قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا منع ہے

قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا منع ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا منع ہے

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم بیت الخلاء جاؤ تو پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف نہ رخ کرو اور نہ پیٹھ کرو، البتہ مشرق یامغرب کی طرف رخ کرلو۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ملک شام آئے تو ہم نے بیت الخلاء قبلہ کی طرف رخ بنے ہوئے پائے، ہم تو اپنا رخ تبدیل کرلیتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرلیتے تھے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الصلاۃ ۔ ابواب استقبال القبلۃ صحیح مسلم ۔ کتاب الطہارۃ ۔ باب اِذَا اَتَےْتُمُ الْغَاءِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُواالْقِبْلَۃَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوْہَا واللفظ لمسلم) یہ حدیث بخاری ومسلم کے علاوہ ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابوداود، موطا مالک، مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان اور سنن الدارمی وغیرہ کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔ غرضیکہ حدیث کی کوئی مشہور ومعروف کتاب ایسی موجود نہیں ہے جس میں یہ حدیث مذکور نہ ہو۔ یہ حدیث باتفاق محدثین اس باب کی سب سے مضبوط اور مستند حدیث ہے۔
نوٹ: قضائے حاجت کے لئے اس حدیث میں مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرنے کا حکم آیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مدینہ منورہ کے رہنے والوں کے لئے تھا کیونکہ مدینہ منورہ کے جنوب میں مکہ مکرمہ واقع ہے ، اس لئے وہاں قبلہ کی طرف رخ یا پشت شمال یا جنوب کی طرف بنتا ہے، جبکہ ہندوپاک کے رہنے والوں کے لئے مشرق یا مغرب ۔ لہٰذا بر صغیر اور اسی طرح ریاض شہر میں قضائے حاجت کے وقت شمال یاجنوب کی طرف رخ کیا جائے گا۔
اس حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمومی حکم بیان فرمایا ہے اور آبادی وصحراء کی کوئی تفریق نہیں کی ہے اس لئے فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت ( جس میں حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت سراقہ بن مالکؓ، حضرت مجاہدؒ ، حضرت ابراہیم نخعیؒ ، حضرت عطاءؒ ، امام اوزاعیؒ ، حضرت سفیان ثوریؒ اور حضرت امام ابوحنیفہؒ وغیرہ ہیں) نے فرمایا ہے کہ قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا ناجائز ہے، خواہ گھر کے اندر بنے بیت الخلاء میں پیشاب یا پاخانہ کررہے ہوں یا کسی جنگل وبیابان میں۔ ہندوپاک کے جمہور علماء (جو ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے شیخ نعمان بن ثابت یعنی امام ابوحنیفہؒ کی قرآن حدیث پر مبنی رائے کو ترجیح دیتے ہیں) نے بھی یہی کہا ہے کہ قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا ناجائز ہے۔ علماء کرام کی ایک دوسری جماعت نے کہا ہے کہ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ تعلیمات کے پیش نظر حتی الامکان قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ نہیں کرنی چاہئے خواہ گھر کے اندر بنے بیت الخلاء میں پیشاب یا پاخانہ کررہے ہوں یا کسی جنگل وبیابان میں، لیکن ترمذی میں وارد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ( میں ایک روز حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان پرچڑھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قضاء حاجت کرتے دیکھا کہ آپ ملک شام کی طرف رخ کرکے اور کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے قضاء حاجت کررہے تھے) کی بناء پر آبادی میں گنجائش ہے، صحراء میں جائز نہیں۔ اسی طرح بعض حضرات نے فرمایا کہ قبلہ کی طرف رخ کرکے قضاء حاجت کرنا تو جائز نہیں البتہ پیٹھ کرکے قضاء حاجت کرنے کی گنجائش ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ایک قانون کی حیثیت رکھتی ہے اس کے مقابلہ میں دوسری روایات وواقعات جزئیات کے درجہ میں ہیں۔ لہٰذا بخاری ومسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابوداود، موطا مالک، مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان اور سنن الدارمی وغیرہ میں وارد حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ہی عمل کیا جائے گا کیونکہ اس میں ضابطہ کلیہ بیان کیا گیا ہے، دیگر واقعات میں تاویل وتوجیہ کی جائے گی۔ نیز حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث قولی ہے یعنی اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو بیان کیا گیا ہے اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ ظاہری تعارض کے وقت قولی حدیث کو ترجیح دی جائے گی۔ جہاں تک حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کا تعلق ہے تو اس میں کئی احتمالات ہیں، مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے قصداً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا بلکہ اتفاقاً آپ پر نظر پڑ گئی تھی، جس کی وجہ سے غلطی کا بھی امکان ہے۔ اس روایت کے علاوہ دیگر روایات سے بھی استدلال کیا گیا ہے مگر وہ تمام روایات حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے سند کے اعتبار سے کمزور ہیں اور مفہوم کے اعتبار سے بھی مختلف احتمالات لئے ہوئے ہیں۔
خلاصۂ کلام:
پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہمیں قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ کرنے سے حتی الامکان بچنا چاہئے اورگھر میں بیت الخلاء بناتے وقت اس کا اہتمام کرنا چاہئے کہ قضاء حاجت کے وقت ہمارا رخ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ ہو۔ اگر بیت الخلاء پہلے سے اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ قضاء حاجت کے وقت رخ یا پیٹھ قبلہ کی طرف ہوتا ہے تو بیت الخلاء میں لگی ہوئی سیٹ کا رخ تبدیل کرنا چاہئے اور جب تک تبدیل نہیں کرسکتے ہیں تو سیٹ پر اس طرح بیٹھیں کہ رخ یا پیٹھ کسی حد تک قبلہ کی طرف سے ہٹ جائے۔ یاد رکھیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک جس میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ بھی ہیں، قضاء حاجت کے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا جائز نہیں ہے، خواہ گھر کے اندر بنے بیت الخلاء میں پیشاب یا پاخانہ کررہے ہوں یا کسی جنگل وبیابان میں اور یہی قول احتیاط پر مبنی ہے۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض

موزوں اور جُرَّابوں پر مسح کرنے کا حکم
بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

موزوں اور جُرَّابوں پر مسح کرنے کا حکم

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم (سورۃ المائدہ ۶) میں ارشاد فرمایا: ۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہرے کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھولو، اپنے سر کا مسح کرلو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک دھولو۔
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھنے سے قبل وضو کرلیا کرو جس میں چار چیزیں ضروری ہیں، جن کے بغیر وضو ہوہی نہیں سکتا۔ ۱) پورے چہرہ کا دھونا۔ ۲) دونوں ہاتھوں کوکہنیوں سمیت دھونا۔ ۳) سر کا مسح کرنا۔ ۴) دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا۔
اہل وسنت والجماعت کے تمام مفسرین ومحدثین وفقہاء وعلماء کرام نے اس آیت ودیگر متواتر احادیث کی روشنی میں تحریر فرمایا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا ہی شرط ہے، سر کے مسح کی طرح پیروں کا مسح کرنا کافی نہیں ہے۔ لیکن متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مرتبہ پیر دھونے کے بجائے چمڑے کے موزوں پر مسح بھی کیا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ پیروں کے دھونے کا ذکر آیا ہے، میں اُس وقت تک موزوں (چمڑے کے) پر مسح کا قائل نہیں ہوا جب تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل متواتر احادیث سے میرے پاس نہیں پہنچ گیا۔
غرضیکہ قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وضو کے صحیح ہونے کے لئے دونوں پیروں کا دھونا شرط ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد (چمڑے کے )موزے پہن لے تو مقیم ایک دن وایک رات تک اور مسافر تین دن و تین رات تک وضو میں پیروں کو دھونے کے بجائے (چمڑے کے )موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرسکتا ہے، جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ اگر کوئی شخص چمڑے کے بجائے سوت یا اون یا نایلون کے موزے پہنے ہوئے ہے تو جمہور فقہاء وعلماء کی رائے ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ پیروں کا دھونا ہی ضروری ہے۔ اس مسئلہ کو سمجھنے سے قبل موزوں کے اقسام کوسمجھیں:
اگر موزے صرف چمڑے کے ہوں تو اُنہیں خُفَّین کہا جاتا ہے۔اگر کپڑے کے موزے کے دونوں طرف یعنی اوپر ونیچے چمڑا بھی لگا ہوا ہے تو اسے مُجَلّدین کہتے ہیں۔اگر موزے کے صرف نچلے حصہ میں چمڑا لگا ہوا ہے تو اسے مُنَعَّلین کہتے ہیں۔جَوْرَب: سوت یا اون یا نایلون کے موزوں کو کہا جاتا ہے، اِن کو جُرَّاب بھی کہتے ہیں۔
