پاکستان میں ’’را‘‘ کی مداخلت
تحریر ناگفتنی/ مولانا محمد اسماعیل ریحان
بلوچستان میں را کے حاضرسروس آفیسر ’’کل بھوشن یادیو‘‘ کی گرفتاری نے پاک بھارت تعلقات میں زلزلے کی کیفیت کردی ہے۔ ’’را‘‘ کے اس ایجنٹ نے اعتراف کیا ہے کہ اس کااصل ہدف پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کوناکام بنانا تھا۔ اس سلسلے میں وہ دو سمتوں میں کام کررہا تھا۔ ایک بلوچستان کے لیڈروں کواپناہم خیال بنانا۔ دوسرے کراچی میں دہشت گردی کی لہر دوبارہ شروع کرانا۔ اس مقصد کے لیے اس نے وطن دشمن عناصر میں بھاری رقم تقسیم کی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو تقویت دینا، دہشت گردوں کی تربیت کرنا اورتخریب کارانہ کارروائیوں کی نگرانی کرنا بھی اس کے ذمے تھا۔ بھارتی حکومت نے کل بھوشن یادیو کوافغانستان کے ایک قونصل خانے میں تعینات کررکھاتھا۔ یاد رہے کہ بھار ت نے افغانستان میں پندرہ قونصل خانے بنا رکھے ہیں جو سب کے سب پاکستانی سرحد کے قریب ہیں۔ پاکستانی ذرائع کاکہنا ہے کہ یہ سب درحقیقت پاکستان کے خلاف تخریب کاری اوردہشت گردی کے مراکز ہیں۔
٭ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارا یساہواہے کہ ایک حاضر سروس آفیسر رینک کاراؔ ایجنٹ گرفتار ہواہے جو پاکستانی شہریت رکھتاہے نہ سکھ برادری سے اس کاکوئی تعلق ہے۔ وہ ممبئی کاشہری ہے۔ ٭
پاکستان میں راکے کسی ایجنٹ کی یہ پہلی گرفتاری نہیں، بلکہ اس سے پہلے کشمیر سنگھ، سربجیت سنگھ اورسرجیت سنگھ جیسے متعدد بھارتی جاسوسوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان میں سے کچھ کو سزائیں ملیں۔ کچھ کو صدرِ پاکستان کی طرف سے معافی دی گئی۔ کچھ کو ایک مدت تک سزا دینے کے بعد باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے بھارت واپس بھیج دیا گیا۔ پاکستانی عدالتوں میں ان سب نے را سے تعلق سے انکار کیا۔ بھارتی حکومت بھی یہی بیان داغتی رہی، مگر جو بھی ملزم واپس بھارت گیا، اس نے فخر کے ساتھ را کا ایجنٹ ہونے کا اعتراف کیا۔ یہ تمام بھارتی ایجنٹ پاکستانی شہریت کے حامل یا سکھ برادری سے تعلق رکھتے تھے، مگر کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کامعاملہ ان سب سے الگ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارا یساہواہے کہ ایک حاضر سروس آفیسر رینک کاراؔ ایجنٹ گرفتار ہواہے جو پاکستانی شہریت رکھتاہے نہ سکھ برادری سے اس کاکوئی تعلق ہے۔ وہ ممبئی کاشہری ہے۔ وہ بھارتی نیوی میں کمانڈر کے عہدے پر تعینات تھا، مگراس نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور را کے لیے کام کرنے لگا۔ یادیو ؔ کی اس مہم کے لیے مبینہ طورپر ایران اورافغانستان کی زمین استعمال ہورہی تھی۔ یادیو نے ایک تاجر کابھیس بدلااور ایران کی بندرگاہوں پر مال لانے اورلے جانے کا سلسلہ شروع کیا۔
ایران میں اس کا تعارف ایک مال بردار بحری جہا زکے مالک اور تاجر کے طور پر تھا۔ اس طرح اس نے ایران میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کرلیااورایران ہی کے راستے افغانستان آنے جانے لگا۔ ایران کی یہ زمین مبینہ طورپر وہاں کی حکومت کی مرضی سے پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی تھی۔ اسی طرح افغان حکومت بھی یادیوسے پوری طرح تعاون کرتی رہی۔ اسے قندھار قونصلیٹ میں بطورِ ملازم تعینات کیاگیاتھااوراسی بہانے اس کاوہاں آناجانا معمول کی بات تھی۔ یادیو کی گرفتاری نے بہت سے معاملات پر چھائی گرد و غبار کی دبیز تہہ دور کردی ہے۔ سیکولر طبقہ ایک مدت سے یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی ذمہ داری دینی مدارس اور علماء پر ہے۔ اس کے جواب میں اہلِ فکر و نظر یہ کہتے آرہے تھے کہ پاکستان میں دہشت گردی، تخریب کاری اور علیحدگی پسندی کی تمام تحریکات کے پیچھے اصل ہاتھ ’’را‘‘ کا ہے۔ علمائے کرام، مدارسِ دینیہ اورمذہبی جماعتوں کااس دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ حضرات حب الوطنی میں کسی سے پیچھے نہیں۔ انہوںنے ملک دشمن سرگرمیوں اورسماج دشمن عناصر کی ہمیشہ کھلے لفظوں میں مذمت کی ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ بعض ایسے افراد بھی تخریب کارانہ وارداتوں میں ملوث نکل آتے ہیں جن کابیک گراؤنڈ مذہبی ہو، مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ملک کی دینی قیادت ان کی سرپرست اورمذہبی طبقہ ان کا حامی ہے، بلکہ ایسے لوگوں کو مختلف حوالوں سے مشتعل کرکے ریاست کے خلاف کھڑا کرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہوتا۔ را کے ایجنٹ ایسے ہی لوگوں کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ ہمارے علماء اور بعض جرأت مند صحافی اس طرف بھی اشارہ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات، خصوصاً علماء کے قتل اور دینی مدارس و مساجد پر حملوں میں را اور ایرانی ایجنسیاں ملوث ہیں، مگر حکومت نے کبھی اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ اسی طرح میڈیا بھی اسے معاملے کو دبا دیتا ہے۔ جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ میڈیا اور حکومتی حلقوں میں ایک لابی کا غیرمعمولی اثر و رسوخ ہے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ جس شخص نے پاکستانی شہریت حاصل کی ہے اوروہ اسی سرزمین کواپنا وطن مانتا ہے؟ پھر چاہے وہ کوئی صحافی ہویا اعلیٰ افسر، سیاست دان ہو یا سپہ سالار… اسے کس نے حق دیا ہے کہ وہ وطن کی بقا و سلامتی پر ہمسایہ ملک کی ساکھ بچانے کو ترجیح دے؟ ہم کبھی بھی کسی پڑوسی ملک سے بلاوجہ بگاڑ مول لینے کے حامی نہیں۔ وطنِ عزیز کے حالات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی نئی محاذ آرائی مول لی جائے، مگر کل بھوشن یادیو جیسے ثبو ت اور حقائق خود چیخ چیخ کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کررہے ہوں توایسے میں حقائق سے آنکھیں موند لینا بھی خودکشی کے مترادف ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کی پاکستان آمد اور باہمی تعلقات کے باب میں کئی معاہدوں پر دستخط ی
قینا ایک خوش آیند پیش رفت ہے۔ اس کے ساتھ جنرل راحیل مشرف کا وہ بیان بھی حقیقت پسندی پر مبنی ہے جس میں انہوںنے ایرانی حکومت کو کہاہے کہ وہ بھارت کوپاکستان میں تخریب کاری سے باز رہنے کا کہے۔ جنرل راحیل شریف کے اس پیغام میں خود ایرانی حکومت کے لیے جو تنبیہ ہے، وہ اہلِ خرد سے مخفی نہیں۔
اس وقت پاکستان، بھارت، ایران اور افغانستان خطے کے چاراہم ممالک ہیں۔ تین ملک مسلمان ہیں اور ایک غیرمسلم۔ مگر مذہبی اختلافات سے قطعِ نظر یہ چاروں دنیا کی سیاست میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ یہاں کے حالات پوری دنیا پر اثر اندازہوتے ہیں۔ مغربی دنیا یہاں کے سیاسی ومعاشی اتار چڑھاؤ کو غیرمعمولی اہمیت دیتی ہے۔ ان چاروں ملکوں کی قیادت کو مذہبی اختلافات کے دائرے سے بالاترہوکراورماضی کی تلخیوں کوفراموش کرکے، اب امن وآتشی، اقتصادی ترقی اوربین الاقوامی سیاست ومعیشت میں ایک بلند مقام حاصل کرنے کے لیے مشترکہ پیش قدمی کاسوچناچاہیے۔ بجائے اس کے کہ بھارت پاکستان میں اقتصادی راہ داری کو ناکام بنانے کے لیے سرگرداں ہو اورایران و افغانستان کی سرزمین اپنے پڑوسی مسلم ملک کے خلاف استعمال ہو، کیا ہی خوب ہوگاکہ یہ منفی اہداف تبدیل کردیے جائیں۔ ان کی جگہ مثبت اہداف کو اپناکر مغربی طاقتوں کے اس گیم سے نکلنے کوشش کی جائے جس کی زد میں آکر ایشیا ایک مدت سے زبوں حال ہے۔