امیرِ شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب نمازِ جمعہ کیلئے مسجد جاتے تو مسجد کے دوازے پر موجود سب بھکاریوں کو کچھ نہ کچھ عنایت کرتے … لیکن ایک بھکاری کو دیکھتے ہی منہ موڑ کر چلے جاتے…
ایک دفعہ خادم نے عرض کیا شاہ جیؒ یہ کیا ماجرا ھے؟
فرمایا: خاصے عرصہ پہلے ایک قتل ہوگیا…تلاش بسیار کے بعد بھی قاتل کا کوئی سراغ نہ لگا… ہرچند تفتیشی گھوڑے دوڑائے لیکن بے سود… اوپر والوں کا پریشر کہ ایک ہفتے کے اندر اندر اگر قاتل گرفتار نہ ہوا تو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے گا…چنانچہ تھانیدار نے خانہ پُری کیلئے ایک بیگناہ مزدور نوجوان کو اُٹھا لیا…اُس کے ضعیف والدہ روتی تھانے آئی…
تھانیدار نے کہا کہ اماں جی میرا آپ سے وعدہ ھے…آپ کے بیٹے کو کچھ نہ ہونے دوں گا…بس یہ جھوٹا اقرار کرلے…تاکہ میری نوکری بچ جائے…
بیچاری عورت اُس کے جھانسے میں آگئی…
اب کیس چلا عدالت میں…پہلی پیشی پر ہی اُس بیگناہ نے اقرارِ جرم کرلیا…
چنانچہ اُسے سزائے موت سنادی گئی…
اب پھر بیچاری بڑھیا روتی دھوتی تھانیدار کے پاس آئی…کہ اُس کے بیٹے کو بچالیں…
تھانیدار نے پھر وعدے کرکے بڑھیا کو ٹال دیا…
یہاں تک کہ ایک ہفتے کے بعد اُس بیگناہ نوجوان کو پھانسی دے دی گئی…
جب اُس بیچاری ضعیف العمر ماں نے اپنے نوجوان بیٹے کی لاش وصول کی… آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہا…
“اے اللہ تو ہی اب انصاف کر…”
چند دن بعد بیٹے کے صدمے سے وہ ماں بھی فوت ہوگئی…
کچھ عرصہ گزرا کہ خدا تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئی…
وہی تھانیدار جوکہ منظورِ نظر تھا… اوپر والوں کے عتاب کا شکار ہوا…
پہلے تنزلی در تنزلی … پھر بالآخر نوکری سے بھی گیا…
یہ جس بھکاری کو دیکھ کر میں منہ پھیر لیتا ہوں…
یہ وہی تھانیدار ھے…”
اللہ کی لاٹھی بے آواز ھے … یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ظالم ظلم کرکے اللہ کی پکڑ سے بچ جائے…
کہاں گیا انسانی کھوپڑیوں کے مینارے بنانے والے چنگیز و ہلاکو خاں…؟
کہاں گیا خانوادۂ نبوتؐ کے خون کے ندیاں بہادینے والا ابنِ زیاد…؟
کہاں گیا اٹھارہ ہزار انسانوں کا قاتل حجاج بن یوسف…؟
کہاں گیا ابو مسلم خراسانی…؟
کہاں گیا خلافتِ عباسیہ کا بانی ابوعبداللہ سفاح…؟
تاریخ کے دامن میں ایسی ان گنت مثالیں بکھریں پڑی ہیں… خدا اس طرح سزا دیتا ہے جس کا سان گمان بھی نہیں ہوتا….
فائزر جس نے خوبیاں اپنا کر کمپنی کو کامیاب بنایا لیکن اولاد نے اسے مشکل میں ڈال دیا چارلس فائزر (Charles Pfizer) ایک جرمن بزنس مین اور کیمیا گر تھا۔ جس نے جرمن سے امریکا ہجرت کر کے ایک کیمیکل کمپنی فائزر (Pfizer) کی بنیاد 1849ء میں رکھی ۔ آج اس کمپنی کو 165 سال ہو چکے ہیں۔ چارلس کا لگایا ہوا پودا آج بھی سرسبز لیکن انتظامیہ کی غلطیوں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہے۔ اس طویلعرصے میں کمپنی نے مختلف اتار چڑھاؤ اور تین نسلیں دیکھ لیں جو اسے یکے بعد دیگر چلاتی آرہی ہیں۔ فائزر جس نے خوبیاں اپنا کر کمپنی کو کامیاب بنایا لیکن اولاد نے اسے مشکل میں ڈال دیا۔ فائزر 22 مارچ 1824ء کو جرمن میں پیدا ہوا۔ یہیں پلا بڑھا اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ دورانِ تعلیم اس نے یہ عزم کرلیا کہ وہ ایک بزنس مین بنے گا، لیکن جہاں رہائش پذیر تھا، وہاں کے حالات کاروبار کے لیے سازگار نہ تھے۔ ابھی اس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی لیکن اس کے عزم نے کم عمری کو آڑے نہ آنے دیا۔ فائزر بزنس کرنے کے لیے مسلسل سوچ و بچار کر رہا تھا۔ اسے پتہ چلاکہ امریکا میں تجارت کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔ اس نے 1840ء کو 16 سال کی عمر میں امریکا کی طرف رختِ سفر باندھا۔ یہاں آ کر مختلف کام کرنے لگا۔ جو نوکری مفید نہ پاتا، اسے چھوڑ کر کسی اور ملازمت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا۔ اسی طرح نو سال کا عرصہ بیت گیا۔ چارلس نے اس دوران اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ جب کیمیا گری میں اپنی تعلیم مکمل کر لی تو اپنے کزن ارہرٹ (Erhart) کے ساتھ مل کر بطورِِ پارٹنرشپ کاروبار قائم کیا۔ دونوں نے مل کر 1849ء میں فائزر کے نام سے کیمیکل کمپنی شروع کی۔ جس وقت انہوں نے اس کاروبار کی بنیاد ڈالی، موزوں ترین ایام تھے۔ امریکا کی آبادی بڑھ رہی تھی۔ آبادی کے بڑھنے سے صحت کے مسائل بھی پیدا ہونے لگے۔ اس طرح ان کے کیمیکلکی مانگ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ فائزر جب اپنے وطن سے امریکا ہجرت کر کے آیا تو یہاں اسے شہریت اور پاسپورٹ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے پریشان ہونے کے بجائے اپنے کزن کی مدد سے ان مشکلات پر قابو پا لیا، اس کاکزن پہلے ہی امریکا میں رہائش پذیر تھا۔ دونوں نے کمپنی تو قائم کر لی تھی، لیکن ان کے پاس کوئی عمارت نہ تھی جس میں یہ اپنا سیٹ اپ بناتے۔ فائزر نے اپنے والد سے 25سو ڈالر ادھار لیے جو آج کے اعتبار سے تقریباً ایک لاکھ ڈالر بنتے ہیں۔ اس رقم سے انہوں نے ایک بلڈنگ خریدی اور اس میںکام کرنے لگے۔ یہاں انہوں نے مینوفیکچرنگ پلانٹ لگایا اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا ڈپارٹمنٹ قائم کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے ایک پروڈکٹ (میڈیسن) تیار کی جو سوجن کو کم کرتی تھی۔ اس وقت وہاں سوجن کی بیماری عام تھی۔ میڈیسن کے علاوہ بھی یہ مختلف کھانے پینے کی چیزیں تیار کرنے لگے، تاکہکاروبار میں وسعت آئے۔ ان کے لیے ایک نئی مشکل یہ تھی کہ یہ پروڈکٹ تو بنا رہے تھے لیکن اس کی سپلائی اور مارکیٹنگ کے لیے کوئی خاص آدمی نہیں تھا جو اس کا لوگوں اور دکان داروں کو تعارف کروائے اور ان تک پہنچائے۔ کسی بھی کمپنی کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ پروڈکٹ بناتی جائے اور ڈھیروں لگا دے۔ پروڈکٹ بنانے سے پہلے اس کی کھپت معلوم کی جائے، اس کی مارکیٹ میں مانگ کو دیکھا جائے۔ لوگوں میںاس کی آگاہی کی مہم چلائی جائے۔ تاکہ جیسے ہی آپ پروڈکٹ لانچ کریں تو کسٹمرز اس کی طرف کھنچتے چلے آئیں۔ فائزر کا کام سست روی کا شکار تھا۔ ان دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس کمپنی کا ایک دفتر نیویارک میں قائم کیا جائے، تاکہ یہاں لوگوں کے ساتھ تعلقات بآسانی بنائے جاسکیں اور یہاں مختلف شہروں اور ممالک سے لوگوں کو اپنی پروڈکٹ سے متعارف کروایا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے ولیمزبرگ میں دفتر کھوللیا۔ یہاں رہتے ہوئے یہ مختلف کیمیا گروں سے ملے، ان سے بہتر تعلقات قائم کیے۔ یہ تعلقات ثمر آور ثابت ہوئے۔ فائزر کا کزن ارہرٹ پروڈکٹ کی کوالٹی پر سمجھوتہ کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ اس کے مطابق اگر آپ کاروبار ایک دن کے لیے کر رہے ہیں تو گاہکوں کو دھوکا دے کر بہت بڑی رقم اینٹھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ ہمیشہ کاروبار کرنا اور مارکیٹ میںرہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کسٹمرز کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ جس دنآپ نے فراڈ شروع کر دیا، آپ کا بزنس بیٹھ جائے گا۔ ان دونوں نے پروڈکٹ کی کوالٹی پر بہت محنت کی۔ کوالٹی ہی ان کی کمپنی کی پہچان بن گئی۔ ان کی پروڈکٹ کی طلب مسلسل بڑھنے لگی، یہاں تک کہ 1871ء میں اس کی سیل 14 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی، جو آج کے اعتبار سے تین کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ 1872ء میں فائزر نے کوشش کر کے 13 دوسرے کیمیا گروں کو آمادہ کیا کہ وہ مل کر ایک مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن بنائیں،تاکہ اس بزنس کے شعبے میں ترقی کی طرف توجہ دی جائے اور اس کو درپیش مسائل کو حل کیا جائے۔ یہ ٹریڈ ایسوسی ایشن آج بھی امریکا میں کام کر رہی ہے۔ فائزر نے اپنی پروڈکٹ کی عمدہ کوالٹی کی بدولت تین بار ایوارڈ حاصل کیا۔ اس طرح ان کی کمپنی کا شہرہ ہونے لگا اور اس کی پروڈکٹ کے کسٹمر بڑھنے لگے تو انہوں نے دوسرے ممالک میں بھی اپنے دفاتر قائم کر لیے اور وہاں سے اپنی پروڈکٹ کسٹمرز کو سپلائی کرنےلگے۔ فائزر کمپنی، جس نے اپنی پروڈکٹ کی کوالٹی کی وجہ سے شہرت حاصل کی اور بزنس میں کامیابی ملی، لیکن آج یہی کمپنی پچھلے دس سالوں سے چار بار لاکھوں ڈالرز جرمانے کا سامنا کرچکی ہے۔ یہ ہمارے لیے بھی درس عبرت ہے کہ والد اپنی ساکھ کے ذریعے بزنس کامیاب بناتا ہے، لیکن ان کی اولاد راتوں رات دولت مند بننے کے چکر میں غیر قانونی اور غلط سرگرمیوں کا حصہ بننے لگتی ہے، جو کاروباری دنیا میں ایکناقابلِ تلافی جرم ہے۔ ہمیں اپنے بڑوں کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے کاروبار کو مزید پھیلانا اور بڑھانا چاہیےکیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
ملک اسرائیل کا نام آتے ہی مسلمانوں کا دل زخمی ہوکر رہ جاتا ہے، اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس حکومت نے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدد کی انتہا کردی ہے، جس نے لاکھوں مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان کیا، کتنے ہی ننھے بچوں کے سر سے ان کے باپ کا سایہ چھین لیا، کتنی ہی ماؤں کے سامنے ان کی معصوم اولاد کو تہ تیغ کردیا، کتنی ہی عورتوں کو بیوہ کردیا، کتنی ہی مستورات کے ساتھ عصمت دری کی گئی اور کتنے ہی بے قصوروں پر مصائب و ستم کے پہاڑ توڑے؛ زمانہ دیکھتا رہا، عالم اسلام چیختا رہا، انسانیت پسند لوگوں کا احتجاج جاری رہا، اس ظالم کے خلاف بارہا آوازیں بلند ہوئیں، مساجد میں دعاؤں کا اہتمام ہوا؛ لیکن اسرائیلی حکومت اپنی انانیت اور جابرانہ برتاؤ سے باز نہیں آئی، پھر یوں ہوا کہ اس نے اپنی مسلم رعایا سے اظہار رائے کی آزادی بھی چھین لی، حق کی صدا بلند کرنے والوں کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں، حکومت کی مکاریوں کا پردہ فاش کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؛ غرض یہ کہ مسلم مخالفت میں زمین سے آسمان تک کا خلا بھردیا گیا؛ لیکن اسرائیلی حکومت کی اسلام دشمنی کا کھلا چہرا اس وقت دنیا کے سامنے آیا جب چند روز قبل وہاں کی پارلیمنٹ میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان پر پابندی کا بِل پاس کیا گیا، اس وقت ایک مسلم رکن پارلیمنٹ محمد التیبی کی حمیتِ اسلامی جاگی تو اس نے پارلیمنٹ میں تمام ارکانِ یہود کے سامنے احتجاجاً اذان کی صدا بلند کردی اور نہ صرف یہ کہ دشمانِ اسلام کے شور مچانے پر اذان جاری رکھی بلکہ مکمل کرنے کے بعد مسنون دعا بھی پڑھی؛ عالم اسلام نے اس مسلم رکن کی جرأت و ہمت پر خراج تحسین پیش کیا؛ لیکن ظالم حکام پر اس احتجاج کا کوئی اثر نہ ہوسکا، اذان پر پابندی کا فیصلہ پاس تو ہوگیا، اب اس کو مستقل قانون کا درجہ دیاجانا باقی تھا، چند روز مساجد کے گنبد و مینار گم صم رہے، فضا میں مایوسی چھائی رہی، ہوائیں حیرانیاں بکھیرتی ہوئی ان دشمنانِ خدا پر لعنت کرتی رہیں، پرندے اذان کی آواز نہ سننے کے باعث سہم گئے، بے جان مخلوقات میں بھی پزمردگی کے آثار نماں تھے کہ آخر یہ فیصلہ عذابِ خدا وندی کو دعوت دینے سے کم نہیں تھا؛ چنانچہ 23/ نومبر کی صبح کو اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر حیفہ میں جب اللہ کے منادی کی آواز مساجد کے در و دیوار سے باہر نہ آسکی تو قدرتی عذاب نے آگ بن کر پورے شہر کو لپیٹ میں لے لیا، آگ اتنی شدید اور شعلہ افشاں تھی کہ روس اور یونان سمیت کئی ملکوں نے اسے بجھانے کے لیے امداد روانہ کی، بی، بی، سی کی رپورٹ کے مطابق اسّی ہزار لوگوں کو گھر خالی کرنے کے لیے کہا گیا، ادارے مقفل اور شاہراہیں بند کردی گئیں، ظاہر ہے کہ اتنی شدید آگ کی لپٹوں نے سیکڑوں جانیں بھی لی ہوں گی؛ لیکن اسرائیل نے ہلاک شدگان کے تعلق سے کسی طرح کی اطلاع میڈیا کو نہیں دی ہے؛ تاہم پچپن ساٹھ لوگوں کے آگ میں جھلس کر زخمی ہونے کی خبر ہے؛ یہ سب اللہ کا عذاب نہیں تو کیا ہے، اگر اب بھی دشمنانِ خدا کی آنکھ نہیں کھلی تو وہ دن دور نہیں کہ قہرِ الٰہی مختلف شکلوں سے ان پر مسلط ہوکر انہیں قعرِ مذلت میں گرفتار کردے، یا پھر اسلامی انقلاب کا وہ دن بھی قریب ہو جس کا عالم اسلام کو انتظار ہے، خدا کرے کہ جلد ہی کوئی اہل حق کا باطل شکن لشکر نمودار ہو جو ان ظالمانِ دنیا کی حکومت و سلطنت کو تہ و بالا کرکے رکھ دے.
جب اللہ انتقام لینے پر آتا ہے تو بڑے بڑے ظالموں کا نام و نشان ایک ہوا کے جھونکے کے ساتھ مٹاکر رکھ دیتا ہے، سچی بات ہے کہ ‘اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی’.