رشتے داروں اور متعلقین کو زکوٰۃ دینا

رشتے داروں اور متعلقین کو زکوٰۃ دینا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

رشتے داروں اور متعلقین کو زکوٰۃ دینا

اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ (آیت ۶۰) میں زکوٰۃ کے ۸ مستحقین کا ذکر کیا ہے، یعنی زکوٰۃ کس کو ادا کریں؟ : (۱) فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں۔ (۲) مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ (۳) جو کارکن زکوٰۃ وصول کرنے پر متعین ہیں۔ (۴) جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو۔ (۵) وہ غلام جس کی آزادی مطلوب ہو۔ (۶) قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔ (۷) اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔ (۸) مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو۔

رشتہ داروں مثلاً بھائی، بہن، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، ساس، سسر، داماد وغیرہ میں سے جو حاجتمند اور مستحق زکوٰۃ ہوں، انہیں زکوٰۃ دینے میں دوہرا ثواب ملتا ہے، ایک ثواب زکوٰۃ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا، جیساکہ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ کسی تحفہ یا ہدیہ کے شکل میں بھی ان مذکورہ رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، لیکن ادائیگی کے وقت زکوٰۃ کی نیت ہونی چاہئے۔ البتہ اپنے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اپنے بیٹا، بیٹی ، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔ اس پر بھی امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا کیونکہ بیوی کے اخراجات شوہر کے ذمہ ہیں۔ البتہ اگر بیوی کے مال پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس کا شوہر مستحق زکوٰۃ ہے تو کیا بیوی اپنے مال کی زکوٰۃ مستحق شوہر کو دے سکتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک اشتراک فی النفع کی وجہ سے جائز نہیں ہے، حضرت امام شافعی ؒ کے نزدیک جائز ہے، حضرت امام مالک ؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ سے دو قول منقول ہیں، ایک قول مثل احناف ہے، دوسرا قول مثل شوافع۔ جواز کے قائلین نے بخاری ومسلم میں وارد حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کے واقعہ کو دلیل کو طور پر پیش کیا ہے۔ علماء احناف نے کہا ہے کہ بخاری ومسلم میں وارد اس واقعہ میں زکوٰۃ مراد نہیں ہے بلکہ عام صدقات مراد ہیں، کیونکہ بخاری کی ہی حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ والے اس واقعہ میں شوہر کے ساتھ بیٹے کا بھی ذکر ہے، اور نبی اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ہے۔

مشہور مصری حنفی عالم علامہ بدر الدین عینی ؒ (۷۶۲ھ۔۸۵۵ھ)نے بخاری کی ۱۴ جلدوں پر مشتمل مشہور شرح (عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری)میں اس موضوع پر مدلل بحث کی ہے، جس کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کچھ کام نہیں کیا کرتے تھے، البتہ ان کی بیوی کاروبار کیا کرتی تھیں، انہیں کی کمائی سے پورے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے وعظ ونصیحت میں زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کرنے کی ترغیب دی، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو یہ احساس ہوا کہ میری تو ساری کمائی گھر پر ہی خرچ ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے میں صدقہ وخیرات کرکے اجروثواب کے حصول سے محروم رہ جاتی ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ سے جب اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے رجوع کیا گیا توآپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا شوہر اور بیٹا اس کا زیادہ حقدار ہے، یعنی حضرت زینب کا اپنے شوہر اور بیٹے پر اپنی کمائی کا پیسہ خرچ کرنا ان کے لئے باعث اجروثواب ہے۔ غرضیکہ اس واقعہ میں زکوٰۃ مراد نہیں ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رشتہ داروں میں سے جو حاجتمند اور مستحق زکوٰۃ ہوں، انہیں زکوٰۃ دینے میں دوہرا ثواب ملتا ہے، ایک ثواب زکوٰۃ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ البتہ اصول (مثلاً ماں باپ) اور فروع (مثلاً اولاد) کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ہے، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو زکوٰ ۃ نہیں دے سکتا ہے۔ بیوی کا اپنے مال کی زکوٰۃ غریب شوہر کو دینے میں علماء کا اختلاف ہے، احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ بیوی اپنے غریب شوہر کو زکوٰۃ نہ دے تاکہ زکوٰۃ کا مال گھر ہی میں استعمال کرنا لازم نہ آئے، البتہ اسے چاہئے کہ وہ اپنے محتاج شوہر کی دوسری شکلوں سے مدد کرے۔ گھر یا دوکان یا فیکٹری وغیرہ کے ملازمین یا اپنے ڈرائیور کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، اگر وہ زکوٰۃ کے مسحتق ہیں۔ ان کو تنخواہ اور مزدوری کے علاوہ زکوٰۃ کی نیت سے بطور ہدیہ بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (www.najeebqasmi.com)

سونے یا چاندی کے زیورات پر زکاۃ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
سونے یا چاندی کے زیورات پر زکاۃ
حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ، اسی طرح مشہور ومعروف تابعین حضرت سعید بن جبیرؒ ، حضرت عطاءؒ ، حضرت مجاہدؒ ، حضرت ابن سیرینؒ ، امام زہریؒ ، امام ثوریؒ ، امام اوزاعی ؒ اور امام اعظم ابوحنیفہ ؒ قرآن وسنت کی روشنی میں عورتوں کے سونے یا چاندی کے استعمالی زیور پر وجوبِ زکاۃ کے قائل ہیں، اگر وہ زیور نصاب کے مساوی یا زائد ہو اور اس پر ایک سال بھی گزر گیا ہو، جس کے مختلف دلائل پیش کئے جاتے ہیں:
قرآن وسنت کے وہ عمومی حکم جن میں سونے یا چاندی پر بغیر کسی (استعمالی یا غیر استعمالی ) شرط کے زکاۃ واجب ہونے کا ذکر ہے اور ان آیات واحادیث شریفہ میں زکاۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ متعدد آیات واحادیث میں یہ عموم ملتا ہے، اختصار کی وجہ سے صرف ایک آیت اور ایک حدیث پر اکتفاء کرتا ہوں:
جو لوگ سونا یا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (یعنی زکاۃ نہیں نکالتے) سو آپ ان کو ایک بڑے دردناک عذاب کی خبر سنادیجئے، جو اس روز واقع ہوگا کہ ان (سونے وچاندی) کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر ان سے لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا۔ اور یہ جتایا جائے گا کہ یہ وہ ہے جس کو تم اپنے واسطے جمع کرکے رکھتے تھے۔ سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔۔۔۔۔ (سورۂ التوبہ ۳۴،۳۵)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مال کی زکاۃ اداکردی جائے وہ کنز تم (جمع کئے ہوئے) میں داخل نہیں ہے۔ (ابوداؤد، مسند احمد) غرضیکہ جس سونے وچاندی کی زکاۃ ادا نہیں کی جاتی ہے، کل قیامت کے دن وہ سونا وچاندی جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پشتوں کو داغا جائے گا۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام مال اور سونے وچاندی کے زیورات پر زکاۃ کی ادائیگی کرنے والا بنائے تاکہ اس دردناک عذاب سے ہماری حفاظت ہوجائے۔ آمین۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص جو سونے یا چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق (یعنی زکاۃ) ادا نہ کرے تو کل قیامت کے دن اس سونے وچاندی کے پترے بنائے جائیں گے اور ان کو جہنم کی آگ میں ایسا تپایا جائے گاگویا کہ وہ خود آگ کے پترے ہیں۔ پھر اس سے اس شخص کا پہلو، پیشانی اور کمر داغ دی جائے گی اور قیامت کے پورے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، باربار اسی طرح تپاتپاکر داغ دئے جاتے رہیں گے ، یہاں تک کہ ان کے لئے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوجائے۔(مسلم، کتاب الزکاۃ)
اس آیت اور حدیث میں عمومی طور پر سونے یا چاندی پر زکاۃ کی عدم ادائیگی پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے خواہ وہ استعمالی زیور ہوں یا تجارتی سونا و چاندی۔ غرضیکہ قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی استعمالی زیور کا استثنی نہیں کیا گیاہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس کے ساتھ اسکی بیٹی تھی جو دو سونے کے بھاری کنگن پہنے ہوئے تھی۔ نبی اکرم ا نے اس عورت سے کہا کہ کیا تم اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ اس عورت نے کہا : نہیں۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم چاہتی ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے کل قیامت کے دن آگ کے کنگن تمہیں پہنائے۔ تو اس عورت نے وہ دونوں کنگن اتارکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لئے پیش کردئے۔ (ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب الکنز ما ہو وزکاۃ الحلی۔ مسند احمد۔ ترمذی ۔ دار قطنی) شارح مسلم امام نووی ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ا میرے پاس تشریف لائے اور میرے ہاتھ میں چھلا دیکھ کر مجھ سے کہا کہ اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ میں نے آپ کے لئے زینت حاصل کرنے کی غرض سے بنوایا ہے۔ تو نبی اکرم انے کہا : کیا تم اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ میں نے کہا : نہیں۔ نبی اکرم انے فرمایا : تو پھر یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لئے کافی ہے۔ (ابوداؤد ۱/۲۴۴، دار قطنی)
محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام خطابی ؒ نے (معالم السنن ۳/۱۷۶) میں ذکر کیا ہے کہ غالب گمان یہ ہے کہ چھلا تنہا نصاب کو نہیں پہونچتا، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس چھلے کو دیگر زیورات میں شامل کیا جائے ، نصاب کو پہونچنے پر زکاۃ کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ امام سفیان ثوری ؒ نے بھی یہی توجیہ ذکر کی ہے۔
حضرت اسماء بنت زید ؓ روایت کرتی ہیں کہ میں اور میری خالہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، ہم نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : کیا تم اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ ہم نے کہا : نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا تم ڈرتی نہیں کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے آگ کے کنگن تمہیں پہنائے؟ لہذا ان کی زکاۃ ادا کرو ۔ (مسند احمد) محدثین کی ایک جماعت نے حدیث کو اس صحیح قرار دیا ہے۔
متعدد احادیث صحیحہ میں زیورات پر زکاۃ کے واجب ہونے کا ذکر ہے، یہاں طوالت سے بچنے کے لئے صرف تین احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
استعمالی زیور میں زکاۃ واجب نہ قرار دینے والا امت مسلمہ کا دوسرا مکتب فکر عموماً دو دلیلیں پیش کرتا ہے:
عقلی دلیل: اللہ تعالیٰ نے اسی مال میں زکاۃ کو واجب قراردیا ہے جس میں بڑھوتری کی گنجائش ہو، جبکہ سونے اور چاندی
کے زیورات میں بڑھوتری نہیں ہوتی۔ ۔۔ حالانکہ حقیقتاً زیورات میں بھی بڑھوتری ہوتی ہے چنانچہ سونے کی قیمت
کے ساتھ زیورات کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے، آج کل تو تجارت سے زیادہ margin سونے میں موجودہے۔
چند احادیث وآثار صحابہ : وہ سب کے سب ضعیف ہیں جیساکہ شیخ ناصر الدین البانی ؒ نے اپنی کتاب (ارواء الغلیل فی
تخریج احادیث منابر السبیل) میں دلائل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔
برصغیر کے جمہور علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی تحریر کیا ہے کہ استعمالی زیورات میں نصاب کو پہنچنے پر زکاۃ واجب ہے۔ ۔۔۔ سعودی عرب کے سابق مفتی عام شیخ عبد العزیز بن بازؒ کی بھی قرآن وسنت کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ استعمالی زیور پر زکاۃ واجب ہے۔ تفصیلات کے لئے انٹرنیٹ کے اس لنک پر کلک کیجئے۔
http://www.binbaz.org.sa/mat/13841
اصولی بات:
موضوع بحث مسئلہ میں امت مسلمہ زمانۂ قدیم سے دو مکاتب فکر میں منقسم ہوگئی ہے، ہر مکتب فکر نے اپنے موقف کی تایید کے لئے احادیث نبویہ سے ضرور سہارا لیا ہے لیکن اس حقیقت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی سونے یا چاندی پر زکاۃ کی ادائیگی نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں کسی ایک جگہ بھی استعمالی یا تجارتی سونے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ نیز استعمالی زیور کو زکاۃ سے مستثنیٰ کرنے کے لئے کوئی غیر قابل نقد وجرح حدیث احادیث کے ذخیرہ میں نہیں ملتی ہے، بلکہ بعض احادیث صحیحہ استعمالی زیور پر زکاۃ واجب ہونے کی واضح طور پر رہنمائی کررہی ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی ؒ جیسے محدث نے بھی ان میں سے بعض احادیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ نیز استعمالی زیور پر زکاۃ کے واجب قرار دینے کے لئے اگر کوئی حدیث نہ بھی ہو تو قرآن کریم کے عمومی حکم کی روشنی میں ہمیں ہر طرح کے سونے وچاندی پر زکاۃ ادا کرنی چاہئے خواہ اس کا تعلق استعمال سے ہو یا نہیں،تاکہ کل قیامت کے دن رسوائی،ذلت اور دردناک عذاب سے بچ سکیں۔ نیز استعمالی زیور پر زکاۃ کے واجب قرار دینے میں غریبوں،مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کا فائدہ ہے تاکہ دولت چند گھروں میں نہ سمٹے بلکہ ہم اپنے معاشرہ کو اس رقم سے بہتر بنانے میں مدد حاصل کریں۔

احتیاط:
وہ مذکورہ بالا احادیث جن میں نبی اکرم انے استعمالی زیور پر بھی وجوب زکاۃ کا حکم دیا ہے ، ان کے صحیح ہونے پر محدثین کی ایک جماعت متفق ہے، البتہ بعض محدثین نے سند حدیث میں ضعف کا اقرار کیا ہے۔ لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ ہم استعمالی زیور پر بھی زکاۃ کی ادائیگی کریں تاکہ زکاۃ کی ادائیگی نہ کرنے پر قرآن وحدیث میں جو سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں ان سے ہماری حفاظت ہوسکے۔ نیز ہمارے مال میں پاکیزگی کے ساتھ اس میں نمو اور بڑھوتری اسی وقت پیدا ہوگی جب ہم مکمل زکاۃ کی ادائیگی کریں گے، کیونکہ زکاۃ کی مکمل ادائیگی نہ کرنے پر مال کی پاکیزگی اور بڑھوتری کا وعدہ نہیں ہے۔ نیز جو بعض صحابہ یا تابعین استعمالی زیور میں زکاۃ کے وجوب کے قائل نہیں تھے ، ان کی زندگیوں کے احوال پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو اپنی ضروریات کے مقابلے میں دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اپنی دنیا وآخرت کی کامیابی سمجھتے تھے اور اپنے مال کا ایک بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتے تھے۔ تاریخی کتابیں ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔ اِس وقت امت مسلمہ کا بڑا طبقہ زکاۃ کی ادائیگی کے لئے بھی تیار نہیں ہے چہ جائیکہ دیگر صدقات وخیرات وتعاون سے اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرے، لہذا استعمالی زیور پر زکاۃ نکالنے میں ہی احتیاط ہے تاکہ ہم دنیا میں غریبوں،یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرکے کل قیامت کے دن نہ صرف عذاب سے بچ سکیں، بلکہ اجر عظیم کے بھی مستحق بنیں۔
چند وضاحتیں:
اگر زیورات استعمال کے لئے نہیں ہیں بلکہ مستقبل میں کسی تنگ وقت میں کام آنے (مثلاً بیٹی کی شادی) کے لئے رکھے
ہوئے ہیں یا سال سے زیادہ ہوگیا اور ان کا استعمال بھی نہیں ہوا، تو اس صورت میں سونے کے زیورات پر زکاۃ کے واجب
ہونے پر تقریباً تمام علماء کرام کا اتفاق ہے، یعنی امت مسلمہ کا دوسرا مکتب فکر بھی متفق ہے۔
زیورات کی زکاۃ میں زکاۃ کی ادائیگی کے وقت پرانے سونے کے بیچنے کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔ یعنی آپ کے پاس جو سونا موجود ہے اگر اس کو مارکیٹ میں بیچیں تو وہ کتنے میں فروخت ہوگا اس قیمت کے اعتبار سے زکاۃ ادا کرنی ہوگی۔
Diamond پر زکاۃ واجب نہ ہونے پر امت مسلمہ متفق ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے اس کو قیمتی پتھروں میں شمار
کیا ہے۔ ہاں اگریہ تجارت کی غرض کے لئے ہوں تو پھر نصاب کے برابر یا زیادہ ہونے کی صورت میں زکاۃ واجب ہوگی۔

اگر کسی شخص کے پاس سونے یا چاندی کے علاوہ نقدی یا بینک بیلینس بھی ہے تو ان پر بھی زکاۃ ادا کرنی ہوگی، البتہ دو بنیادی
شرطیں ہیں :
۱۔ نصاب کے مساوی یا زائد ہو۔
۲۔ ایک سال گزر گیا ہو۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی (najeebqasmi@yahoo.com)

زمین کی پیداوار میں زکاۃ یعنی عُشْر
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
زمین کی پیداوار میں زکاۃ یعنی عُشْر
خالق کائنات کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت زمین کی تخلیق ہے جس میں اللہ جل شانہ کے حکم سے بے شمار اناج، پھل پھول، سبزیاں اور طرح طرح کی نباتات پیدا ہوتی ہیں جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم واحسان ہے کہ اس نے زمین کو انسان کے تابع بنا دیااور اس میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی روزی کا عظیم ذخیرہ جمع کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے مٹی کو پیداوار کے قابل بنایا اور پیداوار کے اگنے اور اس کے نشوونما کے لئے بادلوں سے پانی برساکر، پہاڑوں سے چشمے بہاکراور زمین کے اندر پانی کے ذخیرے رکھ کر وافر مقدار میں پانی پیدا کردیا، نیز ہوا کے انتظام کے ساتھ روشنی وگرمی کا خاص نظم کیا تاکہ تمام انس وجن اور جاندار زمین کی پیداوار سے بھرپور فائدہ اٹھاکر زندگی کے ایام گزارتے رہیں۔
یقیناًزمین وآسمان کے پیدا کرنے والے ہی نے زمین سے پیداواری کا یہ سارا انتظام کیا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اچھا یہ بتاؤکہ جو کچھ تم زمین میں بوتے ہو، کیا اسے تم اگاتے ہو ، یا اگانے والے ہم ہیں۔ (سورۃ الواقعہ آیت نمبر۶۳) یعنی تمہارا کام بس اتنا ہی تو ہے کہ تم زمین میں بیج ڈال دو اور محنت کرو۔ اس بیچ کو پروان چڑھاکر کونپل کی شکل دینا، اور اسے درخت یا پودا بنا دینا اور اس میں تمہارے فائدے کے پھل یا غلے پیدا کرناکیا تمہارے اپنے بس میں تھا؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو تمہارے ڈالے ہوئے بیج کو یہاں تک پہنچادیتا ہے۔
یقینی طور پر زمین کی پیداوار کا ہر ہردانہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اور حقیقی پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ انسان تو اللہ کی عظیم نعمتوں (مٹی کو پیداوار کے قابل بنانا، پانی، ہوا، گرمی وسردی اور روشنی کا انتظام وغیرہ) سے فائدہ اٹھائے بغیر ایک تنکا بھی زمین سے نہیں اگاسکتا ۔ اس عظیم نعمت پر ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین سے ہمارے لئے عمدہ عمدہ غذاؤوں کا انتظام کیا۔ شریعت اسلامیہ نے اظہار تشکر کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ زمین کی ہر پیداوار پر عشر یا نصف عشر (دسواں یا بیسواں حصہ) یعنی دس یا پانچ فیصد زکاۃ نکالیں تاکہ غریبوں اور محتاجوں کی ضرورتوں کی تکمیل ہوسکے۔
پیداوار کی زکاۃ کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرتا ہے: اللہ وہ ہے جس نے باغات پیدا کئے جن میں سے کچھ (بیل دار ہیں جو) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں ، اور نخلستان اور کھیتیاں پیدا کیں، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں، اور زیتون اور انار پیدا کئے، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو، اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو، اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۴۱)
اسی طرح اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہواور جو پیداوار ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اللہ کے راستے میں ) خرچ کیا کرو۔ اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (اللہ کے نام پر) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ بے نیاز ہے اور قابل تعریف ہے۔(سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۲۶۷)
قرآن کریم کے پہلے مفسر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو زمین دریا اور بادل سے سینچی جائے، اس کی پیداوار کا دسواں حصہ اور جو ززمین کنویں سے سینچی جائے اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ ( زکاۃ کے طور پر نکالا جائے)۔ (صحیح مسلم، مسند احمد، نسائی، ابوداود)
قیامت تک آنے والی ساری انسانیت کے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو زمین آسمان، چشمہ اور تالاب کے پانی سے سینچی جائے اس کی پیداوار کا دسواں حصہ، اور جو زمین ڈول یا رہٹ کے ذریعہ سینچی جائے اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ ( زکاۃ کے طور پر نکالا جائے)۔ (صحیح بخاری، ترمذی، نسائی، ابوداود، ابن ماجہ)
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ زمین کی پیداوار پر دسواں یا بیسواں حصہ (دس یا پانچ فیصد) زکاۃ میں دینا ضروری ہے، اگرچہ اس کی تفصیلات میں کچھ اختلافات ہیں۔ (بدائع الصنائع) شیخ ابن قدامہ ؒ نے اپنی کتاب “المغنی” میں تحریر کیا ہے کہ زمین کی پیداوار میں زکاۃ کے وجوب کے سلسلہ میں امت کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔
عُشْر کے معنی:
عشر کے اصل معنی دسویں حصہ کے ہیں، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیداوار کی زکاۃ کے متعلق جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اس میں زمین کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔
۱) اگر زمین بارانی ہو یعنی بارش یا ندی ونہر کے مفت پانی سے سیراب ہوتی ہے تو پیدوار میں عشر یعنی دسواں حصہ زکاۃ میں دینا فرض ہے۔ ۲) اگر زمین کو ٹیوب ویل وغیرہ سے خود سیرا ب کیا جاتا ہے تو نصف عشر (پانچ فیصد) یعنی بیسواں حصہ زکاۃ میں دینا فرض ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر مفت پانی سے سیراب ہوکر پیداوار ہوئی ہے تو دسواں حصہ (دس فیصد)ورنہ بیسواں حصہ (پانچ فیصد) ۔
اگر زمین دونوں پانی (یعنی بارش وغیرہ اور ٹیوب ویل) سے سیراب ہوئی ہے تو اکثریت کا اعتبار ہوگا۔
فقہاء کی اصطلاح میں دونوں قسم پر عائد ہونے والی زکاۃ کو عشر ہی کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
نصاب عُشر :
قرآن وحدیث کے عموم کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عشر کے لئے کوئی نصاب ضروری نہیں ہے بلکہ ہر پیداوار پر زکاۃ واجب ہے خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ۔ یعنی عشر میں زکاۃ کی طرح کوئی نصاب ضروری نہیں کہ جس سے کم ہونے پر عشر ساقط ہوجائے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے میں پھلوں، سبزیوں اور ترکاریوں پر بھی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) واجب ہے۔ دیگر ائمہ اور امام محمد ؒ وامام یوسف ؒ کے نزدیک حدیث (لیس فیما دون خمسۃ اوسق صدقہ) کی روشنی میں پانچ وسق (چھ کوئنٹل اور ۵۳ کیلو)سے اگر کم پیداوار ہو تو ایسے لوگوں پر عشر واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر چھ کوئنٹل اور ۵۳ کیلوسے کم گندم پیدا ہو تو اس پر عشر واجب نہیں ۔
عُشْر اور زکاۃ میں فرق:
پیداوار کی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ہر پیداوار پر دی جائے گی، خواہ سال میں ایک سے زیادہ پیداوار ہوئی ہو، یعنی اگر ایک سے زیادہ مرتبہ پیداوار ہوئی ہے تو ہر مرتبہ عشر یا نصف عشردیاجائے گا۔ مال یا سونے وچاندی کی زکاۃ کے وجوب کے لئے ضروری ہے کہ وہ ضروریات سے بچا ہواہو، نصاب کو پہنچا ہوا ہو اور اس پر ایک سال گزرگیا ہو لیکن پیداوار کی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) کے لئے یہ تمام شرطیں ضروری نہیں ہیں۔ غرضیکہ مال یا سونے وچاندی پر سال میں ایک ہی بار زکاۃ واجب ہوتی ہے، جبکہ سال میں دو پیداوار ہونے پر دو مرتبہ زکاۃ ادا کی جائے گی۔
پیداوار پر زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) کی ادائیگی کے بعد اگر غلہ کئی سال تک بھی رکھا رہے تو اس پر دوبارہ زکاۃ ضروری نہیں ہے، ہاں اگر غلہ بیچ دیا گیا تو اس سے حاصل شدہ مال پر ایک سال گزرنے اور نصاب کو پہنچنے پر زکاۃ واجب ہوگی۔
کھیت کی زمین پر کوئی زکاۃ واجب نہیں ہوتی ہے چاہے جتنی قیمت کی ہو۔
بٹائی کی زمین کا عشر:
جس کے حصہ میں جتنی پیداوار آئے گی اس کے مطابق اس کی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنا ضروری ہے۔ مثلاً زمین مالک اور کھیتی کرنے والے کے درمیان آدھی آدھی پیداوار تقسیم ہوئی تو دونوں کو حاصل شدہ پیداوار پر زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنا ضروری ہے۔
کٹائی کا خرچ اور عشر:
پیداوار کی زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) تمام پیداوار سے نکالی جائے گی، اس میں کٹائی وغیرہ کے مصارف شامل نہیں کئے جاتے ہیں، مثلاً سو کوئنٹل گندم پیدا ہوئے، پانچ کوئنٹل گندم کٹائی میں اور دس کوئنٹل گاہنی(تھریشر) میں دے دیا گیا تو ۸۵ کوئنٹل پر نہیں بلکہ پوری پیداوار یعنی سو کوئنٹل پر زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) ادا کرنی ہوگی۔
متفرق مسائل:
* پیداوار کی زکاۃ میں جو حصہ ادا کرنا واجب ہے مثلاً ایک کوئنٹل گندم تو گندم کے بجائے اگر اس کی قیمت دے دی جائے تو بھی جائز ہے۔ (شامی)
* اگر رہائشی مکان کے ارد گرد یا اس کے صحن میں کسی پھل مثلاً امرود کا پیڑ لگالیا یا معمولی سی کھیتی کرلی تو اس پر زکاۃ (یعنی عشر یا نصف عشر) واجب نہیں ہے۔ (شامی)
* ہندوستان کی آراضی عام طور پر عشری ہیں، یعنی پیدوار کا دس یا پانچ فیصد مستحقین زکاۃ کو ادا کرنا چاہئے ۔ مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ ہندوستانی آراضی کی کل تیرہ صورتیں ہیں، جن میں سے دس میں اصولاً عشر یا نصف عشر واجب ہوتا ہے اور تین میں احتیاطاً عشر یا نصف عشرادا کرنا چاہئے۔ (جدید فقہی مسائل ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب)
* ہندوستان کی آراضی میں پیداوار پر زکاۃ کے سلسلہ میں بعض علماء کا اختلاف بھی ہے مگر قرآن کریم کی آیات واحادیث کے عموم کی وجہ سے احتیاط اسی میں ہے کہ ہر پیدوار کا دس یا پانچ فیصد مستحقین زکاۃ کو ادا کیا جائے۔
کھیتی کی زکاۃ کے مستحقین بھی مستحقینِ زکوٰۃ کی طرح ۸ ہیں:
اللہ تعالیٰ نے سورۂ التوبہ آیت نمبر ۶۰ میں ۸ مستحقین زکوٰۃ کا ذکر کیا ہے :
فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں۔
مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
جو کارکن زکاۃ وصول کرنے پر متعین ہیں۔
جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو۔
وہ غلام جسکی آزادی مطلوب ہو۔
قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔
اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔
مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری جانی ومالی تمام عبادتوں کو قبول فرمائے، آمین۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

