نماز کا بیان – سبق نمبر 32:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلُّوْاکَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ
رسول اللہ! ﷺ نے فرمایا: ایسے نماز ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔
رسول کرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو انداز اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سکھایا وہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تابعین رحمہم اللہ کو سکھایا۔ یوں کئی طبقات سے ہوتا ہوا نماز کا وہی طریقہ آج ہم تک پہنچا۔ سری اور جہری نمازوں کی مصلحت ہماری سمجھ آئے یا نہ آئے، ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ محسنِ انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ یہی ہے۔
صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ
ایسے پڑھو جیسا کہ تم مجھے نماز پڑھتے دیکھ رہے ہو۔
یہ صرف صحابہ کی آنکھوں کو شرف حاصل ہے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ نماز میں پایا ہے۔ صحابہ کے علاوہ کون ہے جس نے پیغمبر کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہو، خواہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہوں کسی کو یہ شرف حاصل نہیں ۔ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی قسمت تھی جنہوں نے کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ کا مقام پایا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جیسا تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو بس اس کی نقل کردو، اس کی صورت بنالو۔ نبوّت کی نماز کی باطنی کیفیت تمہیں کہاں حاصل ہوسکتی ہے، مقامِ نبوّت کی طرح تمہاری نماز کہاں ہوسکتی ہے، بس تم میری نقل کرلو۔ جیسے میں نماز میں اُٹھتا بیٹھتا ہوں جیسے رکوع اور سجدہ کرتا ہوں ، تم میرے قیام و قعود و رکوع و سجود کی نقل کرلو تو نقل کی برکت سے تمہیں سب انعام مل جائے گا، تمہاری نماز قبول ہوجائے گی۔
صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ
جیسا تم مجھے دیکھتے ہو کہ میں نماز پڑھتا ہوں تم اس کی نقل کردو ورنہ وہ دل کہاں سے پاؤگے جو پیغمبر کے سینے میں ہے، وہ مقامِ نبوت کہاں سے پاؤگے، لہٰذا تمہارا کام نقل سے بنے گا۔
نماز میں بندۂ مومن اپنے خالق و مالک سے سرگوشیاں کرتا ہے، اس کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے، اس سے ہدایت طلب کرتا ہے، اس کے سامنے اپنی جبین نیاز خم کرکے عبدیت کا اظہار کرتا ہے اور اس کی خالقیت و معبودیت کو تسلیم کرتا ہے۔ نماز کے ان فوائد و اثرات کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جب اس کو اس کی شان کے مطابق اخلاص و للہیت کے سانچے میں ڈھل کر نہایت خشوع و خضوع اور تمام شرائط و ارکان کی کامل رعایت سے ساتھ ادا کیا جائے، یعنی نماز کے وہ ثمرات و فوائد، جو قرآنِ کریم اور اَحادیث صحیحہ میں بیان کئے گئے ہیں ، اس وقت ملتے اور مل سکتے ہیں جب نماز کو سنت نبویؐ کے مطابق اطمینان و سکون کے ساتھ اَدا کیا جائے۔
خشوع و خضوع کی دو قسمیں ہیں :
دل کا خشوع اور جسم کا خشوع۔
دل کا خشوع یہ ہے کہ نمازی کو اس بات کا احساس ہو کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہا ہے دل میں اللہ کی عظمت و کبریائی کا خیال ہو، جو کچھ پڑھ رہا ہو اس کے مفہوم و معانی پر غور کرے۔ قرآن کی آیتوں کو سمجھ سمجھ کر پڑھے ۔ نماز کے ارکان کی حکمت و غایت سمجھ کر انہیں ادا کرے۔
اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ نماز کے دوران ادھر اُدھرنگاہ نہ دوڑائے ، بچوں جیسی حرکتیں نہ کرے، ایسی حرکتیں نہ کرے جو نماز کے منافی ہیں ، بلکہ نہایت باوقار انداز میں اور عاجزانہ کیفیت کے ساتھ اللہ کے حضور کھڑا ہو۔ جسم کا خشوع اسی وقت ممکن ہے جب دل کا خشوع موجود ہو۔
ایک بزرگ عالم حاتم الاصم سے دریافت کیا گیا کہ آپ نماز کس طرح ادا کرتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا:
میں تکبیر کہتا ہوں پھر ٹھہر ٹھہر کر قرآءت کرتا ہوں ۔ خشوع کے ساتھ رکوع کرتا ہوں عاجزانہ انداز میں سجدے کرتا ہوں جنت کو اپنے دائیں طرف اور دوزخ کو بائیں طرف محسوس کرتا ہوں ۔ کعبے کو اپنی پیشانی کے سامنے تصور کرتا ہوں ۔ ملک الموت کو اپنے سر کے اوپر تصور کرتا ہوں ۔ اپنے آپ کو گناہوں میں گھراہوا سمجھتا ہوں ۔ اس حال میں کہ اللہ کی آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہیں ۔ یہ سمجھتا ہوں کہ میری عمر کی یہ آخری نماز ہے۔ اس لیے حتی الامکان خلوص کے ساتھ نماز ادا کرتا ہوں ۔ اس کے بعد سلام پھیرتا ہوں ۔ اس کے باوجود مجھے اندیشہ ہے کہ میری نماز قبول بھی ہوئی یا نہیں ۔
نماز کے دوران ایسی حرکتیں کچھ زیادہ سر زد ہوں جو نماز کے منافی ہیں ۔ مثلاً بدن کھجانا، ادھر اُدھر دیکھنا، بار بار اپنے کپڑوں کو درست کرنا وغیرہ غیرہ۔ اس طرح حرکتیں اگر کثرت سے سر زد ہوں تو نماز باطل کر دیتی ہیں یعنی نماز ادا نہیں ہوتی۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ نماز کے دوران ذہن کہیں اور مشغول ہو، نماز کی طرف دل حاضر نہ ہو یا چھوٹی موٹی نماز کے منافی حرکتیں بہت کم مقدار میں سر زد ہوں تو ان کی وجہ سے نماز اگرچہ باطل نہیں ہوتی لیکن نماز کا مقصد جاتا رہتا ہے اور نماز کی روح مفقود ہوجاتی ہے۔ نماز کی روح یہ ہے کہ نمازی زیادہ سے زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے :
﴿قَد أَفلَحَ المُؤمِنونَ الَّذينَ هُم فى صَلاتِهِم خـٰشِعونَ ﴿٢﴾… سورة المؤمنون
’’یقیناًفلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں ۔
بارگاہ الہٰی میں حاضری کے وقت دل کا لگ جانا یا بارگاہِ الٰہی میں دلوں کو جھکا دینا خشوع کہلاتاہے خشوع یعنی دل کا حاضر ہونا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ خشوع رضائے الہی پانے، نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے جسے اپنے اعمال میں خشوع حاصل ہوجائے گویااسے اخلاص نصیب ہوگیا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بڑی تعداد پابندی کے ساتھ نماز پڑھتی ہے ؛ لیکن ساتھ ساتھ دوسرے منکرات اور معصیات میں مبتلا بھی ہوتی ہے ؛ حالاں کہ نماز کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ بے حیائی اور برے کاموں سے روکنی والی ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ لوگ نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں میں ملوث رہتے ہیں؟
