جب سردی کا موسم آتا ہے تولوگ مزاج شریعت کے خلاف انتہائی نامعقول باتیں کرنے لگتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ”یا اللہ! تو دیکھ رہا ہے تیرا بندہ کتنی تکلیف میں ہے، تو کیوں اس سے اس پریشانی کو زائل نہیں کرتا؟ اور کوئی پریشانی کے عالم میں یہ کہہ بیٹھتا ہے:
”یا اللہ! یا تو اس سردی سے نجات عطا فرما دے یا مجھ کو اپنے پاس بلالے۔ماہرین موسمیات کے نزدیک زمین اپنے محور axis پر گھومتے ہوئے ایک چکرچوبیس گھنٹے میں پورا کرتی ہے تو ایک دن مکمل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ سورج کے گرد بھی گھومتی ہے اور یہ چکر ۳۶۵ دن، ۶ گھنٹوں، ۱۳ منٹ اور ۱.۵۳ سیکنڈ میں مکمل ہوتا ہے جوایک شمسی سال کہلا تا ہے۔ اس کا محور ذرا ٹیڑھا ہے۔ سال کے ایک نصف میں شمالی قطب سورج سے نزدیک ہوتا ہے اور اگلے نصف میں جنوبی قطب اس کے قریب آجاتا ہے۔ سورج جو کائنات میں توانائی کا سب سے بڑا منبع ہے، اگرچہ ایک ہی شرح سے توانائی خارج کرتا ہے، لیکن زمین کا وہ حصہ جو سورج سے قریب ہوتا ہے، وہاں دن لمبا اور زیادہ گرم ہوجاتا ہے اور دور رہنے والے حصے میں دن چھوٹا اور ٹھنڈا رہتا ہے۔ سال کے اگلے نصف میں یہ قطب سورج سے دور چلا جاتا ہے اور یہاں درجہ حرارت گرجاتا ہے۔ درجہ حرارت کی تبدیلی سے ہوا کے دباؤ میں تبدیلی آتی ہے اور ہوا زیادہ دباؤ والے علاقے سے کم دباو والے علاقے کی طرف سفر کرتی ہے۔ اس طرح بارشیں ہوتی ہیں اور اہل زمین ایک سال میں چار موسموں گرمی، سردی، بہار اور خزاں سے مستفید ہوتے ہیں۔ ہر موسم اپنی الگ نشانیاں رکھتا ہے۔ گرمیاں ان فصلوں اور ان پھلوں کے لئے موزوں ہوتی ہیں جو زیادہ درجہ حرارت چاہتے ہیں۔ سردیوں میں خشک میوہ جات کی بہتات ہوتی ہے جو اپنا مزہ رکھتے ہیں۔
کیا ہونا چاہئے مرد مومن کا مؤقف؟
دہلی میں ان دنوں سردی کا موسم ہے روز افزوں اپنی کشش کھورہا ہے، لوگوں کے لباس وہیئت پر ہر طرف سے سردی کے آثار ظاہر ہیں، شمالی ہند کے بعض علاقوں میں سردی سے لوگ سخت پریشان ہیں، ہر شخص نے اپنی اپنی حیثیت و وسعت اور علاقے کے مطابق گرم کپڑے، لحاف اور مکان رہائش کا انتظام کیا ہے، حتی کہ بازاروں اور سڑکوں پر بھی موسم سرما کی آمد کے آثارپائے جارہے ہیں، ایسے موقع پر اپنی بساط، مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے لوگوں کے رجحانات مختلف ہیں، کوئی سردی سے کبیدہ خاطر ہے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن زبانوں پر سردی کی برائی ہے اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کے لئے موسم سرما کی آمد خوشی کا باعث ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرعی اعتبار سے موسم سرما سے متعلق ایک مرد مومن کا موقف کیا ہونا چاہئے؟ اس سے عمومی طور پر لوگ غفلت میں ہیں، لہذا موسم سرما کی مناسبت سے بعض اہل علم حضرات نے خیر کے پہلوؤں کی حامل چند ہدایات پیش کی ہیں:
سردی کا اصل سبب:
اس دنیا میں کسی بھی چیز کے وجود کا اللہ تبارک وتعالی نے ایک سبب رکھا ہے جس کا علم عام طور پر لوگوں کو ہے، مثلا بارش کا ایک سبب ہے گرمی کا ایک سبب ہے اسی طرح رات و دن کی آمد کا ایک سبب ہے لیکن بسا اوقات کسی چیز کے وجود کا ایک باطنی سبب بھی ہوتا ہے جس کا علم صرف عالم الغیب ولشہادہ کے پاس ہے، البتہ اگر وہ چاہتا ہے تو اپنے مخصوص بندوں کو ان میں سے بعض چیزوں کا علم دے دیتا ہے، چنانچہ اس دنیا میں سردی وگرمی کا ایک محسوس سبب ہے جسے عام طور پر لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں جیسے سورج کی گردش، موسم سرما یا گرما کا داخل ہونا اور ہواؤں کا چلنا وغیرہ، لیکن اس کا ایک باطنی سبب بھی ہے جس کا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ملا ہے، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اشتکت النار الی ربہا فقالت : یارب اکل بعضی بعضا، فاذن لہا نفسین نفسا فی الشتاء ونفسا فی الصیف ، فاشد ماتجدون من الحر من سموم جہنم واشد ماتجدون من البرد من زمہریر جہنم {صحیح بخاری: 537 المواقیت ، صحیح مسلم: 617 المساجد بروایت ابوہریرہ}
جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا:
اے میرے رب، میرے ایک حصے نے دوسرے کو کھا لیا، لہذا اللہ تعالی نے اسے دو سانس کی اجازت دے دی، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسرا سانس گرمی کے موسم میں، اس طرح تمہیں جو سخت گرمی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اور جو سخت سردی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کے زمہریر کی وجہ سے ہے۔
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
اذا اشتد الحر فابردوا بالصلاۃ فان شدۃ الحر من فیح جہنم {صحیح البخاری :534 المواقیت ،صحیح مسلم :615 المساجد بروایت ابوہریرہ}
جب گرمی سخت ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے۔ ان دونوں حدیثوں سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ سردی وگرمی کے اس ظاہر سبب کے علاوہ جو لوگوں کو معلوم ہے اس کا ایک باطنی اورحقیقی سبب بھی ہے اور وہ ہے جہنم کے دو سانس، یعنی جہنم جب اپنا سانس باہر کرتی ہے تو موسم گرم ہوجاتا ہے اور جب وہی سانس جہنم اندر کرتی ہے تو موسم میں سردی چھاجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی موسم کے لحاظ سے یعنی سردی میں کمبل اوڑھا کرتے تھے یہ کمبل عموماً اُون کا بنا ہوتا.
فطری وطبعی چیزوں کو مت کہو برا بھلا:
چونکہ سردی وگرمی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں، ان میں سختی وگرمی بحکم الہی ہے لہذا انھیں برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
یوذینی ابن آدم یسب الدھر وانا الدھر اقلب اللیل و النہار۔ {صحیح البخاری : 4826 بدء الخلق، صحیح مسلم: 2246 الادب بروایت ابوہریرہ}
آدم کا بیٹا مجھ کو دکھ دیتا ہے، اس طرح کہ وہ زمانے کا برا کہتا ہے، حالانکہ میں زمانہ ہوں، رات ودن کو میں ہی پھیر تا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوا اور اس طرح کی دیگر فطری اور بحکم الہی آنے جانے والی چیزوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا، کیونکہ علی سبیل المثال ہوا حکم الہی کے تابع ہوکر چلتی ہے، اب اسے برا کہنا گویا اس کے خالق اور اس میں متصرف ذات کو برا کہنے کے ہم معنی ہے، لہذا اگر کوئی شخص سخت یا تیز و تند ہوا دیکھے تو برا بھلا کہنے کی بجائے یہ چاہئے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اس ہوا کے شر سے اسے محفوظ رکھے اور اس میں جو خیر کا پہلو ہو اس سے محروم نہ کرے۔
{سنن ابو داود:5097 الادب ، سنن ابن ماجہ : 3727 الادب بروایت ابو ہریرہ}
اسی شرعی قاعدے کے تحت ہر مسلمان کو چاہئے کہ جہاں وہ سردی سے بچنے کے لئے ظاہری اسباب اختیار کرے وہیں اس طرف بھی توجہ دے کہ اس موسم میں ہمارے لئے خیر کے پہلو کیا ہیں؟ کیونکہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے:
وھو الذی جعل اللیل والنہار خلفۃ لمن اراد ان یذکر اواراد شکورا {الفرقان:62}
اور اسی نے رات و دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا، اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا اردہ رکھتا ہو۔
مومن کے لئے خیر کے پہلو:
ا – روزہ: روزہ کو اسلام میں جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے، یہی کیا کم ہے کہ حدیث قدسی میں ارشاد نبوی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
کل عمل ابن آدم لہ الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ ۔۔الحدیث {صحیح البخاری : 1894 الصوم ، صحیح مسلم : 1151 الصوم بروایت ابو ہریرہ }
ابن آدم کے تمام اعمال اس کے لئے ہیں سوا روزے کے جو میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ علاوہ ازیں روزے کو اللہ تعالی نے جہنم سے ڈھال اور جنت کا راستہ قرار دیا ہے، روزے دار کی دعاوں کی قبولیت کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے، روزہ دار کی منھ کی بو مشک سے بھی زیادہ پسند کرتا ہے اور روزہ داروں کے لئے جنت کا ایک دروازہ خاص کر رکھا ہے وغیرہ {دیکھئے صحیح الترغیب 1/ 576 وبعدھا}
اب اگر غور کیا جائے تو نیکیوں پر حریص مسلمان موسم سرما میں ان فضیلتوں کو بڑی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے، کیونکہ سردی کے موسم میں دن چھوٹا ہوتا ہے، موسم ٹھنڈا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو بھوک و پیاس کا احساس کم اور کم ہی ہوتا ہے، لہذا بڑی آسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہے مسلمانوں کی توجہ اسی طرف دلاتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الغنیمۃ الباردۃ الصوم فی الشتاء{سنن الترمذی: 797 الصوم ، مسند احمد :4/335 بروایت عامر بن سعود}
ٹھنڈی {بڑی آسان} غنیمت یہ ہے کہ سردی کے موسم میں روزہ رکھا جائے۔ یعنی جس طرح وہ مال جو اللہ کے دشمنوں سے حاصل ہو اور اس میں لڑائی نہ کرنی پڑے، مٹھ بھیڑ نہ ہو اور نہ ہی جان کا خطرہ مول لینا پڑے تو اس سے ایک انسان کس قدر خوش ہوتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی طرف کس قدرراغب ہوتا ہے. اسی طرح سردی کے موسم میں روزہ بلا مشقت و پریشانی کے رکھا جاسکتا ہے۔
ب – تہجد کی نماز:
تہجد اور شب بیداری اللہ تعالی کے نیک بندوں اور جنت کے وارثین کا شیوہ رہا ہے، ارشاد ربانی ہے،
وکانوا قلیلا من اللیل ما یہجعون و با لآ سحارھم یستغفرون۔{الذاریات :18،17}
وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے۔
والذین یبیتون لربہم سجداوقیاما { الفرقان : 64}
اور {اللہ رحمان و رحیم کے خاص بندے وہ ہیں } جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
علیکم بقیام اللیل فانہ داب الصالحین قبلکم وھو قربۃ الی ربکم ومکفرۃ للسیئات ومنہاۃ للاثم ۔{سنن الترمذی :3549 الدعوات ، مستدرک الحاکم 1/321 بروایت ابو امامۃ}
تم لوگ قیام اللیل کا اہتمام کرو اس لئے کہ یہ تم سے قبل نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اور یہ تمھارے رب کی قربت کے حصول کا ذریعہ ہے، قیام اللیل گناہوں کی معافی اور گناہوں سے بچنے کا سبب ہے۔
نیز فرمایا:
اقرب مایکون الرب من العبد فی جوف اللیل الآخر فان استطعت ان تکون ممن یذکر اللہ فی تلک الساعۃ فکن۔ { سنن الترمذی: 3579 الدعوات ، صحیح ابن خزیمہ: 1147 بروایت عمرو بن عسبہ}
اللہ تبارک و تعالی اپنے بندوں کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے، لہذا اگر تم سے ہوسکے تو ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جو اس وقت اللہ تعالی کو یاد کرتے ہیں۔
قابل غور ہے کہ موسم سرما کی راتیں قیام اللیل اور تہجد کے لئے کس قدر مناسب ہیں کیونکہ موسم سرما کی راتیں اس قدر طویل ہوتی ہیں کہ بندہ اگر رات میں دیر گئے سوئے تو بھی تہجد کے لئے آسانی سے بیدار ہوسکتا ہے اس لئے کہ عشاء کی اذان اور طلوع فجر کے درمیان دس گھنٹے سے زیادہ کا وقفہ ہوتا ہے، اب اگر ایک مسلمان اس میں سے چار گھنٹے بھی اپنے ضروریات کے لئے رکھ لے تو باقی ساڑھ پانچ گھنٹے یا اس سے زیادہ کی مدت کسی بھی شخص کے نیند سے آسودہ ہونے کے لئے کافی ہیں۔ درج ذیل حدیث میں اسی طرف مومن کی توجہ مبذول کی گئی ہے:
الشتاء ربیع المومن طال لیلہ فقام وقصر نہارہ فصام { مسند احمد : 3/75 ،شعب الایمان 3/416، مسند ابویعلی :1386 بروایت ابو سعید الخدری،
امام نور الدین رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن کہتے ہیں جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے}
سردی کا موسم مومن کے لئے بہار کا موسم ہے کہ اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں جنمیں وہ قیام کرلیتا ہے اور دن چھوٹے ہوتے ہیں جن میں وہ روزے رکھ لیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے بہت سے نیک بندے موسم سرما کی آمد پر خوش ہوتے تھے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ موسم سرما کی آمد پر فرماتے: سردی کو خوش آمدید، اس موسم میں برکتیں نازل ہوتی ہیں، اس طرح کہ تہجد کے لئے رات طویل ہوجاتی ہے اور روزہ رکھنے کے لئے دن چھوٹا ہوجاتا ہے۔
ایک اور بزرگ حضرت عبید بن عمیر رحمہ اللہ موسم سرما کی آمد پر فرماتے: اے اھل قرآن تلاوت قرآن کے لئے رات لمبی ہو گئی ہے اور روزہ رکھنے کے لئے دن چھوٹا ہوگیا ہے لہذا اس موسم میں دن کو روزہ اور رات میں تہجد کا خصوصی اہتمام کرو۔ {لطائف المعارف 453}
ج – صبر:
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ دونوں عبادتوں میں سردی سخت رکاوٹ بنتی ہے اور اسکے لئے صبر اور برداشت کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن ایک مومن کو اچھی طرح جاننا چاہئے کہ صبر وہ نیکی ہے جس پر اللہ تعالی بے حساب اجر دیتا ہے۔
انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب {الزمر:10}
صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔
ارشاد نبوی ہے:
ومن یتصبر یصبرہ اللہ، وما اعطی احد عطاء خیراولا اوسع من الصبر {صحیح البخاری: 1469 الزکاۃ، صحیح مسلم: 1053 الزکاۃ بروایت ابو سعید الخدری}
اور جو صبر کرنا چاہتا ہے اللہ تعالی اسے صبر کی توفیق دے گا اور {یاد رہے کہ}صبر سے بہتر اور وسیع تر کوئی عطیہ کسی شخص کو نہیں دیا گیا۔
واضح رہے کہ علماء کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں جس صبر کی فضیلت وارد ہے اس کی تین قسمیں ہیں:
{1} اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ مصائب پر صبر
{2} اللہ تعالی کی حرام کرہ چیزوں سے رکنے پر صبر
{3} اللہ تعالی کے اوامر کی ادائیگی پر صبر
صبر کی یہی تیسری قسم سورۃ العصر میں زیادہ واضح ہے اور اسی قسم کی سردی کے موسم میں زیادہ ضرورت پڑتی ہے لہذا جو شخص اس صبر میں کامیاب ہو گیا وہ سردی کے موسم میں تہجد بھی پڑھ لے گا اور روزہ بھی رکھ لے گا۔ کیونکہ سردی کے موسم میں نرم وگرم بستر سے اٹھنا، تہجد کے لئے وضو کرنا، سردی کی حالت میں نماز میں کھڑے ہونا، اور روزہ رکھنے کے لئے سحری کے وقت میں کچھ کھانا نیز جسم میں پانی وکھانے کی کمی کی وجہ سے جب سردی زیادہ محسوس ہوتو اسے برداشت کرنا ، یہ سب کچھ بغیر صبر کے ممکن نہیں ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
میری امت کا ایک شخص رات کو بیدار ہوتا ہے، وضو اور اس کی پریشانی پر اپنے نفس کو مجبور کرتا ہے تو جب وضو کے لئے اپنے ہاتھوں کو دھولتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، جب چہرہ دھولتا ہے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے، جب سرکا مسح کرتا ہے تو ایک تیسری گرہ کھل جاتی ہے اور جب پیر دھولتا ہے تو چوتھی گرہ بھی کھل جاتی ہے ، یہ دیکھ کر پردہ کی آڑمیں موجود فرشتوں سے اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے اس بندے کو دیکھو، اپنے نفس پر زور دے کر وضوکی تکلیف برداشت کررہا ہے اور مجھ سے کچھ سوال کررہا ہے لہذا تم سب گواہ رہو کہ میرے بندے نے مجھ سے جو کچھ مانگا اسے ہم نے دے دیا، میرے بندے نے مجھ سے جو کچھ مانگا اسے ہم نے دے دیا۔ {مسند احمد : 4/201، صحیح ابن حبان 2/347 بروایت عقبہ بن عامر}
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں کو دیکھ کر اللہ تعالی ہنس دیتا ہے، ایک وہ شخص جو سرد رات میں اپنے بستر اور لحاف سے اٹھ کر وضو کرتا ہے، پھر جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں سے پوچھتا ہے:
میرے بندے کو یہ تکلیف برداشت کرنے پر کس چیز نے ابھارا ہے؟
فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ آپ کی رحمت کا امید وار ہے اور آپ کے عذاب سے خائف ہے،
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم لوگ گواہ رہو میں نے اس کی امیدیں پوری کردیں اور جس چیز سےخوف کھا رہا ہے اس سے امن دے دیا۔ {الطبرانی: صحیح الترغیب 1/402 علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہے}
اس سردی کے موسم میں آپ بھی اپنے رب رحیم کے ہنسنے کا سبب بن سکتے ہیں اور جسے دیکھ کر اس کے رب نے ہنس دیا وہ کامیاب ہوا۔
ذلک ھو الفوز العظیم۔
سب سے عظیم کامیابی یہی ہے۔