مئی 2014ء میں عمران خان، طاہر القادری اور چودھری برادران کی لندن میں ایک ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات خفیہ تھی۔ اسے میڈیا سے چھپایا گیااور پاکستانی عوام کو بھی بھنک نہیں پڑنے دی گئی ۔ اس ملاقات میں میاں صاحب کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے، حکومت کو ایوانوں سے اٹھا کر باہر پھینکنے اور جمہوری نظام کا بستر لپیٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس ملاقات اور اس منصوبے کو عملی شکل اس وقت دی گئی جب دھاندلی کو ایشو بنا کر لاہور کے زمان پارک سے عمران خان کی قیادت میں ایک لانگ مارچ چلا۔ دوسرا لانگ مارچ طاہر القادری کی قیادت میں منہاج القرآن کے لاہور مرکز سے روانہ ہوا۔ یہ دونوں لانگ مارچ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چلتے ہوئے ڈیڑھ، دو دنوں میں اسلام آباد پہنچے۔ آب پارہ کے مقام پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دونوں لانگ مارچ کے شرکاء بیٹھ گئے اور پھر حکومت پر دبائو بڑھانا شروع کردیا۔
بات آگے بڑھی تو یہ لانگ مارچز یہاں سے اٹھے اور ڈی چوک میں پہنچ کر ایک دوسرے میں ضم ہو گئے۔اس 126دن کے دھرنے میں حکومت مخالفت میں ہر وہ کام کیا گیا جس کی اجازت آئین پاکستان، دستور پاکستان اورقانون دیتا ہے نہ ہی اخلاقیات ۔
یہ لوگ پی ٹی وی پر حملہ آور ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کا گیٹ توڑ کر پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا اور انہوںنے عوام کے منتخب نمائندوں کو چور، ڈاکو اور لٹیرے بنا کر پیش کر دیا۔ ملک کے مقدس ایوانوں کی توہین کی اورجذبات میں قبریں کھدیں، کفن لہرائے اور وزیراعظم سے استعفیٰ تک طلب کیا گیا، مگر پارلیمنٹیرنز نے کمال دانش کا ثبوت دیا اور جمہوریت مخالف اس پلان کو انہی کی کھودی گئی قبروںمیں دفن کر دیا۔ ملک کسی بڑی انہونی سے بچ نکلا اور جمہوریت پر شب خون مارنے کی یہ شیطانی کاوشیں بھی اپنا منہ نوچتی رہ گئیں۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ کہ اس لندن پلان کے منصوبہ سازوں میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو بھی خوب اجاگر کیا گیا۔ جنرل پاشاکے حوالے سے بھی مختلف باتیں سامنے آتی رہیں، لیکن یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا اور میاں صاحب اور ان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ اس دھرنے کے نتیجے میں ملک کی خارجہ پالیسی حکومت کے ہاتھ سے نکل کر اسٹیبلشمنٹ کی مٹھی میں چلی گئی۔ بھارت، افغانستان، امریکا اور چین سے تعلقات جوڑنے اور توڑنے کا سارا اختیار اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ سچ پوچھیں تو اس دھرنے سے جمہوریت کمزور اور جمہوریت مخالف قوتوں کو تقویت ملی اور شائد یہی لندن پلان کا اصل ہدف تھا ۔ آج ایک بار پھر ملکی قیادت لندن میںہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف علاج کے لیے لندن میں ہیں۔ عمران خان فنڈ ریزنگ کے لیے لندن میں۔ چودھری نثار اور عمران خان ایک ہی طیارے سے بیرون ملک گئے۔ طاہر القادری بھی لندن میں اور آصف علی زرداری پہلے سے ہی لندن میں موجود ہیں۔ اب ایک ایسے وقت جب پوری دنیامیں پانامہ لیکس کا شور برپا ہے۔ تاثر یہ جنم لے رہا ہے ایک اور لندن پلان کی تیاری ہو رہی ہے۔ میاں صاحب بیٹوں کے نام آف شور کمپنیوں کا راز کھلنے کے بعد شدید دبائو میں ہیں۔ اپوزیشن پارٹیز پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ق وزیراعظم اور ان کی حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے اکٹھی ہو چکی ہیں۔ یہ بجا کہ پانامہ لیکس میں آف شور کمپنیوں کے انکشاف کے فوری بعد وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا اور ایک تحقیقاتی عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا، لیکن اپوزیشن پارٹیز اس عدالتی کمیشن کو ماننے سے انکاری ہیں۔ تمام اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت غیر ملکی فرانزک فرم سے تحقیقات کرائے۔ پاکستان تحریک انصاف اس سلسلے میں میاں برادران کی رائیونڈ رہائش گاہ کا محاصرہ کرنے اور دھرنا دینے کی دھمکی بھی دی چکی ہے۔حالات کی اس سنگینی میں میاں صاحب کا بغرض علاج لندن جانا کئی شکوک کو جنم دیتا ہے ۔ یہ افواہیں بھی سرگرم رہیں میاں صاحب آصف علی زرداری سے ملاقات کے لیے لندن جا رہے ہیں تاہم حکومتی ترجمان اور وزیر داخلہ اس کی تردید کر رہے ہیں، لیکن عمران خان، طاہر القادری کی لندن میں موجودگی بھی کئی شبہات پیدا کررہی ہے۔
میاں نوازشریف کے موجودہ دور اقتدار پر نظر دوڑائیں تو پچھلے اڑھائی برسوں میں انہوںنے ملک میں جاری قتل وغارت گری کو بڑی حد تک کم کیا ہے۔ کراچی میں بڑی حد تک امن قائم کر دیا۔ دہشت گردانہ حملوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی اور ملک معاشی لحاظ سے بڑی حد تک مستحکم دکھائی دیتا ہے۔ اہم ترین امر یہ بھی کہ اقتصادی راہداری کی صورت ملک کو ایک ایسا منصوبہ دیا ہے جس سے نہ صرف چین گرم پانیوں تک پہنچ جائے گا، بلکہ پاکستانی معیشت کو بھی چار چاند لگ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے بین الاقوامی لابی میاں نوازشریف کے خلاف ہمہ تن سرگرم ہے۔اس کا خیال ہے اگر میاں صاحب اپنا دورانیہ پورا کر گئے تو پاکستان آگے نکل جائے گا، لہٰذا پاکستان کو ترقی کی پٹڑی سے اتارنے کے لیے ضروری ہے میاں نوازشریف کو اقتدار سے علیحدہ کیا جائے۔ اس کا نتیجہ کبھی دھرنوں کی صورت نظر آتا ہے۔ کبھی لانگ مارچ کی صورت اور کبھی نان ایشو کو ایشو بنا کرحکومت کو کمزور کرنے کی صورت دکھائی دیتا ہے۔
آج ایک بار پھر پانامہ لیکس کو بنیاد بنا کر انٹرنیشنل لابی سرگرم عمل ہے۔ ایک نیا لندن پلان تشکیل دینے کی تیاریاں جاری ہیں اور ان حالات سے نمٹنے کے لیے میاں نوازشریف بھی بیرون ملک میں ہیں۔ عام تاثر یہی ہے سیاسی ق
یادت کی اس لندن یاترا میں جمہوری نظام کی بقاء اور بچائو کے لیے میڈی ایڈیٹر کا راستہ تلاشنے کی جستجو کی جائے گی۔ اپوزیشن رہنمائوں کو میڈی ایٹر کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے گی یہ لولا لنگڑا جیسا بھی نظام ہے اس کو چلتے رہنا چاہیے اور اپنی باری کا انتظارکرنا چاہیے۔ یہ بھی باور کرایا جائے گا کہ اپوزیشن احتجاج کرے۔ دھرنا بھی دے، تحریک بھی چلائے، مگر نظام کی کایہ پلٹنے سے باز رہے کہ اس کا نقصان صرف مسلم لیگ ن کو نہیں بلکہ پورے ملک کو اٹھانا پڑے گا۔ سیاسی قوتوں کی باہمی چپقلش سے غیر سیاسی قوتوں کو پھر سے موقع ملے گا اور یوںجمہوریت ایک بار پھر خطرات کا شکار ہو جائے گی۔
میاں نوازشریف اس سلسلے میں آصف علی زرداری کو بھی قائل کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ پیغام عمران خان اور طاہر القادری تک پہنچانے کی کوشش بھی کریں گے۔ رہا آف شور کمپنیوں کامعاملہ تو اس سلسلے میں حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر کمیشن کے ممبران اور ٹی او آر کا تعین کر دینا چاہیے۔ اصل حقائق قوم کے سامنے رکھ دینے چاہئیں کیونکہ یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ مئی میں پانامہ لیکس کی دوسری قسط آنے کو ہے۔ان انکشافات کے بعد دنیا بھر میں ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا اور پاکستان کی سیاست بھی اس طوفان میں گھر جائے گی۔