بچانے کےلئے اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک محفوظ چھت کو بنایا ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تقدیر کار فرما ہے۔تشریح
سقف محفوظ فضائی پیمانہ:
فضائے بسیط میں سیارے اپنی نہایت درجہ مہلک تپش چھوڑتے ہیں، اسی طرح ان میں سے بہت سوں سے غیر معمولی روشنی کا اخراج ہوتا ہے، بہت سے سخت پرفیلی ٹھنڈک چھوڑتے ہیں، اور ان میں سے بہت سوں سے مہلک شعاعیں نکلتی ہیں، اگر یہ سب یا ان میں سے کوئی ایک بھی راست زمین تک پہنچ جائے تو زمین پر زندگی باقی نہ رہے، ان سے محفوظ رکھنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے زمین کے گرد ایک خاص محفوظ چھت کو بنایا ہے، جس سے ان مادوں کے مہلک اثرات زمین تک نہیں پہنچ پاتے، لیکن ساتھ ہی حیرت انگیز طور پر ان تمام مادوں کے ضروری اجزاء جو زندگی کی بقاء کےلئے از حد لازمی ہیں چھن چھن کر زمین پر آتے ہیں اور ان کے مہلک اثرات اس چھت کے پرے علیحدہ کردئے جاتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں اس کی تقدیر کا حصہ ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ہواؤں کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص اندازہ اور پیمانہ سے بنایا ہے ، اس میں بھی اللہ کی جانب سے مقرر کردہ تقدیر کار فرما ہے۔تشریح
ہواؤں کا پیمانہ:
اس زمین پر اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کا ایک مخصوص نظام بنایا ہے، ہواؤں کا یہ نظام اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے، جو ایک خاص مقررہ پیمانہ پر چلتی ہیں، اگر یہ ہوائیں اس مخصوص پیمانہ کے ساتھ زمین پر نہ ہوتیں تو کرۂ ارض پر زندگی محفوظ ہی نہ ہوتی۔
کرۂ ارض کے گرد اللہ تعالیٰ نے ہوائی کرہ رکھا ہے جو زمین کو گھیرے رکھتا ہے، اس ہوائی کرہ کی کئی پرتیں و پردے ہیں، ان میں سے ایک وہی ہے جو جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ اللہ نے اس کو سقف محفوظ بنایا ہے، اس کے علاوہ بھی ہوا کی کئی پرتیں زمین کے گرد موجود ہیں۔
ہوائیں کہیں کم اور کہیں زیادہ ہوتی ہیں، جہاں ہوا زیادہ ہوتی ہے وہاں ان کا دباؤ بڑھ جاتی ہے، اور جہاں کم ہوتی ہیں وہاں ان کا دباؤ کم ہوتا ہے۔
ہواؤں کو اللہ تعالیٰ نے بارش کو لانے کا ذریعہ بنایا ہے، ایک سادہ آنکھ سے دیکھنے والا بھی اس کو بآسانی دیکھتا ہے کہ ہوائیں بادلوں کو ادھر ادھر لئے پھرتی ہیں، لیکن ہواؤں کا نظام اس سے کہیں بڑھ کر ہے، سمندر سے پانی کو ذرات کی شکل میں اٹھانا اور پھر ان کو بادلوں کی شکل میں ڈھالنا اور پھر ان کو زمین میں لئے پھرنا اور مختلف جگہوں پر بارش برسانا یہ سب ہواؤں کا کام ہے، سمند ر کے پانی کو ذرات کی شکل میں اٹھانا ایک نہایت پیچیدہ اور غیر معمولی نظام ہے جو ایک مخصوص مقررہ پیمانہ کے تحت ہوتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا حصہ ہے، اور پھر یہ اس بڑے پیمانہ پر ہوتا ہے کہ خشکی پر موجود جانداروں کی سال بھر کی پانی، رزق اور موسمی تبدیلی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور پھر سال بہ سال ہوتا رہتا ہے، یہ سب اللہ کی جانب سے مقررہ پیمانہ اور مخصوص اندازہ سے انجام پا رہا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے زمین کو مخلوقات کی رہائش کےلئے فرش ایک خاص اندازہ اور پیمانہ سے بنایا ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ تقدیر کار فرما ہے۔تشریح
زمین کی رہائش کا پیمانہ:
پھر اس زمین کو اللہ تعالیٰ نے اس پر رہنے والوں کےلئے فرش بنایا جس پر وہ چلتے پھرتے ہیں، اپنے مکان تعمیر کرتے ہیں، اس کو کھود کر پانی نکال لیتے ہیں، زمین نہ بہت زیادہ سخت ہے کہ اس کو کھودا ہی نہ جا سکے، نہ بہت زیادہ نرم ہے کہ انسان اس میں دھنستا چلا جائے، یہ ایک خاص اندازہ اور مقررہ پیمانہ سے بنائی (Design کی) گئی ہے۔
خود زمین میں اتنی کشش ہے کہ وہ دور دراز کے سیاروں کو اپنی جانب کھینچتی ہے، اگر دوسرے سیارے آپس میں ایک دوسرے کی کشش میں نہ ہوں تو بعض سیارے زمین کی کشش سے کھنچ کر آکر اس سے ٹکرائے جائیں، اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ خود زمین پر جو چیزیں ہیں مثلاً اس پر بسنے والے انسان اور جانور وغیرہ زمین کی کشش سے زمین کے اندر دھنس جاتے، لیکن یہ اللہ کا ایک خاص نظام ہے کہ دوسرے سیارے اپنی کشش سے زمین پر موجود چیزوں کو اپنی جانب کھنچتے ہیں جس سے زمین پر موجود یہ مخلوقات زمین میں دھنسنے نہیں پاتیں، پھر اسی طرح جب دوسرے سیارے زمین کی مخلوقات کو اپنی کشش سے اپنی جانب کھینچتے ہیں تو ان مخلوقات کو فضاء میں معلق ہو جانا چاہئے لیکن یہ اللہ کا مقرر کردہ پیمانہ ہے کہ زمین کی کشش اور دوسرے سیاروں کی کشش کو اتنی موزونیت اور تناسب کے ساتھ مقرر کیا گیا ہے کہ مخلوقات زمین کی سطح سے اوپر غیر اختیاری طو رپر معلق نہیں ہو پاتیں، ہاں پرندوں میں خود اللہ نے ایسا جدا نظام رکھا ہے کہ وہ فضاء میں اپنے اختیار سے اڑتے پھرتے ہیں، زمین کی کشش اور دیگر سیاروں کی کشش کے ذریعہ سطح ارض پر مخلوقات کو ایک مخصوص طریقہ سے جمانا اس طرح سے کہ انہیں اپنے کام کرتے ہوئے اور زندگی گذارتے ہوئے ان دونوں کی کشش کا اندازہ ہی نہ ہو اور وہ بغیر کسی الجھن اور تردد کے جیتے رہیں، جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کی گود میں ہو، یہ اللہ تعالیٰ کا خاص مقرر کردہ پیمانہ ہے اور اس کی مخلوقات کی تخلیق میں تقدیر کا حصہ ہے، پھر اسی طرح بیکراں خلاء میں زمین ہزاروں کیلو میٹر کی رفتار سے سفر طے کررہی ہے، اس کے باوجود ہم اس پر نہایت چین سے جیتے ہیں، اس کی یہ غیر معمولی حرکت ہمیں محسوس تک نہیں ہوتی، یہ محفوظ گوشہ ہمارے لئے ایک خاص پیمانہ اور مقررہ اندازہ سے بنایا گیا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
دن و رات اور ان کو ایک کے بعد دوسرا لانے کےلئے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص پیمانہ مقرر کیا ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ تقدیر کار فرما ہے۔تشریح
دن اور رات کا پیمانہ:
زمین پر معاش کے نظام کو جاری رکھنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کا نظام بنایا، رات اور دن کا یہ نظام اللہ تعالیٰ نے ایک خاص پیمانہ سے جاری کیا ہے اور مخلوقات کی پیدائش میں اس کی تقدیر کا حصہ ہے، دن کو کام کےلئے اور رات کو آرام کےلئے بنایا، کام کرنے کےلئے روشنی اور کھلا ماحول چاہئے جو دن میں مقرر کیا اور رات کو تاریکی والی بنایا تاکہ مخلوقات اس میں آرام کرکے اپنی تھکن مٹائیں اور نیند کو تھکن ختم کرنے کا ذریعہ بنایا، رات اور دن کا یہ نظام جس خاص پیمانہ کے ساتھ مقرر ہے، اگر صرف دن ہوتا تو بندے قیامت تک محنت کرکے رات نہیں لاسکتے اور اگر صرف رات چھائی رہتی تو بندے قیامت تک محنت کرکے دن نہیں لاسکتے، رات اور دن کا یہ خاص پیمانہ اللہ کی جانب سے مقرر ہے اور مخلوقات کی پیدائش میں اس کی تقدیر کا حصہ ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حیوانات کی تخلیق میں تناسب اور موزونیت کےلئے اللہ تعالیٰ نے خاص اندازے اور پیمانے مقرر کئے ہیں، اور یہ پیمانے حیرت انگیز خصوصیات کے حامل ہیں، ان سب میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ تقدیر کار فرما ہے۔تشریح
تخلیق حیوانات کی ساخت میں پیمانہ:
اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق میں تناسب اور موزونیت ہے، جس کا ہم دن و رات مشاہدہ کرتے ہیں، پھر بھی اس پر غور نہیں کرتے، جبکہ ہر مخلوق اللہ کی آیات کا حصہ ہے اور دعوتِ غور و فکر دیتی ہے، حیوانات کی تخلیق بھی انہیں آیات میں سے ہے، ایک حیوان خواہ وہ ہاتھی جیسی عظیم مخلوق ہو یا مکھی اور مچھر جیسی حقیر مخلوق ہو، ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک خاص پیمانہ میں تخلیق کی گئی ہے۔
حیوان کے جسم کا ایک ظاہری نظم ہوتا ہے اور ایک ان کا باطنی نظم ہوتا ہے، ہر نظم اللہ کی جانب سے حیرت انگیز مقررہ پیمانہ میں ڈھلا ہوا ہے، ظاہر میں ہر حیوان ایک جسم رکھتا ہے، ایک حیوان دوسرے حیوان سے مختلف النوع ضرور ہوتا ہے لیکن ایک ہی نوع کے جانور حیرت انگیز طور پر ایک ایسی یکسانیت رکھتے ہیں گویا ایک سانچے میں ڈھل کر نکلے ہیں، یکساں ساخت، یکساں اعضاء اور یکساں خصوصیات کے حامل، یہ درحقیقت اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کےلئے ایک خاص پیمانہ مقرر ہے، پھر دو جڑواں اعضاء میں مثلاً دو ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ اتنا ہی لمبا ہوتا ہے جتنا کہ دوسرا ہاتھ، اسی طرح ایک آنکھ کی ساخت ویسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ دوسری آنکھ ، یہ در حقیقت ایک خاص مقررہ پیمانہ میں ڈھلی ہوئی ہے جس کو اللہ نے مقرر کیا ہے۔
حیوانی جسم کا باطنی نظام اس سے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے، اس میں بے شمار اندرونی نظام جاری ہیں اور ان میں سے ہر نظام ایک خاص پیمانہ پر چل رہا ہے، جو اتنا حیرت انگیز ہے کہ دنیا کی کوئی مشین اس کے عملی مظاہرہ، اس کی پابندی، اس کے خودکار دفاعی نظام اور صفائی ستھرائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی، حیوانی جسم میں جو الگ الگ نظام اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں ان میں مثلاً:
تنفسی (سانس لینے کا ) نظام، دوران خون کا نظام، اعصابی نظام، ہضمی نظام، اخراجی نظام، خلیات کی پیدائش اور مرنے کا عمل، دماغی نظام، اعصابی نظام یہ سب ایسی تفصیلات اور اللہ کی جانب سے مقرر کردہ ایسے پیمانوں کو شامل ہیں کہ ان کی تفصیل کے بیان کےلئے مجلدات درکار ہیں۔
ظاہر میں ہمیں جو صفات اور اعضا دئے گئے ہیں صرف ان کی معمولی جانکار سے پتہ چلتا ہے کہ کس غیر معمولی مقررہ پیمانہ اور خاص تقدیر میں حیوانی جسم کی تخلیق ہوئی ہے۔
آنکھ :
حیوانی جسم کا عجیب و غریب حصہ ہے، جو حیوان کو دیکھنے لائق بناتا ہے، آنکھ کسی چیز کو دیکھنے کےلئے بہت ہی پیچیدہ نظام سے گذرتی ہے، ایک آنکھ بظاہر ایک عضو ہے جبکہ اس کے کئی حصے ہوتے ہیں اور یہ سب مل کر کام کرتے ہیں تبھی آنکھ دیکھنے کا عمل پورا کرتی ہے، قرنیہ، آنکھ کی جھلی Cornea،عدسہ Lens، آنکھ کی جھلی کا نچلا حصہAqueous، آنکھ کا پردہ Retina، عصب بصری Optic nerve، عضلاتِ چشم، آنسو لانے والے عضویات، پپوٹے وغیرہ یہ سب موجود ہوں اور مل کر کام کررہے ہوں تو آنکھ دیکھ پاتی ہے، ورنہ ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہو جائے تو آنکھ بتدریج بصارت کھو دے، آنکھ کے اندر یہ سارے اجزاء زیادہ سے زیادہ ڈھائی سینٹی میٹر حصہ یعنی ایک انچ سے بھی کم حصہ میں ہوتے ہیں۔
پپوٹے جب کھلتے ہیں تو آنکھ میں روشنی کا انعکاس ہوتا ہے، اسی منعکس روشنی سے ہی شکلیں بنتی ہیں، پھر بصارت کا مرکزہ دماغ کے پچھلے حصہ میں واقع ہے، جبکہ آنکھ جس چیز کو دیکھتی ہے روشنی کے انعکاس کے ذریعہ آنکھ کی پتلی سے اس کو بصارتی مرکز تک پہنچاتی ہے، اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ آنکھ کا عضو ایک برقی پیغام کی شکل میں خاص نظام کے ذریعہ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے دماغ کے پچھلے حصہ میں واقع بصارتی مرکز تک پہنچاتی ہے، تب وہ چیز جس پر آنکھ کا ارتکاز ہے ویسی دکھائی دیتی ہے، یہ عمل مختصر بیان کرنے کےلئے اور پڑھنے کےلئے بھی کتنا وقت لیتا ہے ؟ جبکہ بصارتی یہ عمل اس تیزی کے ساتھ ہوتا ہے کہ اس کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ سب اللہ کا مقرر کردہ پیمانہ ہے اور تخلیقِ حیوان میں اس کی تقدیر کا حصہ ہے، پھر مختلف جانداروں کی آنکھ مزید خصوصیات رکھتی ہیں، مکھی کی آنکھ جو صرف ایک ملی میٹر کے معمولی رقبہ کو گھیرتی ہے، لیکن اس ایک ملی میٹر کے رقبہ کی مکھی کی آنکھ میں آٹھ ہزار عدسے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں، بعض جانور وہ ہیں جو اندھیرے میں دیکھتے ہیں اور بعض جانور ان کی سادہ آنکھ سے ایسے رنگوں کا ادراک کر لیتے ہیں جو انسان یا دوسرے جانور اپنی سادہ آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتے، یہ سب اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ پیمانہ ہے، ہر اضافی خصوصیت ایک اضافی عمل اور اضافی پیمانہ خصوصی کا حامل ہوتا ہے۔
قوت شامہ:
سونگھنے کی صلاحیت، اس کے ذریعہ انسان خوشبو سونگھ کر لطف و حظ لیتا ہے، جبکہ اسی کے ذریعہ بدبو کا ادراک کرتا ہے، جلنے کو محسوس کرتا ہے، غذا کی اچھائی یا برائی کو محسوس کرتا ہے، قوت شامہ بیک وقت اچھی بری، ہلکی تیز، قریب اور دور کی متعدد طرح کی بو کو محسوس کرتی ہے، کسی چیز کو کھانے سے پہلے اس کو سونگھ کر جاندار پتہ چلا سکتا ہے کہ وہ اچھی ہے یا بری، اگر قوت شامہ نہ ہو تو کئی خراب چیزیں انسان کی زبان تک پہنچ کر اس کو مکدر کردیں، یا اگر وہ جلد اثر کرنے والی چیز ہو تو انسان کی صحت کو نقصان پہنچائے، یہ قوت شامہ حیوانی جسم میں اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے۔
حافظہ کا نظام:
محسوسات علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اور حافظہ ان معلومات کو محفوظ کرتا ہے، کوئی بھی جاندار کسی چیز کو دیکھ لے حافظہ اس کو محفوظ کر لیتا ہے، کوئی چیز سن لے وہ حافظہ میں محفوظ ہوجاتی ہے، کوئی چیز سونگھ لے وہ حافظہ میں محفوظ ہو جاتی ہے، کوئی چیز چکھ لے حافظہ اس کو محفوظ کرلیتا ہے، اور بوقت ضرورت حافظہ سے ان کو یاد کرسکتا ہے، حافظہ کا یہ نظام اللہ تعالیٰ نے ایک خاص اندازہ اور مقررہ پیمانہ سے بنایا ہے، جسم حیوانی کی تخلیق میں یہ اللہ کی تقدیر کا اہم ترین حصہ ہے۔
لمس :
اور مس کا احساس حیوانی جسم میں ایک خاص پیمانہ اور مقررہ اندازہ سے رکھا گیا ہے، اس کے بدن کو کوئی چیز چھو جاتی ہے تو وہ فوراً دماغ کو اس کا پیغام بھجواتا ہے، اگر وہ چیز انسانی بدن کے لئے نقصان دہ ہے، مثلاً: سخت جلانے والی ہے، یا سخت ٹھنڈی ہے یا چبھنے والی ہے، یا چپکنے والی ہے دماغ فوراً اس عضو کو ہٹنے کا حکم دیتا ہے اور وہ عضواس چیز سے خود کو دور کرلیتا ہے، یہ اللہ کا مقرر کردہ پیمانہ ہے، اسی طرح حیوانی بدن کو ایسی چیزیں بھی چھوتی ہیں جو اس کو نقصان نہیں پہنچاتیں، مثلاً اس کے بدن پر لپٹے ہوئے کپڑے یا ایسی ہی دوسری چیزیں جو اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہیں، یہ لمس اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہے اس کا تجربہ ہو جانے کے بعد وہ اس کے حافظہ میں محفوظ رہتا ہے اور بار بار دماغ کو اس تیزی سے پیغام رسانی نہیں کرتا جس سے ذہنِ حیوانی کی زندگی اجیرن ہو جائے، یہ اسی وقت چونکتا اور زیادہ متحرک ہوتا ہے جبکہ اس کو کوئی نقصان دہ چیز چھوئے،یہ بھی اللہ کے خاص مقرر کردہ پیمانہ کا حصہ ہے۔
بھیجہ:
حیوانی جسم میں بھیجہ ایسا حصہ ہے جو جسم حیوانی کو کنٹرول کرتا ہے اور اعضاء جسمانی کے بے انتہاء پیغامات کو حاصل کرتا ہے اور انہیں احکامات جاری کرتا ہے،اطراف میں موجود چیزوں کو دیکھنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کےلئے بھیجہ میں ایک سو ارب سے زائد اعصابی خلیات ہوتے ہیں، ان میں غیر معمولی ترسیلی نظام ہوتا ہے، جو ایک سو کھرب کنکشنس کے ذریعہ عمل میں آتا ہے۔
عالمی مواصلاتی نظام جو لاکھوں ٹیلی فون کالس کو متحرک کرتا ہے کسی بھی حیوانی بھیجہ کی کارکردگی کے آگے بالکل معمولی حیثیت رکھتا ہے، سائنس دان جو آئے دن نت نئی مشینیں بناتے ہیں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ انسان کےلئے یہ کبھی ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ حیوانی بھیجہ جیسی کار کرد کوئی مشین جو اس درجہ کنکشنس رکھتی ہو اور اتنی رفتار اور اتنی خصوصیات والی ہو پیدا کر سکے، حیوانی جسم میں بھیجہ اللہ کی جانب سے مقرر کردہ اور خاص اندازہ اور پیمانہ کا آلہ ہے اور اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے۔
بلاشبہ علم و اندازہ سے بھرپور ان غیر معمولی تخلیقات کا خالق بڑے علم اور حکمت والا ہے، ناقابل تصور قدرت والا ہے، کاریگری اور کارسازی کا جو نظام اس نے بنایا ہے انسانی ذہن اس کی توصیف کے بیان سے قاصر ہے اور لا محالہ پیغمبروں کی پیروی میں کہنا پڑتا ہے: لا أحصی ثناء عليک انت کما اثنيت علی نفسک۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انسان کو حق تعالیٰ نے دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں احسن تقویم میں پیدا کیا اور خاص خصوصیات سے نوازا ہے، یہ اللہ کی جانب سے انسان کی تقدیر کا حصہ ہے۔تشریح
تخلیق انسان کی ساخت میں پیمانہ:
انسان حیوانات میں سب سے اونچی مخلوق ہے، جو اللہ تعالیٰ کی تخلیقات میں شاہکار ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر زاویہ سے ایک خوبصورت اور غیر معمولی بنایا ہے، جس کے ظاہری اعضاء کی ساخت تمام مخلوقات میں سب سے خوبصورت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی خوبصورتی میں اضافہ کے لئے اس کی جلد کو صاف و شفاف رکھا ہے، اس کی جلد کی شفافیت کی وجہ سے ہی اس کو بشر کہا جاتا ہے،اس کی اٹھان اور اعضاء کا تناسب دیگر تمام مخلوقات میں سب سے بہترین ہے، اس کا چلنا، بیٹھنا، لیٹنا ہر زاویہ میں اس کا تناسب دیگر مخلوقات کے مقابلہ میں ایک بہترین پہلو رکھتا ہے، تمام مخلوقات میں انسان کا یہ مقام پہلے سے طے شدہ ہے اور اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے ۔
پھر عقل اور اس کے استعمال میں اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک خاص مقام دیا ہے جو اس کو دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے، عقل اور اس کے دیگر ذرائع علم اسے اس دنیا کو برتنا سکھاتے ہیں، دنیا کو اس طرح برتنا ، اپنے علم کے وسائل کو استعمال کرنا اور ان وسائل سے حاصل معلومات کو محفوظ کرنا، محفوظ معلومات اور ان کے مطابق تجربات سے حقائق تک پہنچنا اور دنیاوی قوتوں کو مسخر کرنا، اور ان علوم کو مدوّن کرکے ترقیات کو آگے بڑھانا، ان سب میں دنیا کی کوئی مخلوق انسان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اس طرح سے مخلوقات میں اس زمین پر حکومت اور بادشاہی کرنے والی مخلوق انسان ہی ہے، چنانچہ زمین پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے ہی اس کی تخلیق ہوئی ہے، یہ سب صفات اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کہ وہ ان مقاصد کو پورا کرے ایک خاص پیمانہ اور مقررہ اندازہ سے دئے گئے ہیں اور یہ اس کےلئے اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
عورت و مرد کی تخلیق میں اللہ نے فرق رکھا ہے اور ہر دو کی جدا جدا خصوصیات میں خاص پیمانہ مقرر ہے، یہ ان کےلئے اللہ کی جانب سے مقرر تقدیر کا حصہ ہے۔تشریح
نر و مادہ اور عورت و مرد کی ساخت میں پیمانہ:
تمام مخلوقات کی تخلیق جوڑوں کی شکل میں ہوئی ہے جو ایک دوسرے سے مل کر مکمل ہوتے ہیں، جانداروں میں بھی نر و مادہ ایک دوسرے کے جوڑ ہیں اور انسانوں میں مرد و عورت ایک دوسرے کے جوڑ ہیں، مخلوقات کی جوڑوں کی شکل میں پیدائش اللہ کا مقرر کردہ پیمانہ ہے اور اس کی تقدیر کا حصہ ہے۔
نر و مادہ یا مرد و عورت جس مقصد کے تحت الگ الگ ساخت میں پیدا کئے گئے ہیں، یا ان کی ساخت میں جو فرق ہے وہ خاص پیمانہ اور مقررہ اندازہ کے مطابق ہے، اور ہر ایک مکمل طور پر اس مقصد کی تکمیل کرتا ہے جس کےلئے وہ پیدا ہوا ہے، اور ہر ایک کو ایک خاص اندازہ اور پیمانہ میں وہ سارے اسباب و اعضاء دئے گئے ہیں جس کے لئے ان کی تخلیق ہوئی ہے، یہ بھی ان کےلئے اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
دنیا میں قوموں کا عروج و زوال ان کی تقدیر کا حصہ ہے، ہر عروج و زوال اللہ کی جانب سے مقدر ہے جس میں اس کی حکمتیں کار فرما ہوتی ہیں۔تشریح
قوموں کے عروج و زوال میں پیمانہ:
اللہ کی پیدا کردہ اس زمین پر ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا کی جاتی ہے، ہر نسل و قوم کا ایک وقت مقرر ہے، کوئی نسل و قوم نہ وقت سے پہلے آتی ہے اور نہ مقررہ وقت سے دیر کرتی ہے، کس کو کب پیدا ہونا ہے اور کب ختم ہو جانا ہے اللہ کی جانب سے مقرر ہے، یہ اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے۔
اسی طرح قوموں کا عروج و زوال بھی اللہ کے یہاں مقرر ہے، کسی قوم یا فرد کو زمین میں اللہ تعالیٰ ہی حکومت و ملوکیت عطاء فرماتے ہیں، جب کسی حاکم قوم کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو پھر اس کو زوال سے دوچار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس طرح سے وہ زمین پر فساد کا سلسلہ ختم کرتے ہیں، اور پھر کسی اور قوم کو عروج عطاء کرتے ہیں، یہ در حقیقت اللہ کی ملوکیت ہے جہاں اس کی مشیت چلتی ہے اور ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے، اللہ نے ہر ایک کے لئے خاص وقت اور پیمانہ مقرر کیا ہے اور کوئی چیز اس کی مقررہ تقدیر سے ہٹ کر نہیں ہوتی ہے۔
واقعات کے پیش آنے میں اسباب کی بھی حقیقت ہے کیونکہ اللہ نے ہی اسباب کو بھی پیدا کیا ہے، کسی بھی واقعہ کے لئے سبب کیسے ذریعہ بنتا ہے؟ جیسے کسی قوم کے عروج و زوال میں اسباب کی کیا اہمیت ہے؟ اور وہ کس حد تک انسان کے اختیار میں ہیں؟ ان کے بارے میں آگے تفصیل سے کلام آرہا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
یہ دنیا اللہ کی ملکیت ہے، یہاں وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے،اللہ کی چاہت کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہوتا۔
عقیدہ:
اپنے علم کے مطابق تقدیر لکھ دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بندوں کے عمومی اعمال کے بارے میں چاہا کہ وہ ویسے واقع ہو جایا کریں جیسے بندے چاہتے ہیں، تاکہ آزمائش کا مرحلہ پورا ہو۔تشریح
مشیتِ الٰہی:
تقدیر سے متعلق تیسری اہم صفت اللہ تعالیٰ کی ’’مشیت‘‘ ہے، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور اس کے علاوہ سب اس کی مخلوق ہیں، اس کی مخلوق میں جو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، جو وہ نہیں چاہتا نہیں ہوتا ہے۔
یہ پوری کائنات اللہ کی مملکت ہے، یہاں وہی ہوتا جو اس کی مشیت میں ہو، اسی طرح اس کی تمام مخلوقات وہی کر سکتی ہیں جو وہ چاہتا ہے، جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں کر سکتیں، افلاک اور آسمانوں کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مشیت سے انحراف کرکے خود سے اپنی کوئی راہ متعین کرے، سورج ، چاند ، زمین اور سیارے اس کی مشیت کے تابع ہیں، فرشتے اس کی مشیت کے تابع ہیں، مظاہر فطرت اس کی مرضی کے تابع ہیں، آگ، پانی، ہوا، مٹی، جمادات، نباتات، جانداروں کا وہ نظام جو اس نے جبلتی طریقے سے طے کیا ہے جس کے پیدا کرنے اور اس کو چلانے میں خود جانداروں کا کوئی دخل نہیں ہے، سب اللہ کی مشیت کے تابع ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جیسے چاہتا ہے پید اکرتا ہے، جس مخلوق کو جس تعداد میں چاہتا ہے پید کرتا ہے، وہ اپنی مشیت سے کس کو کیا بنائے گا پہلے سے مقدر ہے۔تشریح
تخلیق میں مشیت الٰہی:
اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جیسی مخلوقات چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، کوئی مخلوق اس کی چاہت کے خلاف کوئی چیز طے نہیں کر سکتی، وہ جس کو چاہتا ہے جتنی تعداد میں چاہتاہے پیدا کرتا ہے، وہ جس کو چاہتا ہے فرشتہ بنادے، جس کو چاہے، انسان بنادے، جس کو چاہے جن بنادے، جس کو چاہے کوئی اور جانور بنادے، جس کو چاہے نر بنائے جس کو چاہے مادہ بناے، جس کو چاہے مرد بنائے جس کو چاہے عورت بنائے اور اسی طرح جس کو چاہے نرینہ اولاد دے اور جس کو چاہے بیٹیاں دے۔
وہ اپنی مشیت سے کس کو کیا بنائے گا اس کی جانب سے پہلے سے طے شدہ ہے اور پہلے سے اس کے علم میں ہے کون کیا بنے گا، اور اس کی جانب سے مقرر کردہ تقدیر کا حصہ ہے۔
اسی طرح مخلوقات اور انسانوں کی تعداد سب کی پیدائش اللہ کے یہاں مقررہے، انسانوں کی مقدر تعداد لازماً پیدا ہو کر رہے گی، انسان اولاد روکنے کےلئے خواہ عزل کرے خواہ کوئی اور طریقہ اختیار کرے جس کو پیدا کرنا اللہ کے یہاں مقدر ہو چکا ہے وہ پیدا ہو کر رہے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ نے اپنی مشیت سے جس کے لئے جو رزق طے کیا ہے وہی ملتا ہے۔تشریح
رزق کی عطاء میں مشیت:
زمین و آسمان کا رزق کو نکالنا اللہ کی مشیت پر مقدر ہے، وہ جب چاہے جس کےلئے چاہے رزق کی فراوانی مقدر کردے اور جب چاہے جس کےلئے چاہے رزق کی تنگی مقدر کردے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے رزق کو پیدا کرنے کے اسباب ایک خاص اندازہ اور مقررہ پیمانہ سے بنائے ہیں، اور اس کی جانب سے پہلے سے طے شدہ ہے کہ کب کتنا رزق پیدا ہونا ہے، اسی طرح یہ اس کی مشیت ہے کہ وہ جس کو جتنا چاہے رزق دے، جس قوم یا فرد کےلئے چاہے رزق کشادہ کردے اور جس قوم یا فرد کےلئے چاہے رزق کو تنگ کردے۔
وہ جب چاہے آسمان سے بارش کو روک دے اور قحط لے آئے، وہ جب چاہے بارش کا تناسب بڑھادے اور سیلابوں سے زمین کے خزانوں کو تباہ کردے، جس کو چاہے اسباب رزق بھر پور عطاء کردے اور اس سے فائدہ پہنچائے، اور جس کو چاہے اسباب بھر پور دے کر بھی ان اسباب سے فائدہ اٹھانے سے اس کو محروم کردےاور جس کےلئے چاہے اسباب رزق میں تنگی کردے۔
جو کچھ ہوتا ہے صرف اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے ، کب کس وقت اللہ کی مشیت سے کیا ہونا ہے اس کے علم و کتابِ تقدیر میں موجود ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
وہ جس کےلئے چاہے نفع مقدر کرے، جس کےلئے چاہے نقصان مقدر کرے، جس کےلئے چاہے صحت مقدر کرے اور جس کےلئے چاہے مرض مقدر کرے۔تشریح
نفع و نقصان اور صحت و مرض میں اللہ کی مشیت:
نفع و نقصان اور صحت و مرض سب اللہ کی مشیت کے تابع ہیں، اللہ جس کو چاہتا ہے نفع دیتا ہے جس کو چاہتا ہے نقصان دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے صحت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے مرض دیتا ہے، سب کچھ اسی کی مشیت سے ہوتا ہے۔
کسی کو نفع پہنچا تو وہ اللہ کی مشیت سے پہنچا کہ وہ پہلے سے اس کی تقدیر میں لکھا تھا، کسی کو نقصان ہوا تو وہ اللہ کی مشیت سے ہوا اور اس کی تقدیر میں پہلے سے لکھا تھا، کوئی صحت مند ہے تو اللہ کی مشیت سے ہے، اس کی تقدیر میں وہ لکھی ہوئی تھی، کوئی بیمار ہوا تو اللہ کی مشیت سے ہوا ، وہ بیماری اس کی تقدیر میں پہلے سے لکھی ہوئی تھی۔
نفع و نقصان اور صحت و مرض کے لئے اللہ تعالیٰ اسباب کو بھی ذریعہ بناتا ہے اور اسباب کے ذریعہ یہ حالات ان پر آنا ہے پہلے سے لکھا ہے، ایسا بیشتر ہوتا ہے کہ اسباب پیش آنے کے باوجود حالات نہیں پیدا ہوتے؛ کیونکہ ان اسباب سے حالات پیدا ہونا بعضوں کی تقدیر میں لکھا نہیں ہوتا، مثلاً بیماری کے اسباب پیدا ہوتے ہیں لیکن بہت سوں کو بیماری نہیں ہوتی؛ کیونکہ اس کی تقدیر میں بیماری لکھی ہوئی نہیں ہوتی، طاعون پھیلتا ہے، اسباب ہر ایک کےلئے ہوتے ہیں، لیکن انہیں کے بیچ میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو طاعون زدہ علاقہ میں صحت مند رہتے ہیں کیونکہ مسبب الاسباب نے ان کے لئے اسباب کو غیر مؤثر بنادیا ہے، حدیث کے مطابق جو شخص اللہ کو مسبب مان کر اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مرض اسباب نہیں اللہ دیتے ہیں تو وہ یقین اور اس کے مطابق عمل اس کو شہید کے برابر اجر کا مستحق بناتے ہیں۔
تقدیر میں اسباب کی اہمیت کے بارے میں کچھ اور تفصیل آگے آرہی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی جانب سے مقرر کردہ مخلوقات کی تقدیر حکمتوں سے بھر پور اور بامقصد ہوتی ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت سے بھر پور اور با مقصد ہوتا ہے:
اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، ان سب کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت و مقصد سے خالی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت سے بھر پور اور بامقصد ہوتا ہے، اس نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے با مقصد پیدا کیا ہے، نہ کائنات کی تخلیق ، نہ مخلوقات کی تخلیق اور نہ ہی ان میں انسانوں کی تخلیق کچھ بھی بے مقصد نہیں ہے، اللہ تعالیٰ عبث اور باطل کام نہیں کرتا ہے۔
ایسا خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے بے حکمت اور بے مقصد سب کچھ تخلیق کیا ہے کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
کسی کی بھی تقدیر میں اللہ تعالی ظلم نہیں کرتے، سب کے ساتھ عدل کرتے ہیں ، ہاں وہ جس پر چاہیں فضل کا معاملہ بھی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔تشریح
عدل و فضل:
اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کو جو چاہتا ہے بناتا ہے، جس کو جتنا چاہتا ہے عطاء کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے مرد بناتا ہے جس کو چاہتا ہے عورت بناتا ہے، وہ مردوں کو قوّام بناتا ہے اور ان کو عورتوں پر یک گونہ برتری عطا کرتا ہے، یہ اس کا فضل ہے، جس کو چاہتا ہے رزق میں کشادگی دیتا ہے اور جس کےلئے چاہتا ہے تنگی کرتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ ظالم ہے، ہر گز نہیں اللہ تعالیٰ نے جس کو جیسا بنایا اور جس کو جو کچھ دیا وہ اس کا عین عدل ہے، ہاں اگر وہ کسی کو واقعۃً بڑھا کر دیتا ہے تو وہ اس کا فضل ہے، اور اس کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہے فضل کا معاملہ کرے۔
تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، وہ ان کے ساتھ جو چاہے کرے، لیکن یہ اس کا احسان ہے کہ دنیا کے مفلس ترین اور محروم ترین انسان کو بھی اس نے لاکھوں کروڑوں نعمتوں سے نوازا ہے، اس کی تخلیق اور ربوبیت میں ہی اتنے احسانات ہیں کہ ان کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے، رہی یہ بات کہ اس نے کسی کو کچھ یا بہت کچھ بڑھا کر دیا ہے تویہ اس کے فضل کی بات ہے وہ جس پر چاہے اضافی فضل کر سکتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ سے یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے فلاں کام کیوں کیا ؟ یا فلاں کام ایسے کیوں کیا؟ ویسے کیوں نہیں کیا؟تشریح
اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے بارے میں کیوں کا سوال نہیں ہو سکتا:
تمام مخلوقات اللہ کی ملکیت ہیں اور کائنات اللہ کی مملکت ہے، وہ اپنی مخلوقات کے ساتھ اپنی مصلحتوں اور مخلوقات اور بندوں کےلئے اس کی حکمتوں کے مطابق جو چاہتا ہے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس نے یہ کام کیوں کیا؟ کسی کام کو ایسے کیوں نہیں کیا؟ اس کو یہ کام ایسے کرنا چاہئے تھا،ایسے کیوں کیا؟ وغیرہ، اس طرح کا کوئی سوال اللہ تعالیٰ سے نہیں کر سکتا ، کون ہے جو اللہ کے علم و حکمت کے مقابلہ میں اپنی ناقص عقل کو لاسکے، اور کون ہے جو اللہ کی قدرت کے آگے ٹھہر سکے، نہ بندوں کے پاس وہ عقل و حکمت ہے جس سے وہ اللہ کے افعال پر کسی قسم کی تنقید کر سکے اور نہ بندوں کی یہ حیثیت ہے کہ وہ کسی کام پر اللہ کے آگے احتجاج کر سکے، وہ کامل و مکمل حکمت والا اوراس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے، اس لئے بندوں کےلئے خیر اسی میں ہے جو اس نے ان کے لئے طے کیا ہے اس کو پورے اعتماد اور بھروسہ کے ساتھ اپنے لئے خیر سمجھیں اور انہیں جس بات کا حکم دیا ہے اسی میں بھلائی جان کر اس کو لازم پکڑیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
وہی رزق دیتا ہے اور وہی تنگ کرتا ہے، لیکن جد و جہد اور محنت وغیرہ کو کشادگی کےلئے اور کام چوری وغیرہ کو تنگی کےلئے سبب بناتا ہے۔تشریح
تقدیر میں اسباب کی اہمیت:
اسی طرح اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں، جو چاہتے ہیں دیتے ہیں، چاہیں تو رزق میں کشادگی کردیں اور چاہیں تو رزق میں تنگی کردیں، یہ سب حقیقت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسباب کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسباب کو نتائج بر آمد ہونے کا اہم ذریعہ بنایا ہے، پانی کو زندگی کا سبب بنایا، بارش کو زمین سیراب کرنے اور سر سبزی و شادابی لانے کا سبب بنایا، شادی کو اولاد کا سبب بنایا، آگ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، محنت کشادگی لاتی ہے اور کام چوری تنگی لاتی ہے، اسی طرح زندگی کے ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اسباب کا سلسلہ رکھا ہے، اسباب اختیار کرنے سے ہی نتائج بر آمد ہوتے ہیں اور اسباب اختیار کرنے سے نتائج بر آمد ہونا اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے، اسباب کو ایک مقررہ پیمانہ کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں تبدیلیوں کا ذریعہ بنایا ہے۔
وہی ہدایت دیتا ہے اور وہی گمراہ کرتا ہے، لیکن اس کا یہ عمل بے سبب نہیں ہوتا، وہ بندہ میں انابت اور خوف کی بنیاد پر ہدایت کی توفیق دیتا ہے، یا پھر سرکشی ،حق سے انحراف یا شرک میں لاپراوہی وغیرہ کی بنیاد پر گمراہی کے راستہ کو آسان کردیتا ہے۔
اسباب چونکہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے نتائج بر آمد کرتے ہیں، اس لئے وہ اللہ کے اختیار میں ہیں ، وہ چاہے تو اسباب کو معطل بھی کر سکتا ہے، جیسے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا کہ آگ‘ جلانے کا سبب ہے؛ لیکن ان کی آگ کے اثر کو اللہ تعالیٰ نے معطل کردیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کسی چیز کے بنانے میں اسباب کا محتاج نہیں ہے، جیسے حضرت ہود علیہ السلام کی اونٹنی معروف اسباب کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ پہاڑ سے پیدا ہو کر نکل آئی ، اللہ کو کوئی چیز پیدا کرنے کے لئے اسباب کی ضرورت نہیں ہے، ہاں یہ بھی اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے کہ عام طور پر وہ بندوں کےلئے اسباب کے ذریعہ سے ہی نتائج بر آمد کرتا ہے۔
جس طرح تکوینی تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے اسباب کو رکھا ہے اسی طرح تشریعی احکام میں بھی اسباب کو اہمیت دی ہے، اس کا ذکر آگے آئے گا۔دلائل
.بند
عقیدہ:
وہی ہدایت دیتا ہے اور وہی گمراہ کرتا ہے لیکن بندوں کی انابت یا سرکشی کو ہدایت یا ضلالت کےلئے سبب بناتا ہے۔اس نے مخلوقات کےلئے ہدایت کے کئی درجات مقدر کئے ہیں۔تشریح
ہدایت و ضلالت مقدر ہونے کا مطلب:
اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہدایت ہے اور سب سے بڑی مصیبت ضلالت و گمراہی ہے،بندہ ہدایت یاب ہو جائے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں اور اگر بندہ گمراہ ہو جائے تو اس سے بڑا کوئی خسارہ نہیں ہے۔
یہ ہدایت اور ضلالت بھی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے۔
اللہ کی جانب سے ہدایت و ضلالت کے کئی درجات و مراتب ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ہر مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے اس کی طبعی اور جبلی ضروریات اور ان کو پورا کرنے کی فطری رہنمائی کردی ہے۔تشریح
ہدایت کا پہلا درجہ طبعی و جبلی ہدایت:
سب سے پہلا ہدایت کا درجہ عمومی ہے جو اللہ نے ہر مخلوق کے لئے رکھا ہے کہ ہر مخلوق کو اس کی زندگی و معاش اور مصلحتوں کی رہنمائی کردی گئی ہے ۔
خود انسان کا بچہ جب پیدا ہوتا ہے ، ماں کے پیٹ میں غذاء کے حصول کا کوئی طریقہ نہیں جانتا تھا پیدا ہونے کے بعد بھوک لگنے پر ماں کے سینے سے غذا حاصل کرتا ہے، اس کے لئے جو طریقہ وہ اختیار کرتا ہے وہ اس کو کسی مخلوق کا سمجھایا ہوا نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس وقت کچھ سمجھنے کا اہل ہوتا ہے، یہ علم اور ہدایت اس میں اللہ کی جانب سے ودیعت کی ہوئی ہے۔
ہر مخلوق کو جو طبعی ضروریات کا ادراک اور ان کو پورا کرنے کا جو راستہ اس کو معلوم ہے وہ اسی ہدایت کے درجہ سے حاصل ہے، رزق کا حاصل کرنا، رزق کو استعمال کرنا اور نسل بڑھانا وغیرہ، یہ ہدایت اللہ نے ہر ذی نفس کو دی ہے، درختوں، جانوروں سب کو دی ہے، حتی کہ جن کو ہم جمادات کہتے ہیں ان کو بھی دی ہے، شہد کی مکھی شہد جمع کرنے کا جو عمل کرتی ہے وہ اللہ کی اسی ہدایت کا نتیجہ ہے۔
اسی طرح چیونٹیاں اپنی غذا کے حصول کے لئے جو جد و جہد کرتی ہے وہ اسی ہدایت کا نتیجہ ہے ، وہ حصول غذا کےلئے خواہ کتنی ہی دور نکل جائے، غذا حاصل کرکے آسان یا مشکل راستوں سے ہو کر واپس اپنے مستقر کو آتی ہے، اور جو غذا لاتی ہے اگر اس میں پانی لگ کر اس کے پودے کی شکل میں اگنے کا امکان ہوتو اس کے دو ٹکڑے کردیتی ہے، اگر کسی بیج کو دو حصوں میں توڑنے کے باوجود وہ دوبارہ اگ سکتا ہو تو اس کو دو سے زیادہ حصوں میں تکڑے کردیتی ہے۔ اگر اس کے جمع کئے ہوئے ذخیرہ میں پانی یا تری لگ کر وہ خراب ہو رہا ہو تو وہ اس کو اپنے بلوں کے سامنے سورج کی دھوپ لگنے کےلئے بکھیر دیتی ہے، اور جب وہ سوکھ جاتی ہے تو اس کو پھر ذخیرہ کردیتی ہے یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہی اس کی طبیعت کو سجھائی ہیں۔
اسی طرح پرندوں کو ان کی ضروریات کی ہدایت، مثلاً گھونسلے بنانا اور درختوں اور اونچی جگہوں پر بنانا، انڈے دینے کےلئے مناسب جگہ کا انتظام کرنا وغیرہ اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے جبلتی ہدایت کے سلسلہ کا حصہ ہے۔
کبوتر جو پیغام رسانی کے کام آتا ہے اس کی بالقوۃ اہلیت اللہ نے ہی اس میں ودیعت کی ہے کہ اس کو پھر تربیت دے کر اس کام میں لایا جا سکتا ہے کہ وہ سینکڑوں میل تک پہنچ کر پیغام رسانی کا ذریعہ بنتا ہے اور جواب لاتا ہے۔
درندوں کو شکار کرنا اور اس کے طریقے اللہ کے سکھائے ہوئے ہیں، کہ وہ شکار کی ہر ضرورت سے پوری طرح آراستہ اور اس کےلئے بالقوۃ مکمل طور پر تربیت یافتہ ہیں، غرض ہر مخلوق کو اس کی مناسبت سے اس کی طبعی اور جبلی ضروریات اور ان کے طریقے اللہ کی جانب سے جبلتی ہدایت کے ذریعہ سجھائے گئے ہیں اور یہی مخلوقات کو اللہ کی ہدایت کا پہلا درجہ ہے، جس میں اس کی تمام مخلوقات بغیر کسی استثناء کے شریک ہیں۔
انسانوں کو کھیتی باڑی، باغبانی، صنعت و حرفت، تجارت و معیشت کی بنیادی ضروریات و طریقے سب اللہ کی جانب سے ودیعت کئے گئے ہیں، یہ جبلتی ہدایت کا حصہ ہیں، انسان کو اللہ نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ عقل کو استعمال کرکے ان کاموں کو ایک خاص سلیقہ سے انجام دیتا ہے، یہ طریقے سیکھتا سکھاتا ہے اور پڑھتا پڑھاتا ہے؛ لیکن ان کاموں کی بنیاد اسے ایسے ہی معلوم ہوئی ہے جیسے دیگر مخلوقات کو ان کے جبلی اور طبعی ضروریات اور ان کو پورا کرنے کے طریقے ہدایت کئے گئے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
عام مخلوقات سے ہٹ کر اللہ نے مکلّفین میں اضافی صفات اور خصوصیات مقدر کی ہیں، اور انہیں کی بنیاد پر انہیں مکلّف بنایا گیا ہے۔تشریح
مکلّفین کو اللہ کی جانب سے عطاء کردہ دو اضافی امور:
اللہ کی مخلوقات اتنی تعداد میں ہیں کہ ان کو شمار کرنا بندوں کے بس سے باہر ہے، ہاں ان مخلوقات میں دو مخلوق ایسی ہیں جنہیں ان کے اعمال کا مکلّف بنایا گیا ہے، کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے جو کچھ کریں گےاس کے بارے میں ان سے سوال کیا جائے گا، اور اپنے ارادہ و اختیار سے جو کچھ چھوڑ دیں گے ان کو اس کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی، یہ دو مخلوق انسان اور جن ہیں، ان کے علاوہ کسی مخلوق کو جوابدہی کا مکلّف نہیں بنایا گیا ہے۔
اس کےلئےانسانوں اور جنوں کو اللہ تعالیٰ نے دو اضافی چیزیں عطاء فرمائی ہیں جو دوسری مخلوقات میں نہیں ہیں: (۱) ارادہ و اختیار (۲) ہدایت شرعی ،ان دو چیزوں کی تفصیل یہاں آگے بیان ہوگی۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے مکلّفین میں ارادہ و اختیار کی صفات کو مقدر کیا ہے، مکلّف بندے اسی ارادہ و اختیار سے کوئی کام کرتے ہیں یا چھوڑتے ہیں، یہ صفت مکلّفین کے علاوہ دوسری مخلوقات میں نہیں ہے۔تشریح
ارادہ و اختیار:
کسی کو مکلّف بنانے کےلئے ضروری ہے کہ اس کو عمل کی آزادی بھی دی جائے تبھی اس سے اس کے عمل کے بارے میں سوال ہو سکتا ہے اور اس کو جوابدہی کے لئے پابند بنایا جا سکتا ہے۔
اس لئے انسانوں اور جنوں کو اعمال کے کرنے یا چھوڑنے کےلئے ارادہ اور اختیار کی صفات عطاء کی گئی ہیں، وہ کوئی عمل کرتے ہیں تو اپنے ارادہ اور اختیار سے کرتے ہیں اور کوئی عمل چھوڑتے ہیں تو اپنے ارادہ اور اختیار سے چھوڑتے ہیں۔
ایمان اور عمل صالح کی روش اختیار کرتے ہیں تو اپنے ارادہ اور اختیار سے کرتے ہیں، ہاں اللہ تعالیٰ ان کی انابت کو دیکھتے ہوئے توفیق بھی دیتے ہیں، لیکن ان کے عمل میں خود ان کے ارادہ و اختیار کا دخل ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے ایمان اور اعمال کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ انہیں جنت سے نوازیں گے۔
اسی طرح کوئی کفر، ظلم، اور فسق و فجور کی روش اختیار کرتا ہے تو اپنے ارادہ اور اختیار سے وہ روش اپناتا ہے، یہ خود اس کی سرکشی ہوتی ہے، ہاں اسی سرکشی کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ اس کے لئے کفر کے راستہ کو آسان کر دیتے ہیں لیکن وہ راستہ خود اس کا اختیار کردہ ہوتا ہے اور اس کے کفر، ظلم اور فسق و فجور کے بدلہ میں ہی اس کو جہنم کی سزا ملے گی۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بندہ اپنے ارادہ و اختیار سے اعمال کماتا ہے لیکن اعمال کا خالق اللہ ہی ہے، جیسے رزق کا خالق اللہ ہے اور بندہ رزق صرف کماتا ہے۔تشریح
خلقِ اعمال اور کسبِ اعمال:
مکلّفین کو ایک گونہ ارادہ اور اختیار کی صفات دی گئی ہیں ،اس حقیقت کو سمجھنے کے ساتھ ایک اور حقیقت یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ یہ کائنات اللہ کے مملکت ہے، یہاں جو کچھ ہوتا اللہ کی مشیت اور اس کی اجازت سے ہوتا ہے۔
جب مکلّف بندہ کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس کو اختیار کرنا چاہتا ہے تو یہ دنیا یا وہ عمل اس کی مملکت نہیں ہے کہ خود سے کر سکے، یہ اللہ کی مملکت ہے، بندہ کو وہ عمل کرنے کےلئے اللہ کی مشیت کی ضرورت ہوتی ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کی ابتلاء اور آزمائش اس عمل کے کرنے یا نہ چھوڑنے میں رکھی ہے تو اللہ تعالیٰ اس عمل کو اپنی مشیت سے پیدا کردیتے ہیں اور اس عمل کو ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں، بندہ کے عمل کے لئے یہی موقع کی فراہمی اللہ کی جانب سے خلق اعمال (اس عمل کو پیدا کرنا) ہے، اس موقع کی فراہمی کے بعد جب بندہ اس عمل کو کرتا ہے تو یہ کسب عمل (یعنی بندہ کی جانب سے اس عمل کو کمانا) ہے۔
اس کی مثال ایسے ہے جیسے رزق کے مواقع اس دنیا میں اللہ نے پیدا کئے ہیں، بندہ اپنے رزق کو پیدا نہیں کرتا ہے بلکہ پیدا شدہ رزق میں سے اپنا حصہ کماتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ بعض اعمال سے راضی نہیں ہونے کے باوجود اس کو پورا ہونے دیتے ہیں؛ کیونکہ امتحان اور آزمائش کا عمل پورا ہونا ہے۔تشریح
یہ کائنات اللہ کی مملکت ہے یہاں بندہ کے اعمال خواہ وہ اچھے ہوں یا برے اسی وقت پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں جبکہ اللہ کا اذن ہوتا ہے۔ کسی کا عمل چاہے اچھا ہو یا برا اس کائنات میں اللہ کی مشیت سےہی پورا ہو سکتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس عمل کو بھی پورا ہونے دینے میں اللہ کی مشیت ہو اس میں اللہ کی رضا بھی ہے۔
مشیت اور رضا ء کا فرق:
عمل کا خلق اللہ کی جانب سے ہوتا ہے اور اس کا کسب یعنی اختیار (کرنا) یا ترک (چھوڑنا) مکلّف بندہ کی جانب سےہوتا ہے، اور کسب اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ اللہ کی جانب سے خلق اعمال نہ ہو، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہر عمل سے خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا راضی ہوتا ہے۔
کسب اعمال میں مشیت و اذن الٰہی کا صرف یہ مطلب ہے کہ یہ کائنات اللہ کی مملکت ہے یہاں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے اذن سے ہی ہو سکتا ہے، آزمائش کے لئے بندہ کو جو عمل کرنا ہے وہ بھی اللہ کی مشیت اور اجازت سے ہی پورا ہو سکتا ہے۔
جیسے اللہ تعالیٰ آزمائش کےلئے اچھے عمل کی اپنی مشیت اور اجازت دیتے ہیں ایسے ہی آزمائش کےلئے برے عمل کی بھی اجازت دیتے ہیں؛ تاکہ مکلّف بندہ کی آزمائش پو ری ہو، باقی بندہ جو کچھ کرتا ہے اس کو دئے گئے اختیار و ارادہ سے کرتا ہے۔
رہی بات یہ کہ بندہ جو کچھ عمل کرتا ہے اس میں اللہ کی رضا ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ ایک مستقل بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے مکلّفین کےلئے خاص ہدایت میں واضح فرمادی ہے جس کو ہدایت شرعی کہتے ہیں۔دلائل
.بند
عقیدہ:
ارادہ و اختیار کے علاوہ مکلّفین کےلئے مقدر کی گئی دوسری نعمت انبیاء اور کتابوں کے ذریعہ ہدایت ہے۔تشریح
مکلّفین میں ارادہ و اختیار مقدر کرکے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ اپنی رضاء اور ناراضگی والے راستہ کو واضح کیا ہے۔
ہدایت کا دوسرا درجہ تشریعی حکم اور انبیاء اور کتابوں کے ذریعہ ہدایت شرعی:
ہدایت کا دوسرا درجہ ہے ہدایتِ شرعی ہے، یعنی وہ نظامِ ہدایت جو اللہ تعالیٰ نے مکلّف بندو ں کےلئے انبیاء اور کتابوں اور نبیوں اور کتابوں کے پیروکار رہنماؤں کی شکل میں جاری کیا ہے، اسی ہدایت میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکلّف بندوں کے کن اعمال سے راضی ہوتے ہیں اور کن اعمال سے نا راض ہوتے ہیں۔
یہ ہدایت مکلّف بندوں کے لئے خاص ہے، یعنی ہدایت کا یہ درجہ انسانوں اور جنوں کےلئے جاری کیا گیا ہے، اور یہی وہ دوسری خاص عطاء ہے جو اللہ تعالیٰ نے مکلّف بندوں کو ارادہ و اختیار کے ساتھ عطاء فرمائیں ہے جو دیگر مخلوقات کو عطاء نہیں کی گئی ہے۔
یہ ہدایت شرعی نبی و رسول اور اللہ کی کتابوں کی شکل میں دی گئی ہے ، نبی و رسول اور اللہ کی کتابیں اللہ کا صحیح راستہ بتلاتے ہیں، اور حق کی دعوت اور تعلیم دیتی ہیں کہ کن امور میں بندوں کی کامیابی ہے، اور وہ کونسے امور ہیں جن کی وجہ سے بندے ناکامی کا شکار ہوں گے۔
نبیوں اور رسولوں اور اللہ کی کتابوں کا سلسلہ بھی تقدیر الٰہی کا ایک جزء ہے، ہر نبی ورسول کا ایک خاص دور اللہ کی جانب سے مقرر ہے، ہر کتاب اور شریعت کا ایک دور مقرر ہے، ہر امت کا ایک وقت مقرر ہے، سب کچھ بندوں کی ہدایت کےلئے اللہ کی جانب سے پہلے سے مقرر و مقدر ہے۔
بندوں کو ہدایت دینا، علم سے آراستہ کرنا، جہالت سےنکال کر روشنی کی جانب لانے کا نظام اللہ کی جانب سے ایسے ہی مقرر شدہ ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے ظاہری نعمتوں میں سے ہر چیز کو ایک خاص اندازہ میں پیدا کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا یہ سلسلہ تمام مکلّفین کے لئے جاری کیا ہے، تمام انسان اور تمام جنوں کےلئے جاری کیا ہے، ہدایت کے یہ اسباب تمام مکلّفین کےلئے جمع کئے ہیں، ارادہ و اختیار کی عطا ء اور ہدایت شرعی کی عطاء کے بعد بندہ جو کچھ کرتا ہے اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے، ہدایت شرعی کی پابندی کرتا ہے تو اپنے اختیار سے کرتا ہے، ہدایت شرعی کو نظر اندز کرتا ہے اور چھوڑتا ہے تو اپنے ارادہ و اختیار سے چھوڑتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انبیاء و کتابوں کے ذریعہ جو راستہ اللہ نے واضح کیا ہے اسی میں اس کی رضاء ہوتی ہے۔تشریح
مکلّف کے اعمال میں اللہ کی رضاء:
نبیوں اور کتابوں کے ذریعہ شرعی ہدایت دینے اور ہدایت کے ذرائع مہیا کردینے کے بعد مکلّف بندہ عمل کےلئے آزاد ہوتا ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ کی جانب سے مکلّف بندہ کو حکم ہوتا ہے کہ وہ اچھے راستہ کو اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ بندہ کےلئے اچھے راستہ کو پسند فرماتے ہیں اور بندہ اچھا عمل اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں ہے کہ بندہ بُرا عمل کرے ، اللہ تعالیٰ بندہ کےلئے برے راستہ کو پسند نہیں فرماتے، مکلّف بندہ اپنے ارادہ و اختیار سے بُرے راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتے ہیں، لیکن ارادہ و اختیار دینے کے بعد اللہ تعالیٰ زبردستی کسی کو کسی عمل کی جانب نہیں جھونکتے؛ بلکہ عمل کی آزادی دیتے ہیں تاکہ آزمائش پوری ہو۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مکلّفین کےلئے انبیاء و کتابوں کی ہدایت کے علاوہ اللہ نے توفیق کی ہدایت بھی مقدر کی ہے۔تشریح
کسی کےلئے توفیق کی عطاء کو مقدر کیا اور کسی کےلئے توفیق سے محرومی کو مقدر کیا ہے۔توفیق کی عطاء یا توفیق سے محرومی کی تقدیر ظلم کی بنیاد پر نہیں بلکہ عدل اور فضل کے درمیان دائر ہے۔
ہدایت کا تیسرا درجہ عطاءِ توفیق اور اس کی ضد سلبِ توفیق:
ہدایت کے ذارئع مہیا کرنے کے بعد بندہ جب اپنے ارادہ و اختیار سے ہدایت کی جانب مائل ہوتا ہے اور سر کشی نہیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو آگے بڑھنے کی توفیق عطاء فرماتے ہیں کہ وہ ہدایت کو اپنائے ، اللہ تعالیٰ اپنے اختیار سے اس کےلئے ہدایت کے راستہ کو پھر آسان فرماتے ہیں، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی قوت بندہ کو صرف اللہ سے حاصل ہوتی ہے، اور جو بندہ ہدایت کے ذرائع موجود ہونے کے باوجود ہدایت کو نظر انداز کرکے ہدایت سے انحراف کی راہ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے توفیق کو چھین لیتے ہیں۔
توفیق کا دینا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور توفیق کا چھیننا بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ، لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ زبردستی کسی کو ہدایت دے، بندہ اگر ہدایت پر نہیں چلنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ گمراہی کے راستہ کو اس کےلئے آسان کردیتے ہیں، چونکہ اس کائنات میں وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتے ہیں تو بندہ کو گمراہی پر چلنے کےلئے بھی اللہ کی مشیتِ کونی کی ضرورت ہے، اس کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ اپنی جانب کرکے کہتے ہیں کہ اگر کوئی گمراہی پر ہی چلنا چاہتا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اس کو گمراہ کر دیتے ہیں، جس طرح سے ہدایت دینا اللہ کا فعل اور فضل الٰہی ہے اسی طرح گمراہ کرنا بھی اللہ کا فعل اور عین عدلِ الٰہی ہے۔
ہدایت کو سب کےلئے بھیجنا اور اس کے ذرائع سب کےلئے کھول دینا اللہ تعالیٰ کا عدل و انصاف ہی نہیں بلکہ فضل و رحمت اور خیر کا معاملہ بھی ہے، ہدایت کے راستہ کو واضح کرنے کے بعد کوئی گمراہی پر ہی چلنا چاہتا ہے تو اس کے لئے گمراہی کے راستہ کو آسان کردینا اللہ تعالیٰ کا عین انصاف اور عدل ہے، اور جو ہدایت کے واضح ہونے کے بعد ہدایت کے راستہ پر چلنا چاہتا ہے اس کے لئے ہدایت کے راستہ کو آسان کرنا اور توفیق دینا اللہ تعالیٰ کا فضل اور خیر و رحمت کا معاملہ ہے۔
کس کو توفیق عطاء ہوگی اور اس کے لئے نیکی کا راستہ ہوجائےگا، اسی طرح کس سے توفیق چھن جائے گی اور اس کےلئے گمراہی کا راستہ آسان کردیا جائے گا سب پہلے سے اللہ کے علم میں ہے ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے سب کچھ اپنے علم کی بنیاد پر لکھ کر مقدر کردیا ہے۔
یہی توفیق کو عطاء کرنا یا توفیق کو سلب کرلینا ہی اِن الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی گمراہ کرتے ہیں اور اللہ ہی ہدایت دیتے ہیں۔
توفیق ہدایت ہی کا خاص درجہ ہے ، یعنی راہ حق اور عمل حق کی رہنمائی کے اسباب پیدا کرکے بندہ کو اس کے اختیار کرنے کی قدرت دینا،یہ صرف اللہ کے ہاتھ ہے، ہدایت کے ذرائع مثلاً انبیاء اور کتابیں توفیق نہیں دیتیں۔
ہدایت کی توفیق میں صرف یہ بات نہیں ہوتی کہ راستہ دکھادیا، راستہ دیکھ لینے کے بعد بھی کئی مراحل ہوتے ہیں، جس کو ہر عام و خاص آسانی سے سمجھتا ہے، راستہ پر چلنا آسان ہونا بھی ضروری ہے، راستہ معلوم ہو جائے لیکن چلنا نہ ہو تو وہ ہدایت نہیں ہے، توفیق یہ ہے کہ راستہ پر چل پڑے، اسی طرح راستہ پر چل پڑنے کے بعد راستے کے خطرات معلوم ہوں اور ان سے بچنا آسان ہو یہ بھی توفیق کا حصہ ہے، راستہ پر چل پڑنے کے بعد اگر خطرات کا سامنا ہونے سے راستہ سے پھر جائے تو پھر وہ بھی توفیق نہیں ہے، اللہ نے توفیق کو بھی مقدر کا حصہ بنایا ہے، بندہ پر لازم ہے کہ وہ اللہ سے توفیق مانگتا رہے اور بڑھتا رہے۔
توفیق ایک لمحاتی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقل و شعور کے آغاز سے موت تک اس کی ضرورت ہے، اس کے لئے اللہ نے نظام بنایا ہے جو اللہ کی جانب سے مقدر ہے، وہ لوگ جو اللہ سے اس کو مانگتے رہتے ہیں اور اس کی رہنمائی میں چلتے رہتے ہیں ان کے لئے یہ اخیر تک مقدر رہتی ہے، لیکن جو کسی مرحلہ پر رک جائیں اور خود کو اس سے مستغنی سمجھیں وہی گمراہی کا نقطۂ آغاز ہے، مرنے سے پہلے جو کچھ کیا وہی اصل مرحلہ ہے، توفیق الٰہی کے ذریعہ جو ہدایت ملتی ہے اس کا انجام جنت کی رہنمائی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مکلّف بندہ تقدیر میں جبر و اختیار کے درمیان ہوتا ہے۔یعنی افعال غیر اختیاریہ میں مجبور ہے اور افعال اختیاریہ پر اس سے سوال ہوگا۔تشریح
افعال غیر اختیاریہ جیسے حیات و موت ،رزق اور اولاد وغیرہ میں وہ تقدیر کے آگے مجبور ہے۔ افعال اختیاریّہ میں وہ ابتلاء و آزمائش کی حد تک مختار ہے، اور انہیں افعال اختیاریہ پر اس سے سوال ہوگا۔
جبر و اختیار:
انسان اپنی پیدائش، حیات، رزق، صحت و مرض، نفع و نقصان ،مصائب و مشکلات اور موت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے آگے مجبور ہے، ان امور میں جو اللہ تعالیٰ اس کے لئے طے کر دے وہ اس سے ٹل نہیں سکتا اور جو اللہ نے اس کےلئے مقدر نہیں کیا ہے وہ اس کو مل نہیں سکتا،ہاں وہ اپنے اعمال اختیاریہ میں اسی حد تک مختار ہے جس میں اللہ نے اسے مختار بنایا ہے، اس طرح انسان اللہ کی تقدیر میں جبر و اختیار دونوں کے درمیان ہوتا ہے۔
انسان نہ پوری طرح مجبور ہے نہ پوری طرح مختار ہے، اعمال جس کا اسے حساب دینا ہے اس میں آزمائش اور ابتلاء کے لحاظ سے مکمل طور پر مختار ہے اور تکوینی امور میں مکمل طور پر مجبور ہے۔
حیات اور رزق اس کو اتنا ہی ملے گا جو اس کے لئے طے شدہ ہے، خواہ وہ کچھ کرلے اس کو وہی ملے گا جو اللہ کی جانب سے مقدر کردیا گیا ہے، وہ چیز جو اس کے لئے نہیں لکھی گئی ہے خواہ وہ اور پوری دنیا اس کے لئے محنت کرلے اس کو ملنے والی نہیں ہے۔
اور عمل جس کی بنیاد پر اس کو حساب دینا ہے اپنے اختیار سے کرنے کےلئے اس کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، جو کچھ وہ عمل کرے گا اپنے اختیار سے کرے گا اور اس کو اس کا اجر ملے گا، ہاں وہ اعمال کا خالق (پیدا کرنے والا )نہیں؛ بلکہ اعمال کا کاسب (کمانے والا) ہے جیسا کہ اوپر گذرا ہے۔
اور بندہ کو جو کچھ ملنے والا ہے اور بندہ اپنے ارادہ و اختیار سے جو کچھ اعمال کرنے والا ہے وہ سب اللہ کے علم میں پہلے سے ہے، چنانچہ اللہ نے ان سب تفصیلات کو لکھ دیا ہے اور وہ لوح محفوظ میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تقدیر کے پہلے سے لکھے ہوئے ہونے اور اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اعمال کے علم ہونے کا انکار کفر ہے، جیسا کہ قدریہ نے کیا ہے، یہ اللہ کے تقدیری حکم کے منکر ہوتے ہیں، تقدیر کا انکار کرنے والے کافر ہیں۔ تشریح
قدریہ یعنی تقدیر کا انکار کرنے والے:
امتِ مسلمہ میں بعض گمراہ فرقے بھی پیدا ہوئے ہیں، انہوں نے اس مسئلہ میں بھی گمراہی کی راہ اختیار کی ہے، ایک گروہ نے یہ کہا کہ بندہ اپنے اعمال کا خود خالق ہے او ر اعمال خود بخود ہو رہے ہیں، اس میں پہلے سے کچھ طے نہیں ہے، اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کو بندہ کے اعمال کرنے سے پہلے سے کچھ پتہ نہیں ہوتا اور انہوں نے پہلے سے کچھ لکھے ہوئے ہونے کو نہیں مانا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت دونوں کا انکار کیا ہے، انہیں قدریہ کہا جاتا ہے۔
قدریہ یعنی تقدیر کے پہلے سے لکھے ہوئے ہونے کا انکار کرنے والے پیدا ہوں گے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے پیشین گوئی فرمائی تھی اور یہ بھی تعلیم دی تھی کہ جو شخص تقدیر کے لکھے ہوئے ہونے کا انکار کرے گا اور اسی حالت میں اس کی موت آئے وہ جہنمی ہوگا۔
قرآن نے خود کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھی پید کیا ہے اور جو کچھ اعمال تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان کا بھی خالق ہے، اسی طرح صحیح مسلم میں یحییٰ بن یعمر سے منقول ہے کہ بصرہ میں سب سے پہلے قدر کے بارے میں کلام کرنے والا معبد جہنی تھا، جب اس کا ظہور ہوا تو اس کے بعد مَیں اور حمید بن عبد الرحمن حج کے لئے گئے، ہماری خواہش تھی کہ دوران حج کسی صحابئ رسولؐ سے ملاقات ہو جائے تو اچھا ہے، ہم ان سے پوچھ سکیں گے کہ قدر کے بارے میں یہ جو کلام ہو رہا ہے اس کے بارے میں کیا رہنمائی ہے؟ جب ہم مسجد حرام میں داخل ہو رہے تھے اللہ کی توفیق سے ہماری ملاقات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی ، میں اور میرے ساتھی دونوں ان کے دائیں بائیں ہوگئے، میں نے ان سے خطاب کرکے کہا: ائے ابو عبد الرحمن! (یہ حضرت ابن عمر کی کنیت ہے) ہماری طرف کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جو قرآن بھی پڑھتے ہیں اور علم بھی حاصل کرتے ہیں اور ان کے دیگر حالات بتلا کر کہا کہ ان کا خیال ہے کہ قدر کوئی چیز نہیں ہے، سب کچھ یونہی چل رہا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جب تم ان سے جا کر ملو تو انہیں بتلاؤ کہ میں ان سے اپنی برأت کا اظہار کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، اور اس ذات کی قسم جس کی ابن عمر قسم کھاتا ہے! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو اور وہ پورا کا پورا انفاق کردے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہیں لائے گا، پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حدیث جبرئیل سنائی جس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تھا کہ: ایمان کیا ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے، اس کے فرشتوں پر ایمان لایا جائے، اس کی کتابوں پر ایمان لایا جائے، اس کے رسولوں پر ایمان لایا جائے، آخرت کے دن پرایمان لایا جائے اور اس تقدیر کے خیر و شر ہر دو پہلو پر ایمان لایا جائے۔
ابو حفصہ سے منقول ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: ایمان کی حقیقت کا مزہ تم اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم میں یہ بات یقین تک نہ پہنچ جائے کہ جو حالات تم تک پہنچنے والے تھے وہ تم سے کسی طرح نہیں ٹل سکتے تھے اور جو کچھ تم کو پیش نہیں آیا وہ تمہیں کبھی پیش آہی نہیں سکتا تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے کہا: لکھو! قلم نے کہا : پروردگار میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تا قیامت ہر چیز کی تقدیر لکھو ! حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: بیٹے !میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جو شخص اس بات پر ایمان لائے بغیر مر جائے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (سنن ابی داؤد)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں شرکت کےلئے آئے، تدفین کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تدفین کے انتظار میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا انجام کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ہے لکھا جا چکا ہے، وہاں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہؐ! تو کیا ہم اس لکھے ہوئے پر سب کچھ چھوڑ کر عمل چھوڑ نہ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرتے رہو! اس لئے کہ جو شخص بھی جس انجام کےلئے پیدا ہوا ہے اس کےلئے اسی کے مناسب عمل آسان ہوگا، جو کامیاب ہونے والوں میں سے ہوگا اس کے لئے کامیابی کے اعمال آسان ہوں گے اور جو نا کام ہونے والا ہوگا اس کےلئے ناکام ہونے والے اعمال آسان ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ اللیل کی آیات فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰى وَاتَّقٰى (۵) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى (۶) فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰى (۷)تلاوت کیں۔(صحیح بخاری) دلائل
.بند
عقیدہ:
مکلّف بندہ کو اعمال میں بھی مجبور محض بتلانا اور معاصی کی بنیاد تقدیر پر رکھنا بھی کفر ہے، جیسا کہ جبریہ نے کیا ہے، یہ اللہ کے تشریعی حکم کے منکر ہیں، تقدیر کی بنیاد پر بندوں کو اعمال میں بھی مجبور محض بتلانے والے کافر ہیں۔ تشریح
جبریہ یعنی فرائض چھوڑنے اور گناہوں کو کرنے کےلئے تقدیر کو ذمہ دار بتانے والے:
جس طرح قدریہ کا گمان کہ تقدیر کچھ نہیں ہے کفر ہے، اسی طرح اس کے بالکل بر خلاف یہ گمان بھی کفر ہے کہ انسان مجبور محض ہے ، امت میں ایک گمراہ فرقہ ایسا بھی پیدا ہوا جس نے تقدیر کے بارے میں ایسے ہی کفر کی حد تک غلو سے کام لیا ، اس نے کہا کہ بندہ کے اختیار میں کچھ نہیں ہے، جیسے حیات وموت میں انسان تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہے اسی طرح اعمال کے بارے میں بھی انسان مجبور محض ہے، ان لوگوں نے بد عملی اور گناہ کے ارتکاب کےلئے بھی تقدیر کو ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو رہا ہے اس میں بندہ کا کیا قصور ؟ یہ زعم صریح کفر ہے، مشرکین یہی کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے، گویا انہوں نے اپنے شرک کا ذمہ دار اللہ کی مشیت کو قرار دیا ہے، حالانکہ ایسا خیال کرنا تقدیر کو ماننا نہیں بلکہ یہ بھی تقدیر کا انکار کرنا ہی ہے، کیونکہ تقدیر کو ماننے میں یہ بات شامل ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ارادہ اور اختیار سے بھی نوازا ہے اور انسان جو کچھ عمل کرتا ہے وہ اس کے ارادہ اور اختیار سے کرتا ہے، ہاں تکوینی امور مثلاً حیات و موت وغیرہ میں انسان مکمل طور پر تقدیر کے آگے مجبور ہے، لیکن یہ غیر اختیاری امور ہیں جن کے بارے میں انسان سے سوال نہیں ہوگا، جبکہ اس کے اعمال اس کے ارادہ و اختیار سے کئے ہوئے ہوتے ہیں، جن کی تفہیم اور تفصیل اوپر ’’ارادہ و اختیار ‘‘اور ’’خلق اعمال‘‘ کے عنوان کے تحت گذر چکی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
گناہوں کی بنیاد تقدیر کو بتلانا کفر ہے لیکن مصائب کی بنیاد تقدیر کو بتلانا درست ہے۔تشریح
حضرت آدم اور حضرت موسی علیہما السلام کا مناظرہ:
حدیث مبارکہ میں وار دہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کا مناظرہ ہوا، حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا: ائے آدم ! آپ ہمارے والد ہیں، آپ نے جنت میں خطا کی تھی جس نے آپ کو اور ہمیں جنت سے نکال دیا، حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام کو جواب میں کہا: ائے موسی! تم وہ ہو جس کو اللہ نے اپنے رسول کی حیثیت سے منتخب فرمایا اور اپنے ساتھ ہم کلامی کا شرف دیا ، پھر بھی تم مجھے ایسی بات پر ملامت کررہے ہو جو میری پیدائش سے چالیس سال پہلے سے ہی مقدر تھی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام یہ کہہ کر حضرت موسی علیہ السلام پر غالب آگئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا متعدد بار کہا۔
جنہوں نے اس حدیث کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا جو قدر کے بھی منکر ہیں انہوں نے اس حدیث کو ماننے سے ہی انکار کردیا، ان کے خیال میں اگر اس حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا حاصل تو یہ ہے کہ انبیاء کی نبوت کو ماننے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے، کیونکہ ہر گناہگار اس حدیث کو بنیاد بنا سکتا ہے، ایسی صورت میں شریعت کے احکام اور منہیات کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوگا، اس لئے کہ کوئی بھی گناہگار جو کسی حکم کو چھوڑ دے یا کسی ممنوع چیز پر عمل کرلے اس کو تقدیر پر ڈال کر اپنے گناہ سے بچنا آسان ہو جائے گا اور اس پر کوئی ملامت کا موقع ہی نہیں ہوگا۔
حالانکہ اس حدیث کے بارے میں معتزلہ اور قدریہ کا یہ گمان خود ان کی جہالت اور گمراہیوں میں سے ایک گمراہی ہے، یہ حدیث نہ صرف صحیح ہے بلکہ محدثین کے درمیان اس کی صحت پر اتفاق ہے اور امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر اب تک نسل در نسل اس حدیث کو قبول عام حاصل رہا ہے اور ہر ایک نے اس کی تصدیق کی ہے اور اس کو تسلیم کیا ہے، یہ گمراہ فرقوں کا ہمیشہ سے طریقہ رہا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا جو بھی ارشاد ان کے غلط نظریہ اور فکر کے خلاف جاتا ہے اس کو ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں، خواہ وہ حدیث محدثین کے یہاں کتنی ہی اونچے درجہ کی اور صحیح ہو، جیسے انہوں نے رؤیت باری تعالیٰ، باری تعالیٰ کے ساتھ قائم صفات، شفاعت کی احادیث وغیرہ کا انکار کیا ہے ، اورجیسے خوارج و معتزلہ نے مرتکب کبیرہ کے شفاعت کے ذریعہ جہنم سے نکالے جانے کی احادیث کا انکار کردیا، اور جیسے روافض نے خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل میں وارد احادیث کو ماننے سے انکار کیا ہے، ایسے ہی یہ قدریہ ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے مجوس قرار دیا ہے، جنہوں نے قضاء و قدر کی بابت وارد احادیث کا انکار کیا ہے، یہ طرز عمل تمام گمراہ فرقوں کا رہا ہے۔
پھر انہوں نے اس حدیث کا جو مفہوم اور مطلب نکالا ہے اس حدیث میں وہ مطلب کہیں نہیں ہے، اس حدیث میں یہ گنجائش ہی نہیں ہے کہ کوئی گناہگار اور عاصی اپنی معصیت کو تقدیر کی رو سے صحیح قرار دے۔
اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ حضرت موسی علیہ السلام جلیل القدر نبی ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے اسماء و صفات کی کامل معرفت رکھنے والے ہیں، ان سے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ایسی خطاء پر ملامت کریں جس کی توبہ قبول ہو چکی ہو اور اس کے بعد رب العالمین نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے چنندہ بندوں میں شمار کیا ہو، اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام بھی اپنے رب کی کامل معرفت رکھنے والے ہیں ان سے کیسے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی کسی معصیت پر قضاء و قدر سے حجت لیں، یہ دونوں ہی باتیں ان دونوں انبیاء سے ممکن نہیں ہیں اور نہ ہی یہ باتیں اس حدیث میں ہیں۔
اس حدیث میں حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام سے جو شکایت کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی خطاء پر ہمیں امتحان ، آزمائش اور ابتلاء کے لئے جنت سے نکال کر اس دنیا میں بھیج دیا گیا ، انہوں نے حضرت آدم کی خطاء کو دنیا کے مصائب اور آزمائش کا سبب قرار دیا، جس سے ان کی ذریت کو گذرنا پڑا، اس مصیبت پر حضرت آدم علیہ السلام نے تقدیر کو حجت بنایا کہ یہ مصیبت جس کا ان کی نسل کو سامنا کرنا پڑا ہے وہ تو ان کی تقدیر میں حضرت آدم کی تخلیق سے بھی پہلے سے لکھی ہوئی ہے گویا حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی خطاء کی بنیاد تقدیر کو نہیں بتایا بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ دنیا میں بھیج کر جو آزمائش اور ابتلاء ہو رہی اس کی بنیاد تقدیرپر ہے، ظاہر ہے اب یہ حدیث گناہگاروں کےلئے ان کی معصیت کی تائید کرنے والی کہاں رہی کہ وہ اپنی معصیت پر اس سے یہ استدلال کریں کہ چونکہ وہ ان کے مقدر میں لکھا ہے اس لئے وہ کررہے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مکلّف اعمال میں مجبور نہیں ہے بلکہ مختار ہیں۔تشریح
اللہ ہر ایک کا انجام یکساں نہیں کریں گے:
جبریہ نے بندوں کے مجبور محض ہونے کا جو گمان قائم کیا اس کا باطل اور بے بنیاد ہونا اس طرح سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کل قیامت کے دن مسلمین اور مجرمین کے گروہ الگ الگ ہوں گے، اسی طرح ایمان اور عمل صالح کرنے والے اور مفسدین الگ الگ ہوں گے، ایسے ہی متین اور فجار الگ الگ ہوں گے، اعمال سیئہ کے مرتکبین اور حسنات کا اہتمام کرنے والے الگ الگ ہوں گے، مصیبتوں میں صبر کرنے والے اور دنیا کے پیچھے بھاگنے والے الگ الگ ہوں گے، اطاعت کرنے والے اور سر کشی کرنے والے الگ الگ ہوں گے، انبیاء، صدیقین، شہداء و صالحین اور ان کو جھٹلانے والے اور کی مخالفت کرنے والے الگ الگ ہوں گے، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال الگ الگ ہوں گے اور ان دو مختلف گروہوں کا انجام بھی جدا جدا ہوگا، ایک جہنمی ہوگا اور ایک جنت میں جائے گا۔
اگر انسان مجبور محض ہے اور جو کچھ کررہا ہے مقدر میں لکھا ہے اس لئے کررہا ہے تو اپنے ارادہ اور اختیار سے نہیں کر رہا ہے تو پھر یہ الگ الگ گروہ کیوں اور ان کا الگ الگ انجام کیوں؟ اگر انسان مجبور محض ہے تو پھر جو جہنم میں جائیں گے نعوذ باللہ ان پر صراصر اللہ کا ظلم ہوگا، اور جو جنت میں جائیں گے ان کے جنت میں جانے کا کوئی استحقاق ہی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ ظالم نہیں ہے، جہنمیوں کو جہنم کی سزا خود ان کے ارادہ اور اختیار سے کی ہوئی ان کی بداعمالیوں ، سرکشی، تکذیب، کفر اور نفاق کی وجہ سے سے ملے گی، اور جنتیوں کو جنت کی نعمتیں ان کے ارادہ و اختیار سے منتخب کئے ہوئے ایمان اور عمل صالح کے راستہ، ان کے صبر اور ان کی قربانیوں کے سبب ملیں گی، یہ بات قرآن میں از اول تا آخر بھری پڑی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بندوں کےلئے خیر و شر کا ہر پہلو اللہ کی جانب سے مقدر ہےلیکن کوئی چیز بندہ کی نسبت سے شر ہوتی ہے اور اللہ سے منسوب ہوکر ہر شئے خیر ہی ہوتی ہے۔تشریح
تقدیر میں خیر و شر کے پہلو:
جس طرح خیر کا پیدا کرنے والا اور شر کا پیدا کرنے والا اللہ ہے اسی طرح تقدیر میں خیر و شر دونوں پہلو اللہ کی جانب سے مقدر ہوتے ہیں، خیر کا مقدر کرنے والا الگ اور شر کا مقدر کرنے والا الگ نہیں ہے، ہر چیز اللہ کی جانب سے ہے۔
البتہ ہر چیز اللہ کی جانب منسوب ہو کر خیر ہی ہوتی ہے، ہاں بندوں سے منسوب ہو کر کوئی شئے شر ہو سکتی ہے، مثلاً صحت کو بندہ خیر اور مرض کو شر گمان کرتا ہے یا نفع کو خیر اور نقصان کو شر شمار کرتا ہے، لیکن اللہ کی جانب منسوب ہو کر مرض اور نقصان شر باقی نہیں رہتے، بلکہ ان کی بھی نسبت اللہ تعالیٰ کی جانب خیر کی حیثیت سے ہی ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں کی تخلیق با مقصد کی ہے۔
اسی طرح سے کوئی گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی اس کےلئے شر ہے، لیکن اللہ کی جانب منسوب ہو کر وہ عین عدل ہے اور عدل خیر ہوتا ہے، اور ایسے ہی گمراہی کا انجام گمراہ کےلئے شر ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب منسوب ہو کر وہ عین عدل ہوگا، اس لحاظ سے بندہ کی جانب منسوب ہو کر جو چیزیں شر ہوتی ہیں ان کا خالق و مقدر کرنے والا یقیناً اللہ ہے، لیکن اللہ کے ساتھ ان کو شر کی حیثیت سے منسوب نہیں کریں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تقدیر پر ایمان رکھنا اور تقدیر کے معاملہ میں جو علم دیا گیا ہے اس پر یقین رکھنا لازم ہے، اور تقدیر کے بارے میں جو علم بندوں کو نہیں دیا گیا ہے اس کے درپے ہونا اور اس میں غور و خوض کرنا ممنوع ہے۔تشریح
تقدیر کے بارےمیں تنازعہ اور بے جا غور و خوض کی ممانعت:
تقدیر پر ایمان لازم ہے اور تقدیر سے متعلق جو باتیں ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے بتلائیں ہیں ان پر یقین رکھنا ضروری ہے، باقی تقدیر کا جو علم ہمیں نہیں دیا گیا ہے اس میں کلام کرنا سخت ممنوع ہے۔
تقدیر درحقیقت مخلوقات کے بارے میں اللہ کے علم اور اس کی مشیت کو شامل ہوتی ہے، کون ہے جو اللہ کے علم کا احاطہ کرسکے، مخلوقات کی عقل اور فہم ناقص اللہ کے علم میں سے ہر شئے نہیں جان سکتی، اسی طرح مخلوقات کی تقدیر میں اللہ کی مشیت اس کی حکمتوں کو شامل ہوتی ہے، کون ہے جو اللہ کی حکمتوں کو جان سکتا ہو یا جس کا علم نہیں دیا گیا ہے ان تک خود پہنچ سکتا ہو، بندوں کو ایمان کی درستگی کےلئے جتنا علم دینا تھا وہ دیا جا چکا ، بندوں پر لازم ہے کہ اس علم پر اکتفاء کریں اور جو علم نہیں دیا گیا اس کا سمجھنا اور ان کا احاطہ کرنا بندوں کےلئے ممکن نہیں تھا اس لئے وہ انہیں نہیں دیا گیا، اب کسی کا اس علم کے درپے ہونا کئی نقصانات لانے والا ہوگا، اول تو وہ حاصل نہیں ہوگا، دوسرے ان کے درپے ہو کر اور ان کے پیچھے پڑ کر بہت سے معاملات کو وہ سمجھ ہی نہیں سکے گا، نتیجتاً یقین ہے کہ شکوک و شبہات اور گمراہی ہی شکا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ایک موقع پر قدر کے بارے میں بہت زیادہ غور و خوض کرتے ہوئے دیکھ کر سخت غصہ کا اظہار فرمایا اور کہا کہ: کیا تمہیں اس کا حکم دیا گیا ہے؟ یا میں ان باتوں میں خور و خوض کی دعوت دے کر بھیجا گیا ہوں؟ تم سے پہلے جو قومیں گذری ہیں ان کی ہلاکت میں قدر کے معاملہ میں تنازعات بھی وجہ رہے ہیں، وہ اپنے انبیاء کے طریقہ سے ہٹ کر اس مسئلہ میں اختلاف کا شکا ر رہے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تقدیر کے متعلق بحث نہیں کرنا چاہئے اور زیادہ کھود کرید میں نہیں پڑنا چاہئے، احادیثِ مبارکہ میں اس سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ اس موضوع کی اکثر باتیں انسانی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں۔