اس کا جواب بالکل صاف ہے کہ ایسے لوگوں کی نماز خشوع و خضوع سے خالی ہوتی ہے وہ نماز تو پڑھ رہے ہوتے ہیں اس کا جسم تو مسجد میں ہوتا ہے ؛ لیکن اس کا ذہن و دل کسی اور وادی میں بھٹک رہا ہوتا ہے، ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی بارگاہ میں کھڑے ہیں کہ ادب و احترام اور حضور قلبی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ؛ بلکہ اس کے ذہن میں مختلف خیالات و وساوس گردش کر رہے ہوتے ہیں ، نہ وہ ٹھیک سے ارکان ادا کرتے ہیں ، نہ تسبیحات کو اطمینان سے پڑھتے ہیں ، نہ قرأت قرآن کو بغور سماعت کرتے ہیں اور نہ ٹھیک سے رکوع و سجدہ کرتے ہیں ؛ بلکہ رسمی طور پر جھٹ پٹ نماز پڑھ کر مسجد سے نکل جاتے ہیں ، بھلا ایسی نمازیں اس قابل کیوں کر ہو سکتی ہیں کہ وہ برائیوں اور بے حیائیوں سے روکیں ۔
خشوع و خضوع نماز ہی کی نہیں ؛ بلکہ تمام عبادات کی روح ہے، اگر عبادات اس سے خالی ہوں تو وہ محض برائے نام عبادت ہے، اس کی کوئی خاص فضیلت اور مقام نہیں ہے، عبادات کے فضائل و فوائد کا مدار اس بات پر ہے کہ اس کو کس طریقے سے انجام دیا گیا ہے اور اس میں اخلاص اور خشوع و خضوع کس قدر موجود ہے، معمولی سے معمولی عمل بھی خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیے جانے پر فضائل کے معاملے میں بڑے سے بڑے عمل پر فوقیت حاصل کر لیتا ہے۔
یعنی نماز کی ادائیگی یقینا گراں اور دشوار گزار ہے ؛ لیکن یہ دشواری ان لوگوں کو درپیش ہوتی ہے جن کی نمازوں میں اخلاص و للہت اور خشوع و خضوع کا فقدان ہوتا ہے ؛ ورنہ اللہ کے وہ بندے جو حقیقۃ اس کی طرف جھکنے والے اور نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرنے والے ہیں نماز کی ادائیگی میں کسی قسم کی دشواری اور مشقت کا احساس نہیں کرتے ہیں ؛ بلکہ وہ اس سے لذت یاب اور لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
حدیث مبارکہ میں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے پچھلے تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، اور جب بھی وہ اس طریقے پر نماز پڑھے گا اسے یہ فضیلت حاصل ہوگی، یعنی یہ فضیلت فقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کے دور کے ساتھ خاص نہیں ہے ؛ بلکہ تا صبح قیامت جو بھی بندۂ مومن ایسا کرے گا وہ اس فضیلت سے بہرہ یاب ہوگا۔
ساتھ ساتھ حدیث پاک میں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کا طریقہ بھی بیان کر دیا گیا کہ نماز کو اس کے مستحب وقت پر ادا کرے، اچھی طرح وضو کرے یعنی وضو میں جتنی چیزیں سنت ہیں ان تمام کی کامل رعایت کے ساتھ وضو کرے، پھر نہایت سکون و اطمینان اور دل و دماغ کو حاضر رکھ نماز ادا کرے کسی قسم کی جلدبازی نہ کرے، پھر نماز کے تمام ارکان مثلا قیام و قعود، رکوع سجدہ وغیرہ سب کو اچھی طرح سنت طریقے سے ادا کرے، جب انسان اس طرح نماز ادا کرے گا تب اس کی نماز گناہوں کا کفارہ بنے گی اور برائیوں اور بے حیائیوں سے روکے گی۔
عدم خشوع نہایت ہی مہلک مرض اور عبادات کے ثواب میں کمی کا باعث ہے شیطان اپنی ذریت کے ساتھ عبادات میں خشوع کو اولاً کم کرتاہے اور پھر آہستہ آہستہ ختم کردیتاہے یوں عبادت برائے نام رہ جاتی ہے۔ الله کریم ہمیں نماز کے ساتھ ساتھ تمام اعمال میں خشوع و خضوع نصیب فرمائے (آمین)