گناہصغیرہ کی تعریف سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مطلق گناہ نام ہے ہرایسے کام کا جو اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی کے خلاف ہو، اس سے پتہ چلا کہ اصطلاح میں جس گناہ کو صغیرہ کہا جاتا ہے درحقیقت وہ بھی صغیرہ نہیں، اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہرحال میں نہایت سخت وشدید جرم ہے، کبیرہ اور صغیرہ کا فرق صرف گناہوں کے باہمی مقابلہ وموازنہ کی وجہ سے کیا جاتا ہے، اسی معنی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ کل ما نہی عنہ فہو کبیرة، خلاصہ یہ ہے کہ جس گناہ کو اصطلاح میں صغیرہ یا چھوٹا کہا جاتا ہے اس کے یہ معنی کسی کے نزدیک نہیں کہ ایسے گناہوں کے ارتکاب میں غفلت یا سستی برتی جائے اور ان کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کیا جائے؛ بلکہ صغیرہ گناہ کو بیباکی اور بے پروائی کے ساتھ کیا جائے وہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے۔
صغیرہ گناہ کی تعریف
گناہ صغیرہ وہ ہے جس پر کوئی حد ،لعنت یا جہنم کی وعید وارد نہ ہوئی ہو نیز جو جرأت اور بیباکی سے نہ کیا جائے۔اور جو صغیرہ گناہ بار بار کیا جاتا ہے وہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے۔
چند صغیرہ گناہ:
علامہ ابن نجیم مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۲۵، صغیرہ گناہ لکھے ہیں، یہاں بطور مثال ۵۰،گناہ لکھے جاتے ہیں اور یاد رہے کہ باقی ۷۵،گناہ میں سے اکثر وہ ہیں جن کو ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے زواجر میں کبیرہ شمار کیا ہے، لیکن ساتھ ابن حجر مکیؒ نے قیدیں وغیرہ بھی لگائی ہیں کہ یہ گناہ اگر اس طرح ہو تو کبیرہ بنے گا ورنہ نہیں، نہ یہ کہ مطلقاً صغیرہ کو ابن حجر مکیؒ نے کبیرہ شمار کرلیا ہو(ایسا نہیں ہے)، یہی وجہ ہے کہ آگے لکھے جانے والے ۵۰،صغیرہ گناہ ابن حجر مکیؒ نے نہیں لئے، اور یہ بات بھی یاد رہے کہ چھوٹا گناہ بار بار کرنے سے کبیرہ ہی بن جاتا ہے۔
صغیرہ گناہ(۱)
وہ جھوٹ جس میں کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
صغیرہ گناہ(۲)
نماز میں با اختیار ہنسنا یا کسی مصیبت کی وجہ سے رونا۔
صغیرہ گناہ(۳)
صومِ وصال یعنی اس طرح نفل روزہ پر روزہ رکھنا کہ درمیان میں بالکل افطار نہ کرے۔
صغیرہ گناہ(۴)
جمعہ کی (پہلی) اذان کے بعد خرید و فروخت کرنا (جبکہ دوسری اذان کے بعد حرام ہے)۔
صغیرہ گناہ(۵)
شوقیہ کُتّا پالنا۔ (شکار کے لئے یا کھیت، باغ اور گھر کی حفاظت کے لئے پالنا جائز ہے)
صغیرہ گناہ(۶)
شراب کو اپنے گھر میں رکھنا۔
صغیرہ گناہ(۷)
کھڑے ہوکر پیشاب کرنا۔
صغیرہ گناہ(۸)
نماز میں سدل کرنا یعنی کپڑے کو اس کی وضع طبع کے خلاف لٹکانا۔
صغیرہ گناہ(۹)
بحالتِ جنابت اذان دینا۔
صغیرہ گناہ(۱۰)
بحالت جنابت مسجد میں بلاعذر داخل ہونا۔
صغیرہ گناہ(۱۱)
کسی نماز پڑھنے والے کے آگے اس کی طرف رخ کرکے بیٹھنا یا کھڑا ہونا۔
صغیرہ گناہ(۱۲)
مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا۔
صغیرہ گناہ(۱۳)
مسجد میں ایسے کام کرنا جو عبادت نہیں ہیں۔
صغیرہ گناہ(۱۴)
زکوٰۃ ردّی مال سے ادا کرنا۔
صغیرہ گناہ(۱۵)
سڑی ہوئی مچھلی یا جو مرکر پانی کے اوپر آجائے اس کو کھانا۔
صغیرہ گناہ(۱۶)
حلال اور مذبوح (جو ذبح ہوچکا ہو) جانور کے اعضائے مخصوصہ اور مثانہ اور غدود کھانا۔
صغیرہ گناہ(۱۷)
نکاح شغار یعنی ایک لڑکی کے مہر میں بجائے روپئے پیسے کے اپنی لڑکی دینا، اور وہ صورت جس کو ہمارے عرف میں وٹہ سٹہ کہتے ہیں، جس میں دونوں لڑکیوں کا علاحدہ علاحدہ مہر مقرر ہو وہ اس میں داخل نہیں۔
صغیرہ گناہ(۱۸)
بیوی کو ایک وقت میں ایک سے زائد طلاق دینا۔
صغیرہ گناہ(۱۹)
بیوی کو بلاوجہ اور بلاضرورت طلاقِ بائن دینا(بلکہ ضرورت کے وقت ایک رجعی طلاق دینی چاہئے)
صغیرہ گناہ(۲۰)
بحالتِ حیض طلاق دینا۔
صغیرہ گناہ(۲۱)
جس طہر میں جماع کرچکا ہو اس میں طلاق دینا۔
صغیرہ گناہ(۲۲)
مطلبہ بیوی سے بذریعہ فعل (جماع وغیرہ کے) رجعت کرنا (بلکہ اول رجعت قول سے ہونی چاہئے)، اس گناہ کے متعلق علامہ ابن حجر مکیؒ نے یہ قید لگائی ہے کہ یہ گناہ اس وقت کبیرہ ہے جبکہ رجوع کرنے سے پہلے وطی کی حرمت کا قائل ہو (یا ان کا مقلد ہو)۔
صغیرہ گناہ(۲۳)
اپنی اولاد کو کوئی چیز دینے میں برابری نہ کرنا (ہاں کسی لڑکے لڑکی میں علم و صلاحیت زیادہ ہونے کے سبب اس کو کچھ زیادہ دیدے تو مضائقہ نہیں)۔
صغیرہ گناہ(۲۴)
جس شخص کے پاس مالِ حرام زیادہ اور مالِ حلال کم ہو اس کا ہدیہ یا دعوت بغیر عذر کے بلا تحقیق قبول کرنا۔
صغیرہ گناہ(۲۵)
مغصوبہ (یعنی غصب کی ہوئی) زمین کی پیداوار سے کھانا۔
صغیرہ گناہ(۲۷)
غیر کی زمین میں بغیر اس کی اجازت کے چلنا (جبکہ اس کو اپنی زمین میں کسی کے چلنے پر اعتراض نہ ہو)۔
صغیرہ گناہ(۲۸)
کسی حربی کافر یا مرتد کو تین روز تک توبہ کرکے مسلمان ہونے کی دعوت دینے سے پہلے قتل کرنا۔
صغیرہ گناہ(۲۹)
مرتدہ عورت کو قتل کرنا۔
صغیرہ گناہ(۳۰)
نماز میں سجدۂ تلاوت واجب ہو تو اس کو مؤخر کرنا یا چھوڑ دینا۔
صغیرہ گناہ(۳۱)
نماز کے لئے کسی خاص سورۃ تو متعین کرنا۔
صغیرہ گناہ(۳۲)
جنازہ کی چار پائی کو چوڑائی کے رخ پر ڈولی کی طرح بانس باندھ کر اٹھانا۔
صغیرہ گناہ(۳۳)
بغیر ضرورت کے دو آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کرنا۔
صغیرہ گناہ(۳۴)
دانتوں کو سونے کے تاروں سے (بلاضرورت) باندھنا۔
صغیرہ گناہ(۳۵)
مردہ کے چہرے کو (شہوت سے) بوسہ دینا۔
صغیرہ گناہ(۳۶)
کافر کو بلاضرورت ابتداءً سلام کرنا (ہاں وہ سلام کرے تو جواب میں ’وعلیک‘ یا ’ھداک اللہ‘ کہنا چاہئے)۔
صغیرہ گناہ(۳۷)
مخالف اسلام قوم کے ہاتھ ہتھیار فروخت کرنا جبکہ ان سے لڑائی ہو۔
صغیرہ گناہ(۳۸)
خصّی غلام سے خدمت لینا یا اس کے کسب سے کھانا۔
صغیرہ گناہ(۳۹)
بچوں کو ایسا لباس پہنانا جو بالغ کے لئے ممنوع ہے۔
صغیرہ گناہ(۴۰)
اپنا دل بہلانے کے لئے گانا گانا۔
صغیرہ گناہ(۴۱)
کسی عبادت کو شروع کرکے باطل کرنا۔ (بلا عذر توڑ دینا یا ادھورا چھوڑ دینا)
صغیرہ گناہ(۴۲)
اذان سننے کے بعد گھر میں بیٹھ کر اقامت کا انتظار کرتے رہنا۔
صغیرہ گناہ(۴۳)
عالم، بزرگ، باپ کے سوا کسی کا ہاتھ چومنا۔
صغیرہ گناہ(۴۴)
تلاوت قرآن کرنے والے کو اپنے باپ یا استاد کے سوا کسی کے لئے تعظیماً کھڑا کرنا۔
صغیرہ گناہ(۴۵)
خطبہ کے وقت بات کرنا۔
صغیرہ گناہ(۴۶)
اپنا لڑکا جس کی عمر سات سال سے زائد ہو اس کے ساتھ ایک بستر میں سونا۔
صغیرہ گناہ(۴۷)
تلاوتِ قرآن پاک کرنا بحالتِ جنابت یا بحالتِ حیض و نفاس۔
صغیرہ گناہ(۴۸)
بے فائدہ کلام کرنا۔
صغیرہ گناہ(۴۹)
ہنسی دل لگی میں افراط و زیادتی کرنا۔
صغیرہ گناہ(۵۰)
کسی ذمی غیر مسلم کو ’اے کافر‘ کہہ کر مخاطب کرنا جبکہ غیر مسلم کو اس سے تکلیف ہوتی ہو (اگر کسی مسلمان کو ’اے کافر‘ کہہ کر بلائے گا تو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا)۔
(کما نقلہ ابن حجر المکی فی الزواجر)
گناہوں کی وجہ سے دنیا میں ہونے والے نقصانات:
(۱) علم سے محروم رہنا۔
(۲) روزی کم ہوجانا۔
(۳) اللہ تعالیٰ کی یاد سے وحشت ہوجانا۔
(۴) آدمیوں سے وحشت ہوجانا، خاص کر نیک آدمیوں سے۔
(۵) اکثر کاموں میں مشکل پڑجانا۔
(۶) دل میں صفائی نہ رہنا۔
(۷) دل میں اور بعض دفعہ پورے بدن میں کمزوری ہوجانا۔
(۸) طاعت سے محروم رہنا۔
(۹) عمر گھٹ جانا۔
(۱۰) توبہ کی توفیق نہ ہونا۔
(۱۱) کچھ دنوں میں گناہوں کی برائی دل سے جاتی رہنا۔
(۱۲) اللہ تعالیٰ جل شانہ کے نزدیک ذلیل ہوجانا۔
(۱۳) دوسری مخلوق کو اس سے نقصان پہنچنا اور اس وجہ سے اس پر لعنت کرنا۔
(۱۴) عقل میں فتور ہوجانا۔
(۱۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس پر لعنت ہونا۔
(۱۶) فرشتوں کی دعاء سے محروم رہنا۔
(۱۷) پیداوار میں کمی ہونا۔
(۱۸) شرم و حیاء کا جاتا رہنا۔
(۱۹) اللہ تعالیٰ جل شانہ کی بڑائی اس کے دل سے نکل جانا۔
(۲۰) نعمتوں کا چھن جانا۔
(۲۱) بلاؤں کا ہجوم ہوجانا۔
(۲۲) اس پر شیطان کا مقرر ہوجانا۔
(۲۳) دل کا پریشان رہنا۔
(۲۴) مرتے وقت منہ سے کلمہ نہ نکلنا۔
(۲۵) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا اور اس وجہ سے بے توبہ مرجانا۔
یہ تو صرف دنیا کے نقصانات ہیں اور آخرت کے نقصانات اس کے علاوہ ہیں جو اس سے بہت ہی زیادہ اور تکلیف دہ ہیں۔ (اعاذنا اللہ منہ) (بہشتی زیور حصہ اول)
عبادات اور نیکی کی وجہ سے دنیا کے فوائد:
(۱) روزی کا بڑھنا اور اس میں برکت ہونا۔
(۲) طرح طرح کی برکتیں ہونا۔
(۳) تکلیف اور پریشانیوں کا دور ہوجانا۔
(۴) مرادیں پوری ہونے میں آسانی ہونا۔
(۵) لطف و راحت کی زندگی ہونا۔
(۶) بارش ہونا۔
(۷) ہر قسم کی بلاء کا ٹل جانا۔
(۸) اللہ تعالیٰ جل شانہ کا مہربان و مددگار رہنا۔
(۹) اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو حکم کرنا کہ اس کا دل مضبوط رکھو۔
(۱۰) سچی عزت و آبرو ملنا۔
(۱۱) مرتبہ بلند ہونا۔
(۱۲) سب کے دلوں میں اس کی محبت کا ہوجانا۔
(۱۳) قرآن کا اس کے حق میں شفاء ہوجانا۔
(۱۴) مال کا نقصان ہو تو اس کا اچھا بدلہ ملنا۔
(۱۵) دن بدن نعمت میں ترقی ہونا۔
(۱۶) مال بڑھنا اور اس میں برکت ہونا۔
(۱۷) دلی راحت و تسلی رہنا۔
(۱۸) آئندہ نسل میں نفع پہنچنا۔
(۱۹) زندگی میں غیبی بشارتیں نصیب ہونا۔
(۲۰) مرتے وقت فرشتوں کا خوشخبری سنانا۔
(۲۱) عمر بڑھنا اور اس میں برکت ہونا۔
(۲۲) افلاس اور فقر و فاقہ سے بچے رہنا۔
(۲۳) تھوڑی چیز میں زیادہ برکت ہونا۔
(۲۴) اللہ تعالی کا غصہ جاتا رہنا۔ (بہشتی زیور:۱،۳۸)
فائدہ:۔ یہ صرف دنیا کے فوائد ہیں اور آخرت کے فوائد اس سے کہیں زیادہ اور باعثِ خوشی و اطمینان ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو گناہوں سے بچائے اور نیکی کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
گناہوں سے توبہ کا طریقہ:
توبہ ایسی چیز ہے کہ اس سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، مگر اس کے کچھ شرائط و قواعد ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ۔ (التحریم:۸)
ترجمہ:۔ اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی اور خالص توبہ کرو، امید ہے کہ تمہارا رب تمہارےگناہ تم سے دور کردے اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔
خالص اور سچی توبہ یہ ہے کہ اس کے بعد گناہ کا دھیان بھی نہ آئے، یعنی توبہ عدم عود کی نیت کے ساتھ ہو کہ آئندہ گناہ نہ کروں گا، گناہ کو تر ک کرے، اس کی برائی کے سبب، گذشتہ گناہوں پر ندامت ہو اور آئندہ کے لئے گناہ نہ کرنے کا عزم ہو، اعمالِ متروکہ کا تدارک اور تلافی مافات ہو۔
یعنی جو نماز، روزہ وغیرہ قضا ہوا ہو اس کو قضاء (یعنی اس کو ادا) بھی کرے اور اگر بندے کے حقوق ضائع ہوئے ہیں تو ان سے معاف بھی کرالے یا ادا کرے، اور جو ویسے ہی گناہ ہوں ان پر خوب کُڑھے، گڑگڑائے اور روئے، اگر رونا نہ آئے تو کم از کم رونے کی شکل و صورت بناکر اللہ تعالیٰ سے خوب معافی مانگے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔
یہ چار باتیں علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں توبۃ النصوح کی شرطیں بیان کی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس توبۃ النصوح کے اثرات بیان فرمائے کہ ایسی توبہ سے گناہ معاف ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ تمام برائیوں کو دور کردے گا اور بہشت کے باغوں میں داخل فرمائے گا۔
اگر کسی شخص نے ان مذکورہ شرائط کے ساتھ سچی اور پکی توبہ کی اور کچھ عرصہ بعد کچھ غلطی ہوگئی تو اُسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بلکہ پھر توبہ کرے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کے کسی بندے نے گناہ کیا، پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: اے میرے مالک! مجھ سے گناہ ہوگیاہے مجھے معاف فرما، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہوں پر پکڑ اور معاف بھی کرسکتا ہے؟ میں نے اپنے بندے کا گناہ بخش دیا اور اس کو معاف کردیا! اس کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ بندہ گناہ سے رُکا رہا اور پھر (وہ غلطی سے) گناہ کر بیٹھا، پھر اللہ سے (توبہ و ندامت کے ساتھ) عرض کیا: اے میرے مالک! مجھ سے گناہ ہوگیا، تو اس کو بخش دے اور معاف فرمادے، تو اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہ و قصور پر پکڑ بھی سکتا اور معاف بھی کرسکتا ہے، میں اپنے بندے کا گناہ معاف کردیا، اس کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا بندہ گناہ سے رُکا رہا اور کسی وقت پھر کوئی گناہ کر بیٹھا اور پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: اے میرے مالک و مالک! مجھ سے اور گناہ ہوگیا ہے تو مجھے معاف فرمادے اور میرے گناہ بخش دے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا کوئی مالک و مولیٰ ہے جو گناہ بھی معاف کرسکتا ہے اور سزا بھی دے سکتا ہے، میں اس نے اپنے بندے کو بخش دیا اور معاف کردیا، (اس کے بعد آپؐ نے فرمایا) اب جو اس کا جی چاہے کرے۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ:۲۰۳)
فائدہ:۔ ’’اب جو چاہے کرے‘‘، یعنی جب توبہ استغفار سے گناہوں کی معافی ملتی ہے تو بندے کو چاہئے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرتا رہے اور موت کے آثار شروع ہونے سے پہلے پہلے توبہ استغفار سے معافی مل سکتی ہے، جونہی موت کے آثار شروع ہوئے توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، اب بھی اگر بندہ گناہ پر توبہ نہ کرے تو یہ اس کی بدبختی ہے۔