دُشمن سن لے:……..تحریر یاسر محمد خان

 

 

23؍ مارچ کے دن پاکستانی افواج نے اسلام آباد میں روح پرور نظارے پیش کیے۔ ہماری بری، بحری اور فضائی افواج کے کمالات قوم کے لیے نہایت تسکین بخش تھے۔ ہر پاکستانی دل سے قائل ہوا کہ ہماری سرحدیں چٹانوں کی طرح مضبوط ہوگئی ہیں۔ بدقسمتی سے 23؍ مارچ کے بعد کا ہفتہ ملکی تاریخ میں نہایت المناک ثابت ہوا۔ لاہور کے گلشن اقبال پارک میں چھٹی کے دن معصوم بچوں کا ہجوم تھا۔ وہ جھولے جھولنے کے لیے بے تاب تھے اور اپنی باری کے انتظار میں نہایت بے چین تھے۔ اُن کی مائیں اُن کے ہمراہ تھیں۔ اچانک ایک ہولناک دھماکے نے اس خوش نظارے کو وحشت ناک خواب میں بدل دیا۔ کالے سیاہ دھویں کے بادل آسمان پر بلند ہوئے۔ 80 کے قریب بچے اور عورتیں اس دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔ اس سانحے کی کوریج کرتے ہوئے میڈیا اور اخبارات میں ایسی سوز خبریں آئیں کہ اُن کے بیان کرنے کی ہمت قلم میں نہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سیر کے لیے آئے ہوئے ایک قاری صاحب کی ڈاڑھی دیکھ کر انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ اُن کا شناختی کارڈ ہر ٹی وی چینل اور اخبار نے دکھایا۔

٭ قومی منظرنامے کا جائزہ لینے سے عیاں ہوتا ہے کہ فوج نے وقت کی نزاکت کو پورے طور پر بھانپ لیا ہے۔ عسکری قیادت نے سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرون ملک اپنی بھرپور موجودگی ثابت کردی ہے۔ ٭

اُن کے والدین، بھائیوں اور عزیز و اقارب کو مظفرگڑھ سے گرفتار کرلیا گیا۔ یوں آن لائن بیرون ملک بچوں کو قرآن سکھانے والا ایک قابل احترام قاری اپنی المناک شہادت کے بعد بغیر کسی ثبوت اور چھان بین کے دہشت گرد قرار پاگیا۔ قاری صاحب کے دوست کو ہسپتال میں ہوش آیا تو اس نے بتایا کہ ہم لوگ بھی خدا کی مخلوق ہیں۔ ہمارا دل بھی چاہا کہ پارک میں ہوا خوری کریں اور گل و سبزہ دیکھیں۔ ہماری اس غلطی کو معاف کیا جائے اور دہشت گردوں کی فہرست سے قاری صاحب مرحوم کا نام خارج کردیا جائے۔ اس وضاحت کے بعد بھی کئی دنوں تک قاری صاحب کی میت ورثا کے حوالے نہیں کی گئی۔آخرکار اُن کے گلے سے دہشت گردی کا طوق نکالا گیا اور اُن کی تدفین ہو پائی۔ گلشن اقبال پارک میں دھماکے کے بعد آرمی چیف کے حکم پر پنجاب بھر میں ایک آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ آپریشن کی راہ میں کسی بھی سیاسی اثر و رسوخ کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ اب تک کی کارروائیوں میں لاہور، فیصل آباد، مظفر گڑھ، گجرات اور ملتان میں ٹھوس انٹیلی جنس اطلاعات پر متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں خصوصی طور پر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ہماری افواج نے نہایت شاقی سے کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ 5 ؍ دہشت گردوں کو ہلاک، جبکہ غیرملکیوں سمیت 900 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ریڈ بک میں شامل انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرستیں حساس اداروں کو فراہم کردی گئی ہیں۔ فوج نے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کرلیا ہے۔ جمعہ یکم اپریل کی سہ پہر تک فوج اور ہمارے انٹیلی جنس اداروں نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک پر تابڑ توڑ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موبائل فون سروسز کی مدد سے مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جارہا ہے۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ اُن کے قبضے سے دہشت گردی کے لیے تیار کیے گئے نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اُمید ہے کہ بہت جلد ہماری افواج سندھ کی طرح پنجاب میں بھی دہشت گردی کی جڑ تلف کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ آرمی چیف کی سرکردگی میں چھ چھ گھنٹے کی میٹنگز ہورہی ہیں جن میں پلان بنائے جارہے ہیں اور سارے ری سورسز استعمال کرکے ملک کو پرامن اور خوشحال بنانے کے لیے پالیسیاں وضع کی جارہی ہیں۔ اس ضمن میں وفاق اور پنجاب کی حکومتوں نے بھی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں جن میں زبان کی توپ سے گولے داغنے کا نہایت اہم فریضہ سرفہرست ہے۔

پچھلے ہفتے ایران کے صدر حسن روحانی اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان آئے۔ انہوں نے پاک ایران 5 سالہ اسٹرٹیجک تجارتی تھا، دن سمیت 6 معاہدے کیے۔ سرحد پر 2 اضافی کراسنگ پوائنٹس کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاک ایران تجارتی حجم کو 5؍ ارب ڈالرز تک لے جانے پر اتفاق ہوا۔ مرکزی بینکوں کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوئے۔ ایرانی صدر نے پاکستان کی بجلی و گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ صدر حسن روحانی نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی۔ جنرل صاحب نے ایران پر زور دیا کہ ’’را‘‘ کو ایرانی سرزمین استعمال کرنے سے روکا جائے۔ ’’را‘‘ بلوچستان کے اندر کارروائیوں میں ملوث ہے۔ بھارت سے کہا جائے کہ وہ اپنی منفی کارروائیوں کے لیے ایران کا کندھا استعمال نہ کرے۔

بتایا گیا کہ نام زمانہ بھارتی جاسوس کل یادیو بھوشن ایرانی ویزے پر پاکستان داخل ہوا تھا۔ بھوشن 2013ء میں ’’را‘‘ سے منسلک ہوا۔ وہ بلوچ کالعدم تنظیموں کو اسلحہ فراہم کرتا تھا۔ 6 ماہ میں 2 بار ’’را‘‘ کے سربراہ سے ملا تھا۔ اُسے نقشے، اسلحہ، نقدی اور دوسری سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ وہ ایران میں جیولری کی دکان کھول کر خفیہ آپریشن چلا رہا تھا۔ اُس کا رابطہ افغان خفیہ ایجنسی سے بھی تھا۔ یوں بھارت، افغانستان اور ایران تینوں ملکوں سے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو کمک مل رہی تھی۔ بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے تخریبی سرگرمیوں پر احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر گوتم بمبانواے کو احتجاجی مراسلہ دیا گیا۔ بتایا گیا کہ بھوشن بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کے قتل عا
م میں بھی شریک تھا۔ بھوشن کے 13 ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ 500 دہشت گردوں کے پاکستان داخلے کا انکشاف بھی کیا گیا ہے۔ قلات، کراچی اور پنجاب سے ’’را‘‘ کے 5 سرکردہ ایجنٹ بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ قلات سے گرفتار دیپک کمار پرکاش 2014

ء میں بھارت گیا تھا۔ 29؍ مارچ کو ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیر اطلاعات نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں پہلی بار سرکاری طور پر کئی رازوں سے پردہ اُٹھایا گیا۔ ’’را‘‘ بلوچستان اور کراچی میں بیک وقت دہشت گردی کروارہی ہے۔ یادیو بھارتی بحریہ کا سابق نہیں حاضر سروس افسر ہے۔ وہ ایران میں کئی طرح کے کاروبار چلارہا تھا۔ اسکریپ ڈیلر بن کر پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ وہ اسلحہ اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث رہا۔ اُس کا ایک بڑا مشن پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے گوادر کی بندرگاہ کو نشانہ بنانا تھا۔ یادیو نے اپنے بیانات میں بتایا کہ وہ یہ سب باتیں کسی بھی دبائو کے بغیر کہہ رہا ہے۔ پاکستان نے اُس تک بھارتی قونصلر خانے کو رسائی نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان نے ’’را‘‘ کے خلاف تازہ ثبوت امریکی حکام کے حوالے کردیے ہیں۔ بھارت میں ایٹمی مواد کی 5 بار چوری کا سنگین معاملہ بھی عالمی فورم پر اُٹھایا جائے گا۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے 2 ایرانی باشندوں کو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ’’را‘‘ کے ساتھ ملوث ہونے کی بنا پر گرفتار کرلیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی سرحد سے متصل ایرانی بندرگاہ چاہ بہار پاکستان مخالف سرگرمیوں کا گڑھ ہے۔ جمعرات 31؍ مارچ کو حکومت پاکستان نے ایک بڑا قدم اُٹھایا اور باضابطہ طور پر ایرانی حکومت سے بھوشن کا ایک ساتھی اور اس ضمن میں مزید معلومات مانگ لی ہے۔ ایک چھ نکاتی خط تحریر کیا گیا ہے جس میں بھارتی ایجنٹ رائیش عرف رضوان کو گرفتار کرنے، بھوشن کی ایران میں سرگرمیوں کی تصدیق، مختلف ایرانی شہروں میں اُس کے قیام، کاروبار، ایرانی سرزمین پر ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کی موجودگی کے بارے میں پاکستان کو معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔ پاکستان میں ایرانی سفارت خانے سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی جاسوس کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں غیرمہذب اور توہین آمیز باتیں پھیلانے سے پاک ایران تعلقات پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔ حسنی روحانی کے دورہ پاکستان سے حاصل کی گئی کامیابیوں پر خط تنسیخ پھر جائے گا۔

لاہور میں دھماکے، بھوشن کی گرفتاری، ایرانی صدر کی آمد اور اُس کے بعد ہونے والی صورت حال کے ساتھ ساتھ ہماری وفاقی حکومت کی بے بصیرتی سے پید اہونے والے حالات نے اسلام آباد کے ریڈزون میں ایک دھرنے کو وجود بخشا۔ وزیراعظم کے قوم سے خطاب اور وزیر داخلہ کی پریس کانفرنسیں ہر قسم کی حکمت و دانش سے عاری تھیں۔ خواجہ سعد رفیق نے معاملے کو سنبھالا اور اسلام آباد میں کشت و خون کو روکا۔ اسی دوران ہماری حکومت نے ’’روشن خیالی‘‘ کے لیے جو جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ اُن کی پرچھائیاں دہشت ناک سایوں کی طرح ہماری قومی زندگی پر پھیلتی جارہی ہیں۔ ہمارے قوانین بنانے کا عمل اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہورہا ہے۔ مادرپدر آزاد پاکستان کے لیے ہم فلمیں بناکر اپنا سافٹ امیج پیدا کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ہم پرویز مشرف اور ریمنڈ ڈیوس کو رہائی اور ناموسِ رسولؐ کے نام لیوائوں کو پھانسیاں دینے کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مرکز اور پنجاب کی تمام تردانش کا نقطۂ عروج سڑکوں، بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ ملک دہشت گردی میں لاشے اُٹھارہا ہے۔ ہندوستانی جاسوسوں کے لیے پاکستان گھر کا آنگن بنا ہوا ہے۔ ہمارے دوسرے دو ہمسائیوں افغانستان اور ایران کی سرزمین پاکستان کی تباہی اور بربادی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ ہم نے پٹھانکوٹ حملے کی ایف آئی آر گوجرانوالہ میں درج کرلی۔ ہمارا وفد بھارت میں عدمِ تعاون کا شکار ہوگیا ہے۔ اُسے پٹھانکوٹ دورے کی انتہائی محدود اجازت دی گئی ہے۔ ہمارا رویہ سراسر معذرت خواہانہ ہے۔

قومی منظرنامے کا جائزہ لینے سے عیاں ہوتا ہے کہ فوج نے وقت کی نزاکت کو پورے طور پر بھانپ لیا ہے۔ عسکری قیادت نے سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرون ملک اپنی بھرپور موجودگی ثابت کردی ہے۔ کراچی میں امن و امان کی کھیتیاں لہلہانا شروع ہوگئی ہیں۔ بلوچستان میں فوج کی حمایت میں ریلیاں نکل رہی ہیں۔ بلوچستان میں ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا ہے۔ پنجاب میں فوج نے ازخود آپریشن شروع کردیا ہے۔ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ آرمی چیف افغان اور ایران حکومت سے معاملات کو خود ہینڈ کررہے ہیں۔ اُن کی حکمت عملی میں تدبر اور فراست کی گہری جھلک ہے۔ وہ پاکستان کو درپیش خطرات کا پورا پورا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ عسکری قوت کو برابر مضبوط کررہے ہیں۔ فوج کو انتہائی اعلیٰ ٹریننگ دی جارہی ہے۔ ہماری اسلحہ ساز فیکٹریاں جدید اسلحہ بنارہی ہیں۔ ہم بہترین جہاز بنارہے ہیں۔ ہماری سرحدیں مضبوط ہورہی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے ثمرات تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ ہماری فوج نے رعد الشمال مشقوں میں اپنی مہارت کی دھاک بٹھائی ہے۔ عرب ملکوں میں پاک فوج کو اعلیٰ ترین سطح پر سراہا جارہا ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی ماہرین گواہی دے رہے ہیں کہ ہندوستان کی نسبت پاکستان کا جوہری منصوبہ انتہائی محفوظ ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں میں پاک فوج نے ہماری سیاسی قیادت کی نااہلی سے پیدا ہونے والے خلا کو اپنی محنت، جانفشانی اور زبردست عملی کارکردگی سے پُر کردیا ہے۔ فوج
سرحدوں پر، بین الاقوامی تعلقات میں، اندرون ملک امن و سلامتی میں ہر جگہ بھرپور طریقے سے موجود ہے۔ اس ساری کارروائی سے ایک بات پوری طرح ثابت ہوگئی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اُن بونوں پر مشتمل ہے جنہوں نے جنوں اور دیوئوں کی عبائیں پہن رکھی ہیں۔ یہ نہایت مضحکہ خیز تماشا ہے۔