قنوتِ نازلہ کا حکم اور ادائیگی کا طریقہ

قنوتِ نازلہ کا حکم اور ادائیگی کا طریقہ
موجودہ زمانے میں قتل و غارت گری اتنی زیادہ عام ہو چکی ہے کہ سرکار ِ دو عالم صلی اﷲعلیہ وسلم کا وہ ارشاد روزِ روشن کی طرح واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے کہ آںجناب صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲعنہ نے فرمایا کہ آںجناب صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ دنیا ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ ایک ایسا دن آجائے کہ قاتل کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کس وجہ سے قتل کر رہا ہے اور نہ ہی مقتول کو معلوم ہو گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟؟‘‘
اور پھر اسی پر بس نہیں یہ قتل و غارت اتنی بڑھی کہ اس کا رخ ایک عالمی طاغوتی منصوبہ کے تحت باقاعدہ طور پر عامۃ الناس سے وارثانِ انبیاء ، علماء اور طلباء کی طرف موڑ دیا گیا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وارثانِ انبیاء تو شہادت جیسے مرتبہ عظمیٰ پر فائز ہونے والے ہیں، لیکن ان کے قتل کے منصوبے بنانے والے اور اس فعلِ بد میں شریک ہونے والوں کی بد بختی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ان اہل اﷲ کی دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔
قربِ قیامت میںعلم اٹھا لیا جائے گا:
ان اہلِ علم شخصیات کا قتلِ عام بھی علاماتِ قیامت میں سے ہے، جیسا کہ سرکارِ دو عالم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:’’بے شک اﷲتعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان سے علم کو اس طرح ختم نہیں فرمائیں گے کہ اسے دفعۃً اٹھا لیں ، یہاں تک کہ جب کوئی بھی عالم (حقیقی)باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے ، ان جہلاء سے سوال کیے جائیں گے تو یہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، خود بھی گمراہ ہو ں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
موجودہ حالات میں ایک سنت عمل :
ان حالات میں کہ جب مسلمانوں پر کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے ،مثلاً:طاعون کی وباء پھیل جائے، یا کفار حملہ کردیں، یا خود مسلمانوں میں ہی قتل و غارت عام ہو جائے تو ایسے مواقع میں نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم سے ایک خاص عمل کرنا ثابت ہے، جسے قنوتِ نازلہ کہتے ہیں:
حضرت انس بن مالک رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ایک مہینہ تک نماز فجر میں قنوتِ نازلہ بعض قبیلوں مثلاً:رعل ،ذکوان، عصیۃ اور بنی لحیان کے خلاف بد دعا فرمائی تھی‘‘۔
چنانچہ!ملک کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر صدرِ وفاق المدارس و مہتمم جامعہ فاروقیہ حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲخان صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹائون کراچی حضرت شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے متوسلین اور ائمہ مساجد کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اپنی اپنی مساجد میں قنوتِ نازلہ شروع کرو ادیں تو اﷲ رب العزت کی ذاتِ اقدس سے قوی امید ہے کہ حالات میں بہتری پیدا ہو جائے گی اور مسلمانوں کی دلی تسلی کے ساتھ ان قاتل اور بد بخت لوگوں کی اﷲتعالیٰ کی طرف سے گرفت کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔
اس لئے کہ ایسے حالات میں مصائب و بلیات اور سختیاں دور کروانے کیلئے ، مسلمانوں کو فتح اور کافروں کی شکست (اورآفات کی دوری)کے لئے بالاتفاق نمازِ فجر کی جماعت میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون و مستحب ہے۔
قنوتِ نازلہ سے متعلق بعض متفرق مسائل:
چنانچہ!خیال ہوا کہ قنوتِ نازلہ سے متعلقہ مسائل، طریقہ کار اور اس میں پڑھی جانے والی دعا منظرِ عام پر لائی جائے، تاکہ ائمہ مساجد کے لئے سہولت و آسانی ہو جائے، ذیل میں وہ مسائل ذکر کیے جاتے ہیں اور اہلِ علم حضرات کے اطمینانِ قلب کے لئے حوالہ جات بھی ذکر کر دئیے گئے ہیں:
٭تنہا نماز پڑھنے والے کیلئے قنوتِ نازلہ پڑھنا درست نہیں ہے۔
٭ قنوتِ نازلہ احناف کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں پڑھی جا سکتی ہے، البتہ امام شافعی ؒ کے نزدیک قنوتِ نازلہ کاتمام نمازروں میں پڑھنا درست ہے۔
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ:
٭قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ’’سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حمِدَہ‘‘کہہ کر امام کھڑا ہو جائے، اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت (جو آگے آ رہی ہے)پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پر آہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، پھر دعا سے فارغ ہو کر ’’اﷲاکبر‘‘کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں اور بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں۔
٭ اگر دعائے قنوت مقتدیوں کو یاد ہو تو امام بھی آہستہ پڑھے اور مقتدی بھی آہستہ آواز میں پڑھے اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو جیسا کا عام طور پر ہوتا ہے، تو امام بلند آواز سے دعا کے کلمات کہے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔
٭ قنوتِ نازلہ کے دوران دعا میں ہاتھوں کو لٹکایا جائے یا دعا کے انداز میں دونوں ہاتھوں کو اٹھا یا جائے؟ اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اس حالت میں احتمالاً تین طرح کی صورتیں اپنائی جا سکتی ہیں:
(۱) ناف کے نیچے ہاتھوں کو باندھا جائے، جیسا کہ عام طور سے قیامِ نماز میں باندھے جاتے ہیں۔ (۲) دونوں ہاتھ نیچے کی طرف لٹکائے جائیں۔(۳)دعا مانگنے کے انداز میں ہاتھ اوپر اٹھا لیے جائیں۔ ان تین صورتوں میں سے پہلی دونوں صورتیں درست ہیں، لیکن ان میں سے دوسری صورت (یعنی:ہاتھوں کو لٹکائے رکھنا)بہتر ہے۔جب کہ تیسری صورت(یعنی:دعا کی طرح ہاتھوں کو اٹھانا)مناسب نہیںہے۔
جیسا کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب ’’بو ادر النوادر‘‘میں لکھا ہے:
’’مسئلہ مجتہد فیہ ہے، دلائل سے دونوں طرف (یعنی:پہلی دو صورتوں کی طرف )گنجائش ہے اور ممکن ہے کہ ترجیح قواعد سے وضع (ہاتھ باندھنے)کو ہو۔ کما ہو مقتضیٰ مذھب الشیخین، لیکن عارضِ التباس و تشویشِ عوام کی وجہ سے ارسال کو ترجیح دی جا سکتی ہے، کما ہو مذھب محمد‘‘۔ (بو ادر النوادر، نوے واں نادرہ، تحقیق اِرسال یا وضع یدین درقنوتِ نازلہ:۶/۱۲۲،۱۲۳،ادارہ اسلامیات)
٭قنوتِ نازلہ کی دعا پڑھنے کی حالت میں جو مسبوقین امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوں، وہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد قیام کی حالت میں امام کی دعا پر آہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، ان کی یہ رکعت شمار نہیں ہو گی، (کیوں کہ ان کی شرکت امام کے رکوع سے اُٹھ جانے کے بعد ہوئی ہے)بلکہ وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی دو رکعتوں کو حسب قاعدہ پورا کریں گے۔
٭ قنوتِ نازلہ کتنے دنوں تک جاری رکھی جائے؟ اس بارے میں کوئی مقدار متعین نہیں ہے کہ اتنے دن تک پڑھی جائے اور اس کے بعد پڑھنا جائز نہیں ۔ بلکہ ضرورت کے موافق اس دعا کو جاری رکھا جائے، تاہم اتباع سنت کی غرض سے ایک مہینہ تک اس کو جاری رکھا جائے، جیسا کہ شروع میں ذکر کی گئی حدیثِ نبوی صلی اﷲعلیہ وسلم میں ذکر ہوا۔
قنوتِ نازلہ کی دعا:
دعائے قنوتِ نازلہ بہت سی روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے، ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حالات کے مطابق علماء عصر نے ایک جامع دعا نقل کی ہے:
{اللّٰھمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیْتَ ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَاأَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، أِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ ، وَأِنَّہ‘ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ،تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعالَیْتَ،نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ أِلَیْکَ،وَصَلَّی اﷲُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلِلْمُؤُمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَاَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمُ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنَھُمْ، وَاجْعَلُ فِیْ قُُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَۃَ، وَثَبِّتْھُمْ عَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعُھُمْ أَنْ یَشْکُرُوْا نِعْمِتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ وَاَنْ یُّوْفُوْا بَعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ،لَااِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَۃَ وَالْمُشْرِکِیْنَ لَا سِیَمَا الرَّافِضَۃَ وَمَنْ حَذَا حَذْوَھُمْ مِنَ الْاَحْزَابِ وَالْمُنَافِقِیْنَ الََّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتلُِوْنَ اَوْلِیَائَکَ مِنَ الطَّلَّابِ وَالْعُلَمَآئِ وَالْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیْنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ اَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمْ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍمُّقْتِدِرٍ، وَاَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذِیْ لَا تَرُدُّہ‘ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ}۔
ترجمہ: یااﷲ!ہمیں راہ دکھلا ان لوگوں میں جن کو آپ نے راہ دکھلائی ، اور عافیت دے ان لوگوں میں جن کو آپ نے عافیت عطا فرمائی ، اور کارسازی فرمائیے ہماری ان لوگوں میں جن کے آپ کار ساز ہیں، اور ہمیں ان چیزوں میں برکت عطا فرمائیے جو آپ نے ہمیں عطا فرمائی، اورہماری ان چیزوں کے شر سے حفاظت فرمائیے جن کا آپ نے فیصلہ فرمایا، کیوںکہ آپ ہی فیصلہ کرنے والے ہیں، اور آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، اور عزت نہیں پا سکتا، بے شک آپ جس کی مدد فرمائیں، وہ ذلیل نہیں ہو سکتا، اور عزت نہیں پا سکتا وہ شخص جو آپ سے دشمنی کر ے ، اے ہمارے رب آپ با برکت ہیں اور بلند و بالا ہیں۔ ہم تجھ ہی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں، اﷲتعالیٰ رحمتیں نازل فرمائے اس نبی پر جو بڑے کریم ہیں، اے اﷲ!ہمارے اور مؤمن مردوں اور عورتوں کے اور مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہ معاف فرما دے، اور ان کے دلوں میں باہم الفت پیدا فرما دے، اور ان کے باہمی تعلقات کو درست فرما دے، اور ان کے دلوں میں ایمان و حکمت کو قائم فرمادے ، اور ان کو اپنے رسول کے دین پر ثابت قدم رکھ، اور توفیق دے انہیں کہ شکر کریں تیرے اس عہد کو جو تو نے ان سے لیا ہے، اور ان کی اپنے اور ان کے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، اے اﷲ!ان کافروں اور مشرکوں پر لعنت فرما، خصوصاًروافض پر اور ان گروہوں پر جو ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں اور منافقین پر جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہین، اور آپ کے اولیاء کو قتل کرتے ہیں، بالخصوص علماء، طلبہ اوور عامۃ المسلمین کو ، اے اﷲ!خود انہیں کے اند ر آپس میں اختلاف پیدا فرما ، اور ان کی جماعت کو متفرق کر دے، اور ان کی طاقت پارہ پارہ کر دے، اور ان کے قدموں کو اکھاڑ دے، اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کو رعب ڈال دے، اور ان کو ایسے عذاب میں پکڑ لے جس میں قوت و قدرت والا پکڑا کرتا ہے اور اُن پر اپنا ایسا عذاب نازل فرما جو آپ مجرم قوموں سے دور نہیں کرتے ۔
اور پانچوں نمازوں کے بعد امام و مقتدی سب یہ دعا کریں:
حضر ت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اﷲ نے جواہر الفقہ میںلکھا ہے کہ پانچوں نمازوں کے بعد امام اور مقتدی یہ دعا بھی مانگین، وہ دعا موجودہ حالات کے پیشِ نظر قدرے تغیر و تبدل کے ساتھ نقل کی جاتی ہے:۔
{اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیْعَ الْحِسَابِ، اَللّٰھُمَّ اھْزِمِ الْاَحْزَابِ، اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھِمْ وَزَلْزِلْھُمْ، اَللّٰھُمَّ انْصُرِ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُجَاھِدِیْنَ الَّذِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِکَ حَقاًّ ،وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمِ فِیْ مَشَارِقِ الْاَرْضِ وَمَغَارِبِھَا خَاصَّۃً فِیْ بَاکِسْتَانَ وَاَطْرَافِھَا ، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا وَاحْفَظْنَا وَاحْفَظِ الطُّلَّابَ وَالْعَلَمَآئَ خَاصَّۃً وَالْمُسْلِمِیْنَ عَامَّۃً وَکَافَّۃً، وَالْمَدَارِسَ وَالْمَعَاھِدَ الدِّیْنِیَّۃَ کُلَّھَا ، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا ، وَاکْنُفْنَا بِرُکْنِکَ الَّذِیْ لَا یُرَامُ، وَاَعِنَّا وَلَا تُعِنْ عَلِیْنَا، وَانْصُرْنَا وَلَا تَنْصُرْ عَلَیْنَا، وَامْکُرْلَنَا وَلَا تَمْکُرْبِنَا، وَاھْدِنَا وَیَسِّرِ الْھُدیٰ لَنَا ، اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ نَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِنَا، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِنَا ، وَھَوَانَنَاعَلٰی النَّاسِ، اِنَّہُ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَمِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ}۔
ترجمہ:اے اﷲ!اے کتاب نازل کرنے والے!جلد حساب لینے والے!یااﷲ!ان طاقتوں کو شکست دیدے، یااﷲ!اسلام، مسلمان اور ان مجاہدین کی مدد فرما ، جو تیرے راستے میں زمین کے مشرق و مغرب میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کو ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ، یااﷲ!ہماری حفاظت فرما ، خاص طور پر طلبہ اور علماء کی اور عام طور پر عام مسلمانوں کی اور مدارس و تمام مراکز دینیہ کی حفاظت فرما ۔ یااﷲ!ہماری کمزوریوںپر پردہ ڈال دے اور خوف کی چیزوں سے ہم کو امن عطا فرما ۔ اور ہمیں اپنی اس طاقت کی پناہ میں لے جس کا کسی دشمن کی طرف سے بھی ارادہ نہیں کیا جا سکتا ، اور ہماری مددفرما اور ہمارے مقابل کی مدد نہ فرما اور ہم کو فتح دے ، ہمارے مقابل کو فتح نہ دے، اور ہمارے مخالف کی مدد نہ فرما، اور ہم کو ہدایت عطا فرما، اور ہمارے لیے ہدایت کو آسان فرما ، یا اﷲ!ہم آپ ہی کے سامنے اپنی کمزوری ، بے سامانی اور لوگوں کی نظروں میں بے وقعتی کی شکایت پیش کرتے ہیں، کیونکہ آپ کے عذاب سے نجات و پناہ بجز آپ کے کوئی نہیں دے سکتا۔
(ماخذ:روزنامہ اسلام…از…مفتی محمد راشد ڈسکوی صاحب)