تعارف فرقۂ بریلوی’ غیر مقلدین جماعتِ اسلامی جماعت المسلمین’انجمن سرفروشانِ اسلام’الہُدیٰ انٹرنیشنل’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم


تعارف فرقۂ بریلوی’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ غیر مقلدین’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ جماعتِ اسلامی’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ جماعت المسلمین’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ انجمن سرفروشانِ اسلام’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ الہُدیٰ انٹرنیشنل’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
تعارف فرقۂ بریلوی’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
فرقہ کانام: بریلوی
بانی: مولانااحمد رضا خان صاحب، والد کا نام تقی علی اور دادا کا نام رضا علی تھا۔ (تذکرہ علمائے ہند:۶۴)
پیدائش: ۱۴/جون ۱۸۶۵ء میں پیدا ہوئے، ان کا نا م والد نے احمد میاں، دادا نے احمد رضا اور والدہ نے امن میاں رکھا تھا۔(اعلیٰ حضرت :۲۵)
مقامِ پیدائش:۔ احمد رضا خان ہندوستان کے صوبہ اترپردیش (یوپی) میں واقع شہر بریلی میں پیدا ہوئے، اسی وجہ سے ان کو بریلوی کہتے ہیں۔ (جائزۃ المعارف الاسلامیہ:۴/۴۸۵۔ حیات اعلیٰ حضرت:ظفر الدین بہاری رضوی)
تدریس:۔ ابتداءً اپنے والد کے مدرسہ مصباح العلوم میں پڑھانا شروع کیا، پھر ۱۸۹۴ء میں اشاعت العلوم کے نام سے مدرسہ قائم کیا، اس کے بعد ۱۹۰۴ء میں ایک اور دار العلوم منظر اسلام کے نام سے قائم کیا، پھر چند سال تدریس اور فتویٰ نویسی کا کام کیا، مگر پھر بعد میں حکمتاً فتویٰ نویسی اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے اور مدرسہ کا تمام نظام اپنے صاحبزادے مولانا حامد رضا خان بریلوی کے حوالے کردیا۔
تصنیفات: ان کی تصنیفات میں ۲۰۰ سے ایک ہزار تک کی تعداد بیان کی جاتی ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ جن کو کتاب کہا جائے اس کی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہے، سب سے بڑی تصنیف فتاویٰ رضویہ ہے، ۸/جلدوں پر مشتمل ہے۔
وفات:۔ ۲۵/صفر ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ء میں ۵۶ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
بریلوی فرقہ کے بنیادی عقائد:
۱۔ نبی کریم ﷺ کو علم غیب حاصل تھا۔ (خالص الاعتقاد:۳۵۔خیر)
۲۔ نبی کریم ﷺنور تھے۔ (حدائق بخشش:۱/۸۰)
۳۔ نبی کریم ﷺ بھی حاضر اور ناظر ہیں جو چاہے تصرف کرسکتے ہیں۔
(برکات الاحدادو ملحوظ۴/۷۰۔ برکات الابرار:۱۱۔مصنف احمد رضا خان)
۴۔ نبی کریم ﷺ مختارِ کل ہیں۔ (برکات الاحداد:۸۔ ملفوظات:۴/۷۰)
۵۔ غیر اللہ سے مدد طلب کرنا۔ (الامن والعلی:۲۹۔مصنف احمد رضا خان بریلوی)
۶۔ چند بنیادی مسائل میں اختلاف۔
۷۔ درود و سلام پڑھنے کے لئے قیام کرنا۔ (الانوار الساطعہ:۲۵۔عبد السمیع بریلوی)
۸۔ قبروں کو پختہ کرنا اور اس پر گنبد بنانا۔ (جاء الحق:۲۸۲)
۹۔ قبروں پر چراغ جلانا۔ (فتاویٰ رضویہ:۴/۱۴۴)
۱۰۔ تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں، برسی وغیرہ کرنا۔ (انوار ساطعہ)
۱۱۔ کھانے پر ختم دینا۔ (جاء الحق:۲۵۴)
۱۲۔ جنازے کے بعد دعاءکا اہتمام کرنا۔ (مقیاس الحنفیۃ:۵۲۹)
۱۳۔ نبی کریم ﷺ کے نام پر انگوٹھے چومنا۔ (فتاویٰ رضویہ:۲/۴۹۶)
۱۴۔ یا رسول اللہ کہنا۔ (حدائق بخشش:۲/۵۰)
فرقہ بریلویہ کاحکم
بریلوی بدعتی ہیں، انھوں نے بہت سی چیزیں دین میں ایسی پیدا کردی ہیں جن کا وجود خیر القرون میں نہیں تھا، مثلاً: میلاد کرانا، قبر پر اذان دینا، عرس کرنا، جنازہ کی نماز کے بعد دعا کرنا، نذر ونیاز کرنا، تیجہ چالیسواں اور گیارہویں شریف منانا، غیر اللہ کو پکارنا، قبروں پر سجدہ کرنا، قبروں کا طواف کرنا، غیر اللہ کی منتیں مانگنا، قبروں پر چڑھاوے چڑھانا، اس کے علاوہ ان کے بہت سے عقائد ا یسے ہیں جو اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے خلاف ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب، نور اور حاضر وناظر جاننا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مختار کل کا عقیدہ رکھنا وغیرہ۔( ویب سائٹ دارالافتاء دارلعلوم دیوبند:1716-1092/L=1/143)
بریلوی فرقہ کا اہل السنة والجماعة سے اختلاف صرف فروعی نہیں، اصولی ہے، اس لیے یہ لوگ اہل السنة والجماعة ہی سے خارج ہیں۔( ویب سائٹ دارالافتاء دارلعلوم دیوبند: 1076-1059/N=12/1433)
تعارف فرقۂ غیر مقلدین’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
فرقہ کانام:غیرمقلدین(نام نہاد اہل حدیث)
بانی:میاں نذیر حسین دہلوی۔(اس فرقہ کو تقویت دینے والے لوگ:سرسید احمد خان،عبدالحق بنارسی،نواب صدیق خان،مولانا ثناءاللہ امرتسری ،مولانا ابراہیم سیالکوٹی ،مولانا محمد حسین بٹالوی،نواب وحید الزماں وغیرہ۔
پیدائش:میاں نذیر حسین دہلوی:۱۲۲۰ ھ صوبہ بہار ضلع مونگیر گاؤں سورج گڑھ میں پیدا ہوئے،۱۸۹۷ء میں حکومت برطانیہ نے انہیں شمس العلماء کاخطاب دیا۔
وفات:۱۳۲۰ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
فرقہ کب وجود میں آیا:۱۲۴۶ھ
فرقہ کی جائے پیدائش:ہندوستان
بنیادی عقائدونظریات:
1. تقلید کا نہ صرف انکار بلکہ اس کو شرک فی الرسالت سے تعبیر کرنا
2. بیس رکعت تراویح کو بدعت کہنا
3. ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کرنا
4. فاتحہ خلف الامام نہ پڑهنے والے کی نماز کو باطل کہنا
5. صحابہ کرام کے قول ، فعل ، فہم کو حجت نہ سمجهنا
6. اجماع امت کا انکار کرنا
7. خصوصا امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے متبعین پر لعن طعن کرنا
8. کرامات اولیاء کا انکار کرنا
9. علم فقہ کو قران وحدیث کے مخالف کہنا اور برے الفاظ سے یاد کرنا
10. صحابہ کرام کے اجماع کو حجت نہ سمجهنا وغیره وغیره
فرقہ سے متعلق علماء اسلام کا فتوی
امدادالاحکام کا فتوی:
جماعت اہل حدیث کافر نہیں ہیں ،ان میں جو لوگ مذاہب اربعہ کی تقلید کو شرک اور مقلدین کو مشرک یا ائمہ اربعہ کو برا کہتے ہیں وہ فاسق ہیں اورجو ایسے نہیں ہیں صرف تارک تقلید ہیں اور محدثین کے مذاہب پر ظاہری حدیث کے اتباع کو افضل سمجھتے ہیں او راس میں اتباع ہویٰ سے کام نہیں لیتے وہ فاسق بھی نہیں ہیں بلکہ اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔ (امدادالاحکام۱۔۱۶۸)
اہل حدیث کے بعض مسائل میں حنفیہ کا اختلاف معمولی ہے اور بعض میں شدید(حلت حرمت کا )اور بعض مسائل میں ائمۂ اربعہ کا اختلاف ہےاور وہ بہت شدید ہے ۔ایسے مسائل میں یہ لوگ قرآن کریم کے بھی خلاف کرتے ہیں ، ان سب کے خلاف کرنے کی وجہ سے وہ لوگ حق پر نہیں ہیں ۔ رہا نفس عمل بالحدیث تو یہ کوئی مذموم چیز نہیں بلکہ عینِ مطلوب ہے ،مگر ہر شخص میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ مقدم و مؤخر ،ناسخ و منسوخ،وغیرہ کو معلوم کرسکے ، اس لئے تقلید کا حکم دیا جاتا ہے ۔ان سے شادی بیاہ کرنے میں ایسے مسائل سے بھی واسطہ پڑنے کا امکان ہے ، مثلاً اگر شوہر اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دےدے تو قرآن کریم اور احادیثِ مشہورہ ،ائمۂ مجتہدین ،سلف صالحین کی تصریحات کے پیش نظر بیوی پر حرمت مغلظہ ثابت ہوجاتی ہے ،اور پھر بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح بھی جائز نہیں ہوتا ،مگر یہ لوگ ایسی تین طلاق کو ایک ہی طلاق اور وہ بھی رجعی طلاق قرار دے کر حقِ رجعت دیتے ہیں ،یا بہت سے بہت دوبارہ نکاح کرلینے کے لئے کہہ دیتے ہیں ، حالانکہ یہ نکاح شرعی نکاح نہیں ہوتا ،بلکہ نکاح کے نام پر بہت غلط اور فحش کام ہوتا ہے، اسی طرح یہ رجعت شرعی رجعت نہیں ہوتی بلکہ ناجائز چیز ہوتی ہے ۔ایسے مسائل پر مستقل کتابیں اور رسائل موجود ہیں جن میں پورے دلائل پیش کئے گئے ہیں ۔ان سے شادی بیاہ کرنے میں مفسدۂ عظیمہ ہے اس سے پورا پرہیز لازم ہے ۔
(فتاویٰ محمودیہ:۶۳۹/۲)
تعارف فرقۂ جماعتِ اسلامی’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
فرقہ جماعت اسلامی کے بانی کے حالات
ولادت۲/رجب ۱۳۲۱ھ مطابق ۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء میں حیدرآباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں ہوئی، اگر چہ آپ کا خاندان دہلی میں آباد تھا، لیکن آپ کا بچپن اورنگ آباد میں گذرا۔
ابتدائی تعلیم گھرپر ہوئی اور جب گیارہ سال کی عمر ہوئی تو آٹھویں جماعت میں داخلہ ہوگیا، سترہ سال کی عمر میں آپ اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کردیا تھا، روزنامہ تاج جبل پور مسلم اور الجمیۃ دہلی کے ایڈیٹر بن گئے۔
۱۹۲۳ء سے خود ترجمان القرآن حیدرآباد سے جاری کیا اور یہ ۱۳۵۷ھ مطابق ۱۹۲۸ء میں ڈاکٹر علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب میں منتقل ہوگئے۔
آپ کا اسلوب تحریر بلاشبہ لحکم الاستدلال اصولی و بنیادی طریق بحث اور اس سے بڑھ کر ان کی سلامت فکر ہماری افتاد طبع اور ذہنی ساخت کے عین مطابق ہوتی ہے۔
مودودی نے اپنی عمر کا بڑا حصہ تالیف و تصنیف میں گذارا، ترجمہ و تفسیر قرآن جو تعلیم القرآن کے نام سے لکھی جو تقریباً ۳۲/سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی۔
اس کے علاوہ بھی متعدد کتب آپ کےقلم سے لکھی گئیں جن کی فہرست لمبی ہے، (۱)اسلام کی تعلیمات (۲)عطیات (۳)مسئلہ جبر و قدر (۴)رسائل و مسائل (۵)اسلام میں مرتد کی سزا (۶)سلامتی کا راستہ (۷)تفہیمات (۸)اسلام اور جاہلیت (۹)اسلامی قانون (۱۰)الجہاد فی الاسلام (۱۱)اسلامی دستور کی تدوین (۱۲)اسلامی ریاست (۱۳)تحدید و احیائے دین، وغیرہ
۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کے نام سے شروع کی جس کےامیر کافی عرصہ تک خود رہے۔
وفات: مودودی صاحب کا انتقال ۲۸شوال۱۳۹۹ھ مطابق ۲۲ستمبر۱۹۷۹ء میں ہوا۔
فرقہ جماعت اسلامی کے عقائد و نظریات
انبیاء علیہم السلام سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں
۱۔ بعض انبیاء علیہم السلام سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ (عقائد الاسلام:۱/۴۵۔ ۲/۶۵)
۲۔ حضرت آدم علیہ السلام کی کوتاہیاں۔ (ترجمان القرآن:۱۲۹، مئی:۱۹۵۵۔ تفہیم القرآن:۳/۱۳۳)
۳۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کوتاہیاں۔ (تفسیر تفہیم القرآن، سورۂ ہود:۲/۳۴۴)
۴۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوتاہیاں۔ (تفہیم القرآن، سورہ ٔ انعام: ۱/۵۵۷)
۵۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی کوتاہیاں۔ (تفہیمات:۲/۱۲۲)
۶۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی کوتاہیاں۔ (تفہیمات:۲/۴۲۔ تفہیم القرآن:۴/۳۲۷)
۷۔ حضرت یونس علیہ السلام کی کوتاہیاں۔ (تفہیم القرآن، سورۂ یونس، حاشیہ:۲/۳۱۲)
۸۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوتاہیاں۔ (ترجمان القرآن عدد:۴/۲۹)
مودودی صاحب کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید
۱۔ عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید۔ (خلافت و ملوکیت، طبع دوم،اسلامی پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور)
۲۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر تنقید۔ (ترجمان القرآن:۳۰)
۳۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر تنقید۔ (ترجمان القرآن:ص:۵۷،ج:۱۲،عدد:۴)
۴۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر تنقید۔ (خلافت و ملوکیت:۹۹۔ تجدید و احیائے دین۲۳)
۵۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر تنقید۔ (خلافت و ملوکیت:۱۴۶)
۶۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ پر تنقید۔ (خلافت و ملوکیت:۱۴۲)
۷۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پر تنقید۔ (خلافت و ملوکیت:۱۴۲)
۸۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تنقید۔ (ہفت روزہ ایشیاء لاہور:۱۹/نومبر۱۹۶۷ء)
۹۔ حصرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید۔ (خلافت وملوکیت:۱۲۵)
۱۰۔ حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ پر تنقیدر۔ (خلافت و ملوکیت:۱۲۹)
فرقہ جماعت اسلامی کے دیگر عقائد و نظریات
۱۔ معجزہ شق القمر کا انکا کرنا۔ (ترجمان القرآن:۳۲۔مئی۱۹۶۷ء)
۲۔ دلیلِ نبوت صرف قرآن کا معجزہ ہے۔
(رسائل و مسائل:۱۴۵، حصہ سوم، اشاعت اول بحوالہ ترجمان القرآن مارچ ۱۹۵۶ء)
۳۔ قادیانی کافر نہیں ہیں۔ (خط حوالہ:۲۲۷۔تاریخ:۲۹/۱/۶۸ء)
۴۔ ایصالِ ثواب گنہگاروں کے لئے نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن فروری ۱۹۶۷ء، ص:۲۷)
۵۔ قرآن و حدیث کا مفہوم سمجھنے کے لئے صحابہ کرامؓ کی ضرورت نہیں۔
(رسائل و مسائل حصہ اول و دوم:۳۰۷)
۶۔ سجدۂ تلاوت بلا وضو جائز ہے۔ (تفہیم القرآن سورہ اعراف:۲/۱۱۶)
۷۔ سحری طلوعِ فجر کے بعد بھی کھائی جاسکتی ہے۔ (تفہیم القرآن:۱/۱۴۶)
۸۔ تقلید گناہ کی چیز ہے۔ (رسائل و مسائل:۱/۲۴۴، طبع دوم)
۹۔ داڑھی ایک مشت سے کم بھی رکھنا صحیح ہے۔ (رسائل و مسائل حصہ اول و دوم:۳۰۷)
۱۰۔ فقہ سے نفرت ہے۔ (حقوق الزوجین:۹۸)
۱۱۔ تصوف اور سلوک یہ ایک جاہلانہ طریقہ ہے۔ (تجدید و احیائے دین:۱۲۳)
۱۲۔ تفسیر بالرائے جائز ہے۔ (تفہیمات:۱۹۳۔ طبعِ چہارم)
۱۳۔ صحابہ رضی اللہ عنہم معیارِ حق نہیں ہیں۔ (دستور جماعت اسلامی پاکستان:۱۴)
۱۴۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے فیصلہ بھی حجت اور معیارِ حق نہیں ہیں۔
(ترجمان القرآن جنوری:۵۸)
جماعت اسلامی کے بارے میں اہل فتاویٰ کی رائے
دفتر جمعیت علماء ہند دہلی میں بتاریخ یکم اگست ۱۹۵۱ء کو علماء کرام کے ایک اجتماع میں مودودیت کے متعلق حسب ذیل فیصلہ صادر ہوا۔
مودودی صاحب کی جماعت اور جماعت اسلامی کے لٹریچر سے عام لوگوں پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ ائمہ ہدایت کی اتباع سے آزادی اور بے تعلقی پیدا ہوجاتی ہے، جو عوام کے لئے مہلک اور گمراہی کا باعث ہے اور دین سے صحیح وابستگی رکھنے کے لئے صحابہ کرامؓ اور اسلام عظامؒ سے جو تعلق رہنا چاہئے اس میں کمی آجاتی ہے، نیز مودودی صاحب کی بہت سی تحقیقات جو غلط ہیں اور پھر ان امور سے ایک جدید فتنہ بلکہ دین ہی کی ایک محدث اور نئے رنگ کی بنیاد پڑجاتی ہے جو یقیناً مسلمانوں کے لئے مضر ہے، اس لئے ہم ان امور اور ان پر مشتمل تحریک کو غلط اور مسلمانوں کے لئے مضر سمجھتے ہیں اور اس سے بے تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ (ماہنامہ دار العلوم دیوبند: ذیقعدہ ۱۳۷۰ھ)

تعارف فرقۂ جماعت المسلمین’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
بانی فرقہ جماعت المسلمین مسعود احمد کے حالات
نام: سید مسعود احمد۔
ولادت وتعلیم: ۱۹۱۵ء ہندوستان میں ہوئی، والدین بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، بالآخر آگرہ یونیورسٹی سے بی ایس سی کا امتحان دیا۔
پاکستان آنے کے بعد سیکریٹریٹ میں ملازمت اختیار کی، پھر وہ چھوڑ دی اور قرآن و حدیث کا مطالعہ شروع کیا اور پھر غیر مقلدین (اہلحدیث) کی طرف میلان پیدا ہوا اور چالیس سال تک غیر مقلد کی ہی تبلیغ زور و شور سے کرتے رہے۔
آہستہ آہستہ اس سے بھی بد ظن ہوگئے، ان کا کہنا تھا کہ اہل حدیث (غیر مقلد) اپنے مسلک پر جمے رہتے ہیں اور اپنے علماء کے فتوؤں پر عمل کرتے ہیں اور سنتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ (المسلم نمبر:۱۔ص:۶۸۔ عید الاضحیٰ ۱۴۱۷ھ)
اس کے بعد ۱۳۸۵ھ میں انہوں نے خود ہی ایک جماعت کی بنیاد ڈالی جس کا نام ’’جماعت المسلمین‘‘ رکھا، پھر اپنی زندگی اسی کے لئے وقف کردی، سید مسعود احمد کی خواہش رہی کہ ڈاکٹر اسرار جو ایک پر اسرار مقرر اور محقق ہیں ان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے، ابتداء میں کچھ تعلق بھی بڑھا مگر ڈاکٹر نے ان کے عقائد کی بنیاد پر یہ کہا کہ یہ شخص نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہے اور پھر ان میں جدائی ہوگئی۔
تالیفات: ان کی تصانیف چھوٹی بڑی ملاکر تقریباً ایک سو تیس (۱۳۰) بنتی ہیں۔
وفات: بروز جمعہ ۶/شوال ۱۴۱۷ھ مطابق ۱۴فروری ۱۹۹۷ء کو انتقال ہوا۔ (المسلم:۱/۶۲)
اس کے بعد جماعت المسلمین کے امیر شیخ محمد اشتیاق صاحب کو بنادیا گیا، چند اہم تصانیف کے نام ہیں:
تصانیفِ مسعود احمد ایک نظر میں
۱۔ تفسیرِ قرآن عزیز
۲۔ صحیح تاریخ الاسلام و المسلمین
۳۔ صلوٰۃ المسلمین
۴۔ منہاج المسلمین
۵۔ توحید المسلمین
۶۔ تفہیم الاسلام
۷۔ تلاشِ حق
۸۔ ذہن پرستی وغیرہ
جماعت المسلمین کے نظریات و عقائد
پہلا نظریہ: تقلید خواہ مطلقاً ہو یا شخصی ہو دونوں ناجائز اور حرام ہیں۔ (منہاج المسلمین:۳۴۔ حلاش حق:۴۱)
دوسرانظریہ: اسلام کی چار حجتوں میں سے قیاس اور اجتہاد کو تسلیم نہیں کرتے، اس سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں کہ لوگوں کی رائے و اجتہاد سے ہدایت نہیں پاسکتے۔ (منہاج المسلمین:۲۹)
تیسرانظریہ: اسی طرح اجماع کا بھی انکار کرتے ہیں، صرف وہ اجماع معتبر ہے جو نبی کریم ﷺ کے زمانہ سے قیامت تک ہو۔ (خلاصہ تلاش حق:۱۱۸)
چوتھانظریہ: ان کے نزدیک حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی سب گمراہ فرقے ہیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں یہ نہ تھے۔ (دعوتِ حق)
پانچواں نظریہ: نماز میں چار جگہ پر رفع یدین فرض ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (صلاۃ المسلمین ضمیمہ رفع یدین خلاصہ تلاشِ حق:۷۹)
چھٹواں نظریہ: ہم لوگ اپنے آپ کو مسلمین کہتے ہیں، اس کے علاوہ دوسرے نام(حنفی شافعی) ناجائز ہیں۔
ساتواں نظریہ: اپنی جماعت (المسلمین) کے ساتھ سب کو جوڑنے کو لازم قرار دیتے ہیں، ’’الزم جماعۃ المسلمین‘‘ مسلم شریف سے استدلال کرتے ہیں کہ جماعت المسلمین کو لازم پکڑلو، ’’و لا تموتن الا و انتم مسلمون‘‘ (اٰل عمران:۱۰۲) اور تم مسلمان ہونے کی حالت میں مرنا۔
آٹھواں نظریہ: عیدین کی نماز میں بارہ تکبیروں کے قائل ہیں، غیر مقلدین کی طرح تکبیریں بارہ ہیں۔
نواں نظریہ: اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے لئے بجائے مسلم کہلانا چاہئے، کیونکہ قرآن پاک میں لفظ مسلم مذکور ہے، مسلمان مذکور نہیں۔
دسواں نظریہ: فقہ کی ضرورت نہیں، قرآن اور حدیث کافی ہے، فقہ کی بات ماننا حرام ہے۔ (خلاصہ تلاشِ حق:۳۱)
گیارہواں نظریہ: امیر کے ہاتھ پر بیعت فرض قرار دیتے ہیں۔
بارہواں نظریہ: لفظ خدا کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر کرنا جائز نہیں ہے۔
تیرہواں نظریہ: ایصالِ ثواب بھی جائز نہیں ہے۔
جماعت المسلمین کے بارے میں اہل فتاویٰ کی رائے
ایک سوال کے جواب میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’کلمہ شہادت میں کلمہ طیبہ ہی گواہی دی جاتی ہے، اگر کلمہ طیبہ کوئی چیز نہیں تو گواہی کس چیز کی دی جاتی ہے، یہ دراصل مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے شیطان لوگوں کے دلوں میں نئی نئی باتیں ڈالتا رہتا ہے، یہ لوگ گمراہ ہیں ان سے محتاط رہنا چاہئے‘‘۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل:۱/۱۹۱)
ایک دوسرے سوال کے جواب میں مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’جماعت المسلمین غیر مقلدوں کی ایک جماعت ہے جو ائمہ اربعہ کے مقلدین کو مشرک کہتے ہیں‘‘۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل:۱/۱۸۶)
سید وقار علی شاہ کے بقول جماعت المسلمین کے عقائد قادیانی سے بھی ملتے ہیں:
تعارف فرقۂ انجمن سرفروشانِ اسلام’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
فرقہ انجمن سرفروشانِ اسلام کے بانی ریاض احمد گوہر شاہی کے حالات
نام: ریاض احمد گوہر شاہی، والد کا نام: فضل حسین مغل، سرکاری ملازم تھے۔
پیدائش: راولپنڈی میں ۲۵/نومبر ۱۹۴۱ء میں گاؤں ڈھوک گوہر شاہ میں ہوئی۔
تعلیم: اپنے گاؤں ڈھوک گوہر شاہ میں ہی ۸ کلاس تک پڑھی اور پھر پرائیوٹ طور پر میٹرک کیا اور پھر ویلڈنگ اور موٹر میکانیک کا کام سیکھا، پھر موٹر میکانیک کی دُکان کھولی، مگر اس میں کوئی نفع حاصل نہیں ہوا، حصولِ روزگار کے لئے پریشانی ہوئی تو اس نے سوچا کہ پیری مریدی کا دھندا شروع کردیا جائے، اس کے لئے ابتداءًا خانقاہ کے چکر لگائے۔
گوہر شاہی خود لکھتے ہیں کہ میں کئی سال تک سیہون شریف کے پہاڑوں اور لال باغ میں چلے اور مجاہدے کئے مگر گوہرِ مراد حاصل نہ ہوا۔
اور پھر حام داتاراور بری امام کے دربار پر بھی رہا، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا اور روحانی سفر میں ایک اور جگہ پر وہ لکھتے ہیں کہ بیس سال کی عمر سے تیس سال تک ایک گدھے کا اثر رہا، نماز وغیرہ سب ختم ہوگئی، جمعہ کی نماز بھی ادا نہ ہوسکی، پیروں اور عالموں سے جدائی ہوگئی، اکثر محفلوں میں ان پر طنز کرتا، شادی کرلی، تین بچے ہوگئے اور کاروبار میں مصروف ہوگیا، زندگی کا مطلب سمجھ گیا کہ تھوڑے دن کی زندگی ہے، عیش کرلو، فالتو وقت سینماؤں اور تھیٹروں میں گذرتا، روپیہ اکھٹا کرنے کے لئے حلال و حرام کی تمیز بھی جاتی رہی، کاروبار میں بے ایمانی، فراڈ اور جھوٹ شعار بن گیا ہے، سمجھتے کہ نفس امارہ کی قید میں زندگی کٹنے لگی، سوسائٹیوں کی وجہ سے برائی کا اثر ہوگیا۔ (روحانی سفر:۱۳ تا ۱۶)
پھر اس شخص نے پیری مریدی شروع کردی اور اس کے لئے اس نے سندھ کے پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ علاقہ جام شورو ٹیکسٹ بک بورڈ کے ساتھ میں جھونپڑی ڈال دی وار جن بھوت نکالنے کا دھندا شروع کردیا، کمزور عقیدے والے لوگوں کا ہجوم ہونے لگا اور جام شورو کے میڈیکل کالج کے طلبہ نے بھی آنا جانا شروع کردیا، مگر پرنسپل نے اس کا ٹھکانہ ختم کروادیا، تو اس نے حیدرآباد سرے گھاٹ پر اپنا اڈّہ قائم کرلیا۔
یہ واقعہ گوہر شاہی نے خود اپنی کتاب ’’روحانی سفر‘‘ میں لکھا اس کی تحریر میں پڑھیں، گوہر لکھتا ہے:
’’روحانی حکم ہوا کہ حیدرآباد واپس چلے جاؤ اور خلقِ خدا کو فیض پہنچاؤ، میں نے کہا اگر وہاں واپس کرنا ہے تو راولپنڈی بھیج دو، وہاں پر بھی خلق خدا ہے اور جب دنیا میں رہنا ہے تو پھر بال بچوں سے دوری کیا؟ حکم ہوا کہ بال بچے یہیں منگوالو، جواب میں میں نے کہا ان کی معاش کے لئے نوکری کرنی پڑے گی جبکہ میں اب دنیوی دھندوں سے الگ تھلگ رہنا چاہتا ہوں، جواب آیا جو اللہ کے دین کی خدمت کرتے ہیں اللہ ان کی مدد کرتا ہے اور اللہ انہیں وہاں سے رزق پہنچاتا ہے جس کا انہیں گمان بھی نہیں ہوتا، جام شورومیں ٹیکسٹ بک بورڈ کے عقب میں جھونپڑی ڈال کر بیٹھ گئے اور ذکر قلبی اور آسیب وغیرہ کا سلسلہ شروع ہوتی، وہ لوگ جو سیہون سے واقفیت رکھتے تھےآنا جانا شروع ہوگئے اور میری ضروریات کا وسیلہ بن گئے، اب یہاں بھی لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے، سیکیورٹی پولیس پیچھے تک لگ گئی اور چھپ چھپ کر حرکات کا جائزہ لیتی، حتی کہ ایک کیمرہ بھی قریبی درخت میں فٹ ہوگیا، یونیورسٹی اور میڈیکل کے طلبہ آئے، ذکر و فکر کی باتیں سنتے، ان کو بھی ذکر کا شوق پیدا ہوا، پرنسپل کو پتہ چلا جو دوسری عقائد کا تھا، ان کو سختی سے منع کیا، لیکن وہ باز نہ آئے اور ایک دن پرنسپل نے چوکیداروں کو حکم دیا کہ جھونپڑیاکھاڑدویا استعفیٰ دیدو، صبح کے وقت کچھ چوکیدار میرے پاس آئے اور کہا ہمیں جھونپڑی اکھاڑنے کا حکم ملا ہے، ہم نے کوئی مداخلت نہ کی اور جھونپڑی اکھاڑ کر سامان دور پھینک دیا۔ (روحانی سفر:۸)
اب حیدرآباد سرے گھاٹ میں رہنے لگا، یہاں بھی لوگ آنا شروع ہوگئے، لوگ بڑی عقیدت سے ملتے، سوچا کیوں نہ ان سے دین کا کام لیا جائے، سب سے پہلے عمر رسیدہ بزرگوں سے ذکر قلب کا شروع کریں، انہوں نے تسلیم کیا اور خوب تعریف بھی کی، لیکن عمل کے لئے کوئی تیار نہ ہوا، پھر سوچا علماء دین سے مدد لی جائے کئی عالموں سے ملا یہ لوگ ظاہر ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے، ان کے نزدیک ولایت بھی علم ظاہری تھی، بلکہ اکثر عامل قسم کے مولوی پیر فقیر بنے بیٹھے تھے، بہت کم عالموں نے علم باطن کے بارے میں صرف گردن ہلائی، اکثر مخالفت پر اتر آئے، پھر ان عابدوں اور زاہدوں سے بڑھ کر نوجوانوں کی طرف رخ کیا، چونکہ ان کے قلب ابھی محفوظ تھے، دلوں نے دل کی بات تسلیم کرلی اور انہوں نے عملاً لبیک کہا اور پھر وہ نسخہ روحانیت بازاروں میں بیچنا شروع ہوگئے، پھر وہ نکتہ اسم ذات گلیوں محلوں اور مسجدوں میں گونجا، پھر لوگوں کے قلبوں میں گونجا، جب اس کے خریدار زیادہ ہوگئے تو نظام سنبھالنے کے لئے انجمن سرفروشانِ اسلام پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ (روحانی سفر:۳۸)
پھر اس کے بعد اس نے اپنے عقائد ونظریات کا پرچار کرنا شروع کردیا، کچھ عقائد کا ذکر آگے آرہا ہے۔
فرقہ انجمن سرفروشان اسلام کے عقائد و نظریات
۱۔ نبی کریم ﷺ جو کچھ مجھ کو بتاتے ہیں وہی میں بتاتا ہوں۔ (حق کی آواز:۴)
۲۔ اسلام کے پانچوں ارکان میں روحانیت نہیں، روحانیت تو ذکر میں ہے۔ (حق کی آواز:۳)
۳۔ قرآن کے چالیس پارے ہیں۔ (حق کی آواز:۵۲)
۴۔ آپﷺ کی زیارت کے بغیر امتی نہیں ہوتا۔ (مینارۂ نور:۳۴)
۵۔ روحانیت سیکھو، خواہ تمہارا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو خواہ مسلمان ہو یا عیسائی ہو، ہندو اور سکھ ہو، بغیر کلمہ پڑھے بھی اللہ تک رسائی ہوسکتی ہے۔ (مینارۂ نور)
۶۔ انبیاء علیہ السلام کی توہین کرنا۔
۷۔ میں امام مہدی ہوں اور میرے طریقے سے دنیا کو ہدایت حاصل ہوگی۔ (حق کی آواز:۴)
۸۔ کلمہ میں لا الہ الا اللہ ہو، محمد رسول اللہ کی جگہ پر گوہر شاہی رسول اللہ کہنا چاہئے۔ (اشتہار)
۹۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کا دعویٰ۔
۱۰۔ عورتوں سے مصافحہ و معانقہ وغیرہ کرنا صحیح ہے۔

ان مذکورہ بالا عقائد و نظریات کہ جن میں نجاتِ کافر، تعددِ قرآن اور شریعت اور طریقت میں تبائن جیسے نظریات نہایت خطرناک ہیں، جن کے گمراہ کن ہونے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں، لہٰذا ان فاسد و گمراہ کن نظریات و عقائد کی رُو سے ’’ریاض احمد گوہر شاہی‘‘ انتہائی درجہ کا گمراہ اور بدعتی ہے، اس کی بیعت، مجالس، تقریر اور تحریر سے بچنا واجب اور ضروری ہے اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم و احکم
فقط: عصمت اللہ عصمہ اللہ (دار الافتاء دار العلوم کراچی، نمبر:۱۴) مورخہ:۴/۹/۱۴۱۹ھ
الجواب صحیح: احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
الجواب صحیح: بندہ عبد الرؤف سکھروی
الجواب صحیح: محمد عبد المنان عفی عنہ
الجواب صحیح: احقر محمود اشرف غفر اللہ لہ
الجواب صحیح: اصغر علی ربانی
تعارف فرقۂ الہُدیٰ انٹرنیشنل’امتیازی عقائد ونظریات اور اس کا حکم
الہدی انٹرنیشنل کی سربراہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کے مختصر حالات
پیدائش: ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ سرگودھا، پنجاب میں پیدا ہوئیں، آپ جناب مرحوم عبد الرحمن ہاشمی صاحب کی صاحبزادی ہیں جو کہ ایک مشہور عالم دین تھے، ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہیں کہ اسلام سے محبت کا جذبہ انہیں موروثی طور پر ملا ہے کہ ان کے والد (بزرگوار جیسا کہ مذکور ہے ایک مشہور عالم تھے) نے ڈاکٹر صاحبہ کی شخصیت پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
تعلیم: ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سرگودھا میں ہی حاصل کی، اس کے ہمراہ انہوں نے اپنے والد صاحب سے قرآنی تعلیمات کا حصول بھی جاری رکھا، جیسے ہی آپ نے اپنا MA عربی مکمل کیا تو کچھ ہی عرصہ میں آپ کی شادی ہوگئی، بعد ازاں آپ اپنے شوہر کے ساتھ گلاسگو یونیورسٹی اسکاٹ لینڈ چلی گئیں، جہاں آپ نے اپنے شوہر کے ہمراہ شعبہ اسلامی تعلیمات میں اپنا PHD مکمل کیا، اگرچہ کہ ڈاکٹر صاحبہ اور ان کے شوہر دونوں ہی تبلیغ اسلام اور حصولِ علم میں مشغول رہے مگر وہ اپنے چار بچوں کی تربیت سے کبھی غافل نہیں رہے۔
قرآن سے شغف: ڈاکٹر صاحبہ اپنی جوانی سے ہی دینی تعلیم کے حصول میں مشغول رہیں اور ساتھ ساتھ قرآنی تعلیمات کی اشاعت کو اپنا نصب العین بنالیا، آپ کیونکہ خود ایک تعلیمیافتہ خاندان سے ہیں اس لئے آپ اس بات کی قائل ہیں کہ تمام تعلیم یافتہ خواتین کو قرآن تعلیمات کے حصول کے موقاع ملنا چاہئیں، صغر سنی سے ہی تبلیغی اجتماعات میں شرکت اور اسے اپنا مشغلہ بنانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کے طلبہ اور معتقدین کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی، چنانچہ اس جہاد بالقرآن کے راستے پر چلتے ہوئے ۱۹۹۴ء میں آپ نے الہدیٰ انٹرنیشنل للتعلیمات الاسلامی برائے خوتین کی بنیاد اسلام آباد میں رکھی، آگے چل کر ۲۰۰۰ء میں آپ نے کراچی میں بھی الہدی کا آغاز کیا۔
مختصراً یہ کہ ان تمام دینی کاوشوں کے باوجود ڈاکٹر صحابہ کا خیال ہے کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے، بایں معنیٰ آپ کا عزم ہے کہ قرآن ہر گھر اور ہر ہاتھ میں پہنچ جائے، خواہ مرد ہو یا عورت، اس کی تعلیمات سے یکساں استفادہ کرسکیں۔
الہدیٰ انٹرنیشنل کے نظریات و عقائد:
۱۔ اجماعِ امت سے ہٹ کر ایک نئی راہ اختیار کرنا۔
۲۔ غیر مسلم اور اسلام بیزار طاقتوں کے نظریات کی ہمنوائی۔
۳۔ تلبیسِ حق و باطل۔
۴۔ فقہی اختلافات کے ذریعہ دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنا۔
۵۔ آسان دین۔
۶۔ آداب و مستحبات کو نظر انداز کرنا۔
اب ان بنیادی نکات کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ اجماعِ امت سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کرنا:
۱۔ قضائے عمری سنت سے ثابت نہیں ہے، صرف توبہ کرلی جائے، قضاء نماز ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔
۲۔ تین طلاقوں کو ایک شمار کرنا۔
۳۔ نفل نمازوں، صلوٰۃ التسبیح، رمضان میں طاق راتوں خصوصاً ۲۷ ویں شب میں اجتماعی عبادات کا اہتمام اور خواتین کے جمع ہونے پر مور دینا۔
۲۔ غیر مسلم، اسلام بیزار طاقتوں کے خیالات کے ہمنوائی:
۱۔ مولوی(عالم)، مدارس اور عربی زبان سے دور رہیں۔
۲۔ علماء دین کو مشکل بناتے ہیں، آپس میں لڑتے ہیں، عوام کو فقہی بحثوں میں اچھالتے ہیں، بلکہ ایک موقع پر تو فرمایا کہ اگر آپ کو کسی مسئلہ میں صحیح حدیث نہ ملے تو ضعیف لے لیں لیکن علماء کی بات نہ مانیں۔
۳۔ مدارس میں گرامر، زبان سکھانے، فقہی نظریات پڑھانے میں بہت وقت ضائع کیا جاتا ہے، قوم کو عربی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کو قرآن صرف ترجمہ پڑھا دیا جائے۔
۴۔ ایک موقع پر کہا :ان مدارس میں جو پہلے سات سات سال آٹھ آٹھ سال کے کور کرائے جاتے ہیں یہ دین کی روح کو پیدا نہیں کرتے بلکہ اپنے فقہ کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں(اشارہ درس نظامی کی طرف ہے)۔
۵۔ بدنام زمانہ نام نہاد دانشور وحید الدین خان کی کتابیں طالب علموں کی تربیت کے لئے بہترین ہیں، نصاب میں بھی شامل ہیں اور اسٹالز پر بھی رکھی جاتی ہیں، کسی نے سوال کیا کہ ان کے بارے میں علماء کی رائے کیا ہے؟ تو کہا کہ ’’حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے‘‘۔
۳۔ تلبیس حق و باطل:
۱۔ تقلید شرک ہے (لیکن کونسی برحق ہے اور کس وقت غلط ہے؟ یہ کبھی نہیں بتایا)۔
۲۔ ضعیف حدیث پر عمل کرنا تقریباً ایک جرم بناکر پیش کیا جاتا ہے (کہ جب بخاری شریف میں صحیح ترین احادیث کا مجموعہ ہے تو ضعیف احادیث کو کیوں قبول کیا جائے)۔
۴۔ فقہی اختلافات کے ذریعہ دین شکوک و شبہات پیداکرنا:
۱۔ اپنا پیغام، مقصد اور متفق علیہ باتوں سے زیادہ زور دوسرے مدارس اور علماء پر طعن و تشنیع۔
۲۔ ایمان، نماز، روزہ، زکوۃ، حج کے بنیادی فرائض، سنتیں، مستحبات، مکروہات سکھانے سے زیادہ اختلافی مسائل میں الجھایا گیا (پروپیگندہ ہے کہ ہم کسی تعصب کا شکار نہیں اور صحیح حدیث پھیلا رہے ہیں)۔
۳۔ نماز کے اختلافی مسائل، رفع یدین، فاتحہ خلف الامام، ایک وتر، عورتوں کو مسجد میں جانے کی ترغیب، عورتوں کی جماعت ان سب پر صحیح حدیث کے حوالے سے زور دیا جاتا ہے۔
۴۔ زکوٰۃ کے بارے میں غلط مسائل بتائے جارہے ہیں، خواتین کو تملیک کا کچھ علم نہیں۔
۵۔ آسان دین:
۱۔ دین مشکل نہیں، مولویوں نے مشکل بنادیا ہے، دین کا کوئی مسئلہ کسی بھی امام سے لے لیں، اس طرح بھی ہم دین کے دائرہ میں ہی رہتے ہیں۔
۲۔ حدیث میں آیا ہے کہ آسانی پیدا کرو تنگی نہ کرو، لہٰذا جس امام کی رائے آسان معلوم ہو وہ لے لیں۔
۳۔ روزانہ سورۂ یٰسین پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، نوافل میں اصل صرف چاشت اور تہجد کی نماز ہے، اشراق اور اوّابین کی کوئی حیثیت نہیں۔
۴۔ دین آسان ہے، عورت کے لئے بال کٹوانے کی کوئی ممانعت نہیں، امہات المؤمنین میں سے ایک کے بال کٹے ہوئے تھے۔ (معاذ اللہ)
۵۔ دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ پکنک پارٹیاں، اچھا لباس، زیورات کا شوق، محبت من حرم زینۃ اللہ….۔
۶۔ خواتین دین کو پھیلانے کے لئے گھر سے ضرور نکلیں۔
۷۔ محترمہ کا اپنا عمل طالب علموں کے لئے حجت ہے، محرم کے بغیر تبلیغی دوروں پر جانا، قیام اللیل کے لئے راتوں کو نکلنا، میڈیا کے ذریعہ تبلیغ (ریڈیو، ٹی وی، آڈیو)۔
۶۔ آداب و مستحبات کو نظر انداز کرنا:
خواتین ناپاکی کی حالت میں بھی قرآن چھوتی ہیں، آیات پڑھتی ہیں، قرآن کی کلاس میں قرآن کے اوپر نیچے ہونے کا احساس نہیں۔
۷۔ متفرقات:
۱۔ قرآن کا ترجمہ پڑھاکر ہر معاملہ میں خود اجتہاد کی ترغیب دینا۔
۲۔ قرآن و حدیث کے فہم کے لئے جو اکابر علماء کرام نے علوم سیکھنے کے شرائط رکھے ہیں ان کو بے کار، جاہلانہ باتیں اور سازش قرار دینا۔
۳۔ کسی فارغ التحصیل طالبہ کے سامنے دین کا کوئی حکم یا مسئلہ رکھا جائے تو اس کا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟
۴۔ ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ گلی گلی، محلے محلے الہدیٰ کی برانچز کھلی ہوئی ہیں اور ہر قسم کی طالبہ خواہ ابھی اس کی تجوید بھی درست نہ ہوئی ہو آکر دوسروں کو پڑھا رہی ہے اور لوگوں کو مسائل میں بھی الجھایا جارہا ہے۔
۵۔ گھر کے مردوں کا تعلق عموماً مسجد سے ہے(جہاں نماز کا طریق فقہ حنفی کے مطابق ہے)، گھر کی عورتیں مردوں سے الجھتی ہیں، ہمیں مساجد کے مولویوں پر اعتماد نہیں۔
الہُدیٰ انٹرنیشنل کے بارے میں اہل فتاویٰ کی رائے
اسلام آباد کی خاتون کے استفتاء پر شیخ الحدیث و رئیس دار الافتاء دار العلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کا ’’الہدی انٹرنیشنل‘‘ کے متعلق جواب:
الجواب حامداً و مصلیاً:
سوال میں جن نظریات کا ذکر کیا گیا ہے خواہ وہ کسی کے بھی نظریات ہوں ان میں سے اکثر غلط ہیں، بعض واضح طور پر گمراہانہ ہیں، مثلاً اجماعِ امت کو اہمیت نہ دینا، تقلید کو علی الاطلاق شرک قرار دینا، جس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سو سال کی تاریخ میں امت مسلمہ کی اکثریت جو ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید کرتی رہی ہے وہ مشرک تھی، یا یہ کہنا کہ قضائے عمری یعنی فوت شدہ نمازوں کو قضاء کرنے کی ضرورت نہیں، صرف توبہ کافی، (فرحت ہاشمی کے) بعض نظریات جمہور امت کے خلاف ہیں: مثلاً تین طلاقوں کو ایک قرار دینا، بعض بدعت ہیں: مثلاً صلوٰۃ التسبیح کی جماعت یا قیام اللیل، راتوں کو اہتمام کے ساتھ لوگوں کو نکالنا، یا خواتین کو جماعت سے نماز پڑھنے کی ترغیب، بعض انتہائی گمراہ کن ہیں: مثلاً قرآن کریم کو صرف ترجمہ سے پڑھ کر پڑھنے والے کو اجتہاد کی دعوت یا اس بات پر لوگوں کو آمادہ کرنا کہ وہ جس مذہب میں آسانی پائیں اپنی خواہشات کے مطابق اُسے اختیار کرلیں یا کسی کا اپنے عمل کو حجت قرار دینا، اور ان میں سے بعض نظریات فتنہ انگیز ہیں: مثلاً علماء و فقہاء سے بدظن کرنا، دینی تعلیم کے جو ادارے اسلامی علوم کی وسیع و عمیق تعلیم کا فرض انجام دے رہے ہیں ان کی اہمیت ذہنوں سے کم کرکے مختصر کورس کو علم دین کے لئے کافی سمجھنا، نیز جو مسائل کسی امام مجتہد نے قرآن و حدیث سے اپنے گہرے علم کی بنیاد پر مستنبط کئے ہیں ان کو باطل قرار دے کر اُسے قرآن و حدیث کے خلاف قرار دینا اور اس پر اصرار کرنا۔
جو شخصیت یا ادارہ مذکورہ بالا نظریات رکھتا ہو اور اس کی تعلیم و تبلیغ کرتا ہو وہ نہ صرف یہ کہ بہت سے گمراہانہ، گمراہ کن یا فتنہ انگیز نظریات کا حامل ہے، بلکہ اس سے مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے اور اگر کوئی شخص سہولتوں کی لالچ میں اس قسم کی کوششوں سے دین کے قریب آئے گا بھی تو مذکورہ بالا فاسد نظریات کے نتیجہ وہ گمراہی کا شکار ہوگا۔
لہٰذا جو ادارہ یا شخصیت ان نظریات کی حامل اور مبلغ ہو اور اپنے دروس میں اس قسم کی ذہن سازی کرتی ہو اس کے درس میں شرکت کرنا اور اس کی دعوت دینا ان نظریات کی تائید ہے جو کسی طرح جائز نہیں، خواہ اس کے پاس کسی قسم کی ڈگری ہو…… اور گلاسگو یونیورسٹی کی ڈگری بذات خود اسلامی علوم کے لحاظ سے کوئی قیمت نہیں رکھتی …… بلکہ غیر مسلم ممالک کی یونیورسٹیوں میں مستشرقین نے اسلامی تحقیق کے نام پر اسلامی احکام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور دین کی تحریف کا ایک سلسلہ عرصۂ دراز سے شروع کیا ہوا ہے، ان غیر مسلم مستشرقین نے جنہیں ایمان تک کی توفیق نہیں ہوئی، اس قسم کے اکثر ادارے درحقیقت اسلام میں تحریف کرنے والی افراد تیار کرنے کے لئے قائم کئے ہوئے ہیں اور ان کے نصاب و نظام کو اس انداز سے مرتب کیا ہے کہ اس کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے الا ماشآء اللہ اکثر و بیشتر دجل و فریب کا شکار ہوکر عالم اسلام میں فتنے برپا کرتے ہیں، لہٰذا گلاسگو یونیورسٹی سے اسلامی علوم کی کوئی ڈگری نہ صرف یہ کہ کسی شخص کے مستند عالم ہونے کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس سے اس کے دینی فہم کے بارے میں شکوک پیدا ہونا بھی بے جا نہیں، دوسری طرف بعض اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کیں اور عقائدِ فاسدہ کے زہر سے محفوظ رہے، اگرچہ ان کی تعداد کم ہے……. لہٰذا یہ ڈگری نہ کسی کے مستند عالم ہونے کی علامت اور نہ محض اس ڈگری کی وجہ سے کسی کو مطعون کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اس کے عقائد و اعمال درست ہوں۔
مذکورہ بالا جواب ان نظریات پر مبنی ہے جو سائلہ نے اپنے استفتاء میں ذکر کئے ہیں، اب کون شخص ان نظریات کا کس حد تک قائل ہے؟ اس کی ذمہ داری جواب دہندہ پر نہیں ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم
(احقر محمد تقی عثمانی (دار الافتاء دار العلوم کراچی، مورخہ:۱۲/۴/۱۴۲۲ھ)