زکوٰۃ کے مسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
زکوٰۃ کے مسائل

زکوٰۃ کے معنی:
زکوٰۃ کے معنی پاکیزگی، بڑھوتری اور برکت کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اُن کے مال سے زکوٰۃ لو تاکہ اُن کو پاک کرے اور بابرکت کرے اُس کی وجہ سے، اور دعا دے اُن کو۔ (سورۂالتوبہ، آیت نمبر ۱۰۳) شرعی اصطلاح میں مال کے اُس خاص حصہ کو زکوٰۃ کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فقیروں، محتاجوں وغیرہ کو دے کر انہیں مالک بنا دیا جائے۔
زکوٰۃ کا حکم:
زکوٰۃ دینا فرض ہے۔ قرآن کریم کی آیات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات سے اِس کی فرضیت ثابت ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جوشخص زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے، اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، جس پر آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی اگر اللہ تعالیٰ نے اسے معاف نہیں فرمایا۔
زکوٰۃ کی فرضیت کب ہوئی:
زکوٰۃ کی فرضیت ابتداء اسلام میں ہی مکہ مکرمہ کے اندر نازل ہوچکی تھی، جیساکہ مفسر قرآن ابن کثیرؒ نے سورۂ مزمل کی آیت فَاقِيمُوا الصَّلاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃسے استدلال فرمایا ہے۔ کیونکہ یہ سورت مکی ہے اور بالکل ابتداء وحی کے زمانہ کی سورتوں میں سے ہے۔ البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداءِ اسلام میں زکوٰۃ کے لئے کوئی خاص نصاب یا خاص مقدار مقرر نہ تھی، بلکہ جو کچھ ایک مسلمان کی اپنی ضرورت سے بچ جاتا، اُس کا ایک بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا تھا۔ نصاب کا تعین اور مقدارِ زکوٰۃ کا بیان مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ہوا۔
زکوٰۃ نہ نکالنے پر وعید:
سورۂ التوبہ آیت نمبر ۳۴ ۔ ۳۵ میں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰۃ نہیں نکالتے۔ اُن کے لئے بڑے سخت الفاظ میں خبر دی ہے، چنانچہ فرمایا : جو لوگ سونا وچاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (یعنی زکوٰۃ نہیں نکالتے) تو (اے نبی ) آپ ان کو ایک بڑے دردناک عذاب کی خبر سنادیجئے۔ دوسری آیت میں اُس دردناک عذاب کی تفصیل ذکر فرمائی کہ یہ دردناک عذاب اُس دن ہوگا جس دن سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اُس آدمی کی پیشانی ، اُس کے پہلو اور اُس کی پشت کو داغا جائے گااور اس سے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، آج تم اس خزانے کا مزہ چکھو، جو تم اپنے لئے جمع کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس انجام بد سے محفوظ فرمائے ، آمین۔ آیت میں “کَنَزْتُمْ” سے مراد وہ مال ہے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مال میں زکوٰۃ کی رقم شامل ہوجائے (یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کی گئی یا پوری زکوٰۃ نہیں نکالی بلکہ کچھ زکوٰۃ نکالی اور کچھ رہ گئی) تو وہ مال انسان کے لئے تباہی اور ہلاکت کا سبب ہے۔ (مجمع الزوائد) لہذا اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ ایک ایک روپئے کا صحیح حساب کرکے زکوٰۃ ادا کی جائے۔
زکوٰۃ کے فوائد:
زکوٰۃ ایک عبادت ہے اور اللہ کا حکم ہے۔ زکوٰۃ نکالنے سے ہمیں کوئی فائدہ ملے یا نہ ملے، اللہ کے حکم کی اطاعت بذات خود مقصود ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا اصل مقصد اللہ کی اطاعت ہے ، لیکن اللہ کا کرم ہے کہ جب کوئی بندہ زکوٰۃ نکالتا ہے تو اللہ اُس کو دنیاوی فوائد بھی عطا فرماتا ہے، اُن فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی باقی مال میں برکت ،اضافہ اور پاکیزگی کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم (سورۂ البقرہ ۔ ۲۷۶) میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :اللہ سود کو مٹاتا ہے اور زکوٰۃ اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ خرچ کرتا ہے (زکوٰۃ نکالتا ہے) تو فرشتے اُس کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کررہا ہے اس کو اور زیادہ عطا فرما، اور اے اللہ جس شخص نے اپنے مال کو روک کر رکھ رہا ہے (یعنی زکوٰۃ ادا نہیں کررہا ہے) تو اے اللہ اس کے مال پر ہلاکت ڈال دے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتاہے۔ (صحیح مسلم)
زکوٰۃ کس پر فرض ہے:
اُس مسلمان عاقل بالغ پر زکوٰۃ فرض ہے جو صاحبِ نصاب ہو۔ نصاب کا اپنی ضرورتوں سے زیادہ اور قرض سے بچا ہوا ہونا شرط ہے ، نیز مال پر ایک سال کا گزر نا بھی ضروری ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ جس کے پاس نصاب سے کم مال ہے، یا مال تو نصاب کے برابر ہے لیکن وہ قرض دار بھی ہے یا مال سال بھر تک باقی نہیں رہا ، تو ایسے شخص پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔
زکوٰۃ کا نصاب :
52.5 تولہ چاندی یا 7.5 تولہ سونا یا اُس کی قیمت کا نقد روپیہ یا زیور یا سامانِ تجارت وغیرہ جس شخص کے پاس موجود ہے اور اُس پر ایک سال گزر گیا ہے تو اُس کو صاحبِ نصاب کہا جاتا ہے۔
سونے یا چاندی کے زیورات پر زکوٰۃ:
خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علماء وفقہاء ومحدثین‘ قرآن وسنت کی روشنی میں عورتوں کے سونے یا چاندی کے استعمالی زیور پر وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں، اگر وہ زیور نصاب کے مساوی یا زائد ہو اور اس پر ایک سال بھی گزر گیا ہو، جس کے مختلف دلائل پیش کئے جاتے ہیں:
قرآن وسنت کے وہ عمومی حکم جن میں سونے یا چاندی پر بغیر کسی (استعمالی یا غیر استعمالی ) شرط کے زکوٰۃ واجب ہونے کا ذکر ہے اور ان آیات واحادیث شریفہ میں زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ متعدد آیات واحادیث میں یہ عموم ملتا ہے۔ سورۂ التوبہ آیت ۳۴،۳۵ کا ذکر کرچکا ہوں جس میں سونا یا چاندی پر زکوٰۃ نہ نکالنے والوں کو دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ نیز حضور اکرم انے ارشاد فرمایا: کوئی شخص جو سونے یا چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق (یعنی زکوٰۃ) ادا نہ کرے تو کل قیامت کے دن اس سونے وچاندی کے پترے بنائے جائیں گے اور ان کو جہنم کی آگ میں ایسا تپایا جائے گاگویا کہ وہ خود آگ کے پترے ہیں۔ پھر اس سے اس شخص کا پہلو، پیشانی اور کمر داغی جائے گی اور قیامت کے پورے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، باربار اسی طرح تپاتپاکر داغ دئے جاتے رہیں گے ، یہاں تک کہ ان کے لئے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوجائے۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب فیمن لا ےؤدی الزکوٰۃ) اس آیت اور حدیث میں عمومی طور پر سونے یا چاندی پر زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے خواہ وہ استعمالی زیور ہوں یا تجارتی سونا و چاندی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس کے ساتھ اسکی بیٹی تھی جو دو سونے کے بھاری کنگن پہنے ہوئے تھی۔ حضور اکرم ا نے اس عورت سے کہا کہ کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس عورت نے کہا : نہیں۔ تو حضور اکرم ا نے فرمایا : کیا تم چاہتی ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے کل قیامت کے دن آگ کے کنگن تمہیں پہنائے۔ تو اس عورت نے وہ دونوں کنگن اتارکر نبی اکرم ا کی خدمت میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لئے پیش کردئے۔ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الکنز ما ہو وزکوۃ الحلی۔ مسند احمد۔ ترمذی ۔ دار قطنی) صحیح مسلم کی شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ا میرے پاس تشریف لائے اور میرے ہاتھ میں چھلا دیکھ کر مجھ سے کہا کہ اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ میں نے آپ کیلئے زینت حاصل کرنے کی غرض سے بنوایا ہے۔ تو نبی اکرم انے کہا : کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ میں نے کہا : نہیں۔ حضور اکرم انے فرمایا : تو پھر یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لئے کافی ہے۔ (ابوداؤد، دار قطنی) امام خطابی ؒ نے (معالم السنن ۳/۱۷۶) میں ذکر کیا ہے کہ غالب گمان یہ ہے کہ چھلا تنہا نصاب کو نہیں پہونچتا، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس چھلے کو دیگر زیورات میں شامل کیا جائے ، نصاب کو پہونچنے پر زکوٰۃ کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ امام سفیان ثوری ؒ نے بھی یہی توجیہ ذکر کی ہے۔
حضرت اسماء بنت زید ؓ روایت کرتی ہیں کہ میں اور میری خالہ حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئیں، ہم نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے۔ تو حضور اکرم انے کہا : کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ ہم نے کہا : نہیں۔ حضور اکرم انے فرمایا :کیا تم ڈرتی نہیں کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے آگ کے کنگن تمہیں پہنائے؟ لہذا ان کی زکوٰۃ ادا کرو ۔ (مسند احمد) متعدد احادیث صحیحہ میں زیورات پر زکوٰۃ کے واجب ہونے کا ذکر ہے، یہاں طوالت سے بچنے کے لئے صرف تین احادیث ذکر کی گئی ہیں۔
برصغیر کے جمہور علماء کرام نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی تحریر کیا ہے کہ استعمالی زیور میں نصاب کو پہنچنے پر زکوٰۃ واجب ہے۔ سعودی عرب کے سابق مفتی عام شیخ عبد العزیز بن بازؒ کی بھی قرآن وسنت کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ استعمالی زیور پر زکوٰۃ واجب ہے۔
اصولی بات:قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی سونے یا چاندی پر زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں کسی ایک جگہ بھی استعمالی یا تجارتی سونے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ نیز استعمالی زیور کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ کرنے کے لئے کوئی غیر قابل نقد وجرح حدیث احادیث کے ذخیرہ میں نہیں ملتی ہے، بلکہ بعض احادیث صحیحہ استعمالی زیور پر زکوٰۃ واجب ہونے کی واضح طور پر رہنمائی کررہی ہیں۔ نیز استعمالی زیور پر زکوٰۃ کے واجب قرار دینے کے لئے اگر کوئی حدیث نہ بھی ہو تو قرآن کریم کے عمومی حکم کی روشنی میں ہمیں ہر طرح کے سونے وچاندی پر زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے خواہ اس کا تعلق استعمال سے ہو یا نہ ہو،تاکہ کل قیامت کے دن رسوائی،ذلت اور دردناک عذاب سے بچ سکیں۔ نیز استعمالی زیور پر زکوٰۃ کے واجب قرار دینے میں غریبوں،مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کا فائدہ ہے تاکہ دولت چند گھروں میں نہ سمٹے بلکہ ہم اپنے معاشرہ کو اس رقم سے بہتر بنانے میں مدد حاصل کریں۔
زکوٰۃ کتنی ادا کرنی ہے:
اوپر ذکر کئے گئے نصاب پر صرف ڈھائی فیصد(2.5% ) زکوٰۃ ادا کرنی ضروری ہے۔ شریعت اسلامیہ نے دنیا کے موجودہ نظام کی طرح آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا یعنی اگر آپ کی لاکھوں روپئے کی آمدنی ہے لیکن وہ خرچ ہوجاتے ہیں توکوئی زکوٰۃ واجب نہیں، بلکہ ضروریات زندگی سے بچنا، بچے ہوئے مال کا نصاب کو پہنچنا ا ور اس پر ایک سال کا گزرنا وجوب زکوٰۃ کے لئے ضروری ہے۔
سامان تجارت میں کیا کیا داخل ہے:
مال تجارت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کو آدمی نے بیچنے کی غرض سے خریدا ہو۔ لہذا جو لوگ Investment کی غرض سے پلاٹ خریدلیتے ہیں اور شروع ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ جب اچھے پیسے ملیں گے تو اس کو فروخت کرکے اس سے نفع کمائیں گے، تو اس پلاٹ کی مالیت پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ لیکن پلاٹ اِس نیت سے خریدا کہ اگر موقع ہوا تو اس پر رہائش کے لئے مکان بنوالیں گے یا موقع ہوگا تو اس کو کرائے پر چڑھادیں گے یا کبھی موقع ہوگا تو اس کو فروخت کردیں گے یعنی کوئی واضح نیت نہیں ہے بلکہ ویسے ہی خرید لیا ہے، تو اس صورت میں اس پلاٹ کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
کس دن کی مالیت معتبر ہوگی؟
زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اُس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا جس دن آپ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اپنے مال کا حساب لگا رہے ہیں۔ یعنی زیورات کی زکوٰۃ میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت پرانے سونے کے بیچنے کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔ یعنی آپ کے پاس جو زیورات موجود ہیں اگر ان کو مارکیٹ میں بیچیں تو وہ کتنے میں فروخت ہوں گے، اس قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
ہر ہر روپے پر سال کا گزرنا ضروری نہیں:
ایک سال مال پر گزر جائے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہر سال ہر ہر روپے پر مستقل سال گزرے۔ یعنی گزشتہ سال رمضان میں اگر آپ ۵ لاکھ روپے کے مالک تھے، جس پر ایک سال بھی گزر گیا تھا۔ زکوٰۃ ادا کردی گئی تھی۔ اِس سال رمضان تک جو رقم آتی جاتی رہی اُس کا کوئی اعتبار نہیں، بس اِس رمضان میں دیکھ لیں کہ آپ کے پاس اب کتنی رقم ضروریات سے بچ گئی ہے، اور اُس رقم پر زکوٰۃ ادا کردیں۔ مثلاً اِس رمضان میں ۶ لاکھ روپے آپ کے پاس ضروریات سے بچ گئے ہیں تو ۶ لاکھ کا 2.5% زکوٰۃ ادا کردیں۔ ہاں اگر کوئی قابل ذکر رقم روٹین کے علاوہ دستیاب ہوئی ہے تو اس کی زکوٰۃ اس کے سال مکمل ہونے پر ہی ادا کرنی ہوگی۔
زکوٰۃ اور رمضان:
زکوٰۃ کا رمضان میں ہی نکالنا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر ہمیں صاحب نصاب بننے کی تاریخ معلوم ہے تو ایک سال گزرنے پر فوراً زکوٰۃ کی ادائیگی کردینی چاہئے خواہ کوئی سا بھی مہینہ ہو۔ مگر لوگ اپنے صاحب نصاب بننے کی تاریخ سے عموماً ناواقف ہوتے ہیں اور رمضان میں ایک نیکی کا اجر ستر گنا ملتا ہے تو اس لئے لوگ رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر ہر سال رمضان میں ہی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ زکوٰۃ ایک سال مکمل ہونے سے قبل بھی نکالی جاسکتی ہے اور اگر کسی وجہ سے کچھ تاخیر ہوجائے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، لیکن قصداً تاخیر کرنا صحیح نہیں ہے۔
مستحقین زکوٰۃ یعنی زکوٰۃ کس کو ادا کریں ؟
اللہ تعالیٰ نے سورۂ التوبہ آیت نمبر ۶۰ میں ۸ مستحقین زکوٰۃ کا ذکر کیا ہے :
فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں۔
مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
جو کارکن زکوٰۃ وصول کرنے پر متعین ہیں۔
جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو۔
وہ غلام جسکی آزادی مطلوب ہو۔
قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔
اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔
مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو۔
جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے:
۱۔ اُس شخص کو جس کے پاس ضروریاتِ اصلیہ سے زائد بقدرِ نصاب مال موجود ہو۔
۲۔ سیّد اور بنی ہاشم۔ بنی ہاشم سے حضرت حارثؓ بن عبدالمطلب،حضرت جعفرؓ، حضرت عقیلؓ، حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کی اولادمراد ہیں۔
۳۔ اپنے ماں، باپ، دادا ، دادی ، نانا ، نانی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔
۴۔ اپنے بیٹے، بیٹی ، پوتا ، پوتی ، نواسہ، نواسی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔
۵۔ کافرکو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ہے۔
نوٹ: بھائی ، بہن، بھتیجہ، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، ساس، سسر، داماد وغیرہ میں سے جو حاجتمند اور مستحق زکوٰۃ ہوں، انہیں زکوٰۃ دینے میں دوہرا ثواب ملتا ہے، ایک ثواب زکوٰۃ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔
زکوٰۃ سے متعلق چند متفرق مسائل:
اگر کسی شخص کے پاس سونے یا چاندی کے علاوہ نقدی یا بینک بیلینس بھی ہے تو ان پر بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، البتہ دو بنیادی شرطیں ہیں :
۱۔ نصاب کے مساوی یا زائد ہو۔ ۲۔ ایک سال گزر گیا ہو۔
Diamond پر زکوٰۃ واجب نہ ہونے پر امت مسلمہ متفق ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے اس کو قیمتی پتھروں میں شمار کیا ہے۔ ہاں اگریہ تجارت کی غرض کے لئے ہوں تو پھر نصاب کے برابر یا زیادہ ہونے کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔
زکوٰۃ جس کو دی جائے اُسے یہ بتانا کہ یہ مالِ زکوٰۃ ہے ضروری نہیں بلکہ کسی غریب کے بچوں کو عیدی یا کسی اور نام سے دیدینا بھی کافی ہے۔
دینی مدارس میں غریب طالب علموں کے لئے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
زکوٰۃ کی رقم کو مساجد، مدارس، ہسپتال، یتیم خانے اور مسافر خانے کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔
اگر عورت بھی صاحبِ نصاب ہے تو اُس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے، البتہ اگر شوہر خود ہی عورت کی طرف سے بھی زکوٰۃ کی ادائیگی اپنے مال سے کردے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

قرض حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ کا بہترین بدلہ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
قرض حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ کا بہترین بدلہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم عطا فرماکر اور اسے اشرف المخلوقات قراردے کر دنیا میں بھیجا۔ عقل کی ہدایت اور نگہبانی کے لئے اس کو شریعت کی روشنی سے نوازا تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کرے اور ایک نیک و صالح اور منصفانہ معاشرہ کی تعمیر کا کام انجام دے۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے روزِ اول سے انبیاء ورسل دنیا میں بھیجے۔ اور یہ سلسلہ خاتم الانبیاء حضور اکرم اپر ختم ہوا، جن کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے رسول بناکر بھیجا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت واطاعت کا مکلف کرتے ہوئے، اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لئے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یقیناًجسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاؤگے۔ (سورۂ آل عمران ۹۲) اسی مالی تعاون کے ضمن میں آج قرض حسن ہمارا موضوع ہے ۔ قرض کے معنی کی تفصیل بعد میں آرہی ہے، جبکہ حسن کے معنی بہتر، خوبصورت اور اچھے کے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی چھ آیات میں بارہ مقامات پر قرض کا ذکر فرمایا ہے اور ہر آیت میں قرض کو حسن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (سورۂ ہود ۱) یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم با خبر کی طرف سے) سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا ہر ہر لفظ اپنے اندر متعدد مفاہیم رکھتا ہے ، ان مفاہیم کو قرن اول سے مفسرین قلم بند کررہے ہیں اور یہ سلسلہ کل قیامت تک جاری رہے گا ان شاء اللہ۔
سب سے قبل قرض کے معنی سمجھیں: قرض کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں، یعنی اپنے مال میں سے کچھ مال کاٹ کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کا کئی گنا بدلہ عطا فرمائے گا۔ محتاج لوگوں کی مدد کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو مال غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے، کبھی ظاہری طور پر ، کبھی معنوی وروحانی طور پر اس میں برکت ڈال دیتا ہے، اور آخرت میں تو یقیناً اس میں حیران کن اضافہ ہوگا۔
قرض حسن سے متعلق ۶ آیات قرآنیہ :
کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے تاکہ اللہ تعالیٰ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھاکر واپس کرے، مال کا گھٹانا اور بڑھانا سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے ،اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے۔ (سورۂ البقرۃ ۲۴۵)
اور تم اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے دور کردوں گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔(سورۂ المائدۃ ۱۲)
کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے بڑھا چڑھاکر واپس کرے۔ اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔ (سورۂ الحدید ۱۱)
مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں، اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دیاہے،ان کو یقیناکئی گنابڑھاکر دیا جائے گا، اور ان کے لئے بہترین اجر ہے۔ (سورۂ الحدید ۱۸)
اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنابڑھاکر دے گا، اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑا قدردان اور بردبار ہے۔ (سورۂ التغابن ۱۷)
اور اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دو، جو کچھ نیک اعمال تم اپنے لئے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤگے، وہی زیادہ بہتر ہے، اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔ (سورۂ المزمل ۲۰)
قرض حسن سے کیا مراد ہے ؟
قرآن کریم میں استعمال ہوئی اس اصطلاح (قرض حسن) سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرنا، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کرنا ، نیز اپنے بچوں پر خرچ کرنا مراد ہے غرضیکہ انسانیت کے کام آنے والی تمام شکلیں اس میں داخل ہیں، جیسا کہ مفسرین قرآن نے اپنی تفسیروں میں تحریر فرمایا ہے۔ اسی طرح قرض حسن میں یہ شکل بھی داخل ہے کہ کسی پریشان حال شخص کو اس نیت کے ساتھ قرض دیا جائے کہ اگر وہ اپنی پریشانیوں کی وجہ سے واپس نہ کرسکا تو اس سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
اللّہ نے بندوں کی ضرورت میں خرچ کرنے کو قرض حسن سے کیوں تعبیر کیا ؟
اللہ تعالیٰ نے محتاج بندوں کی ضرورتوں میں خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ کو قرض دینا قرار دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے ، وہ نہ صرف مال ودولت اور ساری ضرورتوں کا پیدا کرنے والا ہے ، بلکہ وہ تو پوری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے،ہم سب اسی کے خزانے سے کھا پی رہے رہیں، تاکہ ہم بڑھ چڑھ کر انسانوں کے کام آئیں ، یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کریں، غریب محتاجوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کے انتظام کے ساتھ ان کی دینی وعصری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کریں، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ، دونوں جہاں میں اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور اپنے مہمان خانہ جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت ابو الدحداح ؓ کا واقعہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب قرض حسن سے متعلق آیت قرآن کریم میں نازل ہوئی تو حضرت ابو الدحداح ؓ انصاری حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے۔ آپ ا نے فرمایا: ہاں۔ وہ عرض کرنے لگے: اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجئے (تاکہ میں آپ اکے دست مبارک پر ایک عہد کروں)۔ حضور اکرم ا نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ حضرت ابو الدحداح ؓ انصاری نے معاہدہ کے طور پر حضور اکرم ا کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا۔ ان کے باغ میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے، اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے رہتے تھے۔ یہاں سے اٹھ کر اپنے باغ گئے اور اپنی بیوی ام الدحداح ؓ سے آواز دے کر کہاکہ چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دیدیا۔ (تفسیر ابن کثیر)
یہ ہے وہ قیمتی سودا جو حضرت ابوالدحداح ؓ نے کیا، ان کے پاس دو باغ تھے، ان میں سے ایک باغ بہت قیمتی تھاجس میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے، جس کو وہ خود بھی بہت پسند کرتے تھے اور اسی میں وہ اور ان کے بچے رہتے تھے، لیکن مذکورہ آیت کے نزول کے بعد یہ قیمتی باغ ضرورت مند لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کو قرض دے دیا۔ ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایاہے: اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے خود ان کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (سورہ الحشر ۹)۔
قرآن میں قرض حسن کے مختلف بدلے :
دنیا میں بہترین بدلہ۔
دنیا وآخرت میں بہترین بدلہ۔
آخرت میں عظیم بدلہ۔
گناہوں کی معافی۔
جنت میں داخلہ۔
اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کی مثالیں:
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرض حسن سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے بندوں کی مدد کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، لہذا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے چند فضائل تحریر ہیں:
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بڑھا چڑھا کردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔ (سورۂ البقرہ ۲۶۱)
ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (سورۂ البقرہ ۲۶۵)
جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک ریال بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کسی محتاج کو دیا جائے گا، تو اللہ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔ مذکورہ بالا آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ذکر کی گئی ہیں: وسیع اور علیم۔ یعنی اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ جتنے اجر کا عمل مستحق ہے وہ ہی دے، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ دے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے کہ جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اور جس جذبہ سے کیا جاتا ہے، اس سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اس کا اجر ضرور دے گا۔
قرض حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ کس کو دیں؟
جن حضرات کو قرض حسن اور صدقات دئے جاسکتے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں :
غریب رشتہ دار، یتیم، بیوہ، فقیر، مسکین، سائل، قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو، اور وہ مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
جو مال سے محبت کرنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے۔ (سورۂ البقرہ ۱۷۷)
ان کے مال میں مانگنے والے اور محروم کا حق ہے۔ (سورۂ الذاریات ۱۹)
قرض حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ میں پسندیدہ چیزیں خرچ کریں:
جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاؤگے۔ (سورۂ آل عمران ۹۲)
اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔ (سورۂ البقرۃ ۲۶۷)
جب (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے محبوب چیز کے خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، اور مجھے ساری چیزوں میں اپنا باغ (بَیرحَاء )سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اللہ کے لئے صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجروثواب کی اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں۔ حضور اکرم ا نے فرمایا : اے طلحہ ؓ ! تم نے بہت ہی نفع کا سودا کیا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باغ جو اتنی بڑی مالیت کا ہے وہ صدقہ ہے اور اگر میں اس کی طاقت رکھتا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو تو ایسا ہی کرتا، مگر یہ ایسی چیز نہیں ہے جو مخفی رہ سکے۔ ( تفسیر ابن کثیر)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ بھی رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ مجھے اپنے تمام مال میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے، میں اُسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ انے فرمایا : اسے وقف کردو۔ اصل روک لو، اور پھل وغیرہ اللہ کی راہ میں دے دو۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت محمد بن منکدرؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ ؓ کے پاس ایک گھوڑا تھا جو ان کو اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ (اُس زمانہ میں گھوڑے کی حیثیت تقریباً وہی تھی جو اِس زمانہ میں گاڑی کی ہے) وہ اس کو لے کر حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے، حضور اکرم ا نے قبول فرمالیا اور لے کر ان کے صاحبزادہ حضرت اسامہ ؓ کو دیدیا۔ حضرت زید ؓ کے چہرہ پر کچھ گرانی کے آثار ظاہر ہوئے (کہ گھر میں ہی رہا ، باپ کے بجائے بیٹے کا ہوگیا) حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا، اب میں چاہے اس کو تمہارے بیٹے کو دوں یا کسی اور رشتہ دار کو یا اجنبی کو۔
* غرضیکہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعدصحابہ کرام کی ایک جماعت نے اپنی اپنی محبوب چیزیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیں، جن کو نبی اکرم ا نے ضرورت مند لوگوں کے درمیان تقسیم کیں۔
وضاحت: صحابہ کرام کی تربیت خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی، اور ان کا ایمان اور توکل کامل تھا ، لہذا ان کے لئے اپنی پسندیدہ چیزوں کا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا بہت آسان تھا، جیسا کہ صحابہ کرام کے واقعات تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جنگ خیبر کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا اپنا سارا سامان اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا، حضرت عثمان غنی ؓ کا ہر ضرورت کے وقت اپنے مال کے وافر حصہ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرنا، وغیرہ وغیرہ ۔
آج ہم ایمان وعمل کے اعتبار سے کمزور ہیں اور اگر ہم (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ)کا مصداق بظاہر نہیں بن سکتے ہیں تو کم از کم (ےَا اَیُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ) پر عمل کرکے اپنی روزی صرف حلال طریقہ سے حاصل کرنے پر اکتفاء کریں اور اسی حلال رزق میں سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔
اللّٰہ کے راستے میں اعلانیہ بھی قرض حسن اور صدقات دئے جا سکتے ہیں:
قرض حسن اور صدقات میں اصل پوشیدگی مطلوب ہے یعنی چپکے سے کسی محتاج کی مدد کرنا، جیساکہ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا:
تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ بہت محبت کرتا ہے۔ ۔۔۔ ان میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جو کسی شخص کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ تعالیٰ اور سائل کے علاوہ کسی کو خبر تک نہ ہو۔ (ترمذی ، نسائی)
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات لوگ اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اس طرح صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ (بخاری، مسلم)
اس کے باوجود کہ انفاق فی سبیل اللہ میں شریعت اسلامیہ نے چھپ کر دینے کی خصوصی تعلیمات دی ہیں، لیکن بعض مواقع پر اعلانیہ خرچ کرنے میں بھی مصلحت ہوتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے، جن میں سے بعض آیات یہ ہیں:
جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی۔ (سورۂ البقرۃ۴ ۲۷)
جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔۔۔۔ ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ (سورۂ الرعد ۲۲)
جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہیں ہوگی۔ (سورۂ الفاطر ۲۹)
ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہم اعلانیہ بھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کرسکتے ہیں، جبکہ دیگر آیات واحادیث میں چھپ کر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔۔۔ علماء کرام نے ان آیات واحادیث کے ظاہری اختلاف کے درمیان کچھ اس طرح تطبیق کی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی اعلانیہ ہونی چاہئے، تاکہ اس سے دوسروں کو بھی رغبت ملے ، اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے متعلق دوسروں کے شک وشبہات بھی دور ہوجائیں۔ لیکن صدقات اور قرض حسن کی عموماً ادائیگی چھپ کر ہی ہونی چاہئے۔
مگر اس حکمت بالغہ کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں بے شمار مرتبہ زکوٰۃ کے علاوہ دیگر صدقات بھی اعلانیہ جمع کئے گئے ہیں۔ نیز اعلانیہ خرچ کرنے سے بچنے کی اصل حکمت یہ ہے کہ ریا اور شہرت مطلوب نہ ہوجائے، کیونکہ ریا،شہرت اور دکھاوا اعمال کی بربادی کے اسباب میں سے ہیں۔ لہذا خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے غریب، محتاج، یتیم اور بیواؤں کی مدد کے لئے اگر کسی پروگرام میں اعلانیہ قرض حسن دیا جائے، تو ان شاء اللہ یہ دکھاوے میں نہیں آئے گا کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کام بھی کھلم کھلا کیا جائے وہ ریا ہی ہو، بلکہ دوسروں کو ترغیب دینے کے لئے بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے پروگرام منعقد ہونے چاہئیں ،جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں جنگوں کے موقعوں پر اعلانیہ صدقات جمع کئے جاتے تھے۔ اگر صدقات اور قرض حسن میں اللہ جل شانہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا اصل مطلوب ومقصود ہو توکسی مصلحت سے اس کا اعلان بھی کیا جائے تو وہ ان شاء اللہ ریا میں داخل نہیں ہوگا ۔
قرض حسن یا انفاق فی سبیل اللّٰہ کو ضائع کرنے والے اسباب:
اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول مطلوب نہ ہو۔
ریا یعنی شہرت مطلوب ہو۔
احسان جتانا مقصود ہو۔
قرض حسن یا صدقہ دے کر لینے والے کو طعنہ وغیرہ دے کر تکلیف پہونچائی جائے۔
لہذا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کسی کی مدد کی جائے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتاکر اور ایذا پہنچاکر برباد نہ کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے۔ (سورۂ البقرۃ۴ ۲۶)
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔ (سورۂ البقرۃ۲۶۲)
ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔ (سورۂ البقرہ ۲۶۵)
تنگ دستی اور حاجت کے وقت میں بھی اللّہ کی راہ میں خرچ کریں:
قرض حسن یا صدقات کے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہم بڑی رقم ہی خرچ کریںیا اسی وقت لوگوں کی مدد کریں جب ہمارے پاس دنیاوی مسائل بالکل ہی نہ ہوں بلکہ تنگ دستی کے ایام میں بھی حسب استطاعت لوگوں کی مدد کرنے میں ہمیں کوشاں رہنا چاہئے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
جو محض خوشحالی میں ہی نہیں بلکہ تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے رب کی طرف سے اس کے بدلہ میں گناہوں کی معافی ہے اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ (سورہ آل عمران۱۳۴)
جو مال سے محبت کرنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے۔
مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ مال کی محبت سے مراد مال کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمیں مال کی ضرورت ہے، اس کے باوجود ہم دوسروں کی مدد کے لئے کوشاں ہیں ۔ (سورۂ البقرہ ۱۷۷)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے بہتر صدقہ کے متعلق سوال کیا گیا۔ آپ ا نے فرمایا : اس حال میں بھی خرچ کرو کہ تم صحیح سالم ہو اور زندگی کی توقع بھی ہو، اپنے غریب ہوجانے کا ڈر اور اپنے مالدار ہونے کی تمنا بھی ہو۔ یعنی تم اپنی ضرورتوں کے ساتھ دوسروں کی ضرورتوں کوپورا کرنے کی فکریں کرو۔ (بخاری، مسلم)
قرض حسن یا انفاق فی سبیل اللّٰہ سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ہے۔ (مسلم)
کسی کی مدد کرنے سے بظاہر مال میں کمی تو واقع ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے مال میں کمی نہیں ہوتی ہے ،بلکہ آخرت میں بدلہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے، جیسا کہ قرآن کی آیات اور نبی اکرم ا کے ارشادات میں تفصیل سے مذکور ہے۔
انفاق فی سبیل اللّٰہ کے فضائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے اوپر تین دن گزر جائیں اس حال میں کہ میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی رہے، سوائے اس کے کہ کوئی چیز قرض کی ادائیگی کے لئے رکھ لی جائے۔ (بخاری، مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روزانہ صبح کے وقت ۲ فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ایک دعا کرتا ہے : اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما۔ دسرا دعا کرتا ہے : اے اللہ! مال کو روک کر رکھنے والے کے مال کو برباد کر۔ (بخاری، مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ (بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ ( بخاری،مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز لباس پہنائے گا۔ جوشخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔ ( ابوداؤد، ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تمہارا خادم تمہارے لئے کھانا بناکر لائے تو اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاؤ یا اس کھانے میں سے کچھ دیدو، اس لئے کہ آگ کی تپش اور دھوئیں کی تکلیف تو اس نے برداشت کی ہے۔ (ابن ماجہ)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ کچھ مانگنے کے لئے میرے پاس آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا،جو میں نے اس عورت کو دے دی، اس عورت نے وہ کھجور دونوں بیٹیوں کو تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے پر میں نے اس واقعہ کا ذکر فرمایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا بیٹیوں کی وجہ سے امتحان لیا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم کی آگ سے آڑ بنیں گی ( بخاری،مسلم)۔
* معلوم ہوا کہ تمام نبیوں کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہے کہ ہم اپنے مال ودولت کی ایک مقدار محتاج، غریب، مساکین اور یتیم وبیواؤں پر خرچ کریں۔
عام قرض کا بیان:
اب تک اُس قرض کا ذکر کیا گیا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قرض حسن سے تعبیر کیا ہے جس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اللہ کے بندوں کے مدد کرنا ہے۔ اب تھوڑی وضاحت عام قرض کے متعلق بھی تحریر کررہا ہوں:
اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعث اجروثواب ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی ترغیب دی ہے ، لیکن قرض دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے فائدہ کے لئے کوئی شرط نہ لگائے، مثلاً میں تمہیں قرض دیتا ہوں بشرطیکہ تم میرا فلاں کام کردو، البتہ قرض لیتے اور دیتے وقت ان احکام کی پابندی کریں جو سورۂ البقرہ کی آیت ۲۸۲ میں اللہ تعالیٰ نے بیان کئے ہیں، یہ آیت قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے، اور اس میں قرض کے احکامات ذکر کئے گئے ہیں۔ قرآن وحدیث میں متعدد جگہوں پر محتاج لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
بھلائی کے کام کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (سورہ الحج ۷۷)
اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (سورہ المائدہ ۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لئے آسانی کا سامان فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیاو آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ ہوتا ہے۔ (نسائی ، ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شب معراج میں میں نے جنت کے دروازہ پر صدقہ کا بدلہ ۱۰ گنا اور قرضہ دینے کا بدلہ ۱۸ گنا لکھا ہوا دیکھا۔ میں نے کہا اے جبرئیل! قرض صدقہ سے بڑھ کر کیوں؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ سائل مانگتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ مال موجود بھی ہو، اور قرضدار ضرورت کے وقت ہی سوال کرتا ہے۔ ( ابن ماجہ)
حضرت ابودرداء ؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی مسلمان کو ۲ دینار قرض دوں، یہ میرے نزدیک صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ ۔۔ (کیونکہ قرض کی رقم واپس آنے کے بعد اسے دوبارہ صدقہ کیا جاسکتا ہے یا اسے بطور قرض کسی کو دیا جاسکتا ہے، نیز اس میں واقعی محتاج کی ضرورت پوری ہوتی ہے)۔ (السنن الکبری للبیہقی)

خلاصہ بحث:
اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کو انسان کی ایسی دنیاوی ضرورت بنائی ہے کہ عموماً اس کے بغیر انسان کی زندگی دوبھر رہتی ہے۔ مال ودولت کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جائز کوششیں کرنے کا مکلف تو بنایا ہے مگرانسان کی جد وجہد اور دوڑ دھوپ کے باوجود اس کی عطا اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھی ہے، چاہے تو وہ کسی کے رزق میں کشادگی کردے اور چاہے تو کسی کے رزق میں تمام دنیاوی اسباب کے باوجود تنگی پیدا کردے۔
مال ودولت کے حصول کے لئے انسان کو خالقِ کائنات نے یوں ہی آزاد نہیں چھوڑ دیا کہ جیسے چاہو کماؤ ، کھاؤ۔ بلکہ اس کے اصول وضوابط بنائے تاکہ اس دنیاوی زندگی کا نظام بھی صحیح چل سکے اور اس کے مطابق آخرت میں جزا وسزا کا فیصلہ ہوسکے۔ انہیں اصول وضوابط کو شریعت کہا جاتا ہے جسمیں انسان کو یہ رہنمائی بھی دی جاتی ہے کہ مال کس طرح کمایا جائے اور کہاں کہاں خرچ کیا جائے۔
اپنے اور بال وبچوں کے اخراجات کے بعد شرائط پائے جانے پر مال ودولت میں زکوٰۃ کی ادائیگی فرض کی گئی ہے۔ اسلام نے زکوٰۃ کے علاوہ بھی مختلف شکلوں سے محتاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ایک دوسرے کے رنج وغم میں شریک ہو سکیں۔ انہیں شکلوں میں سے ایک شکل قرض حسن بھی ہے کہ ہم غریبوں اور محتاجوں کی مدد کریں، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کریں، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو ضرورت کے وقت قرض دیں، تاکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ہمارے مال میں اضافہ کرے اور آخرت میں بھی اس کا اجر وثواب دے۔
عزیز بھائیو! اس فانی دنیاوی زندگی کا اصل مطلوب ومقصود اخروی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا ہے، جہاں ہمیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، موت کو بھی وہاں موت آجائیگی ، اور جہاں کی کامیابی ہمیشہ کی کامیابی وکامرانی ہے۔ لہذا ہم :
اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی اکرم اکے طریقہ پر بجا لائیں۔
صرف حلال رزق پر اکتفاء کریں، خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔
حتی الامکان مشتبہ چیزوں سے بچیں۔
زکوٰۃ کے واجب ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کریں۔
اپنے اور بال وبچوں کے اخراجات کے ساتھ وقتاً فوقتاً قرض حسن اور مختلف صدقات کے ذریعہ محتاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنےکی کوشش کریں۔
اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ کل قیامت کے دن ہمارے قدم ہمارے پروردگار کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتے جب تک کہ ہم مال کےمتعلق سوالات کا جواب نہ دے دیں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض (najeebqasmi@yahoo.com)

قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے

اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعث اجروثواب ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر کیاہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی ترغیب دی ہے، لیکن قرض دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرض کی مقدار سے زیادہ لینے کی کوئی شرط نہ لگائے۔ قرض لیتے اور دیتے وقت اُن احکام کی پابندی کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے سورۂالبقرہ ۔آیت نمبر ۲۸۲ میں بیان کئے ہیں، اُن احکام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ اُن احکام میں سے تین اہم احکام اس طرح ہیں:
۱(اگر کسی شخص کو قرض دیا جائے تو اس کو تحریری شکل میں لایاجائے، خواہ قرض کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو۔ ۲) قرض کی ادائیگی کی تاریخ بھی متعین کرلی جائے۔ ۳) دو گواہ بھی طے کرلئے جائیں۔
قرض لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے وقت پر قرض کی ادائیگی کرے۔ اگر متعین وقت پر قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے قرض دینے والے سے قرض کی ادائیگی کی تاریخ سے مناسب وقت قبل مزید مہلت مانگے۔ مہلت دینے پر قرض دینے والے کو اللہ تعالیٰ اجرعظیم عطا فرمائے گا۔ لیکن جو حضرات قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، ان کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرمادیتے تھے جس پر قرض ہو یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے۔ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کے بعد ارشاد فرمایا: تمہارا ایک ساتھی قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے جنت کے دروازہ پر روک دیا گیاہے۔ اگر تم چاہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرف جانے دو ، اور چاہو تو اسے (اس کے قرض کی ادائیگی کرکے) عذاب سے بچالو۔ (الترغیب والترھیب)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے جس سے وہ مال ہی برباد ہوجاتا ہے۔ (بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا انتقال ہوا ایسے وقت میں کہ وہ مقروض ہے تو اس کی نیکیوں سے قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔ (ہاں اگر کوئی شخص اس کے انتقال کے بعد اس کے قرض کی ادائیگی کردے تو پھر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، ان شاء اللہ)۔ (ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کاانتقال ہوا، ہم نے غسل وکفن سے فراغت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھانے کو کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ ہم نے کہا کہ اس پر ۲ دینار کا قرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پھر تم ہی اس کی نماز جنازہ پڑھو۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! اس کا قرض میں نے اپنے اوپر لیا۔ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ قرضہ تمہارے اوپر ہوگیا اور میت بری ہوگیا۔ اس کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (رواہ احمد باسناد حسن والحاکم وقال صحیح الاسناد۔۔۔ الترغیب والترھیب ۲/۱۶۸)
قرض کی ادائیگی کی آسانی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:
ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نماز کے وقت کے علاوہ مسجد میں موجود ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ غم اور قرضوں نے گھیر رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں ایک دعا نہیں سکھائی کہ جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تیرے غموں کو دور کرے گا اور تمہارے قرضوں کی ادائیگی کے انتظام فرمائے گا؟ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہا : کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوامامہ ! اس دعا کو صبح وشام پڑھا کرو۔ وہ دعا یہ ہے: اَللّٰهمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْهمِّ وَالْحُزْنِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَة الدَّينِ وَقَهرِ الرِّجَالِ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس دعا کا اہتمام کیا تواللہ تعالیٰ نے میرے سارے غم دور کردئے اور تمام قرض ادا ہوگئے۔ (ابوداود)
نوٹ: قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ ایسا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ ہمیں بینک سے قرض لینے سے بچنا چاہئے کیونکہ اس کی ادائیگی سود کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور سود لینا یا دینا حرام ہے۔
وقت پر قرض کی ادائیگی کے اہتمام سے متعلق بخاری شریف میں مذکور ایک واقعہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تذکرہ فرمایا جس نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگا۔ قرض دینے والے نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لاؤ جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والے نے کہا کہ گواہ کی حیثیت سے تو بس اللہ تعالیٰ کافی ہے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن (گارنٹی دینے والا) لے آؤ۔ قرض مانگنے والے نے کہا کہ ضامن کی حیثیت سے بھی بس اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے۔ قرض دینے والے نے کہا تم نے سچی بات کہی اور وہ اللہ تعالیٰ کی گواہی اور ضمانت پر تیار ہوگیا، چنانچہ ایک متعین مدت کے لئے انہیں قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری (کشتی وغیرہ ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پارکرکے اس متعینہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکیں جو اُن سے طے ہوئی تھی، اور اُن کا قرض ادا کردیں،لیکن کوئی سواری نہیں ملی، (جب کوئی چارہ نہیں رہا تو ) انہوں نے ایک لکڑی لی اور اس میں ایک سوراخ بنایا، پھر ایک ہزار دینار اور ایک خط (اِس مضمون کا کہ) ان کی طرف سے قرض دینے والی کی طرف (یہ دینار بھیجے جارہے ہیں) رکھ دیا اور اس کا منہ بند کردیا اور اسے دریا پر لے کر آئے، پھر کہا، اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تھے، اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہا تھا کہ ضامن کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کافی ہے، وہ تجھ پر راضی تھا، اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کاجواب بھی میں نے یہی دیا کہ اللہ تعالیٰ گواہ کی حیثیت سے کافی ہے تو وہ تجھ پر راضی ہوگیا تھا اور (تو جانتا ہے کہ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری مل جائے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض معین مدت پر پہنچا سکوں لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ملی۔ اس لئے اب میں اس کو تیرے ہی سپرد کرتا ہوں (کہ تو اس تک پہنچادے) چنانچہ اس نے وہ صندوق کی شکل میں لکڑی جس میں رقم تھی، دریا میں بہادی اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کو ضائع نہیں کرے گا۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ شحص واپس ہوچکا تھا۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھی کہ کسی طرح کوئی جہاز ملے جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر جاسکے۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں (بندرگاہ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو، لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی، وہی جس میں مال تھا جو قرض لینے والے نے ان کے نام بھیجا تھا، انہوں نے وہ لکڑی اپنے گھر کے ایندھن کے لئے لے لی، پھر جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی۔ (کچھ دنوں بعد) وہ صاحب جب اپنے وطن پہنچے تو قرض خواہ کے یہاں آئے اور (دوبارہ) ایک ہزار دینار ان کی خدمت میں پیش کردئے۔ اور کہا کہ بخدا میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارے پاس تمہارا مال لے کر پہنچوں، لیکن مجھے اپنی کوششوں میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ پھر قرض خواہ نے پوچھا، اچھا یہ تو بتاؤ، کوئی چیز بھی میرے نام آپ نے بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کا وہ قرض ادا کردیا جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا ، چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوشی خوشی واپس ہوگئے۔ محمد نجیب قاسمی (www.najeebqasmi.com)

قرض لینے اور دینے کے مسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
قرض لینے اور دینے کے مسائل

اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعث اجروثواب ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی ترغیب دی ہے ، لیکن قرض دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دنیاوی فائدہ کے لئے کوئی شرط نہ لگائے۔
قرض لیتے اور دیتے وقت ان احکام کی پابندی کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ البقرہ کی آیت ۲۸۲ میں بیان کئے ہیں، یہ آیت قرآن کریم کی سب سے لمبی آیت ہے۔ اس آیت میں قرض کے احکام ذکر کئے گئے ہیں، ان احکام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ ان احکام میں سے تین اہم حکم حسب ذیل ہیں:
اگر کسی شخص کو قرض دیا جائے تو اس کو تحریری شکل میں لایاجائے، خواہ قرض کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو۔
قرض کی ادائیگی کی تاریخ بھی متعین کرلی جائے۔
دو گواہ بھی طے کرلئے جائیں۔
قرض لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے وقت پر قرض کی ادائیگی کرے۔ اگر متعین وقت پر قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ جلّ شانہ کا خوف رکھتے ہوئے قرض دینے والے سے قرض کی ادائیگی کی تاریخ سے مناسب وقت قبل مزید مہلت مانگے۔ مہلت دینے پر قرض دینے والے کو اللہ تعالیٰ اجرعظیم عطا فرمائے گا۔ لیکن جو حضرات قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، ان کے لئے نبی اکرم ا کے ارشادات میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حتی کہ آپ اایسے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے منع فرمادیتے تھے جس پر قرض ہو یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیا جائے۔ ان احادیث میں سے بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے۔ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کے بعد ارشاد فرمایا: تمہارا ایک ساتھی قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے جنت کے دروازہ پر روک دیا گیاہے۔ اگر تم چاہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرف جانے دو ، اور چاہو تو اسے (اس کے قرض کی ادائیگی کرکے) عذاب سے بچالو (رواہ الحاکم ، صحیح علی شرط الشیخین۔۔ الترغیب والترھیب)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے ، مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے، اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے جس سے وہ مال ہی برباد ہوجاتا ہے۔ (بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا انتقال ہوا ایسے وقت میں کہ وہ مقروض ہے تو اسکی نیکیوں سے قرض کی ادائیگی کی جائے گی (لیکن اگر کوئی شخص اس کے انتقال کے بعد اس کے قرض کی ادائیگی کردے تو پھر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا)۔ (ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ وہ اس کو بعد میں ادا نہیں کرے گا تو وہ چور کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ (ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری ، مسلم) قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود قرض کی ادائیگی نہ کرنے والا ظالم وفاسق ہے۔ ( النووی ،فتح الباری)
حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص کاانتقال ہوا، ہم نے غسل وکفن سے فراغت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھانے کو کہا۔ آپ انے پوچھا کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ ہم نے کہا کہ اس پر ۲ دینار کا قرض ہے۔ آپ انے ارشاد فرمایا : پھر تم ہی اس کی نمازِ جنازہ پڑھو۔ حضرت ابوقتادہؓ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول ا! اس کا قرض میں نے اپنے اوپر لیا۔ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا : وہ قرضہ تمہارے اوپر ہوگیا اور میت بری ہوگیا۔ اس کے بعد آپ انے اس شخص کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (رواہ احمد باسناد حسن والحاکم وقال صحیح الاسناد۔۔۔ الترغیب والترھیب ۲/۱۶۸)
قرض کی ادائیگی پر قدرت حاصل کرنے کے لئے حضور ا کی تعلیمات:
ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو حضرت ابوامامہؓ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوامامہؓ سے پوچھا کہ نماز کے وقت کے علاوہ مسجد میں موجود ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت ابوامامہؓ نے کہاکہ غم اور قرضوں نے گھیر رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں نے تمہیں ایک دعا نہیں سکھائی کہ جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تیرے غموں کو دور کرے گا اور تمہارے قرضوں کی ادائیگی کے انتظام فرمائے گا؟ حضرت ابوامامہؓ نے کہا : کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوامامہؓ ! اس دعا کو صبح وشام پڑھا کرو۔ وہ دعا یہ ہے:
اَللّٰهمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْهمِّ وَالْحُزْنِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَة الدَّينِ وَقَهرِ الرِّجَالِ
حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس دعا کا اہتمام کیا تواللہ تعالیٰ نے میرے سارے غم دور کردئے اور تمام قرض ادا ہوگئے۔ (ابوداؤد۔ مسلم شریف کی مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اپنی کتاب الاذکار میں بھی اس حدیث کو ذکر کیا ہے)
قرآن وحدیث میں محتاج لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب :
بھلائی کے کام کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (سورہ الحج ۷۷)
اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ (سورہ المائدہ ۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لئے آسانی کا سامان فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیاو آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ ہوتا ہے۔ (نسائی ، ابن ماجہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شب معراج میں میں نے جنت کے دروازہ پر صدقہ کا بدلہ ۱۰ گنا اور قرضہ دینے کا بدلہ ۱۸ گنا لکھا ہوا دیکھا۔ میں نے کہا اے جبرئیل! قرض صدقہ سے بڑھ کر کیوں؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ سائل مانگتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ مال موجود ہو، اور قرضدار ضرورت کے وقت ہی سوال کرتا ہے۔ ( ابن ماجہ)
حضرت ابودرداء ؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی مسلمان کو ۲ دینار قرض دوں، یہ میرے نزدیک صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ ۔۔ (کیونکہ قرض کی رقم واپس آنے کے بعد اسے دوبارہ صدقہ کیا جاسکتا ہے یا اسے بطور قرض کسی کو دیا جاسکتا ہے،نیز اس میں واقعی محتاج کی ضرورت پوری ہوتی ہے)۔ (السنن الکبری للبیہقی)
قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ ایسا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔
نوٹ: ہمیں بینک سے قرض لینے سے بچنا چاہئے، کیونکہ اسکی ادائیگی سود کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ اور سود لینا یا دینا حرام ہے۔
محمد نجیب قاسمی، ریاض (www.najeebqasmi.com)