جھوٹے نبی کا انجام
س… رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امکانِ نبوت پر روشنی ڈالئے اور بتائیے کہ جھوٹے نبی کا انجام کیا ہوتا ہے؟ مرزا قادیانی کا انجام کیا ہوگا؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا حصول ممکن نہیں، جھوٹے نبی کا انجام مرزا غلام احمد قادیانی جیسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں ذلیل کرتا ہے، چنانچہ تمام جھوٹے مدعیانِ نبوت کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا، خود مرزا قادیانی منہ مانگی ہیضے کی موت مرا اور دم واپسیں دونوں راستوں سے نجاست خارج ہو رہی تھی۔
مسلمان اور قادیانی کے کلمہ اور ایمان میں بنیادی فرق
س… انگریزی دان طبقہ اور وہ حضرات جو دین کا زیادہ علم نہیں رکھتے لیکن مسلمانوں کے آپس کے افتراق سے بیزار ہیں، قادیانیوں کے سلسلہ میں بڑے گومگو میں ہیں، ایک طرف وہ جانتے ہیں کہ کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہنا چاہئے، جبکہ قادیانیوں کو کلمہ کا بیج لگانے کی بھی اجازت نہیں ہے، دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جھوٹا دعویٴ نبوت کیا تھا، برائے مہربانی آپ بتائیے کہ قادیانی جو مسلمانوں کا کلمہ پڑھتے ہیں کیونکر کافر ہیں؟
ج… قادیانیوں سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ اگر مرزا غلام احمد قادیانی نبی ہیں، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے، تو پھر آپ لوگ مرزا صاحب کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے؟ مرزا صاحب کے صاحب زادے مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے اپنے رسالہ “کلمة الفصل” میں اس سوال کے دو جواب دئیے ہیں۔ ان دونوں جوابوں سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ میں کیا فرق ہے؟ اور یہ کہ قادیانی صاحبان “محمد رسول اللہ” کا مفہوم کیا لیتے ہیں؟
مرزا بشیر احمد صاحب کا پہلا جواب یہ ہے کہ:
“محمد رسول اللہ کا نام کلمہ میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ نبیوں کے سرتاج اور خاتم النبیین ہیں، اور آپ کا نام لینے سے باقی سب نبی خود اندر آجاتے ہیں، ہر ایک کا علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں! حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) کے آنے سے ایک فرق ضرور پیدا ہوگیا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود (مرزا صاحب) کی بعثت سے پہلے تو محمد رسول اللہ کے مفہوم میں صرف آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء شامل تھے، مگر مسیح موعود (مرزا صاحب) کی بعثت کے بعد “محمد رسول اللہ” کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتی ہوگئی۔
غرض اب بھی اسلام میں داخل ہونے کے لئے یہی کلمہ ہے صرف فرق اتنا ہے کہ مسیح موعود (مرزا صاحب) کی آمد نے محمد رسول اللہ کے مفہوم میں ایک رسول کی زیادتی کردی ہے اور بس۔”
یہ تو ہوا مسلمانوں اور قادیانی غیرمسلم اقلیت کے کلمے میں پہلا فرق! جس کا حاصل یہ ہے کہ قادیانیوں کے کلمہ کے مفہوم میں مرزا قادیانی بھی شامل ہے، اور مسلمانوں کا کلمہ اس نئے نبی کی “زیادتی” سے پاک ہے، اب دوسرا فرق سنئے! مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے لکھتے ہیں:
“علاوہ اس کے اگر ہم بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریم کا اسم مبارک اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں تو تب بھی کوئی حرج واقع نہیں ہوتا، اور ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی، کیونکہ مسیح موعود (مرزا صاحب) نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ جیسا کہ وہ (یعنی مرزا صاحب) خود فرماتا ہے: “صار وجودی وجودہ” (یعنی میرا وجود محمد رسول اللہ ہی کا وجود بن گیا ہے۔ از ناقل) نیز “من فرق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفنی وما رأیٰ” (یعنی جس نے مجھ کو اور مصطفی کو الگ الگ سمجھا، اس نے مجھے نہ پہچانا، نہ دیکھا۔ ناقل) اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا (نعوذ باللہ! ناقل) جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔
پس مسیح موعود (مرزا صاحب) خود محمد رسول اللہ ہے، جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں! اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی․․․․․ فتدبروا۔”
(کلمة الفصل ص:۱۵۸، مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز جلد:۱۴، نمبر:۳، ۴ بابت ماہ مارچ و اپریل ۱۹۱۵ء)
یہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ میں دوسرا فرق ہوا کہ مسلمانوں کے کلمہ شریف میں “محمد رسول اللہ” سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور قادیانی جب “محمد رسول اللہ” کہتے ہیں تو اس سے مرزا غلام احمد قادیانی مراد ہوتے ہیں۔
مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے جو لکھا ہے کہ: “مرزا صاحب خود محمد رسول اللہ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے دنیا میں دوبارہ تشریف لائے ہیں” یہ قادیانیوں کا بروزی فلسفہ ہے، جس کی مختصر سی وضاحت یہ ہے کہ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں دو بار آنا تھا، چنانچہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف لائے اور دوسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرزا غلام احمد کی بروزی شکل میں ․․․ معاذ اللہ!․․․ مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر میں جنم لیا۔ مرزا صاحب نے تحفہ گولڑویہ، خطبہ الہامیہ اور دیگر بہت سی کتابوں میں اس مضمون کو بار بار دہرایا ہے۔
(دیکھئے خطبہ الہامیہ ص:۱۷۱، ۱۸۰)
اس نظریہ کے مطابق قادیانی امت مرزا صاحب کو “عین محمد” سمجھتی ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ نام، کام، مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے مرزا صاحب اور محمد رسول اللہ کے درمیان کوئی دوئی اور مغائرت نہیں ہے، نہ وہ دونوں علیحدہ وجود ہیں، بلکہ دونوں ایک ہی شان، ایک ہی مرتبہ، ایک ہی منصب اور ایک ہی نام رکھتے ہیں۔ چنانچہ قادیانی․․․ غیرمسلم اقلیت․․․ مرزا غلام احمد کو وہ تمام اوصاف و القاب اور مرتبہ و مقام دیتی ہے جو اہل اسلام کے نزدیک صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے۔ قادیانیوں کے نزدیک مرزا صاحب بعینہ محمد رسول اللہ، محمد مصطفی ہیں، احمد مجتبیٰ ہیں، خاتم الانبیاء ہیں، امام الرسل ہیں، رحمة للعالمین ہیں، صاحبِ کوثر ہیں، صاحبِ معراج ہیں، صاحبِ مقامِ محمود ہیں، صاحبِ فتح مبین ہیں، زمین و زمان اور کون و مکان صرف مرزا صاحب کی خاطر پیدا کئے گئے، وغیرہ وغیرہ۔
اسی پر بس نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بقول ان کے مرزا صاحب کی “بروزی بعثت” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل بعثت سے روحانیت میں اعلیٰ و اکمل ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ روحانی ترقیات کی ابتداء کا زمانہ تھا اور مرزا صاحب کا زمانہ ان ترقیات کی انتہا کا، وہ صرف تائیدات اور دفع بلیات کا زمانہ تھا اور مرزا صاحب کا زمانہ برکات کا زمانہ ہے، اس وقت اسلام پہلی رات کے چاند کی مانند تھا (جس کی کوئی روشنی نہیں ہوتی) اور مرزا صاحب کا زمانہ چودہویں رات کے بدرِ کامل کے مشابہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تین ہزار معجزات دئیے گئے تھے اور مرزا صاحب کو دس لاکھ، بلکہ دس کروڑ، بلکہ بے شمار۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہنی ارتقاء وہاں تک نہیں پہنچا جہاں تک مرزا صاحب نے ذہنی ترقی کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سے وہ رموز و اسرار نہیں کھلے جو مرزا صاحب پر کھلے۔
مرزا صاحب کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت و برتری کو دیکھ کر ․․․ قادیانیوں کے بقول ․․․ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام نبیوں سے عہد لیا کہ وہ مرزا صاحب پر ایمان لائیں اور ان کی بیعت و نصرت کریں۔ خلاصہ یہ کہ قادیانیوں کے نزدیک نہ صرف مرزا صاحب کی شکل میں محمد رسول اللہ خود دوبارہ تشریف لائے ہیں، بلکہ مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر پیدا ہونے والا قادیانی “محمد رسول اللہ” اصلی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اپنی شان میں بڑھ کر ہے، نعوذ باللہ! استغفر اللہ!
چنانچہ مرزا صاحب کے ایک مرید (یا قادیانی اصطلاح میں مرزا صاحب کے “صحابی”) قاضی ظہور الدین اکمل نے مرزا صاحب کی شان میں ایک “نعت” لکھی، جسے خوش خط لکھواکر اور خوبصورت فریم بنواکر قادیان کی “بارگاہِ رسالت” میں پیش کیا، مرزا صاحب اپنے نعت خواں سے بہت خوش ہوئے اور اسے بڑی دعائیں دیں۔ بعد میں وہ قصیدہٴ نعتیہ مرزا صاحب کے ترجمان اخبار بدر جلد:۲ نمبر:۴۳ میں شائع ہوا، وہ پرچہ راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے، اس کے چار اشعار ملاحظہ ہوں:
امام اپنا عزیزو! اس جہاں میں
غلام احمد ہوا دار الاماں میں
غلام احمد ہے عرش رب اکبر
مکاں اس کا ہے گویا لامکاں میں
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں!
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل#
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(اخبار بدر قادیان ۲۵/اکتوبر ۱۹۰۶ء)
مرزا صاحب کا ایک اور نعت خواں، قادیان کے “بروزی محمد رسول اللہ” کو ہدیہٴ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:
صدی چودہویں کا ہوا سر مبارک
کہ جس پر وہ بدر الدّجٰی بن کے آیا
محمد پئے چارہ سازیٴ امت
ہے اب “احمد مجتبیٰ” بن کے آیا
حقیقت کھلی بعثتِ ثانی کی ہم پر
کہ جب مصطفی میرزا بن کے آیا
(الفضل قادیان ۲۸/مئی ۱۹۲۸ء)
یہ ہے قادیانیوں کا “محمد رسول اللہ” جس کا وہ کلمہ پڑھتے ہیں۔
چونکہ مسلمان، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اور آخری نبی مانتے ہیں، اس لئے کسی مسلمان کی غیرت ایک لمحہ کے لئے بھی یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے کسی بڑے سے بڑے شخص کو بھی منصبِ نبوت پر قدم رکھنے کی اجازت دی جائے۔ کجا کہ ایک “غلامِ اسود” کو ․․․ نعوذ باللہ!․․․ “محمد رسول اللہ” بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اعلیٰ و افضل بنا ڈالا جائے۔ بنابریں قادیان کی شریعت مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ دیتی ہے، مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتے ہیں:
“اب معاملہ صاف ہے، اگر نبی کریم کا انکار کفر ہے تو مسیح موعود (غلام احمد قادیانی) کا انکار بھی کفر ہونا چاہئے، کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ وہی ہے۔”
“اور اگر مسیح موعود کا منکر کافر نہیں تو نعوذ باللہ نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں۔ کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ کا انکار کفر ہو، مگر دوسری بعثت (قادیان کی بروزی بعثت ․․․ناقل) میں جس میں بقول مسیح موعود آپ کی روحانیت اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے ․․․․․․ آپ کا انکار کفر نہ ہو۔”
(کلمة الفصل ص:۱۴۷)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
“ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا، یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا، یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزا غلام احمد) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر، بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔” (ص:۱۱۰)
ان کے بڑے بھائی مرزا محمود احمد صاحب لکھتے ہیں:
“کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔”
(آئینہ صداقت ص:۳۵)
ظاہر ہے کہ اگر قادیانی بھی اسی محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں جن کا کلمہ مسلمان پڑھتے ہیں تو قادیانی شریعت میں یہ “کفر کا فتویٰ” نازل نہ ہوتا، اس لئے مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ کے الفاظ گو ایک ہی ہیں مگر ان کے مفہوم میں زمین و آسمان اور کفر و ایمان کا فرق ہے۔
کلمہ شہادت اور قادیانی
س… اخبار جنگ “آپ کے مسائل اور ان کا حل” کے عنوان کے تحت آنجناب نے ایک سائل کے جواب میں کہ کسی غیرمسلم کو مسلم بنانے کا طریقہ کیا ہے؟ فرمایا ہے کہ:
“غیرمسلم کو کلمہ شہادت پڑھا دیجئے، مسلمان ہوجائے گا۔”
اگر مسلمان ہونے کے لئے صرف کلمہ شہادت پڑھ لینا کافی ہے تو پھر قادیانیوں کو باوجود کلمہ شہادت پڑھنے کے غیرمسلم کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ ازراہ کرم اپنے جواب پر نظر ثانی فرمائیں، آپ نے تو اس جواب سے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔ قادیانی اس جواب کو اپنی مسلمانی کے لئے بطورِ سند پیش کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کریں گے اور آپ کو بھی خدا کے حضور جوابدہ ہونا پڑے گا۔
ج… مسلمان ہونے کے لئے کلمہ شہادت کے ساتھ خلافِ اسلام مذاہب سے بیزار ہونا اور ان کو چھوڑنے کا عزم کرنا بھی شرط ہے، یہ شرط میں نے اس لئے نہیں لکھی تھی کہ جو شخص اسلام لانے کے لئے آئے گا ظاہر ہے کہ وہ اپنے سابقہ عقائد کو چھوڑنے کا عزم لے کر ہی آئے گا۔ باقی قادیانی حضرات اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے، کیونکہ ان کے نزدیک کلمہ شہادت پڑھنے سے آدمی مسلمان نہیں ہوتا بلکہ مرزا صاحب کی پیروی کرنے اور ان کی بیعت کرنے میں شامل ہونے سے مسلمان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ خدا نے انہیں یہ الہام کیا ہے کہ:
“جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔” (تذکرہ طبع جدید ص:۳۳۶)
نیز مرزا قادیانی اپنا یہ الہام بھی سناتا ہے کہ:
“خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔” (مرزا کا خط بنام ڈاکٹر عبدالحکیم)
مرزا صاحب کے بڑے صاحب زادے مرزا محمود احمد صاحب لکھتے ہیں:
“کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔” (آئینہ صداقت ص:۳۵)
مرزا صاحب کے منجھلے لڑکے مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتے ہیں:
“ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا، یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا، یا محمد کو مانتا ہے مگر مسیح موعود (غلام احمد قادیانی) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر، بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔” (کلمة الفصل ص:۱۱۰)
قادیانیوں سے کہئے کہ ذرا اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر بات کیا کریں۔
مرزا قادیانی کا کلمہ پڑھنے پر سزا کا گمراہ کن پروپیگنڈا
س… میرے ساتھ ایک عیسائی لڑکی پڑھتی ہے وہ اسلام میں دلچسپی رکھتی ہے، میں اسے اسلام کے متعلق بتاتی ہوں لیکن جب میں نے اسے اسلام قبول کرنے کو کہا تو وہ کہنے لگی تمہارے یہاں تو کلمہ پڑھنے پر سخت سزا دی جاتی ہے، اخبار میں بھی آیا تھا۔ برائے مہربانی مجھے بتائیں میں اسے کیا جواب دوں؟
ج… اسے یہ جواب دیجئے کہ اسلام قبول کرکے کلمہ پڑھنے سے منع نہیں کرتے نہ اس پر سزا دی جاتی ہے، البتہ وہ غیرمسلم جو منافقانہ طور پر اسلام کا کلمہ پڑھ کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں ان کو سزا دی جاتی ہے۔
قادیانی عقیدہ کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی ہی (نعوذ باللہ) محمد رسول اللہ ہیں
س… اخبار جنگ میں “آپ کے مسائل اور ان کا حل” کے زیر عنوان آپ نے مسلمان اور قادیانی کے کلمہ میں کیا فرق ہے، مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریر کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ:
“یہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ میں دوسرا فرق ہے کہ مسلمانوں کے کلمہ شریف میں “محمد رسول اللہ” سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور قادیانی جب محمد رسول اللہ کہتے ہیں تو اس سے مرزا غلام احمد قادیانی مراد ہوتے ہیں۔”
مکرم جناب مولانا صاحب! میں خدا کے فضل سے احمدی ہوں اور اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر حلفیہ کہتا ہوں کہ میں جب کلمہ شریف میں محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں تو اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوتے ہیں۔ “مرزا غلام احمد قادیانی” نہیں ہوتے۔ اگر میں اس معاملہ میں جھوٹ بولتا ہوں تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام مخلوق کی طرف سے مجھ پر ہزار بار لعنت ہو اور اسی یقین کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ کوئی احمدی کلمہ شریف میں “محمد رسول اللہ” سے مراد بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے “مرزا غلام احمد قادیانی” نہیں لیتا، اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو اسی طرح حلفیہ بیان اخبار جنگ میں شائع کروائیں کہ درحقیقت احمدی لوگ (یا آپ کے قول کے مطابق قادیانی) کلمہ شریف میں “محمد رسول اللہ” سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں۔ اگر آپ نے ایسا حلف شائع کروادیا تو سمجھا جائے گا کہ آپ اپنے بیان میں مخلص ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ فیصلہ کردے گا کہ کون اپنے دعوے یا بیان میں سچا اور کون جھوٹا ہے؟ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو ظاہر ہوجائے گا کہ آپ کے بیان کی بنیاد، خلوص، دیانت اور تقویٰ پر نہیں بلکہ یہ محض ایک کلمہ گو جماعت پر افتراء اور اتہام ہوگا جو ایک عالم کو زیب نہیں دیتا۔
نوٹ:…اگر آپ اپنا حلف شائع نہ کرسکیں تو میرا یہ خط شائع کردیں تاکہ قارئین کو حقیقت معلوم ہوسکے۔
ج… نامہ کرم موصول ہوکر موجب سرفرازی ہوا۔ جناب نے جو کچھ لکھا میری توقع کے عین مطابق لکھا ہے۔ مجھے یہی توقع تھی کہ آپ کی جماعت کی نئی نسل جناب مرزا صاحب کے اصل عقائد سے بے خبر ہے اور جس طرح عیسائی تین ایک، ایک تین کا مطلب سمجھے بغیر اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی توحید کا بھی بڑے زور شور سے اعلان کرتے ہیں۔ کچھ یہی حال آپ کی جماعت کے افراد کا بھی ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ آپ “محمد رسول اللہ” سے مرزا صاحب کو نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ عالی کو مراد لیتے ہیں اور یہ کہ اگر آپ ایسا عقیدہ رکھتے ہوں تو فلاں فلاں کی ہزار لعنتیں آپ پر ہوں۔ مگر آپ کے مراد لینے یا نہ لینے کو میں کیا کروں؟ مجھے تو یہ بتائیے کہ میں نے یہ بات بے دلیل کہی یا مدلل؟ اور اپنی طرف سے خود گھڑ کر کہہ دی ہے یا مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے حوالوں سے؟ جب میں ایک بات دلیل کے ساتھ کہہ رہا ہوں تو مجھے قسمیں کھانے کی کیا ضرورت؟ اور اگر قسموں ہی کی ضرورت ہے تو میری طرف سے اللہ تعالیٰ، “انک لرسول الله” کی قسمیں کھانے والوں کے مقابلے میں “انہم لکاذبون” کی قسم کھاچکا ہے۔
میرے بھائی! بحث قسموں کی نہیں، عقیدے کی ہے! جب آپ کی جماعت کا لٹریچر پکار رہا ہے کہ مرزا صاحب “محمد رسول اللہ” ہیں، وہی رحمة للعالمین ہیں، وہی ساقی کوثر ہیں، انہی کے لئے کائنات پیدا کی گئی، انہی پر ایمان لانے کا سب نبیوں (بشمول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) عہد لیا گیا ہے، اور مصطفی اور مرزا میں سرے سے کوئی فرق ہی نہیں بلکہ دونوں بعینہ ایک ہیں، وغیرہ وغیرہ، اور اسی پر بس نہیں بلکہ یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ مرزا صاحب چونکہ بعینہ محمد رسول اللہ ہیں اس لئے ہمیں کسی اور کلمے کی ضرورت نہیں، ہاں! کوئی دوسرا آتا تو ضرورت ہوتی اور پھر اسی بنیاد پر پرانے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو منہ بھر کر کافر بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ نئے محمد رسول اللہ کے منکر ہیں، تو فرمائیے کہ آپ کے ان سب عقائد کو جاننے کے باوجود میں کس دلیل سے تسلیم کرلوں کہ آپ نئے محمد رسول اللہ کا نہیں بلکہ اسی پرانے محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں؟ اگر جناب کو میرے درج کردہ حوالوں میں شبہ ہو تو آپ تشریف لاکر ان کے بارے میں اطمینان کرسکتے ہیں۔
مرزا قادیانی کا دعویٴ نبوت
س… ثابت کریں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا، ان کی تحریروں کے حوالے دیں۔
ہمارے محلے کے چند قادیانی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ مرزا نے نبوت کا دعویٰ کیا۔
ج… مرزا قادیانی کے ماننے والوں کے دو گروہ ہیں،ایک لاہوری،دوسرا قادیانی (جن کا مرکز پہلے قادیان تھا اب ربوہ ہے) ان دونوں کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ مرزا قادیانی کے الہامات اور تحریروں میں باصرار و تکرار نبوت کا دعویٰ کیا گیا ہے، لیکن لاہوری گروہ اس دعوائے نبوت میں تاویل کرتا ہے۔ جبکہ قادیانی گروہ کسی تاویل کے بغیر مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت پر ایمان لانا ضروری سمجھتا ہے۔
آپ سے جن صاحب کی گفتگو ہوئی ہے وہ غالباً لاہوری گروہ کے ممبر ہوں گے، ان کی خدمت میں عرض کیجئے کہ یہ جھگڑا تو وہ اپنے گھر میں نمٹائیں کہ مرزا قادیانی کے دعوائے نبوت کی کیا توجیہ و تاویل ہے؟ ہمارے لئے اتنی بات بس ہے کہ مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور دعویٰ بھی انہی لفظوں میں جن الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، مثلاً:
“قل یا ایھا الناس انی رسول الله الیکم جمیعا۔” (الاعراف:۱۵۸)
“قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی۔”
(الکہف:۱۱۰)
وغیرہ، وغیرہ۔
اگر ان الفاظ سے بھی دعویٴ نبوت ثابت نہیں ہوتا تو یہ فرمایا جائے کہ کسی مدعیٴ نبوت کو نبوت کا دعویٰ کرنے کے لئے کیا الفاظ استعمال کرنے چاہئیں؟
رہیں دعویٴ نبوت کی تاویلات! تو دنیا میں کس چیز کی لوگ تاویلیں نہیں کرتے، بتوں کو خدا بنانے کے لئے لوگوں نے تاویلیں ہی کی تھیں، اور عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹاماننے والے بھی تاویلیں ہی کرتے ہیں۔ جس طرح کسی اور کھلی ہوئی غلط بات یا غلط عقیدہ کی تاویل لائق اعتبار نہیں، اسی طرح حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ بھی قطعی غلط ہے اور اس کی کوئی تاویل (خواہ خود مدعی کی طرف سے کی گئی ہو یا اس کے ماننے والوں کی جانب سے) لائق اعتبار نہیں۔ دسویں صدی کے مجدد ملا علی قاری شرح “فقہ اکبر” میں فرماتے ہیں:
“دعوی النبوة بعد نبینا صلی الله علیہ وسلم کفر بالاجماع۔”
ترجمہ:…”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ بالاجماع کفر ہے۔”
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ: “اگر نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہوش و حواس سے محروم ہو تو اس کو معذور سمجھا جائے گا ورنہ اس کی گردن اڑادی جائے گی۔”
منکرینِ ختم نبوت کے لئے اصل شرعی فیصلہ کیا ہے؟
س… خلیفہ اول بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو حضرت صدیق اکبر نے منکرین ختم نبوت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور تمام منکرین ختم نبوت کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ منکرین ختم نبوت واجب القتل ہیں۔ لیکن ہم نے پاکستان میں قادیانیوں کو صرف “غیرمسلم اقلیت” قرار دینے پر ہی اکتفا کیا، اس کے علاوہ اخبارات میں آئے دن اس قسم کے بیانات بھی شائع ہوتے رہتے ہیں کہ: “اسلام نے اقلیتوں کو جو حقوق دئیے ہیں وہ حقوق انہیں پورے پورے دئیے جائیں گے۔” ہم نے قادیانیوں کو نہ صرف حقوق اور تحفظ فراہم کئے ہوئے ہیں بلکہ کئی اہم سرکاری عہدوں پر بھی قادیانی فائز ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منکرین ختم نبوت اسلام کی رو سے واجب القتل ہیں یا اسلام کی طرف سے اقلیتوں کو دئیے گئے حقوق اور تحفظ کے حقدار ہیں؟
ج… منکرین ختم نبوت کے لئے اسلام کا اصل قانون تو وہی ہے جس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا، پاکستان میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر ان کی جان و مال کی حفاظت کرنا ان کے ساتھ رعایتی سلوک ہے، لیکن اگر قادیانی اپنے آپ کو غیرمسلم اقلیت تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوں، بلکہ مسلمان کہلانے پر مصر ہوں تو مسلمان، حکومت سے یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ ان کے ساتھ مسیلمہ کذاب کی جماعت کا سا سلوک کیا جائے۔ کسی اسلامی مملکت میں مرتدین اور زنادقہ کو سرکاری عہدوں پر فائز کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، یہ مسئلہ نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر اسلامی ممالک کے اربابِ حل و عقد کی توجہ کا متقاضی ہے۔
قادیانی اپنے کو “احمدی” کہہ کر فریب دیتے ہیں
س… آپ کے موٴقر جریدہ کی ۲۹/دسمبر کی اشاعت میں یہ پڑھ کر تعجب ہوا کہ جہاں قادیانی حضرات کے مذہب کا شناختی کارڈ فارم میں اندراج ہوتا ہے وہاں شناختی کارڈ میں اس کا کوئی اندراج نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی فروگزاشت ہے جس سے فارم میں اندراج کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے، یہاں میں یہ گزارش کروں گا کہ قادیانیوں کے لئے لفظ “احمدی” کا اندراج کسی طور جائز نہیں۔ یہ غلطی اکثر سرکاری اعلانات میں بھی سرزد ہوتی ہے، اس کی غالباً وجہ یہ ہے کہ بہت سے حضرات اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ قادیانیوں نے لفظ “احمدی” اپنے لئے کیوں اختیار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو الفاظ “اسمہ احمد” آئے ہیں، وہ دراصل مرزا صاحب کی مراجعت کی پیش گوئی ہے، حالانکہ چودہ سو سال سے جملہ مسلمین کا یہی اعتقاد رہا ہے لفظ “احمد” حضور مقبول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آیا ہے، اور آپ کا نام احمد مجتبیٰ بھی تھا، اور شاید مرزا صاحب کے والد بزرگوار کا بھی یہی اعتقاد ہو، جنہوں نے آپ کا نام “غلام احمد” رکھا تھا، اسی طرح انجیل میں لفظ “فارقلیط” علمائے اسلام کے نزدیک حضور ہی کی آمد کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ فارقلیط معرب ہے یونانی لفظ پیری کلی ٹاس کا جو بذات خود ترجمہ ہے عبرانی زبان میں “احمد” کا جس زبان میں پہلے انجیل لکھی گئی تھی اسے بھی حضور کے ورود مسعود کی پیش گوئی شمار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن قادیانی حضرات اسے بھی مرزا صاحب کی آمد کی پیش گوئی شمار کرتے ہیں چنانچہ بجائے قادیانی کے لفظ “احمدی” کا استعمال قادیانی حضرات کے موقف اور ان کے پروپیگنڈے کو تقویت دینے کے مترادف ہے، اس لئے میرا ادنیٰ مشورہ یہ ہے کہ اس جماعت کے لئے لفظ قادیانی ہی استعمال کرنا مناسب ہے۔
ج… آپ کی رائے صحیح ہے! قادیانیوں کا “اسمہ احمد” کی آیت کو مرزا قادیانی پر چسپاں کرنا ایک مستقل کفر ہے، مرزا غلام احمد قادیانی تحفہ گولڑویہ میں ص:۹۶ میں لکھتا ہے: “یہی وہ بات ہے جو میں نے اس سے پہلے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لکھی تھی یعنی یہ کہ میں اسم احمد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک ہوں۔”
(روحانی خزائن ج:۱۷ ص:۲۵۴)
ایک قادیانی نوجوان کے جواب میں
جواب:…آپ کا جوابی لفافہ موصول ہوا، آپ کی فرمائش پر براہ راست جواب لکھ رہا ہوں اور اس کی نقل “جنگ” کو بھی بھیج رہا ہوں۔
اہل اسلام قرآن کریم، حدیث نبوی اور اجماعِ امت کی بنا پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور دوبارہ تشریف آوری کا عقیدہ رکھتے ہیں، خود جناب مرزا صاحب کو اعتراف ہے کہ:
“مسیح ابن مریم کی آنے کی پیش گوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے بااتفاق قبول کرلیا ہے اور صحاح میں جس قدر پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں، کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔ تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔” (ازالہ اوہام ص:۵۵۷، روحانی خزائن ج:۳ ص:۴۰۰)
لیکن میرا خیال ہے کہ جناب مرزا صاحب کے ماننے والوں کو اہل اسلام سے بڑھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور دوبارہ تشریف آوری کا عقیدہ رکھنا چاہئے، کیونکہ جناب مرزا صاحب نے سورہ الصف کی آیت:۹ کے حوالے سے ان کی دوبارہ تشریف آوری کا اعلان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
“یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا (اس آیت میں) وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائے گا۔”
(براہین احمدیہ حصہ چہارم ص:۴۹۸، ۴۹۹)
جناب مرزا صاحب قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا ثبوت محض اپنی قرآن فہمی کی بنا پر نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے الہام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس آیت کا مصداق ثابت کرتے ہیں:
“اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکساری اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کی روح سے مسیح کی “پہلی زندگی” کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے ․․․․․․․ اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیش گوئی میں ابتداء سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے، یعنی حضرت مسیح پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر۔” (ایضاً ص:۴۹۹)
اور اسی پر اکتفا نہیں بلکہ مرزا صاحب اپنے الہام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کی الہامی پیش گوئی بھی کرتے ہیں، چنانچہ اسی کتاب کے ص:۵۰۵ پر اپنا ایک الہام “عسیٰ ربکم ان یرحم علیکم” درج کرکے اس کا مطلب یہ بیان فرماتے ہیں:
“یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے “جلالی طور پر” ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق و حق اور نرمی اور لطف اور احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدائے تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور غضب اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور یہ زمانہ اس زمانے کے لئے بطور ارہاض کے واقع ہوا ہے، یعنی اس وقت جلالی طور پر خدائے تعالیٰ اتمام حجت کرے گا، اب بجائے اس کے جمالی طور پر یعنی رفق اور احسان سے اتمام حجت کر رہا ہے۔”
ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات اور دوبارہ آنے پر ایمان نہ رکھا جائے تو نہ صرف یہ قرآن کریم کی قطعی پیش گوئی کی تکذیب ہے، بلکہ جناب مرزا صاحب کی قرآن فہمی، ان کی الہامی تفسیر اور ان کی الہامی پیش گوئی کی بھی تکذیب ہے۔ پس ضروری ہے کہ اہل اسلام کی طرح مرزا صاحب کے ماننے والے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے پر ایمان رکھیں ورنہ اس عقیدے کے ترک کرنے سے قرآن و حدیث کے علاوہ مرزا صاحب کی قرآن دانی بھی حرفِ غلط ثابت ہوگی اور ان کی الہامی تفسیریں اور الہامی انکشافات سب غلط ہوجائیں گے، کیونکہ:
“جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔”
(چشمہ معرفت ص:۲۲۲)
اب آپ کو اختیار ہے کہ ان دو باتوں میں کس کو اختیار کرتے ہیں، حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کو؟ یا مرزا صاحب کی تکذیب کو؟
جناب مرزا صاحب کے ازالہ اوہام صفحہ:۹۲۱ والے چیلنج کا ذکر کرکے آپ نے شکایت کی ہے کہ نوے سال سے کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔
آں عزیز کو شاید علم نہیں کہ حضرات علمائے کرام ایک بار نہیں، متعدد بار اس کا جواب دے چکے ہیں، تاہم اگر آپ کا یہی خیال ہے کہ اب تک اس کا جواب نہیں ملا، تو یہ فقیر (باوجودیکہ حضرات علماء احسن اللہ سعیہم کی خاکِ پا بھی نہیں) اس چیلنج کا جواب دینے کے لئے حاضر ہے، اسی کے ساتھ مرزا صاحب کی کتاب البریة ص:۲۰۷ والے اعلان کو بھی ملالیجئے، جس میں موصوف نے بیس ہزار روپیہ تاوان دینے کے علاوہ اپنے عقائد سے توبہ کرنے اور اپنی کتابیں جلادینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
تصفیہ کی صورت یہ ہے کہ جناب مرزا صاحب کے موجودہ جانشین سے لکھوادیا جائے کہ یہ چیلنج اب بھی قائم ہے اور یہ کہ وہ مرزا صاحب کی شرط پوری کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں، اور اسی کے ساتھ کوئی ثالثی عدالت، جس کے فیصلے پر فریقین اعتماد کرسکیں، خود ہی تجویز فرمادیں، میں اس مسلّمہ عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کردوں گا، عدالت اس پر جو جرح کرے گی اس کا جواب دوں گا، میرے دلائل سننے کے بعد اگر عدالت میرے حق میں فیصلہ کردے کہ میں نے مرزا صاحب کے کلئے کو توڑ دیا اور ان کے چیلنج کا ٹھیک ٹھیک جواب دے دیا ہے تو ۲۰ ہزار روپے آں عزیز کی اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ کو چھوڑتا ہوں۔ دوسری دونوں باتوں کو پورا کرنے کا معاہدہ پورا کرادیجئے گا، اور اگر عدالت میرے خلاف فیصلہ صادر کرے تو آپ شوق سے اخبارات میں اعلان کرادیجئے گا کہ مرزا صاحب کا چیلنج بدستور قائم ہے اور آج تک کسی سے اس کا جواب نہ بن پڑا۔ اگر آپ اس تصفیہ کے لئے آگے بڑھیں تو اپنی جماعت پر بہت احسان کریں گے۔
ایک قادیانی کا خود کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے
گمراہ کن استدلال
س… بخدمت جناب مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی مدظلہ
السلام علیٰ من اتبع الہدیٰ!
جناب عالی! گزارش ہے کہ جناب کی خدمت میں مکرم و محترم جناب بلال انور صاحب نے ایک مراسلہ ختم نبوت کے موضوع پر لکھ کر آپ کی خدمت میں ارسال کیا تھا، آپ نے اس مراسلہ کے حاشیہ پر اپنے ریمارکس دے کر واپس کیا ہے، یہ مراسلہ اور آپ کے ریمارکس خاکسار نے مطالعہ کئے ہیں، چند ایک معروضات ارسالِ خدمت ہیں، آپ کی خدمت میں موٴدبانہ اور عاجزی سے درخواست ہے کہ خالی الذہن ہوکر خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کرتے ہوئے ایک خداترس اور محقق انسان بن کر ضد و تعصب، بغض و کینہ دل سے نکال کر ان معروضات پر غور فرماکر اپنے خیالات سے مطلع فرمائیں، یہ عاجز بہت ممنون و مشکور ہوگا۔
سوال نمبر:۱:…جناب بلال صاحب نے آپ کی خدمت میں عرض کی تھی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمان ہیں، کیونکہ قرآن مجید پر، جو خدا تعالیٰ کا آخری کلام ہے، اس پر ایمان رکھتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں، لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہیں، تمام آسمانی کتابیں، جن کی سچائی قرآن مجید سے ثابت ہے، ان سب پر ایمان رکھتے ہیں، صوم اور صلوٰة اور زکوٰة اور حج تمام ارکانِ اسلام پر ایمان رکھتے ہیں اور اسلام پر کاربند ہیں۔
آپ نے ریمارکس میں لکھا ہے کہ: “منافقین اسلام بھی اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو منافق قرار دیا ہے، یہی حال قادیانیوں کا ہے۔”
مکرم جناب مولانا صاحب! یہ آپ کی بہت بڑی زیادتی ہے، جسارت اور ناانصافی ہے اور ضد و تعصب اور بغض و کینہ کی ایک واضح مثال ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو قرآن شریف میں منافق ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے وہ کسی مولوی یا مفتی کا قول نہیں ہے اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منافق ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا تھا، یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا تھا اور ان کو منافق کہنے والی اللہ تعالیٰ کی علیم و خبیر ہستی تھی جو کہ انسانوں کے دلوں سے واقف ہے کہ جس کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یا آپ کے خلفاء نے اپنے زمانہ میں کسی کے متعلق کفر یا منافق کا فتویٰ صادر کیا ہو، اگر آپ کے ذہن میں کوئی مثال ہو تو تحریر فرمائیں، یہ عاجز بے حد آپ کا ممنون و مشکور ہوگا۔
سوال نمبر:۲:…مکرم مولانا! اگر آپ کے اس اصول کو درست تسلیم کرلیا جائے کہ کسی انسان کا اپنے عقیدہ کا اقرار تسلیم نہ کیا جائے تو مذہبی دنیا سے ایمان اٹھ جائے گا۔ اس حالت میں ہر فرقہ دوسرے فرقہ پر کافر اور منافق ہونے کا فتویٰ صادر کردے گا اور کوئی شخص بھی دنیا میں اپنے عقیدہ اور اپنے ایمان کی طرف منسوب نہ ہوسکے گا، اور ہر ایک شخص کے بیان کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں وہ شخص اپنے بیان میں جھوٹا اور منافق قرار دیا جائے گا اور یہ سلوک آپ کے مخالفین آپ کے ساتھ بھی روا رکھیں گے اور آپ کو بھی اپنے عقیدہ اور ایمان میں مخلص قرار نہ دیں گے کیا آپ اس اصول کو تسلیم کریں گے۔
کیا خدا تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایسا کہنے کی اجازت دی ہے؟ دنیا کا مسلّمہ اخلاقی اصول جو آج تک دنیا میں رائج ہے اور مانا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنا جو عقیدہ اور مذہب بیان کرتا ہے اس کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ ایک مسلمان کو مسلمان اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، ایک ہندو کو ہندو اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہندو کہتا ہے، اسی طرح ہر سکھ کہلانے والے، عیسائی کہلانے والے اور دیگر مذہب کی طرف منسوب ہونے والوں سے معاملہ کیا جاتا ہے، اور اس اخلاقی اصول کو دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے اور ساری دنیا اس پر کاربند ہے، پس جب تک احمدی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ:
(۱) ۱:…اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔
۲:…اس کے سب رسولوں کو مانتے ہیں۔
۳:…اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
۴:…اللہ تعالیٰ کے سب فرشتوں کو مانتے ہیں۔
۵:…اور بعث بعد الموت پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
اور اسی طرح پانچ ارکانِ دین پر عمل کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں اور اسلام کو آخری دین مانتے ہیں اور قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب تسلیم کرتے ہیں، اس وقت تک دنیا کی کوئی عدالت، دنیا کا کوئی قانون، دنیا کی کوئی اسمبلی اور دنیا کا کوئی حاکم اور کوئی مولوی، ملاں اور مفتی، جماعت کو اسلام کے دائرہ سے نہیں نکال سکتی اور نہ ہی ان کو کافر یا منافق کہہ سکتے ہیں، اس لئے کہ ہمارے پیارے نبی دل و جان سے پیارے آقا حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔
کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل نے حضور سے پوچھا “ایمان” کیا ہے؟ حضور نے فرمایا:
(۲) اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور بعث بعد الموت پر۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا درست ہے۔
پھر حضرت جبرائیل نے پوچھا یا رسول اللہ اسلام کیا ہے؟ آنحضرت نے فرمایا:
’‘’شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، قائم کرنا نماز کا، زکوٰة ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو ایک بار حج کرنا۔ حضرت جبرائیل بولے درست ہے۔ آنحضرت نے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے جو انسان کی شکل میں ہوکر تمہیں تمہارا دین سکھلانے آئے تھے۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری کتاب الایمان)۔
(۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:
۱:…یہ ماننا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔
۲:…نماز قائم کرنا۔
۳:…رمضان کے روزے رکھنا۔
۴:…زکوٰة ادا کرنا۔
۵:…زندگی میں ایک بار حج کرنا۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان)
(۴)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص ہماری طرح کی نماز پڑھتا ہے، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارے ذبیحہ کو کھاتا ہے وہ مسلمان ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی حفاظت اس کو حاصل ہے پس اے مسلمانو! اس کو کسی قسم کی تکلیف دے کر خدا تعالیٰ کو اس کے عہد میں جھوٹا نہ بناوٴ۔ (بخاری جلد اول باب فضل استقبال القبلة)۔
(۵) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضور نے ایک موقع پر فرمایا:
“ایمان کی تین جڑیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہہ دے تو اس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نہ کر اور اس کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ بنا اور اسلام سے خارج مت قرار دے۔
پس مسلمان کی یہ وہ تعریف ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور جس کی تصدیق حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کی۔
اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہے اور مسلمان اور موٴمن ہے۔ اب انصاف آپ کریں کہ آپ کا بیان کہاں تک درست اور حق پر مبنی ہے۔
دوبارہ جماعت احمدیہ کے عقیدہ پر غور کرلیجئے۔
جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے، ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔
ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائکہ حق اور حشر حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا زیادہ کرے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہیں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کا اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض جانتے ہیں۔
اور ہم آسمان اور زمین کو گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افتراء کرتا ہے اور قیامت کے دن ہمارا اس پر دعویٰ ہے کہ کب اس نے ہمارا سینہ چاک کرکے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے ان اقوال کے مخالف ہیں۔
ان حالات میں اب کس طرح ہم کو منکر اسلام کہہ سکتے ہیں، اگر تحکم سے ایسا کریں گے تو آپ ضدی اور متعصب تو کہلاسکیں گے مگر ایک خداترس اور متقی انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ امید ہے کہ آپ انصاف کی نظر سے اس مکتوب کا مطالعہ فرماکر اس کے جواب سے سرفراز فرمائیں گے۔ محمد شریف
الجواب
بسم الله الرحمن الرحیم
مکرم و محترم ہدانا الله وایاکم الیٰ صراط مستقیم!
جناب کا طویل گرامی نامہ، طویل سفر سے واپسی پر خطوط کے انبار میں ملا۔ میں عدیم الفرصتی کی بنا پر خطوط کا جواب ان کے حاشیہ میں لکھ دیا کرتا ہوں، جناب کی تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ جب آپ دین کی ساری باتوں کو مانتے ہیں تو آپ کو خارج از اسلام کیوں کہا جاتا ہے؟
میرے محترم! یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ آپ کے اور مسلمانوں کے درمیان بہت سی باتوں میں اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو نبی مانتے ہیں اور مسلمان اس کے منکر ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ مرزا صاحب اگر واقعتا نبی ہیں تو ان کا انکار کرنے والے کافر ہوئے، اور اگر نبی نہیں تو ان کو ماننے والے کافر۔ اس لئے آپ کا یہ اصرار تو صحیح نہیں کہ آپ کے عقائد ٹھیک وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں، جبکہ دونوں کے درمیان کفر و اسلام کا فرق موجود ہے، آپ ہمارے عقائد کو غلط سمجھتے ہیں اس لئے ہمیں کافر قرار دیتے ہیں، جیسا کہ مرزا غلام احمد صاحب، حکیم نور دین صاحب، مرزا محمود صاحب اور مرزا بشیر احمد صاحب، نیز دیگر قادیانی اکابر کی تحریروں سے واضح ہے اور اس پر بہت سی کتابیں اور مقالے لکھے جاچکے ہیں۔
اس کے برعکس ہم لوگ آپ کی جماعت کے عقائد کو غلط اور موجب کفر سمجھتے ہیں، اس لئے آپ کی یہ بحث تو بالکل ہی بے جا ہے کہ مسلمان، آپ کی جماعت کو دائرہٴ اسلام سے خارج کیوں کہتے ہیں؟ البتہ یہ نکتہ ضرور قابل لحاظ ہے کہ آدمی کن باتوں سے کافر ہوجاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام باتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ منقول چلی آتی ہیں اور جن کو گزشتہ صدیوں کے اکابر مجددین بلااختلاف و نزاع، ہمیشہ مانتے چلے آئے ہیں (ان کو ضروریاتِ دین کہا جاتا ہے) ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے اور منکر کافر ہے۔ کیونکہ “ضروریاتِ دین” میں سے کسی ایک کا انکار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور پورے دین کے انکار کو مستلزم ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی ایک آیت کا انکار پورے قرآن مجید کا انکار ہے، اور یہ اصول کسی آج کے مُلَّا، مولوی کا نہیں بلکہ خدا اور رسول کا ارشاد فرمودہ ہے اور بزرگانِ سلف ہمیشہ اس کو لکھتے آئے ہیں۔ چونکہ مرزا صاحب کے عقائد میں بہت سی “ضروریاتِ دین” کا انکار پایا جاتا ہے، اس لئے خدا اور رسول کے حکم کے تحت مسلمان ان کو کافر سمجھنے پر مجبور ہیں۔ پس اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ آپ کا حشر اسلامی برادری میں ہو تو مرزا صاحب اور ان کی جماعت نے جو نئے عقائد ایجاد کئے ہیں ان سے توبہ کرلیجئے، ورنہ “لکم دینکم ولی دین” والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ!
کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کنگن پہننے والی پیش گوئی
غلط ثابت ہوئی
س… یہاں قادیانی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے دونوں ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں، لیکن وہ کنگن حضور (علیہ السلام) نہ پہن سکے، اس کا مطلب ہے کہ ان کی پیش گوئی جھوٹی نکلی (نعوذ باللہ)۔
یہ حدیث کیا ہے؟ کس کتاب کی ہے؟ وضاحت سے لکھیں۔
ج…دو کنگنوں کی حدیث دوسری کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری (کتاب المغازی) باب قصہ الاسود العنسی صفحہ:۶۲۸، اور کتاب التعبیر باب النفخ فی المنام ص:۱۰۴۲ میں بھی ہے، حدیث کا متن یہ ہے:
“میں سو رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں پر دو کنگن سونے کے رکھے گئے، میں ان سے گھبرایا اور ان کو ناگوار سمجھا، مجھے حکم ہوا کہ ان پر پھونک دو، میں نے پھونکا تو دونوں اڑگئے۔ میں نے اس کی تعبیر ان دو جھوٹوں سے کی جو دعویٴ نبوت کریں گے، ایک اسود عنسی اور دوسرا مسیلمہ کذاب۔”
اس خواب کی جو تعبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہ سوفیصد سچی نکلی، اس کو “جھوٹی پیش گوئی” کہنا قادیانی کافروں ہی کا کام ہے۔
قادیانیوں کو مسلمان سمجھنے والے کا شرعی حکم
س… کوئی شخص قادیانی گھرانے میں رشتہ یہ سمجھ کر کر تا ہے کہ وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں، اسلام میں ایسے شخص کے لئے کیا حکم ہے؟
ج… جو شخص قادیانیوں کے عقائد سے واقف ہو اس کے باوجود ان کو مسلمان سمجھے تو ایسا شخص خود مرتد ہے کہ کفر کو اسلام سمجھتا ہے۔
کسی کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد معلوم ہو کہ وہ قادیانی تھا
تو کیا کیا جائے؟
س… کسی فرد کے ساتھ کھانا کھالینا بعد میں اس فرد کا یہ معلوم ہونا کہ وہ قادیانی تھا پھر کیا حکم ہے؟
ج… آئندہ اس سے تعلق نہ رکھا جائے۔
علمائے حق کی کتب سے تحریف کرکے قادیانیوں کی دھوکا دہی
س… مکرمی و محترمی مولانا صاحب! السلام علیکم ورحمة اللہ!
ملتان سے آپ کا ایڈریس منگوایا، اس سے قبل بھی میں نے آپ کو خط لکھے تھے شاید آپ کو یاد ہو، مگر اب آپ کا ایڈریس بھول جانے کی وجہ سے ملتان سے منگوانا پڑا۔ عرض ہے کہ میں ایف ایس سی (میڈیکل) کرلینے کے بعد آج کل فارغ ہوں، میڈیکل کالج میں ایڈمیشن میں ابھی کافی دیر ہے، اس لئے جی بھر کر مطالعہ کر رہا ہوں، مجھے شروع ہی سے مذہب سے لگاوٴ ہے، ایک دوست (جو کہ احمدی ہے) نے مجھے اپنے لٹریچر سے چند رسائل دئیے میں نے پڑھے۔ مولانا مودودی مرحوم کے رسائل “ختم نبوت” اور “قادیانی مسئلہ” بھی پڑھے اور احمدیوں کی طرف سے ان کے جوابات بھی۔ مولانا کے دلائل و شواہد کمزور دیکھ کر بڑی پریشانی ہوئی۔ آپ کا پمفلٹ “شناخت” بھی پڑھا مگر اس کا جواب نہیں ملا۔ البتہ آج کل قاضی محمد نذیر صاحب کی کتاب “تفسیر خاتم النبیین” پڑھ رہا ہوں جو آپ کی شائع کردہ آیت خاتم النبیین کی تفسیر کا جواب ہے۔ جس میں آپ نے مولانا محمد انور شاہ صاحب کے فارسی مضمون کا ترجمہ و تشریح کی ہے۔ اصل کتاب نہیں پڑھ سکا اس لئے جواب کے استحکام کو محسوس کرنا قدرتی امر ہے۔ بہرحال احمدی لٹریچر پڑھ کر میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ ہمارے علماء کوئی ایسی بات پیش نہیں کرتے جس سے احمدی لاجواب ہوجائیں، وہ ہر ایک بات کا مدلل جواب دیتے ہیں، وہ مشائخ کی عبارت دے کر ثابت کرتے ہیں کہ ان کا نظریہ وہی ہے جو ان مشائخ عظام کا تھا، اس بات سے بڑی الجھن ہوتی ہے، کیا ہم ان شواہد کو جھٹلاسکتے ہیں، آخر ایسی باتیں لکھنے کا کیا فائدہ جن کا مدلل جواب دیا جاسکتا ہے۔ آخر ایسی باتیں کیوں نہیں لکھی جاتیں جن سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ پھر کسی کو دودھ میں پانی ڈالنے کی جسارت نہ ہو۔ اگر ہم سچے ہیں تو ہماری سچائی مشکوک کیوں ہوجاتی ہے؟
جواب کا انتظار رہے گا۔ احقر عبدالقدوس ہاشمی
ج… اس ناکارہ نے قادیانیوں کی کتابیں بھی پڑھی ہیں اور قادیانیوں سے زبانی اور تحریری گفتگو کا موقع بھی بہت آتا رہا ہے، قادینی غلط بیانی اور خلط مبحث کرکے ناواقفوں کو دھوکا دیتے ہیں، ہمارے اور ان کے بنیادی مسائل دو ہیں: ایک ختم نبوت۔ دوسرا نزولِ عیسیٰ علیہ السلام۔ یہ دونوں مسئلے ایسے قطعی ہیں کہ بزرگانِ سلف میں ان میں کبھی اختلاف نہیں ہوا، بلکہ ان کے منکر کو قطعی کافر اور خارج از اسلام قرار دیا گیا ہے۔ قادیانی صاحبان اپنا کام چلانے کے لئے اکابر کے کلام میں سے ایک آدھ جملہ جو کسی اور سیاق میں ہوتا ہے، نقل کرلیتے ہیں، کبھی کسی نے غلطی سے کسی بزرگ کا قول غلط نقل کردیا اسی کو اڑالیتے ہیں، ان کے ناواقف قاری یہ سمجھ کر کہ جن بزرگوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ بھی قادیانیوں کے ہم عقیدہ ہوں گے، دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہاں اس کی صرف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں، آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ قادیانی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی کتاب “تحذیر الناس” کا حوالہ دیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتا ہے اور یہ کہ یہ امر خاتم النبیین کے منافی نہیں، حالانکہ حضرت کی تحریر اسی کتاب میں موجود ہے کہ جو شخص خاتمیت زمانی کا قائل نہ ہو وہ کافر ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
“سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے، ادھر تصریحات نبوی مثل:
“انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔” او کما قال۔
جو بظاہر بطرز مذکورہ اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا۔ گو الفاظ مذکور بہ سند تواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدم تواتر الفاظ، باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض و وتر وغیرہ۔ باجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں، جیسا اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔”
(تحذیر الناس طبع جدید ص:۱۸، طبع قدیم ص:۱۰)
اس عبارت میں صراحت فرمائی گئی ہے کہ:
الف…خاتمیت زمانی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا، آیت خاتم النبیین سے ثابت ہے۔
ب:…اس پر تصریحاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم متواتر موجود ہیں اور یہ تواتر رکعاتِ نماز کے تواتر کی مثل ہے۔
ج:…اس پر امت کا اجماع ہے۔
د:…اس کا منکر اسی طرح کافر ہے، جس طرح ظہر کی چار رکعت فرض کا منکر۔
اور پھر اسی تحذیر الناس میں ہے:
“ہاں اگر بطور اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور مرتبی سے عام لے لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایان شان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی، اور مجھ سے پوچھئے تو میرے خیال ناقص میں تو وہ بات ہے کہ سامع منصف انشاء اللہ انکار ہی نہ کرسکے۔ سو وہ یہ ہے کہ․․․․․” (طبع قدیم ص:۹، طبع جدید ص:۱۵)
اس کے بعد یہ تحقیق فرمائی ہے کہ لفظ خاتم النبیین سے خاتمیت مرتبی بھی ثابت ہے اور خاتمیت زمانی بھی، اور “مناظرہ عجیبہ” میں جو اسی تحذیر الناس کا تتمہ ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
“مولانا! حضرت خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں ․․․․․․ “
(ص:۹ طبع جدید)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“البتہ وجوہ معروضہ مکتوب تحذیر الناس تولد جسمانی کی تاخیر زمانی کے خواستگار ہیں، اس لئے کہ ظہور تاخر زمانی کے سوا تاخر تولد جسمانی اور کوئی صورت نہیں۔” (ص:۱۰)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“اور اگر مخالف جمہور اس کا نام ہے کہ مسلّمات جمہور باطل اور غلط اور غیرصحیح اور خلاف سمجھی جائیں، تو آپ ہی فرمائیں کہ تاخر زمانی اور خاتمیت عصر نبوت کو میں نے کب باطل کیا؟ اور کہاں باطل کیا؟
مولانا! میں نے خاتم کے وہی معنی رکھے جو اہل لغت سے منقول ہیں اور اہل زبان میں مشہور، کیونکہ تقدم و تاخر مثل حیوان، انواع مختلفہ پر بطور حقیقت بولا جاتا ہے، ہاں تقدم و تاخر فقط تقدم و تاخر زمانی ہی میں منحصر ہوتا تو پھر درصورت ارادہٴ خاتمیت ذاتی و مرتبی البتہ تحریف معنوی ہوجاتے۔ پھر اس کو آپ تفسیر بالرائے کہتے تو بجا تھا۔” (ص:۵۲)
“مولانا! خاتمیت زمانی کی میں نے تو توجیہ کی ہے تغلیط نہیں کی، مگر ہاں آپ گوشہ عنایت و توجہ سے دیکھتے ہی نہیں تو میں کیا کروں۔ اخبار بالعلة مکذب اخبار بالمعلول نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مصداق اور موٴید ہوتا ہے، اوروں نے فقط خاتمیت زمانی اگر بیان کی تھی تو میں نے اس کی علت یعنی خاتمیت مرتبی کو ذکر اور شروع تحذیر ہی میں ابتدائے مرتبی کا بہ نسبت خاتمیت زمانی ذکر کردیا۔” (ص:۵۳)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
“مولانا! معنی مقبول خدام والا مقام․․․․․․․
مختار احقر سے باطل نہیں ہوتے، ثابت ہوتے ہیں۔ اس صورت میں بمقابلہ “قضایا قیاساتھا معھا” اگر من جملہ “قیاسات قضایاھا معھا” معنی مختار احقر کو کہئے تو بجا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر لیجئے، صفحہ نہم کی سطر دہم سے لے کر صفحہ یازدہم کی سطر ہفتم تک وہ تقریر لکھی ہے جس سے خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی اور خاتمیت مرتبی تینوں بدلالت مطابقی ثابت ہوجائیں، اور اسی تقریر کو اپنا مختار قرار دیا ہے، چنانچہ شروع تقریر سے واضح ہے۔
سو پہلی صورت میں تو تاخر زمانی بدلالت التزامی ثابت ہوتا ہے اور دلالت التزامی اگر دربارہٴ توجہ الی المطلوب، مطابقی سے کمتر ہو مگر دلالت ثبوت اور دل نشینی میں مدلول التزامی مدلول مطابقی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ کسی چیز کی خبر تحقق اس کے برابر نہیں ہوسکتی کہ اس کی وجہ اور علت بھی بیان کی جائے ․․․․․․․”
“حاصل مطلب یہ کہ خاتمیت زمانی سے مجھ کو انکار نہیں، بلکہ یوں کہئے کہ منکروں کے لئے گنجائش انکار نہ چھوڑی، افضلیت کا اقرار ہے بلکہ اقرار کرنے والوں کے پاوٴں جمادئیے ․․․․․․․” (ص:۷۱)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“اپنا دین و ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں، جو اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں۔” (ص:۱۴۴)
حضرت نانوتوی کی یہ تمام تصریحات اسی تحذیر الناس اور اس کے تتمہ میں موجود ہیں، لیکن قادیانیوں کی عقل و انصاف اور دیانت و امانت کی داد دیجئے کہ وہ حضرت نانوتوی کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں۔ جبکہ حضرت نانوتوی اس احتمال کو بھی کفر قرار دیتے ہیں اور جو شخص ختم نبوت میں ذرا بھی تامل کرے اسے کافر سمجھتے ہیں۔
اس ناکارہ نے جب مرزا صاحب کی کتابوں مطالعہ شروع کیا تو شروع شروع میں خیال تھا کہ ان کے عقائد خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں مگر کسی کا حوالہ دیں گے تو وہ تو صحیح ہی دیں گے، لیکن یہ حسن ظن زیادہ دیر قائم نہیں رہا، حوالوں میں غلط بیانی اور کتربیونت سے کام لینا مرزا صاحب کی خاص عادت تھی، اور یہی وراثت ان کی اُمت کو پہنچی ہے۔ اس عریضہ میں، میں نے صرف حضرت نانوتوی کے بارے میں ان کی غلط بیانی ذکر کی ہے، ورنہ وہ جتنے اکابر کے حوالے دیتے ہیں سب میں ان کا یہی حال ہے، اور ہونا بھی چاہئے، جھوٹی نبوت جھوٹ ہی کے سہارے چل سکتی ہے، حق تعالیٰ شانہ عقل و ایمان سے کسی کو محروم نہ فرمائیں۔
ایک قادیانی کے پُرفریب سوالات کے جوابات
ہمارے ایک دوست سے کسی قادیانی نے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے رسالہ “مسیح موعود کی پہچان” پر کچھ سوالات کئے اور راقم الحروف سے ان کے جوابات کا مطالبہ کیا، ذیل میں یہ سوال و جواب قارئین کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں۔
تمہید:
رسالہ “مسیح موعود کی پہچان” میں قرآن کریم اور ارشاداتِ نبویہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کی علامات جمع کردی گئی ہیں، جو اہل ایمان کے لئے تو اضافہ ایمان میں مدد دیتی ہیں، لیکن افسوس ہے کہ سوال کنندہ کے لئے ان کا اثر الٹا ہوا، قرآن کریم نے صحیح فرمایا! “ان کے دلوں میں روگ ہے، پس بڑھادیا ان کو اللہ نے روگ میں۔”
بقول سعدی:
باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست
در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس
سائل نے ارشاداتِ نبوت پر اسی انداز میں اعتراض کئے ہیں جو ان کے پیشرو پنڈت دیانند سرسوتی نے “ستیارتھ پرکاش” میں اختیار کیا تھا، اس لئے کہ ارشاداتِ نبویہ نے مسیح علیہ السلام کی صفات و علامات اور ان کے کارناموں کا ایسا آئینہ پیش کردیا ہے جس میں قادیانی مسیحیت کا چہرہ بھیانک نظر آتا ہے، اس لئے انہوں نے روایتی حبشی کی طرح اس آئینے کو قصوروار سمجھ کر اسی کو زمین پر پٹخ دینا ضروری سمجھا تاکہ اس میں اپنا سیاہ چہرہ نظر نہ آئے، لیکن کاش! وہ جانتے کہ:
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!
رسالہ “مسیح موعود کی پہچان” پر سائل نے جتنے اعتراضات کئے ہیں ان کا مختصر سا اصولی جواب تو یہ ہے کہ مصنف نے ہر بات میں احادیثِ صحیحہ کا حوالہ دیا ہے، اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا، اس لئے سائل کے اعتراضات مصنف پر نہیں بلکہ خاکش بدہن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہیں۔ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے منکر ہیں، یا مسٹر پرویز کے ہم مسلک ہیں تو بصد شوق پنڈت دیانند کی طرح اعتراضات فرمائیں، اور اگر انہیں ایمان کا دعویٰ ہے تو ہم ان سے گزارش کریں گے کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیجئے، مگر جو لوگ ارشاداتِ نبویہ کو سرمہ چشمِ بصیرت سمجھتے ہیں ان کا ایمان برباد نہ کیجئے! اس کے بعد اب تفصیل سے ایک ایک سوال کا جواب گوش گزار کرتا ہوں، ذرا توجہ سے سنئے!
س… “امت محمدیہ کے آخری دور میں ․․․․․․․․․ دجال اکبر کا خروج مقدر و مقرر تھا۔” (ص:۵ سطر: پہلی و دوسری) اگر یہ دجال اکبر تھا تو لازماً کوئی ایک یا بہت سارے دجال اصغر بھی ہوں گے۔ ان کے بارے میں ذرا وضاحت فرمائی جائے، کب اور کہاں ظاہر ہوں گے، شناخت کیا ہوگی اور ان کے ذمہ کیا کام ہوں گے اور ان کی شناخت کے بغیر کسی دوسرے کو یک دم “دجال اکبر” کیسے تسلیم کرلیا جائے گا۔
ج… جی ہاں! “دجالِ اکبر” سے پہلے چھوٹے چھوٹے دجال کئی ہوئے اور ہوں گے۔ مسیلمہ کذاب سے لے کر غلام احمد قادیانی تک جن لوگوں نے دجل و فریب سے نبوت یا خدائی کے جھوٹے دعوے کئے، ان سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے “دجالون کذابون” فرمایا ہے، ان کی علامت یہی دجل و فریب، غلط تاویلیں کرنا، چودہ سو سال کے قطعی عقائد کا انکار کرنا، ارشاداتِ نبویہ کا مذاق اڑانا، سلف صالحین کی تحقیر کرنا اور غلام احمد قادیانی کی طرح صاف اور سفید جھوٹ بولنا، مثلاً:
a:…انا انزلناہ قریباً من القادیان۔
a:…قرآن میں قادیانی کا ذکر ہے۔
a:…مسیح موعود چودہویں صدی کے سر پر آئے گا، اور پنجاب میں آئے گا، وغیرہ وغیرہ۔
س… اس رسالہ کے مطالعہ سے ابتداء ہی میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بن باپ کی پیدائش سے لے کر واقعہ صلیب کے انجام تک جس قدر بھی علامات یا دوسری متعلقہ ظاہری نشانیاں اور باتیں بیان کی گئی ہیں وہ اس وجود کے متعلق ہیں جسے مسیح علیہ السلام، عیسیٰ بن مریم اور مسیح ناصری کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، اور اب بھی جبکہ رسالہ مذکورہ کے مصنف کے خیال کے مطابق مسیح موعود یا مہدی موعود وغیرہ کا نزول نہیں ہوا (بلکہ انتظار ہی ہے) تب بھی پوری دنیا اس مسیح کے نام اور کام اور واقعات سے بخوبی واقف ہے۔ یہ نشانیاں تو اس قوم نے آج کے لوگوں سے زیادہ دیکھی تھیں، (محض سنی اور پڑھی ہی نہیں تھیں) جن کی طرف وہ نازل ہوا تھا، تب بھی اس قوم نے جو سلوک اس کے ساتھ کیا، کیا وہ دنیا سے چھپا ہوا ہے، اس وقت بھی اس قوم نے اسے اللہ تعالیٰ کا نبی ماننے سے انکار کردیا تھا اب اگر وہ (یا کوئی) آکر کہنے لگے کہ میں وہی ہوں جو بن باپ پیدا ہوا تھا، میری ماں مریم تھی اور میں پنگوڑے میں باتیں کیا کرتا تھا اور مردے زندہ کیا کرتا تھا، چڑیاں بناکر ان میں روح پھونکا کرتا تھا، اندھوں کو بینائی بخشتا تھا اور جذام کے مریض تندرست کردیا کرتا تھا وغیرہ وغیرہ تو اب بھی موجودہ تمام اقوام کو کیونکر یقین آسکے گا کہ واقعی پہلے بھی یہ ایسا کرتا رہا ہوگا اور یہ یقینا وہی شخص ہے اور جب پہلی بار نازل ہوا تو محض بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے آیا تھا اور جب مقامی لوگوں نے دل و جان سے قبول نہ کیا تو گمشدہ بھیڑوں کی تلاش میں اتنے سفر اختیار کئے کہ “مسیح” کے لقب سے پکارا جانے لگا لیکن اب جبکہ وہ دوسری بار نازل ہوگا تو ایک سراپا قیامت بن کر آئے گا جیسا کہ رسالہ ہذا سے ظاہر ہے، مثلاً ملاحظہ فرمائیں:
“جس کسی کافر پر آپ کے سانس کی ہوا پہنچ جائے گی وہ مرجائے گا۔” (ص:۱۸، علامت:۶۴)۔
“سانس کی ہوا اتنی دور تک پہنچے گی جہاں تک آپ کی نظر جائے گی۔” (ص:۱۸، علامت:۶۵)۔
ج…اس سوال کا جواب کئی طرح دیا جاسکتا ہے۔
۱:…مرزا قادیانی پر مسیح موعود کی ایک علامت بھی صادق نہیں آئی، مگر قادیانیوں کو دعویٰ ہے کہ انہوں نے مسیح موعود کو پہچان لیا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن پر قرآن و حدیث کی دو صد علامات صادق آئیں گی ان کی پہچان اہل حق کو کیوں نہ ہوسکے گی؟
۲:…یہود نے پہچاننے کے باوجود نہیں مانا تھا اور یہود اور ان کے بھائی (مرزائی) آئندہ بھی نہیں مانیں گے، نہ ماننے کے لئے آمادہ ہیں، اہل حق نے اس وقت بھی ان کو پہچان اور مان لیا تھا اور آئندہ بھی ان کو پہچاننے اور ماننے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
۳:…سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا جو خاکہ ارشاداتِ نبویہ میں بیان کیا گیا ہے اگر وہ معترض کے پیش نظر ہوتا تو اسے یہ سوال کرنے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔ فرمایا گیا ہے کہ مسلمان دجال کی فوج کے محاصرے میں ہوں گے، نماز فجر کے وقت یکایک عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، اس وقت آپ کا پورا حلیہ اور نقشہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہے، ایسے وقت میں جب ٹھیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ نقشہ کے مطابق وہ نازل ہوں گے تو ان کو بالبداہت اسی طرح پہچان لیا جائے گا جس طرح اپنا جانا پہچانا آدمی سفر سے واپس آئے تو اس کے پہچاننے میں دقت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی حدیث میں یہ نہیں آتا کہ وہ نازل ہونے کے بعد اپنی مسیحیت کے اشتہار چھپوائیں گے، یا لوگوں سے اس موضوع پر مباحثے اور مباہلے کرتے پھریں گے۔
س… لگے ہاتھوں مولوی صاحب اس رسالہ میں یہ بھی بتادیتے تو مسلمانوں پر احسان ہوتا ہے کہ ان کی (یعنی مسیح موعود کی) سانس مومن اور کافر میں کیونکر امتیاز کرے گی۔ کیونکہ بقول مولوی صاحب ان کی سانس نے صرف کافروں کو ڈھیر کرنا ہے، نظر ہر انسان کی بشرطیکہ کسی خاص بیماری کا شکار نہ ہو تو لامحدود اور ناقابل پیمائش فاصلوں تک جاسکتی ہے اور جاتی ہے تو کیا مسیح موعود اپنی نظروں سے ہی اتنی تباہی مچادے گا؟
ج… جس طرح مقناطیس لوہے اور سونے میں امتیاز کرتا ہے، اسی طرح اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی نظر بھی موٴمن و کافر میں امتیاز کرے تو اس میں تعجب ہی کیا ہے؟ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی نظر (کافر کش) کا ذکر مرزا قادیانی نے بھی کیا ہے۔
س… اور اگر یہ سب ممکن ہوگا تو پھر دجال سے لڑنے کے لئے آٹھ سو مرد اور چار سو عورتیں کیوں جمع ہوں گی (ملاحظہ ہو ص:۱۹، علامت نمبر:۷۱)۔
ج…دجال کا لشکر پہلے سے جمع ہوگا اور دم عیسوی سے ہلاک ہوگا، جو کافر کسی چیز کی اوٹ میں پناہ لیں گے وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوں گے۔
س… اور یاجوج ماجوج کو ہلاک کرنے کے لئے بددعا کی ضرورت کیوں پیش آئے گی (ملاحظہ ہو ص:۳۱، علامت نمبر:۱۶۲)، کیا مسیح موعود کی ہلاکت خیز نظر یاجوج ماجوج کو کافر نہ جان کر چھوڑ دے گی کیونکہ جیسا پہلے بتایا جاچکا ہے کہ کافر تو نہیں بچ سکے گا، شاید اسی لئے آخری حربہ کے طور پر بددعا کی جائے گی۔
ج… یہ کہیں نہیں فرمایا گیا کہ دم عیسوی کی یہ تاثیر ہمیشہ رہے گی، بوقت نزول یہ تاثیر ہوگی اور یاجوج ماجوج کا قصہ بعد کا ہے، اس لئے دم عیسوی سے ان کا ہلاک ہونا ضروری نہیں۔
س… اگر مسیح ابن مریم اور مسیح موعود ایک ہی وجود کا نام ہے (اور محض دوبارہ نزول کے بعد مسیح بن مریم نے ہی مسیح موعود کہلانا ہے) اور اس نے نازل ہوکر خود بھی قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہے اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلانا ہے (ملاحظہ ہو ص:۲۲، علامت نمبر:۹۹) تو بقول مولوی صاحب جب عیسیٰ کا آسمان پر زندہ اٹھایا جانا وہ اس آیت سے ثابت کرتے ہیں: “انی متوفیک ورافعک الیّ” (آل عمران:۵۵) (ص:۱۶، علامت نمبر:۴۹) تو کیا مولوی صاحب بتائیں گے کہ کیا یہ قرآن مجید میں قیامت تک نہیں رہے گی اور اس کا مطلب و مفہوم عربی زبان اور الٰہی منشا کے مطابق وہی نہیں رہے گا جو اب تک مولوی صاحب کی سمجھ میں آیا ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو نزول کے وقت بھی تو یہ آیت یہی اعلان کر رہی ہوگی کہ عیسیٰ بن مریم کو آسمان پر اٹھالیا، اٹھالیا تو پھر واپسی کے لئے کیا یہ آیت منسوخ ہوجائے گی، یا عیسیٰ اسے خود ہی منسوخ قرار دے کر اپنے لئے راستہ صاف کرلیں گے، کیونکہ قرآن مجید میں تو کہیں ذکر نہیں کہ کوئی بھی آیت کبھی بھی منسوخ ہوگی۔ لہٰذا یہ آیت عیسیٰ کی واپسی کا راستہ قیامت تک روکے رکھے گی اور یہ وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے خود کیا ہے اور مولوی صاحب خود بھی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ذکر ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے لہٰذا کسے حق حاصل ہے کہ اس میں یعنی اس کے متن میں ردّ و بدل کرسکے۔
ج… یہ آیت تو ایک واقعہ کی حکایت ہے اور اسی حکایت کی حیثیت سے اب بھی غیرمنسوخ ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد بھی غیرمنسوخ رہے گی، جیسا کہ: “انی جاعل فی الارض خلیفة۔ واذ قلنا للملٰئکة اسجدوا لاٰدم۔” وغیرہ بے شمار آیات ہیں۔ سائل بے چارا یہ بھی نہیں جانتا کہ نسخ امر و نہی میں ہوتا ہے اور یہ آیت امر و نہی کے باب سے نہیں بلکہ خبر ہے اور خبر منسوخ نہیں ہوا کرتی۔
س… مولوی صاحب نے کہیں بھی یہ بات وضاحت سے نہیں بیان فرمائی کہ قرآن مجید میں اگر عیسیٰ کے آسمان پر جانے کا جیسے ذکر موجود ہے تو کہیں اسی وجود کے واپس آنے کا ذکر بھی واضح اور غیرمبہم طور پر موجود ہے۔
ج… وضاحت کی ہے، مگر اس کے سمجھنے کے لئے علم و عقل اور بصیرت و ایمان درکار ہے۔ دیکھئے علامت نمبر:۵۷ جس میں حدیث نمبر:۱ کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس میں قرآن مجید کی آیت موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے اصل کتاب میں حدیث نمبر: ۷۶ تا ۸۵۔
س… سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی طور پر یہ منوا بھی لیا جائے کہ مسیح موعود کا نام عیسیٰ بن مریم بھی ہوگا تو بھی یہ کیسے منوایا جائے کہ اس وقت یہ نام صفاتی نہیں ہوگا بلکہ عیسیٰ بن مریم ہونے کی وجہ سے یقینی طور پر یہ وجود وہی ہوگا جو کبھی مریم کے گھر بغیر باپ کے پیدا ہوا تھا ․․․․․ وغیرہ وغیرہ، بلکہ مولوی صاحب اپنے رسالہ میں خود ہی تسلیم کرتے ہیں کہ کبھی کبھی معروف نام استعمال تو ہوجاتا ہے لیکن ذات وہ مراد نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ نام مشہور ہوا ہو، مثلاً ملاحظہ فرمائیں ص:۱۱، علامت نمبر:۱۰ جہاں مولوی صاحب مسیح موعود کے خاندان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: “آپ کے ماموں ہارون ہیں” (یا اخت ہارون) لیکن مولوی صاحب فوراً چونک اٹھتے ہیں اور “ہارون” پر حاشیہ جماتے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ زیر ص:۱۱) “ہارون سے اس جگہ ہارون نبی مراد نہیں کیونکہ وہ تو مریم سے بہت پہلے گزر چکے تھے بلکہ ان کے نام پر حضرت مریم کے بھائی کا نام ہارون رکھا گیا تھا ․․․․․” تو جیسے یہاں مولوی صاحب کو “ہارون” کی فوراً تاویل کرنا پڑی تاکہ الجھن دور ہو تو کیوں نہ جب مسیح موعود کو عیسیٰ بن مریم بھی کہا جائے تو اسے بھی صفاتی نام سمجھ کر تاویل کرلی جائے اور جسمانی طور پر پہلے والا عیسیٰ بن مریم مراد نہ لیا جائے کیونکہ ابھی ابھی بتایا جاچکا ہے کہ مولوی صاحب کے اپنے حوالہ کے مطابق بھی مسیح بن مریم کے اٹھائے جانے کے بعد اس کا واپس آنا ممکن نہیں کیونکہ کوئی آیت منسوخ نہیں ہوگی اور “ورافعک الیّ” والی آیت اوپر ہی اٹھائے رکھے گی، لوٹ آنے کی اجازت نہیں دے گی۔
ج…عیسیٰ بن مریم ذاتی نام ہے، اس کو دنیا کے کسی عقلمند نے کبھی “صفاتی نام” نہیں کہا، یہ بات وہی مراقی شخص کہہ سکتا ہے جو باریش و بروت اس بات کا مدعی ہو کہ “وہ عورت بن گیا، خدا نے اس پر قوتِ رجولیت کا مظاہرہ کیا”، “وہ مریمی صفت میں نشوونما پاتا رہا، پھر وہ یکایک حاملہ ہوگیا، اسے درد زہ ہوا، وضع حمل کے آثار نمودار ہوئے، اس نے عیسیٰ کو جنا، اس طرح وہ عیسیٰ بن مریم بن گیا۔” انبیاء علیہم السلام کے علوم میں اس “مراق” اور “ذیابیطس کے اثر” کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہارون، حضرت مریم کے بھائی کا ذاتی نام تھا، یہ کس احمق نے کہا کہ وہ صفاتی نام تھا؟ اور خاندان کے بڑے بزرگ کے نام پر کسی بچے کا نام رکھ دیا جائے تو کیا دنیا کے عقلاء اس کو “صفاتی نام” کہا کرتے ہیں؟ غالباً سائل کو یہی علم نہیں کہ ذاتی نام کیا ہوتا ہے اور صفاتی نام کسے کہتے ہیں؟ ورنہ وہ حضرت مریم کے بھائی کے نام کو “صفاتی نام” کہہ کر اپنی فہم و ذکاوت کا نمونہ پیش نہ کرتا، ہارون اگر “صفاتی نام” ہے تو کیا معترض یہ بتاسکے گا کہ ان کا ذاتی نام کیا تھا؟
س… اس رسالہ میں جابجا تناقض ہے، مثلاً ملاحظہ فرمائیں ص:۱۸ اور ص:۱۹ علامت نمبر:۷۰ تا ۷۶۔ “بوقت نزول عیسیٰ یہ لوگ نماز کے لئے صفیں درست کرتے ہوئے ہوں گے۔ اس جماعت کے امام اس وقت حضرت مہدی ہوں گے، حضرت مہدی عیسیٰ کو امامت کے لئے بلائیں گے اور وہ انکار کریں گے، جب حضرت مہدی پیچھے ہٹنے لگیں گے تو عیسیٰ ان کی پشت پر ہاتھ رکھ کر انہیں امام بنائیں گے، پھر حضرت مہدی نماز پڑھائیں گے۔” ان سب باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولوی صاحب یہ منوانا چاہتے ہیں کہ امام، مہدی ہوں گے۔ چلو یہ بات مولوی صاحب کی تسلیم کرلی جائے تو پھر مولوی صاحب خود ہی بعد میں ص:۲۲، علامت نمبر:۹۴ میں فرماتے ہیں کہ: “حضرت عیسیٰ لوگوں کی امامت کریں گے۔” یعنی اب امام حضرت عیسیٰ کو بنایا اور بتایا گیا ہے۔ اب مولوی صاحب ہی بتائیں کہ ان کے رسالہ میں صحیح اور غلط کی پہچان کیسے ہوسکتی ہے یا سچ کو جھوٹ سے علیحدہ کیسے کیا جائے؟
ج… پہلی نماز میں امام مہدی امامت کریں گے، اور بعد کی نمازوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ․․․ تناقض کیسے ہوا؟
س… یا پھر ایک ضمنی سوال یوں پیدا ہوتا ہے کہ جیسے عیسیٰ اور مسیح موعود مولوی صاحب کی تحقیق کے مطابق ایک ہی جسمانی وجود کا نام ہے تو کیا کہیں مولوی صاحب مسیح موعود اور مہدی کو بھی ایک ہی تو نہیں سمجھتے اور اب بات یوں بنے گی کہ وہی عیسیٰ ہیں، وہی مسیح موعود ہیں اور وہی مہدی ہیں یا کم از کم مولوی صاحب کی تحقیق اور منطق تو یہی پکار رہی ہے۔
ج… جی نہیں! عیسیٰ علیہ السلام اور مہدی رضی اللہ عنہ کو ایک ہی شخصیت ماننا ایسے شخص کا کام ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو۔ احادیث متواترہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی الگ الگ علامات اور الگ الگ کارنامے ذکر فرمائے ہیں۔
س… اور مزید ایک ضمنی لیکن مضحکہ خیز سوال مولوی صاحب کی اپنی تحریر سے یوں اٹھتا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: “پھر حضرت مہدی نماز پڑھائیں گے۔” ملاحظہ ہو ص:۱۹، علامت نمبر:۷۶۔ یہاں مولوی صاحب نے مہدی لکھا ہے اور ایسا ہی کئی جگہوں پر مہدی لکھا ہے۔ سب صاحب علم جانتے ہیں کہ “ ” اختصار ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔ مطلب آسان ہے اور عموماً یہ ان لوگوں کے نام کے ساتھ عزت اور احترام کے لئے استعمال ہوتا ہے جو فوت ہوچکے ہوں، دنیا سے گزر چکے ہوں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شامل ہوں یا ویسا روحانی درجہ رکھتے ہوں ․․․․․․ ابھی مسیح موعود تو آئے بھی نہیں اور بقول مولوی صاحب مہدی رضی اللہ عنہ بھی ہوچکے، تو کیا نماز پڑھانے کے لئے یہ مہدی صاحب بھی دوبارہ زندہ ہوکر دنیا میں واپس آئیں گے۔
ج… یہ سوال جیسا کہ سائل نے بے اختیار اعتراف کیا ہے، واقعی مضحکہ خیز ہے، قرآن کریم نے: “السابقون الاولون من المھاجرین والانصار۔” (التوبہ:۱۰۰) اور ان کے تمام متبعین کو “رضی اللہ عنہم” کہا ہے جو قیامت تک آئیں گے۔ شاید سائل، پنڈت دیانند کی طرح خدا پر بھی یہ مضحکہ خیز سوال جڑ دے گا۔ امام ربانی مجدد الف ثانی نے بھی مکتوبات شریفہ میں حضرت مہدی کو “رضی اللہ عنہ” کہا ہے۔ معترض نے یہ مسئلہ کس کتاب میں پڑھا ہے کہ صرف فوت شدہ حضرات ہی کو “رضی اللہ عنہ” کہہ سکتے ہیں؟ حضرت مہدی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحابی ہوں گے، اس لئے ان کو “رضی اللہ عنہ” کہا گیا۔
س… یا وہ بھی بقول مولوی صاحب حضرت عیسیٰ کی طرح کہیں زندہ موجود ہیں (آسمان پر یا کہیں اور) اور مسیح موعود کے آتے ہی آموجود ہوں گے اور امامت سنبھال لیں گے۔
ج…ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق حضرت مہدی رضی اللہ عنہ پیدا ہوں گے۔
س… کیا اس کی بھی کوئی سند قرآن مجید میں موجود ہے اور کیا ہے؟
ج…جی ہاں! ارشاد نبوت یہی ہے، اور قرآنی سند ہے: “ما اٰتاکم الرسول فخذوہ۔” (الحشر:۷) جس کو غلام احمد قادیانی نے بھی قرآنی سند کے طور پر پیش کیا ہے۔
س… مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہدی نماز پڑھاتے ہی کہاں چلے جائیں گے کیونکہ بعد میں تو جو کچھ بھی کرنا کرانا ہے وہ مسیح موعود ہی کی ذمہ داری مولوی صاحب نے پورے رسالہ میں خود ہی بیان فرمائی اور قرار دی ہے۔ محض ایک نماز کی امامت اور وہ بھی ایک جماعت کی جو ۸۰۰ (آٹھ سو) مردوں اور ۴۰۰ (چار سو) عورتوں پر مشتمل ہوگی (ملاحظہ ہو ص:۱۹، علامت نمبر:۷۲)۔
ج… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد (جب حضرت مہدی رضی اللہ عنہ پہلی نماز کی امامت کرچکیں گے) حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا امام کی حیثیت سے مشن پورا ہوچکا ہوگا اور امامت و قیادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں آجائے گی، تب حضرت مہدی کی حیثیت آپ کے اعوان و انصار کی ہوگی۔ اور کچھ ہی عرصہ بعد ان کی وفات بھی ہوجائے گی (مشکوٰة ص:۴۷۱)۔ پس جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دیگر اعوان و انصار اور مخصوص رفقاء کے تذکرہ کی ضرورت نہ تھی، اسی طرح حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے تذکرے کی بھی حاجت نہ رہی، کیا اتنی موٹی بات بھی کسی عاقل کے لئے ناقابل فہم ہے؟
س… یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں، کیونکہ اس سے زیادہ مسلمانوں کی امامت تو مولوی صاحب نے خود بھی کئی بار کی ہوگی۔
ج… حضرت مہدی اس سے قبل بڑے بڑے کارنامے انجام دے چکے ہوں گے جو احادیث طیبہ میں مذکور ہیں، مگر وہ اس رسالہ کا موضوع نہیں اور نماز میں حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا امام بننا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ان کی اقتدا کرنا بجائے خود ایک عظیم الشان واقعہ ہے، اس لئے حدیث پاک میں اس کو بطورِ خاص ذکر فرمایا گیا۔
س… مولوی صاحب نے اپنے رسالہ ہی میں خود تاویل کا راستہ کھول دیا ہے اور اس کا سہارا بھی لیا ہے۔ ملاحظہ ہو ص:۲۰، علامت نمبر: ۸۰۔
۱:…”آپ صلیب توڑیں گے ․․․․․․ یعنی صلیب پرستی کو اٹھادیں گے۔” یہ الفاظ جو مولوی صاحب نے خود لکھے ہیں، یہ محض تاویل ہے اس حدیث شریف کی جس میں صرف صلیب کو توڑنے کا ذکر ہے۔ صلیب پرستی اٹھادینے کی کوئی بات حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی کیا مولوی صاحب ایسی کوئی حدیث شریف کا حوالہ دے سکتے ہیں؟ پھر ملاحظہ ہو ص:۲۰، علامت نمبر:۸۱۔
۲:…”خنزیر کو قتل کریں گے ․․․․․․ یعنی نصرانیت کو مٹائیں گے۔” یہ الفاظ بھی مولوی صاحب کی اپنی تاویل ہے۔ کیونکہ حدیث مذکور میں صرف خنزیر کو قتل کرنے کا ارشاد ہوا ہے۔ باقی مولوی صاحب کے الفاظ وہاں موجود نہیں۔ کیا مولوی صاحب حدیث شریف میں یہ دکھاسکیں گے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں بلکہ مولوی صاحب کی یا دوسرے علماء کرام کی بیان فرمودہ تاویل ہے، اب یہ حق مولوی صاحب ہی کا کیوں ہے کہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں تاویل کرلیں۔
۳:…”ورافعک الیّ” کی بھی تاویل ہوسکتی ہے۔
ج… تاویل کا راستہ ․․․ تاویل اگر علم و دانش کے مطابق اور قواعد شرعیہ کے خلاف نہ ہو تو اس کا مضائقہ نہیں، وہ لائق قبول ہے، لیکن اہل حق کی صحیح تاویل کو دیکھ کر اہل باطل الٹی سیدھی تاویلیں کرنے لگیں تو وہی بات ہوگی کہ: “ہرچہ مردم می کند بوز نہ ہم می کند” بندر نے آدمی کو دیکھ کر اپنے گلے پر استرا پھیر لیا تھا۔ مثلاً عیسیٰ بن مریم بننے کے لئے پہلے عورت بننا، پھر حاملہ ہونا، پھر بچہ جننا، پھر بچے کا نام عیسیٰ بن مریم رکھ کر خود ہی بچہ بن جانا، کیا یہ تاویل ہے یا مراقی سودأ؟
۱:…”صلیب کو توڑ دیں گے ․․․․․․ یعنی صلیب پرستی کو مٹادیں گے۔” بالکل صحیح تاویل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک آدھ صلیب کے توڑنے پر اکتفا نہیں فرمائیں گے بلکہ دنیا سے صلیب اور صلیب پرستی کا بالکل صفایا کردیں گے۔
۲:…”خنزیر کو قتل کریں گے ․․․․․․․ یعنی نصرانیت کو مٹادیں گے۔” یہ تاویل بھی بالکل صحیح ہے، اور عقل و شرع کے عین مطابق۔ کیونکہ خنزیر خوری آج کل نصاریٰ کا خصوصی شعار ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نصرانیت کے اس خصوصی شعار کو مٹائیں گے، اور خنزیر کو قتل کریں گے، جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جاہلیت کے کتوں کے ساتھ اختلاط کو مٹانے کے لئے کتوں کو مارنے کا حکم دیا تھا۔
۳:…”ورافعک الیّ” کی تاویل ․․․یہ تاویل جو قادیانی کرتے ہیں، قرآن کریم اور ارشادات نبوی اور سلف صالحین کے عقیدے کے خلاف ہے، اس لئے مردود ہے، اور اس پر بندر کے اپنا گلا کاٹنے کی حکایت صادق آتی ہے۔
س… “ورافعک الیّ” میں زندہ آسمان پر اٹھایا جانا کیوں مراد لیا جائے؟
ج… “ورافعک الیّ” میں “زندہ آسمان پر اٹھایا جانا” مراد ہے، کیونکہ “وما قتلوہ یقینا بل رفعہ الله الیہ” میں “رفع الی الله” قتل کے مقابلے میں واقع ہوا ہے، جہاں رفع، قتل کے مقابلے میں ہو وہاں “زندہ آسمان پر اٹھایا جانا” ہی مراد ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی معنی قرآن کریم، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگانِ دین کے ارشاد میں کہیں آیا ہو تو اس کا حوالہ دیجئے! قیامت تک ساری مرزائی امت مل کر بھی ایک آیت پیش نہیں کرسکتی۔
س… اللہ تعالیٰ نے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآن مجید میں یہی حکم دیا تھا کہ: “بلغ ما انزل الیک” (المائدہ:۶۷) “جو تیری طرف اتارا گیا ہے اس کی تبلیغ کر” اور ساتھ ہی یہ توجہ بھی دلائی تھی کہ: “لست علیھم بمصیطر” (الغاشیہ:۲۲) “میں نے تجھے ان پر داروغہ نہیں مقرر کیا بلکہ کھول کھول کر نشانیاں بیان کرنے والا بناکر بھیجا ہے” اور یہ سب قرآن مجید میں بہ تفصیل موجود ہے۔ مولوی صاحب نے خود ہی فرمایا ہے کہ مسیح موعود خود بھی قرآن پر عمل کریں گے اور دوسروں سے بھی کروائیں گے۔ (ملاحظہ ہو ص:۲۲، علامت نمبر:۹۹) تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یوں خود عمل کرکے نہیں دکھایا کہ اپنی نظروں سے لوگوں کو کھاگئے ہوں، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں، یہودیوں کو چن چن کر قتل کردیتے رہے ہوں۔ (ملاحظہ فرمائیں ص:۲۱، علامت نمبر:۸۷ اور نمبر:۸۸) تو یہ کس قرآن مجید پر مسیح موعود کا عمل ہوگا؟ اور کس انداز کا عمل ہوگا؟ کیا اس سے مسیح موعود کی شان بلند ہوگی یا اسے دوبارہ نازل کرنے والے رحیم و کریم اللہ تعالیٰ کی؟ (نعوذ باللہ من ذالک!)
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و کسریٰ کے تخت نہیں الٹے، خلفائے راشدین نے کیوں الٹے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو جزیرہٴ عرب سے نہیں نکالا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں نکالا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوتغلب سے دوگنا زکوٰة وصول نہیں کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں کی؟ اگر یہ ساری چیزیں قرآن کریم اور منشائے نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطابق ہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی سے کیوں “یہودیانہ” ضد ہے؟ وہ بھی تو جو کچھ کریں گے فرموداتِ نبویہ کے مطابق ہی کریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان امور کی تفصیلات بھی بیان فرماچکے ہیں۔
س… اور پھر بوقت نزول حضرت مسیح موعود دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے اتریں گے (ملاحظہ ہو ص:۱۷، علامت نمبر:۶۲) اس کی بھی تاویل ہی کرنی پڑے گی، ورنہ فرشتے کون دیکھے گا اور اگر وہ انسانی شکل اختیار کرکے اتریں گے تو پھر یہ جھگڑا قیامت تک ختم نہیں ہوگا کہ وہ واقعی فرشتے تھے یا محض انسان تھے اور اس کھینچ تان سے مولوی صاحب خوب واقف ہوں گے۔
ج… کیوں تاویل کرنا پڑے گی؟ اس لئے کہ غلام احمد قادیانی اس سے محروم رہے؟ رہا وہ جھگڑا جو آپ کے دماغ نے گھڑا ہے، یہ بتائیے کہ جب جبریل علیہ السلام پہلی بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی کے لے کر آئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کس طرح پہچانا تھا؟ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کو کس طرح یقین آگیا تھا کہ یہ واقعی فرشتے ہیں؟
آپ کا یہ اعتراض ایسا مہمل ہے کہ اس سے سلسلہٴ وحی مشکوک ہوجاتا ہے، ایک دہریہ آپ ہی کی دلیل لے کر یہ کہے گا کہ: “انبیاء کے پاس جو فرشتے آتے تھے وہ انسانی شکل میں ہی آتے ہوں گے اور یہ جھگڑا قیامت تک ختم نہیں ہوسکتا کہ وہ واقعی فرشتے تھے یا انسان تھے، اور جب تک یہ جھگڑا طے نہ ہو سلسلہٴ وحی پر کیسے یقین کرلیا جائے گا؟” تعجب ہے کہ قادیانی تعلیم نے دین تو سلب کیا ہی تھا عقل و فہم کو بھی سلب کرلیا ہے․․․!
س… آج تک کتنی ہی باتیں مسلمانوں کے مختلف فرقے ابھی تک طے نہیں کرسکے، اور اگر تاویلات نہیں کی جائیں گی تو مولوی صاحب خود ہی اپنی بیان کردہ علامات کی طرف توجہ فرمائیں، سنجیدہ طبقہ کے سامنے کیونکر منہ اٹھاسکیں گے۔
ج… بہت سے جھگڑے تو واقعی طے نہیں ہوئے، مگر قادیانیوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ جن مسائل پر مسلمانوں کے تمام فرقوں کا چودہ صدیوں سے اتفاق رہا یہ ان سے بھی منکر ہوبیٹھے، اور یوں دائرہٴ اسلام ہی سے خارج ہوگئے۔ مثلاً: ختم نبوت کا انکار، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار، ان کی دوبارہ تشریف آوری کا انکار، وغیرہ وغیرہ۔
س… “مال و زر لوگوں میں اتنا عام کردیں گے کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔” (ص:۲۲، علامت نمبر:۳۳)۔
“ہر قسم کی دینی و دنیوی برکات نازل ہوں گی۔” (ص:۲۲، علامت نمبر:۱۰۰)۔
“ساری زمین مسلمانوں سے اس طرح بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھرجاتا ہے۔” (ص:؟؟ علامت نمبر:۱۰۹)۔
“صدقات کا وصول کرنا چھوڑ دیا جائے گا۔” (ص:۲۴، علامت نمبر:۱۱۰)۔
کیونکہ مسیح موعود مال و زر اتنا عام کردیں گے کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔ (مذکورہ بالا ص:۲۲، علامت نمبر:۹۳)۔
“اس وقت مسلمان سخت فقر و فاقہ میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ بعض اپنی کمان کا چلہ جلاکر کھا جائیں گے۔” (ص:۲۶، علامت نمبر:۱۲۴)۔
ملاحظہ فرمایا کہ ابھی ابھی تو مسلمان صدقہ دینا چاہتے تھے اور لینے والا کوئی نہیں تھا، مال و زر اتنا عام تھا کہ کوئی قبول کرنے والا نہیں تھا اور ابھی مسلمانوں ہی کی یہ حالت بتائی جارہی ہے کہ وہ کمان کا چلے بھی جلاکر کھائیں گے تاکہ پیٹ کی آگ کسی طور ٹھنڈی ہو۔
کیا یہی وہ تحقیق ہے جس پر مولوی صاحب کو فخر ہے!
ج… ان احادیث میں تعارض نہیں، سلبِ ایمان کی وجہ سے سائل کو صحیح غور و فکر کی توفیق نہیں ہوئی، مسلمانوں پر تنگی اور ان کے کمان کے چلے جلاکر کھانے کا واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے ذرا پہلے کا واقعہ ہے، جبکہ مسلمان دجال کی فوج کے محاصرے میں ہوں گے، اور خوشحالی و فراخی کا زمانہ اس کے بعد کا ہے۔
کیا قادیانیوں کو جبراً قومی اسمبلی نے غیرمسلم بنایا ہے؟
س… “لا اکراہ فی الدین” یعنی دین میں کوئی جبر نہیں، نہ تو آپ جبراً کسی کو مسلمان بناسکتے ہیں اور نہ ہی جبراً کسی مسلمان کو آپ غیرمسلم بناسکتے ہیں۔ اگر یہ مطلب ٹھیک ہے تو پھر آپ نے ہم (جماعت احمدیہ) کو کیوں جبراً قومی اسمبلی اور حکومت کے ذریعہ غیرمسلم کہلوایا؟
ج… آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو جبراً مسلمان نہیں بنایا جاسکتا، یہ مطلب نہیں کہ جو شخص اپنے غلط عقائد کی وجہ سے مسلمان نہ رہا اس کو غیرمسلم بھی نہیں کہا جاسکتا، دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آپ کی جماعت کو قومی اسمبلی نے غیرمسلم نہیں بنایا، غیرمسلم تو آپ اپنے عقائد کی وجہ سے خود ہی ہوئے ہیں، البتہ مسلمانوں نے غیرمسلم کو غیرمسلم کہنے کا “جرم” ضرور کیا ہے۔
قرآن پاک میں احمد کا مصداق کون ہے؟
س… قرآن پاک میں ۲۸ویں پارے میں سورہ صف میں موجود ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔ اس سے مراد کون ہیں؟ جبکہ قادیانی، مرزا قادیانی مراد لیتے ہیں۔
ج… اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں۔ (مشکوٰة ص:۵۱۵) قادیانی چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے وہ اس کو بھی نہیں مانیں گے۔
قادیانیوں کے ساتھ اشتراک تجارت اور میل ملاپ حرام ہے
س… کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ میں!
قادیانی اپنی آمدنی کا دسواں حصہ اپنی جماعت کے مرکزی فنڈ میں جمع کراتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف تبلیغ اور ارتدادی مہم پر خرچ ہوتا ہے، چونکہ قادیانی مرتد کافر اور دائرہ اسلام سے متفقہ طور پر خارج ہیں، تو کیا ایسے میں ان کے اشتراک سے مسلمانوں کا تجارت کرنا یا ان کی دکانوں سے خرید و فروخت کرنا یا ان سے کسی قسم کے تعلقات یا راہ و رسم رکھنا از روئے اسلام جائز ہے؟
ج… صورتِ مسئولہ میں اس وقت چونکہ قادیانی کافر محارب اور زندیق ہیں اور اپنے آپ کو غیرمسلم اقلیت نہیں سمجھتے بلکہ عالم اسلام کے مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ تجارت کرنا، خرید و فروخت کرنا ناجائز و حرام ہے، کیونکہ قادیانی اپنی آمدنی کا دسواں حصہ لوگوں کو قادیانی بنانے میں خرچ کرتے ہیں، گویا اس صورت میں مسلمان بھی سادہ لوح مسلمانوں کو مرتد بنانے میں ان کی مدد کر رہے ہیں، لہٰذا کسی بھی حیثیت سے ان کے ساتھ معاملات ہرگز جائز نہیں۔ اسی طرح شادی، غمی، کھانے پینے میں ان کو شریک کرنا، عام مسلمانوں کا اختلاط، ان کی باتیں سننا، جلسوں میں ان کو شریک کرنا، ملازم رکھنا، ان کے ہاں ملازمت کرنا یہ سب کچھ حرام بلکہ دینی حمیت کے خلاف ہے۔ فقط والله اعلم!
قادیانیوں سے میل جول رکھنا
س… میرا ایک سگا بھائی جو میرے ایک اور سگے بھائی کے ساتھ مجھ سے الگ اپنے آبائی مکان میں رہتا ہے، محلہ کے ایک قادیانی کے گھر والوں سے شادی غمی میں شریک ہوتا ہے۔
میرے منع کرنے کے باوجود وہ اس قادیانی خاندان سے تعلق چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا، میں اپنے بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں اور الگ کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، والد صاحب انتقال کرچکے ہیں، والدہ اور بہنیں میرے اس بھائی کے ساتھ رہتی ہیں۔
اب میرے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی ہونے والی ہے، میرا اصرار ہے کہ وہ شادی میں اس قادیانی گھر کو مدعو نہ کریں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔
اب سوال ہے کہ میرے لئے شریعت اور اسلامی احکامات کے رو سے بھائیوں اور والدہ کو چھوڑنا ہوگا یا میں شادی میں شرکت کروں تو بہتر ہوگا۔ اس صورت حال میں جو بات صائب ہو، اس سے براہ کرم شریعت کا منشا واضح کریں۔
ج… قادیانی مرتد اور زندیق ہیں، اور ان کو اپنی تقریبات میں شریک کرنا دینی غیرت کے خلاف ہے، اگر آپ کے بھائی صاحبان اس قادیانی کو مدعو کریں تو آپ اس تقریب میں ہرگز شریک نہ ہوں، ورنہ آپ بھی قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجرم ہوں گے، والله اعلم!
مرزائیوں کے ساتھ تعلقات رکھنے والا مسلمان
س… ایک شخص مرزائیوں (جو بالاجماع کافر ہیں) کے پاس آتا جاتا ہے اور ان کے لٹریچر کا مطالعہ بھی کرتا ہے، اور بعض مرزائیوں سے یہ بھی سنا گیا ہے کہ یہ ہمارا آدمی ہے، یعنی مرزائی ہے، مگر جب خود اس سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ہرگز نہیں بلکہ میں مسلمان ہوں اور ختم نبوت اور حیات عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام و نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ الرحمة و فرضیت جہاد وغیرہ تمام عقائد اسلام کا قائل ہوں اور مرزائیوں کے دونوں گروہوں کو کافر، کذاب، دجال، خارج از اسلام سمجھتا ہوں۔ تو کیا وجوہ بالا کی بنا پر اس شخص پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے گا؟ اگر ازروئے شریعت وہ کافر نہیں ہے تو اس پر فتویٰ لگانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جبکہ ان کے عقائد مذکورہ معلوم ہوجانے پر بھی تکفیر کرتا ہو اور کفار والا ان کے ساتھ سلوک کرتا ہو اور اس کی نشر و اشاعت کرتا ہو۔
ج… ایسے شخص سے اس کے مسلمان رشتہ دار بائیکاٹ کریں، سلام و کلام ختم کریں، اس کو علیحدہ کردیں اور بیوی اس سے علیحدہ ہوجائے تاکہ یہ شخص اپنی حرکات سے باز آجائے، اگر باز آگیا تو ٹھیک ہے، ورنہ اس کو کافر سمجھ کر کافروں جیسا معاملہ کیا جائے۔
قادیانی کی دعوت اور اسلامی غیرت
س… ایک ادارہ جس میں تقریباً پچیس افراد ملازم ہیں، اور ان میں ایک قادیانی بھی شامل ہے، اور اس قادیانی نے اپنے احمدی (قادیانی) ہونے کا برملا اظہار بھی کیا ہوا ہے، اب وہی قادیانی ملازم اپنے ہاں بچے کی پیدائش کی خوشی میں تمام اسٹاف کو دعوت دینا چاہتا ہے اور اسٹاف کے کئی ممبران اس کی دعوت میں شریک ہونے کو تیار ہیں۔ جبکہ چند ایک ملازمین اس کی دعوت قبول کرنے پر تیار نہیں کیونکہ ان کے خیال میں چونکہ جملہ قسم کے مرزائی مرتد، دائرہ اسلام سے خارج اور واجب القتل ہیں اور اسلام کے غدار ہیں تو ایسے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی دعوت قبول کرنا درست نہیں ہے۔ آپ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کردیں کہ کسی بھی قادیانی کی دعوت قبول کرنا ایک مسلمان کے لئے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ تاکہ آئندہ کے لئے اسی کے مطابق لائحہ عمل تیار ہوسکے۔
ج… مرزائی کافر ہونے کے باوجود خود کو مسلمان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر اور حرامزادے کہتے ہیں۔ مرزا قادیانی کا کہنا ہے کہ: “میرے دشمن جنگلوں کے سور ہیں اور ان کی عورتیں ان سے بدتر کتیاں ہیں۔” جو شخص آپ کو کتا، خنزیر، حرامزادہ اور کافر یہودی کہتا ہو، اس کی تقریب میں شامل ہونا چاہئے یا نہیں؟ یہ فتویٰ آپ مجھ سے نہیں بلکہ خود اپنی اسلامی غیرت سے پوچھئے!
قادیانیوں کی تقریب میں شریک ہونا
س… اگر پڑوس میں زیادہ اہل سنت جماعت رہتے ہوں، چند گھر قادیانی فرقہ کے ہوں ان لوگوں سے بوجہ پڑوسی ہونے کے شادی بیاہ میں کھانا پینا یا ویسے راہ و رسم رکھنا جائز ہے یا نہیں؟
ج… قادیانیوں کا حکم مرتدین کا ہے، ان کو اپنی کسی تقریب میں شریک کرنا یا ان کی تقریب میں شریک ہونا جائز نہیں، قیامت کے دن خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی جوابدہی کرنی ہوگی۔
قادیانیوں سے رشتہ کرنا یا ان کی دعوت کھانا جائز نہیں
س… قادیانیوں کی دعوت کھالینے سے نکاح ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ نیز ایسے انسان کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوسکتی ہے یا نہیں؟
ج… اگر کوئی قادیانی کو کافر سمجھ کر اس کی دعوت کھاتا ہے تو گناہ بھی ہے اور بے غیرتی بھی، مگر کفر نہیں، جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی رکھے اس کو سوچنا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائے گا؟
قادیانی نواز وکلاء کا حشر
س… کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان دین متین اس مسئلے میں کہ گزشتہ دنوں مردان میں قادیانیوں نے ربوہ کی ہدایت پر کلمہ طیبہ کے بیج بنوائے، پوسٹر بنوائے اور بیج اپنے بچوں کے سینوں پر لگائے اور پوسٹر دکانوں پر لگاکر کلمہ طیبہ کی توہین کی، اس حرکت پر وہاں کے علماء کرام اور غیرت مند مسلمانوں نے عدالت میں ان پر مقدمہ دائر کردیا، اور فاضل جج نے ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے ان کو جیل بھیج دیا، اب عرض یہ ہے کہ وہاں کے مسلمان وکلاء صاحبان ان قادیانیوں کی پیروی کر رہے ہیں اور چند پیسوں کی خاطر ان کے ناجائز عقائد کو جائز کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، ان وکلاء صاحبان میں ایک سید ہے۔ برائے کرم قرآن اور احادیث نبوی کی روشنی میں تفصیل سے تحریر فرمادیں کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے ان وکلاء صاحبان کا کیا حکم ہے؟
ج… قیامت کے دن ایک طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیمپ ہوگا اور دوسری طرف مرزا غلام احمد قادیانی کا، یہ وکلاء جنہوں نے دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قادیانیوں کی وکالت کی ہے، قیامت کے دن غلام احمد کے کیمپ میں ہوں گے اور قادیانی ان کو اپنے ساتھ دوزخ میں لے کر جائیں گے۔ واضح رہے کہ کسی عام مقدمے میں کسی قادیانی کی وکالت کرنا اور بات ہے، لیکن شعائر اسلامی کے مسئلہ پر قادیانیوں کی وکالت کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مقدمہ لڑنے کے ہیں، ایک طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے اور دوسری طرف قادیانی جماعت ہے، جو شخص دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں قادیانیوں کی حمایت و وکالت کرتا ہے وہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل نہیں ہوگا خواہ وہ وکیل ہو یا کوئی سیاسی لیڈر، یا حاکمِ وقت۔
اگر کوئی جانتے ہوئے قادیانی عورت سے نکاح کرلے تو
اس کا شرعی حکم
س… اگر کوئی شخص کسی قادیانی عورت سے یہ جاننے کے باوجود کہ یہ عورت قادیانی ہے عقد کرلیتا ہے تو اس کا نکاح ہوا کہ نہیں؟ اور اس شخص کا ایمان باقی رہا یا نہیں؟
ج… قادیانی عورت سے نکاح باطل ہے، رہا یہ کہ قادیانی عورت سے نکاح کرنے والا مسلمان بھی رہا یا نہیں؟ اس میں یہ تفصیل ہے کہ:
الف:…اگر اس کو قادیانیوں کے کفریہ عقائد معلوم نہیں۔ یا ․․․
ب:…اس کو یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ قادیانی مرتدوں کے ساتھ نکاح نہیں ہوسکتا․․․ تو ان دونوں صورتوں میں اس شخص کو خارج از ایمان نہیں کہا جائے گا، البتہ اس شخص پر لازم ہے کہ مسئلہ معلوم ہونے پر اس قادیانی مرتد عورت کو فوراً علیحدہ کردے اور آئندہ کے لئے اس سے ازدواجی تعلقات نہ رکھے، اور اس فعل پر توبہ کرے اور اگر یہ شخص قادیانیوں کے عقائد معلوم ہونے کے باوجود ان کو مسلمان سمجھتا ہے تو یہ شخص بھی کافر اور خارج از ایمان ہے، کیونکہ عقائد کفریہ کو اسلام سمجھنا خود کفر ہے، اس شخص پر لازم ہے کہ اپنے ایمان کی تجدید کرے۔
قادیانیوں کو مسجد بنانے سے جبراً روکنا کیسا ہے؟
س… احمدیوں کو مسجدیں بنانے سے جبراً روکا جارہا ہے، کیا یہ جبر اسلام میں آپ کے نزدیک جائز ہے؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ضرار کے ساتھ کیا کیا تھا؟ اور قرآن کریم نے اس کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے؟ شاید جناب کے علم میں ہوگا، اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟
آپ حضرات دراصل معقول بات پر بھی اعتراض فرماتے ہیں۔ دیکھئے! اس بات پر تو غور ہوسکتا تھا (اور ہوتا بھی رہا ہے) کہ آپ کی جماعت کے عقائد مسلمانوں کے سے ہیں یا نہیں؟ اور یہ کہ اسلام میں ان عقائد کی گنجائش ہے یا نہیں؟ لیکن جب یہ طے ہوگیا کہ آپ کی جماعت کے نزدیک مسلمان، مسلمان نہیں اور مسلمانوں کے نزدیک آپ کی جماعت مسلمان نہیں، تو خود انصاف فرمائیے کہ آپ مسلمانوں کو اور مسلمان آپ کو اسلامی حقوق کیسے عطا کرسکتے ہیں؟ اور از روئے عقل و انصاف کسی غیرمسلم کو اسلامی حقوق دینا ظلم ہے؟ یا اس کے برعکس نہ دینا ظلم ہے؟
میرے محترم! بحث جبر و اکراہ کی نہیں، بلکہ بحث یہ ہے کہ آپ نے جو عقائد اپنے اختیار و ارادے سے اپنائے ہیں ان پر اسلام کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر ان پر اسلام کا اطلاق ہوتا ہے تو آپ کی شکایت بجا ہے، نہیں ہوتا تو یقینا بے جا ہے، اس اصول پر تو آپ بھی اتفاق کریں گے اور آپ کو کرنا چاہئے۔
اب آپ خود ہی فرمائیے کہ آپ کے خیال میں اسلام کس چیز کا نام ہے؟ اور کن چیزوں کے انکار کردینے سے اسلام جاتا رہتا ہے؟ اس تنقیح کے بعد آپ اصل حقیقت کو سمجھ سکیں گے جو غصہ کی وجہ سے اب نہیں سمجھ رہے۔
“دین دار انجمن” اور “میزان انجمن” والے قادیانیوں کی
بگڑی ہوئی جماعت ہیں، کافر و مرتد ہیں،
ان سے کسی مسلمان کا نکاح حرام ہے
س… اللہ کے فضل سے ہمارے گھرانے میں بڑے چھوٹے سب نماز کے پابند ہیں اور ہمارا گھرانہ مذہبی گھرانہ ہے۔ “میزان انجمن” کراچی میں قائم ہے، اس انجمن کے بانی اور اراکین “صدیق دین دار چن بسویشور” کے ماننے والے پیروکار ہیں، یہ لوگ لمبی داڑھیاں، سر کے لمبے عورتوں جیسے بال رکھے ہوئے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ قادیانی مرزا غلام احمد اور موجودہ مرزا طاہر احمد “مامور من اللہ” ہیں، ان کے اپنے ایک آدمی شیخ محمد ہیں، شیخ محمد کو مظہر خدا مان کر ان کو نماز کی طرح سجدہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیخ محمد پر الہام ہوتا ہے، جو الہام ہوئے ہیں اب تک وہ ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کی تبلیغ کراچی کورنگی میں زور و شور سے جاری ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ ان کی جماعت کے اراکین میں ہر ایک کا مقام بلند ہے، ایک صاحب جن کی عمر ۸۰ سال ہے، خود کو “نرسیو اوتار” اور روح مختار محمدی کہتے ہیں۔ ایک بدیع الزمان قریشی ہیں جو نائب صدر ہیں خود کو خلیفہ الارض کہتے ہیں، کراچی کے اہل سنت سرمایہ دار چند ایسے ہیں جو ان کی صورت اور حلیہ سے متأثر ہوکر ماہانہ اشاعت اسلام کے نام پر چندہ معقول رقم بھی دیتے ہیں، یہ پورا گروہ خود کو مبلغ اسلام کہتا ہے۔
ہمارے چند رشتہ داروں کو ان لوگوں نے اپنا ہم عقیدہ بنالیا ہے، ہر جمعہ ہمارے رشتہ دار ماموں ممانی ان کے بچے ہمارے گھر آتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ میزان انجمن کے رکن بن جاوٴ، دنیا اور آخرت سنور جائے گی، ہندووٴں کا اوتار چن بسویشور مرگیا، اس کی روح صدیق دین دار صاحب میں آگئی، صدیق دین دار صاحب مرے نہیں اور وہ خدا کی اصلی صورت میں نہیں بلکہ اور روپ میں آئے تھے، اب لطیف آباد سندھ میں جدید دنیا کا آدم اور خدا شیخ محمد ہے، ان کی مذہبی انجمن میزان کے رکن بن جاوٴ۔ شنکر کرشن، نرسیو، ہنومان، کالی دیوی، رام یہ سب پیغمبر تھے اور شنکر کی قوت زبردست تھی، رسول مقبول محمد رسول اللہ کو اپنی تمام طاقت شنکر نے دی تھی، محمد رسول اللہ میں شنکر کی روح منتقل ہوگئی، سورة اخلاص صدیق دین دار چن بسویشور نے خود نازل کی تھی اور انہوں نے تفسیر بھی لکھی ہے۔
آپ کو اللہ اور رسول کا واسطہ ہے جلد جواب سے مطلع فرمائیے، ہماری ممانی کہتی ہیں: “میزان انجمن دنیا کے مسلمانوں کو حق کا راستہ بتانے کے لئے وجود میں آئی ہے، پاکستان میں حق کی جماعت میزان انجمن ہی ہے اور صدیق دین دار چن بسویشور دنیا کا نظام چلا رہے ہیں۔”
آپ یہ بتائیں کہ قرآن کریم اور احادیث سے کیا یہ تمام باتیں درست ہیں؟ ہندو اوتاروں کی یا مسلمان پیغمبروں کی روح کا ایک دوسرے میں یا جس میں چاہے منتقل ہونا صحیح ہے؟
صدیق دین دار چن بسویشور کی اصلیت و حقیقت کیا ہے کیا تھی؟ ضروری بات یہ ہے کہ یہ جماعت نماز بھی پڑھتی ہے، اور نام مسلمانوں ہندووٴں کے ملے ہوئے رکھے ہیں، جیسے سید سراج الدین نرسیواوتار یا صدیق دین دار چن بسویشور ان کے نام ہیں، امید ہے کہ ہمارے لئے زحمت کریں گے ہمارے گھر والے ماموں، ممانی ان کے بچوں کے ہر جمعہ آکر تبلیغ کرنے سے حیران ہیں، کیا ہم ان کی باتوں کو مانیں یا نہ مانیں گھر میں آنے سے منع کردیں؟ اپنے بیٹوں کے لئے رشتہ مانگتے ہیں کیا ہم اپنی بہنوں کو جو کنواری ہیں اپنے صدیق دین دار چن بسویشور کے پیرو ماموں کے بیٹوں کو دے سکتے ہیں؟ شرعی حیثیت سے جوابات عنایت فرماکر ہمارے ایمان کو محفوظ رکھنے میں معاون بنیں، ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے، والدہ سنی ہیں ہم سب سنی ہیں اور بڑے چھوٹے سب مذہبی ہیں، مذہبی گھرانہ ہے۔
ج… “میزان انجمن” قادیانیوں کی بگڑی ہوئی جماعت ہے، یہ لوگ مرزا قادیانی کو “مسیح موعود” مانتے ہیں، حیدرآباد دکن میں مرزا قادیانی کا ایک مرید بابو صدیق تھا، اس کو مامور من اللہ، نبی، رسول، یوسف موعود اور ہندووٴں کا چن بسویشور اوتار مانتے ہیں۔ بابو صدیق کے بعد شیخ محمد کو مظہر خدا اور تمام رسولوں کا اوتار مانتے ہیں، اس لئے “دین دار انجمن” اور “میزان انجمن” کے تمام افراد مرزائیوں کے دوسرے فرقوں کی طرح کافر و مرتد ہیں، یہ لوگ قادیانی عقائد کے ساتھ ساتھ ہندووٴں کے تناسخ کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں، اس انجمن کے افراد کو ان کے عقائد جاننے کے باوجود مسلمان سمجھنا بھی کفر ہے۔ کسی مسلمان لڑکی کا “میزان انجمن” کے کسی مرتد سے نکاح نہیں ہوسکتا، اگر لڑکی ایسے مرتد کے حوالے کردی گئی تو ساری عمر زنا اور بدکاری کا وبال ہوگا۔ اس انجمن کو چندہ دینا اور ان کے ساتھ سماجی و معاشرتی تعلقات رکھنا حرام ہے۔ الغرض یہ مرتدوں کا ایک ٹولہ ہے جو مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے، حالانکہ ان کے عقائد خالص کفریہ ہیں۔
دین دار انجمن کا امام کافر و مرتد ہے اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی
س… نیوکراچی میں قادیانیوں کی عبادت گاہ مسجد فلاح دارین میں “دین دار جماعت” کا قادیانی یاسین پیش امام ہے، جو بہت چالاک، جھوٹا مکار اور غاصب ہے، اس نے مکاری سے کئی کوارٹر حاصل کر رکھے ہیں، کئی غریب اور کمزور لوگوں کے کوارٹروں پر خود قبضہ کر رکھا ہے اور کئی غریب اور کمزور لوگوں کے کوارٹروں کے تالے توڑ کر اپنے پالتو بدمعاشوں کا قبضہ کروا رکھا ہے، اور کئی مسلمانوں کو دھوکا دے کر مسجد کے نام سے رقم وصول کی اور مسجد میں لگانے کے بجائے اپنے گھر میں خرچ کی۔ اور اپنے پالتو بدمعاشوں کی سرپرستی اور عیاشی پر خرچ کی۔ براہ کرم آپ یہ بتائیں جن لوگوں نے لاعلمی میں مسجد کے نام پر اس کو رقم دی اس کا ثواب ان کو ملے گا یا وہ رقم برباد ہوگئی؟ اور ہمارے محلہ کے کچھ لوگ لاعلمی میں اس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے جب ان کو اس کے قادیانی ہونے کا علم ہوا تو نماز چھوڑ دی، اب لوگ قریبی بلال مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ آپ یہ بتائیں جو نمازیں ہم لوگ اب تک قادیانی یاسین کے پیچھے لاعلمی میں پڑھ چکے ہیں وہ نمازیں ہوگئیں یا ان کی قضا کرنا پڑے گی یا کوئی اور طریقہ ہے؟
ج… “دین دار انجمن” قادیانیوں کی جماعت ہے اور یہ لوگ کافر و مرتد ہیں، کسی غیرمسلم کے پیچھے پڑھی گئی نماز ادا نہیں ہوتی، جن لوگوں نے غلط فہمی کی بنا پر یاسین مرتد کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں وہ اپنی نمازیں لوٹائیں، اور مسلمانوں کو لازم ہے کہ “دین دار انجمن” کے افراد جہاں جہاں مسلمانوں کو دھوکا دے کر امامت کر رہے ہوں ان کو مسجد سے نکال دیں، ان کی تنظیم کو چندہ دینا اور ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات رکھنا حرام ہے۔
دین دار انجمن کے پیروکار مرتد ہیں ان کا مردہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے
س… ہمارے محلے میں دین دار انجمن کے نام سے ایک تنظیم کام کر رہی ہے، جس کے نگران اعلیٰ سعید بن وحید صاحب ہیں جو کہ ہمارے علاقے میں ہی رہائش رکھتے ہیں، ان کے صاحب زادے کا حال ہی میں حادثہ کی وجہ سے انتقال ہوگیا، علاقے کے مسلمانوں کے ردعمل کی وجہ سے اس کی نماز جنازہ علاقے میں نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے قبرستان میں نماز جنازہ پڑھانے کے بعد اسی قبرستان میں تدفین کردی گئی، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج… دین دار انجمن کے حالات و عقائد پروفیسر الیاس برنی مرحوم نے اپنی شہرہٴ آفاق کتاب “قادیانی مذہب” میں ذکر کئے ہیں، اور جناب مفتی رشید احمد لدھیانوی نے اس فرقہ کے عقائد پر مستقل رسالہ “بھیڑ کی صورت میں بھیڑیا” کے نام سے لکھا ہے۔
یہ جماعت، قادیانیوں کی ایک شاخ ہے، اور اس جماعت کا بانی بابو صدیق دین دار “چن بسویشور” خود بھی نبوت بلکہ خدائی کا مدعی تھا، بہرحال یہ جماعت مرتد اور خارج از اسلام ہے، ان سے مسلمانوں کا سا معاملہ جائز نہیں، ان کا جنازہ نہ پڑھا جائے، نہ ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ان مرتدین کا جو مردہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردیا گیا ہے اس کو اکھاڑنا ضروری ہے، اس کے خلاف احتجاج کیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ مسلمانوں کے قبرستان کو اس مردار سے پاک کریں۔
عقیدہٴ ختم نبوت
نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام
س… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کب آسمان سے نازل ہوں گے؟
ج… قرآن کریم اور احادیث طیبہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کو قیامت کی بڑی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے اور قیامت سے ذرا پہلے ان کے تشریف لانے کی خبر دی ہے۔ لیکن جس طرح قیامت کا معین وقت نہیں بتایا گیا کہ فلاں صدی میں آئے گی، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا وقت بھی معین نہیں کیا گیا کہ وہ فلاں صدی میں تشریف لائیں گے۔
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: “اور بے شک وہ نشانی ہے قیامت کی، پس تم اس میں ذرا بھی شک مت کرو۔” (سورہٴ زخرف)۔ بہت سے اکابر صحابہ و تابعین نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا قربِ قیامت کی نشانی ہے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
“یہ تفسیر حضرت ابوہریرہ، ابن عباس، ابوالعالیہ، ابومالک، عکرمہ، حسن بصری، قتادہ، ضحاک اور دیگر حضرات سے مروی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مضمون کی متواتر احادیث وارد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کے قیامت سے قبل تشریف لانے کی خبر دی ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر ج:۴ ص:۱۳۲)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ:
“شب معراج میں میری ملاقات حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم الصلوٰت والتسلیمات) سے ہوئی تو آپس میں قیامت کا تذکرہ ہونے لگا کہ کب آئے گی؟ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ: مجھے اس کا علم نہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا، انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی باری آئی تو انہوں نے فرمایا کہ: قیامت کے وقوع کا ٹھیک وقت تو خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ میرے رب کا مجھ سے ایک عہد ہے کہ قیامت سے پہلے جب دجال نکلے گا تو میں اس کو قتل کرنے کے لئے نازل ہوں گا، وہ مجھے دیکھ کر اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے سیسہ پگھلتا ہے، پس اللہ تعالیٰ اس کو میرے ہاتھ سے ہلاک کردیں گے، یہاں تک شجر و حجر بھی پکار اٹھیں گے کہ اے مسلم! میرے پیچھے کافر چھپا ہوا ہے، اس کو قتل کردے۔
قتل دجال کے بعد لوگ اپنے اپنے علاقے اور ملک کو لوٹ جائیں گے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد یاجوج ماجوج نکلیں گے، وہ جس چیز پر سے گزریں گے اسے تباہ کردیں گے، تب لوگ میرے پاس ان کی شکایت کریں گے، پس میں اللہ تعالیٰ سے ان کے حق میں بددعا کروں گا، پس اللہ تعالیٰ ان پر یکبارگی موت طاری کردیں گے، یہاں تک کہ زمین ان کی بدبو سے متعفن ہوجائے گی، پس اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائیں گے جو ان کے اجسام کو بہاکر سمندر میں ڈال دے گی، پس میرے رب کا مجھ سے یہ عہد ہے کہ جب ایسا ہوگا تو قیامت کی مثال پورے دنوں کی حاملہ کی سی ہوگی، جس کے بارے میں اس کے مالک نہیں جانتے کہ اچانک دن میں یا رات میں کسی وقت اس کا وضع حمل ہوجائے۔” (مسند احمد، ابن ماجہ، مستدرک حاکم، ابن جریر)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس ارشاد سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل کیا ہے، معلوم ہوا کہ ان کی تشریف آوری بالکل قربِ قیامت میں ہوگی۔
س… نیز آ پ کی کیا کیا نشانیاں دنیا پر ظاہر ہوں گی؟
ج… آپ کے زمانہ کے جو واقعات، احادیث طیبہ میں ذکر کئے گئے ہیں ان کی فہرست خاصی طویل ہے، مختصراً:
a:…آپ سے پہلے حضرت مہدی کا آنا۔
a:…آپ کا عین نماز فجر کے وقت اترنا۔
a:…حضرت مہدی کا آپ کو نماز کے لئے آگے کرنا اور آپ کا انکار فرمانا۔
a:…نماز میں آپ کا قنوتِ نازلہ کے طور پر یہ دعا پڑھنا: “قتل الله الدجال۔”
a:…نماز سے فارغ ہوکر آپ کا قتل دجال کے لئے نکلنا۔
a:…دجال کا آپ کو دیکھ کر سیسے کی طرح پگھلنے لگنا۔
a:…”باب لُدّ” نامی جگہ پر (جو فلسطین شام میں ہے) آپ کا دجال کو قتل کرنا، اور اپنے نیزے پر لگا ہوا دجال کا خون مسلمانوں کو دکھانا۔
a:…قتل دجال کے بعد تمام دنیا کا مسلمان ہوجانا، صلیب کے توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے کا عام حکم دینا۔
a:…آپ کے زمانہ میں امن و امان کا یہاں تک پھیل جانا کہ بھیڑئیے، بکریوں کے ساتھ اور چیتے گائے بیلوں کے ساتھ چرنے لگیں اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلنے لگیں۔
a:…کچھ عرصہ بعد یاجوج ماجوج کا نکلنا اور چارسو فساد پھیلانا۔
a:…ان دنوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنے رفقاء سمیت کوہ طور پر تشریف لے جانا اور وہاں خوراک کی تنگی پیش آنا۔
a:…بالآخر آپ کی بددعا سے یاجوج ماجوج کا یکدم ہلاک ہوجانا اور بڑے بڑے پرندوں کا ان کی لاشوں کو اٹھاکر سمندر میں پھینکنا۔
a:…اور پھر زور کی بارش ہونا اور یاجوج ماجوج کے بقیہ اجسام اور تعفن کو بہاکر سمندر میں ڈال دینا۔
a:…حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عرب کے ایک قبیلہ بنوکلب میں نکاح کرنا اور اس سے آپ کی اولاد ہونا۔
a:…”فج الروحا” نامی جگہ پہنچ کر حج و عمرہ کا احرام باندھنا۔
a:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ اطہر پر حاضری دینا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہٴ اطہر کے اندر سے جواب دینا۔
a:…وفات کے بعد روضہٴ اطہر میں آپ کا دفن ہونا وغیرہ وغیرہ۔
a:…آپ کے بعد “مقعد” نامی شخص کو آپ کے حکم سے خلیفہ بنایا جانا اور مقعد کی وفات کے بعد قرآن کریم کا سینوں اور صحیفوں سے اٹھ جانا۔
a:…اس کے بعد آفتاب کا مغرب سے نکلنا، نیز دابة الارض کا نکلنا اور موٴمن و کافر کے درمیان امتیازی نشان لگانا وغیرہ وغیرہ۔
س… یہ کس طرح ظاہر ہوگا کہ آپ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں؟
ج… آپ کا یہ سوال عجیب دلچسپ سوال ہے، اس کو سمجھنے کے لئے آپ صرف دو باتیں پیش نظر رکھیں:
اول:…کتب سابقہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات و علامات ذکر کی گئی تھیں، جو لوگ ان علامات سے واقف تھے ان کے بارے میں قرآن کریم کا بیان ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا پہچانتے ہیں جیسا اپنے لڑکوں کو پہچانتے ہیں۔ اگر کوئی آپ سے دریافت کرے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پہچانا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ تو اس کے جواب میں آپ کیا فرمائیں گے؟ یہی نا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات جو کتب سابقہ میں مذکور تھیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر منطبق کرنے کے بعد ہر شخص کو فوراً یقین آجاتا تھا کہ آپ وہی نبی آخر الزمان ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو صفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کی ہیں ان کو سامنے رکھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی تعیین میں کسی کو ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں ہوسکتا۔ ہاں! کوئی شخص ان ارشاداتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقف ہو یا کج فطری کی بنا پر ان کے چسپاں کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو، یا محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس سے پہلوتہی کرے تو اس کا مرض لاعلاج ہے۔
دوم:…بعض قرائن ایسے ہوا کرتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں آدمی یقین لانے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اسے مزید دلیل کی احتیاج نہیں رہ جاتی، مثلاً آپ دیکھتے ہیں کہ کسی مکان کے سامنے محلے بھر کے لوگ جمع ہیں، پورا مجمع افسردہ ہے، گھر کے اندر کہرام مچا ہوا ہے، درزی کفن سی رہا ہے، کچھ لوگ پانی گرم کر رہے ہیں، کچھ قبر کھودنے جارہے ہیں، اس منظر کو دیکھنے کے بعد آپ کو یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ کیا یہاں کسی کا انتقال ہوگیا ہے؟ اور اگر آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ فلاں صاحب کافی مدت سے صاحبِ فراش تھے اور ان کی حالت نازک تر تھی تو آپ کو یہ منظر دیکھ کر فوراً یقین آجائے گا کہ ان صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کی خاص کیفیت، خاص وقت، خاص ماحول اور خاص حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، جب وہ پورا نقشہ اور سارا منظر سامنے آئے گا تو کسی کو یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ یہ واقعی عیسیٰ علیہ السلام ہیں یا نہیں؟
تصور کیجئے! حضرت مہدی عیسائیوں کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں، اتنے میں اطلاع آتی ہے کہ دجال نکل آیا ہے، آپ اپنے لشکر سمیت بہ عجلت بیت المقدس کی طرف لوٹتے ہیں، اور دجال کے مقابلے میں صف آراء ہوجاتے ہیں، دجال کی فوجیں اسلامی لشکر کا محاصرہ کرلیتی ہیں، مسلمان انتہائی تنگی اور سراسیمگی کی حالت میں محصور ہیں، اتنے میں سحر کے وقت ایک آواز آتی ہے: “قد اتاکم الغوث!” (تمہارے پاس مددگار آپہنچا!)، اپنی زبوں حالی کو دیکھ کر ایک شخص کے منہ سے بے ساختہ نکل جاتا ہے کہ: “یہ کسی پیٹ بھرے کی آواز معلوم ہوتی ہے۔” پھر اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے سفید منارہ کے پاس نزول فرماتے ہیں اور عین اس وقت لشکر میں پہنچتے ہیں جبکہ صبح کی اقامت ہوچکی ہے اور امام مصلیٰ پر جاچکا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام کوائف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں جب وہ ایک ایک کرکے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آئیں گے تو کون ہوگا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت سے محروم رہ جائے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی صفات و علامات، ان کا حلیہ اور ناک نقشہ، ان کے زمانہٴ نزول کے سیاسی حالات اور ان کے کارناموں کی جزئیات اس قدر تفصیل سے بیان فرمائی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ جب یہ پورا نقشہ لوگوں کے سامنے آئے گا تو ایک لمحہ کے لئے کسی کو ان کی شناخت میں تردد نہیں ہوگا۔ چنانچہ کسی کمزور سے کمزور روایت میں بھی یہ نہیں آتا کہ ان کی تشریف آوری پر لوگوں کو ان کے پہچاننے میں دقت پیش آئے گی، یا یہ کہ ان کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہوجائے گا، کوئی ان کو مانے گا اور کوئی نہیں مانے گا، اس کے برعکس یہ آتا ہے کہ مسلمان تو مسلمان، دجال کے لشکر سے نمٹنے کے بعد غیرمذاہب کے لوگ بھی سب کے سب مسلمان ہوجائیں گے اور دنیا پر صرف اسلام کی حکمرانی ہوگی۔
یہ بھی عرض کردینا مناسب ہوگا کہ گزشتہ صدیوں سے لے کر اس رواں صدی تک بہت سے لوگوں نے مسیحیت کے دعوے کئے اور بہت سے لوگ اصل و نقل کے درمیان تمیز نہ کرسکے، اور ناواقفی کی بنا پر ان کے گرویدہ ہوگئے، لیکن چونکہ وہ واقعتا “مسیح” نہیں تھے، اس لئے وہ دنیا کو اسلام پر جمع کرنے کے بجائے مسلمانوں کو کافر بناکر اور ان کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈال کر چلتے بنے۔ ان کے آنے سے نہ فتنہ و فساد میں کمی ہوئی، نہ کفر و فسق کی ترقی رک سکی، آج زمانے کے حالات ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ وہ اس تاریک ماحول میں اتنی روشنی بھی نہ کرسکے جتنی کہ رات کی تاریکی میں جگنو روشنی کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھے کہ ان کی من مانی تاویلات کے ذریعہ ان کی مسیحیت کا سکہ چل نکلے گا، لیکن افسوس کہ ان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمودہ علامات اتنی بھی چسپاں نہ ہوئیں جتنی کہ ماش کے دانے پر سفیدی، کسی کو اس میں شک ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد فرمودہ نقشہ کو سامنے رکھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد فرمودہ ایک ایک علامت کو ان مدعیوں پر چسپاں کرکے دیکھے، اونٹ سوئی کے ناکے سے گزرسکتا ہے مگر ان مدعیوں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفات و علامات منطبق نہیں ہوسکتیں۔ کاش! ان لوگوں نے بزرگوں کی یہ نصیحت یاد رکھی ہوتی:
بصاحب نظرے بنما گوہر خود را
عیسیٰ نتواں گشت بہ تصدیق خرے چند
خاتم النبیین کا صحیح مفہوم وہ ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے
س… ایک بزرگ نے خاتم النبیین یا لفظ خاتمیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
“اسلام کو خاتم الادیان کا اور پیغمبر اسلام کو خاتم الانبیاء کا خطاب دیا گیا ہے۔ خاتمیت کے دو معنے ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ کوئی چیز ناقص اور غیرمکمل ہو اور وہ رفتہ رفتہ کامل ہوجائے، دوسرے یہ کہ وہ چیز نہ افراط کی مد پر ہو نہ تفریط کی مد پر بلکہ دونوں کے درمیان ہو جس کا نام اعتدال ہے۔ اسلام دونوں پہلووٴں سے خاتم الادیان ہے، اس میں کمال اور اعتدال دونوں پائے جاتے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اس عالیشان عمارت کی آخری اینٹ ہوں جس کو گزشتہ انبیاء تعمیر کرتے آئے ہیں، یہ اسلام کے کمال کی طرف اشارہ ہے، اسی طرح قرآن مجید میں ہے کہ مذہب اسلام ایک معتدل اور متوسط طریقہ کا نام ہے اور مسلمانوں کی قوم ایک معتدل قوم پیدا کی گئی ہے اس سے اسلام کے اعتدال کا ثبوت ملتا ہے۔” کیا خاتم النبیین کا یہ مفہوم صحیح ہے اور سبھی فرقوں کا اس پر اتفاق ہے؟ راہنمائی فرماکر ممنون فرماویں۔
ج… “خاتم الانبیاء” کا وہی مفہوم ہے جو قرآن و حدیث کے قطعی نصوص سے ثابت اور امت کا متواتر اور اجماعی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم “آخری نبی” ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت عطا نہیں کی جائے گی، اس مفہوم کو باقی رکھ کر اس لفظ میں جو نکات بیان کئے جائیں وہ سر آنکھوں پر، اپنی عقل و فہم کے مطابق ہر صاحبِ علم نکات بیان کرسکتا ہے، لیکن اگر ان نکات سے متواتر مفہوم اور متواتر عقیدہ کی نفی کی جائے، تو یہ ضلالت و گمراہی ہوگی اور ایسے نکات مردود ہوں گے۔
خاتم النبیین اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام
س… خاتم النبیین کے کیا معنی ہیں؟ آخری نبی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں عطا کی جائے گی۔ مولانا صاحب! اگر خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا تو حضرت عائشہ کے قول کی وضاحت کردیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: “اے لوگو! یہ تو کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے، مگر یہ نہ کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔” (حضرت عائشہ، تکملہ مجمع البحار)۔
ج… اسی تکملہ مجمع البحار میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے پیش نظر فرمایا ہے۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ملی تھی اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا منشا یہ ہے کہ کوئی بددین خاتم النبیین کے لفظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نہ آنے پر استدلال نہ کرے، جیسا کہ مرزا قادیانی نے کہا ہے کہ آیت خاتم النبیین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کو روکتی ہے۔ پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد مرزا قادیانی کی تردید و تکذیب کے لئے ہے۔
س… مہدی اس دنیا میں کب تشریف لائیں گے؟ اور کیا مہدی اور عیسیٰ ایک ہی وجود ہیں؟
ج… حضرت مہدی رضوان اللہ علیہ، آخری زمانہ میں قربِ قیامت میں ظاہر ہوں گے، ان کے ظہور کے تقریباً سات سال بعد دجال نکلے گا اور اس کو قتل کرنے کے لئے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ مرزا قادیانی نے خودغرضی کے لئے عیسیٰ اور مہدی کو ایک ہی وجود فرض کرلیا، حالانکہ تمام اہل حق اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں۔
نبوت تشریعی اور غیرتشریعی میں فرق
س… ام الموٴمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
“قولوا انہ خاتم النبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ۔”
ج… تکملہ مجمع البحار میں علامہ محمد طاہر پٹنی نے یہ قول نقل کرکے لکھا ہے:
“وھذا ناظر الی نزول عیسیٰ۔”
یعنی یہ ارشاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے پیش نظر فرمایا۔
س… امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں: “مطلق نبوت نہیں اٹھائی گئی محض تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے۔ جس کی تائید حدیث میں حفظ القرآن ․․․․الخ۔ سے بھی ہوتی ہے (جس کے معنی یہ ہیں کہ جس نے قرآن حفظ کرلیا اس کے دونوں پہلووٴں سے نبوت بلاشبہ داخل ہوگئی) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول مبارک “لا نبی بعدی ولا رسول” سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو شریعت لے کر آئے۔ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں: “جو نبوت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے منقطع ہوئی ہے وہ صرف غیرتشریعی نبوت ہے نہ کہ مقامِ نبوت۔” اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے اس لئے اس نے ان کی خاطر تشریعی نبوت باقی رکھی۔ مذکورہ بالا دو اقوال واضح فرمادیں۔ تشریعی اور غیرتشریعی بھی واضح فرمادیں، کیا اس کو اپنے لئے دلیل بناسکتے ہیں؟
ج… شیخ ابن عربی اولیاء اللہ کے کشف و الہام کو “نبوت” کہتے ہیں اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو جو منصب عطا کیا جاتا ہے اسے “نبوت تشریعی” کہتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی اصطلاح ہے۔ چونکہ انبیاء کرام کی نبوت ان کے نزدیک تشریع کے بغیر نہیں ہوتی اس لئے ولایت والی نبوت واقعتا نبوت ہی نہیں۔ علامہ شعرانی اور شیخ ابن عربی بھی انبیاء کرام والی نبوت (جو ان کی اصطلاح میں نبوت تشریعی کہلاتی ہے) کو ختم مانتے ہیں اور ولایت کو جاری۔ اور یہی عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہے، فرق صرف اصطلاح کا ہے۔ والله اعلم!
کیا پاکستانی آئین کے مطابق کسی کو مصلح یا مجدد ماننا کفر ہے؟
س… آپ کے اور میرے علم کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے، لیکن پاکستانی آئین کے مطابق، جو بھٹو دور میں بنا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی مصلح، کوئی مجدد یا کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اگر کوئی شخص اس بات پر یقین رکھتا ہے تو وہ غیرمسلم ہے۔ اس لحاظ سے تو میں اور آپ بھی غیرمسلم ہوئے، کیونکہ آپ نے بعض سوالات کے جوابات میں کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی تشریف لائیں گے، براہ مہربانی اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں۔
ج… جناب نے آئین پاکستان کی جس دفعہ کا حوالہ دیا ہے اس کے سمجھنے میں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، اور آپ نے اس کو نقل بھی غلط کیا ہے۔ آئین کی دفعہ ۲۶۰ (۳) کا پورا متن یہ ہے:
“جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم (جو آخری نبی ہیں) کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیرمشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو شخص کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے۔”
آئین کی اس دفعہ میں ایک ایسے شخص کو غیرمسلم کہا گیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت جاری ہونے کا قائل ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے حصول کا مدعی ہو یا ایسے مدعیٴ نبوت کو اپنا دینی پیشوا تسلیم کرتا ہو۔
حضرت مہدی رضی اللہ عنہ نبی نہیں ہوں گے، نہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، اور نہ کوئی ان کو نبی مانتا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلاشبہ نبی ہیں، مگر ان کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں ملی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو سال پہلے مل چکی ہے۔ مسلمان ان کی تشریف آوری کے بعد ان کی نبوت پر ایمان نہیں لائیں گے بلکہ مسلمانوں کا ان کی نبوت پر پہلے سے ایمان ہے، جس طرح حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء کرام کی نبوت پر ایمان ہے (علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰت والتسلیمات)۔ اس لئے آئینِ پاکستان کی اس دفعہ کا اطلاق نہ تو حضرت مہدی رضی اللہ عنہ پر ہوتا ہے، کیونکہ وہ مدعیٴ نبوت نہیں ہوں گے، نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہوتا ہے، کیونکہ ان کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی ہے نہ کہ بعد کی، اور نہ ان مسلمانوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو ان حضرات کی تشریف آوری کے قائل ہیں۔
اس دفعہ کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حاصل ہونے والی نبوت کا دعویٰ کیا۔ “یا ایھا الناس انی رسول الله الیکم جمیعا۔” (الاعراف:۱۵۸) کا نعرہ لگایا، اور لوگوں کو اس نئی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، نیز اس کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے ایسے لوگوں کو اپنا دینی مصلح اور پیشوا تسلیم کیا اور ان کی جماعت میں داخل ہوئے۔
امید ہے یہ مختصر سی وضاحت آپ کی غلط فہمی رفع کرنے کے لئے کافی ہوگی۔
ختم نبوت کی تحریک کی ابتداء کب ہوئی؟
س… ختم نبوت کی تحریک کی ابتداء کب ہوئی؟ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب جھوٹے مدعیانِ نبوت نے دعویٰ کیا تھا یا کسی اور دور میں؟
ج… ختم نبوت کی تحریک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: “انا خاتم النبیین لا نبی بعدی” سے ہوئی۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد کرکے اس تحریک کو پروان چڑھایا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کس عمر میں نازل ہوں گے؟
س… ہم سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ حدیث کی روشنی میں بیان کریں کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں پیدا ہوں گے یا پھر اس عمر میں تشریف لائیں گے جس عمر میں آپ کو آسمان پر اللہ تعالیٰ نے اٹھالیا۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ سے گزارش کروں گا کہ جواب ضرور دیں اس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ کی اس کاوش سے چند قادیانی اپنا عقیدہ درست کرلیں، یہ ایک قسم کا جہاد ہے، آپ کی تحریر ہمارے لئے سند کا درجہ رکھتی ہے۔
ج… حضرت عیسیٰ علیہ السلام جس عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے اسی عمر میں نازل ہوں گے، ان کا آسمان پر قیام ان کی صحت اور عمر پر اثر انداز نہیں، جس طرح اہل جنت، جنت میں سدا جوان رہیں گے اور وہاں کی آب و ہوا ان کی صحت اور عمر کو متأثر نہیں کرے گی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جہاں اس وقت قیام فرما ہیں، وہاں زمین کے نہیں آسمان کے قوانین جاری ہیں، قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ: “تیرے رب کا ایک دن تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس کے برابر ہے۔”
اس قانونِ آسمانی کے مطابق ابھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہاں سے گئے ہوئے دو دن بھی نہیں گزرے۔ آپ غور فرماسکتے ہیں کہ صرف دو دن کے انسان کی صحت و عمر میں کیا کوئی نمایاں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے؟
مشکل یہ ہے کہ ہم معاملاتِ الٰہیہ کو بھی اپنی عقل و فہم اور مشاہدہ و تجربہ کے ترازو میں تولنا چاہتے ہیں، ورنہ ایک موٴمن کے لئے فرمودہٴ خدا اور رسول سے بڑھ کر یقین و ایمان کی کون سی بات ہوسکتی ہے؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ پیدا ہونے کا سوال تو جب پیدا ہوتا کہ وہ مرچکے ہوتے، زندہ تو دوبارہ پیدا نہیں ہوا کرتا، اور پھر کسی مرے ہوئے شخص کا کسی اور قالب میں دوبارہ جنم لینا تو “آواگون” ہے جس کے ہندو قائل ہیں۔ کسی مدعیٴ اسلام کا یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانیت نے اس کے قالب میں دوبارہ جنم لیا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی کے تشریف لائیں گے یا بحیثیت امتی کے؟
س… حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی تشریف لائیں گے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے؟ اگر آپ بحیثیت نبی تشریف لائیں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین کیسے ہوئے؟
ج… حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو بدستور نبی ہوں گے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ان کی شریعت منسوخ ہوگئی اور ان کی نبوت کا دور ختم ہوگیا۔ اس لئے جب وہ تشریف لائیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی کریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ ان کی تشریف آوری ختم نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ نبی آخر الزمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مل چکی تھی۔
کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کے متعلق قرآن خاموش ہے؟
س… زید یہ اعتقاد رکھے اور بیان کرے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے یا وفات دئیے جانے کے بارے میں قرآن پاک خاموش ہے، جیسا کہ زید کی یہ عبارت ہے: “قرآن نہ اس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ ان کو جسم و روح کے ساتھ کرہٴ زمین سے اٹھاکر آسمان پر کہیں لے گیا اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی روح اٹھائی گئی، اس لئے قرآن کی بنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے اور نہ اثبات۔”
تو زید جو یہ بیان کرتا ہے، آیا اس بیان کی بنا پر مسلمان کہلائے گا یا کافر؟ وضاحت فرمائیں۔
ج… جو عبارت سوال میں نقل کی گئی ہے، یہ مودودی صاحب کی تفہیم القرآن کی ہے، بعد کے ایڈیشنوں میں اس کی اصلاح کردی گئی ہے۔ اس لئے اس پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا البتہ گمراہ کن غلطی قرار دیا جاسکتا ہے۔
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کی تصریح “بل رفعہ الله الیہ” اور “انی متوفیک ورافعک الی” میں موجود ہے۔ چنانچہ تمام ائمہ تفسیر اس پر متفق ہیں کہ ان آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کو ذکر فرمایا ہے اور رفع جسمانی پر احادیث متواترہ موجود ہیں۔ قرآن کریم کی آیات کو احادیث متواترہ اور امت کے اجماعی عقیدہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ آیات رفع جسمانی میں قطعی دلالت کرتی ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن کریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کی تصریح نہیں کرتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کس طرح پہچانا جائے گا؟
س… اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر جسم کے ساتھ موجود ہیں تو جب وہ اتریں گے تو لازم ہے کہ ہر شخص ان کو اترتے ہوئے دیکھ لے گا، اس طرح تو پھر انکار کی گنجائش ہی نہیں، اور سب لوگ ان پرایمان لے آئیں گے۔
ج… جی ہاں! یہی ہوگا اور قرآن و حدیث نبوی میں یہی خبر دی گئی ہے، قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تذکرہ میں ہے:
“اور نہیں کوئی اہل کتاب میں سے، مگر ضرور ایمان لائے گا اس پر اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن وہ ہوگا ان پر گواہ۔” (النساء )
اور حدیث شریف میں ہے:
“اور میں سب لوگوں سے زیادہ قریب ہوں عیسیٰ بن مریم کے کیونکہ میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا، پس جب تم اس کو دیکھو تو اس کو پہچان لینا۔ قد میانہ، رنگ سرخ و سفید، بال سیدھے، بوقت نزول ان کے سر سے گویا قطرے ٹپک رہے ہوں گے، خواہ ان کو تری نہ بھی پہنچی ہو، ہلکے رنگ کی دو زرد چادریں زیب تن ہوں گی، پس صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کو بند کردیں گے اور تمام مذاہب کو معطل کردیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کردیں گے، اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں مسیح دجال کذاب کو ہلاک کردیں گے۔ زمین میں امن و امان کا دور دورہ ہوجائے گا، یہاں تک کہ اونٹ شیروں کے ساتھ، چیتے گائے کے ساتھ اور بھیڑئیے بکریوں کے ساتھ چریں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے، ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، پس جتنا عرصہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا زمین پر رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی، پس مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور انہیں دفن کریں گے۔ (مسند احمد ج:۲ ص:۴۳۷، فتح الباری ج:۶ ص:۴۹۳، مطبوعہ لاہور۔ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ص:۱۶۱)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مشن کیا ہوگا؟
س… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تشریف لانے کا مقصد کیا ہے اور ان کا مشن کیا ہوگا؟ جبکہ دین اسلام اللہ تعالیٰ کا مکمل اور پسندیدہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی آمد عیسائیوں کی اصلاح کے لئے ہوسکتی ہے۔
اگر اسلام کے لئے تسلیم کرلیا جائے تو ہمارے آخر الزمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ میں کمی ہوگی، برائے نوازش اخبار کے ذریعہ میرے سوال کا جواب دے کر ایسے ذہنوں کو مطمئن کیجئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مشن کیا ہوگا؟
ج… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کا مشن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پوری تفصیل و وضاحت سے ارشاد فرمادیا ہے، اس سلسلے میں متعدد احادیث میں پہلے نقل کرچکا ہوں، یہاں صرف ایک حدیث پاک کا حوالہ دینا کافی ہے۔
“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: انبیاء علّاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں الگ ہیں مگر ان کا دین ایک ہے، اور میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے سب سے زیادہ تعلق رکھنے والا ہوں کیونکہ ان کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا اور وہ نازل ہونے والے ہیں، پس جب ان کو دیکھو تو پہچان لو۔
قامت میانہ، رنگ سرخ و سفیدی ملا ہوا، ہلکے زرد رنگ کی دو چادریں زیب تن کئے نازل ہوں گے۔ سر مبارک سے گویا قطرے ٹپک رہے ہیں، گو اس کو تری نہ پہنچی ہو، پس وہ نازل ہوکر صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور تمام لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے، پس اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کردیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے۔ روئے زمین پر امن و امان کا دور دورہ ہوجائے گا۔ شیر اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑئیے بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے۔ بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہ دیں گے۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام زمین میں چالیس برس ٹھہریں گے، پھر ان کی وفات ہوگی، مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور ان کو دفن کریں گے۔”
(مسند احمد ج:۲ ص:۴۰۶، فتح الباری ج:۶ ص:۲۵۷)
اس ارشاد پاک سے ظاہر ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اصل مشن یہود و نصاریٰ کی اصلاح اور یہودیت و نصرانیت کے آثار سے روئے زمین کو پاک کرنا ہے، مگر چونکہ یہ زمانہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و بعثت کا ہے اس لئے وہ امت محمدیہ کے ایک فرد بن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور خلیفہ کی حیثیت میں تشریف لائیں گے۔
چنانچہ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
“سن رکھو کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے اور میرے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں ہوا، سن رکھو کہ وہ میرے بعد میری امت میں میرے خلیفہ ہیں، سن رکھو کہ وہ دجال کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، جزیہ بند کردیں گے، لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے گی، سن رکھو جو شخص تم سے ان کو پائے ان سے میرا سلام کہے۔”
(مجمع الزوائد ج:۲ ص:۲۰۵، در منثور ج:۲ ص:۲۴۲)
اس لئے اسلام کی جو خدمت بھی وہ انجام دیں گے اور ان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم کی حیثیت سے امت محمدیہ میں آکر شامل ہونا ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کمی کا باعث نہیں بلکہ آپ کی سیادت و قیادت اور شرف و منزلت کا شاہکار ہے، اس وقت دنیا دیکھ لے گی کہ واقعی تمام انبیاء گزشتہ (علیٰ نبینا وعلیہم الصلوات والتسلیمات) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع ہیں، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اطاعت کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔” (مشکوٰة شریف ص:۳۰)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں
س… جیسا کہ احادیث و قرآن کی روشنی میں واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں، اب ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کون سے آسمان پر ہیں اور ان کے انسانی ضروریات کے تقاضے کیسے پورے ہوتے ہوں گے؟ مثلاً: کھانا پینا، سونا جاگنا اور انس و الفت اور دیگر اشیاء ضرورت انسان کو کیسے ملتی ہوں گی؟ وضاحت کرکے مطمئن کریں۔
ج… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر زندہ اٹھایا جانا، اور قربِ قیامت میں دوبارہ زمین پر نازل ہونا تو اسلام کا قطعی عقیدہ ہے، جس پر قرآن و سنت کے قطعی دلائل قائم ہیں اور جس پر امت کا اجماع ہے۔ حدیث معراج میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عیسیٰ سے دوسرے آسمان پر ملاقات ہوئی تھی، آسمان پر مادی غذا اور بول و براز کی ضرورت پیش نہیں آتی جیسا کہ اہل جنت کو ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و نزول
قرآن و حدیث کی روشنی میں
س… کیا قرآن مجید میں کہیں ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے؟ اور وہی آکر امام مہدی ہونے کا دعویٰ کریں گے؟
ج… سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کا مضمون قرآن کریم کی کئی آیتوں میں ارشاد ہوا ہے، اور یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ متواتر احادیث جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی اطلاع دی گئی ہے اور جن پر بقول مرزا صاحب کے “امت کا اعتقادی تعامل چلا آرہا ہے” وہ سب انہی آیات کریمہ کی تفسیر ہیں۔
پہلی آیت:
سورة الصف آیت:۹ میں ارشاد ہے: “وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول، ہدایت اور دین حق دے کر تاکہ اسے غالب کردے تمام دینوں پر، اگرچہ کتنا ہی ناگوار ہو مشرکوں کو۔”
“یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے، اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعے سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دینِ اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔ لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے ․․․․․․ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیش گوئی میں ابتداء سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ یعنی حضرت مسیح پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر۔”
(براہین احمدیہ مصنفہ مرزا غلام احمد صاحب ص:۴۹۸، ۴۹۹، روحانی خزائن ج:۱ ص:۵۹۳، ۵۹۴)
“یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کردے یعنی ایک عالم گیر غلبہ اس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عالم گیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو اس لئے آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا۔” (چشمہ معرفت مصنفہ مرزا غلام احمد صاحب
ص:۸۳، ۹۱، روحانی خزائن ج:۲۳ ص۹۱)
جناب مرزا صاحب کی اس تفسیر سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
۱:…اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی طور پر دوبارہ آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
۲:…مرزا صاحب پر بذریعہ الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس آیت کی پیش گوئی کا جسمانی اور ظاہری طور پر مصداق ہیں۔
۳:…امت کے تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ اسلام کا غلبہ کاملہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں ہوگا۔
جناب مرزا صاحب کی اس الہامی تفسیر سے جس پر تمام مفسرین کے اتفاق کی مہر بھی ثبت ہے، یہ ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کے اس قرآنی وعدہ کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ضرور دوبارہ تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے کہ: “اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تمام مذاہب کو مٹادیں گے۔”
(ابوداوٴد، مسند احمد، مستدرک حاکم)
بعد میں جناب مرزا صاحب نے خود مسیحیت کا منصب سنبھال لیا لیکن یہ تو فیصلہ آپ کرسکتے ہیں کہ کیا ان کے زمانے میں اسلام کو غلبہ کاملہ نصیب ہوا؟ نہیں! بلکہ اس کے برعکس یہ ہوا کہ دنیا بھر کے مسلمان جناب مرزا صاحب کو نہ ماننے کی وجہ سے کافر ٹھہرے، ادھر مسلمانوں نے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کو اسلام سے الگ ایک فرقہ سمجھا، نتیجہ یہ کہ اسلام کا وہ غلبہ کاملہ ظہور میں نہ آیا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے مقدر تھا۔ اس لئے جناب مرزا صاحب کے دعویٴ مسیحیت کے باوجود زمانہ قرآن کے وعدے کا منتظر ہے اور یقین رکھنا چاہئے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اس وعدے کے ایفاء کے لئے خود بنفس نفیس تشریف لائیں گے، کیونکہ بقول مرزا صاحب ․․․ “ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو۔”
دوسری آیت:
سورة النساء آیت:۱۵۹ میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے اور تمام اہل کتاب کے ان پر ایمان لانے کی خبر دی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
“اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لاوے گا ساتھ اس کے موت اس کی کے پہلے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر ان کے گواہ۔”
(فصل الخطاب ج:۲ ص:۸۰ موٴلفہ حکیم نور دین قادیانی)
حکیم صاحب کا ترجمہ بارہویں صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے فارسی ترجمہ کا گویا اردو ترجمہ ہے۔ شاہ صاحب اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
“یعنی یہودی کہ حاضر شوند نزول عیسیٰ را البتہ ایمان آرند۔”
ترجمہ:…”یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو یہودی نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت موجود ہوں گے وہ ایمان لائیں گے۔”
اس آیت کے ترجمہ سے معلوم ہوا کہ:
۱:…عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانے میں دوبارہ تشریف لانا مقدر ہے۔
۲:…تب سارے اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔
۳:…اور اس کے بعد ان کی وفات ہوگی۔
پورے قرآن مجید میں صرف اس موقع پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا ذکر ہے جس سے پہلے تمام اہل کتاب کا ان پر ایمان لانا شرط ہے۔
اب اس آیت کی وہ تفسیر ملاحظہ فرمائیے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔
صحیح بخاری ج:۱ ص:۴۹۰ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات میں امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے: “باب نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام” اور اس کے تحت یہ حدیث ذکر کی ہے۔
“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! البتہ قریب ہے کہ نازل ہوں تم میں ابن مریم حاکمِ عادل کی حیثیت سے، پس توڑدیں گے صلیب کو اور قتل کریں گے خنزیر کو اور موقوف کریں گے لڑائی اور بہ پڑے گا مال، یہاں تک کہ نہیں قبول کرے گا اس کو کوئی شخص، یہاں تک کہ ایک سجدہ بہتر ہوگا دنیا بھر کی دولت سے۔ پھر فرماتے تھے ابوہریرہ کہ پڑھو اگر چاہو قرآن کریم کی آیت: “اور نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا حضرت عیسیٰ پر ان کی موت سے پہلے اور ہوں گے عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان پر گواہ۔”
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی قرآن کی اس آیت کی تفسیر ہے اسی لئے حضرت ابوہریرہ نے اس کے لئے آیت کا حوالہ دیا۔ امام محمد بن سیرین کا ارشاد ہے کہ ابوہریرہ کی ہر حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے۔
(طحاوی شریف ج:۱ ص:۲۱)
بخاری شریف کے اسی صفحہ پر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کی خبر دیتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے “وامامکم منکم” فرمایا۔
یہ حدیث بھی حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں حدیثوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں حاکمِ عادل کی حیثیت سے اس امت میں تشریف لانا۔
۲:…کنز العمال ج:۷ ص:۲۶۷ (حدیث نمبر:۳۹۷۲۶ ص:۲۵۷) میں بروایت ابن عباس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “میرے بھائی عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے ․․․․․ الخ۔”
۳:…امام بیہقی کی کتاب الاسماء والصفات ص:۴۲۴ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “تم کیسے ہوگے جب عیسیٰ بن مریم تم میں آسمان سے نازل ہوں گے اور تم میں شامل ہوکر تمہارے امام ہوں گے۔”
۴:…تفسیر در منثور ج:۲ ص:۲۴۲ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “میرے اور عیسیٰ بن مریم کے درمیان کوئی نبی اور رسول نہیں ہوا، دیکھو! وہ میرے بعد میری امت میں میرے خلیفہ ہوں گے۔”
۵:…ابوداوٴد ص:۵۹۴ اور مسند احمد ج:۲ ص:۴۰۶ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “انبیاء کرام باپ شریک بھائی ہیں۔ ان کی مائیں (شریعتیں) الگ الگ ہیں اور دین سب کا ایک ہے، اور مجھے سب سے زیادہ تعلق عیسیٰ بن مریم سے ہے کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا۔ اور بے شک وہ تم میں نازل ہوں گے پس جب ان کو دیکھو تو پہچان لینا، ان کا حلیہ یہ ہے قد میانہ، رنگ سرخ و سفید، دو زرد رنگ کی چادریں زیب بدن ہوں گی، سر سے گویا قطرے ٹپک رہے ہوں گے، خواہ ان کو تری نہ پہنچی ہو، پس لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے، پس صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں تمام مذاہب کو مٹادیں گے اور مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے، پس زمین میں چالیس برس ٹھہریں گے، پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے۔”
یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں جن سے آیت زیر بحث کی تشریح ہوجاتی ہے۔
اب چند صحابہ و تابعین کی تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیے:
۱:…مستدرک حاکم ج:۲ ص:۳۰۹، در منثور ج:۲ ص:۲۴۱، اور تفسیر ابن جریر ج:۶ ص:۱۴ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کی خبر دی گئی ہے اور یہ کہ جب وہ تشریف لائیں گے تو ان کی موت سے پہلے سب اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔
۲:…ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس آیت کی تفسیر یہ فرماتی ہیں کہ ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے گا اور جب وہ قیامت سے پہلے آسمان سے نازل ہوں گے تو اس وقت جتنے اہل کتاب ہوں گے آپ کی موت سے پہلے آپ پر ایمان لائیں گے۔ (تفسیر در منثور ج:۲ ص:۲۴۱)
۳:…در منثور کے مذکورہ صفحہ پر یہی تفسیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے حضرت محمد بن الحنفیہ سے منقول ہے۔
۴:…اور تفسیر ابن جریر ج:۶ ص:۱۴ میں یہی تفسیر اکابر تابعین حضرت قتادہ، حضرت محمد بن زید مدنی (امام مالک کے استاذ)، حضرت ابومالک غفاری اور حضرت حسن بصری سے منقول ہے۔ حضرت حسن بصری کے الفاظ یہ ہیں: “آیت میں جس ایمان لانے کا ذکر ہے یہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ہوگا۔ اللہ کی قسم! وہ ابھی آسمان پر زندہ ہیں، لیکن آخری زمانے میں جب وہ نازل ہوں گے تو ان پر سب لوگ ایمان لائیں گے۔”
اس آیت کی جو تفسیر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین سے نقل کی ہے بعد کے تمام مفسرین نے اسے نقل کیا ہے اور اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے، لہٰذا کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کی خبر دی ہے اور دورِ نبوی سے آج تک یہی عقیدہ مسلمانوں میں متواتر چلا آرہا ہے۔
تیسری آیت:
سورہٴ زخرف آیت:۶۱ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہے: “اور وہ نشانی ہے قیامت کی، پس تم اس میں مت شک کرو۔”
اس آیت کی تفسیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے صحابہ و تابعین کا ارشاد ہے کہ: عیسیٰ علیہ السلام کا آخری زمانہ میں نازل ہونا قربِ قیامت کی نشانی ہوگی۔
۱:…صحیح ابن حبان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: “قیامت سے پہلے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نازل ہونا قیامت کی نشانی ہے۔”
(موارد الظمأن ص:۴۳۵ حدیث:۱۷۵۸)
۲:…حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ہم آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے، اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا کہ: کیا مذاکرہ ہو رہا تھا؟ عرض کیا: قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے! فرمایا: قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو! دخان، دجال، دابة الارض، مغرب سے آفتاب کا طلوع ہونا، عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا، یاجوج و ماجوج کا نکلنا ․․․․․․ الخ۔” (صحیح مسلم، مشکوٰة ص:۴۷۲)
۳:…اور حدیث معراج جسے میں پہلے بھی کئی بار نقل کرچکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے ہوئی، قیامت کا تذکرہ ہوا کہ کب آئے گی؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی لاعلمی ظاہر کی، پھر عیسیٰ علیہ السلام کی باری آئی تو انہوں نے فرمایا:
“قیامت کا ٹھیک ٹھیک وقت تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں، البتہ مجھ سے میرے رب کا ایک عہد ہے کہ قربِ قیامت میں دجال نکلے گا تو میں اسے قتل کرنے کے لئے نازل ہوں گا۔ (آگے قتل دجال اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کی تفصیل ہے، اس کے بعد فرمایا) پس مجھ سے میرے رب کا عہد ہے کہ جب یہ سب کچھ ہوجائے گا تو قیامت کی مثال پورے دنوں کی حاملہ جیسی ہوگی۔”
(مسند احمد ج:۱ ص:۳۷۵، ابن ماجہ ص:۳۰۹، تفسیر ابن جریر ج:۱۷ ص:۷۲، مستدرک حاکم ج:۴ ص:۴۸۸، ۵۴۵، فتح الباری ج:۱۳ ص:۷۹، درمنثور ج:۴ ص:۳۳۶)
ان ارشاداتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت کی تفسیر اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ارشاد جو انہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کے مجمع میں فرمایا اور جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے سامنے نقل کیا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کی نشانی کے طور پر دوبارہ تشریف لانا اور آکر دجالِ لعین کو قتل کرنا، اس پر اللہ تعالیٰ کا عہد، انبیاء کرام کا اتفاق اور صحابہ کرام کا اجماع ہے، اور گزشتہ صدیوں کے تمام مجددین اس کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں، کیا اس کے بعد بھی کسی موٴمن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے میں شک رہ جاتا ہے․․․؟
۴:…اس آیت کی تفسیر بہت سے صحابہ و تابعین سے یہی منقول ہے کہ آخری زمانہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا قربِ قیامت کی نشانی ہے، حافظ ابن کثیر اس آیت کی تحت لکھتے ہیں:
“یعنی قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا قیامت کی نشانی ہے، یہی تفسیر حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس، ابوالعالیہ، عکرمہ، حسن بصری، ضحاک اور دوسرے بہت سے حضرات سے مروی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مضمون کی احادیث متواتر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تشریف لانے کی خبر دی ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر ج:۴ ص:۱۳۲)
چوتھی آیت:
سورہٴ مائدہ کی آیت:۱۱۸ میں ارشاد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کریں گے:
“اے اللہ! اگر آپ ان کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں، اور اگر بخش دیں تو آپ عزیز و حکیم ہیں۔”
سیدنا ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
“عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے کہ: الٰہی! یہ تیرے بندے ہیں (مگر انہوں نے میری غیرحاضری میں مجھے خدا بنایا اس لئے) واقعی انہوں نے اپنے اس عقیدے کی بنا پر اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنالیا ہے اور اگر آپ بخش دیں، یعنی ان لوگوں کو، جن کو صحیح عقیدے پر چھوڑ کر گیا تھا اور (اسی طرح ان لوگوں کو بھی بخش دیں جنہوں نے اپنے عقیدہ سے رجوع کرلیا، چنانچہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر لمبی کردی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ آخری زمانے میں دجال کو قتل کرنے کے لئے آسمان سے زمین کی طرف اتارے جائیں گے، تب عیسائی لوگ اپنے قول سے رجوع کرلیں گے، تو جن لوگوں نے اپنے قول سے رجوع کیا اور تیری توحید کے قائل ہوگئے اور اقرار کرلیا کہ ہم سب (بشمول عیسیٰ علیہ السلام کے) خدا کے بندے ہیں پس اگر آپ ان کو بخش دیں جبکہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ہے تو آپ عزیز و حکیم ہیں۔” (تفسیر در منثور ج:۲ ص:۳۵۰)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے واضح ہوا کہ یہ آیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کی دلیل ہے۔
آپ نے اپنے سوال میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر امام مہدی ہونے کا دعویٰ کریں گے؟ اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تیرہویں صدی کے آخر تک امتِ اسلامیہ کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی دو الگ الگ شخصیتیں ہیں، اور یہ کہ نازل ہوکر پہلی نماز حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مہدی کی اقتداء میں پڑھیں گے۔ جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے عیسیٰ اور مہدی کے ایک ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا ہے، اس کی دلیل نہ قرآن کریم میں ہے، نہ کسی صحیح اور مقبول حدیث میں، اور نہ سلف صالحین میں سے کوئی اس کا قائل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث میں وارد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت حضرت مہدی اس امت کے امام ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔
حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام پر شبہات
جناب نے یہ بھی دریافت فرمایا ہے کہ کیا “کل نفس ذائقة الموت” کی آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر اثر انداز نہیں ہوتی؟ جواباً گزارش ہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح آپ کو، مجھ کو، زمین کے تمام لوگوں کو، آسمان کے تمام فرشتوں کو، بلکہ ہر ذی روح مخلوق کو شامل ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر متنفس کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی موت آئے گی۔ لیکن کب؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا وقت بھی بتادیا ہے کہ آخری زمانہ میں نازل ہوکر وہ چالیس برس زمین پر رہیں گے، پھر ان کا انتقال ہوگا، مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور میرے روضہ میں ان کو دفن کیا جائے گا۔ (مشکوٰة شریف ص:۴۸۰)
اس لئے آپ نے جو آیت نقل فرمائی ہے وہ اسلامی عقیدہ پر اثر انداز نہیں ہوتی، البتہ یہ عیسائیوں کے عقیدہ کو باطل کرتی ہے۔ اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے پادریوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا: “کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا اور عیسیٰ علیہ السلام کو موت آئے گی۔” یہ نہیں فرمایا کہ: عیسیٰ علیہ السلام مر چکے ہیں۔ (در منثور ج:۲ ص:۳)
آخری گزارش
جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و وفات کا مسئلہ آج پہلی بار میرے آپ کے سامنے پیش نہیں آیا اور نہ قرآن کریم ہی پہلی مرتبہ میرے، آپ کے مطالعہ میں آیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے قرآن مجید متواتر چلا آتا ہے اور حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ بھی۔ اس امت میں اہل کشف، ملہم و مجدد بھی گزرے ہیں اور بلند پایہ مفسرین و مجتہدین بھی، مگر ہمیں جناب مرزا صاحب سے پہلے کوئی ملہم، مجدد، صحابی، تابعی اور فقیہ و محدث ایسا نظر نہیں آتا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آخری زمانہ میں دوبارہ تشریف آوری کا منکر ہو۔ قرآن کریم کی جن آیتوں سے جناب مرزا غلام احمد صاحب وفات مسیح ثابت کرتے ہیں، ایک لمحہ کے لئے سوچئے کہ کیا یہ آیات قرآن کریم میں پہلے موجود نہیں تھیں؟ کیا چودہویں صدی میں پہلی بار نازل ہوئی ہیں؟ یا گزشتہ صدیوں کے تمام اکابر․․․ نعوذ باللہ․․․ قرآن کو سمجھنے سے معذور اور عقل و فہم سے عاری تھے؟
“پس اگر اسلام میں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے معلم نہیں آئے جن میں ظلی طور پر نورِ نبوت تھا تو گویا خدا تعالیٰ نے عمداً قرآن کو ضائع کیا کہ اس کے حقیقی اور واقعی طور پر سمجھنے والے بہت جلد دنیا سے اٹھالئے گئے۔ مگر یہ بات اس کے وعدہ کے برخلاف ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے انا نحن نزلنا الذکر وانہ لہ لحافظون۔ یعنی ہم نے قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ اب میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر قرآن کے سمجھنے والے ہی باقی نہ رہے اور اس پر یقینی اور حالی طور پر ایمان لانے والے زاویہٴ عدم میں مختفی ہوگئے تو پھر قرآن کی حفاظت کیا ہوئی۔ اور اس پر ایک اور آیت بھی بین قرینہ ہے اور وہ یہ ہے بل ھو اٰیات بینات فی صدور الذین اوتوا العلم۔ یعنی قرآن آیات بینات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں۔ یہ آیت بلند آواز سے پکار کر کہہ رہی ہے کہ کوئی حصہ تعلیم قرآن کا برباد اور ضائع نہیں ہوگا اور جس طرح روزِ اول سے اس کا پودا دلوں میں جمایا گیا یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔”
(شہادة القرآن ص:۵۴، ۵۵، موٴلفہ جناب مرزا غلام احمد قادیانی)
بلاشبہ جس شخص کو قرآن کریم پر ایمان لانا ہوگا اسے اس تعلیم پر بھی ایمان لانا ہوگا جو گزشتہ صدیوں کے مجددین اور اکابر امت قرآن کریم سے متواتر سمجھتے چلے آئے ہیں، اور جو شخص قرآن کریم کی آیتیں پڑھ پڑھ کر ائمہ مجددین کے متواتر عقیدہ کے خلاف کوئی عقیدہ پیش کرتا ہے، سمجھنا چاہئے کہ وہ قرآن کریم کی حفاظت کا منکر ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر میں نے جو آیات پیش کی ہیں، ان کی تفسیر صحابہ و تابعین کے علاوہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نقل کی ہے۔ ان کے علاوہ جس صدی کے ائمہ دین اور صاحبِ کشف و الہام مجددین کے بارے میں آپ چاہیں، میں حوالے پیش کردوں گا کہ انہوں نے قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے اور آخری زمانے میں دوبارہ آنے کو ثابت کیا ہے۔
جن آیتوں کو آپ کی جماعت کے حضرات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کی دلیل میں پیش کرتے ہیں، من گھڑت تفسیر کے بجائے ان سے کہئے کہ ان میں ایک ہی آیت کی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، صحابہ کرام سے، تابعین سے یا بعد کے کسی صدی کے مجدد کے حوالے سے پیش کردیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرچکے ہیں، وہ آخری زمانہ میں نہیں آئیں گے، بلکہ ان کی جگہ ان کا کوئی مثیل آئے گا۔ کیا یہ ظلم و ستم کی انتہا نہیں کہ جو مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین اور ائمہ مجددین کے عقیدے پر قائم ہیں ان کو تو “فیج اعوج” (یعنی گمراہ اور کجرو لوگ) کہا جائے، اور جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اکابرِ امت کے خلاف قرآن کی تفسیر کریں اور ان تمام بزرگوں کو “مشرک” ٹھہرائیں، ان کو حق پر مانا جائے۔
میرے دل میں دو تین سوال آئے ہیں، جن کے جواب چاہتا ہوں، اور یہ جواب قرآن مجید کے ذریعہ دئیے جائیں، اور میں آپ کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ میں “احمدی” ہوں، اگر آپ نے میرے سوالوں کے جواب صحیح دئیے تو ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے قریب زیادہ آجاوٴں۔
س:۱:… کیا آپ قرآن مجید کے ذریعہ یہ بتاسکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں اور اس جہان میں فوت نہیں ہوئے؟
س:۲:… کیا قرآن مجید میں کہیں ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے؟ اور وہ آکر امام مہدی کا دعویٰ کریں گے؟
س:۳:… “کل نفس ذائقة الموت” کا لفظی معنی کیا ہے؟ اور کیا اس سے آپ کے دوبارہ آنے پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟
ج… جہاں تک آپ کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ: “اگر آپ نے میرے سوالات کے جواب صحیح دئیے تو ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے قریب آجاوٴں” یہ تو محض حق تعالیٰ کی توفیق و ہدایت پر منحصر ہے۔ تاہم جناب نے جو سوالات کئے ہیں، میں ان کا جواب پیش کر رہا ہوں اور یہ فیصلہ کرنا آپ کا اور دیگر قارئین کا کام ہے کہ میں جواب صحیح دے رہا ہوں یا نہیں؟ اگر میرے جواب میں کسی جگہ لغزش ہو تو آپ اس پر گرفت کرسکتے ہیں، وبالله التوفیق!
اصل سوالات پر بحث کرنے سے پہلے میں اجازت چاہوں گا کہ ایک اصولی بات پیش خدمت کروں۔ وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کی دوبارہ تشریف آوری کا مسئلہ آج پہلی بار میرے اور آپ کے سامنے نہیں آیا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور سے لے کر آج تک یہ امتِ اسلامیہ کا متواتر اور قطعی عقیدہ چلا آتا ہے، امت کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہ رہا ہو، اور امت کے اکابر صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجددین میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں جو اس عقیدے کا قائل نہ ہو۔ جس طرح نمازوں کی تعداد رکعات قطعی ہے، اسی طرح اسلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور آمد کا عقیدہ بھی قطعی ہے، خود جناب مرزا صاحب کو بھی اس کا اقرار ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
“مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجے کی پیش گوئی ہے، جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی، تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔” (ازالہ اوہام، روحانی خزائن ج:۳ ص:۴۰۰)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
“اس امر سے دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے، بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا، اور یہ پیش گوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے۔”
“یہ خبر مسیح موعود کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانے میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہ ہوگی کہ اس کے تواتر سے انکار کیا جائے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام کی وہ کتابیں جن کی رو سے یہ خبر سلسلہ وار شائع ہوتی چلی آئی ہے صدی وار مرتب کرکے اکٹھی کی جائیں تو ایسی کتابیں ہزارہا سے کچھ کم نہ ہوں گی۔ ہاں یہ بات اس شخص کو سمجھانا مشکل ہے جو اسلامی کتابوں سے بالکل بے خبر ہے۔” (شہادة القرآن ص:۲، روحانی خزائن ج:۶ ص:۲۹۸)
مرزا صاحب، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کی احادیث کو متواتر اور امت کے اعتقادی عقائد کا مظہر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
“پھر ایسی احادیث جو تعامل اعتقادی یا عملی میں آکر اسلام کے مختلف گروہوں کا ایک شعار ٹھہر گئی تھیں، ان کو قطعیت اور تواتر کی نسبت کلام کرنا تو درحقیقت جنون اور دیوانگی کا ایک شعبہ ہے۔” (شہادة القرآن ص:۵، روحانی خزائن ج:۶ ص:۳۰۱)
جناب مرزا صاحب کے یہ ارشادات مزید تشریح و وضاحت کے محتاج نہیں، تاہم اس پر اتنا اضافہ ضرور کروں گا کہ:
۱:…احادیثِ نبویہ میں (جن کو مرزا صاحب قطعی متواتر تسلیم فرماتے ہیں)، کسی گمنام “مسیح موعود” کے آنے کی پیش گوئی نہیں کی گئی، بلکہ پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قربِ قیامت میں دوبارہ نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ پوری امتِ اسلامیہ کا ایک ایک فرد قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں صرف ایک ہی شخصیت کو “عیسیٰ علیہ السلام” کے نام سے جانتا پہچانتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بنی اسرائیل میں آئے تھے، اس ایک شخصیت کے علاوہ کسی اور کے لئے “عیسیٰ بن مریم علیہ السلام” کا لفظ اسلامی ڈکشنری میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔
۲:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک امتِ اسلامیہ میں جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا عقیدہ متواتر رہا ہے، اس طرح ان کی حیات اور رفع آسمانی کا عقیدہ بھی متواتر رہا ہے، اور یہ دونوں عقیدے ہمیشہ لازم و ملزوم رہے ہیں۔
۳:…جن ہزارہا کتابوں میں صدی وار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا لکھا ہے، ان ہی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہیں اور قربِ قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا انکار مرزا صاحب کے بقول “دیوانگی اور جنون کا ایک شعبہ ہے” تو ان کی حیات کے انکار کا بھی یقینا یہی حکم ہوگا۔ ان تمہیدی معروضات کے بعد اب آپ کے سوالوں کا جواب پیش خدمت ہے۔
۱:…حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام:
آپ نے دریافت کیا تھا کہ کیا قرآن کریم سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں؟ جواباً گزارش ہے کہ قرآن کریم کی متعدد آیتوں سے یہ عقیدہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کی گرفت سے بچاکر آسمان پر زندہ اٹھالیا۔
پہلی آیت:… سورة النساء آیت:۱۵۷، ۱۵۸ میں یہود کا یہ دعویٰ نقل کیا ہے کہ: “ہم نے مسیح بن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا۔” اللہ تعالیٰ ان کے اس ملعون دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: “انہوں نے نہ تو عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا، نہ انہیں سولی دی، بلکہ ان کو اشتباہ ہوا ․․․․․․ اور انہوں نے آپ کو یقینا قتل نہیں کیا، بلکہ ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے بڑی حکمت والا ہے۔”
یہاں جناب کو چند چیزوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں:
۱:…یہود کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قتل اور صلب (سولی دئیے جانے) کی تردید فرمائی، بعد ازاں قتل اور رفع کے درمیان مقابلہ کرکے قتل کی نفی کی اور اس کی جگہ رفع کو ثابت فرمایا۔
۲:…جہاں قتل اور رفع کے درمیان اس طرح کا مقابلہ ہو جیسا کہ اس آیت میں ہے، وہاں رفع سے روح اور جسم دونوں کا رفع مراد ہوسکتا ہے، یعنی زندہ اٹھالینا صرف روح کا رفع مراد نہیں ہوسکتا اور نہ رفع درجات مراد ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم، حدیث نبوی اور محاورات عرب میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی کہ کسی جگہ قتل کی نفی کرکے اس کی جگہ رفع کو ثابت کیا گیا ہو، اور وہاں صرف روح کا رفع یا درجات کا رفع مراد لیا گیا ہو، اور نہ یہ عربیت کے لحاظ سے ہی صحیح ہے۔
۳:…حق تعالیٰ شانہ جہت اور مکان سے پاک ہیں، مگر آسمان چونکہ بلندی کی جانب ہے اور بلندی حق تعالیٰ کی شان کے لائق ہے، اس لئے قرآن کریم کی زبان میں “رفع الی اللہ” کے معنی ہیں آسمان کی طرف اٹھایا جانا۔
۴:…حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہود کی دستبرد سے بچاکر صحیح سالم آسمان پر اٹھالیا جانا آپ کی قدر و منزلت کی دلیل ہے، اس لئے یہ رفع جسمانی بھی ہے اور روحانی اور مرتبی بھی۔ اس کو صرف رفع جسمانی کہہ کر اس کو رفع روحانی کے مقابل سمجھنا غلط ہے، ظاہر ہے کہ اگر صرف “روح کا رفع” عزت و کرامت ہے تو “روح اور جسم دونوں کا رفع” اس سے بڑھ کر موجب عزت و کرامت ہے۔
۵:…چونکہ آپ کے آسمان پر اٹھائے جانے کا واقعہ عام لوگوں کی عقل سے بالاتر تھا اور اس بات کا احتمال تھا کہ لوگ اس بارے میں چہ میگوئیاں کریں گے کہ ان کو آسمان پر کیسے اٹھالیا؟ اس کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اللہ تعالیٰ زمین پر ان کی حفاظت نہیں کرسکتا تھا؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نبی کو کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔
ان تمام شبہات کا جواب “وکان الله عزیزا حکیما۔” میں دے دیا گیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ زبردست ہے، پوری کائنات اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صحیح سالم اٹھالینا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں اور ان کے ہاں زندہ رہنے کی استعداد پیدا کردینا بھی اس کی قدرت میں ہے، کائنات کی کوئی چیز اس کے ارادے کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی اور پھر وہ حکیم مطلق بھی ہے، اگر تمہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی حکمت سمجھ میں نہ آئے تو تمہیں اجمالی طور پر یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ اس حکیم مطلق کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالینا بھی خالی از حکمت نہیں ہوگا، اس لئے تمہیں چون و چرا کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ پر یقین رکھنا چاہئے۔
۶:…اس آیت کی تفسیر میں پہلی صدی سے لے کر تیرہویں صدی تک کے تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا اور وہی قربِ قیامت میں آسمان سے نزول اجلال فرمائیں گے۔ چونکہ تمام بزرگوں کے حوالے دینا ممکن نہیں اس لئے میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابن عباس کی تفسیر پر اکتفا کرتا ہوں۔ “جو قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں سے ہیں اور اس بارے میں ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی ہے۔” (ازالہ اوہام ص:۲۴۷، روحانی خزائن ج:۳ ص:۲۲۵)
تفسیر در منثور (ج:۲ ص:۳۶)، تفسیر ابن کثیر (ج:۱ ص:۳۶۶)، تفسیر ابن جریر (ج:۳ ص:۲۰۲) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ نے یہودیوں سے فرمایا: “بے شک عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں اور بے شک وہ تمہاری طرف دوبارہ آئیں گے۔”
تفسیر در منثور (ج:۲ ص:۳) میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے وفد سے مباحثہ کرتے ہوئے فرمایا: “کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام پر موت آئے گی؟”
تفسیر ابن کثیر (ج:۱ ص:۵۷۴)، تفسیر درمنثور (ج:۲ ص:۲۳۸) میں حضرت ابن عباس سے بہ سند صحیح منقول ہے کہ: “جب یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑنے کے لئے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی شباہت ایک شخص پر ڈال دی، یہود نے اسی “مثیلِ مسیح” کو مسیح سمجھ کر صلیب پر لٹکادیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مکان کے اوپر سے زندہ آسمان پر اٹھالیا۔”
جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں امت کے تمام اکابر مفسرین و مجددین متفق اللفظ ہیں کہ اس آیت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صحیح سالم زندہ آسمان پر اٹھالیا گیا، اور سوائے فلاسفہ اور زنادقہ کے سلف میں سے کوئی قابل ذکر شخص اس کا منکر نہیں ہوا، اور نہ کوئی شخص اس بات کا قائل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی چڑھنے اور پھر صلیبی زخموں سے شفایاب ہونے کے بعد کشمیر چلے گئے اور وہاں ۷۳ برس بعد ان کی وفات ہوئی۔
اب آپ خود ہی انصاف فرماسکتے ہیں کہ امت کے اس اعتقادی تعامل کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی میں شک کرنا اور اس کی قطعیت اور تواتر میں کلام کرنا جناب مرزا صاحب کے بقول “درحقیقت جنون اور دیوانگی کا ایک شعبہ” ہے یا نہیں․․․؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا روح اللہ ہونا
س… ایک عیسائی نے یہ سوال کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہیں اور حضرت محمد رسول اللہ ہیں، اس طرح حضرت عیسیٰ رسول اللہ کے ساتھ روح اللہ بھی ہیں، لہٰذا حضرت عیسیٰ کی شان بڑھ گئی۔
ج… یہ سوال محض مغالطہ ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کی روح بلاواسطہ باپ کے ان کی والدہ کے شکم میں ڈالی گئی، باپ کے واسطہ سے بغیر پیدا ہونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت ضرور ہے مگر اس سے ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونا لازم نہیں آتا۔ ورنہ آدم علیہ السلام کا عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ہونا لازم آئے گا، کہ وہاں ماں اور باپ دونوں کا واسطہ نہیں تھا۔ پس جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر واسطہ والدین کے محض حق تعالیٰ شانہ کے کلمہ “کن” سے پیدا ہوئے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر واسطہ والد کے کلمہ “کن” سے پیدا ہوئے، اور جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کا بغیر ماں باپ کے وجود میں آنا ان کی افضلیت کی دلیل نہیں، اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ان کی افضلیت کی دلیل نہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مدفن کہاں ہوگا؟
س… میں اس وقت آپ کی توجہ اخبار جنگ میں “کیا آپ جانتے ہیں؟” کے عنوان سے سوال نمبر:۲ “جس حجرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دفن ہیں وہاں مزید کتنی قبروں کی گنجائش ہے؟ اور وہاں کس کے دفن ہونے کی روایت ہے؟ یعنی وہاں کون دفن ہوں گے؟” اس کے جواب میں حضرت مہدی لکھا ہوا ہے، جبکہ ہم آج تک علماء سے سنتے آئے ہیں کہ حجرے میں حضرت عیسیٰ دفن ہوں گے۔
ج… حجرہ شریفہ میں چوتھی قبر حضرت مہدی کی نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہوگی۔
حضرت مریم کے بارے میں عقیدہ
س… مسلمانوں کو حضرت مریم کے بارے میں کیا عقیدہ رکھنا چاہئے اور ہمیں آپ کے بارے میں کیا معلومات نصوصِ قطعیہ سے حاصل ہیں؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت آپ کی شادی ہوئی تھی، اگر ہوئی تھی تو کس کے ساتھ؟ کیا حضرت مریم حضرت عیسیٰ کے “رفع الی السماء” کے بعد زندہ تھیں؟ آپ نے کتنی عمر پائی اور کہاں دفن ہیں؟ کیا کسی مسلم عالم نے اس بارے میں کوئی مستند کتاب لکھی ہے؟ میری نظر سے قادیانی جماعت کی ایک ضخیم کتاب گزری ہے جس میں کئی حوالوں سے یہ کہا گیا ہے کہ حضرت مریم پاکستان کے شہر مری میں دفن ہیں، اور حضرت عیسیٰ مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر میں۔
ج… نصوصِ صحیحہ سے جو کچھ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مریم کی شادی کسی سے نہیں ہوئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء کے وقت زندہ تھیں یا نہیں؟ کتنی عمر ہوئی؟ کہاں وفات پائی؟ اس بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی تذکرہ نہیں۔ موٴرخین نے اس سلسلہ میں جو تفصیلات بتائی ہیں، ان کا مأخذ بائبل یا اسرائیلی روایات ہیں۔ قادیانیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اس کی تائید قرآن و حدیث تو کجا کسی تاریخ سے بھی نہیں ہوتی، ان کی جھوٹی مسیحیت کی طرح ان کی تاریخ بھی “خانہ ساز” ہے۔