نماز کا بیان – سبق نمبر 30:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى لِلَّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَتَانِ بَرَاءَةٌ مِنْ النَّارِ وَبَرَاءَةٌ مِنْ النِّفَاقِ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ‘جس نے اللہ کی رضا کے لیے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت صلاۃ پڑھی تو اس کے لیے دوقسم کی برأت لکھی جائے گی: ایک آگ سے برأت، دوسری نفاق سے برأت۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو مسلسل چالیس روز تک یہ سعادت حاصل ہو جائے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاء کی خاطر جماعت سے نماز اس طرح پڑھے کہ اس کی تکبیر تحریمہ فوت نہ ہو یعنی وہ ابتداء سے نماز میں شریک رہے کہ جب امام تکبر تحریمہ کہے تو وہ بھی تکبیر کہے یا بعض علماء کے قول کے مطابق زیادہ سے زیادہ امام کے سبحانک اللہم پڑھنے تک جماعت میں شریک ہو جائے تو اس کے لیے بارگاہ رب العزت سے دو چیزوں سے نجات کا پروانہ عنایت فرما دیا جاتا ہے ایک تو دوزخ سے کہ اسے انشاء اللہ دوزخ کی آگ دیکھنا نصیب نہیں ہو گی اور دوسری نفاق سے۔
نفاق سے نجات کا پروانہ دئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مرد مومن کو اس بات سے اپنے حفظ و امان میں رکھے گا کہ اس سے منافقوں جیسے عمل سرزد ہوں جیسے نماز میں کسل و سستی اور ریا، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی وغیرہ وغیرہ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے اہل حق اور اہل اخلاص کے سے عمل کرنے کی توفیق دے گا اور آخرت میں اسے اس عذاب سے کہ جس میں منافقین کو مبتلا کیا جائے گا۔ بچائے گا نیز میدان حشر میں اس کے بارے میں یہ گواہی دی جائے گی کہ یہ بندہ منافق نہیں ہے بلکہ بندہ مومن و صادق ہے اور رحم و کرم کی یہ بارشیں محض اس وجہ سے ہوں گی کہ یہ آدمی نماز میں اس قدر پہلے آیا کہ تکبیر اولیٰ میں شریک ہو سکے نیز دل کے پورے خلوص اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز میں کھڑے ہو کر اپنے رب کی خوشنودی اور رضا مندی کو حاصل کیا۔ حق تعالیٰ ہم سب کو اس سعادت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین
یعنی جو اس طرح چالیس دن اخلاص سے نماز پڑھے کہ شروع سے امام کے ساتھ شریک ہو اور نماز شروع کرنے کی تکبیر جب امام کہے تو اسی وقت یہ بھی نماز میں شریک ہو جائے تو وہ شخص نہ جہنم میں داخل ہو گا نہ منافقوں میں داخل ہو گا منافق وہ لوگ کہلاتا ہیں جو اپنے کو مسلمان ظاہر کریں لیکن دل میں کفر رکھتے ہوں اور چالیس دن کی خصوصیت بظاہراس وجہ سے ہے کہ حالات کے تغیر میں چالیس دن کو خاص دخل ہے چنانچہ آدمی کی پیدائش کی ترتیب جس حدیث میں آئی ہے اس میں بھی چالیس دن تک نطفہ رہنا پھر گوشت کا ٹکڑا چالیس دن تک اسی طرح چالیس چلاس دن میں اس کا تغیر ذکر فرمایا ہے اسی وجہ سے صوفیاء کہ یہاں چلہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی برسوں بھی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوتی۔
متعدد روایات کی رو سے تکبیرِ اُولیٰ کی بڑی ہی فضیلت معلوم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اکابرِ امت اور بزرگانِ دین باجماعت نماز میں تکبیرِ اُولیٰ پانے کی بھرپور کوشش کرتے اور اس کے بدلے دنیا کے قیمتی سے قیمتی مال ومتاع بلکہ دنیا بھر کی دولت بھی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اور پھر بعض روایات سے خصوصًا چالیس دن تک تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ نماز ادا کرنے کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے۔
اقامت کے بعد امام کا ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر نیت باندھنا تکبیرِ تحریمہ اور تکبیرِ اولیٰ کہلاتا ہے، ’’ تکبیرِ تحریمہ‘‘ بیک وقت نماز کی شرائط میں بھی شامل ہے اور نماز کا رکن بھی ہے۔ اسے ’’تحریمہ‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ جب بندہ ٔ مومن ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر نماز میں داخل ہوتا ہے، تو وہ بعض ایسے امور (جیسے کھانا، پینا، کلام کرنا، چلنا پھرنا وغیرہ) جو اس کے لیے عام حالات میں حلال ہوتے ہیں ، نماز سے فراغت تک حرام ہوجاتے ہیں ۔
اگرچہ فقہی اعتبار سے پہلی رکعت کے رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہونے پر پوری رکعت مل جاتی ہے اوراس میں معنوی اعتبار سے تکبیر تحریمہ یا تکبیرِ اُولیٰ بھی شامل ہے اور ظاہر ہے پوری رکعت کا ثواب بھی ملے گا، لیکن تکبیرِ اُولیٰ سے امام کے ساتھ جماعت میں شامل ہونے کا اجر یقیناً زائد ہے ، یہی وجہ ہے کہ اَحادیثِ مبارکہ میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے اور اس کا حتی الامکان اہتمام کرنا چاہیے۔
تکبیرِ اولیٰ کی فضیلت کی حقدار کون ہوگا اس سلسلے میں فقہاء احناف کے متعدد اقوال ملتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہؒ کا قول یہ ہے کہ مقتدی کی تکبیر امام کی تکبیر کے بالکل ساتھ ساتھ ہونی چاہئے ۔ حضرات صاحبین رحمهما اللہ کے نزدیک امام کی تکبیرِ تحریمہ کے بعد نماز میں شامل ہونے والے مقتدی کو بھی یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
البتہ صاحبینؒ کے نزدیک اس کی تشریح میں درج ذیل اقوال ہیں :
۱) امام کے ثناء پڑھنے تک۔
۲) امام کے آدھی سورۂ فاتحہ پڑھنے تک۔
۳) پوری سورۂ فاتحہ پڑھنے تک۔
۴) پہلی رکعت ملنے تک۔
اِن میں تیسرا قول مختار ہے، جب کہ چوتھے قول میں وسعت وسہولت زیادہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم (جماعت میں شریک ہونے کے لیے) نماز میں آؤ اور مجھے سجدے کی حالت میں پاؤ تو تم بھی سجدے میں چلے جاؤ اور اس سجدے کو کسی حساب میں نہ لگاؤ ہاں جس آدمی نے (امام کے ساتھ) رکوع پا لیا تو اس نے پوری رکعت پا لی۔ (ابوداؤد)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں آ کر اس حال میں شریک ہو کہ امام سجدے میں ہو اور وہ بھی سجدے میں چلا جائے تو اس کی پوری رکعت نہیں ہوتی ہاں اگر کوئی آدمی اس حال میں شریک ہو کہ امام رکوع میں ہو اور اسے رکوع مل جائے تو اس کی پوری رکعت ادا ہو جاتی ہے چنانچہ اس حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں اس وقت شریک ہو جب امام سجدے میں ہو تو وہ سجدے میں چلا جائے۔ مگر اس سجدے کی وجہ سے وہ اس رکعت کا ادا کرنا نہ سمجھے کیونکہ جس طرح رکوع میں شریک ہو جانے سے پوری رکعت مل جاتی ہے اسی طرح سجدے میں شریک ہونے پر پوری رکعت نہیں ملتی۔
دوسرے جزو کے علماء نے دو مطلب بیان کئے ہیں
(١) حدیث میں لفظ رکعۃ سے رکوع مراد ہے اور صلوٰۃ سے رکعت یعنی جس نے امام کو رکوع میں پایا اور وہ رکوع اس نے بھی پا لیا تو اس کو پوری رکعت مل گئی
(٢) رکعۃ اور صلوٰۃ دونوں اپنے حقیقی معنی میں استعمال کئے گئے ہیں اس طرح حدیث کے اس جزء کا مطلب یہ ہو گا کہ جس آدمی نے جماعت میں ایک رکعت بھی پالی تو اس نے امام کے ساتھ پوری نماز کو پا لیا لہٰذا اسے نماز با جماعت کو ثواب بھی ملے گا اور جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہو گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص حدیث شریف میں مذکورتکبیرِ اولیٰ کی فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہو اسے چاہیے کہ پہلی رکعت میں جلد از جلد امام کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش کرے۔ ۔ البتہ اعلیٰ درجے کی بات یہ ہے کہ مقتدی تکبیر تحریمہ کے وقت حاضر ہو اور امام کی تکبیر تحریمہ کے فوراً بعد مقتدی بھی تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز میں شامل ہوجائے۔
اللہ تعالی ہمیں دین و شریعت کے تمام احکامات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین