نماز کی مسنون ترکیب (پہلاحصہ)

نماز کا بیان – سبق نمبر 17:

عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَا لٰی عَنْہُ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ اِذَ افْتَحَ الصَّلٰوۃَ کَبَّرَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَا ذِیَ بِاِ بْھَا مَیْہِ اُذُنَیْہِ ثُمَّ یَقُوْلُ سُبْحَا نَکَ اللّٰھُمَّ الخ

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جب نماز شروع کرتے تھے تو تکبیر کہتے تھے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے ، یہاں تک کہ انگوٹھوں کو کانوں کو برابر کرتے تھے، پھر سبحانک اللھم آخر تک پڑھتے۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

”صلو کما رائتمونی اصلی“بخاری۔

نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھ کو نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔

جب نمازپڑھنے کا ارادہ کرو تو پہلے اپنا بدن حدثِ اکبر اور حدثِ اصغر اور ظاہری ناپاکی سے پاک کرلو، اور پاک کپڑے پہن کر پاک جگہ پر قبلہ کی طرف منہ کرکے اس طرح کھڑے ہو کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل یا اس کے قریب قریب فاصلہ رہے ، پاؤں کی انگلیوں کا رخ بھی قبلے کی جانب رہے، اور دونوں پاؤں سیدھے قبلہ رخ رہیں (پاؤں کو دائیں بائیں ترچھا رکھنا خلاف سنت ہے) دونوں پاؤں قبلہ رخ ہونے چاہئیں ۔

اگر جماعت سے نماز پڑھ رہے ہیں تو آپ کی صف سیدھی رہے، صف سیدھی کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی دونوں ایڑھیوں کے آخری سرے صف یا اس کے نشان کے آخری کنارے پر رکھ لے ۔ جماعت کی صورت میں اس بات کا بھی اطمینان کر لیں کہ دائیں بائیں کھڑے ہونے والوں کے بازوؤں کے ساتھ آپ کے بازو ملے ہوئے ہیں ، اور بیچ میں کوئی خلا نہیں ہے۔ لیکن خلا کو پر کرنے کے لئے اتنی تنگی بھی نہ کی جائے کہ اطمینان سے کھڑا ہونا مشکل ہو جائے۔ پاجامے کو ٹخنے سے نیچے لٹکانا ہر حالت میں ناجائز ہے، ظاہر ہے کہ نماز میں اس کی شناعت اور بڑھ جاتی ہے، لہذا اس کا اطمینان کر لیں کہ پاجامہ ٹخنے سے اونچا ہے۔ ہاتھ کی آستینیں پوری طرح ڈھکی ہوئی ہونی چاہئیں ، صرف ہاتھ کھلے رہیں ، بعض لوگ آستینیں چڑھا کر نماز پڑھتے ہیں ، یہ طریقہ درست نہیں ۔ ایسے کپڑے پہن کر نماز میں کھڑا ہونا مکروہ ہے جنہیں پہن کر انسان لوگوں کے سامنے نہ جاتا ہو۔

پھر جو نماز پڑھنی ہے اس کی نیت دل سے کرو مثلاً یہ کہ فجر کی نماز خداکے واسطے پڑھتاہوں اور زبان سے بھی کہہ لے تو اچھا ہے ہاتھ کانوں تک اس طرح اٹھائیں کہ ہتھیلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہو، اور انگوٹھوں کے سرے کان کی لو سے یا تو بالکل مل جائیں ، یا اس کے برابر آ جائیں ، اور باقی انگلیاں اوپر کی طرف سیدھی ہوں ، بعض لوگ ہتھیلیوں کا رخ قبلے کی طرف کرنے کی بجائے کانوں کی طرف کر لیتے ہیں ۔ بعض لوگ کانوں کو ہاتھوں سے بالکل ڈھک لیتے ہیں ، بعض لوگ ہاتھ پوری طرح کانوں تک اٹھائے بغیر ہلکا اشارہ سا کر دیتے ہیں ، بعض لوگ کان کی لو کو ہاتھوں سے پکڑ لیتے ہیں ۔ یہ سب طریقے غلط اور خلاف سنت ہیں ان کو چھوڑنا چاہئے۔

ہاتھ اٹھاتے وقت تکبیر تحریمہ یعنی اللہ اکبر کہیں ، پھر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے بائیں پہنچے کے گرد حلقہ بنا کر اسے پکڑ لیں اور باقی تین انگلیوں کو بائیں ہاتھ کی پشت پر اس طرح پھیلا دیں کہ تینوں انگلیوں کا رخ کہنی کی طرف رہے۔ دونوں ہاتھوں کو ناف سے ذرا سا نیچے رکھ کر مذکورہ بالا طریقہ سے باندھ لیں ۔ اور کھڑے ہونے کی حالت میں نظریں سجدے کی جگہ پر رکھیں ، اِدھر ادھر یا سامنے دیکھنے سے پرہیز کریں ۔

حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ علیہ السلام نے نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھا۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھا جائے ۔ فائدہ:

نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا نبی علیہ السلام تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان و تابعین و تبع تابعین میں سے کسی ایک سے بھی بسند صحیح ثابت نہیں ۔

نوٹ:

ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ تعالی) میں سے سینہ پر ہاتھ باندھنے کا کوئی بھی قائل نہیں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو شرح مسلم للنووی ؒ مع مسلم ج1 ص 173 مکتبہ قدیمی کتب۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں نماز اس شخص (امام و منفرد) کی جو سورہ فاتحہ کی قرات نہ کرے ۔ یعنی اگر اکیلے نماز پڑھ رہے ہوں ، یا امامت کر رہے ہوں تو پہلے سبحانک اللھم، پھر سورہ فاتحہ، پھر کوئی اور سورت پڑھیں ، اور اگر کسی امام کے پیچھے ہوں تو صرف سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمدِکَ وَ تَبَارَکَ اسمُکَ وَ تَعَالٰی جَدَّکَ وَلَا اَلٰہَ غَیرُک، پڑھ کر خاموش ہو جائیں ، اور امام کی قرات کو دھیان لگا کر سنیں ۔ اگر امام زور سے نہ پڑھ رہا ہو تو زبان ہلائے بغیر دل ہی دل میں سورہ فاتحہ کا دھیان کئے رکھیں ۔

نماز میں قرات کے لئے ضروری ہے کہ زبان اور ہونٹوں کو حرکت دے کر قرات کی جائے، بلکہ اس طرح کی جائے کہ کہ خود پڑھنے والا اس کو سن سکے۔ بعض لوگ اس طرح قرات کرتے ہیں کہ زبان اور ہونٹ حرکت نہیں کرتے یہ طریقہ درست نہیں ، بعض لوگ قرات کے بجائے دل ہی دل میں الفاظ کا تصور کر لیتے ہیں اس طرح بھی نماز نہیں ہوتی۔ اورہر رکعت کے شروع میں سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھیں ۔

بسم اللّٰہ ہر رکعت کے اول میں پڑھے یعنی الحمد سے پہلے پڑھے اسی پر فتویٰ ہے ۔ بسم اللّٰہ کے بعد الحمد شریف (سورہ فاتحہ) پڑھے جبکہ وہ منفرد یا امام ہو اور مقتدی نہ پڑھے۔ اورجب خود قرات کر رہے ہوں تو سورہ فاتحہ پڑھتے وقت بہتر یہ ہے کہ ہر آیت پر رک کر سانس توڑ دیں ، پھر دوسری آیت پڑھیں ، کئی کئی آیتیں ایک سانس میں نہ پڑھیں ۔ مثلاً الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO پر سانس توڑ دیں ۔ پھرالرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO پر، پھرمَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO پر۔ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَOپر اس طرح پوری سورہ فاتحہ پڑھیں ، لیکن اس کے بعد کی قرات میں ایک سانس میں ایک سے زیادہ آیتیں بھی پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں ۔

اور جب سورہ فاتحہ ختم کر لے تو آہستہ سے آمین کہے خواہ تنہا نماز پڑھنے والاہو یا امام یا مقتدی ہو اس کے معنی ہیں ، اے اللّٰہ تو ہماری دعائیں قبول کر۔ فاتحہ اور سورہ کے درمیان میں بسم اللّٰہ پڑھنا سنت نہیں ہے خواہ نماز سری ہو، یہی صحیح ہے لیکن مکروہ بالاتفاق نہیں بلکہ سورہ سے پہلے آہستہ پڑھنا مستحب ہے اگرچہ جہری نماز ہو، البتہ اگر سورہ کی جگہ آیات پڑھے تو اس کے شروع میں بسم اللّٰہ پڑھنا بالاتفاق سنت نہیں ہے ۔

جب سورئہ فاتحہ ختم کرلو تو آہستہ سے آمین کہو، پھر کوئی سورت: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO اللَّهُ الصَّمَدُO لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْO وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌOیا بڑی آیت یا چھوٹی تین آیتیں پڑھو، لیکن اگر تم امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہو تو خاموش کھڑے رہو، تعوذاور تسمیہ اور سورئہ فاتحہ اور سورت کچھ نہ پڑھو۔ قراء ت صاف اور صحیح صحیح پڑھو، جلدی نہ کرو۔

اور ہر مسلمان مردوعورت کو نماز میں قرات کیلئے آخری پارے کی آخری دس صورتیں یاد کرنا لازم ہیں ، اور بعض علمائے امت کے نزدیک اتنا حصہ قرآن پاک کا حفظ یاد کرنا فرض ہے ، جس سے نماز صحیح ہو سکے اس کا ضرور اہتمام کریں ۔

بغیر کسی ضرورت کے جسم کے کسی حصے کو حرکت نہ دیں ، جتنے سکون کے ساتھ کھڑے ہوں ، اتنا ہی بہتر ہے، اگر کھجلی وغیرہ کی ضرورت ہو تو صرف ایک ہاتھ استعمال کریں اور وہ بھی صرف سخت ضرورت کے وقت اور کم سے کم۔

جسم کا سارا زور ایک پاؤں پر دے کر دوسرے پاؤں کو اس طرح ڈھیلا چھوڑ دینا کہ اس میں خم آ جائے نماز کے آداب کے خلاف ہے۔ اس سے پرہیز کریں ۔ یا تو دونوں پاؤں پر برابر زور دیں ۔ یا ایک پاؤں پر زور دیں تو اس طرح کہ دوسرے پاؤں میں خم پیدا نہ ہو۔ جمائی آنے لگے تو اس کو روکنے کی پوری کوشش کریں ۔

ڈکار آئے تو ہوا کو پہلے منہ میں جمع کر لیا جائے، پھر آہستہ سے بغیر آواز کے اس خارج کیا جائے۔ زور سے ڈکار لینا نماز کے آداب کے خلاف ہے۔

پھر اَللّٰہُ أَکْبَرُکہتے ہوئے رکوع کرو۔ اور رکوع میں جاتے وقت ان باتوں کا خاص خیال رکھیں ۔ اپنے اوپر کے دھڑ کو اس حد تک جھکائیں کہ گردن اور پشت تقریباً ایک سطح پر آ جائے، نہ اس سے زیادہ جھکیں ، نہ اس سے کم۔ رکوع کی حالت میں گردن کو اتنا نہ جھکائیں کہ ٹھوڑی سینے سے ملنے لگے اور نہ اتنا اوپر رکھیں کہ گردن کمر سے بلند ہو جائے، بلکہ گردن اور کم ایک سطح پر ہونی چاہئے۔ رکوع میں پاؤں سیدھے رکھیں ان میں خم نہ ہونا چاہئے۔

دونوں ہاتھ گھٹنوں پر اس طرح رکھیں کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کھلی ہوئی ہوں یعنی ہر دو انگلیوں کے درمیان فاصلہ ہو، اور اس طرح دائیں ہاتھ سے دائیں گھٹنے کو اور بائیں سے بائیں گھٹنے کو پکڑ لیں ۔ رکوع کی حالت میں کلائیاں اور بازو سیدھے تنے ہوئے رہنے چاہئیں ، ان میں خم نہیں آنا چاہئے۔ کم از کم اتنی دیر رکوع میں رکیں کہ اطمینان سے تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ. کہا جا سکے۔ رکوع کی حالت میں نظریں پاؤں کی طرف ہونی چاہئیں ۔ دونوں پاؤں پر زور برابر رہنا چاہئے، اور دونوں پاؤں کے ٹخنے ایک دوسرے کے بالمقابل رہنے چاہئیں ۔

پھر تسمیع یعنی: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ کہتے ہوئے سیدھا کھڑے ہوجائیں ۔ اور اگر امام کے پیچھے ہو تو صرف تحمید: رَبَّنَاوَلَکَ الْحَمْدپڑھیں ۔ اور اگر تنہا نماز پڑھو تو پھر تسمیع اور تحمید دونوں پڑھو۔ اور امام صرف تسمیع پڑھے اور مقتدی صرف تحمید پڑھے اور منفرد تسمیع وتحمید دونوں پڑھے۔ :

رکوع سے کھڑے ہوتے وقت اتنے سیدھے ہو جائیں کہ جسم میں کوئی خم باقی نہ رہے۔ اور اس کے بعدقومہ کی دعا پڑھو:

حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکًا فِیْہِ

اس حالت میں بھی نظر سجدے کی جگہ رہنی چاہئے۔ بعض لوگ کھڑے ہوتے وقت کھڑے ہونے کے بجائے کھڑے ہونے کا صرف اشارہ کرتے ہیں ، اور جسم کے جھکاؤ کی حالت ہی میں سجدے کے لئے چلے جاتے ہیں ۔ ان کے ذمے نماز کا لوٹانا واجب ہو جاتا ہے، لہذا اس سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں ۔ جب تک سیدے ہونے کا اطمینان نہ ہو جائے سجدے میں نہ جائیں ۔ اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے تمام احکامات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین