اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 578)
اللہ تعالیٰ ہی سے ’’خیر ‘‘ کا سوال ہے:…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ۔
استخارہ کا موضوع:…
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ’’استخارہ‘‘ کی نورانی مہم چلی…بہت سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا… کئی مسلمانوں نے ’’استخارہ‘‘ کی سنت کو سمجھا اور اپنایا… اب یہ تقاضا زور پکڑ رہا ہے کہ ’’نورانی مہم‘‘ کے دو رنگ و نور اور مکتوبات یکجا شائع کر دئیے جائیں… استخارہ کے بارے میں بعض ضروری باتیں آج کے رنگ و نور میں عرض کی جا رہی ہیں … پھر ان شاء اللہ ان سب کو ایک رسالے کی صورت میں شائع کر دیا جائے گا… اللہ تعالیٰ آسان فرمائیں، قبول فرمائیں۔
تازہ واقعہ:…
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی… ان کی عمر ساٹھ سال سے کچھ اوپر ہے… ان کی کئی بیٹیاں اور بیٹے عالم وفاضل ہیں… اور خود وہ بھی ماشاء اللہ پکے دیندار، مسجد کے خدمتگار اور بزرگوں کی خدمت میں حاضر باش…انہوں نے اپنی ایک فکر اور پریشانی کا تذکرہ کیا کہ… فلاں کام کرنا چاہتا ہوں مگر راستہ نہیں مل رہا… آپ مشورہ دیں… ان سے عرض کیا کہ استخارہ کریں… ان شاء اللہ راستہ بھی مل جائے گا اور مدد بھی… ان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں… مگر پھر کچھ پریشان سے ہو کر کہنے لگے… استخارہ کا کیا طریقہ ہے؟ ان کو عرض کیا کہ بالکل آسان طریقہ ہے… وہ طریقہ ان کو بتا دیا …پوچھنے لگے پھر مجھے اس کا نتیجہ کیسے معلوم ہو گا؟ خواب آئے گا یا کچھ اور… عرض کیا…نہ خواب ضروری نہ الہام بس ’’خیر‘‘ آ جائے گی ان شاء اللہ… تفصیل سے بات سمجھائی تو وہ خوش ہوئے اور سمجھ گئے… مگر مجھے حیرانی ہوئی کہ… اتنی عمر مسجد اور دینداری کے ماحول میں گذارنے والے مسلمان کو بھی استخارہ کا علم نہیں … جبکہ حضور اقدس ﷺ اپنے صحابہ کرام کو… اتنی اہمیت سے استخارہ سکھاتے تھے جیسے کہ یہ قرآن پاک کی آیت ہو… قرآن مجید کے بعد جو صحیح ترین کتاب امت مسلمہ کے پاس ہے… وہ ہے ’’صحیح البخاری‘‘ جسے ہم ’’بخاری شریف‘‘ کہتے ہیں … حضرت امام بخاریؒ نے استخارہ کی حدیث اور دعاء اس کتاب میں تین جگہ بیان فرمائی ہے… اس حدیث میں استخارہ کا مکمل طریقہ اور نصاب موجود ہے… آج کے رنگ و نور میں ان شاء اللہ … یہ حدیث شریف بیان کی جائے گی تاکہ ہم اونچی اور صحیح سند کے ساتھ ’’استخارہ ‘‘ کی نعمت اور دعاء حاصل کر سکیں۔
بدعت کی نحوست:…
’’سنت‘‘ ایک ’’نور‘‘ ہے… جبکہ ’’بدعت‘‘ ایک بڑی گمراہی اور اندھیرا ہے… ہمارے آقا محمد مدنی ﷺ اپنی امت کو ’’استخارہ‘‘ جیسی طاقت اور روشنی دے گئے… تاکہ امت مسلمہ اپنے ہر معاملے اور کام میں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کر سکے … مگر لوگوں نے ’’استخارہ‘‘ کے نام پر طرح طرح کی ’’بدعات‘‘ ایجاد کر لیں… ان ’’بدعات ‘‘ کی نحوست نے ایسا ظلم ڈھایا کہ آج اکثر مسلمانوں کو ’’استخارہ‘‘ کا پتہ تک نہیں…وہ ’’استخارہ‘‘ جو ہمیں سورہ اخلاص کی طرح یاد ہونا چاہیے آج اچھے خاصے دیندار مسلمانوں کو بھی یاد نہیں… وہ ’’استخارہ‘‘ جو دن رات ہمیں بار بار کرنا چاہیے وہ آج مسلمان کی پوری زندگی میں ایک بار بھی نہیں … وہ ’’استخارہ‘‘ جو ہمیں اہتمام کے ساتھ سیکھنا اور سکھانا چاہیے وہ آج ہمارے لئے ایک اجنبی عمل بن چکا ہے…ہاں بے شک سچ فرمایا حضرت آقا مدنی ﷺ نے کہ…استخارہ انسان کی خوش نصیبی ہے اور استخارہ چھوڑنا انسان کی بدنصیبی ہے۔
اصل مسنون استخارہ:…
حضرت امام بخاریؒ نے استخارہ والی حدیث شریف… صحیح بخاری میں تین جگہ بیان فرمائی ہے…
)۱( کتاب التہجد میں حدیث نمبر : ۱۱۶۲
)۲(کتاب الدعوات میں حدیث نمبر: ۶۳۸۲
)۳(کتاب التوحید میں حدیث نمبر: ۷۳۹۰ (میرے سامنے اس وقت جو بخاری شریف کا نسخہ ہے وہ دارالکتب العلمیہ بیروت سے شائع ہوا ہے)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:…
کان رسول اللّٰہ ﷺ یعلمنا الاستخارۃ فی الامور کلھا کما یعلمنا السورۃ من القرآن۔
یعنی رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام کاموں میں استخارہ کی تعلیم اس طرح فرماتے تھے جس طرح کہ آپ ہمیں قرآن مجید کی سورت سکھاتے تھے۔
یقول اذاھم احدکم بالامر، فلیرکع رکعتین من غیر الفریضۃ ثم لیقل۔
آپ ﷺ ارشاد فرماتے…جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت نماز ادا کرے پھر کہے… آگے استخارہ کی دعاء ہے اور آخر میں ارشاد فرمایا:…ویسمی حاجتہ
اور وہ اپنی حاجت کا نام لے… یعنی اپنی حاجت بیان کرے۔( بخاری(
بس یہ ہے …مسنون اور طاقتور ترین استخارہ… جب بھی کسی کام کا ارادہ ہو… تو دو رکعت نماز ادا کرے… پھر استخارہ کی دعاء مانگے اور اپنی حاجت بیان کرے… اب لوگوں نے اتنے مفید اور اتنے آسان عمل میں معلوم نہیں کیا کیا مشکلات پیدا کر دیں اور بالآخر اس عمل کو مسلمانوں کے لئے ناممکن بنا دیا… حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں…
اب دیکھئے یہ )استخارہ( کس قدر آسان کام ہے مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگا دئیے ہیں۔
(۱)… پہلا پیوند یہ کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کئے بغیر سو جاؤ، سونا ضروری ہے ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔
(۲)… دوسرا پیوند ( شیطان نے( یہ لگایا کہ لیٹو بھی دائیں کروٹ پر۔
(۳)…تیسرا یہ کہ قبلہ رو لیٹو۔
(۴)…چوتھا پیوندشیطان نے ہ لگایا کہ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا۔
(۵)…پانچواں پیوند یہ لگایا کہ اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہو گا فلاں نظر آئے تو بہتر نہیں۔
( ۶)…چھٹا پیوند شیطان نے یہ لگایا کہ خواب میں کوئی بزرگ آئے گا بزرگ کا انتظار کیجئے کہ وہ خواب میں آ کر سب کچھ بتا دے گا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ کون ہو گا؟ اگر شیطان ہی بزرگ بن کر خواب میں آ جائے تو اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ شیطان ہے یا کوئی بزرگ؟
یاد رکھئے ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں بس یہ باتیں لکھنے والوں نے کتابوں میں بغیر تحقیق کے لکھ دی ہیں اللہ تعالیٰ ان لکھنے والے مصنفین پر رحم فرمائیں(خطبات الرشید)
کثرت سوال سے منع:…
حضور اقدس ﷺ نے نہایت تاکید کے ساتھ اپنی امت کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا ہے…زیادہ سوالات کے بہت زیادہ نقصانات ہیں… اور اس عادت کی وجہ سے انسان کے اندر عمل کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے… آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض لوگ زیادہ سوالات نہیں کرتے مگر بڑے بڑے کام کر لیتے ہیں جبکہ بعض سوالوں میں الجھے رہتے ہیں… بعض لوگوں سے آپ کہیں کہ یہ پہاڑ اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کر دو تو فوراً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں… اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں اور اپنے کام میں لگ جاتے ہیں … ایسے افراد کی اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں…اور ان سے عظیم الشان کام لیتے ہیں… جبکہ بعض افراد سے آپ کہیں کہ… یہ کاغذ اٹھا کر میز پر رکھ دو تو وہ اس پر بھی دس سوال پوچھ لیتے ہیں… ابھی اٹھاؤں یا بعد میں؟… ایک ہاتھ سے اٹھاؤں یا دونوں سے؟ ابھی میرا وضو نہیںہے اگر اس حالت میں اٹھا لوں تو حرج تو نہیں ہو گا؟… اٹھا کر میز پر کس جگہ رکھوں؟ وغیرہ وغیرہ۔
ایسے لوگ خود بھی مشکل میں پڑتے ہیں … کام بتانے والے کو بھی مشکل میں ڈالتے ہیں اور اکثر بڑے کاموں سے محروم رہتے ہیں… اب استخارہ کا معاملہ دیکھ لیں… حضرت مفتی رشید احمد صاحب نے جن غلط باتوں کو شیطانی اضافہ قرار دیا وہ تمام باتیں بزرگوں کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں …یہ باتیں کیوں پیدا ہوئیں؟… وجہ اس کی یہی زیادہ سوالات کی بری عادت ہے۔
حضرت آقا مدنی ﷺ نے اپنے جامع الفاظ میں استخاہ کی ہر بات سکھا دی… مثلاً:…
)۱( استخارہ ہر کام میں ہے… صرف شادی وغیرہ بڑے کاموں کے لئے نہیں
)۲( استخارہ صرف تردد کے وقت نہیں… بلکہ جب بھی کسی کام کا ارادہ ہو… اس میں تردد ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ سے خیر مانگ لو کہ… یا اللہ خیر ہے تو ہو جائے خیر نہیں تو مجھے اس سے بچالیجئے۔
)۳( دو رکعت فرض کے علاوہ ادا کرنی ہے…یعنی دو رکعت نفل ادا کرو۔
)۴( دو رکعت کے بعد استخارہ کی دعاء پڑھنی ہے… اور اپنی حاجت کا نام لینا ہے۔
اب ایک باعمل مسلمان کے لئے… اس میں کوئی پوچھنے والی بات باقی نہیں رہ گئی …بلکہ مزے ہو گئے کہ اتنا آسان عمل مل گیا… لیکن سوالات کرنے والوں نے فورا ًسوالات کی توپیں کھول دیں…
استخارہ میں نیت کیا کرنی ہے؟…دو رکعت کس وقت پڑھنی ہے؟… دو رکعت میں سورتیں کون سی پڑھنی ہیں؟ …یہ دو رکعت الگ پڑھنی ہیں یا کسی اور نفل مثلاً اشراق ، تحیۃ الوضوء میں بھی اس کی نیت ہو سکتی ہے؟ … استخارہ کی دعاء کتنی بار پڑھنی ہے؟ …اس دعاء سے پہلے کیا پڑھنا ہے؟ … اس دعاء کے بعد کیا پڑھنا ہے؟…استخارہ کی نماز کے بعد سونا ہے یا جاگنا؟ …سونا ہے تو بائیں کروٹ سونا ہے یا دائیں؟ …باوضو سونا ہے یا بے وضو؟ …باوضو سوئے مگر ابھی جاگ رہے تھے کہ وضو ٹوٹ گیا اب کیا کرنا ہے؟… استخارہ کتنی بار کرنا ہے؟ … استخارہ دن کو کرنا ہے یا رات کو؟
بس سوالات ہی سوالات… اب اہل علم نے دیگر احادیث اور قوانین کو سامنے رکھ کر ان سوالات کے ہر شخص کے مطابق جوابات دئیے …اس طرح وہ ’’جوابات‘‘ بھی استخارہ کی اصل حقیقت کا حصہ بنتے گئے… اور یوں استخارہ مشکل سے مشکل ترین ہوتا چلا گیا… اور بالآخر بے شمار مسلمان اس نعمت سے محروم ہو گئے…حالانکہ یہ ایسی نعمت ہے جو انسان کو طرح طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچانے کا ذریعہ ہے …بلکہ بڑے بڑے فتنوں سے بچانے کا بھی اہم ذریعہ ہے…آج لوگ ہر کسی کی بات سننے اور بیان سننے بھاگ جاتے ہیں…اور پھر طرح طرح کی غلطیوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں… اگر مسلمانوں میں استخارہ کا عمل ہو… اور وہ دو رکعت کی اس عبادت کی قیمت سمجھیں تو بڑے بڑے فتنوں سے بچ جائیں… مگر افسوس کہ مسلمان کے پاس موبائل اور نیٹ کے لئے گھنٹوں کا ٹائم ہے… جبکہ دو رکعت کے لئے پانچ منٹ نہیں ہیں…
حضرت اقدس بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:…
’’دور حاضر میں امت کا شیرازہ جس بُری طرح سے بکھر گیا ہے، مستقبل قریب میں اس کی شیرازہ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا… جب استشارے کا راستہ بند ہو گیا ( یعنی مشورے کا راستہ بند ہو گیا،پتا نہیں چلتا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر، تو کس سے مشورہ کیا جائے؟( تو اب صرف ’’استخارہ‘‘ کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے، حدیث شریف میں تو فرمایا تھا:
’’ ما خاب من استخار وما ندم من استشار‘‘۔
جو استخارہ کرے گا خائب و خاسر ( یعنی نقصان اور خسارہ اٹھانے والا( نہ ہو گا اور جو مشورہ کرے گا وہ پشیمان و شرمندہ نہ ہو گا ، عوام کے لئے یہی دستور العمل ہے کہ اگر کوئی ان فتنوں میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا تو مسنون استخارہ کر کے عمل کرے اور امید ہے کہ استخارہ کے بعد اس کا قدم صحیح ہو گا۔ ( دور حاضر کے فتنے اور ان کا سدباب(
استخارہ کیوں ملا:…
ہر زمانے میں گمراہ لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ… وہ قبائلی بدمعاشوں کی طرح لوگوں کے راستے میں ’’ گیٹ‘‘ بنا دیتے ہیں… اس گیٹ پر ان بدمعاشوں کو رقم دو تو آگے جا سکتے ہو ورنہ نہیں … اسی طرح گمراہ لوگ…گیٹ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ… ہمیں مال دو، خوش کرو تو ہم اللہ تعالیٰ سے تمہارے مسائل حل کرا دیں گے… ہم اللہ تعالیٰ سے تمہاری قسمت پوچھ دیں گے… ہم اللہ تعالیٰ سے تمہاری حاجت پوری کرا دیں گے… ان گمراہ لوگوں کے ہاتھوں بیوقوف بننے والے یہ تک نہیں سوچتے کہ یہ لوگ جو گیٹ بنا کر بیٹھے ہیں … یہ اگر اللہ تعالیٰ کے اتنے ’’مقرب‘‘ ہوتے تو یہ اپنے مسائل بھی اللہ تعالیٰ سے حل کراتے… اپنی قسمت بھی اللہ تعالیٰ سے اچھی کراتے… اور لوگوں سے خیرات، نذرانے اور پیسے نہ لیتے…
حضور اقدس ﷺ نے تشریف لا کر… یہ سارے گیٹ توڑ دئیے… اور سارے بدمعاشوں کو بھگا دیا… اور اللہ تعالیٰ کا راستہ ہر ایک کے لئے کھول دیا کہ… ہر کوئی خود اللہ تعالیٰ سے مانگے، اللہ تعالیٰ سب کی سنتا ہے… اور سب کو دیتا ہے… استخارے کا عمل بھی اسی لئے عطاء فرمایا…لوگ سفر سے پہلے یا کسی کام سے پہلے پنڈتوں ، نجومیوں اور عاملوں کے پاس جا کر فال نکلواتے تھے، ستاروں کا حال پوچھتے تھے… اور قسمت کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے تھے… آپﷺ نے ان تمام کاموں کو غلط قرار دیا اور فرمایا کہ… اے مسلمانو! استخارہ کرو…ہر کام سے پہلے اللہ تعالیٰ سے خیر مانگ لیا کرو… کیونکہ اصل خیر کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے… یوں ہر مسلمان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر حاصل کر سکتا ہے… ماضی میں مسلمان بڑے اہتمام سے استخارہ کرتے تھے… ہر کوئی ہر کام میں خود استخارہ کرتا تھا…اس لئے ان کے ہر کام میں برکت تھی، خیر تھی… مگر پھر شیطان نے گمراہ لوگوں کو کھڑا کر دیا اور اب پھر جگہ جگہ گیٹ لگ گئے کہ… ہم سے استخارہ کراؤ… ہم سے استخارہ نکلواؤ… یعنی نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ تمہاری نہیں سنتا صرف ہماری سنتا ہے… اس لئے ہم تمہارا استخارہ نکالیں گے… استغفر اللہ ، استغفر اللہ، استغفر اللہ۔
جس گمراہی کو ختم کرنے کے لئے ’’استخارہ‘‘ آیا تھا… آج استخارہ کے نام پر وہی گمراہی ہر طرف پھیل رہی ہے… کیا کوئی ایک حدیث یا روایت بھی ایسی پیش کر سکتا ہے کہ…کسی صحابی نے حضور اقدس ﷺ سے عرض کیا ہو کہ یا رسول اللہ! آپ میرے لئے استخارہ فرما دیجئے…؟ اگر نہیں تو پھر ہمارے زمانے میں یہ بدعت کہاں سے آ گئی ؟ کیسے آ گئی؟
اے مسلمانو! استخارہ سیکھو،استخارہ اپناؤ اور خود استخارہ کرو… اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا ضرور کرو کہ کسی سے اپنے لئے استخارہ نہ کرایاکرو… اگر آپ نے دوسروں سے ’’استخارہ ‘‘ کرایا تو زمانے کی ایک بڑی گمراہی میں آپ بھی حصہ دار بن جائیں گے… اور اپنے رب اور نبی کی سنت سے بہت دور جا گریں گے۔
طالع سعید، خوش نصیب ترین:…
کئی لوگ ستاروں کے ذریعہ ، نام کے ذریعہ یا عدد کے ذریعہ ’’طالع ‘‘ معلوم کرتے ہیں… قسمت اچھی ہے یا بری…قسمت میں مالداری ہے یا غریبی… قسمت میں عروج ہے یا زوال … پھر ان کے گمان کے مطابق بعض لوگوں کا ’’طالع بلند‘‘ ہوتا ہے اور بعض کا ’’منحوس‘‘ … حضرت علامہ ابن قیم نے ’’زاد المعاد‘‘ میں عجیب نکتہ لکھا ہے… وہ کہتے ہیں کہ جس مسلمان کو استخارہ اور اس کی دعاء نصیب ہو گئی… بس وہی ’’طالع بلند‘‘ یعنی خوش نصیب ترین انسان ہے…
وجہ یہ کہ… مومن کی خوش نصیبی اور خوش قسمتی دو چیزوں میں ہے۔
(۱)…توکل( ۲)…رضاء بالقدر۔
جب آپ نے ہر کام سے پہلے اللہ تعالیٰ سے خیر مانگی تو ثابت ہوا کہ آپ کے اندر ’’توکل‘‘ ہے … آپ کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے… اسی لئے صرف اسی سے خیر مانگ رہے ہو…اور استخارہ کے بعد جو کچھ ہوا اس پر دل مطمئن کہ… اللہ تعالیٰ نے جو کیا اچھا کیا… تو یہ تقدیر پر راضی ہونا ہو گیا…پس یہی خوش بختی کی علامت ہے۔
آگے کا حال:…
مشرکین کی عادت ہے کہ… ان کو آگے کا حال معلوم کرنے کا شوق ہوتا ہے… اسی کے لئے وہ طرح طرح کے شرک کرتے ہیں… اسلام نے سمجھایا کہ آگے کا حال معلوم کرنے کی فکر میں نہ پڑو… بلکہ جو آگے کا مالک ہے… معاملہ اس کے سپرد کر دو…اور اس سے آگے کی خیر مانگ لو… اور پھر مطمئن ہو جاؤ کہ… وہ ان شاء اللہ ضرور خیر دے گا۔یوں تم شرک سے بھی بچ جاؤ گے اور خیر بھی پا لو گے… اور ہر وقت برے مستقبل کے ڈر سے اپنا ’’حال‘‘ بھی خراب نہیں کرتے رہو گے… استخارہ اسی لئے آیا… مگر ظلم دیکھیں کہ لوگوں نے استخارہ کو بھی… آگے کا حال جاننے کا طریقہ سمجھ لیا… جو بڑی خطرناک گمراہی ہے… حضرت حکیم الامۃ تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:…
استخارہ سے مقصود محض طلب خیر ہے نہ کہ استخبار ( یعنی آگے کا حال معلوم کرنا) استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعاء ہے جس سے مقصود صرف طلب اعانت علی الخیر…یعنی استخارہ کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ سے دعاء کرتا ہے کہ میں جو کچھ کروں اسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے لئے خیر نہ ہو ، وہ کرنے ہی نہ دیجئے…پس جب استخارہ کر چکے تو اس کی ضرورت نہیں کہ سوچے کہ میرے دل کا زیادہ رجحان کس بات کی طرف ہے۔( بوادرالنوادر)
ایک نکتہ:…
حضور اقدس ﷺ کا کرتہ مبارک اگر مسلمان کے پاس ہو تو وہ اس کی کتنی قدر کرے گا؟ … حضور اقدس ﷺ کا ’’بال مبارک‘‘ اگر کسی مسلمان کے پاس ہو تو وہ خود کو کتنا خوش نصیب سمجھے گا؟ …یاد رکھئے کہ …حضور اقدس ﷺ کے تبرکات میں سب سے زیادہ بابرکت چیز…آپ ﷺ کی ’’احادیث مبارکہ‘‘ ہیں… یہ ایسا ’’تبرک ‘‘ ہے جو دیگر ’’تبرکات‘‘ سے بہت بڑھ کر ہے… یہ وہ مبارک الفاظ ہیں جو آپ ﷺ کے مبارک سانس، مبارک زبان، مبارک دہن اور مبارک ہونٹوں کے بوسے لے کر… طلوع ہوئے… اور ان میں نور، ہدایت اور برکت کا سدا بہار سامان ہے … اس لئے کسی بھی صحیح حدیث یا مسنون دعاء کو … اسی طرح یاد کرنا جس طرح آپ ﷺ سے ہم تک صحیح سند کے ساتھ پہنچی ہے… یہ برکت اور خوش نصیبی کی بات ہے… پھر ان دعاؤں میں … استخارہ کی خاص اہمیت یہ ہے کہ یہ دعاء حضور اقدس ﷺ نے بہت اہتمام کے ساتھ حضرات صحابہ کرام کو سکھائی ہے… ہم یہاں بخاری شریف کی روایت سے یہ دعاء نقل کر رہے ہیں… ہر مسلمان اسے اچھی طرح سمجھ کر درست تلفظ اور درست اِعراب کے ساتھ یاد کر کے…اس عظیم تبرک کو اپنے سینے میں محفوظ کرے۔
)۱( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیمِ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِی دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ( او کما قال( عَاجِلِ أَمْرِیْ وَآجِلِہٖ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہٖ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ( اوکما قال( عَاجِلِ أَمْرِیْ وَآجِلِہِ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِی۔(بخاری کتاب التہجد)
)۲( بخاری کتاب الدعوات میں جو دعاء ہے…اس میں آخری الفاظ’’ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہِ‘‘ ہیں… اسی طرح کتاب التوحید میں بھی ’’ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہِ‘‘ کے الفاظ ہیں…
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ،لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ،لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَا!لِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
٭…٭…٭