موزے کی ابتدائی تینوں قسموں پر مسح کرنا جائز ہے، لیکن جمہور فقہاء وعلماء نے احادیث نبویہ کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ جراب یعنی سوت یا اون یا نایلون کے موزوں پر مسح کرنا اسی وقت جائز ہوگا جب ان میں ثخین (یعنی موٹا ہونے) کی شرائط پائی جاتی ہوں، یعنی وہ ایسے سخت اورموٹے کپڑوں کے بنے ہوں کہ اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے۔معلوم ہوا کہ سوت یا اون یا نایلون کے موزوں (جیساکہ موجودہ زمانے میں عموماً پائے جاتے ہیں) پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔
ہندوپاک کے علماء حتی کہ اہل حدیث علماء نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ عام نایلون کے موزوں پر جیساکہ عموماً موجودہ زمانے میں موزے استعمال کئے جاتے ہیں مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ مگر کچھ لوگوں کو دیکھ کر ہم نے بھی عام موزوں پر مسح کرنا شروع کردیا ہے خواہ موزوں پرمسح کرنے کے مسائل سے واقف ہیں یا نہیں۔
ہندو پاک کے علماء نے (جو مختلف فیہ مسائل میں ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے کو اختیار کرتے ہیں) وضاحت کے ساتھ تحریر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں فرمادیا کہ وضو میں پیروں کا دھونا ضروری ہے۔ جہاں تک موزوں پر مسح کرنے کا تعلق ہے تو صرف انہیں موزوں پر مسح کرنے کی گنجائش ہوگی جن پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسح کیا ہو یا مسح کرنے کی تعلیم دی ہو اور وہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں۔ کسی شک وشبہ والے قول یا خبر آحاد کو قرآن کریم کے واضح حکم کے مقابلہ میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ جراب (سوت یا اون یا نایلون کے موزوں ) پر مسح کرنے کی کوئی دلیل کتب حدیث میں موجود نہیں ہے۔
مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد عبد الرحمن مبارکپوری ؒ نے ترمذی کی مشہور شرح (تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی) میں باب ما جاء فی المسح علی الجوربین والنعلین کے تحت اس موضوع پر جو تفصیلی بحث فرمائی ہے اس کا خلاصۂ کلام یہ ہے: جرابوں (جیساکہ آجکل موزے استعمال ہوتے ہیں) پر مسح کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ تو قرآن کریم سے نہ سنت سے نہ اجماع سے اور نہ قیاس صحیح سے۔ (چمڑے کے) موزوں پر مسح کی بابت بہت سی احادیث منقول ہیں جن کے صحیح ہونے پر علماء کا اجماع ہے۔ متواتر احادیث کی وجہ سے ظاہر قرآن کو چھوڑکر ان پر بھی عمل کیاگیا۔ جب کہ جرابوں (جیساکہ آجکل موزے استعمال ہوتے ہیں) پر مسح کی بابت جو روایات منقول ہیں ان پر بہت زیادہ تنقیدیں ہوئی ہیں، پس اس قسم کی ضعیف روایات کی وجہ سے ظاہر قرآن کو کیونکر چھوڑا جاسکتا ہے۔ صحابۂ کرام کے موزوں کی طرح کی جرابوں پر آج کل کی باریک جرابوں کو قیاس کرنا قطعاً درست نہیں۔ ہاں اگر آج بھی موزوں کی طرح کی جرابوں کو کوئی استعمال کرتا ہے تو ان پر مسح کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔ تحفۃ الاحوذی
مشہور اہل حدیث عالم شیخ نذیر حسین دہلوی ؒ سے پوچھا گیا کہ اونی اور سوتی جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں ہے؟ وہ جواب میں تحریر کرتے ہیں کہ مذکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی صحیح دلیل قرآن وسنت میں نہیں ملتی اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں، پھر خدشات کا ذکر فرماکر تحریر کیا کہ جرابوں پر مسح جائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔۔۔فتاوی نذیریہ
نمازایمان کے بعد اسلام کا سب سے اہم وبنیادی رکن ہے، قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں نماز پڑھنے کی تاکید وارد ہوئی ہے اور پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ وضو میں پیروں کے دھونے کا ذکر آیا ہے لہذا صرف اُن ہی شرائط کے ساتھ اور اُن ہی موزوں پر مسح کرنا جائز ہوگا جن کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ملتا ہے۔ جراب یعنی آجکل کے عام موزوں پر مسح کرنے کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ میں نہیں ملتا ۔ لہذا آجکل کے عام موزوں پر مسح نہ کریں، ہاں اگر مسح کرنے کا ارادہ ہے تو چمڑے کے موزوں کا استعمال کریں، ورنہ پیروں کو دھوئیں تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نمازیں صحیح طریقہ پر ادا ہوں۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی (www.najeebqasmi.com)

غسل کے احکام ومسائل

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

غسل کے احکام ومسائل

غسل کے فرائض:
۱) اس طرح کلی کرنا کہ سارے منہ میں پانی پہنچ جائے۔ ۲) ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔ ۳) بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ ایک بال کے برابر بھی جگہ خشک نہ رہے۔
کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے متعلق بعض علماء کی رائے ہے کہ یہ وضو کی طرح غسل میں بھی سنت ہیں، مگر فقہاء وعلماء کی بڑی جماعت (مثلاً امام ابوحنیفہؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ) کی رائے ہے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل میں ضروری ہے اور اس کے بغیر غسل ہی نہیں ہوگا۔ ہندوپاک کے جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے بھی یہی کہا ہے۔ جن علماء نے ان دونوں اعمال کو سنت قرار دیا ہے، ان کے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص واجب غسل میں یہ دونوں اعمال چھوڑکر غسل کرکے نمازیں ادا کرلے تو نمازوں کا اعادہ ضروری نہیں ہے، جبکہ علماء احناف کی رائے میں نمازوں کا اعادہ ضروری ہوگا۔
نوٹ
اگر کسی شخض کو غسل سے فراغت کے بعد یاد آیا کہ کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا ہے تو غسل کے بعد بھی جو عمل رہ گیا ہے اس کو پورا کرلے، دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کلی اور ناک میں پانی ڈالے بغیر قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور علماء کی رائے ہے کہ غسل صحیح نہیں ہوگا۔
اگر باتھ روم میں غسل کررہے ہیں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے تو ننگے ہوکر غسل کرنا جائز ہے چاہے کھڑے ہوکر غسل کریں یا بیٹھ کر، لیکن بیٹھ کر غسل کرنا بہتر ہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
اگر ناخن پالش لگی ہوئی ہے تو وضو اور غسل میں اس کو ہٹاکر وضو اور غسل کرنا واجب ہے، اگر اس کو ہٹائے بغیر کوئی عورت وضو یا غسل کرے گی تو اس کا وضو یا غسل صحیح نہیں ہوگا۔ لیکن اگر بالوں یا جسم پر منہدی لگی ہوئی ہے تو اس کے ساتھ وضو اور غسل صحیح ہے کیونکہ منہدی جسم میں پیوست ہوجاتی ہے جبکہ ناخن پالش ناخن کے اوپر رہتی ہے اور اس کو ہٹایا بھی جاسکتا ہے اور یہ پانی کو اندر تک پہنچنے سے مانع بنتی ہے۔
غسل میں پانی کا بے جا اسراف نہ کریں، ضرورت کے مطابق ہی پانی کا استعمال کریں۔ ہمارے نبی ﷺ پانی کی بہت کم مقدار سے غسل کرلیا کرتے تھے۔
عورت کے حیض یا نفاس سے پاک ہونے کے بعد غسل سے فراغت کے بعد ہی صحبت کی جاسکتی ہے۔
غسل کا مسنون طریقہ:
غسل کرنے والے کو چاہئے کہ وہ پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر بدن پر جوناپاکی لگی ہوئی ہے اس کو صاف کرے اور استنجاء بھی کرلے۔پھر مسنون طریقہ پر وضو کرے۔ وضو سے فراغت کے بعد پہلے سر پر پانی ڈالے ، پھر دائیں کندھے پر اور پھر بائیں کندھے پر پانی بہائے اور بدن کو ہاتھ سے ملے۔ یہ عمل تین بار کرلے تاکہ یقین ہوجائے کہ پانی بدن کے ہر ہر حصہ پر پہنچ گیا ہے۔ اگر آپ شاور سے نہارہے ہیں تب بھی اس کا اہتمام کرلیں تو بہتر ہے ورنہ کوئی حرج نہیں۔ اگر نہانے کا پانی غسل کی جگہ پر جمع ہورہا ہے تو وضو کے ساتھ پیروں کو نہ دھوئیں بلکہ غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے علیحدہ ہوکر دھوئیں۔
غسل کب واجب ہوتا ہے؟
خروج منی : یعنی منی کا شہوت کے ساتھ جسم سے باہر نکلنا خواہ سوتے میں ہو یا جاگتے میں۔
جماع: یعنی مرد وعورت نے صحبت کی جس سے مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ عورت کی شرمگاہ میں چلا گیا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔
نوٹ: بیوی کے ساتھ بوس وکنار کرنے میں صرف چند قطرے رطوبت کے (مذی) نکل جائیں تو اُس سے غسل واجب نہیں ہوتا۔
عورت کا حیض یا نفاس سے پاک ہونا۔
صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے:
ان دنوں بعض حضرات نے غسل کے واجب ہونے کے دوسرے سبب کے سلسلہ میں جمہور علماء کے فیصلہ کے خلاف عام لوگوں کے سامنے کچھ شک وشبہات پیدا کردئے ہیں،ان حضرات کا موقف ہے کہ صرف صحبت کرنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے بلکہ غسل کے واجب ہونے کے لئے منی کا نکلنا بھی ضروری ہے۔ مسئلہ کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر اس موضوع پر میں دلائل کے ساتھ قدرے تفصیلی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں۔
خیر القرون سے آج تک جمہور محدثین وفقہاء وعلماء کی رائے ہے کہ اگر مرد وعورت نے اس طرح صحبت کی کہ مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ عورت کی شرمگاہ میں چلا گیا تو غسل واجب ہوجائے گا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور فقیہ ومحدث حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ، علماء احناف اور ہندو پاک کے جمہور علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ سعودی عرب کے بیشتر علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ ابتدائے اسلام میں اس مسئلہ میں کچھ اختلاف رہا ہے، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ازواج مطہرات سے رجوع کرنے کے بعد صحابۂ کرام کا اس پر اجماع ہوگیا کہ محض جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے، جیسا کہ عقائد کی سب سے مشہور کتاب تحریر کرنے والے ۲۳۹ھ میں مصر میں پیدا ہوئے حنفی عالم امام طحاویؒ نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔
جمہور علماء کے دلائل: جمہور علماء کے متعدد دلائل ہیں، اختصار کے مدنظر صرف تین احادیث ذکر کررہا ہوں:
* حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد عورت کے چہار زانو میں بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ کوشش کی تو غسل واجب ہوگیا ۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الغسل ۔ باب اذا التقی الختانان) صحیح مسلم ۔ باب بیان الغسل کی اس حدیث میں یہ الفاظ بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا (اِنْ لَمْ ےَنْزِلْ) خواہ منی نہ نکلے، یعنی صرف جماع کرنے سے غسل واجب ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ امام بخاری ؒ نے (صحیح بخاری) میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث اس باب کی تمام احادیث میں عمدہ اور بہتر ہے اور ہم نے دوسری احادیث فقہاء کے اختلاف کے پیش نظر ذکر کی ہیں اور احتیاط اسی میں ہے کہ جماع کی صورت میں منی کے نہ نکلنے پر بھی غسل کیا جائے۔ غرضیکہ امام بخاری ؒ نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے کہ صحبت میں منی نہ نکلنے پر بھی غسل کیا جائے۔ صحیح مسلم میں وارد حضور اکرم ﷺ کے قول (اِنْ لَمْ ےَنْزِلْ) سے مسئلہ بالکل ہی واضح ہوجاتا ہے کہ جماع میں منی نہ نکلنے پر بھی غسل واجب ہوتا ہے۔
نوٹ: دونوں کی شرمگاہ کے صرف ملنے پر غسل واجب نہ ہوگا بلکہ مرد کی شرمگاہ کے اوپری حصہ کا عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونا ضروری ہے جیسا کہ محدثین وفقہاء وعلماء نے حضور اکرم ﷺ کے دیگر اقوال کی روشنی میں اس حدیث کے ضمن میں تحریر کیا ہے۔
* حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے ۔ (ترمذی ۔۔۔ ابواب الطہارۃ ۔…۔۔ باب ما جاء اذا التقی الختانان) یہ حدیث ترمذی کے علاوہ متعدد کتب حدیث میں موجود ہے۔ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا کہ صحابۂ کرام (جن میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر ،حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں) کا یہی قول ہے۔ فقہاء وتابعین اور ان کے بعد علماء حضرت سفیان ثوریؒ ، حضرت احمدؒ اور حضرت اسحاقؒ کا قول ہے کہ جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
حضوراکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں اور حشفہ (مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ) چھپ جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے ۔ (مسند احمد ، ابن ماجہ) ۲۶۰ھ میں پیدا ہوئے امام طبرانی ؒ نے حدیث کی کتاب (المعجم الاوسط) میں حدیث کے الفاظ اس طرح ذکر فرمائے ہیں کہ حضوراکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں اور حشفہ (مرد کی شرمگاہ کا اوپری حصہ) چھپ جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔
جن حضرات نے غسل کے واجب ہونے کے لئے منی کے نکلنے کو ضروری قرار دیا ہے، وہ عموماً صحیح مسلم میں وارد اس حدیث کو دلیل کے طور پر پیش فرماتے ہیں: (انما الماء من الماء) پانی پانی سے واجب ہوتا ہے، جس کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ غسل منی کے نکلنے کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔ امام مسلم ؒ نے اس حدیث کے علاوہ بھی احادیث ذکر فرمائی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل کے لئے خروج منی ضروری ہے۔ مگر امام مسلم ؒ نے ان تمام احادیث کو ذکر کرنے کے لئے جو اِس باب (Chapter) کا نام رکھا ہے وہ یہ ہے: (ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور اب صرف جماع سے غسل واجب ہے) امام مسلم ؒ کے اس باب کے یہ نام رکھنے سے مسئلہ خود ہی روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ابتدائے اسلام میں غسل واجب نہ تھا بعد میں وہ حکم حضور اکرم ﷺ نے منسوخ کرکے ارشاد فرمادیا کہ منی نکلے یا نہ نکلے، صرف جماع سے ہی غسل واجب ہوجائے گا۔ امام مسلم ؒ نے اس موقع پر یہ بھی تحریر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث دوسری حدیث کو منسوخ کردیتی ہے جس طرح قرآن کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوجاتی ہے۔ صحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ امام مسلم ؒ کا اس بات کو ذکر کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ پہلی احادیث منسوخ ہیں کیونکہ بعد کی احادیث میں صراحۃ موجود ہے کہ خواہ منی نکلے یا نہ نکلے ، محض حشفہ اندر جانے سے مردوعورت دونوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے اور اسی پر اجماع امت ہے۔ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے یہی فرمایا کہ مردو عورت کی شرمگاہ کے ملنے سے غسل واجب ہوجاتا ہے،میں اور حضور اکرم ﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
امام ترمذی ؒ نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور اب صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے چنانچہ امام ترمذیؒ مشہور ومعروف صحابی اور کاتب وحی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ کا فرمان اپنی کتاب (ترمذی) میں ذکر فرماتے ہیں: ( ابتدائے اسلام میں غسل اسی وقت فرض ہوتا تھا جب منی نکلے، یہ رخصت کے طور پر تھا، پھر اس سے منع کردیا گیا،یعنی یہ حکم منسوخ ہوگیا)۔ امام ترمذیؒ تحریر کرتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور غسل کے واجب ہونے کے لئے ابتدائے اسلام میں منی کا نکلنا ضروری تھا، مگر بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اسی طرح کئی صحابہ نے روایت کیا ہے۔ اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرے تو میاں بیوی دونوں پر غسل واجب ہوجائے گااگرچہ منی نہ نکلے۔ (ترمذی )
خلاصۂ بحث: خلفائے راشدین، کاتب وحی حضرت ابی بن کعب، حضرت عائشہ ، دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم، محدثین وفقہاء وعلماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور بعد میں صرف جماع سے بھی غسل واجب ہوا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب یہ مسئلہ اٹھاتو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جلیل القدر صحابہ کو مشورہ کے لئے طلب کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ازواج مطہرات (یعنی امہات المؤمنین) سے اس مسئلہ میں رجوع کیا جائے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب ختان ختان سے تجاوز کرجائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تصدیق کی کہ غسل کے لئے صرف مرد کی شرمگاہ کا عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونا کافی ہے ، منی نکلنا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ اسی کے مطابق فیصلہ کردیا گیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اس کے خلاف میں نے کسی سے کچھ سنا تو اسے لوگوں کے لئے عبرت بنادوں گا۔ امام طحاویؒ (۲۳۹ھ۔۳۲۱ ھ) نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ سعودی عرب کے مشہور ومعروف عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے تحریر کیا کہا ہے کہ صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے مگر بہت سارے لوگوں پر ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں اور وہ اپنی بیوی سے بغیر انزال کے صحبت کرتے رہتے ہیں اور غسل نہیں کرتے۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی حدود سے واقف ہو۔انسان نے اگر صحبت کی تو غسل واجب ہوگیا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔۔۔مجموع فتاوی ورسائل الشیخ عثیمین ؒ باب الغسل ۱۱/ ۲۱۷
انما الماء من الماء کا حکم منسوخ ہے:
جہاں تک حدیث (انما الماء من الماء) کا تعلق ہے تو یا تو یہ منسوخ ہے جیساکہ رسول اللہ سے صحبت یافتہ وکاتب وحی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ کا فرمان ہے : (ابتداء اسلام میں غسل اسی وقت فرض ہوتا تھا جب منی نکلے، یہ رخصت کے طور پر تھا، پھر اس سے منع کردیا گیا یعنی یہ حکم منسوخ ہوگیا)۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ قول امام ترمذیؒ نے ذکر فرماکر تحریر کیا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ یہ مسئلہ ایسا ہی ہے کہ ابتدائے اسلام میں آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضوٹوٹ جاتا تھا مگر بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، پہلے حکم سے متعلق احادیث بھی کتب حدیث میں موجود ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہے۔ بڑے بڑے محدثین مثلاً امام بخاریؒ ، امام مسلمؒ ، امام ترمذیؒ اور امام نوویؒ نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ اس حدیث کا تعلق احتلام سے ہے، یعنی اگر کسی شخص کو احتلام ہوجائے تو غسل واجب ہے۔ اس صورت میں اس حدیث (انما الماء من الماء) کا مطلب ہوگا کہ پانی (غسل) پانی (احتلام) کی وجہ سے واجب ہے۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث جماع کے لئے منسوخ ہوچکی ہے لیکن احتلام کے لئے اب بھی واجب العمل ہے۔ اور ایسا بکثرت ہوتا ہے کہ ایک حدیث کے بعض جزئیات منسوخ اور بعض واجب العمل ہوں۔ قرآن کریم کی بعض آیات کا حکم بھی منسوخ ہے لیکن اس کی تلاوت قیامت تک باقی رہی گی۔
مجھے اس مسئلہ میں بہت تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے بعض بھائی جو حدیث کا علم بلند کرکے اس پر عمل کرنے کی دعوت تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں باوجودیکہ احادیث میں ہی وضاحت موجود ہے کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا لیکن ۱۴۰۰ سال کے بعد بھی اپنی غلطی پر مصر ہیں حالانکہ دلائل شرعیہ کی موجودگی کے باوجود احتیاط کا تقاضی بھی یہی ہے کہ غسل کو واجب قرار دیا جائے تاکہ انسان ناپاکی کی حالت میں ساری دنیا کا چکر نہ لگاتا پھرے اور اسی حال میں نماز نہ پڑھتا رہے۔ امام مسلم ؒ نے اس بحث پر جو باب (Chapter) باندھا ہے وہ اس طرح ہے: (ابتدائے اسلام میں منی کے نکلے بغیر محض جماع سے غسل واجب نہ تھا مگر وہ حکم منسوخ ہوگیا اور اب صرف جماع سے غسل واجب ہے)۔ امام مسلم ؒ نے مسئلہ روز روشن کی طرح واضح کردیا کہ ابتدائے اسلام میں غسل واجب نہ تھا، بعد میں وہ حکم (انما الماء من الماء) حضور اکرم ﷺ نے منسوخ کرکے ارشاد فرمادیا (اِنْ لَمْ ےَنْزِلْ) منی نکلے یا نہ نکلے، صرف جماع سے غسل واجب ہوجائے گا۔ غرضیکہ محدثین کرام خاص کر امام بخاریؒ ، امام مسلمؒ اور امام ترمذی ؒ کی وضاحتوں سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا۔ امام نوویؒ جیسے محدث نے بھی یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور صحابہ اور ان کے بعد کے علماء نے یہی کہا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے۔
سعودی عر ب کے مشہور عالم شیخ محمد صالح المنجد صاحب سے جب مسئلہ مذکورہ میں رجوع کیا گیا تو جواب دیاکہ علماء کا اجماع ہے کہ جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو اور انہوں نے دلیل کے طور پر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد اُس حدیث کا ذکر کیا جو میں نے جمہور علماء کے دلائل کے ضمن میں سب سے پہلے ذکر کی ہے۔ اور فرمایا کہ (ریاض الصالحین کے مصنف اور مشہور محدث) امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ مرد کی شرمگاہ کے اوپری حصہ کے عورت کی شرمگاہ میں جاتے ہی غسل واجب ہوجائے گا خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ بعض صحابہ کا اس میں اختلاف تھا مگر بعد میں اجماع ہوگیا جیسا کہ ذکر کیا گیا۔ اور شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ نے فرمایا کہ یہ حدیث منی نہ نکلنے پر بھی جماع سے غسل کے واجب ہونے میں صریح ہے اور جو حضرات جماع میں انزال نہ ہونے پر غسل نہیں کرتے وہ غلطی پر ہیں۔ نیز سعودی عرب کی لجنہ دائمہ کے فتاوی (۳۱۴ / ۵) میں وارد ہے کہ عورت کی شرمگاہ میں مرد کی شرمگاہ کے اوپری حصہ کے داخل ہونے پر غسل واجب ہوجائے گا خواہ انزال ہو یا نہ۔ سعودی عر ب کے مشہور عالم شیخ محمد صالح المنجد صاحب کا یہ جواب انٹرنیٹ کے اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے: http://islamqa.info/ar/36865
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو قرآن وحدیث صحیح سمجھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔
محمدنجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

اذان، وضو اور مسواک کے فضائل کا مختصر بیان

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

اذان، وضو اور مسواک کے فضائل کا مختصر بیان

اذان:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن‘ اذان دینے والے سب سے زیادہ لمبی گردن والے ہوں گے یعنی سب سے ممتازنظر آئیں گے۔۔۔۔۔۔ مسلم ۔ باب فضل الاذان
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مؤذن کی آواز جہاں جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ ہر جاندار اور بے جان جو اُس کی آواز کو سنتے ہیں، اُس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔۔۔۔۔ مسند احمد
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مؤذن کی آواز کو جو درخت، مٹی کے ڈھیلے، پتھر، جن اور انس سنتے ہیں وہ سب قیامت کےدن مؤذن کے لئے گواہی دیں گے۔۔۔۔۔۔۔ ابن خزیمہ
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے بارہ سال اذان دی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی (ان شاء اللہ) ۔۔۔ حاکم
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اذان دینے والوں کو قیامت کی سخت گھبراہٹ کا خوف نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کو حساب دینا ہوگا،بلکہ وہ مشک کے ٹیلے پر تفریح کریں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ترمذی ، طبرانی، مجمع الزوائد ۔ باب فضل الاذان
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اذان سننے کے بعد اذان کے بعد کی دعا پڑھے تو اس کے لئے قیامت کے دن نبی اکرم ﷺ کی شفاعت واجب ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخاری ۔ باب الدعاء عند النداء
وضو:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اچھی طرح وضو کیا یعنی سنتوں اور آداب ومستحبات کا اہتمام کیا تو اس کے (چھوٹے) گناہجسم سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں۔ مسلم
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مؤمن بندہ وضو کرتا ہے اور اس دوران کلی کرتا ہے تو اسکے منہ کے تمام (چھوٹے) گناہ دھلجاتے ہیں۔ جب وہ ناک صاف کرتا ہے تو ناک کے تمام (چھوٹے) گناہ دھل جاتے ہیں۔ جب چہرا دھوتا ہے تو چہرے کے تمام)چھوٹے) گناہ دھل جاتے ہیں یہاں تک کہ پلکوں کی جڑوں سے بھی نکل جاتے ہیں۔۔۔ نسائی ۔ باب مسح الاذنین مع الراس
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری اُمت قیامت کے دن اس حال میں بلائی جائے گی کہ ان کے ہاتھ پاؤں اور چہرے وضو میں
دھلنے کی وجہ سے روشن اور چمکدار ہوں گے۔۔۔۔۔۔ بخاری ۔ باب فضل الوضو
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مؤمن کا زیور قیامت کے دن وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچتا ہے یعنی اعضاء کے جنحصوں تک وضو کا پانی پہنچے گا وہاں تک زیور پہنایا جائے گا۔ ۔۔۔ مسلم ۔ باب تبلغ الحلیہ

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مستحبات اور آداب کا اہتمام کرتے ہوئے اچھی طرح وضو کرے پھر یہ پڑھے (اَشْھَدُ اَن
لاَّ اِلٰہَ الِاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِےْکَ لَہ وَاَشْھَدُ اَنّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَرَسُولُہ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِےْنَ وَاجْعَلْنِی مِنَ
الْمُتَطَھِّرِےْنَ) تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے داخل ہوجائے۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔
مسلم۔ الذکر المستحب عقب الوضو
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص وضو ہونے کے باوجود دوبارہ وضو کرتا ہے تو اسے دس نیکیاں ملتی ہیں۔۔۔ ابو داؤد۔
باب الرجل یجدد الوضو (وضاحت: اس کی شکل یہ ہے کہ مثلاً وضو کرکے مغرب کی نماز مغرب کے وقت میں ادا کرلی، اب عشاء کی نماز
عشاء کے وقت میں ادا کرنی ہے تو بہتر ہے کہ دوسرا وضو کرلیں خواہ پہلا وضو ابھی باقی ہو)۔
مسواک:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسواک کرنا تمام انبیاء کی سنت ہے۔ ترمذی ۔ باب ماجاء فی فضل الترویجً …
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسواک منہ کو صاف کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔۔۔ نسائی۔ الترغیب فی السواک
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسواک کرکے دو رکعت نماز پڑھنا بغیر مسواک کے ستر رکعت پڑھنے سے افضل ہے۔البزاز، مجمع الزوائد۔ باب ماجاء فی السواک
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دن یا رات میں جب بھی نبی اکرم ا سوکر اٹھتے تو وضو سے پہلے مسواک ضرور کرتے۔۔۔ابو داؤد ۔ باب السواک لمن قام باللیل
رسول اللہ ﷺ جب تہجد کے لئے اٹھتے تو مسواک سے اپنے منہ کو اچھی طرح صاف کرتے۔ ۔۔۔ رسول اللہ گھر میںتشریف لانے کے بعد سب سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔ مسلم ۔ باب السواک
یا اللہ! ہم سب کو قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزانے والا بنا۔ یا اللہ! ہمارا خاتمہ ایمان پر فرما۔ محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض