والدین اور اولاد کے تعلقات

ماں باپ کے نافرمان کی عبادت کی شرعی حیثیت

س… ماں باپ کے نافرمان کا فرض اور نفل ایک بھی قبول نہیں ہوتا (ابنِ عاصم) تو کیا ایسے شخص کا نماز پڑھنا یا نہ پڑھنا، یا نیکی کا کوئی اور کام کرنا یا نہ کرنا برابر ہے؟

ج… حدیث کا مطلب آپ نے اُلٹ کردیا، حدیث سے مقصود یہ ہے کہ اس شخص کو ماں باپ کی نافرمانی چھوڑ دینی چاہئے تاکہ اس کی عبادت قبول ہو، یہ نہیں کہ والدین کی نافرمانی پر بدستور قائم رہتے ہوئے عبادت ہی چھوڑ دینی چاہئے․․․!

س… فرض کریں، اے اور بی دو مشرک ہیں، مشرک اے خونخوار اور ظالم ہے، لوگوں کے ساتھ بداخلاقی، گالی گلوچ، جھگڑے فساد اس کا معمول ہے، لوگوں کے مال پر یا تنخواہ پر ناجائز قبضہ کرتا ہو۔ جبکہ مشرک بی اچھے اخلاق و عادات کا مالک ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے، کسی کو تکلیف نہیں دیتا، گالی گلوچ، جھگڑے فساد نہیں کرتا، کسی کے مال پر ناجائز قبضہ نہیں کرتا، تو کیا روز محشر میں ان کے لئے سزا ایک جیسی ہوگی یا کچھ فرق ہوگا؟

ج… جیل میں مجرموں کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے ان سے مختلف سلوک کیا جاتا ہے، اسی طرح دوزخیوں سے بھی ان کے جرائم کی نوعیت کے مطابق سلوک کیا جائے گا، دوزخیوں کی سزا کا کم و بیش ہونا نصوص سے ثابت ہے۔

والدین کی اطاعت اور رشتہ داروں سے قطع تعلقی

س… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور دُوسری جگہ ارشاد ہے کہ تیری جنت یا دوزخ والدین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان احادیث کی کمی بیشی معاف فرمائے تو آج کل کیا ہر زمانے میں والدین تو اس چیز میں یا کام میں راضی ہوتے ہیں جن پر وہ خود عمل کر رہے ہوتے ہیں، یعنی آباء و اجداد کے طریقے پر۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ رشتہ داری نہ توڑو، مگر والدین کہتے ہیں کہ کسی سے بولنے کی ضرورت نہیں ہے، جس سے ہم راضی ہیں ان سے بولو، دُوسروں کو چھوڑ دو۔ والدین اپنے آبائی طریقوں پر عمل کرنے والے سے خوش ہوتے ہیں، قرآن و سنت کے مطابق عمل کرنے والا ان کو بہت بُرا لگتا ہے، والدین کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے مگر پھر بھی وہ اولاد سے حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہمیں خدمت کرنا بھی چاہئے مگر آمدنی اتنی کم ہو کہ اپنا اور بچوں کا گزارا مشکل سے ہوتا ہو تو کیا کیا جائے؟

ج… والدین کی خدمت و اطاعت فرض ہے لیکن جائز کاموں میں، اور اگر والدین کسی ناجائز بات کا حکم کریں تو ان کی اطاعت حرام ہے۔

والدین سے متعلق اچھے جذبات

س… میں اپنے والد کا اکلوتا بیٹا ہوں، والدین اپنی تھوڑی بہت جتنی بھی جائیداد ہے میرے نام کرنا چاہتے ہیں، یہ بات اسلامی طریقے سے بھی مناسب ہے کہ والدین کے بعد جائیداد کا وارث لڑکا ہوتا ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی جائیداد خود بناوٴں، ماں باپ کے پیسے سے بہت عیش کرلی، بیچاروں نے ساری زندگی مجھ پر پیسہ خرچ کرکے مجھے ہر قسم کا آرام دیا، پڑھایا، لکھایا اب فرسٹ ایئر کا طالبِ علم ہوں، عمر ۱۷ سال کی ہے، اب چاہتا ہوں کہ جلد از جلد پڑھ لکھ کر اپنے پاوٴں پر کھڑا ہوجاوٴں اور والدین کو ایک حج کرادُوں۔ کیا یہ سب خیالات و خواہشات دُرست ہیں؟

ج… والدین کے آپ تنہا وارث ہوں، باقی آپ کے جذبات صحیح ہیں، بشرطیکہ آپ خود بھی اَحکامِ اِلٰہیہ کی بجاآوری کرتے رہیں۔ صرف کھانے کمانے کا چکر نہ رہے۔

والدین کی نافرمانی کا وبال

س… آج کل کے دور میں بڑھاپے کا سہارا کس پر کرنا چاہئے، اولاد پر یا دولت پر؟ ماں باپ اپنی اولاد کو اس لئے اچھی تربیت دیتے ہیں کہ آئندہ دور میں مجھے لات مارکر نکال دے، کیا یہ صحیح ہے؟ ماں باپ کے ساتھ اولاد اتنی بے دردی سے کیوں بولتی ہے؟ کیا آج کے دور میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ اچھا برتاوٴ نہ کرو؟ اولاد جوانی میں ماں باپ کا احترام نہیں کرتی، اگر شادی کرلے تو بیوی کا حکم بجالاتی ہے، بیوی کے کہنے پر کوٹھی بنوادیتے ہیں، ایک طرف ماں باپ کو دُکھ دے کر بیوی کو خوش کرنا، اولاد کو زیب دیتا ہے کہ میں خوشی مناوٴں اور میرے ماں باپ در در کی ٹھوکریں کھائیں؟ کیا ایک مسلمان کی اولاد کو اسلام یہی سکھاتا ہے؟ اولاد یہ کیوں نہیں سوچتی کہ میرے ماں باپ نے اتنے مشکل مراحل سے گزر کر میری پروَرِش کی ہے، آج مجھے ان کا سہارا بننا چاہئے، ان کی دُعائیں لینی چاہئیں؟ بعض اولاد ماں باپ کی جائیداد چھین کر جلد قبر کے نیچے اُتارنا چاہتی ہے، کیوں؟ اسلامی اَحکام کی وضاحت فرمائیں۔

ج… قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی میں والدین کی خدمت کے بڑے فضائل آئے ہیں، اور والدین کی نافرمانی اور ان کو ستانے کے وبال بھی بڑی تفصیل سے ذکر کئے گئے ہیں، اور اہلِ علم نے حقوق الوالدین پر مستقل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، سورہٴ بنی اسرائیل میں حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:

“وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدَھُمَا اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔” (بنی اسرائیل:۲۳، ۲۴)

ترجمہ:… “اور تیرے رَبّ نے حکم کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی “اُف” (ہوں) بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے اِنکساری کے ساتھ جھکے رہنا، اور یوں دُعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے۔”

ایک حدیث میں ہے:

“عن أبی أمامة رضی الله عنہ أن رجلًا قال: یا رسول الله! ما حق الوالدین علٰی ولدھما؟ قال: ھما جنتک أو نارک۔” (ابنِ ماجہ ص:۲۶۰)

ترجمہ:… “حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! والدین کا اولاد کے ذمے کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں (یعنی ان کی خدمت کروگے تو جنت میں جاوٴگے، ان کی نافرمانی کروگے تو دوزخ خریدوگے)۔”

ایک اور حدیث میں ہے:

“عن ابن عباس رضی الله عنہما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من أصبح مطیعًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنّة وان کان واحدًا فواحدًا ومن أصبح عاصیًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النّار ان کان واحدًا فواحدًا۔ قال رجل: وان ظلماہ؟ قال: وان ظلماہ وان ظلماہ وان ظلماہ۔” (مشکوٰة ص:۴۲۱)

ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص والدین کا فرمانبردار ہو اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک، اور جو شخص والدین کا نافرمان ہو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر ان میں سے ایک ہو تو ایک۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ: خواہ والدین اس پر ظلم کرتے ہوں؟ فرمایا: خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں۔”

ایک اور حدیث میں ہے:

“وعنہ (عن ابن عباس) ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ما من ولد بار ینظر الٰی والدیہ نظرة رحمة الا کتب الله لہ بکل نظرة حَجّة مبرورة۔ قالوا: وان نظر کل یوم مائة مرة؟ قال: نعم! الله اکبر وأطیب۔”

(مشکوٰة ص:۴۲۱)

ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: فرمانبردار اولاد اپنے والدین کی طرف نظرِ شفقت و محبت سے دیکھے تو ہر مرتبہ دیکھنے پر ایک حجِ مقبول کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ عرض کیا گیا: خواہ سو مرتبہ دیکھے؟ فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑے اور زیادہ پاکیزہ ہیں (ان کے لئے سو حج کا ثواب دینا کیا مشکل ہے)۔”

ایک اور حدیث میں ہے:

“عن أبی بکرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: کل الذنب یغفر الله منھا ما شاء الا عقوق الوالدین فانہ یعجل لصاحبہ فی الحیٰوة قبل الممات۔” (مشکوٰة ص:۴۲۱)

ترجمہ:… “حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر گناہ کو اللہ تعالیٰ چاہیں تو معاف فرمادیں گے، مگر والدین کی نافرمانی کو معاف نہیں فرماتے بلکہ اس کی سزا مرنے سے پہلے دُنیا میں ملتی ہے۔”

جو لوگ والدین کی خدمت سے کنارہ کشی کرتے ہیں، وہ بہت ہی بدبخت ہیں، لیکن اس میں کچھ قصور والدین کا بھی ہے، وہ بچوں کو مغربی تعلیم و تربیت دیتے ہیں، دِینی تعلیم و تربیت سے محروم رکھتے ہیں، نتیجتاً اولاد بڑے ہوکر مغربی عادات و اطوار کو اپناتی ہے، اور سب جانتے ہیں کہ مغرب میں والدین کی خدمت کا کوئی تصوّر نہیں، اولاد جوان ہوکر خودسر ہوجاتی ہے اور والدین سے ان کو کوئی ربط نہیں رہتا۔

جائز کاموں میں ماں باپ کی نافرمانی

س… ایک تنظیم اپنے نئے ممبروں سے حلف لیتی ہے کہ وہ ممبر تنظیم اور اس کے لیڈر کا ہر حال میں وفادار رہے گا، چاہے اسے اپنے ماں باپ اور بزرگوں کی نافرمانی ہی کرنی پڑے۔ کیا ماں باپ اور بزرگوں کی نافرمانی کا یہ حلف جائز ہے؟ اس کی وضاحت دِینی حیثیت سے فرمائیں۔

ج… جائز کاموں میں ماں باپ کی نافرمانی حرام ہے، اور حرام چیز کا عہد کرنا بھی حرام ہے۔

زانی، شرابی باپ کی بخشش کے لئے کیا کیا جائے؟

س… زید ایک کٹر مذہبی انسان تھا، پنج وقتہ نمازی، حج، روزہ، زکوٰة ہر طرح سے مذہبی انسان، لیکن انہیں غیرعورتوں سے مراسم رکھنے کی عادت تھی، بس یوں سمجھ لیں کہ لفظ “عورت” ان کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔ مولانا صاحب! جب سے زید کی موت ہوئی ہے، ہم دونوں بھائی بے حد پریشان ہیں، کیونکہ ان کی موت شراب پیتے ہوئے ایک غیرعورت کے ساتھ زنا کرتے ہوئے اچانک ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے ہوئی۔ کیا والد صاحب کی بخشش ہوجائے گی؟ حالانکہ ہم نے ہر طرح سے ختمِ قرآن، بھوکوں کو کھانا کھلانا، سب کچھ ان کے پیچھے کیا۔ مولانا صاحب! ہم اولاد ہونے کے ناطے ان کے لئے اور کیا ایسا مذہبی کام کریں کہ ان کی بخشش ہوجائے؟

ج… ہم سب کو اس قسم کے واقعات سے عبرت پکڑنی چاہئے اور حق تعالیٰ شانہ‘ سے حسنِ خاتمہ کی دُعا کرتے رہنا چاہئے (یا اللہ! حسنِ خاتمہ نصیب فرما، اور بُری موت سے پناہ عطا فرما)۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی جس حالت میں مرے گا اسی حالت میں اُٹھایا جائے گا۔ جہاں تک بخشش کا سوال ہے، سو بخشش کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ بغیر سزا کے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے معاف فرمادیں، اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس پر نظرِ عنایت ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اُمید بھی رکھنی چاہئے اور اس کی دُعا بھی کرنی چاہئے کہ حق تعالیٰ شانہ‘ ہمیں بغیر عذاب و عتاب اور بغیر حساب و کتاب کے بخشش نصیب فرمائیں۔

بخشش کے دُوسرے معنی یہ ہیں کہ اپنی بدعملیوں کا خمیازہ بھگتنے کے بعد پٹ کر کسی وقت عذاب سے رہائی مل جائے، یہ بخشش ہر مسلمان کے لئے ہے، جس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو، خواہ کتنا ہی گناہگار ہو، کسی نہ کسی وقت اس کی بخشش ضرور ہوجائے گی۔ البتہ جو شخص دُنیا سے ایمان کے بغیر رُخصت ہوا ․․․نعوذ باللہ․․․ اس کی کسی حال میں بھی بخشش نہیں ہوگی، وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ آپ اپنے والد کے لئے دُعا و اِستغفار کریں، اور جہاں تک ممکن ہو اس کے لئے اِیصالِ ثواب کا اہتمام کرتے رہیں، سب سے بہتر صدقہٴ جاریہ ہے۔

ماں باپ کو راضی کرنے کے لئے اسلامی اقدار چھوڑنا

س… میں اب سے ایک سال پہلے بہت آزاد خیال لڑکی تھی، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے اسلامی اقدار کو اپنا نصب العین بنالیا، جو لوگ پہلے مجھے بہت پسند کرتے تھے، اب انہوں نے مجھ پر فقرے کسنے شروع کردئیے ہیں، میں نے اس سال میٹرک کا امتحان دیا ہے اور میری عمر سولہ سال ہے، والدین بھی یہی کہتے ہیں کہ زیادہ دقیانوسی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے ریڈیو اور ٹی وی جیسی لغویات کو بالکل چھوڑ دیا اور پابندی سے پردہ کرنا شروع کیا، جبکہ میرے گھر میں پردہ بہت کم کیا جاتا ہے، گھر پر بھی میں نے چادر اوڑھنی شروع کی تو اس کا بھی گھر والوں نے مذاق اُڑایا، بہت سے لوگوں نے تو مجھ سے دوستی بھی ختم کردی ہے، لیکن میں نے کسی کی پروا نہیں کی۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ حال ہی میں میری منگنی ہوگئی ہے، ان لوگوں کے ہاں بھی زیادہ پردہ نہیں ہے، اب میرے والدین اور بڑے کہتے ہیں کہ تم اپنی بھنویں بنوالو، چادر چھوڑ دو اور برقع بھی اُتار دو اور زمانے کے ساتھ چلو۔ لیکن میں یہ کسی طرح بھی نہیں کرسکتی، مجھے بہت مجبور کیا جارہا ہے اور میں سخت پریشان ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ میرے برقع نے اور نماز نے مجھے متعدّد بار بُرائیوں سے بچایا اور آج حالات اسی کے درپے ہوگئے ہیں۔ میں نے یہ سوچ کر اچھی باتیں اپنائی تھیں کہ لوگ مجھے اچھا کہیں گے، لیکن اب اندازہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ اب اس قابل نہیں رہا کہ اس میں اعلیٰ اقدار کو اپنایا جائے، یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ میری ایک دو سہیلیوں نے مجھے دیکھتے ہوئے یہ رَوِش اختیار کرلی ہے، لیکن باقی لوگ مجھے ناپسند ہی کرتے ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ کیا میں اپنے والدین اور بڑوں کی بات مان لوں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہی کچھ اختیار کرلوں یا ان کی بات سے انکار کردوں؟ جبکہ انکار ماں باپ کی نافرمانی میں شامل ہوتا ہے۔ میں شادی سے بھی انکار نہیں کرسکتی اور اپنے ماں باپ اور بڑوں کو بھی ناراض نہیں کرسکتی۔ اب آپ میرے سوال کا جواب جلد عطا کردیں تاکہ میں ذہنی خلجان سے بچ جاوٴں اور مجھ جیسی لڑکیوں کا بھی بھلا ہو جو اس اُلجھن سے دوچار ہیں۔

ج… آپ کے خط میں چند باتیں قابلِ توجہ ہیں:

اوّل:… اگر آپ نے اسلامی اقدار کو اس لئے اپنایا ہے کہ لوگ آپ کو اچھا کہیں تو آپ نے بہت بڑی غلطی کی ہے، اور اگر اس لئے اپنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے تو آپ کو مخلوق کی رضامندی و ناراضی اور خوشی یا ناخوشی پر نظر نہیں رکھنی چاہئے۔ آپ کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہونا چاہئے، خواہ مخلوق آپ کو کچھ ہی کہے۔

ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کافر لوگوں نے دیوانہ اور مجنون تک کہا، ہماری آپ کی عزّت ان سے بڑھ کر نہیں۔

دوم:… حدیث میں آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ دِین پر چلنا آگ کے انگاروں کو مٹھی میں لینے سے زیادہ مشکل ہوگا۔ یہ وہی زمانہ ہے، جو شخص دوزخ کے انگاروں سے بچنا چاہتا ہو، اسے دُنیا کے ان انگاروں پر لوٹنا ہوگا، اور جو شخص دُنیا کے ان انگاروں سے گھبراتا ہے، اسے دوزخ کے انگاروں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

سوم:… والدین اور بڑوں کی فرمانبرداری ضروری ہے، مگر یہ اسی وقت تک جائز ہے جب تک خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی نافرمانی نہ ہوتی ہو، ورنہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرکے کسی کی اطاعت کرنا جائز نہیں، نہ والدین کی، نہ شوہر، نہ کسی حاکم کی۔ اس لئے میں آپ کو اسلامی اقدار ترک کرنے کا مشورہ نہیں دُوں گا۔

بچوں کی بدتمیزی کا سبب اور اس کا علاج

س… میرا بچہ جس کی عمر ساڑھے دس سال ہے، بہت غصّے والا ہے، غصّے میں آکر وہ انتہائی بدتمیزی کی باتیں کرتا ہے، جس کی وجہ سے بعض دفعہ دُوسروں کے سامنے شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے، کوئی ایسا وظیفہ بھیج دیں جس کی وجہ سے وہ بدتمیزی چھوڑ دے اور پڑھائی میں اچھا ہوجائے۔

ج… بچوں کی بدتمیزی و نافرمانی کا سبب عموماً والدین کے گناہ ہوتے ہیں، خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا معاملہ دُرست کریں اور ۳ بار سورہٴ فاتحہ پانی پر دَم کرکے بچے کو پلایا کریں۔

کیا والدین سے پانی مانگ کر پینا ثواب ہے؟

س… ہمارے دوست ․․․․․․․ صاحب کہتے ہیں کہ والدین اور بڑے بزرگوں سے پانی مانگ کر پینے میں ثواب بہت زیادہ ملتا ہے، اور چاہے والدین عمر رسیدہ ہی کیوں نہ ہوں، ان سے پانی مانگ کر پینا چاہئے۔

ج… کیا مطلب ہے کہ والدین کی خدمت کرنے کے بجائے ان سے خدمت لینی چاہئے․․․؟

بدکار والدہ سے قطع تعلق کرنا شرعاً کیسا ہے؟

س… اگر کسی کی والدہ یا بہن بدکار ہو، شریعت میں اولاد کے لئے کیا حکم ہے؟ کیا ان کا احترام و ادب ضروری ہے؟ اور ان کی خدمت کرنا فرض ہے؟ کیا اولاد اپنی والدہ سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے جبکہ بار بار نصیحت کے باوجود اس پر کوئی اثر نہ ہو؟

ج… جو شخص گھر میں گندگی کو برداشت کرے، وہ “دیوث” کہلاتا ہے، اوّل تو ہر ممکن کوشش اس گندگی کو دُور کرنے کی کی جائے، اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو قطع تعلق کرلیا جائے۔

کیا بالغ اولاد پر خرچ کرنا والد کے لئے ضروری ہے؟

س… ایک صاحب جن کے تین لڑکے اٹھارہ سال سے زیادہ کے ہیں، اور ایک لڑکی سولہ سال کی، دو چھوٹے لڑکے جن کی عمریں پندرہ سال اور نو سال ہیں، اور زوجہ ہیں۔ ان صاحب نے تین سال قبل کاروبار شروع کیا ہے اور کاروبار سے جو آمدنی ہوتی ہے اسے وہ کاروبار پھیلانے کے لئے لگا دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ: “میں اس حالت میں نہیں ہوں کہ گھر کا خرچہ اُٹھاسکوں، اس لئے قرآن کی رُو سے میرے اُوپر بیوی بچے کسی کا کوئی فرض نہیں ہوتا ہے۔” جبکہ تمام بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور بچوں کی والدہ بھی کوئی نوکری نہیں کرتیں۔ ان صاحب کا کہنا ہے کہ: “جب تک میں کھلانے کی پوزیشن میں تھا، میں نے کیا، اب میری پوزیشن نہیں” (جبکہ کاروبار کو پھیلا رہے ہیں)۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ: “میرے اُوپر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کچھ بھی فرض نہیں ہے، اور اٹھارہ سال کے بعد تو ان کا فرض بالکل ختم ہوجاتا ہے، اور بچوں کو تو گھر میں بالکل نہیں رہنا چاہئے، بلکہ خود کماکر گزار کرنا چاہئے۔” نہ وہ اپنے نو سال کے بچے نہ لڑکی کو اور نہ بیگم کو کھلاتے ہیں، بڑے لڑکے تو بہت دُور کی بات ہیں۔ ہر وقت یہ تکرار ہے کہ میرے اُوپر کچھ فرض نہیں، جہاں تک کرسکتا تھا کردیا۔ جبکہ نو سال کے بچے سے بھی خوب کام لیتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ: “میں نے جب تک کھلایا ہے اب اس کے بدلے کام کرو۔” اس کے برعکس باہر اپنے ملنے والوں اور دوستوں سے بہت خوش مزاجی، ملنساری سے پیش آتے ہیں، ان کے لئے کھانے پینے، روپے پیسے میں کوئی کمی نہیں کرتے، جبکہ ان کے دوست انہیں پہچان چکے ہیں اور بے وقوف بناکر ہزاروں روپے بٹور کر لے جاتے ہیں، ان کا انہیں کوئی غم نہیں بلکہ جو پیسہ بچوں پر خرچ کیا ہے اس کا بہت افسوس ہے، کیونکہ اس کا بدلہ کچھ ملنے کی اُمید نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ: “جو میں نے کیا وہ میری شفقت تھی۔” اب ایک مکان میں رہنے کے باوجود باپ بچوں (بڑے لڑکوں) کا ایک ایک ہفتے تک سامنا نہیں ہوتا، بات کرنا دُور کی بات ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ قرآن اور حدیث کی رُو سے صحیح صورتِ حال سے آگاہ کریں، براہِ کرم ان کا جواب جلد از جلد اخبار میں دیں تاکہ ہر ایک اس جواب کو پڑھ سکے۔

ج… اس شخص کا طرزِ عمل نہایت غلط اور افسوسناک ہے، اور اس کا یہ کہنا کہ: “میرے اُوپر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کچھ بھی فرض نہیں” محض ناواقفی کی بات ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ بیوی کا نان و نفقہ ہر حال میں شوہر پر فرض ہے، اور اگر شوہر فقیر ہو، اس کے پاس مال نہ ہو، تب بھی بیوی کا خرچ اس کے ذمے ہے، قرض لے یا بھیک مانگ کر لائے۔ اولاد کے لئے نان و نفقہ کا حکم یہ ہے کہ اگر ان کے پاس مال ہو تو ان کا خرچ خود ان کے مال سے پورا کیا جائے گا، اور اگر ان کے پاس مال نہیں اور وہ نابالغ ہوں یا کوئی ہنر اور کسب نہ جانتے ہوں تو ان کا خرچ والد کے ذمے ہوگا، یہ اخراجات شرعاً والد کے ذمے ہیں، اگر والد کے پاس پیسے نہ ہوں تو اس سے کہا جائے گا کہ کماکر لائے، یا بھیک مانگ کر لائے، اور اگر وہ ان کا خرچ ادا نہیں کرے گا تو اس کو قید کیا جائے گا۔

اولاد اگر بالغ ہو اور کمانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو تو لڑکوں کا خرچ باپ کے ذمے نہیں ہوگا، بلکہ وہ خود کمائیں اور کھائیں، لیکن لڑکیوں کی جب تک شادی نہیں ہوجاتی، ان کا خرچ باپ کے ذمے ہے، باپ ان کو کمانے پر مجبور نہیں کرسکتا۔

یہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اخراجات کی قانونی حیثیت ہے، قانون سے ہٹ کر انسان پر کچھ اخلاقی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ شرفاء کے یہاں جب تک اولاد زیرِ تعلیم ہو، یا بے روزگار ہو، ان کا خرچ والدین اُٹھاتے ہیں، جو شخص اپنی چھوٹی چھوٹی معصوم اولاد کے ساتھ ایسا بھدا سلوک کرتا ہو وہ خدانخواستہ معذور ہوجائے تو اپنی اولاد سے کس حسنِ سلوک کی توقع کرسکتا ہے؟ ان صاحب کو چاہئے کہ بیوی بچوں کے اخراجات پر بخل نہ کریں، یہ حق لازم ہے اور سب سے بڑا صدقہ بھی۔ اور اگر یہ شخص اپنے رویے کی اصلاح نہ کرے تو عدالت سے رُجوع کیا جائے۔

بلاوجہ لڑکی کو گھر بٹھانے والے باپ کی بات ماننا

س… ایک شادی شدہ بیٹی پر باپ کے کیا حقوق ہیں؟ بیٹی کی گھریلو زندگی میں باپ کی بلاوجہ مداخلت کے پیشِ نظر کیا بیٹی کو باپ کی حکم عدولی کی اجازت ہے؟ مثلاً باپ بیٹی کو زبردستی اپنے گھر ٹھہرانا چاہتا ہے جس کے لئے وہ عدالت سے بھی رُجوع کرنے سے گریز نہیں کرتا تاکہ دُوسرے دامادوں کی طرح یہ شریف النفس و مال دار داماد بھی اس کے زیرِ اثر آجائے۔ لیکن بیٹی ہر دَم اپنے باپ کے ہاں رہنے سے انکار کرتی ہے، جس کے لئے اس کو ہر وقت اور ہر جگہ شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے، کیا ایسے ضدی باپ کی ضد پورا کرنے کا اسلام میں کوئی حل ہے؟

ج… بیٹی کو بغیر کسی صحیح وجہ کے گھر بٹھانا اور اسے شوہر کے پاس نہ بھیجنا معصیت ہے، اور گناہ کے کام میں باپ کی اطاعت جائز نہیں، اس لئے باپ کی ایسی ضد کا ساتھ دینا بھی جائز نہیں، لڑکی کو چاہئے کہ اپنے گھر چلی جائے، باپ کی بات نہ مانے۔

خدا کے نافرمان والدین کا احترام کرنا

س… زید نے تمام عمر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکامات کی نفی میں گزاری، اب عمر کے اس حصے میں ہے جس میں خدا سے توبہ اور کردہ گناہوں پرشرمساری اور ندامت کا ہونا لازمی ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ زید نے اَزخود نہیں بلکہ لوگوں کے کہنے اور زور دینے پر حج کی سعادت بھی حاصل کرلی ہے، مگر حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے بعد بھی زید کے اعمال پر رتی بھر اَثر نہیں پڑا، بلکہ اور بھی شدومد سے حلال سے گریز اور حرام سے قربت حاصل کرلی۔ دورانِ حج خانہ کعبہ اور روضہٴ رسول پر گناہوں کی معافی طلب کرکے بقیہ زندگی اسلام کے وضع کردہ قوانین کے مطابق بسر کرنے کا عہد کیا اور قسم کھائی تھی، مگر واپس آتے ہی گزشتہ اعمالِ بد اور شیطانی حرکات عود کر آئیں۔ لوگوں کے حقوق غصب کرنا، لوگوں کو طرح طرح کی اذیت دینا، جھوٹ اور بے ایمانی کو اپنا فرض سمجھ کر نہ صرف خود کرنا بلکہ اولاد کو اس کی تلقین کرنا، جو اولاد خدا خوفی سے ان باتوں سے پہلو تہی چاہے، اسے بُرا جان کر اپنے کو باپ ہونے اور باپ کا حکم ماننے پر اصرار کرنا وغیرہ وغیرہ۔ زید اپنی اس اولاد سے خوش ہے جو ان کی بتائی ہوئی راہ پر آنکھیں بند کئے گامزن ہے، حالانکہ ایک حدیثِ رسول ہے کہ “باپ اپنی اولاد کو جو کچھ بھی دیتا ہے، اس میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے” زید نے اپنی اولاد کو اس راہ پر ڈال رکھا ہے جس کا دروازہ جہنم کے غار کی طرف کھلتا ہے، ہاں! دُنیا میں جنت بنارکھی ہے جبکہ یہ معلوم ہے کہ یہ جنت کتنے روز کی ہے۔ زید کی من جملہ باتوں سے اگر کوئی اولاد رُوگردانی کرنے کی جسارت کرے تو بڑے یقین سے کہا جاتا ہے کہ: “ہم سیّد ہیں، ہم آلِ رسول ہیں، بھلا ہمارا کسی سے کیا مقابلہ؟ یا ہم پر کون اُنگلی اُٹھائے گا؟” وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں دُنیا کو صاف صاف الفاظ میں یہ درس دیا تھا کہ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے، اگر برتری حاصل ہے تو وہ اس کے تقویٰ اور پرہیزگاری پر۔ ان حقائق کے پیشِ نظر آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ آیا ایسے باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری اولاد پر لازم ہے؟ جو اولاد کو حرام کھانے کی تلقین کرے، لوگوں کو اذیتیں دے، حقوق غصب کرے، لوگوں کے درمیان نااتفاقی اور نفاق پیدا کرے، بے ایمانی کو اپنا حق جانے اور خود کو “سیّد” کہہ کر جنت کا دعوے دار بنے؟ گویا “سیّد” ہونا ایک ایسی سند ہے کہ جو جی چاہے کرو، “سیّد” ہونے کا لیبل سینے پر سجاکر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکامات پامال کرتے رہو، ایسے لوگوں کے بارے میں ہمارا دِینِ مبین اور اَحکام نبوی کیا کہتے ہیں؟

ج… ماں باپ اگر کافر بھی ہوں، ان کی بے ادبی، توہین و تذلیل اور بے باکی کے ساتھ ان سے گفتگو کرنا جائز نہیں، بلکہ ان کا ادب و احترام بہرصورت لازم ہے، لیکن والدین اگر کسی غلط کام کا حکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت حرام ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس کام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو، اس میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ ان دونوں باتوں کو جمع کرنا بڑا صبرآزما امتحان ہے، کہ غلط کار والدین کی بے ادبی بھی نہ کی جائے اور گناہ کے کام میں ان کی اطاعت بھی نہ کی جائے۔

کیا والد کے فعلِ بد کا وبال اولاد پر ہوگا؟

س… میں انٹر تک تعلیم یافتہ ہوں، انٹر تک میں نے تعلیم کراچی ہی سے حاصل کی ہے۔ اس وقت میری عمر تقریباً ۲۳ سال ہوگی۔ آج سے ۷-۸ مہینے پہلے تک نماز اور دیگر عبادات کا پابند تھا، آج کل بھی نماز پڑھ لیتا ہوں، مگر زبردستی کبھی کبھار پڑھتا ہوں، دِل نہیں چاہتا، کچھ کمیونسٹ حضرات سے واسطہ ہے، ان کی باتیں سچی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ گھر کے حالات کچھ یوں ہیں کہ میرے والد صاحب کے تعلقات کسی دُوسری عورت سے عرصہٴ دراز سے تھے، ان کی راہ میں ہم رُکاوٹ تھے، وہ اس عورت کے ساتھ گھر چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ عرصہ ۵ ماہ سے مجھے کوئی کام نہیں مل رہا، ۵ چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں، والدہ ہر وقت لڑتی رہتی ہیں، میرے گھر میں میرے سوا سب ناخواندہ ہیں، دِل کی بڑی خواہش ہے کہ مقابلے کا امتحان پاس کروں، مگر ان حالات میں تو خودکشی کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یا پھر سوچتا ہوں کہ میں بھی اپنے والد صاحب کی طرح گھر چھوڑ جاوٴں، کیونکہ گاوٴں والے اکثر طعنے دیتے ہیں کہ: “تمہارا باپ عورت نکال کر لے گیا ہے اور ۵۰ سال کی عمر میں اس کو شرم نہ آئی” وغیرہ۔ دِل ان باتوں سے بڑا پریشان رہتا ہے، میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ: “تمہاری داڑھی کا کیا فائدہ؟ تمہارا باپ تو عورت نکال کر لے گیا ہے۔” باہر سے یہ باتیں سن کر جب گھر جاتا ہوں تو والدہ بچوں سے لڑ رہی ہوتی ہیں، ان حالات سے تنگ آگیا ہوں، قرآن پاک کی تلاوت کا میں بہت شوقین تھا، مگر اب دِل نہیں چاہتا، روزے میں نے رکھے ہیں، لیکن سوچتا ہوں کہ بالکل بیکار رکھے ہیں، کون سا اللہ نے قبول کرنے ہیں؟ اسی طریقے سے دُوسری اسلام کی عبادات کے متعلق سوچتا ہوں۔ میرے محترم! میں جب کراچی میں تھا تو آپ کا کالم روزنامہ “جنگ” میں پڑھتا تھا، اس کالم کی وجہ سے مجھ میں کافی ساری رُوحانیت اُبھر کر آئی تھی، مجھے بالا صورتِ حال کی روشنی میں بتائیے کہ آیا میں والد صاحب کے خلاف کوئی ایکشن لے سکتا ہوں یا پھر میں بھی گھر چھوڑ کر بھاگ جاوٴں؟

ج… جو لوگ آپ کو باپ کے فعل کا طعنہ دیتے ہیں، وہ غلط کرتے ہیں۔ آپ نہ تو لوگوں کی باتوں سے اثر لیں، نہ باپ سے انتقام لینے کی سوچیں، بلکہ صبر و استقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں، اور جہاں تک ممکن ہو روزگار کا بندوبست کرلیں۔ غلط ماحول آدمی کو پریشان کردیتا ہے۔ آپ کی والدہ بھی حالات کی وجہ سے چڑچڑی ہوگئی ہیں، ان کو ہر ممکن راحت پہنچانے کی کوشش کریں، چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاوٴ کریں۔ الغرض! ہمت اور حوصلے کے ساتھ گھر کے ماحول کو جنت کا ماحول بنانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ تو بندوں پر رحیم و کریم ہیں، آپ عبادات کا اہتمام کریں، ان سے اِن شاء اللہ آپ کو ذہنی سکون میسر آئے گا اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں، اِن شاء اللہ حالات بدل جائیں گے، میں بھی آپ کے لئے دُعا کرتا ہوں۔

والد اور والدہ کا اولاد کو ایک دُوسرے سے ملنے سے منع کرنا

س… میرے دوست الف عمر ۳۵ سال تقریباً، میرے دوست کی بہن ب عمر ۳۶ سال، الف اور ب کے ماں باپ آج سے تقریباً ۳۲ سال پہلے کسی گھریلو تنازع میں علیحدہ ہوجاتے ہیں، الف نے اپنی ماں کے ساتھ رہائش اختیار کی اور ب نے اپنے والد صاحب کے ساتھ رہنا پسند کیا، یہ بات یوں قدرتاً ہوئی۔ بعد میں ماں نے دُوسری شادی کرلی اور دُوسری اولاد بھی ہوئی، والد صاحب نے کوئی شادی نہیں کی، اب ان کی عمر تقریباً ۷۰ سال ہے، اور الف کو ماں نے پالا پوسا ہے، والد صاحب نے اس عرصے میں پوچھا تک بھی نہیں ہے۔ اب اس عمر میں جبکہ الف اور ب (بہن بھائی) غیرشادی شدہ ہیں آپس میں تین تین سال تک گفتگو یا خط و کتابت نہیں کرتے اور ناراضگی میں شدّت ہوتی جارہی ہے۔ بہن (ب) والد صاحب سے محبت کرتی ہے، اور بھائی (الف) والدہ سے بے انتہا محبت کرتا ہے، اس دوران بہن اور والد صاحب الف کو کبھی کبھی عاق کرنے کے خط بھی لکھتے ہیں۔ لیکن الف کہتا ہے کہ میں ماں سے الگ رہنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی ایسی بات کرسکتا ہوں کہ جس سے والدہ کو صدمہ ملے۔ یہ سارا ماحول والدین کا پیدا کردہ ہے، حقیقتاً اس میں نہ الف کا قصور ہے اور نہ ب کا قصور! میں نے الف کو بہت سمجھایا ہے کہ والد صاحب کے بھی حقوق ہیں، انہیں ادا کرنا چاہئے، وہ جواب دیتے ہیں کہ تین مرتبہ ماں کا خیال رکھنا ہے اور ایک مرتبہ باپ کا، جبکہ باپ کے پاس جاتا ہوں تو گھر سے نکال دیتے ہیں۔

ج… لڑکی اور لڑکے دونوں کی پروَرِش جن کے پاس ہوئی، اس سے تعلق و محبت کا زیادہ ہونا تو ایک طبعی بات ہے، لیکن لڑکے کا اپنے باپ سے اور لڑکی کا اپنی ماں سے قطع تعلق کرلینا یا کئے رکھنا ناجائز ہے۔ اسی طرح والد کا اپنے لڑکے کو عاق کرنے کی دھمکیاں دینا بھی گناہ ہے۔ الف اور ب دونوں اب جوانی کی عمر سے آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے والدین نے ان کی دُنیا تو برباد کی ہی تھی، اب ان کی آخرت بھی تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ الف کو چاہئے کہ وہ والدہ کو سمجھائے کہ وہ والد سے قطع تعلق پر مجبور نہ کرے، اسی طرح ب کو چاہئے کہ وہ والد سے کہے کہ اسے والدہ سے قطع تعلق پر مجبور نہ کرے۔ ان کا میاں بیوی کا رشتہ اگر شومیٴ قسمت سے ختم ہوگیا تھا تو ماں بیٹی کا اور باپ بیٹے کا رشتہ تو اَٹوٹ ہے، یہ تو ختم نہیں ہوسکتا، نہ کیا جاسکتا ہے، اور جب رشتہ قائم ہے تو اس کے حقوق بھی لازم اور دائم ہیں۔

بڑھاپے میں چڑچڑے پن والے والدین سے قطع تعلق کرنا

س… اگر والدین بڑھاپے کی عمرکو آئیں اور ان کے چڑچڑاپن یا دِماغ یا حافظہ کمزور ہونے کی وجہ سے جوان بیٹے بیٹیاں ان سے قطع تعلق کریں، کیا یہ جائز ہے؟ ان کے روزِ قیامت بخشش کے امکانات ہیں؟

ج… ایسی اولاد جو والدین کو ان کے بڑھاپے میں تنہا چھوڑ دیتی ہے، سخت گناہگار ہے۔ جو لوگ جنت میں نہیں جائیں گے ان میں والدین کے نافرمان کو بھی حدیث میں ذکر فرمایا ہے، اس جرم سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے اور والدین کو راضی کرنا چاہئے۔

والدین میں سے کس کی خدمت کریں؟

س… زمانہٴ بچپن میں ہی میرے والد نامعلوم کس وجہ سے بدظن ہوگئے اور اس حد تک میری مخالفت گھر میں کرنے لگے کہ میرا جینا دُوبھر ہوگیا، بعض اوقات وہ مجھ پر ایسے الفاظ استعمال کرتے جو شرعاً اور عام معاشرے میں بھی استعمال نہیں کئے جاتے۔ اس عرصے میں میری والدہ مجھ پر شفقت کرتی رہیں اور والد سے مجھے نفرت دن بدن زیادہ ہوتی گئی، اور بالآخر والد کی ناانصافیوں اور روز مرّہ کے جھگڑوں سے تنگ آکر میں نے گھر و گاوٴں چھوڑ دیا۔ جب شہر آیا تو کچھ عرصے بعد میں نے ہوش سنبھالا تو میں نے اپنے والد سے دوبارہ رابطہ بحال کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی، جبکہ میرے والد میرے پاس آناجانا شروع ہوگئے اور میں بھی کبھی کبھار گھر جاتا رہا، نتیجہ یوں ہوا کہ میرا آنا جانا زیادہ ہوا اور والد بھی مجھ پر اعتماد کرنے لگے، اور والدہ تو پہلے سے ہی میری سرپرستی کرتی تھیں۔ اب جب میں گھر جاتا ہوں یا گھر سے باہر بھی رہوں تو ہمارے گھر میں عموماً جھگڑا والدین کے درمیان رہتا ہے اور صرف میری وجہ سے۔ میں نے بارہا کوشش کی کہ والدہ کو سمجھاوٴں لیکن وہ بضد ہیں کہ تم والد کے کردار سے واقف نہیں، تمہیں یاد بھی نہیں کہ یہ تمہارے ساتھ کیسا رویہ رکھا کرتے تھے۔ جبکہ میں ان تمام باتوں کو جب یاد کرتا ہوں یا والدہ یاد کراتی ہیں تو مجھے یہ تمام رشتے بھول جاتے ہیں، اور اپنے ماضی کی وہ مصیبتیں یاد آجاتی ہیں، لیکن میں یہ سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ میرے والدین میری وجہ سے آپس میں ناراض نہ رہیں، جبکہ ان وجوہات کی بنا پر چھوٹے بہن بھائیوں پر بھی اثر پڑچکا ہے اور وہ بھی کسی حد تک چھوٹے بڑے کی قدر نہیں کرتے۔ میری والدہ اور والد کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے اور بعض دفعہ نوبت طلاق تک بھی پہنچ جاتی تھی، جو بعد میں بڑے بزرگوں کی مداخلت پر نہ ہوسکی۔ اب میری کوشش زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ میں والد کی زیادہ خدمت کروں اور کرتا بھی ہوں، لیکن اس اثنا میں میری والدہ مجھ پر ناراض ہوجاتی اور مجھے ایسا ہونے سے نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ براہِ کرم میری اس داستان کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں کہ میں ان میں سے کس کی خدمت یا اَحکام کو اوّلیت دُوں جبکہ والدہ مجھے باپ کی خدمت یا اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے منع کرتی ہے اور والد کی ناراضگی کو میں دِل سے برداشت نہیں کرسکتا، جو میری کمزوری ہے، جبکہ اُوپر عرض کرچکا ہوں کہ والد نے میرے ساتھ بچپن میں بہت بلکہ حد سے زیادہ ناانصافیاں بھی کی ہیں اور بچپن سے آج تک مجھے یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ میرا والد بھی ہے۔ براہِ کرم میرے لئے بھی آپ شریعت کی رُو سے جواب لکھیں کہ میں ان دونوں میں کس کا حکم بجالاوٴں اور کیا کروں؟ نیز ان دونوں کے لئے کوئی عمل یا نصیحت تحریر فرمائیں تاکہ اس عذاب سے سارے گھر کو نجات مل سکے۔

ج… آپ کے والد اگر خدمت کے محتاج ہیں اور کوئی ان کی خدمت کرنے والا نہیں، تو ان کی خدمت آپ کے ذمے فرض ہے۔ میری یہ تحریر اپنی والدہ کو سناکر کہہ دیجئے کہ اس میں تو میں آپ کی اطاعت نہیں کروں گا، اس کے علاوہ جو خدمت فرمائیں، جائز حکم فرمائیں اس کو بسر و چشم بجا لاوٴں گا۔

اپنے سے چھوٹے پر ہاتھ اُٹھانے کا تدارک کیسے کریں؟

س… اگر ہم نے کسی چھوٹے پر ہاتھ اُٹھالیا اور بعد میں دِل میں معافی مانگ لی مگر اس سے معافی مانگنے کی ہمت نہیں ہوئی، تو کیا ہمارا ہاتھ اُٹھانے والا گناہ معاف ہوجائے گا؟

ج… چھوٹے سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، البتہ اس کو کوئی تحفہ وغیرہ دے کر خوش کردیا جائے۔

والدین کے اختلافات کی صورت میں والد کا ساتھ دُوں یا والدہ کا؟

س… میرے والدین میں آپس میں ناراضگی ہے، بہت زیادہ سخت اختلافات ہوگئے ہیں، یہاں تک کہ دونوں علیحدہ علیحدہ ہوگئے ہیں، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں اگر والدہ کا ساتھ دیتا ہوں تو والد ناراض ہوجاتے ہیں، اگر میں والد کے ساتھ بولتا ہوں تو والدہ صاحبہ ناراض ہوجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے گھر سے نکالنے پر آجاتے ہیں، مجھے یہ بتائیں کہ میں والدہ کی خدمت کرتا رہوں یا والد کی؟ میرے چار بھائی ہیں جو مجھ سے چھوٹے ہیں، وہ ماں کے ساتھ ہیں اور جو بڑے ہیں وہ والد کے ساتھ ہیں۔ والدہ کا خرچہ کوئی نہیں دیتا، میں نے اپنی سمجھ سے یہ وعدہ خدا سے کیا ہے کہ خدا کے بعد میری والدہ ہی سب کچھ ہیں، آیا میں یہ سب کچھ ٹھیک کر رہا ہوں؟

ج… آپ کے والدین کے اختلافات بہت ہی افسوسناک ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا فرمائے۔ آپ ایسا ساتھ تو کسی کا بھی نہ دیں کہ دُوسرے سے قطع تعلق ہوجائے، دونوں سے تعلق رکھیں اور ان میں سے جو بھی بدنی یا مالی خدمت کا محتاج ہو اس کی خدمت کریں، ادب و احترام دونوں کا کریں۔ اگر ان میں ایک دُوسرے کی خدمت سے یا اس کے ساتھ تعلق رکھنے سے ناراض ہوتا ہو، اس کی پروا نہ کریں، نہ کسی کو پلٹ کر جواب دیں، چونکہ آپ کی والدہ بوڑھی بھی ہیں اور ان کا خرچ اُٹھانے والا بھی کوئی نہیں، اس لئے ان کی جانی و مالی خدمت کو سعادت سمجھیں۔

سوتیلی ماں اور والد کے نامناسب رویے پر ہم کیا کریں؟

س… ہم چار سگے بھائی ہیں، ہماری والدہ صاحبہ دسمبر ۱۹۵۶ء کو وفات پاگئیں، اس کے بعد ہمارے والد صاحب نے ۱۹۶۱ء میں دُوسری شادی کرلی، وہ بھی اپریل ۱۹۷۲ء میں وفات پاگئیں، اس سے کوئی اولاد نہ ہوئی، ستمبر ۱۹۷۳ء میں ہمارے والد صاحب نے تیسری شادی کی جو کہ اپنے پہلے خاوند سے طلاق شدہ تھی، ہمارے والد صاحب نے ہم لوگوں کو اس شادی سے پہلے ۴ پلاٹ ہبہ کردئیے تھے، مجھے صرف پلاٹ دیا، میرے چھوٹے بھائی کو بھی، صرف بڑے دو بھائیوں کو بنے بنائے مکان۔ میں نے اپنی رقم سے ہی ۱۹۷۷ء میں مکان تعمیر کروایا، جس پر اس وقت تقریباً چالیس ہزار روپیہ خرچ ہوا تھا، بعد میں بھی اسی میں کچھ ردّ و بدل کی، میرے چھوٹے بھائی نے ایک بیٹھک بنوائی، اس پلاٹ کے اصل میں پہلے سے ہی ہمارے ناموں پر رجسٹری اور اسٹامپ لکھے ہوئے ہیں، ہم نے احتراماً والد صاحب کو کہا آپ تقسیم کرکے ہمیں ہبہ کروادیں تاکہ بعد میں ہم لوگ آپس میں جھگڑا وغیرہ نہ کریں، ابھی تک ہمارے والد صاحب کے نام پر لاکھوں روپے کی جائیداد موجود ہے۔ ہماری سوتیلی ماں نے ہمارے والد صاحب کو ناراض کردیا، ہم لوگ کوشش کرتے رہے کہ والد صاحب کو راضی کریں لیکن کوئی اثر نہ ہوا، اس کی بڑی وجہ ہماری سوتیلی والدہ ہے، ہم تین بھائی ۱۷ گریڈ میں ملازم ہیں، بڑا بھائی کاروبار کرتا ہے، ۳۱/مارچ ۱۹۸۴ء کو ہمارے والد صاحب نے اپنی بیوی کے دو رشتے داروں کے ساتھ لڑائی کی، اس لڑائی میں میں اور میرا ایک بھائی تھا، دو بھائی موجود نہیں تھے، لڑائی کی وجہ میرے بڑے بھائی کی گندے پانی کے نکلنے کی نالی بند کردی تھی، یہ نالی شارعِ عام گلی میں نکلتی ہے، لیکن ہمارا والد صاحب کہتا ہے کہ میں نہیں چھوڑتا ہوں، نوبت تھانہ تک گئی، بعد میں ہم لوگوں نے درخواست واپس لے لی۔ ہمارا والد صاحب ہمارے ساتھ اور ہماری بیویوں کے ساتھ لڑتا جھگڑتا رہتا ہے، خوب گالیاں دیتا ہے، برسرِ عام ہمیں اور ہماری بیویوں کو گالیاں وغیرہ دیتا رہتا ہے، یہ ان کا معمول ہے، لیکن ہم لوگ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتے۔ اب انہوں نے میرے خلاف دعویٰ کردیا ہے کہ میں آپ کو جگہ نہیں دیتا ہوں، کیا شریعت کی رُو سے وہ مکان مجھ سے لے سکتے ہیں یا نہیں؟ جبکہ اس کے دُوسرے بچوں کے لئے لاکھوں روپے کی جائیداد موجود ہے، ہم ان کے ساتھ صلح کرنے کو تیار ہیں، لیکن وہ ہمیں پاس نہیں چھوڑتے، اب ہم ان کے ساتھ کیا کریں؟ ہمارا دِل اور ایمان کہتا ہے کہ والد صاحب کی خدمت کریں، لیکن وہ ہمیں قریب تک نہیں آنے دیتے، اس صورت میں ہم لوگ گنہگار تو نہیں ہیں؟

ج… جو حالات آپ نے لکھے ہیں، نہایت افسوسناک ہیں، جو پلاٹ یا مکان آپ کے والد صاحب آپ کو دے چکے تھے اور آپ لوگوں نے ان میں اضافہ کرلیا، وہ ان کو واپس نہیں لے سکتے، نہ شرعاً، نہ اخلاقاً۔

جہاں تک آپ کے والد شریف کے نامناسب رویے کا تعلق ہے، آپ ان کو نہ بُرا بھلا کہیں، نہ ان کی بے ادبی کریں، نہ لوٹ کر ان کی بات کا جواب دیں، اگر وہ آپ سے خدمت نہیں لیتے تو آپ گنہگار نہیں، آپ اپنی سوتیلی والدہ کا بھی سگی والدہ کی طرح احترام کریں، اور ان کی بدگوئی اور ایذارسانی پر صبر کریں، اِن شاء اللہ آپ کو اس کا اچھا پھل دُنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی۔

ذہنی معذور والدہ کی بات کہاں تک مانی جائے؟

س… میری والدہ صاحبہ تنہائی پسند اور مردم بیزار سی ہیں، شوہر سے یعنی میرے والد صاحب سے ہمیشہ ان کی لڑائی رہتی ہے، اور وہ ان سے بے انتہا نفرت کرتی ہیں، اگرچہ ظاہری طور سے ان کی خدمت بھی کرتی ہیں، مثلاً کھانا، کپڑے دھونا وغیرہ مگر دِل میں ان کے خلاف بے انتہا نفرت ہے۔ اس حد تک کہ اگر والدہ صاحبہ کا بس چلے تو انہیں دربدر کردیں۔ ساتھ ہی یہ بھی عرض ہے کہ میری والدہ پانچ وقت کی نمازی اور قرآن کی تلاوت کرتی ہیں، مجھے بھی وہ شوہر سے متنفر کرنے کی کوشش کرتی ہیں، یہاں تک کہ ایک مرتبہ گھر میں بھی بٹھالیا تھا اور سسرال واپس بھیجنے سے منع کردیا تھا، میری سسرال سے بھی انہیں شکایتیں ہیں۔ ان حالات میں آپ سے درخواست ہے کہ میری والدہ کے اس طرزِ عمل پر روشنی ڈالیں کہ آیا والد صاحب کے ساتھ ان کا یہ طرزِ عمل خدا تعالیٰ کے نزدیک قابلِ سزا ہے یا نہیں؟ اور ان کی قرآنی تلاوت و عبادت نماز وغیرہ کا کچھ حاصل ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ انہیں شوہر کی خوشنودی حاصل کرنی چاہئے یا نہیں؟ جبکہ میرے والد صاحب کے کوئی اتنے بڑے جرائم نہیں ہیں، زیادتیاں کچھ تھوڑی بہت بہرحال انہوں نے کی ہوں گی۔

ج… بعض آدمی ذہنی طور پر معذور ہوتے ہیں، ان کے لاشعور میں کوئی گرہ بیٹھ جاتی ہے، باقی تمام اُمور میں وہ ٹھیک ہوتے ہیں، مگر اس خاص اُلجھن میں معذور ہوتے ہیں۔ آپ کی والدہ کی یہی کیفیت معلوم ہوتی ہے، اس لئے ان کی اصلاح تو مشکل ہے، آپ ان کے کہنے سے اپنا گھر برباد نہ کریں۔ رہا یہ سوال کہ وہ گنہگار ہیں یا نہیں؟ اگر وہ عنداللہ بھی معذور ہوں تو معذور پر موٴاخذہ نہیں، اور اگر معذور نہیں تو گنہگار ہیں۔

بیرون ملک جانے والا والدین کی خدمت کیسے کرے؟

س… میں بی کام کرچکا ہوں، اور والدین کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، اس لئے بیرونِ ملک جانے کا پروگرام بنایا۔ میں نے ایک ذمہ دار آدمی کو پیسے دئیے مگر اس نے ابھی تک میرا ویزا حاصل نہ کیا، کافی صبر کیا، اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، اب میں آڈٹ کلرک ہوں، مگر اپنے پروفیشن میں سیٹ نہیں، اب میں ۲۵ سال کا ہوں اور والدین کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، اور اس بارے میں پریشان ہوں کہ ابھی تک باہر جاکر والدین کی خدمت کے لئے کچھ نہ کرسکا، براہِ کرم میرے لئے کوئی وظیفہ وغیرہ بھیجیں نوازش ہوگی۔

ج… آپ کا خط بغور پڑھا، آپ کی پریشانی کا اصل سبب یہ ہے کہ آپ نے اپنے لئے ایک راستہ خود تجویز کرلیا ہے کہ والدین کی خدمت بس اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب آپ بیرون ملک جاکر بہت سا روپیہ کماکر ان کو بھیجیں، حالانکہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ علمِ اِلٰہی میں آپ کا باہر ملک میں جانا آپ کے لئے بہتر نہ ہو، اور آپ کے والدین کے لئے بھی بجائے نفع کے مزید پریشانی کا باعث ہو۔ آدمی جب اپنے لئے کچھ خود تجویز کرلیتا ہے اور اس کی وہ تجویز بروئے کار نہیں آتی تو گھبراتا اور پریشان ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اگر آدمی اپنا سارا معاملہ اللہ کے سپرد کردے اور جو صورت بھی حق تعالیٰ شانہ اس کے لئے تجویز فرمادیں، اس کو اپنے حق میں بہتر سمجھ کر اس پر راضی ہوجائے تو اس کی ساری پریشانیاں کافور ہوجاتی ہیں، پس پریشانیوں کی اصل اس کی اپنی تجویز ہے۔

آپ جو کام بھی کرنا چاہیں “بہشتی زیور” میں جو اِستخارہ مسنونہ لکھا ہے، وہ کیا کریں، اور اسی کے ساتھ سات بار سورہٴ فاتحہ پڑھ کر ایک تسبیح “اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ” کی کرکے دُعا کرلیا کریں، اِن شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت و مدد شاملِ حال ہوگی۔ کوشش تو یہی کریں کہ نماز باجماعت مسجد میں ادا ہو، بغیر مجبوری کے نماز باجماعت قضا نہ ہو، کہ یہ بڑی محرومی بھی ہے اور بڑا گناہ بھی۔

گالیاں دینے والے والد سے کیسا تعلق رکھیں؟

س… میرے والد پڑھے لکھے ہیں، لیکن اس کے باوجود گالیاں بہت دیتے ہیں، کبھی کبھی تو بُری باتیں بھی کہہ دیتے ہیں، پھر میرا دِل نہیں چاہتا ان سے بات کرنے کو، اس لئے میں نے اپنے والد سے بات کرنی چھوڑ دی ہے، جس کی وجہ سے امی مجھ سے کبھی کبھی ناراض ہوجاتی ہیں، حالانکہ میں کسی کو ذرا سا بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی، لیکن میں مجبور ہوں۔ سوال یہ ہے کہ والد صاحب کے گالیاں دینے سے کیا گناہ ہے؟ اور میرے اس رویے سے گناہ تو نہیں ہو رہا؟ ایک اور بات کہ میں امی سے بہت محبت کرتی ہوں لیکن ظاہر نہیں کرسکتی ہوں۔

ج… آپ کے والد کا گالیاں دینا بھی گناہ ہے، اور آپ کا ان سے بات چھوڑنا بھی سخت گناہ ہے۔ ان کا غلط رویہ ان کے ساتھ، مگر اس کی وجہ سے آپ کا طرزِ عمل نہیں بدلنا چاہئے، والدہ سے محبت بڑی اچھی بات ہے، اور محبت کی علامت ہے کہ جس بات سے آپ کی والدہ کو تکلیف ہوتی ہو (جیسے والد کے ساتھ بات نہ کرنا) اس کو چھوڑدیں۔

بوڑھے باپ کی خدمت سے مانع کو منع کرنا

س… اگر باپ بوڑھا ہو اور ماں اس قابل ہو کہ وہ اپنے بوڑھے شوہر کی خدمت کرسکے اور بیٹے جوان ہوں، وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ماں کو بوڑھے باپ سے دُور رکھیں، کیا بیٹے بھی اتنے ہی گناہگار ہوں گے جتنا کہ ماں؟

ج… نہ صرف بچوں کی ماں کو بلکہ خود بچوں کو بھی اپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنی چاہئے، یہ دُنیا و آخرت میں ان کی سعادت و نیک بختی کا موجب ہے، ورنہ بجائے خود خدمت کرنے کے اگر وہ اپنی والدہ کو بھی خدمت سے روکتے ہیں تو ان کی گناہگاری اور بدبختی میں کیا شک ہے․․․؟

اولاد کو شفقت و محبت سے محروم رکھنا

س… جمعہ ایڈیشن ۱۸/اکتوبر ۱۹۸۲ء کو آپ کے کالم میں، میں نے اولاد کو عاق کردینے کے سلسلے میں پڑھا تھا، جس میں قرآن اور حدیث کی رُو سے آپ نے تحریر کیا تھا کہ اولاد ہر حالت میں باپ کی جائیداد کی وارث ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک صاحب نے اپنی پہلی بیوی کو تو طلاق دے دی اور دُوسری شادی کرلی، اور پہلی بیوی سے صرف لڑکیاں ہیں۔ اب جائیداد تو دُور کی بات ہے، انہوں نے لڑکیوں سے ملنا تک چھوڑ دیا ہے، کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بیوی کو طلاق دینے کے بعد اولاد سے ایسا سلوک کیا جائے؟ اور بچپن سے لڑکیوں کو تیرے میرے گھر پر چھوڑ دیا جائے، چاہے وہ خالہ ہو، نانی ہو، پھوپھی ہو، اور نہ ان کی تعلیم کا خیال رکھا جائے اور نہ عید تہوار پر اپنے گھر آنے کی اجازت دی جائے، کیا یہ اولاد کا بنیادی حق نہیں ہوتا کہ اس کی تعلیم و تربیت کی جائے اور اس سے پیار و محبت سے پیش آیا جائے؟ کیا طلاق کے اثرات اولاد پر بھی پڑتے ہیں؟

ج… اولاد کو شفقت و محبت سے محروم کردینا اور ان سے قطع تعلق کرلینا حرام ہے، اور ایسا کرنے والا گنہگار ہے۔ حدیث میں ہے کہ قطع رحمی کرنے والے کو جنت نصیب نہیں ہوگی، بہرحال آپ کے والد صاحب کا طرزِ عمل قابلِ افسوس اور لائقِ اصلاح ہے۔

بیوی کے کہنے پر والدین سے نہ ملنا

س… ایک عورت اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ میں تیرے گھر میں رہوں گی تو تیرے والدین سے نہیں ملنے دُوں گی۔

ج… اپنے والدین سے نہ ملنا اور ان کو چھوڑ دینا معصیت اور گناہِ کبیرہ ہے، اور گناہِ کبیرہ کا ارتکاب حرام اور ناجائز ہے۔ لہٰذا بیوی کی بات مان کر والدین سے نہ ملنا دُرست نہیں، اور بیوی کی اس بات کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں، اور خود وہ عورت بھی شوہر کو والدین سے ملنے سے روکنے کی وجہ سے گناہگار ہوگی۔

والدین کی خدمت اور سفر

س… سننِ بیہقی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو فرمانبردار بیٹا اپنے ماں باپ پر شفقت و رحمت سے نظر ڈالتا ہے تو ہر نظر کے بدلے ایک حجِ مقبول کا ثواب پاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول! اگرچہ دن میں سو مرتبہ اس طرح نظر کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہاں! اگرچہ سو مرتبہ، یعنی ہر نظرِ رحمت پر حجِ مقبول کا ثواب ملے گا۔ مسندِ احمد میں ہے کہ جس کو اچھا لگے کہ اس کی لمبی عمر ہو اور اس کی روزی میں فراخی ہو، وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور صلہ رحمی کرے۔ ان احادیث کی روشنی میں اولاد کا کیا حشر ہوگا جو اکثر مسافر رہتے ہیں؟ جیسے کہ آج کل لوگ روزی کمانے کے لئے بیرونی ممالک میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور لمبے عرصے تک اپنے والدین سے بوجہ مجبوری نہیں مل سکتے، تو کیا یہ اولاد اس نعمت سے محروم رہ جائے گی؟ ان کے لئے ثواب حاصل کرنے کا کیا ذریعہ ہوسکتا ہے؟

ج… اگر والدین کی اجازت کے ساتھ سفر پر گیا ہو تو وہ بھی فرمانبرداری شمار ہوگی۔

ماں باپ کی بات کس حد تک ماننا ضروری ہے؟

س… محترم! میں ایک نازک مسئلہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں، اکثر علماء اس بات کا واضح جواب نہیں دیتے، خدا کے لئے مجھے بالکل واضح جواب دے کر اُلجھن سے نجات دِلائیں۔ محترم! اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے حقوق کی ہر جگہ تاکید کی ہے، مذہب اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں انسان کے حقوق و فرائض کو بہت خوبصورت طریقے پر تقسیم کیا گیا ہے، مگر ایک بات جو ہمارے گھر میں بھی زیرِ بحث آئی ہے اور جس کی وجہ سے ہمیں سخت ذہنی اُلجھن ہے وہ یہ کہ میں نے بار بار کتابوں میں بھی پڑھا ہے اور صاحبِ علم لوگوں سے یہ بات سنی ہے کہ خدا کا فرمان ہے: ماں باپ کا اس حد تک حق ہے کہ سوائے اس بات کے کہ وہ اگر خدا کے ساتھ شرک کرنے کو کہیں تو نہ کرو، ورنہ ان کی ہر بات ماننا اولاد کا فرض ہے۔ اور اولاد نے چاہے کتنی نیکیاں کی ہوں گی، ماں باپ اس سے راضی نہیں تو وہ اولاد خدا کی بھی نافرمان ہوگی، اور ہرگز جنت میں نہیں جائے گی۔ میں نے یہ تک پڑھا اور سنا ہے کہ خدا کا حکم ہے اگر تمہارے والدین تمہیں کہیں کہ اپنی بیوی کو چھوڑ دو یا اپنی اولاد کو مار ڈالو تو بھی بغیر پس و پیش کے ایسا کرو۔ اب آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اس بات کو آپ ضرور جانتے ہیں کہ دُنیا میں بد سے بدکردار لوگ بھی کسی کے ماں باپ بنتے ہیں اور ایسے ماں باپ ہزاروں باتیں غیرشرعی کرتے ہیں، لاتعداد باتیں ان کی ایسی ہوتی ہیں جو اسلام کے دائرے سے خارج ہوتی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اولاد اس پر عمل کرے۔ اب اولاد اگر نیک خصلت ہے اور اسلامی اُصولوں کو عزیز رکھتی ہے تو اس کے لئے یہ کس قدر اذیت ناک مسئلہ ہوگا کہ ایک طرف تو والدین ہیں جو غیرشرعی بات پر مجبور کر رہے ہیں، اگر ان کا کہا نہیں مانتے تو نافرمان ہوتے ہیں، اور خدا نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ والدین کا نافرمان جنت میں داخل نہ ہوگا، خدا اپنی نافرمانی معاف کردے گا، مگر والدین کی نافرمانی معاف نہیں کرے گا، اور پھر دُوسری طرف اولاد کو یہ بھی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ اگر والدین کا حکم مانتا ہو تو خدا کے اُصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اب اولاد کس قدر مجبور و بے بس ہوتی ہے؟ اس کا اندازہ صرف انہی لوگوں کو ہے جن کے ساتھ ایسے حالات درپیش ہوں۔

ج… والدین کی فرمانبرداری اور ان کی خدمت کے بارے میں واقعی بڑی سخت تاکیدیں آئی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے کہ والدین کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کا حکم ہے، بلکہ والدین کی فرمانبرداری کی بھی حدود ہیں، میں ان کا خلاصہ ذکر کردیتا ہوں۔

اوّل:… والدین خواہ کیسے ہی بُرے ہوں، ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کی جائے، تہذیب و متانت کے ساتھ ان کو سمجھا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ سمجھانا ضروری ہے، لیکن لب و لہجہ گستاخانہ نہیں ہونا چاہئے، اور اگر سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

دوم:… اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں تو اس کی تعمیل ضروری ہے بشرطیکہ آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اس سے دُوسروں کے حقوق تلف نہ ہوتے ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل اس کے بس کی بات نہیں یا اس سے دُوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے تو تعمیل ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جائز نہیں۔

سوم:… اگر والدین کسی ایسی بات کا حکم کریں جو شرعاً ناجائز ہے اور جس سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تب بھی ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں، ماں باپ تو ایسا حکم دے کر گناہگار ہوں گے، اور اولاد ان کے ناجائز حکم کی تعمیل کرکے گناہگار ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشادِ گرامی ہے: “لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق” یعنی “جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی مخلوق کی فرمانبرداری جائز نہیں۔” مثلاً: اگر والدین کہیں کہ: “نماز مت پڑھو، یا دِین کی باتیں مت سیکھو، یا داڑھی مت رکھو، یا نیک لوگوں کے پاس مت بیٹھو” وغیرہ وغیرہ، تو ان کے ایسے اَحکام کی تعمیل جائز نہیں، ورنہ والدین بھی جہنم میں جائیں گے اور اولاد کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔

اگر والدین یہ کہیں کہ: “بیوی کو طلاق دے دو” تو یہ دیکھنا چاہئے کہ بیوی قصوروار ہے یا نہیں؟ اگر بیوی بے قصور ہو تو محض والدین کے کہنے سے طلاق دینا جائز نہیں۔ اگر والدین کہیں کہ: “بیوی کو تنہا مکان میں مت رکھو” تو اس میں بھی ان کی تعمیل روا نہیں۔ البتہ اگر بیوی اپنی خوشی سے والدین کے ساتھ رہنے پر راضی ہو تو دُوسری بات ہے، ورنہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو علیحدہ مکان دینا شریعت کا حکم ہے، اور اس کے خلاف کسی کی بات ماننا جائز نہیں۔

چہارم:… والدین اگر ماریں پیٹیں، گالی گلوچ کریں، بُرا بھلا کہیں یا طعن و تشنیع کرتے رہیں، تو ان کی ایذاوٴں کو برداشت کیا جائے اور ان کو اُلٹ کر جواب نہ دیا جائے۔

پنجم:… آپ نے جو لکھا ہے کہ: “اگر والدین کہیں کہ ․․․․ یا اپنی اولاد کو مار ڈالو تو بھی بغیر پس و پیش کے ایسا کرو” خدا جانے آپ نے یہ کہاں پڑھا ہے؟ اولاد کو مار ڈالنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور میں لکھ چکا ہوں کہ ناجائز کام میں والدین کی اطاعت جائز نہیں، اس لئے آپ نے جو مسئلہ لکھا، قطعاً غلط ہے․․․!

والدین سے احسان و سلوک کس طرح کیا جائے؟

س… آج کا جمعہ ایڈیشن پڑھا، اسلامی صفحے پر جلال الدین احمد نوری صاب نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں والدین کے ساتھ احسان و سلوک کے بارے میں لکھا ہے، اسی سلسلے میں، میں آپ سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ دُنیا میں والدین یعنی ماں اور باپ سے زیادہ کوئی پیارا نہیں ہوتا، وہ اولاد کو بڑی تکلیف سے پالتے ہیں اور اولاد کا فرض ہے کہ وہ ان کی عزّت کرے، ماں باپ کو تنگ نہ کرے، ان کا معاشرے میں نام خراب نہ کرے، بُری عادتوں سے دُور رہے تاکہ والدین خوش ہوکر دُعا دیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سارے ماں باپ ایک جیسے نہیں ہوتے، ہر انسان کی الگ الگ عادت ہوتی ہے، کیا ایسے والد نہیں ہوتے جو اولاد جوان ہوجائے تو بھی عیاشی کرتے ہیں، شراب پیتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں، ہر طرح کا عیش کرتے ہیں، ان کی اولاد نیک ہوتی ہے، شریف ہوتی ہے، تو کیا ایسے والد کی بات ماننا ضروری ہے؟ خود عیاش ہو، مگر بیٹے اور بیٹی کو کہے کہ: “تم شادی وہیں کرو جہاں میں چاہتا ہوں۔” دُوسرا سوال یہ ہے کہ میرا ایک دوست ہے، اس کی ماں اس کی شادی کرانا چاہتی ہے، دُرست ہے کہ ماں باپ ہی اولاد کی شادی کرواتے ہیں، مگر میرے دوست کی ماں جب کوئی رشتہ دیکھنے جاتی ہے تو بیٹے سے کوئی مشورہ نہیں کرتی، نہ ہی ضروری سمجھتی ہے، وغیرہ۔ مگر اس کی ماں کا کہنا یہ ہے کہ بس لڑکی صرف اسے پسند آجائے، جب لڑکے کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کی ماں فلاں جگہ اس کا رشتہ طے کر رہی ہے، تو بیٹا کہتا ہے کہ: “ماں! یہ لوگ بہت بُرے آدمی ہیں، اور اچھے اور شریف نہیں ہیں۔” تو ماں کہتی ہے کہ: “چل چل! تجھے کیا پتا؟ اس سے اچھا رشتہ اور کہاں ملے گا” یہ پوری کہانی میں نے آپ کو اس لئے سنائی ہے کہ آپ کو تفصیل معلوم ہوجائے۔ اب لڑکا جو میرا دوست ہے، ماں سے انکار کرتا ہے کہ: “ماں! میں اس جگہ شادی نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ لوگ اچھے نہیں ہیں” تو اس کی ماں ناراض ہوجاتی ہے اور اسی بنا پر اب لڑکا بالکل ہی بے بس ہے۔ شادی اس کی ہو رہی ہے مگر اس کی کوئی رائے نہیں، نہ کوئی اہمیت ہے۔ آج جب سے اس نے یہ مضمون اخبار میں پڑھا تو زیادہ پریشان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سارے حق ماں باپ کو دے دئیے ہیں، اگر انکار کرتا ہوں تو اس دُنیا میں اور قیامت کے دن ماں کی ناراضگی کی وجہ سے ذلیل ہوگا، اس لئے یہاں تو جی حضوری ہے، پھر چاہے پسند ہو، نہ ہو۔ اب آپ مجھے اسلام کی رُو سے جواب دیں کہ کیا اسلام نے اولاد کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ کچھ کہہ سکیں؟ مگر آج کا مضمون جو بالکل قرآن پاک اور حدیث سے لیا گیا ہے، کوئی گنجائش نہیں ہے، مضمون پڑھ کر تو میرا دوست بالکل خاموش ہوگیا ہے کہ بھلے جہاں چاہیں شادی کردیں، میں ایک لفظ نہیں کہوں گا، پھر چاہے شادی کامیاب ہو یا ناکام۔ برائے مہربانی اسلام کی رُو سے جواب سے نوازیں۔

ج… دراصل کوتاہی دونوں طرف سے ہے، والدین کو چاہئے کہ اولاد جب جوان ہوجائے تو ان کو مشورے میں شریک کریں، خصوصاً ان کی شادی بیاہ کے معاملے میں ان سے مشورہ لینا تو بہت ضروری ہے، اور اولاد کو چاہئے کہ والدین کی رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دیں، اور اگر ان کی رائے بالکل ہی نادُرست ہو تب بھی ان سے گستاخی بے ادبی سے پیش نہ آئیں، البتہ تہذیب و متانت سے کہہ دیں کہ یہ بات مناسب نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو کام شریعت کے لحاظ سے یا دُنیوی لحاظ سے غلط ہو، اس میں والدین کی فرمانبرداری جائز نہیں، مگر ان کی گستاخی و بے ادبی نہ کی جائے۔

والدین اگر گالیاں دیں تو اولاد کیا سلوک کرے؟

س… اسلام نے گالیاں دینے والے کے لئے کیا فرمایا ہے، چاہے وہ کوئی بھی دے؟ ہمارے پڑوس میں ایک صاحب اتنی گالیاں دیتے ہیں کہ ایک جملے میں دس گالیاں ہوتی ہیں۔ ذرا سی مرضی کے خلاف بات ہوجائے تو وہ اپنی بیوی کے خاندان والوں کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ غرض کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے گالیاں دیتے ہیں، ان کی اولاد اب جوان ہوگئی ہے اور وہ اب دِل برداشتہ ہوکر کبھی کبھی اپنے باپ کو کچھ بول دیتے ہیں، مگر بعد میں ان کو بہت افسوس ہوتا ہے۔

ج… اس شخص کی یہ گندی عادت اس کی ذِلت کے لئے کافی ہے، وہ جو گالیاں بکتا ہے وہ کسی کو نہیں لگتیں، بلکہ اپنی زبان گندی کرتا ہے، اس لئے اس کی گالیوں کی طرف توجہ نہ دی جائے، اور اس کے لڑکوں کو چاہئے کہ اس وقت اس کے پاس سے اُٹھ جایا کریں، بعد میں متانت اور تہذیب سے اس کو سمجھادیا کریں۔ اولاد کے لئے والدین کی گستاخی و بے ادبی جائز نہیں، اس سے پرہیز کریں۔

شوہر یا والدین کی خدمت

س… میرے اور میرے شوہر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، جبکہ میرے شوہر کو میرے والدین سے بہت شکایات ہیں، میں خود سمجھتی ہوں کہ میرے والدین نے خاص طور پر والد صاحب نے میرے اور میرے شوہر کے ساتھ کئی ناانصافیاں کی ہیں، میرے لئے دونوں قابلِ احترام ہیں، لیکن میرا ایمان ہے کہ اولاد پر والدین کے بہت زیادہ حقوق ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اولاد کو پیدا کرتے ہیں اور پالتے پوستے ہیں، اولاد ان کا یہ احسان کبھی نہیں چکاسکتی، والدین کی نافرمانی اولاد کو جہنم میں لے جاتی ہے۔ برائے مہربانی قرآن اور سنت کی روشنی میں مجھے مشورہ دیں کہ ان حالات میں مجھ پر کس کی فرمانبرداری لازم ہے، والدین کی یا شوہر کی؟

ج… آپ کو حتی الوسع ان دونوں فریقوں میں سے کسی کی بھی نافرمانی نہیں کرنی چاہئے، لیکن اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ ان میں سے کسی ایک کی تعمیل ہی کی جاسکتی ہے، تو آپ کے لئے شوہر کا حق مقدّم ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ آپ شوہر کو سمجھا بجھاکر جو صورت زیادہ بہتر ہو اس کے لئے راضی کرلیا کریں، لیکن اگر وہ اپنی بات منوانے پر بضد ہوں تو آپ ان کی بات کو ترجیح دیں اور والدین سے بصد ادب معذرت کرلیا کریں۔ جو لڑکیاں شوہر کے مقابلے میں والدین کے حکم کو فوقیت دیتی ہیں، وہ اپنے گھر کبھی سکون سے آباد نہیں ہوسکتیں۔

ماں، باپ کے نافرمان بیٹے کو عاق کرنا

س… ہم سب کو علم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سبحانہ نے قرآن پاک (سورہٴ نساء) میں تمام رشتہ داروں اور لواحقین کے حصص کا صراحتاً تعین کردیا ہے، جو کسی مرنے والے کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں سے دئیے جاتے ہیں، ان حصص میں رَدّ و بدل کرنے کا کوئی مجاز نہیں ہے۔ اس پسِ منظر میں آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں فرمائیے کہ کیا کوئی شخص کسی سبب سے اپنی اولاد یا اولاد میں سے کسی ایک کو عاق قرار دے کر اس کو اس کے حق یا حصے سے محروم کرنے کا اختیار رکھتا ہے؟ ہمارے ملک میں عرصے سے یہ رَوِش چلی آرہی ہے کہ ماں باپ اور بالخصوص باپ پسرانہ نافرمانی کا ارتکاب کرنے والے بیٹے کو عاق قرار دے دیتا ہے۔ شاید عام لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس فعل کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

ج… جو نالائق بیٹا ماں باپ کا نافرمان اور گستاخ ہو، اس کی سزا دُنیا میں بھگتے گا اور آخرت میں بھی۔ اس کے باوجود اس کو جائیداد کے شرعی حصے سے محروم کرنا جائز نہیں، اور اگر کسی نے ایسا کردیا تو شریعت کے خلاف کرنے کی وجہ سے یہ شخص گنہگار ہوگا۔ مگر اس کے محروم کرنے سے بیٹا اپنے شرعی حصے سے محروم نہیں ہوگا۔ اس کا عاق کرنا غلط ہے، اور بیٹے کو شرعی حصہ بدستور ملے گا۔

ناجائز کام میں والدین کی اطاعت

س… کیا غیرمسلم قادیانی لڑکے اور مسلمان لڑکی کی شادی ہوسکتی ہے؟ لڑکی بھی نہیں چاہتی کہ اس کی شادی اس شخص سے ہو، جبکہ لڑکی کے والدین بضد ہیں کہ لڑکے والے ہمارے رشتہ دار ہیں۔

ج… غیرمسلم کے ساتھ مسلمان لڑکے یا لڑکی کا نکاح نہیں ہوسکتا، ساری عمر زنا کا گناہ ہوگا اور یہ وبال لڑکی کے والدین کی گردن پر بھی ہوگا۔ اور والدین مجبور کریں تو لڑکی کو صاف انکار کردینا چاہئے، اس معاملے میں والدین کے حکم کی تعمیل جائز نہیں۔

پردے کے مخالف والدین کا حکم ماننا

س… میرے والدین پردہ کرنے کے خلاف ہیں، میں کیا کروں؟

ج… اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے پردگی کے خلاف ہیں، آپ کے والدین کا، اللہ اور رسول سے مقابلہ ہے، آپ کو چاہئے کہ اس مقابلے میں اللہ و رسول کا ساتھ دیں، والدین اگر اللہ و رسول کی مخالفت کرکے جہنم میں جانا چاہتے ہیں تو آپ ان کے ساتھ نہ جائیں۔

اولاد کو جائیداد سے محروم کرنے والے والد کا حشر

س… ہمارے والد صاحب نے سوتیلی ماں کے بہکاوے میں آکر جائیداد سے بے دخل کر رکھا ہے، ہمارا اور ہمارے بھائیوں کا حق نہیں دیا، بلکہ سوتیلی ماں اور اس کے بچوں کو دے دیا ہے، ان کا طرزِ عمل اسلامی اُصولوں کے لحاظ سے کیسا ہے؟ قرآن اور قانون کے مطابق جواب دیجئے۔

ج… حدیث شریف میں اس کو ظلم فرمایا گیا ہے، اور اس ظلم کی سزا آپ کا والد قبر اور حشر میں بھگتے گا۔

ماں کی خدمت اور بیوی کی خوشنودی

س… آج کل عام طور پر شوہر اور بیوی کے درمیان اس بات پر جھگڑا رہتا ہے کہ شوہر، بیوی کو الگ گھر میں کیوں نہیں رکھتا؟ شوہر اس بات پر مصر ہے کہ میں اپنی ماں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا، کیونکہ میرے علاوہ ماں کی دیکھ بھال اور خدمت کرنے والا کوئی نہیں ہے، اور اگر میں نے بوڑھی ماں کو عمر کے اس حصے میں اکیلا چھوڑ دیا تو قیامت کے دن میں جہنم کی آگ سے نہیں بچ سکوں گا۔ لیکن بیوی ان باتوں کو نہیں مانتی اور اپنی ضد پر قائم رہتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ شوہر اگر بیوی کو الگ گھر میں رکھتا ہے تو خود کس گھر میں رہے، بیوی کے ساتھ اس کے گھر میں یا پھر اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ اس گھر میں؟ دونوں میں سے کس کو چھوڑے اور کس کے ساتھ رہے؟

ج… ایسی حالت میں بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کو ماں کی خدمت کا موقع دے، الگ گھر میں رہنے پر اصرار نہ کرے، جبکہ بوڑھی ماں کی خدمت کرنے والا کوئی اور نہ ہو۔ ہاں! بیوی کو رہنے کے لئے الگ کمرہ دے دیا جائے اور شوہر کی ماں کی کوئی خدمت اس کے ذمے نہ رکھی جائے۔

شوہر اور بیوی اور اولاد کی ذمہ داریاں

س… میری بیوی ہر بات میرے خلاف کرتی ہے، حقوق ادا نہیں کرتی۔ گزشتہ روز میں نے اپنی بڑی لڑکی کو بلاکر والدہ کو سمجھانے کو کہا، اس نے کہا کہ: “اب نبھاوٴ مشکل ہے، اچھا ہے کہ آپ کے درمیان علیحدگی ہوجائے۔” ایک نالائق بیٹا درمیان میں آگیا اور فیصلہ یہ کیا کہ میں اس (ماں) کو لے جاتا ہوں۔ باوجودیکہ میں نے اس کی ماں کو کافی روکا کہ بغیر اجازت آپ نہیں جاسکتیں، مگر وہ بیٹے کے ساتھ چلی گئی۔ نامعلوم وہ کہاں ہے؟ اب میں اپنے اس بیٹے کو عاق کرنا چاہتا ہوں اور بیوی کے لئے کیا کروں؟ اس بارے میں مشورہ طلب کرتا ہوں۔ حیرانی کی بات ہے کہ بیٹے ماں باپ کو ایک دُوسرے سے علیحدہ کریں اور اُوپر سے طرّہ یہ کہ سب بچے ہی یک زبان ہوکر ماں کے طرف دار بن گئے۔

ج… السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ! آپ کا اندوہناک خط تفصیل سے پڑھا، بہت صدمہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مشکلات کو آسان فرمائے۔ نجی اور ذاتی معاملات میں، میں مشورہ دینے سے گریز کیا کرتا ہوں، اس لئے چند اُصولی باتیں عرض کرتا ہوں۔

۱:… اولاد جب جوان ہوجائے تو ان کے جذبات کا احترام ضروری ہوتا ہے، اور والدین کی چپقلش اور سرپھٹول اولاد کے دِل سے والدین کا احترام نکال دیتی ہے، بیوی سے لڑائی جھگڑا اولاد کے سامنے کرنا اُصولی غلطی ہے۔

۲:… بیوی کے ذمے شوہر کے حقوق بلاشبہ بہت زیادہ ہیں، اور بیوی کو شوہر کے حقوق ادا کرنے کی بہت ہی تاکید کی گئی ہے، لیکن شوہر کو بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ (بیوی) کتنے حقوق کا بوجھ اُٹھانے کی متحمل ہے؟ اسی لئے شریعت نے مرد کو چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ ایک بیوی پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے، اور ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں شریعت نے شوہر پر یہ کڑی پابندی عائد کی ہے کہ وہ تمام بیویوں کے ساتھ، کانٹے کے تول سے برابری کرے، سب کے ساتھ یکساں برتاوٴ رکھے، اور کسی ایک کی طرف ادنیٰ جھکاوٴ بھی روا نہ رکھے۔

۳:… قیامت کے دن صرف بیوی کی نافرمانیوں ہی کا محاسبہ نہ ہوگا، بلکہ شوہر کی بدخلقی، دُرشت کلامی اور اس کے ظلم و تعدی کا بھی حساب ہوگا، اور پھر جس کے ذمے جس کا حق نکلے گا، اُسے دِلایا جائے گا۔

۴:… آپ نے جو حالات لکھے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات کے بگاڑ میں سب سے زیادہ دخل آپ کی دُرشت کلامی کا ہے (جس میں آپ غالباً اپنی بیماری اور مزاجی ساخت کی وجہ سے کچھ معذور بھی ہیں)، آپ کی اہلیہ اور اولاد پر اس کا رَدِّ عمل غلط ہوا ہے، اگر آپ اپنے طرزِ عمل کو تبدیل کرلیں اور اپنے رویے کی اصلاح کرلیں تو آپ کے اہل و عیال کے انداز میں تبدیلی آسکتی ہے۔

۵:… اگر آپ اپنے مزاج کو حالات کے مطابق تبدیل نہیں کرسکتے تو آخری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بیوی کو فارغ کردیں، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اپنی اولاد سے بھی کٹ جائیں گے، کیونکہ آپ کی جوان اولاد، آپ کو ظالم اور اپنی والدہ کو مظلوم سمجھ کر اپنی ماں کا ساتھ دے گی، اور بطورِ انتقام آپ سے قطع تعلق کرلے گی۔ یہ دونوں فریقوں کی دُنیا و آخرت کی بربادی کا باعث ہوگا۔

۶:… غالباً میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بیوی کی ایذاوٴں پر صبر کرنا مستقل جہاد ہے، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا بہت بڑا درجہ ہے۔ پس اگر آپ اس اَجرِ عظیم کے خواستگار ہیں تو اس کا راستہ صبر و اِستقامت کی خاردار وادی سے ہوکر گزرتا ہے، اس صورت میں آپ کو اپنی اہلیہ اور اولاد سے صلح کرنی ہوگی، ان کو ظالم اور اپنے کو مظلوم سمجھ کر نہیں، بلکہ یہ سمجھ کر کہ ان کی غلطیاں بھی درحقیقت میری اپنی نااہلی کی وجہ سے ہیں، ظالم میں خود ہوں اور اِلزام دُوسروں کو دیتا ہوں۔

۷:… اگر آپ صلح کرنا چاہیں تو اس کے لئے اپنے نفس کو مارنا ہوگا اور چند باتوں کا التزام کرنا ہوگا۔ ایک یہ کہ آپ کی زبان سے خیر کے سوا کوئی بات نہ نکلے، کبھی کوئی ناگوار لفظ زبان پر نہ آنے پائے۔ دوم یہ کہ اپنا حق کسی کے ذمے نہ سمجھئے اور نہ کسی کی شکایت آپ کے دِل میں پیدا ہو، بلکہ اگر کوئی آپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو اس کو عطیہٴ اِلٰہی سمجھئے، اور اگر کوئی بدخلقی یا سختی کے ساتھ پیش آئے تو یہ سمجھ کر کہ میں اس سے بھی زیادہ کا مستحق تھا، مالک کا شکر ہے کہ اس نے میری بدعملیوں کی پوری سزا مجھے نہیں دی، اس پر صبر کیجئے۔ تیسرے یہ کہ آپ کی ہر ادا سے اولاد اور اہلیہ کے ساتھ شفقت و محبت کا مظاہرہ ہونا چاہئے، آپ کو ایک محبوب شوہر اور شفیق باپ کا کردار ادا کرنا چاہئے۔

۸:… اولاد کو عاق یعنی وراثت سے محروم کرنا، شرعاً حرام ہے، اور اولاد عاق کرنے سے عاق ہوتی بھی نہیں۔ اس لئے میں آپ کو مشورہ دُوں گا کہ آپ اس غلط اقدام سے باز رہئے، دُنیا کو تو آپ اپنے لئے دوزخ بناہی چکے ہیں، خدارا! آخرت میں بھی دوزخ نہ خریدئیے۔ جس لڑکے کو عاق کرنے کی دھمکی دی تھی اسے بلاکر اس سے صلح صفائی کرلیجئے۔

۹:… بعض اکابر کا ارشاد ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے اَحکام کو توڑتا اور مالک کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو پہلی سزا یہ ملتی ہے کہ اس کے بیوی بچوں کو اس کے خلاف کردیتے ہیں۔ اس لئے اگر آپ اپنی بیوی بچوں کے رویے کو قابلِ اصلاح سمجھتے ہیں تو اس پر بھی توجہ فرمائیے کہ مالک کے ساتھ آپ کا رویہ کیسا ہے؟ اور کیا وہ بھی اصلاح کا محتاج نہیں؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا معاملہ صحیح کرلیجئے، حق تعالیٰ شانہ آپ کے ساتھ بیوی بچوں کا معاملہ دُرست فرمادیں گے۔ حضرت علی بن ابی طالب کرّم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے: “پانچ چیزیں آدمی کی سعادت کی علامت ہیں: ۱-اس کی بیوی اس کے موافق ہو، ۲-اس کی اولاد نیک اور فرمانبردار ہو، ۳-اس کے دوست متقی اور خداترس لوگ ہوں، ۴-اس کا ہمسایہ نیک ہو، ۵-اور اس کی روزی اپنے شہر میں ہو۔

۱۰:… ممکن ہے میری یہ تحریر آپ کی اہلیہ محترمہ اور صاحبزادہ گرامی کی نظر سے بھی گزرے، میں ان سے بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ معاملے کو بگاڑنے سے احتراز کریں۔ ایک بزرگ کا ارشاد ہے کہ: “نیک خاتون کی چھ علامتیں ہیں: اول: نمازِ پنج گانہ کی پابند ہو، دوم: شوہر کی تابعدار ہو، سوم: اپنے رَبّ کی رضا پر راضی ہو، چہارم: اپنی زبان کو کسی کی بُرائی، غیبت اور چغلی سے محفوظ رکھے، پنجم: دُنیوی ساز و سامان سے بے رغبت ہو، ششم: تکلیف پر صابر ہو۔” حدیث میں ہے:

“عن أبی أمامة رضی الله عنہ أن رجلًا قال: یا رسول الله! ما حق الوالدین علٰی ولدھما؟ قال: ھما جنتک أو نارک۔ رواہ ابن ماجة۔” (مشکوٰة ص:۴۲۱)

ترجمہ:… “حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول الله! میرے والدین کا میرے ذمے کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ تیری جنت ہیں یا دوزخ۔”

ایک حدیث میں ہے:

“عن أبی الدرداء رضی الله عنہ أن رجلًا أتاہ ․․․․ فقال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: الوالد أوسط أبواب الجنة فان شئت فحافظ علی الباب أو ضیِّع۔ رواہ الترمذی۔”

(مشکوٰة ص:۴۱۹)

ترجمہ:… “حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے ایک شخص سے فرمایا کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ: باپ جنت کا بہترین دروازہ ہے، اب اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے۔”

ایک اور حدیث میں ہے:

“عن عبدالله بن عمرو رضی الله عنہما قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: رضی الربّ فی رضی الوالد، وسخط الربّ فی سخط الوالد۔ رواہ الترمذی۔”

(مشکوٰة ص:۴۹)

ترجمہ:… “حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔”

ایک اور حدیث میں ہے:

“عن ابن عباس رضی الله عنھما قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من أصبح مطیعًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنة، وان کان واحدًا فواحدًا، ومن أصبح عاصیًا لله فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النار، ان کان واحدًا فواحدًا۔ قال رجل: وان ظلماہ؟ قال: وان ظلماہ، وان ظلماہ، وان ظلماہ۔” (مشکوٰة ص:۴۲۱)

ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص والدین کا مطیع ہو اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر ایک ہو تو ایک، اور جو شخص والدین کا نافرمان ہو، اس کے لئے دوزخ کے دو دروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر ایک ہو تو ایک۔ کسی نے عرض کیا کہ: خواہ والدین اس پر ظلم کرتے ہوں؟ فرمایا: خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں، خواہ اس پر ظلم کرتے ہوں۔”

ایک اور حدیث میں ہے:

“عن ابن عباس رضی الله عنھما أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ما من ولد بار ینظر الٰی والدیہ نظرة رحمة الَّا کتب الله لہ بکل نظرة حجّةً مبرورةً۔”

(مشکوٰة ص:۴۲۱)

ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص والدین کا فرمانبردار ہو وہ جب بھی اپنے والدین کی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے، اللہ تعالیٰ اس کے ہر بار دیکھنے پر اس کو حجِ مبرور کا ثواب عطا فرماتے ہیں۔”

کیا بچوں کی پروَرِش صرف نانی ہی کرسکتی ہے؟

س… کیا بچوں کی والدہ کے انتقال کے بعد باپ بچوں کی بہتری کے لئے اپنی نگرانی میں خود دادا دادی، پھوپھیاں اور چچا سے بچوں کی دیکھ بھال اور پروَرِش نہیں کرواسکتا ہے؟ کیا مذہب میں سیدھا سیدھا قانون ہے کہ بچوں کو باپ سے چھین کر نانی کو دے دو، بچے باپ کو ترستے رہیں اور باپ بچوں کو؟ جبکہ وہ لوگ بداخلاق اور لالچی ہیں، کیونکہ میری بیوی کا زیور اور بیمہ وغیرہ سب ان کے قبضے میں ہے اور دیتے بھی نہیں۔

ج… عام قانون تو یہی ہے کہ لڑکے کی عمر سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال ہونے تک ماں کے بعد نانی بچوں کی پروَرِش کا اِستحقاق رکھتی ہے، سات سال یا نو سال کے بعد باپ لے سکتا ہے، لیکن نانی کو پروَرِش کا حق ملنے کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ دیانت و امانت سے آراستہ ہو، عالمگیری میں ہے:

“اِلَّا أن تکون مرتدة أو فاجرة غیر مأمونة۔” (عالمگیری ج:۱ ص:۵۴۱)

آپ نے جو حالات لکھے ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تو یہ شرط مفقود ہے، اس لئے بچوں کا مفاد و مصلحت یہی ہے کہ انہیں نانی کے حوالے نہ کیا جائے۔

بیٹی کی ولادت منحوس ہونے کا تصوّر غیراسلامی ہے

س… اکثر پڑھے لکھے اور جاہلوں کو بھی دیکھا ہے کہ شادی کے بعد پہلی اولاد “بیٹا” ہی کی خواہش ہوتی ہے، اور اگر اللہ نے پہلی اولاد “بیٹی” سے نوازا تو وہ ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے بیوی کو مار پیٹ اور بُرا بھلا کہنے سے بھی باز نہیں آتے۔ بیوی اور بیٹی دونوں کو گھر سے نکال کر بیوی کو میکے بھیج دیتے ہیں۔ ان کے گھر والے بھی پہلی “بیٹی” کی ولادت پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہیں اور بہو ہی کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ فرمائیں کہ ایسے لوگوں کے لئے کیا حکم ہے؟ جبکہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹی بہت پیاری تھی۔

ج… بیٹی کی ولادت کو منحوس سمجھنا دورِ جاہلیت کی یادگار ہے، ورنہ بیٹی کی ولادت تو باعثِ برکت ہے، بہت سی احادیث میں لڑکیوں کی پروَرِش کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔

“عن عائشة رضی الله عنہا زوج النبی صلی الله علیہ وسلم قالت: جائتنی امرأة ومعھا ابنتان لھا، فسألتنی فلم تجد عندی شیئا غیر تمرة واحدة فأعطیتھا ایّاھا فأخذتھا فقسمتھا بین ابنتیھا فدخل علیّ النبی صلی الله علیہ وسلم فحدثتہ حدیثھا فقال النبی صلی الله علیہ وسلم: من ابتلٰی من البنات بشیء فأحسن الیھن کن لہ سترًا من النّار۔”(مسلم ج:۲ ص:۳۳۰)

ترجمہ:… “حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ایک خاتون میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، میرے پاس بس ایک ہی کھجور تھی جو میں نے اسے دے دی، اس نے آدھی آدھی دونوں کے درمیان تقسیم کردی، خود کچھ نہیں کھایا پھر اُٹھ کر چلی گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاے تو میں نے آپ کو بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو بیٹیوں سے واسطہ پڑے، وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو اس کے لئے دوزخ سے آڑ ہوگی۔”

اس مضمون کی احادیث متعدّد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہیں۔

بیٹی کا والد کو قرآن پڑھانا

س… ایک بیٹی اپنے والد کو قرآن مجید پڑھاتی ہے، جبکہ اس کے والد نے ابھی ۲۵ سپارے پڑھے ہیں، تو اس کے والد کا بڑا بھائی کہتا ہے کہ: “تم اپنی لڑکی کے پاس قرآن شریف ختم نہیں کرو، کیونکہ تم اس کا بیٹی ہونے کا حق ادا کروگے یا اُستاد بناکر اس کا حق پورا کروگے؟” اس کے بعد وہ پڑھنا چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ: “میں باقی پانچ سپارے کسی اور کو سناکر پڑھ لوں گا۔” اس کے باوجود وہ اپنی لڑکی کو قرآن شریف پڑھانے کا جوڑا اور پیسے بھی دیتا ہے، کیا کوئی لڑکی اپنے والدین کو قرآن پڑھاسکتی ہے؟ اور اگر ہاں تو پھر اس کے ماں باپ کے اور اولاد کے حقوق کیا ہوں گے؟

ج… لڑکی اگر قرآن شریف پڑھی ہوئی ہو تو والدین کو اس سے قرآن پڑھنا جائز ہے، اور یہ فضول خیال ہے کہ بیٹی کو اُستاد نہ بنایا جائے، اور جب آپ نے ۲۵ پارے بیٹی سے پڑھ لئے تو اُستاد تو وہ بن گئی۔

صحابہ کرام کو کھلم کھلا گالی دینے والے والدین سے تعلق رکھنا

س… والدین اگر کھلم کھلا گھر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، خلفائے ثلاثہ کو بُرا بھلا اور غلیظ قسم کی گالیاں دیں تو ایسی صورت میں ان کا منہ بند کرنا چاہئے یا دُعا کرنی چاہئے؟ اور کیا ایسے والدین کی بھی فرمانبرداری ضروری ہے؟

ج… ان سے کہہ دیا جائے کہ وہ یہ حرکت نہ کریں، اس سے ہمیں ایذا ہوتی ہے، اگر باز نہ آئیں تو ان سے الگ تھلگ ہوجائیں، ان کا منہ بند کرنے کے بجائے ان کو منہ نہ لگائیں۔

بلاوجہ ناراض ہونے والی والدہ کو کیسے راضی کریں؟

س… نوعمری میں شادی ہوئی، شوہر کی ناقدری ہوئی، وہ بھی سختی کرتے، بچے بھی ہوگئے، ایک بار غصّے میں شوہر نے طلاق کی دھمکی دی، بہن بھائی اور والدین غریب تھے، سسرال مال دار، ظاہر ہے سسرال سے طعنے تو ملنے تھے، انتقاماً شوہر کے گھر سے چوری وغیرہ کرکے اپنے بہن بھائیوں کو ترقی دینے کی زندگی بھر کوشش کی حتیٰ کہ اپنی دوائیوں تک کی رقم بھی ان کو دے دیتی، مگر جب حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی قدس سرہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا تو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اور پھر میں نے والدہ سے کہہ دیا کہ اب تک جو ہوا غلط ہوا، اللہ ہم سب کو معاف فرمائیں، آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ والدہ کی محبت محض مال و دولت کی وجہ سے ہے، چنانچہ آج تک میری ہر جائز و ناجائز کو سچ سمجھنے اور محبت کرنے والی والدہ کا رویہ ایسا بدلا کہ اللہ کی پناہ! اب تو وہ میرا منہ دیکھنا نہیں چاہتی، کوئی ہدیہ تحفہ بھیجوں تو واپس کردیتی ہیں، حج کے تبرکات بھیجے تو وہ بھی واپس کردئیے۔ مجھے تمام مصائب برداشت ہوگئے مگر دھچکا ایسا لگا کہ بس پاگل خانے نہیں گئی شوہر نے تو تمام کوتاہیوں کو معاف کردیا، اب موت کی کوئی خبر نہیں، بہت پریشان ہوں، کیا کروں؟ میرے لئے دُعا فرمادیں اور علاج بھی تجویز فرمائیں۔

ج… آپ کے تحریر کردہ حالات سے بہت دِل دُکھا، دِل سے دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و عافیت اور سکون و اطمینان نصیب فرمائیں۔ چند باتوں کو اپنا لائحہ عمل بنالیجئے۔

۱:… محبت و رضا کا تعلق صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی سے ہونا چاہئے، باقی سب محبتیں اسی کے حکم کے تابع ہیں۔

۲:… اپنے شوہر کی اور بچوں کی خدمت نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ کیجئے اور اس میں رضائے الٰہی کو مدِنظر رکھئے۔

۳:… اپنی والدہ محترمہ سے احترام کا تعلق رکھئے، ان کی غمی، خوشی میں شرکت کیجئے اور ان کی بے رُخی کی کوئی پروا نہ کیجئے۔ اگر وہ قطع تعلق کرتی ہیں تو خود گناہگار ہوں گی، آپ کی طرف سے نہ تو قطع تعلق ہونا چاہئے، نہ ان کے قطع تعلق سے پریشانی ہونی چاہئے، بلکہ ان کے لئے دُعائے خیر کرتی رہیں۔

۴:… مسلمان کے دِل کو پریشان نہیں ہونا چاہئے، ہمہ وقت ہشاش بشاش رہنا چاہئے اور جو ناگواریاں پیش آتی ہیں ان سے دِل کو مشوش نہیں کرنا چاہئے، بلکہ ہر چیز میں یہ خیال ذہن میں رہنا چاہئے کہ مالک کی اسی میں حکمت ہوگی۔

اولاد کی بے راہ روی اور اس کا تدارک

س… ہمارا ایک بیٹا ہے اور چھ بیٹیاں ہیں، یہ ۲۲ سالہ بیٹا ہمارے پڑوسی کے گھر کثرت سے آتا جاتا ہے، ہم نے اس آمد و رفت کو مناسب نہیں سمجھا اور بیٹے کو پابند کرنا چاہا تو بیٹے نے نہ صرف سرکشی اور نافرمانی کی بلکہ ہمارے ساتھ رہنا بھی ترک کردیا، جب ہم اپنے ہمسائے سے ملے اور ان سے درخواست کی کہ آپ ہمارے بیٹے کا اپنے گھر میں آنا جانا اپنے طور پر بند کردیں تو ان کا جواب تھا کہ: “میری بیوی ۴ بچوں کی ماں ہے اور آپ کا لڑکا اس کے سامنے جوان ہوا ہے، کوئی بُرائی کا پہلو سامنے نظر نہیں آتا ہے، میرے خیال میں اس کی آمد نازیبا حرکت نہیں ہے۔” ہم نے ان کی توجہ اس بات پر دِلائی کہ آپ کام پر چلے جاتے ہیں اور وہ کوئی کام نہیں کرتا ہے، اور آپ کی غیرموجودگی میں سارا وقت وہاں گزارتا ہے، اس کے جواب میں فرمایا: “آپ اسے روکیں، آپ کے خیال میں گناہ ہے، میں نہیں روک سکتا۔” آپ سے ہماری درخواست یہ ہے کہ آپ اپنے کالم میں ہمارا سوال اور اپنا جواب شائع کردیں، کیونکہ ہمارے خیال میں یہ ملاپ بیرون ملک کی لعنت ہے جس کا نام “بوائے فرینڈ” یا “گرلز فرینڈ” ہے، یہ وبا پاکستان میں بھی پھیل رہی ہے، آپ کے شرعی جواب سے بہتوں کا بھلا ہوگا، بہت سارے والدین آپ کو ہماری طرح دُعائیں دیں گے۔

ج… آپ نے بہت اچھا کیا کہ صاحبزادے کو ایک غلط بات سے روک دیا اور اپنے ہمسائے کو بھی آگاہ کردیا۔ مغرب کی نقالی نے نئی نسل کو بے راہ روی میں مبتلا کردیا ہے، فلم، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، مخلوط تعلیمی ماحول اور مرد و زَن کے بے محابا اختلاط نے نوجوان نسل کا حلیہ بگاڑ دیا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق نئی نسل کی اکثریت جنسی امراض، ضعفِ مثانہ، پیشاب کے عوارض میں مبتلا ہے، نئی نسل کا یہ المیہ حکومت، والدین اور اربابِ دانش سبھی کے لئے ایک چیلنج ہے، نئی نسل کو خودکشی سے بچانے کے لئے کوئی تدبیر کرنا ان سب کا فرض ہے۔

والدین کی خوشی پر بیوی کی حق تلفی ناجائز ہے

س… میں آپ سے ایک مسئلہ معلوم کرنا چاہتی ہوں، وہ یہ کہ میں اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، بلکہ علیحدہ گھر چاہتی ہوں، میں اپنے شوہر سے کئی مرتبہ مطالبہ کرچکی ہوں لیکن ان کے نزدیک میری باتوں کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ میری بے بسی کا مذاق اُڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: “تمہارے سوچنے سے اور چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا، وہی ہوگا جو میرے والدین چاہیں گے، تمہیں چھوڑ دُوں گا لیکن اپنے والدین کو نہیں چھوڑوں گا، بچے بھی تم سے لے لوں گا۔” میرے شوہر اور سسرال والے دِین دار، پڑھے لکھے اور باشرع لوگ ہیں، اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ علیحدہ گھر عورت کا شرعی حق ہے، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اس کے باوجود مجھے چھوڑ دینے کی دھمکی دیتے ہیں اور میرے ساتھ سخت رویہ رکھتے ہیں، شوہر معمولی باتوں پر میری بے عزّتی کرتے ہیں، چاہتی ہوں کہ میرے شوہر کم از کم میرا کچن ہی علیحدہ کردیں اور رہنے کے لئے اسی گھر میں مناسب جگہ دے دیں تاکہ میں آزادی کے ساتھ اُٹھ بیٹھ سکوں اور مرضی کے مطابق کام انجام دُوں، کیونکہ جوان دیوروں کی موجودگی میں مجھے بعض اوقات بالکل تنہا رہنا پڑتا ہے، بچے بھی اسکول چلے جاتے ہیں، میں خود بھی ابھی بالکل جوان ہوں اور دیوروں کے ساتھ اس طرح بالکل تنہا رہنا مجھے بہت بُرا لگتا ہے، شوہر بھی اس چیز کو بُرا سمجھتے ہیں، لیکن سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش ہیں۔ دِین دار شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ اس طرح کا رویہ شرعاً دُرست ہے؟ کیونکہ میرے شوہر اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں، علیحدہ گھر بیوی کا جائز اور شرعی حق ہے تو جانتے بوجھتے بیوی کو اس کے شرعی حق سے محروم رکھنے والے دِین دار شوہر کے لئے اَحکامات کیا ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسے شوہروں کے لئے کوئی سزا نہیں ہے؟ بیوی کی مرضی کے خلاف زبردستی اسے اپنے والدین کے ساتھ رکھنا کیا شرعاً جائز ہے؟ والدین کی خوشی کی خاطر بیوی کو دُکھ دینا کیا جائز ہے؟

ج… میں اخبار میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ بیوی کو علیحدہ جگہ میں رکھنا (خواہ اسی مکان کا ایک حصہ ہو، جس میں اس کے سوا دوسرے کا عمل دخل نہ ہو) شوہر کے ذمے شرعاً واجب ہے، بیوی اگر اپنی خوشی سے شوہر کے والدین کے ساتھ رہنا چاہے اور ان کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ علیحدہ رہائش کی خواہش مند ہو تو اسے والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور نہ کیا جائے، بلکہ اس کی جائز خواہش کا، جو اس کا شرعی حق ہے، احترام کیا جائے۔ خاص طور سے جو صورتِ حال آپ نے لکھی ہے کہ جوان دیوروں کا ساتھ ہے، ان کے ساتھ تنہائی شرعاً و اخلاقاً کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ والدین کی خوشی کے لئے بیوی کی حق تلفی کرنا جائز نہیں۔ قیامت کے دن آدمی سے اس کے ذمے کے حقوق کا مطالبہ ہوگا اور جس نے ذرا بھی کسی پر زیادتی کی ہوگی یا حق تلفی کی ہوگی مظلوم کو اس سے بدلہ دِلایا جائے گا۔ میاں بیوی میں سے جس نے بھی دُوسرے کی حق تلفی کی ہوگی اس کا بدلہ بھی دِلایا جائے گا۔ بہت سے وہ لوگ جو یہاں اپنے کو حق پر سمجھتے ہیں، وہاں جاکر ان پر کھلے گا کہ وہ حق پر نہیں تھے، اپنی خواہش اور چاہت پر چلنا دِین داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنا دِین داری ہے۔

باوجود صحت و ہمت کے والد اور اللہ کے حقوق ادا نہ کرنا بدبختی کی علامت ہے

س… بے شک افضل وہ ہے جو عبادات باقاعدہ کرے اور نیک عمل کرے، لیکن ایک شخص بوجوہ بیماری خود عبادتوں سے معذور ہے، لیکن دُوسروں کو عبادات کی تلقین کرتا ہے، بلکہ پابند بناتا ہے اور حتی الوسع نیک اعمال کرتا ہے اور اپنے عملوں سے دُوسروں کے لئے اپنی ذات کو مثالی بناکر پیش کرتا ہے جس سے متأثر ہوکر لوگوں نے دِینِ اسلام بھی قبول کیا اور نیک عملوں میں اس کی تقلید بھی کرتے ہیں۔ دُوسرا شخص وہ ہے جو عبادت تو کبھی کبھار کرلیتا ہے، کبھی نماز پڑھ لی، رمضان میں کچھ روزے رکھ لئے، قرآن پڑھ لیا (بغیر سمجھے)، لیکن نیک اعمال نہیں کرتا، دُوسروں کی کمائی سے خود اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے، یہاں تک کہ بہن کی شادی کے لئے پیسے بھی خود خرچ کرلئے اور واپس کرنے کی کوشش نہیں کرتا، اگر اس کو نیک اعمال کے لئے محنت سے اپنی روزی کمانے اور بیوی بچوں کو پالنے کے لئے پہلا شخص کہتا ہے تو وہ یہ کہہ کر انکار کردیتا ہے کہ آپ خود تو نماز روزہ نہیں کرتے، مجھے نیک عملوں کی نصیحت کرتے ہیں، میں کیوں کروں؟ دونوں اَشخاص میں باپ بیٹے کا رشتہ ہے، بچے نہیں کہ مار پیٹ کر سمجھایا جائے، دو بچوں کا باپ ہے بجائے باپ کو کماکر کھلانے کے اُلٹا اپنا رہنا سہنا اور اخراجات اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے باپ کی بڑھاپے کی جمع پونجی سے کرتا ہے، آپ کی نظر میں شریعت کیا کہتی ہے کہ کون صحیح ہے؟ باپ یا بیٹا؟

ج… بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے اگر ایک شخص زیادہ عبادت نہیں کرسکتا، لیکن فرض نماز ادا کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ نے جو حق حقوق رکھے ہیں، ان کو ادا کرتا ہو تو یہ شخص صحیح راستے پر ہے، مگر بڑھاپے اور معذوری کی وجہ سے فرائض کا ترک اس کے لئے بھی جائز نہیں، روزہ رکھنے کی اگر طاقت نہیں تو فدیہ ادا کردیا کرے، اور صاحبزادے کا باوجود صحت اور ہمت کے اللہ تعالیٰ کے اور بندوں کے حقوق ادا نہ کرنا اور باپ کی نصیحت پر عمل نہ کرنا اس کی سعادت مندی کی دلیل نہیں بلکہ اس کی بدبختی کی علامت ہے، اس کو چاہئے کہ نیکی اور بھلائی کا راستہ اپنائے، اپنے والد کی نصیحت پر کان دھرے اور بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرکے جنت کمائے۔

منافق والدین سے قطع تعلق کرنا

س… کیا منافق والدین سے تغافل اور قطع تعلق جائز ہے؟ جبکہ وہ خود تعلق نہ رکھنا چاہتے ہوں؟

ج… قطع تعلق نہ کیا جائے، ان کی خدمت کی جائے اور ان کی خدمت کو اپنی دُنیا و آخرت کی سعادت سمجھنا چاہئے۔