جماعت کے چھوڑنے پر وعیدیں

نماز کا بیان – سبق نمبر 31:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ سَمِعَ النِّدَآئَ فَلَمْ یَمْنَعْہُ مِنِ اتِّبَا عِہٖ عُذْرٌ قَالُوْاوَ مَاالْعُذْرُقَالَ خَوْفٌ اَوْمَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْہُ الصَّلٰوۃُ الَّتِیْ صَلّٰی۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی آوز سنے اور بلا کسی عذر کے نماز کو نہ جائے (وہیں پڑھ لے ) تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ عذر سے کیا مراد ہے ارشاد ہوا کہ مرض ہو یا کوئی خوف ہو۔

(رواہ ابوود ابن حبان فی صحیحہ وابن ماجۃ بخوہ کذ ا فی التر غیب وفی المشکوۃ رواہ ابودؤد والد ار وطبنی)۔

ہر انسان جب کلمہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے ایمان کی شہادت دیتا ہے اور جنت کے بدلے اپنی جان ومال کا سودا کرتا ہے، اس وقت سے وہ اللہ تعالیٰ کا غلام ہے اور اس کی جان ومال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اب اس پر زندگی کے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔ اس معاہدہ کے بعد جو سب سے پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا اس پر عائد ہوتا ہے، وہ پانچ وقت کی نماز قائم کرنا ہے۔ ایک عاجز اور محتاج بندے کی اس سے بڑی اور کیا خوش نصیبی ہوسکتی ہے کہ اذان کے ذریعے شہنشاہ کی طرف سے پکار آئے اور مالک کائنات اس کو اپنے گھر میں آنے کا شرف بخشیں اور اس کو اپنا قرب وتعلق عطا فرمائیں؟ ۔

اسلام خدا کا آخری اور مکمل دین ہے۔ اس کے سارے احکامات بہت گہری حکمتوں اور بے شمار فوائد پر مبنی ہیں ، اس کا ایک حکم بھی بے مقصد اور فضول نہیں ہے۔ پھر نماز تو اسلام کا اتنا اہم فریضہ ہے کہ اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا نہایت ضروری ہے، بغیر عذرِ شرعی کے جماعت کو ترک کرنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سینکڑوں آیات میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار احادیث میں اس کی ادائیگی اور پابندی کا حکم دیا ہے اور جماعت کا اہتمام نہ کرنے والوں کے لئے بڑی سخت وعیدیں قرآن پاک واحادیث میں صراحةً مذکور ہیں ۔

ارشاد ربانی ہے :

سورہ بقرہ میں ہے :

قائم رکھو نماز اور دیا کرو زکوٰۃ اور جھکو (نماز میں) جھکنے والوں کے ساتھ“۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں :

”یعنی باجماعت نماز پڑھاکرو۔ پہلے کسی دین میں باجماعت نماز نہیں تھی اور یہود کی نماز میں رکوع نہ تھا۔ خلاصہ آیت کا یہ ہوا کہ صرف امور مذکورہ بالانجات کے لئے تم کو کافی نہیں ، بلکہ تمام اصول میں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو اور نماز بھی ان کے طور پر پڑھو، جس میں جماعت بھی ہو اور رکوع بھی۔ (تفسیر عثمانی، ج: ۱، ص: ۸۵)

حق تعالیٰ شا نہٗ نے اپنے احکام کی پابندی پر جیسے کہ انعامات کا وعدہ فرمایا ہے ایسے ہی تعمیل نہ کرنے پر ناراضی اور عتاب بھی فرمایا ہے یہ اﷲ کا فضل ہے کہ تعمیل میں بے بہا انعامات کا وعدہ ہے ورنہ عدم بندگی کا مقتضا صرف عتاب ہی ہونا چاہئے تھا کہ بندگی کا فرص ہے تعمیل ارشاد پھر اس پر انعام کے کیا معنی اور نافرمانی کی صورت میں جتنا بھی عتاب و عذاب ہو وہ بر محل کہ آقا کی نافرمانی سے بڑھ کر اور کیا جرم ہو سکتا ہے پس کسی خاص عتاب یا تنبیہ کے فرمانے کی ضرورت نہ تھی مگر پھر بھی اﷲ جل شانہ اور اس کے پاک رسول نے ہم پر شفقت فرمائی کہ طرح طرح سے متنبہ فرمایا اس کے نقصانات بتائے مختلف طور سے سمجھایا پھر بھی ہم نہ سمجھیں تو اپنی ہی نقصان ہے۔

حدیث میں قبول نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس نماز پر جو ثواب اورانعام حق تعالیٰ جل شانہ کی طرف سے ہوتا وہ نہ ہو گا گو فرص ذمہ سے اتر جائے گا اور یہی مراد ہے ان حدیثون سے جن میں آیا ہے کہ اس کی نماز نہیں ہوتی اس لئے کہ ایساہونابھی کچھ ہونا ہوا جس پر انعام و اکرام نہ ہوا یہ ہمارے امام کے نزدیک ہے ورنہ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک ان احادیث کی بناء پر بلا عذر جماعت کا چھوڑنا حرام ہے اور جماعت سے پڑھنا فرص ہے حتی کہ بہت سے علماء کے نزدیک نماز ہوتی ہی نہیں حنفیہ کے نزدیک اگرچہ نماز ہو جاتی ہے مگرجماعت کے چھوڑنے کا مجرم تو ہو ہی جائے گا حضرت ابن عباس سے ایک حدیث میں یہ بھی نقل کیا گیا کہ اس شخص نے اﷲ کی نافرمانی کی اور رسول کی نافرمانی کی حضرت ابن عباس کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جو شخص اذان کی اوز سنے اور جماعت سے نماز نہ پڑھے نہ اس نے بھلائی کا ارادہ کیا نہ اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا گیا حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور جماعت میں حاضر نہ ہو اس کے کان پگھلے ہوئے سیسے سے بھر دیئے جاویں یہ بہتر ہے ۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ سرا سر ظلم ہے اور کفر ہے اور نفاق ہے اس شخص کا فعل جو اﷲ کے منادی (یعنی مؤذن) کی آواز سنے اور نماز کو نہ جائے ۔ (رواہ احمد والطبرانی)

کتنی سخت وعید اور ڈانٹ ہے اس حدیث پاک میں کہ اس کی اس حرکت کو کافروں کا فعل اور منافقوں کی حرکت بتایا ہے کہ گویا مسلمان سے یہ بات ہو ہی نہیں سکتی ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ آدمی کی بدبختی اور بد نصیبی کے لئے یہ کافی ہے کہ موذن کی آواز سنے اور نماز کو نہ جائے سلیمان بن ابی حثمہ جلیل القدر لوگوں میں تھے حضورﷺکے زمانہ میں پیدا ہوئے مگر حضورﷺسے روایت سننے کی نوبت کم عمری کی وجہ سے نہیں آئی حضرت عمر نے ان کو بازار کا نگران بنا رکھا تھا ایک دن اتفاق سے صبح کی نماز میں موجود نہ تھے حضرت عمر ؓ اس طرف تشریف لے گئے تو ان کی والدہ سے پوچھا کہ سلیمان آج صبح کی نماز میں نہیں تھے والدہ نے کہا کہ رات بھر نفلوں میں مشغول رہا نیند کے غلبہ سے آنکھ لگ گئی آپ نے فرمایا میں صبح کی جمعہ میں شریک ہوں یہ مجھے اس سے پسندیدہ ہے کہ رات بھر نفلیں پڑھوں ۔

حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن اکٹھا کر کے لائیں پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا عذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جا کر ان کے گھروں کو جلا دوں ۔ (رواہ مسلم ابوداود وابن ما جۃ والترمذی)

نبی اکرم ﷺ کو باوجود اس شفقت اور رحمت کے جو امت کے حال پر تھی اور کسی شخص کی ادنی سی تکلیف بھی گوارا نہ تھی ان لوگوں پر جو گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اس قدر غصہ ہے کہ ان کے گھروں میں آگ لگا دینے کو بھی آمادہ ہیں ۔

حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عبّاس اور حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عُمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے مروی ہے کہ ہم نے رسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سُنا:

، لوگ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُن کے دِلوں پر مہر لگادے گا پھر وہ غافِلوں میں سے ہوجائیں گے۔

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس گاؤں یا جنگ میں تین آدمی ہوں اور وہاں با جماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے اسلئے جماعت کو ضروری سمجھو بھیڑیا اکیلی بکری کو کھا جاتا ہے اور آدمیوں کا بھیڑیا شیطان ہے ۔ (رواہ احمد و ابوداود ولنسائی وابن حبان)

اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ کھیتی باڑی میں مشغول رہتے ہیں اگر تین آدمی ہوں تو ان کو جماعت سے نماز پرھنا چاھئے بلکہ دو کو بھی جماعت سے پڑھنا اولی ہے کسان عام طور سے اول تو نماز پڑھتے ہی نہیں کہ ان کے لئے کھیتی کی مشغولی اپنے نزدیک کافی عذر ہے اور جو بہت دیندار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکیلے ہی پڑھ لیتے ہیں حالانکہ اگر چند کھیت والے یادفتر والے یاکسی اور ادارے والے بھی ایک جگہ جمع ہو کر پڑھیں تو جماعت کی فضیلت حاصل ہو جائے اور کتنا بڑا ثواب حاصل کریں چار پیسے کے واسطے سردی گرمی دھوپ بارش سب سے بے نیاز ہو کر دن بھر مشغول رہتے ہیں لیکن اتنا بڑا ثواب ضائع کرتے ہیں اور اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ یہ لوگ اگر جنگ میں جماعت سے نماز پڑھیں تو اور بھی زیادہ ثوا ب حق تعالٰی جل شانہ کا سبب ہوتا ہے حتی کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ پچاس نمازوں کا ثواب ہو جاتا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب کوئی بکریاں چرانے والا کسی پہاڑ کی جڑ میں (یا جنگ میں ) آذان کہتا ہے اور نماز پڑھنے لگتا ہے تو حق تعالیٰ جل شانہ اس سے بے حد خوش ہوتے ہیں اور تعجب و تفاخر سے فرشتوں فرماتے ہیں دیکھو جی میرا بندہ اذان کہہ کر نماز پڑھنے لگا یہ سب میرے ڈر کی وجہ سے کر رہا ہے میں نے اس کی مغفرت کر دی اور جنت کا داخلہ طے کر دیا۔ یعنی معاش کے دھندے ان کو اللہ کی یاد اور احکام الٰہیہ کی بجا آوری سے غافل نہیں کرتے، بڑے سے بڑا بیوپار یا معمولی خرید وفروخت، کوئی چیز خدا کے ذکر سے نہیں روکتی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہی شان تھی۔

نماز باجماعت کے لیے احادیث میں جس قدر تاکید ہے اس کی بنا پر صحابہ کرام اور علمائے سلف نے نماز باجماعت کو واجب بلکہ فرض لکھا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ جماعت چھوٹ جانے سے صرف اتنا ہی نہیں کہ ایک خوبی اور سنت سے نمازی محروم ہو گیا، بلکہ ترکِ واجب سے ایک معصیت کا مرتکب ہو گیا۔

اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے تمام احکامات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین