رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے

میر مجلس گمنام
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 473)
اللہ تعالیٰ اپنے اُس ’’مجاہد‘‘ اور ’’شہید‘‘ بندے کی مغفرت فرمائے… جو آج ہماری اس مجلس رنگ ونور کا ’’مہمان خصوصی‘‘ ہے… اُس نے اپنے وصیت نامہ میں لکھا ہے کہ اس کی شہادت کے بعد نہ ہی اُس کی یاد میں کوئی جلسہ کیا جائے… نہ مضمون لکھا جائے اور نہ ہی کوئی اور تشہیر کی جائے…لاڈلے شہید کا ہر حکم سر آنکھوں پر…ان شاء اللہ نہ جلسہ ہوگا اور نہ مضمون…نہ شہرت ہوگی نہ تشہیر…آج بھی آپ رنگ ونور میں ایک روشنی کے ہالے کی طرح لطیف پردوں کے پیچھے بیٹھ کر ہی مجلس کی صدارت کریں گے…آپ کا نام نہیں لکھوں گا…وہ تو خود مجھے بھی پوری طرح یاد نہیں… کیونکہ آپ کا خط پڑھنے کے بعد آنکھوں پر اتنا پانی تھا کہ نام ٹھیک طرح سے پڑھا ہی نہیں گیا…ہاں نام نہیں لکھا جائے گا مگر آپ کی روشنی اور آپ کی خوشبو کو چھپانا، نہ ہی میرے بس میں ہے اور نہ کسی اور کے…
اِس لاڈلے شہید نے دو خط لکھے ہیں… ایک مختصر اور دوسرا مفصّل…مختصر خط میں بس ایک درخواست تھی… دعا کریں کہ شہادت کے وقت میرے جسم کے زیادہ سے زیادہ ٹکڑے ہوں… میرا اللہ مجھ سے راضی ہوجائے…اور بس…
کتنی عجیب خواہش ہے… آج جو بھی صبح اٹھتا ہے وہ رات کو سونے تک جسم بنانے، جسم سنوارنے، جسم مہکانے اور جسم بھرنے کی ہزاروں فکروں میں لگا رہتا ہے… طرح طرح کی خوراکیں،طرح طرح کے ڈاکٹر، طرح طرح کی دوائیاں، طرح طرح کے لباس، طرح طرح کے میک اپ… اور معلوم نہیں کیا کچھ…
جسم کی حرص… جس قدر بڑھائی جائے… بڑھتی ہی چلی جاتی ہے…جسم کی خواہشات جس قدر پوری کی جائیں ان میںاضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے…جبکہ ایک دیوانہ اس تمنا میں ہے کہ اس کے جسم کے زیادہ سے زیادہ ٹکڑے اللہ تعالیٰ کی راہ میں نچھاور ہوں…
سلام ہو تم پر اے گمنام مسافر…اے عقلمند مسلمان!!
اللہ تعالیٰ کے اولیاء الگ الگ شان والے ہوتے ہیں… بعض یہ وصیت کرجاتے ہیں کہ اُن کی شہادت کے بعد اُن کے شہر میں…جہاد کا عظیم الشان جلسہ ہو…مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُن کے علاقے اور شہر میں جہاد کا پیغام عام ہو… زیادہ سے زیادہ مجاہدین وہاں سے نکلیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کو اَفرادی قوت ملے…یہ اپنے شہر اور علاقے کے ساتھ خیر خواہی کا ایک انداز ہوتا ہے… نہ شہرت پسندی نہ ریاکاری…جبکہ بعض شہداء ’’فنا فی اللہ‘‘ ہوتے ہیں…یہ بھی ولایت کا ایک مقام ہے…یہ حضرات حتیٰ الوسع کوشش کرتے ہیں کہ گمنام رہیں…یہ دل کے بادشاہ ہوتے ہیں… سرجھکاکر اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتے ہیں… لوگوں میں بیٹھے ہوں تو بھی دل کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ٹوٹنے دیتے…جلوت میں خلوت کے مزے لوٹتے ہیں…لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ سوچ رہے ہیں… حالانکہ وہ اپنے رب سے مناجات میں مشغول ہوتے ہیں… اُن کا دل ان کی زبان بن جاتا ہے… اور جب ان کو حقیقی خلوت اور تنہائی ملے تب اُن کی آنکھیں، ان کی زبان اور ان کے آنسو اُن کے اَلفاظ بن جاتے ہیں…
یہاں پر ایک بڑا اہم نکتہ یاد آگیا…مقبول شہداء کرام کی شہادت ضائع نہیں جاتی…یہ اوپر کا فیصلہ ہے… جسے کوئی بدل نہیں سکتا…کسی شہید کا جلسہ ہو یا نہ ہو…کسی شہید کا تذکرہ ہو یا نہ ہو… کسی شہید پر کوئی مضمون یاکتاب لکھی گئی ہو یا نہ… کسی شہید کو لوگ جانتے ہوں یا نہ …شہداء ہر حال میں زندہ ہیں… ہر حال میں زندہ رہتے ہیں… اُن کا کام زندہ رہتا ہے…اُن کے آثار طیبہ زندہ رہتے ہیں… اُن کا اجر زندہ رہتا ہے… اُن کی فکر زندہ رہتی ہے… وہ چونکہ دینِ اسلام کے لیے مر مٹتے ہیں… تو اس لیے ان کی زندگی اسلام کی آغوش میں آنکھ کھول لیتی ہے… ہر اذان کا اجر انہیں ملتا ہے، ہر نماز،ہر حج اور ہر اسلامی حکم میں ان کے لیے اجر کا حصہ مقرر ہوجاتا ہے…اور پھر ان کی زندگی کو ثابت کرنے کے لیے… قدرت ایسی ایسی کرامات سامنے لاتی ہے کہ انسانوں کی عقل حیران رہ جاتی ہے… ابھی حال ہی کا واقعہ دیکھیں کہ شہید عبداللہ عزامؒ جو افغان جہاد کے پہلے مرحلے کے دوران پشاور میں شہید ہوئے…
اُن کی شہادت کے وقت بھی کئی کرامات ظاہر ہوئیں… مثلاً خون سے مہکتی خوشبو کااُٹھنا، گاڑی کے تین ٹکڑے ہونے کے باوجود جسم کا سلامت رہنا وغیرہ … مگر پھر یہ ہوا ہے کہ ان کی جماعت اور ان کا کام مکمل طور پر بکھرگیا… وہ ادارہ جو اِن کی کتابیں اور کیسٹیں بناتا اور تقسیم کرتا تھا ختم ہو گیا…اُن کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھی… عرب مجاہدین کی جو جماعت طاقت وربن کر اُبھری وہ شیخؒ سے ذہنی طور پر دور تھی… پھر پاکستان میں آپریشن شروع ہوا اور شیخ ؒ کے بنائے ہوئے تمام ادارے ختم ہوگئے… کسی دورمیں حالت یہاں تک پہنچی کہ وہ شخص جس کی کتابیں اور بیانات کسی دور میں مشرق تامغرب پھیل چکے تھے… اب اس کی ایک کتاب بھی کہیں سے ملنا محال تھی…بس یوں سمجھیں کہ ظاہری طور پر … قصہ ختم، کام ختم… مگر قرآن مجید کا محکم فیصلہ ہے… ’’بل احیائ‘‘ کہ شہداء کی زندگی یقینی ہے… آج پھر آپ کو عراق وشام کے جہاد میں شہید عبداللہ عزام کے قلم کا جہادی گھوڑا… پوری شان سے دوڑتا ہوا نظر آرہا ہے… اور اس کی ٹاپوں سے اڑنے والی چنگاریاں آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں…
حضرت سید احمد شہیدؒ کا مختصر ساجہادی قافلہ …جن جن راہوں سے گذرا…وہاں دوصدیاں بیت جانے کے باوجود …ان کے مبارک آثار صاف محسوس ہوتے ہیں … اور شہدائِ بالاکوٹ جس کام کے لئے اٹھے اور مٹے… وہ آج الحمدللہ پورے عالم اسلام میں جاری و ساری ہے… بات کچھ دور نکل رہی ہے واپس اپنے ’’صدرِ مجلس‘‘ کی خدمت میں آتے ہیں… یہ ہمارے ایک گمنام بھائی اور شہید… انہوں نے ایک مفصل خط بھی لکھا ہے… اس خط کے کئی رنگ ہیں اور ہر رنگ دوسرے سے زیادہ روشن ہے… ایک طرف وہ اپنی عفت مآب نشانِ غیرت بہن…عافیہ صدیقی کا تذکرہ کرتے ہیں… ایک دردناک تذکرہ مگر امید کی خوشبو سے مہکتا تذکرہ…وہ کہتے ہیں کہ بہن جی کو جہاد کے عمل کی برکت سے ان شاء اللہ آزادی ملے گی… اور میری شہادت کے بعد ان شاء اللہ آپ لوگ بہن جی… کی آزادی کی خبربھی کسی دن سن لیں گے…
’’اے باوفا شہید! اللہ تعالیٰ تمہارے الفاظ کو مبارک فرمائے…‘‘
اس مفصل خط میں ’’گمنام مؤمن‘‘ نے ایک رات کا تذکرہ بھی کیا ہے…اللہ تعالیٰ مجھے اور القلم کے تمام قارئین کو بھی … آنکھیںکھولنے والی ایسی ’’رات‘‘ نصیب فرمائے… آہ! مسلمانوں کی راتیں کتنی تاریک، کتنی بدبودار اور کتنی غفلت زدہ گزرتی ہیں… یا اللہ! رحم، یااللہ! معافی…
وہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک رات تھی …غالبا ًپچیسویں شب… وہ گمنام بندہ، جامع مسجد عثمان و علی رضی اللہ عنہمابہاولپور میں معتکف تھا کہ… اس رات اُس کو خصوصی توجہ عنایت فرمادی گئی…ہاں! اللہ تعالیٰ کی محبت اسی طرح کسی دل پر چپکے سے دستک دیتی ہے… اور پھر سودا ہوجاتا ہے، وہی سودا جس کا قرآن مجید میں والہانہ تذکرہ ہے… اللہ تعالیٰ خریدار بن کر آ گیا… دل پر دستک دی… ارے جان دے دو، ہماری رضا لے لو… ہماری جنت لے لو…ہمارا پیار لے لو… ہماری محبت لے لو…ارے جان دے کر زندگی لے لو… ہمیشہ کی زندگی… اور پھر اس سودے اور اپنی قسمت پر ناز کرو، خوشیاں منائو
فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمُ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہ
وہ گمنام مومن ہوشیار ہوگیا… اس نے دل پر آنے والی دستک محسوس کرلی… اسے یاد آیا کہ میرے ماضی کی زندگی…کس قدر غفلت میں گذری تھی…پھر کچھ لوگ میری زندگی میں آئے … یہ دیوانوں کی جماعت ’’جیش‘‘ کے لوگ کے تھے… وہ مجھے اس مرکز میں لے آئے… جس مرکز کے ہر چپے پر کسی شہید کے والہانہ ذکر اللہ کی گواہی لکھی ہے… اور پھر میرارخ ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کی طرف ہوگیا…ایک جماعت جس نے چند دن میں مجھے ایسی جگہ لا کھڑا کیا کہ آج مجھ جیسے گناہگار کے دل پر محبت کی دستک آرہی ہے…
ہائے کاش! جماعت کے ذمہ دار… جماعت کے ساتھی اور پاکستان کے مسلمان اس جماعت کی قدر کریں…وہ درد کے ساتھ لکھتا ہے:
مجھے اس رات دعا مانگتے مانگتے اور شکر کرتے کرتے یہ بات محسوس ہوئی کہ اس جماعت کی قدر نہ خود جماعت والے ٹھیک طرح سے کررہے ہیں اور نہ پاکستان کے مسلمان مگر میرا عزم ہے کہ اسی جماعت کے پرچم تلے…اپنے جسم کے ٹکڑے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردوں تاکہ عافیہ بہن رہا ہو جائے اور میری جماعت کی حفاظت ہوجائے…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم…سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم
میں خط کے یہ الفاظ پڑھ رہا تھا تو سر شرم سے جھک گیا… مجھے بھی جماعت کے دینی، روحانی اِحسانات یاد آنے لگے اور ساتھ یہ بھی کہ میں بھی تو کبھی کبھار جماعت کے کاموں میں سستی یا تاخیر کر جاتا ہوں… تب اسی وقت تمام رکے ہوئے کام یاد کئے اور ایک ایک کو نمٹانا شروع کیا اور بار بار اُس گمنام شہید کا شکر یہ بھی ادا کرتا رہا کہ:
اے سچے عاشق…غفلت کے پردے چاک کرنے کا شکریہ!
یااللہ! ہماری آج کی اس مجلس کا پورا ثواب اس گمنام شہید اور اس کے تینوں رُفقاء کو عطا فرما دیجئے…اور ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمادیجئے، جنہوں نے اس جماعت سے اپنا دین بنایا اور آپ کی محبت اور مقبول شہادت کو پایا…
آمین یاارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ و صحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مفید مشورے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 472)
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں فرماتے…جو تکبر کرتے ہیں،اکڑتے ہیں اور فخر کرتے ہیں… آج کی مجلس میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں چند مشورے عرض کرنے ہیں…
خود کو دوسروں سے بڑا نہ سمجھیں
اللہ تعالیٰ نے کسی کو مالدار بنایا…اور کسی کو غریب…مگر کوئی مالدار کسی غریب سے ’’بڑا‘‘ نہیں جو مالدار خود کو غریبوں سے بڑا اور افضل سمجھے گا…اور اس پر اکڑے گا وہ ہلاک وبرباد ہو جائے گا…اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں سے نفرت فرماتے ہیں…
اللہ تعالیٰ نے کسی کو اچھی شکل والا بنایا…اور کسی کو کم صورت…مگر کوئی خوبصورت انسان اپنی خوبصورتی کی وجہ سے…کسی کم صورت انسان سے ’’بڑا‘‘ اور افضل نہیں…
جو ایسا سمجھے گا وہ مارا جائے گا…اللہ تعالیٰ تکبر اور فخر کرنے والوں کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسا حقیر بنا دیں گے…
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کسی کو بڑا عہدہ اور منصب دیا…اور کسی کو عہدہ و منصب نہیں دیا … مگر کوئی عہدیدار اپنے عہدے کی وجہ سے کسی سے بڑا نہیں…
جو عہدیدار اپنے مامورین اور ماتحتو ں کو حقیر سمجھے گا…اورخود کو بڑا سمجھے گا وہ تباہ ہو جائے گا… اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو جنت میں داخل نہیں فرمائیں گے جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ’’تکبر‘‘ ہو گا…بڑائی ہو گی…
پس کامیاب زندگی اور کامیاب آخرت پانے کے لئے ضروری ہے کہ…ہم جو بھی ہیں،جیسے بھی ہیں…خود کو ’’انسان‘‘ سمجھیں…مٹی سے بنا ہوا اللہ تعالیٰ کا بندہ…
جو مسلمان جس قدر تواضع اختیار کرے گا… وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی قدر اونچا ہو گا… تکبر ،بڑائی،خود نمائی اور عجب یہ سب ’’بدبودار‘‘ صفات ہیں…
جماعت کے ذمہ دار جو مختلف عہدوں پر ہیں …ان کو خاص طور سے ’’تواضع‘‘ کی صفت اپنانی چاہیے…اپنے ماتحت مجاہدین اور ساتھیوں کو ہرگز حقیر یا چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے…ہاں! جماعتی معاملات میں مضبوطی سے ’’اطاعت‘‘ کروائیں …مگر ذاتی معاملات میں ان کو اپنے سے بہتر یا کم از کم برابر سمجھیں…
خواتین دو کام ضرور کر لیں
جو مسلمان خواتین کامیابی چاہتی ہیں… کامیاب زندگی اور کامیاب آخرت …وہ دو کام ضرور کر لیں…پہلا یہ کہ نماز ہمیشہ اول وقت ادا کریں…اپنے پاس اوقات نماز کا نقشہ رکھیں، جیسے ہی وقت داخل ہو فوراً ’’اللہ اکبر‘‘… آپ یقین کریں کہ اس عمل کی برکت سے آپ کی زندگی بدل جائے گی…اس عمل کے فوائد اور فضائل لکھوں تو آج کا پورا کالم اسی میں لگ جائے گا …خود سوچیں کہ جب نماز کا وقت داخل ہوتا ہے تو فرمایا جاتا ہے…اٹھ میری بندی میرے لئے نماز قائم کر…اب جو پہلی آواز پر ہی دوڑ کر حاضر ہو جائے…اس کا مقام کتنا اونچا ہو گا؟…جو بیوی خاوند کی پہلی آواز پر دوڑتی چلی آئے وہ خاوند کا دل جیت لیتی ہے…نماز کی آواز نماز کا وقت داخل ہوتے ہی آنا شروع ہوتی ہے…اور نماز کا وقت ختم ہونے تک آتی رہتی ہے…جن کو اپنے محبوب رب تعالیٰ سے سچی محبت ہے وہ تو پہلی آواز پر ہی بے تاب ہو کر دوڑتے ہیں…اور پھر وہ اپنے رب کی خاص نعمتوں کو پا لیتے ہیں…
عزیز بہنو! آپ کے پاس بہت علم ہو مگر نماز میں سستی ہو تو یہ علم بھی وبال بن جائے گا…نماز میں اللہ تعالیٰ کی مدد ہے…اس مدد کو آپ ساتھ لیں گی تو کس کی مجال ہے کہ آپ کی ناقدری کرے …آپ کو ستائے…
فجر کا وقت داخل ہوا’’اللہ اکبر‘‘ عصر کا وقت داخل ہوا ’’اللہ اکبر‘‘…یہ وہ دو نمازیں ہیں جو خواتین کا امتحان ہیںکہ …انہیں اللہ تعالیٰ سے کتنی محبت ہے…
جب فجر میں سستی ہوتی ہے تو چہرے بے نور ہو جاتے ہیں…اور جب عصر میں سستی ہوتی ہے تو ہر مصیبت لپک کر آتی ہے…خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی نمازوں کا معاملہ ٹھیک کر لیں … آپ کا ہر مسئلہ ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا…
نماز کے لئے بہترین اور پاکیزہ کپڑوں کا جوڑا…نماز کے لئے اچھی سے اچھی خوشبو… نماز کے لئے بہترین مسواک…نماز کے لئے سفید عمدہ جائے نماز…نماز کے لئے توجہ سے کیا ہوا وضو… سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کی بندی اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ بندگی کا عہد وفا کرنے کے لئے اول وقت حاضر…اور پھر اطمینان سے پوری نماز اور آخر میں دل کی توجہ سے دعائ…یاد رکھیں! اسی سے آپ کی دنیا اور آخرت کے مسائل حل ہوں گے…نماز کا اہتمام کیے بغیر تعویذوں، گنڈوں، دھاگوں، دوائیوں،چالاکیوں سے کوئی کام نہیں بنتا …بالکل نہیں بنتا بلکہ الٹا پریشانیاں بڑھتی ہیں…
دوسرا کام یہ کہ…اپنا پردہ مضبوط کر لیں… نہ کسی غیر محرم کو دیکھیں اور نہ خود کو کسی غیر محرم کے سامنے لائیں…برقع فیشن والا بالکل نہ پہنیں …ایسے برقع کا کیا فائدہ جو غلیظ اور ناپاک نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہو…ایمان والی عورت جب بازار سے برقع منگواتی ہے تو پہن کر اپنی بہنوں اور سہیلیوں سے پوچھتی ہے کہ…یہ مجھے کیسا لگ رہا ہے؟…اگر وہ کہیں کہ بہت اچھا بہت خوب صورت…تو فوراً وہ برقع واپس کر دیتی ہے کہ یہ تو خود کو چھپانے کے لئے پہنا جاتا ہے نہ کہ خود کو دکھانے کے لئے…تنگ اور چست کپڑے ہرگز نہ پہنیں اور پردے کو اپنے لئے رحمت سمجھیں…
جہاد کی تربیت میں تاخیر نہ کریں
ہر وہ مسلمان جو کلمہ طیبہ
لا الہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
پڑھتا ہے اور اس کلمہ پر یقین رکھتا ہے… اس کے لئے لازمی نصیحت ہے کہ وہ جہاد کہ عملی تربیت حاصل کر لے…اور ہر وہ مسلمان جس کی نرینہ اولاد یعنی بیٹے بالغ ہو چکے ہیں اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو جہاد کی تربیت فوراً دلوا دے … جو مسلمان ان دو معاملات میں سستی کرے گا… یعنی خود جہاد کی تربیت نہیں لے گا یا اپنی اولاد کو تربیت نہیں دلوائے گا…وہ اپنے ایمان اور اپنے دین کو خطرے میں ڈال دے گا…جہاد مسلمانوں کے لئے نماز اور روزے کی طرح فرض ہے…اور جہاد رسول کریم ﷺ کا عمل اور آپ ﷺ کی تاکیدی وصیت ہے…قرآن و حدیث میں جہاد کی اتنی تاکید کے باوجود…ایک مسلمان کو جہاد کرنا ہی نہ آئے تووہ کیسا مسلمان ہے؟…اللہ کے لئے اپنا ایمان بچائیں اور سچے مسلمان بنیں…چند دن فضائل جہاد کا عمل کی نیت سے مطالعہ کریں ان شاء اللہ آنکھیں کھل جائیں گی…
خرید و فروخت میں کم گوئی
امانت داری کے ساتھ تجارت کرنے والے …اس امت کے تاجروں کا حشر ’’صدیقین‘‘ کے زمرے میں ہو گا…ایسی کامیاب تجارت کا ایک اہم راز یہ ہے کہ…آپ خرید و فروخت کے وقت بہت کم بولیں…زیادہ بولنے میںجھوٹ، مبالغہ ، دھوکہ اور نہ معلوم کیسے کیسے گناہ ہو جاتے ہیں…بڑا دکھ ہوتا ہے کہ دکاندار اپنے مال اور سامان کو بیچنے کے لئے قسمیں تک کھا جاتے ہیں…قسمیں کھانا نہ تو مال کو بڑھاتا ہے اور نہ رزق کو…آپ کوئی چیز بیچ رہے ہیں وہ گاہک کے سامنے کر دیں قیمت بتا دیں … اور پھر ذکر میں لگ جائیں اس نے خریدنی ہو گی تو ضرور لے جائے گا اگر اس کی قسمت میں نہیں تو آپ فضول گفتگو سے بچ جائیں گے…ملمع سازی اور لفاظی کی مارکیٹنگ جو آج ایک فن بن چکی ہے …وہ مسلمانوں کے لئے زہر قاتل ہے… ہاں! اگر اپنے سامان کا عیب بتا دیں تو آپ کی تجارت خوب نکھر جائے گی…زیادہ خوبیاں گنوانا ، گاہک کو پھنسانے کے لئے لچھے دار گفتگو کرنا … اور بولتے ہی چلے جانا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا …جو لوگ اسے اپنی عقلمندی سمجھتے ہیں وہ بیچارے عقلمند نہیں بیوقوف ہیں…کیونکہ جو کچھ ان کے نصیب کا ہے وہ انہیں یہ سارے گناہ کئے بغیر بھی ضرور مل جائے گا…ماضی کے ان کامیاب مسلمان تاجروں کے حالات پڑھیں جن کی تجارت ان کے لئے جنت کا ذریعہ بن گئی…
خدمت ٹھیک،ٹھیکیداری غلط
ایک منظر دیکھیں! ایک صاحب مسجد کے کونے میں بیٹھے کسی کو چیخ کر بتا رہے ہیں کہ… پنکھے کا بٹن بند کر دو…یار یہ بٹن نہیں اوپر سے تیسرا بٹن…ہاں پانچواں بھی آف کر دو…وہ اپنے گمان میں بڑی نیکی کر رہے ہیں کہ مسجد کی بجلی بچا رہے ہیں…مسجد کی خدمت کر رہے ہیں… حالانکہ وہ اپنے اس شور شرابے کی وجہ سے ایک ’’قبیح گناہ‘‘ میں مبتلا ہو رہے ہیں…پہلا گناہ یہ کہ مسجد میں شور شرابا…دوسرا گناہ یہ کہ نماز پڑھنے والوں کی نماز خراب کرنا…اور تیسرا گناہ یہ کہ اپنے گناہ کو نیکی سمجھنا…اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ’’مساجد‘‘ کے یہ خادم آج کل ہر مسجد میں زیادہ ہو گئے ہیں…مگر حقیقت میں یہ خادم نہیں ٹھیکیدار ہوتے ہیں… جب چاہتے ہیں مائک پکڑ کر طرح طرح کے اعلانات شروع کر دیتے ہیں…نہ کسی کی نماز کا خیال رکھتے ہیں اور نہ کسی کی تلاوت کا…مسجد کے بارے میں تو یہ حکم ہے کہ وہاں کسی کو آواز دے کر پکارنا بھی درست نہیں…مسجد میں ایسی بلند آواز سے ذکر کرنا کہ کسی کی نماز میں خلل ہو جائز نہیں … جب ذکر اللہ کا یہ حکم ہے تو عام باتوں کا کیا حکم ہو گا؟ …ایسے افراد کی چندے کی اپیل بھی بہت جارحانہ ہوتی ہے وہ نمازیوں کو بہت شرمندہ کرتے ہیں … گویا کہ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کو رسوا کرتے ہیں… آپ مسجد ضرور جائیں، بار بار جائیں مگر جیسے ہی مسجد میں سیدھا قدم رکھیں…اب مکمل طور پر با ادب ہو جائیں…اپنے فون کے ساتھ اپنے گلے کو بھی سائلنٹ (خاموش) کر دیں…اپنے دل میں مسجد کی عظمت کو محسوس کریں…احتیاط سے چلیں …کسی کو ایذاء نہ پہنچائیں…باجماعت نماز میں کھجلی،خارش یا کسی اور کام کے لئے ہاتھ نہ ہلائیں …اس سے دوسروں کی نماز خراب ہوتی ہیں… خود صف میں سیدھے کھڑے ہو جائیں دوسروں کو سیدھا کرنے کی فکر میں شور نہ کریں…یہ آپ کا کام نہیں امام صاحب کا کام ہے…اقامت شروع ہوتے ہی ایسے ہو جائیں جیسے جسم میں حرکت اور جان نہیں مکمل طور پر قبلہ رخ اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ…کئی لوگ اقامت شروع ہونے کے بعد آڑھے ترچھے کھڑے ہو کر کسی کو آگے بلاتے ہیں، کسی کو پیچھے دھکیلتے ہیں…غفلت کی انتہا دیکھیں کہ …اقامت کی آواز سن کر وہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے…سلام کے بعد اپنا رخ قبلہ کی طرف رکھ کر دعائیں پڑھیں…کئی لوگ اس وقت گردن دائیں،بائیں گھما کر دعائیں پڑھتے ہیں تو ان کی دعائیں…دائیں ،بائیں والے نمازیوں کے کان میں سپیکر بن جاتی ہیں… مقصد یہ کہ مسجد میں داخل ہوتے ہی…بس ایک اللہ کی طرف متوجہ ہو جائیں…کسی دوسرے نمازی کو ایذاء یا خلل نہ پہنچائیں…اور مسجد کی خدمت کرنی ہو تو …ادب،تواضع اور خاموشی سے خدمت کریں …ٹھیکیداری نہ کریں…مسجد بہت اونچی جگہ ہے …یہ دنیا میں جنت کے باغات ہیں …اس لئے مکمل احتیاط سے کام لیں…
یہ ہیں…اپنے لئے اور آپ سب کے لئے چند مفید مشورے…دو مزید باتیں بھی تھیں مگر جگہ مکمل ہو گئی…اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے ان مشوروں پر عمل کریں اور دوسرے مسلمانوں تک بھی پہنچائیں…خاص طور پر جہاد فی سبیل اللہ کی تربیت کا ’’حکم الہٰی‘‘ ہر مسلمان تک پہنچا دیں تاکہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ ہمیں کسی نے بتایا نہیں تھا…
لاالہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
آغاز ِغزوات
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 471)
اللہ تعالیٰ کا نام مبارک…ایسا بابرکت کہ اس کی ’’برکت‘‘ سے ہر ’’نحوست‘‘ دور ہو جاتی ہے…
ہم اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتے ہیں …نئے ہجری مہینے ’’صفر المظفر‘‘ کو…
’’بِسْمِ اللّٰہِ عَلیٰ شَہْرِ صَفَرْ‘‘
ایک صحابی نے عرض کیا…یا رسول اللہ! میں جہاد میں مصروف رہتا ہوں،میرا مال نہیں بڑھتا…
ارشاد فرمایا: صبح صبح پڑھ لیا کرو…
بِسْمِ اللّٰہِ عَلیٰ نَفْسِیْ ،بِسْمِ اللّٰہِ عَلیٰ اَہْلِیْ وَمَالِی
اللہ تعالیٰ کا نام…میری جان پر…اللہ تعالیٰ کا نام میرے مال اور میری اہل اولاد پر…
اللہ تعالیٰ کا نام آیا تو مال خود بخود بڑھنے لگا…وہ جہاد میں لگے رہے اور مال کو ’’بسم اللہ‘‘ کی برکت بڑھاتی رہی…آج اسلامی سال کے دوسرے مہینے ’’صفر‘‘ کی پہلی تاریخ ہے…اس مہینہ کو کئی لوگ نعوذ باللہ نحوست والا مہینہ سمجھتے ہیں …اور بعض لوگ اس مہینہ کے آخری بدھ کو نحوست والا قرار دیتے ہیں…اسی لئے ابتداء ہی میں نحوست سے حفاظت کا عمل عرض کر دیا کہ…اللہ تعالیٰ کا نام ہر نحوست کو بھگا دیتا ہے…آپ ایک بار نہیں ہزار بار تجربہ کر کے دیکھ لیں…آپ کو ہر اس چیز میں ’’برکت‘‘ اپنی آنکھوں سے نظر آئے گی جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لے لیا جائے…ویسے یاد رکھیں کہ صفر کے مہینے میں کوئی نحوست نہیں…یہ مشرکین کا عقیدہ اور نظریہ تھا …حضور اقدس ﷺ نے واضح الفاظ میں اس کی تردید فرما دی… حدیث بخاری شریف میں موجود ہے…صفر کے معنی ’’خالی‘‘ مگر خیر سے خالی نہیں…دراصل عرب لوگ اس مہینہ میں جنگوں پر نکل جاتے اور ان کے گھر اور علاقے خالی رہ جاتے تو مہینے کا نام ’’صفر‘‘ پڑ گیا…پچھلے تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم میں وہ جنگ نہیں کرتے تھے…مگر جیسے ہی محرم ختم ہوتا وہ فوراً نکل پڑتے…دوسرا یہ کہ عرب کے بہادر قبائل جس پر بھی حملہ کرتے اسے مال و اسباب سے ’’خالی‘‘ کر چھوڑتے…اس مناسبت سے مہینے کا نام صفر پڑ گیا…اللہ تعالیٰ اس مہینہ کو مسلمانوں کے لئے …ہر آفت اور شر سے ’’خالی‘‘ صفر بنا دے…ہم تو اس مہینہ کو اس لئے بھی برکت والا سمجھتے ہیں کہ اسلام کا پہلا ’’غزوہ‘‘اس مہینہ میں ہوا…یہ بات یاد کر لیں کہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا عملی آغاز حضور اقدس ﷺ کی ہجرت مبارکہ کے سات ماہ بعد ہی ہو گیا…اسلام کا پہلا جہادی لشکر حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی کمان میں حضور اقدس ﷺ نے روانہ فرمایا…اسی مناسبت سے اسے ’’سریہ حمزہ رضی اللہ عنہ‘‘ کہا جاتا ہے…جبکہ سب سے پہلا غزوہ ہجرت کے بارہویں مہینے میں ہوا…اس غزوہ کا نام…’’غزوہ ابوائ‘‘ ہے اور اسے ’’غزوہ ودّان‘‘ بھی کہتے ہیں…ابواء اور ودان دو قریب قریب علاقوں کے نام تھے…
یہ حضور اقدس ﷺ کا پہلا غزوہ ہے جبکہ آخری غزوہ تبوک ہے…غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں مسلمانوں کے لشکر کی کمان حضرت آقا مدنی ﷺ نے خود فرمائی…حسن اتفاق دیکھیں… اور خوش بختی کا عروج کہ اسلام کے پہلے ’’سریہ‘‘ کی کمان حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ فرمارہے تھے… اوراسلام کے پہلے غزوہ میں لشکر کا جھنڈا حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا…اس زمانے کی جنگوں میں جھنڈے کی بڑی اہمیت تھی … جب تک لشکر کا جھنڈا بلند رہتا لشکر غالب رہتا … اسی لیے جھنڈا بہت ہی بہادر اور ثابت قدم شخص کے ہاتھ میں دیا جاتا تھا…اور اس کے آس پاس بھی ایسے مضبوط افراد موجود رہتے جو ’’علمبردار‘‘ کی شہادت کی صورت میں فوراً جھنڈا تھام لیتے… حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ راہ جہاد کے ابتدائی مسافر تھے اور آپ کا یہ باسعادت سفر ہجرت کے تیسرے سال غزوہ احد میں…بصورت شہادت مکمل ہوا…
جی ہاں! مزہ تو تبھی ہے جب سفر جہاد کا اختتام مقبول شہادت پر ہو…اس لئے ہر مجاہد کو…دن رات مقبول شہادت کی دعا کا اہتمام کرنا چاہیے…جو مسلمان دل کے یقین کے ساتھ شہادت مانگتا ہے…اسے شہادت کا مقام ضرور ملتا ہے خواہ وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرے…پس جب بھی کوئی مقبولیت کی گھڑی دیکھیں…فوراً دل کے شوق سے شہادت مانگ لیں…جب صدقہ دیں تو اس کے بعد شہادت مانگ لیں…جب کوئی ذکر یا وظیفہ کریں تو اس کے بعد اخلاص کے ساتھ شہادت مانگ لیں…یہ بار بار مانگنے کی چیز ہے…یہ مل جائے تو سارے مسئلے حل…اسلام کا پہلا غزوہ ’’صفر المظفر‘‘ کے مہینے میں برپا ہوا…حضرت آقا مدنی ﷺ اپنے ساٹھ جانثاروں کے ساتھ قریش کے ایک قافلہ پر حملہ فرمانے تشریف لے گئے…یہ قافلہ پہلے ہی نکل گیا تھا تو لشکر کا رخ اپنے دوسرے ہدف بنو ضمرہ کی طرف ہوا… بنوضمرہ نے جنگ نہ کی بلکہ صلح اور معاہدہ پر آمادہ ہوئے…یہ جہادی سفر پندرہ دن کا تھا…پندرہ دن بعد یہ لشکر بخیر و خوبی مدینہ منورہ لوٹ آیا…اچھا یہاں ایک بات بتائیں…آپ جب کسی ایسے اسلامی لشکر کا حال پڑھتے ہیں جس کی کمان خود حضرت آقا مدنی ﷺ فرما رہے تھے… توآپ کے دل کا کیا حال ہوتا ہے؟سچی بات ہے کہ دل پر جو کیفیت گذرتی ہے وہ زبان اور قلم سے بیان نہیں ہو سکتی… ؎
کسی کو کیا خبر دل پر ہمارے کیا گذرتی ہے
کتنے خوش نصیب تھے وہ مجاہدین جو حضور اقدس ﷺ کی قیادت میں …جہاد پر نکلتے تھے …اور خود حضرت آقا مدنی ﷺ اپنے جنگی اور جہادی لباس میں کیسے لگتے ہوں گے؟…سر مبارک پر جنگی خود، جسم اطہر پر سجے ہوئے ہتھیار …ہاتھ مبارک میں چلتی تلوار…ہائے! وہ ’’تلوار ‘‘ بھی اپنی قسمت پر ناز کرتی ہو گی…میرے محبوب آقا مدنی ﷺ کے پاس گیارہ تلواریں تھیں…اور ہر تلوار دوسری سے بڑھ کر تیز اور قیمتی…ایک عام مجاہد کا قدم جب جہاد میں مٹی پر پڑتا ہے تو یہ مٹی…جنت کی زمین بن جاتی ہے…تو اس مٹی کا کیا مقام ہو گا جس پر حضرت آقا مدنی ﷺ کے جہادی قدم مبارک پڑتے ہوں گے…وہ مٹی تو اپنی افضلیت پر آسمانوں کو چیلنج کرتی ہو گی…اور جیت جاتی ہو گی…ہجرت کے ساتویں مہینے حضرت آقا مدنی ﷺ نے جہاد کا جو پرچم مسلمانوں کے حوالے فرمایا…وہ پرچم ان شاء اللہ قیامت تک لہراتا رہے گا…امت کے خوش نصیب افراد اس پرچم کو کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیں گے… اے وہ مسلمانو! جنہیں اس زمانے میں جہاد فی سبیل اللہ کا تعلق نصیب ہے…اپنی خوش نصیبی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو…جہاد کے منکر کبھی مسلمان نہیں ہو سکتے…بے شک ساری رات عبادت میں گذاریں…اور سارا دن دینی کتابوں کی ورق گردانی کریں…کل مینار پاکستان پر کسی نے جہاد و قتال کی بات کر دی تو …مسلمانوں میں گھسے ہوئے فرنگی انڈے چٹخنے لگے…ایک طرف یہ منظر ہے کہ حضور اقدس ﷺ خود تلوار اٹھائے جہاد پر تشریف لے جا رہے ہیں…اور دوسری طرف یہ منظر کہ خود کو مسلمان کہلوانے والے افراد کو…جہاد کا نام سننا بھی گوارا نہیں…یہ مسلمان ہیں یا نگریزی فارمی انڈے؟…یہ امت محمدیہ کے افراد ہیں یا امریکی پالتو چوہے؟…
صفر کے مہینے میں ایک اور بڑا اسلامی غزوہ بھی ہوا…یہ ہے ’’غزوہ خیبر‘‘ اس میں روانگی تو محرم کے آخر میں ہوئی مگر جنگ اور فتح صفر الخیر کے مہینے میں ہوئی…غزوہ خیبر یہودیوں کے خلاف تھا اور اس غزوہ نے مسلمانوں کو بہت مستحکم کر دیا…امید ہے کہ آپ نے غزوہ خیبر کے واقعات پڑھ رکھیں ہوں گے…نہیں پڑھے تو آج ہی سیرت کی کسی کتاب یا فتح الجواد میںپڑھ لیں…موبائل کی آفتوں میں سے ایک آفت یہ بھی ہے کہ مسلمان ’’کتابوں‘‘ سے کٹتے جا رہے ہیں…
اب ہر چیز کانوں سے سنی جاتی ہے…اور کانوں کے ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کا ہجوم ہے …کتاب کو پڑھنے سے علم ملتا ہے…آنکھیں تیز ہوتی ہیں…دماغ کو قوت ملتی ہے…اور انسان کے اندر مضبوطی آتی ہے…جبکہ کمپیوٹر اور موبائل کی شعاعوں سے آنکھیں اور دماغ کمزور ہوتے ہیں اور بدن بھی پگھلنے لگتا ہے…ابھی ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ٹی وی،موبائل اور کمپیوٹر کی سکرین اگر پندرہ بیس منٹ تک مسلسل دیکھی آئے تو اس سے آدمی کی عمر میں ایک دن کی کمی ہو جاتی ہے…عمر کا مسئلہ تو خیر متعین ہے مگر یہ بات یقینی ہے کہ نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے…کتابیں خریدا کریں،کتابیں پڑھا کریں اور اپنے بچوں کو کتابیں پڑھنے کا عادی بنائیں تاکہ …علم سے تعلق مضبوط ہو… مشرکین ، صفر کے مہینے کو ’’نحوست والا‘‘ کہتے تھے…اسلام نے پُر زور تردید کی اور بتایا کہ اس مہینہ میںکوئی نحوست نہیں…مگر دنیا میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جو ’’شیطانی نظریات‘‘ کے لئے دلیل بن سکتے ہیں…یہ ایک مسلمان کے عقیدے اور توکل کا امتحان ہوتا ہے کہ …کون ثابت قدم رہتا ہے اور کون پھسل جاتا ہے…مثلاً آپ نے کوئی بہت اجر والا کام شروع کیا…اسی اثنا میںکوئی مصیبت آ گئی …اب شیطان کو دلیل مل گئی وہ فوراً آپ کے کان میں پھونکے گا کہ یہ مصیبت اس نیک عمل کی وجہ سے آئی ہے…یا یوں کہے گا کہ یہ عمل تو اچھا ہے مگر بہت بھاری ہے تمہارے بس کا نہیں…آئندہ بھی کرو گے تو ایسی ہی مصیبت آئے گی…چنانچہ بہت سے لوگ ایسے حالات میں عمل چھوڑ دیتے ہیں …حالانکہ اس مصیبت کا اس نیک عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا … بلکہ اگر یہ نیک عمل نہ ہوتا تو وہ مصیبت اپنے ساتھ مزید مصیبتوں کو بھی لے آتی…
حضور اقدس ﷺ کے زمانہ میں بعض ایسے واقعات پیش آئے جنہیں شیطان اس بات کی دلیل بنا سکتا ہے کہ…’’صفر‘‘ کا مہینہ نعوذ باللہ نحوست والا مہینہ ہے…پہلا واقعہ ’’رجیع ‘‘ کا ہے اس میں کئی مسلمان دھوکے سے شہید کئے گئے اور حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ گرفتار ہوئے اور انہیں سولی دے کر شہید کیا گیا…دوسرا واقعہ ’’بیئر معونہ‘‘ کا پیش آیا اس میں بڑے اونچے مقام والے ستر حفاظ صحابہ کرام کو دھوکے سے شہید کیا گیا…اور تیسرا یہ کہ حضوراقدس ﷺ کے وصال پر ملال کی بیماری صفر سے شروع ہوئی…حالانکہ ان تین واقعات کا نحوست کے ساتھ دور دور کا بھی تعلق نہیں…واقعہ رجیع اور بئر معونہ کے شہداء کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا…اسے پڑھ کر دل دھڑکنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ کاش ہمیں بھی اس مقام کا کچھ حصہ نصیب ہو …حضور اقدس ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ ہمارے پاس آئیں یا دنیا میں رہیں …آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو اختیار فرمایا…پھر یہ بھی کہ حضور اقدس ﷺ کا وصال ’’ربیع الاول‘‘ میں ہوا تو کیا ’’ربیع الاول‘‘ کو بھی منحوس قرار دیں گے…حالانکہ یہ مبارک مہینہ حضور اقدس ﷺ کی پیدائش کا مہینہ ہے…واقعہ رجیع اور بئر معونہ جیسے حادثات دوسرے مہینوں میں بھی پیش آئے…فتح اور شکست،بیماری اور موت یہ ہر انسان کے پیچھے لگے رہتے ہیں…اور کسی بھی وقت آ سکتے ہیں…ایک مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ہر وقت نحوست وغیرہ کی فکر اور چکر میں پڑا رہے…صفر کے مہینے میں اسلامی غزوات کا آغاز ہوا…حضور اقدس ﷺ نے اسی مہینہ سے اپنے جہاد مبارک کا آغاز فرمایا…وہ مسلمان جو حضور اقدسﷺ کے امتی ہیں…اور قیامت کے دن آپﷺکی شفاعت کے طلبگار ہیں…مگر وہ ابھی تک جہاد سے دور ہیں…ان سب سے درد مندانہ گذارش ہے کہ آپ بھی اسی ’’صفر‘‘ کے مہینے سے …اپنے جہادی سفر کا آغاز کر دیں…
کامیابی حضور اقدس ﷺ کی اتباع میں ہے …اور جہاد کے بغیر ’’کامل اتباع‘‘ نصیب نہیں ہو سکتا…فریضہ جہاد کو دل سے قبول کیجئے،جہاد کی تربیت حاصل کیجئے…جہاد میں مال لگائیے،جہاد میںجان لگائیے…اور جہاد کی ہر طرح سے خدمت کیجئے…مگر وہی مبارک جہاد…جس میں حضور اقدس ﷺ نے صفر ۲؁ھ غزوہ ابواء کی طرف سفر فرمایا… پھر حنین سے غزوہ خندق…سے گذرتے ہوئے فتح مکہ اور پھر حنین سے غزوہ تبوک تک…یہی حقیقی جہاد فی سبیل اللہ ہے اور یہی اسلام کا محکم فریضہ ہے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
جنتی پھول
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 470)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’ایمانِ کامل‘‘…’’ایمانِ دائم‘‘ اور ثابت قدمی عطا فرمائے!
اس وقت کئی اِیمان افروز مناظر میری آنکھوں کو روشن اور نم کر رہے ہیں…لیجئے آپ بھی اس کیفیت میں شریک ہو جائیے…
اے بیعت کرنے والو!
اسلامی لشکر پر کفار نے ایسا زور دار حملہ کیا کہ…باوجود کثرت کے مسلمانوں کے پاؤں اُکھڑ گئے…دشمن کے چار ہزار تیر اَنداز موسلا دھار بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے…یہ اسلامی لشکر کے راستے میں چھپے بیٹھے تھے،انہوں نے اچانک بیس ہزار تلواروں سے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا…بارہ ہزار افراد کا اِسلامی لشکر ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو گیا…میدان میں مسلمانوں کے سپہ سالار اکیلے رہ گئے، ان کے اردگرد صرف دس بارہ پروانے دیوانے مجاہدین تھے…وہ اپنے محبوب قائد اور سپہ سالار کو تیروں اور تلواروں کی بارش سے بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے…سپہ سالار پوری استقامات کے ساتھ ہزاروں کفار کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے اور اپنے لشکر اور مجاہدین کو دوبارہ جمع اور منظم ہونے کے لئے پکار رہے تھے…اچانک ایک بلند قامت پُر نور بابا جی تلوار لے کر سپہ سالار کے گھوڑے کے قریب کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی بلند آواز سے پکارا
یا معشر الانصار، یا اصحاب السمرۃ
اے گروہِ انصار! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!
سبحان اللہ ! آواز بلند تھی،جذبے سے لبریز اور خوشبو سے معمور تھی…انصار کے لفظ میں وعدۂ نصرت کی یاد دہانی تھی…اور کیکر کے درخت ’’السمرۃ‘‘ کے لفظ میں ’’بیعت‘‘ نبھانے کی تلقین تھی…دو تین بار یہ آواز گونجی تو خوف کے بادل چھٹ گئے، اِنتشار کا سیلاب تھم گیا…اور دیوانے مجاہدین بجلی کی تیزی سے واپس پلٹے…اپنے سپہ سالار کے گرد جمع ہوئے اور دشمن پر ایسا جاندار حملہ کیا کہ شکست فتح میں تبدیل ہو گئی…اور مسلمان غالب ہو گئے…
یہ غزوہ حنین کا واقعہ ہے…مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت آقا مدنی ﷺ تھے… اور ایمان کو زندہ کرنے والی آواز لگانے والے ’’بابا جی‘‘ … حضرت سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ تھے …حضرت آقا مدنی ﷺ کے ’’چچا جی‘‘…سلام ہو…حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ پر اور ان کی مسلمان آل پر…
یا نصر اللّٰہ!
یہ ایک اور منظر ہے…پہلے منظر سے کسی قدر ملتا جلتا…یہاں بھی میدان جہاد ہے اور کفار کا لشکر…مسلمانوں کے لشکر سے بہت بڑا ہے…جنگ پڑی تو مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے…یہاں بھی ایک بابا جی لمبی سی لاٹھی لے کر کھڑے ہو گئے …ان کی عمر اسّی سال کے قریب تھی… ایک آنکھ سے معذور تھے…ان کی یہ آنکھ ایک غزوے میں شہید ہو گئی تھی… وہ میدان کے کنارے پر کھڑے تھے…اور پکار پکار کر مسلمانوں کو ثابت قدمی اور جنت کی یاد دلا رہے تھے…کبھی وہ اپنا رخ آسمان کی طرف کرتے اور پکارتے…
یا نصر اللّٰہ اقترب
اے اللہ کی مدد…قریب آ جا، قریب آ جا
اور کبھی اپنی لاٹھی سے ان مسلمانوں کو مار مار کر میدان کی طرف دھکیلتے جو پسپائی کو دوڑ رہے تھے…اس دوران وہ بابا جی خود بھی تلوار تھام کر جنگ میں شامل ہوتے رہے…یہ اسلام کا اہم معرکہ جنگِ یرموک تھا…اور بابا جی کا نام… حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ…قریش کے نامور اور متفقہ سردار…
فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے…رسول کریم ﷺ کے ساتھ دو غزوات میں شرکت فرمائی …غزوہ طائف میں تیر لگا تو آنکھ ضائع ہو گئی … حضرت آقا مدنی ﷺ نے اختیار دیا… آپ چاہیں تو دعاء کر دوں،اللہ تعالیٰ آنکھ واپس عطاء فرما دے…یا آپ صبر کریں تو اس کے بدلے جنت ملے گی…فرمایا: جنت چاہیے،آنکھ نہیں…سلام ہو…امی جی اُم حبیبہ اُم المومنین رضی اللہ عنہا پر …ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ پر…ان کے بھائی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر…
قرآنی منظر
آپ نے قرآن مجید میں اس جہادی لشکر کا قصہ پڑھا ہو گا…جس کے امیر حضرت طالوت رضی اللہ عنہ تھے…اور اس لشکر کے ایک سپاہی حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام تھے…جب یہ لشکر امتحانات کی چھلنیوں سے گذر کر بہت تھوڑی تعداد میں رہ گیا تو اس کا سامنا جالوت کے اس لشکر سے ہوا جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا…تب مایوسی کی سرد لہر ان الفاظ میں دوڑا دی گئی…
لا طاقۃ لنا الیوم بجالوت وجنودہ
آج ہمارے بس میں ہی نہیں کہ ہم جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کر سکیں…مایوسی کے الفاظ…ہڈیوں کا گودا جما دیتے ہیں…مایوسی کے کلمات جذبوں کی آگ کو بجھا دیتے ہیں…مایوسی کی باتیں…انسانوں کے جسم کی قوت سلب کر دیتی ہیں…اور مایوسی کے جملے ہر طرف بزدلی کی بدبو اور ناکامی کا اندھیرا پھیلا دیتے ہیں…ایسے میں اچانک کسی اللہ والے نے ایک آواز لگائی…اس اللہ والے کے ساتھ چند اور اللہ والوں نے بھی اپنی آواز شامل کر دی…
کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ
ارے…فتح و غلبے کا مالک… اللہ تعالیٰ ہے، وہ جب چاہتا ہے مٹھی بھر افراد کو بڑے بڑے لشکروں پر غالب کر دیتا ہے…
بس اس ایک جملے نے…جذبات کو قوت دے دی…نظر کو زمین سے اُٹھا کر آسمان کی طرف پھیر دیا…اور امید کی خوشبو ہر سو مہکنے لگی…اس خوشبو میں ڈوب کر جب ایمان والوں نے حملہ کیا تو جالوت کا لشکر…جھاگ کی طرح پھٹ گیا اور بکھر گیا…
دو طبقے
قرآن مجید میں ’’جہاد‘‘ کو پڑھ لیجیے…ماضی کے جہادی واقعات پر نظر ڈال لیجیے آپ کو اسلامی لشکر میں دو طبقے ضرور نظر آئیں گے…
(۱) مُثَبِّتِینْ
(۲) مُثَبِّطِینْ
دوسرے لفظ کا مطلب پہلے سمجھ لیجئے … ’’مثبطین‘‘ وہ لوگ جو مایوسی پھیلاتے ہیں… جذبوں کو سرد کرتے ہیں…خود بھی بھاگتے ہیں اور دوسروں کو بھی بھگاتے ہیں…ان کو ’’مخذلین‘‘ بھی کہا جاتا ہے…بزدلی،مایوسی ،بددلی،بد اطمینانی پھیلانے والے…مسلمانوں کو رسوائی اور شکست کے راستے پر ڈالنے والے … جمے ہوئے قدموں اور دلوں کو اُکھاڑنے والے …دراصل ’’جہاد‘‘ بہت اونچے مقام والی عبادت ہے…یہ اسلام کا اہم فریضہ ہے…یہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا بہترین وسیلہ ہے…یہ تمام اعمال سے افضل عمل ہے…یہ مسلمانوں کو عزت اور غلبہ دلانے والا عمل ہے…یہ اسلام کو قوت اور غلبہ دلانے والا عمل ہے…یہ گناہوں کو مٹا کر جنت میں جلد لے جانے والا عمل ہے…جب کوئی مسلمان اس عمل میں لگ جاتا ہے تو شیطان…اس مسلمان کا نام اپنے دشمنوں کی سب سے اہم فہرست میں لکھ دیتا ہے…ایسے آدمی کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان اپنے خاص اور ماہر شاگردوں کو متعین کرتا ہے…اور چھ طرف سے اس مجاہد پر حملہ آور ہوتا ہے…وہ جہادی لشکروں اور جماعتوں میں … ایسے افراد چھوڑ دیتا ہے جو ہر وقت مایوسی،بد دلی اور پریشانی پھیلاتے رہتے ہیں…بے اطمینانی جب کسی دل میں آ جاتی ہے تو پھر…ایسے دل کا جہاد پر جمے رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ … جہاد تو اللہ تعالیٰ کو دل دینے،جان دینے،مال دینے … اور سب کچھ دینے کا نام ہے…ایک بے اطمینان شخص کس طرح سے قربانی دے سکتا ہے؟…آپ غزوہ احد سے شروع ہو جائیں اور آج کے ’’شرعی جہاد‘‘ تک کی تاریخ پڑھ لیں…ہر اسلامی لشکر کے ساتھ مثبطین اور مخذلین کا یہ ٹولہ ساتھ ساتھ بندھا نظر آتا ہے…غزوۂ احد میں یہ ٹولہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کے ساتھ نکلا…پھر راستے میں تین سو افراد رُوٹھ کر ٹوٹ کر بھاگ گئے…آپ خود سوچیں کہ جب کسی لشکر کا پورا ایک تہائی حصہ ٹوٹ جائے تو…اس سے کس قدر مایوسی پھیلتی ہے…آج کل کے دور میں تو ایسا ایک جھٹکا کسی بھی جماعت یا لشکر کو مکمل ختم کرنے کے لئے کافی ہے…مگر وہ لشکر بڑا عظیم تھا… انہوں نے ان تین سو کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا…ہمارا بھاگنے والوں سے کیا تعلق؟ہم نے اپنا ہاتھ حضرت آقا مدنی ﷺ کے ہاتھ مبارک میں دیا ہے…وہ جب لشکر میں موجود تو پھر ہمارے بھاگنے کا کیا جواز؟…تین سو ’’مخذلین‘‘ بھاگ گئے…مگر چند ایک اسلامی لشکر میں موجود رہے کہ آگے چل کر جب لڑائی شروع ہو گی تو اس وقت مایوسی اور بد دلی پھیلائیں گے…انہوں نے اپنا کام آگے چل کر کیا …آپ نے واقعہ اُحد میں پڑھا ہو گا…مگر الحمد للہ ان کی بھی ایک نہ چلی…یہ تو ہوئی مثبطین کے لفظ کی تشریح…اب دوسرے لفظ کا مطلب سمجھیں…
’’مثبتین‘‘…یہ وہ اللہ کے بندے ہوتے ہیں…جو اسلامی لشکر کو ہمیشہ ثابت قدمی کی طرف بلاتے رہتے ہیں…وہ خود بھی ڈٹے رہتے ہیں…اور اپنے قول اور عمل سے دوسروں کو بھی ڈٹا رہنے کی ہر وقت دعوت دیتے رہتے ہیں… دوسرے الفاظ میں ان کو ’’مُحَرِّضِینْ‘‘ بھی کہتے ہیں…اصل مثبت یعنی ثابت قدمی عطا فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے یہ مخلص بندے اللہ تعالیٰ کے مُنادی ہوتے ہیں … یہ وہ جنتی پھول ہوتے ہیں…جن کا ایمان کبھی نہیں مرجھاتا…یہ لشکروں کو جوڑتے ہیں…ان کا رخ سیدھا رکھتے ہیں…اور عین جنگ اور آزمائش کے وقت یہ ثابت قدمی کی آوازیں لگا کر…مایوسی اور شکست کو دور بھگاتے ہیں…ہم نے اپنی زندگی میں ایسے بعض افراد دیکھے ہیں…سبحان اللہ! نور ان کے چہروں سے برستا ہے،اخلاص کی خوشبو ان کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے…یہ اللہ تعالیٰ کے دیوانے بندے ہر لشکر اور ہر سچی جماعت کی جان ہوتے ہیں…افغانستان میں جب امارت اسلامیہ کا سقوط ہو رہا تھا…ہر طرف غم تھا اور خون…تب ایک مجلس میں ایک ایسا دیوانہ دیکھا…وہ کھانے کے دوران بلند آواز سے قرآنی آیات پڑھتا، ثابت قدمی کے فضائل سناتا…اور وفاداری کے گیت گاتا…اس کی مجلس میں ایک منٹ کے لئے بھی…دل میں یہ خیال نہ گذرا کہ مسلمانوں پر اتنا بڑا ظلم ہو گیا ہے…اور ہمیں بظاہر ایک بڑی شکست ہوئی ہے…وہاں تو جتنی دیر موجود رہے دل…عرش کے نیچے شکر کے سجدے کرتا رہا کہ…ایمان والوں کی فتح … ایمان کی سلامتی میں ہے…آزمائش اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں پر آتی ہے…اللہ تعالیٰ راضی تو مسلمان کی جیت…اللہ تعالیٰ ناراض تو مسلمانوں کی شکست…حالات کی خرابی سے منافق…اپنا نظریہ بدلتا ہے…مسلمان تو آزمائش کی آگ میں کود کر پکا مومن بن کر نکلتا ہے …دنیا میں نفع،نقصان اور رات دن کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے…بس اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفادار رہو…اس کے دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرو…اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو اپنی پیٹھ اور بزدلی نہ دکھاؤ…
ماضی کے قصوں میں ہم یہی پڑھتے ہیں کہ …بعض پورے پورے لشکروں کو ایک بوڑھے شخص نے…ثابت قدمی کی آواز لگا کر مایوسی سے بچا لیا…اور بعض شکست کھاتے لشکروں کو …کسی چھوٹے سے بچے نے بلند آواز سے چند قرآنی آیات سنا کر…فتح کے راستے پر ڈال دیا…
جنتی پھول بنیں!
وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وفادار ہیں…وہ مسلمان جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا یقین رکھتے ہیں…وہ ہمیشہ ثابت اور مُثَبِّتْ رہتے ہیں… خود بھی ثابت قدم اور دوسروں کو بھی ثابت قدمی کی طرف بلانے والے…مگر وہ لوگ جو دنیا کے ادنیٰ اور حقیر مفادات کو اپنا مقصود بنا لیتے ہیں…وہ جہاد میں آ کر بھی …ثابط اورمُثَبِّطْ رہتے ہیں…خود بھی بے اطمینان اور دوسروں کو بھی مایوس کرنے والے…یہ افراد قربانی دینے سے ڈرتے ہیں… اور اگر ان پر تھوڑی سی تکلیف آ جائے تو فوراً بدک جاتے ہیں…
اس وقت اسلامی لشکروں اور …مجاہدین کو ’’مُثَبِّتینْ‘‘ کی ضرورت ہے…جو خود صابر ہوں اور صبر کی دعوت بھی دیتے ہوں…جو خود بھی مشکلات میں جمے رہتے ہوں…اور دوسروں کو بھی جمائے رکھتے ہوں…یہ لوگ بڑے مقام والے ہوتے ہیں…ایسے افراد سے اللہ تعالیٰ بہت عظیم کام لیتا ہے…اور ان کے لئے مغفرت،رحمت اور توفیق کے دروازے کھول دیتا ہے…آپ چاہیں تو اپنے ایک جملے سے پوری جماعت میں مایوسی اور بد دلی پھیلا دیں…اور اگر آپ چاہیں تو اپنے ایک جملے سے جماعت میں جذبوں کی بجلی چلا دیں…
اپنی اپنی قسمت…اپنا اپنا کام …دعاء کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ…ہم ثابت اور مُثَبِّتْ بنیں…کیونکہ یہ لوگ جنت کے پھول ہوتے ہیں…کبھی نہ مرجھانے والے…کبھی نہ مٹنے والے…
اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِی اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلیٰ الْقَوْمِ الْکَافِرِینْ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مقاماتِ دعاء
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 469)
اللہ تعالیٰ جسے عزت دینا چاہیں…اُسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا…اللہ تعالیٰ جسے رزق دینا چاہیں اسے کوئی رزق سے محروم نہیں کر سکتا…بس یہی بات حقیقت ہے…باقی جو کچھ دل میں آتا ہے وہ سب جھوٹ ہے وہ سب وسوسہ ہے…فلاں مر گیا تو میرا کیا بنے گا؟…فلاں نے مجھے چھوڑ دیا تو میں کہاں جاؤں گا؟…
کسی کے مر نے سے کسی کی روزی بند نہیں ہوتی…کیونکہ رازق اور رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہے…وہی ’’رب‘‘ ہے پالنے والا…رب العالمین…کسی کے آنے جانے سے کسی کی ’’عزت‘‘ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عزت کا مالک بھی اللہ…اور ذلت کا فیصلہ فرمانے والا بھی اللہ
وتعز من تشاء وتذل من تشاء
کلمہ طیبہ پر یقین …کلمہ طیبہ کا وِرد یہ آخری سانس تک کا وظیفہ ہے…کلمہ طیبہ میں ہم جتنا غور کریں گے،اس کلمہ کو ہم جتنا سمجھیں گے،جتنا پڑھیں گے…اور اس کلمہ کی ہم جس قدر دعوت دیں گے…اسی قدر ہمارا تعلق…اپنے مالک اور خالق سے مضبوط ہو گا…اور ہم مخلوق کی محتاجی سے آزاد ہوں گے
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
کوئی خط میں لکھتا ہے کہ نماز میں سستی ہو رہی ہے…انا للہ وانا الیہ راجعون…کوئی لکھتا ہے کہ کلمہ طیبہ کے ورد میں سستی ہو رہی ہے…انا للہ وانا الیہ راجعون…کوئی کہتا ہے کہ جہاد کا شوق دل میں کمزور ہو رہا ہے…اناللہ واناالیہ راجعون… ہاں! اصل مصیبتیں یہی ہیں اور ان پر دل سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے…پرانے زمانے کا قصہ لکھا ہے کہ ایک صاحب گھر میں داخل ہوئے بے حد پریشان وہ بار بار کہہ رہے تھے…مصیبت آ گئی بڑی مصیبت…ہائے مصیبت…ان کی بیوی بڑے کامل ایمان اور علم والی تھی…اس نے خاوند کو تسلی سے بٹھایا اور عرض کیا…میرے سرتاج! آپ اس قدر پریشان ہیں اور مصیبت مصیبت پکار رہے ہیں… کیا مسلمانوں کے امیر کا انتقال ہو گیا؟امیر المومنین وفات پا گئے…خاوند نے کہا …نہیں…بیوی نے کہا: کیا مسلمانوں کے کسی علاقے پر کافروں نے قبضہ کر لیا ہے؟ … خاوند نے کہا: نہیں …بیوی نے پوچھا…کیا کچھ مسلمانوں کو کافروں نے گرفتار کر لیا ہے؟…خاوند نے کہا: نہیں…بیوی نے پوچھا: کیا کسی محاذ پر مسلمانوں کو کفار سے شکست ہوئی ہے؟خاوند نے کہا: نہیں…بیوی نے پوچھا: کیا کچھ دیندار مسلمانوں نے دین پر عمل چھوڑ دیا ہے؟خاوند نے کہا: نہیں…بیوی نے اطمینان کا سانس لیا اور کہنے لگی…اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو پھر کوئی مصیبت نہیں…غم ،بیماری،مالی پریشانی کئی بار انسان کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے…جسم میں کینسر بن رہا تھا اچانک ایکسیڈنٹ ہوا ٹانگ میں سخت چوٹ لگی اور اس چوٹ کے درد نے کینسر کو جسم سے اکھاڑ کر نکال دیا…جسم میں شوگر بن رہی تھی…اچانک کہیں شدید درد ہوا اور اس درد کی کڑواہٹ نے شوگر کو جسم میں جمنے سے پہلے نکال پھینکا…کچھ مالی پریشانی آئی تو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا…دن رات کی دعاء اور عبادت نے گناہوں کے گودام کو جلا کر دل کو پاک کر دیا…ہم جن چیزوں کو مصیبت سمجھتے ہیں…ان میں سے اکثر مصیبت نہیں، نعمت ہوتی ہیں…جبکہ اصل مصیبت تو یہ ہے کہ…ابھی سانس جاری ہے اور نماز میں سستی شروع ہو گئی…توبہ توبہ…کیا ایک مسلمان اپنی زندگی میں نماز سے بھی سست ہو سکتا ہے؟…مصیبت ہے،مصیبت…سچ پوچھئے تو کینسر اور شوگر سے بڑی مصیبت کہ مسلمان فرض میں بھی سستی کرنے لگے…کلمہ نہیں تو کیا زندگی…نماز نہیں تو کیا زندگی…جہاد نہیں تو کیا زندگی…امانت نہیں تو کیا زندگی…کوئی ہے جو اپنی نماز درست کرنے کے لئے اتنی فکر کرے جتنی اپنی بیماری کے علاج کی کرتا ہے؟…کئی اللہ والوں کے ہاں بیٹھنا ہوا،دل کو بڑا صدمہ لگا کہ لوگوں کا ہجوم ان سے بھی صرف دنیا کے مسائل حل کرنے کے لئے رجوع کر رہا ہے…کوئی نہیں دیکھا کہ رو رہا ہو کہ…حضرت! خاص دعاء کر دیں کہ مرتے وقت ایمان سلامت رہے،مجھے قبر میں عذاب نہ ہو…میری نماز آخری سانس تک پختہ رہے…ہر کوئی بس دنیا کے مسائل کے لئے پریشان ہے،رو رہا ہے…اور اللہ والوں سے اللہ کا راستہ پوچھنے اور سمجھنے کی بجائے…مال کی کثرت کے تعویذ مانگ رہا ہے…
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
اس میں کوئی شک نہیں کہ…مال بھی انسان کی اہم ضرورت ہے…رزق حلال کے لئے دعاء کرنا اور دعاء کروانا بھی نیکی ہے…رزق حلال کے لئے مسنون اور مشروع وظائف کرنا بھی اچھی بات ہے…اللہ تعالیٰ سے وہی مانگتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ’’رب العالمین‘‘ مانتا ہے…مگر ہمارے اصل مسائل کچھ اور ہیں…بہت اہم،حد سے زیادہ اہم…ہمیں ان کی فکر بھی کرنی چاہیے… ایمان پانا،ایمان کو سلامت رکھنا،فرائض کی پابندی نصیب ہونا…دین کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق ملنا…موت،قبر اور آخرت کی تیاری کرنا …اسلام کی عظمت اور امت مسلمہ کے تحفظ کی فکر کرنا…امت مسلمہ میں دین پھیلانے کی فکر کرنا …اگر ہمیں یہ نعمتیں نصیب ہو جائیں تو پھر دنیا بھر کے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں…خود سوچیں …ایک مسلمان اس مقام پر ہے کہ وہ …شہادت کے لئے ایک ایک لمحہ گن کر گزار رہا ہے…دن رات شہادت مانگتا ہے…خود کو دین کے فدائی کے طور پر پیش کرتا ہے…جبکہ دوسرا مسلمان نماز تک میں غفلت اور سستی کر رہا ہے اور خود کو گلے تک دنیا میں پھنساتا جا رہا ہے…کیا یہ مصیبت زدہ نہیں ہے؟…یہ خود کو مصیبت میں سمجھے گا تبھی اپنا علاج کرائے گا…اپنے روحانی علاج کے لئے دو رکعت نماز ادا کرے گا…اللہ تعالیٰ کے سامنے روئے گا…بار بار بے چین ہو کر دعاء مانگے گا… دل کے درد کے ساتھ اللہ،اللہ پکارے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت…اس کی مصیبت کو دور کر دے گی… یہاں ایک اور بات بھی سمجھ لیں …نماز میں اللہ تعالیٰ کی مدد ہے…اور نماز ہمارے مسائل کا حل ہے…نماز میں جو دعائیں مانگی جائیں وہ جلد قبول ہوتی ہیں…مگر آج اکثر مسلمانوں کی نماز میں کوئی دعاء ہوتی ہی نہیں…بس آٹو میٹک نماز…’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر خیالوں میں گم ہوئے اور ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ پر دنیا بھر کی سیر کر کے واپس آ گئے… اب ایسی نماز میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے کیا مانگا اور کیا لیا؟…ابھی بالکل تازہ واقعہ ہے کسی نے بتایا کہ اسے سخت مالی پریشانی آ گئی…قریب تھا کہ وہ قرضہ کی مصیبت میں جکڑا جاتا…اس نے فوراً نماز کی طرف توجہ کی…دو رکعت نماز اور اس میں جو دعاء کے مقامات ہیں…ان میں یہ دعا:
اَللّٰہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ
رکوع میں تسبیح پڑھنے کے بعد دس بار یہی دعائ…پھر رکوع سے کھڑے ہو کر سمع اللّٰہ لمن حمدہ،ربنا لک الحمد کے بعددس بار یہی دعائ…پھر سجدے میں دس بار،سجدے سے اٹھ کر دس بار اور دوسرے سجدے میں دس بار … اور التحیات کے آخر میں دس بار…یوں یہ مسنون دعا ء ایک سو دس بار ہو گئی…نماز میں توجہ بھی رہی اور یہ خیال بھی کہ میں اپنا مسئلہ اپنے رب کو پیش کر رہا ہوں…الحمد للہ دو چار دن میں مسئلہ حل ہو گیا…
ایک صاحب نے بتایا کہ وہ ایک مصیبت میں پھنس گئے…انہوں نے نماز میں دعاء کے مقامات پر استغفار شروع کر دیا…دو رکعت نماز میں دو سو بار تین سو بار استغفار
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَاَتُوبُ اِلَیہِ
اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا اور مصیبت سے نجات عطا فرما دی…
نماز میں دعاء کے مقامات سات ہیں…مگر یہ نفل اور سنتوں میں زیادہ بہتر ہے… (۱)پہلی رکعت میں تکبیر اولیٰ کے بعد قراء ت شروع کرنے سے پہلے(۲) رکوع میں(۳) رکوع سے کھڑے ہو کر یعنی قومہ میں(۴) سجدہ میں(۵) سجدہ سے اٹھ کرجلسہ میں(۶) دوسرے سجدہ میں (۷) آخری قعدہ میں درود شریف کے بعد…
اب جس کو جو حاجت ہو وہ اس کی دعاء ان مقامات پر توجہ اور کثرت سے کر لیا کرے…مثلاً کوئی اپنے اندر حرص اور لالچ محسوس کر رہا ہے… بڑا خطرناک اور ذلیل کرنے والا مرض ہے…وہ دو رکعت نماز میں ان سات مقامات پر حرص اور لالچ سے حفاظت کی دعاء مانگے:
اَللّٰھُمَّ قِنِی شُحَّ نَفْسِی
یا اللہ! مجھے میرے نفس کی حرص اور لالچ سے بچا لیجئے
اور پھر اس وقت تک یہ عمل کرتا رہے جب تک دل پاک نہ ہو جائے…کوئی اپنے اندر سستی اور بے کاری محسوس کر رہا ہے تو وہ یہ دعاء پڑھے
اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ
کوئی اپنے اندر نفاق محسوس کر رہا ہے تو نفاق سے حفاظت کی دعاء پکڑ لے… کوئی بیمار ہے تو شفاء کی دعاء اپنا لے…کسی کو عذاب قبر کا خوف ہے تو وہ عذاب قبر سے حفاظت کی دعاء تھام لے …یوں ہماری نماز بھی جاندار ہوتی جائے گی،دعاء بھی قبول ہو گی…اور ان شاء اللہ مسائل بھی حل ہوں گے…مجاہدین کو خاص طور پر فتنوں سے حفاظت کی دعاء اپنانا چاہیے
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ
مجاہدین اس امت کے خاص اور برگزیدہ لوگ ہیں…سچے امانت دار اور مخلص مجاہدین ہی اس امت کے اولیاء صدیقین ہیں…مجاہدین ہوں گے اور ان کا جہاد جاری رہے گا تو دین کی حفاظت اور عظمت رہے گی…اس لئے شیطانی قوتیں اور ان کے انسانی آلہ کار مجاہدین کو فتنوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں…نماز اور نماز میں مانگی گئی دعاؤں سے مجاہدین کو مضبوطی حاصل کرنی چاہیے…واستعینوابالصبروالصلوۃ
فالج سے حفاظت کا نسخہ
گذشتہ کالم میں فالج سے حفاظت کا نسخہ عرض کیا گیا تھا…فجر اور مغرب کو تین بار
سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
یہ عمل ایک…مرفوع حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے…یہ حدیث کئی کتابوں میں موجود ہے …مثلاً المعجم الکبیر للطبرانی،مسند احمد،اسد الغابہ لابن الاثیر،عمل الیوم والیلۃ لابن السنی…
یہ ایک بزرگ صحابی ہیں…حضرت قبیصہ بن المخارق الہلالی رضی اللہ عنہ
یہ رسول اللہ ﷺ کے ننہیال میں سے تھے … بعد میں ان کے ایک صاحبزادے مسلمانوں کے بڑے کمانڈر اور سجستان کے گورنر بھی بنے…
انہوں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بہت بڑھاپے اور کمزوری کی حالت میں حاضری دی…آپ ﷺ نے ان کا اکرام فرمایا اور ان کے علم اور دین سیکھنے کے جذبہ کی تعریف فرمائی… انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا:
یارسول اللّٰہ! علمنی شیئا ینفعنی اللّٰہ بہ فی الدنیا والآخرۃ
یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجیے جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ مجھے دنیا اور آخرت میں نفع عطا فرمائے
ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ…مختصر عمل ہو کیونکہ میں بہت بوڑھا ہوں،زیادہ بھول جاتا ہوں…
آپ ﷺ نے انہیں دو دعائیں تلقین فرمائیں …پہلی یہی کہ صبح کی نماز کے بعد تین بار پڑھا کریں:
سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
اس کی برکت سے چار بیماریوں سے حفاظت رہے گی…(۱) کوڑھ (۲) پاگل پن (۳) اندھا پن (۴) فالج
دراصل بڑھاپے میں انہیں چار امراض کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے…
اہل علم نے حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے…مگر ان کلمات کی برکت اور فضیلت کا سب کو اعتراف ہے کیونکہ کئی اور روایات بھی ان مبارک کلمات کے فضائل پر موجود ہیں…
ایک روایت میں تو یہاں تک آیا ہے کہ… جو شخص نماز کے بعد تین بار یہ کلمات پڑھ لے وہ ایسی حالت میں وہاں سے اٹھتا ہے کہ…اس کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے
سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اپنا عمل جاری
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 468)
اللہ تعالیٰ ’’صبر‘‘کرنے والوں کے ساتھ ہے
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ
اللہ تعالیٰ ’’صبر‘‘ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں
وَاللّٰہٗ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ
ایک نظر دنیا پر
Oخبروں پر نظر ڈالی تو ہر طرف ماتم ہی ماتم نظر آیا…زندگی مفلوج،موبائل بند،سیکورٹی الرٹ اور ماتم رواں دواں…حضرت آقا مدنی ﷺ اور آپ کے آل و اصحاب دنیا سے ماتم ختم کرنے کی کوشش فرماتے رہے…مشرکین ’’ماتم‘‘ کے عادی تھے اسلام نے پابندی لگا دی…اسلام نے شہادت کو اعزاز اور تمغہ قرار دیا…شہداء کا مقام ایسا اونچا فرمایا کہ ہر مخلص مسلمان شہادت کا طلبگار ہوا…مگر پھر کچھ لوگ ماتم لے آئے…اس ماتم کا اسلام سے کچھ تعلق نہیں…
Oواقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے…حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو سلام،تمام شہداء کربلا کو سلام،قافلہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم پاکیزہ خواتین کو سلام…بہت بڑی قربانی ہے،بہت ہی بڑی…اور یہ قربانی خالص دین اسلام کے لئے ہے…اس قربانی کا تصور کرتے ہی دل روتا ہے اور ان عظیم ہستیوں کو کانپتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرتا ہے…اس واقعہ میں ہم بس اتنا ہی جانتے ہیں اور بس اتنا جاننے میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں کہ…حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ’’ حق‘‘ پر تھے…آپ کا موقف سچا اور برحق تھا…اور آپ نے جو کچھ کیا وہ سب ٹھیک اور درست تھا…ہم حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو…مشکوک تاریخی تحقیقات کے کٹہرے میں کھڑا کرنا جرم گستاخی اور بے ادبی سمجھتے ہیں…بلکہ اس موضوع پر ہر روز نئی تحقیق، نئے مطالعہ اور نئے انکشافات کو بھی ایک مرض اور فتنہ سمجھتے ہیں…جو لوگ اس مرض اور اس فتنے کا شکار ہیں وہ آل رسول ﷺ کے مقام کو نہ سمجھ سکے…انہیں چاہیے کہ توبہ کریں، اپنے دل پاک کریں، ایسی عظیم پاکیزہ ہستیوں کے لئے اپنے دل میں بغض اور اعتراضات لے کر مریں گے تو …قیامت کے دن کیا منہ لے کر حاضر ہوں گے…تاریخ بہت جھوٹ بکتی ہے…واقعات کو ہر انسان اپنے تناظر سے نقل کرتا ہے…ہماری آنکھوں کے سامنے بے شمار ایسے واقعات ہیں جنہیں ہر انسان اپنی سوچ کے مطابق بیان کرتا ہے…ہم پر لازم ہے کہ ہمیں ان سے پیار ہونا چاہیے جن سے ہمارے محبوب آقا محمد مدنی ﷺ کو پیار ہے…اور ہم ہر ایسی بات سے دور رہیں جو اس پیار اور محبت کو پھیکا یا کمزور کرنے والی ہو…واقعہ کربلا پر لکھنے والے بھی احتیاط سے لکھا کریں ہمیں تو ابھی تک اس واقعہ پر کچھ لکھنے کی ہمت ہی نہیں ہو سکی…
Oدنیا میں اس وقت ’’ایبولا‘‘ نامی ایک مہلک بیماری ’’وبا‘‘ کی شکل اختیار کر رہی ہے… افریقہ میں ہزاروں افراد اس بیماری کا لقمہ بن چکے ہیں…اور اب یہ مرض امریکہ تک جا پہنچا ہے…یہ ہے آج کی ترقی اور میڈیکل سائنس کا عروج کہ …ہر روز نئی بیماری اور نئی مصیبت…یہ دنیا ترقی نہیں خود کشی کی طرف بڑھ رہی ہے…انسانوں کی بے صبری نے زمین کو دھوئیں،کثافت اور ایٹمی شعاعوں سے بھر دیا ہے…حضرت آقا مدنی ﷺ نے ہمیں دعاء سکھا دی ہے کہ …ہم اسے مانگا کریں اور برے امراض سے محفوظ رہیں…
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَسَیِّیِٔ الْاَسْقَامِ
یا اللہ! مجھے اپنی پناہ دے دیجیے کوڑھ، برص، پاگل پن اور ہر بری بیماری سے
آج کل فالج کا مرض بہت عام ہے… خبروں میں آیا ہے کہ پاکستان میں روزآنہ چار سو افراد فالج سے وفات پا رہے ہیں…حدیث شریف میں فالج سے حفاظت کا وظیفہ ارشاد فرمایا ہے…
صبح اور شام …یعنی فجر اور مغرب کے بعد تین بار پڑھیں
سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
یقین کے ساتھ جو دعاء پڑھی جائے وہ ضرور اثر کرتی ہے…اس دعاء میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں…
سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
کتاب اس وقت ساتھ نہیں وگرنہ مکمل روایت حوالہ کے ساتھ لکھ دی جاتی…ان شاء اللہ اگلے کالم میں آ جائے گی…مگر معمول میں ابھی سے شامل کر لیں تو اچھا ہے…
Oامریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہو رہے ہیں…اور وہاں بس ایک ہی بات کا شور ہے کہ صدر اوبامہ کی ’’ریٹنگ‘‘ گر رہی ہے…مطلب یہ کہ صدر اوبامہ کی مقبولیت ختم ہو رہی ہے اور وہ امریکہ کا ایسا بے عزت اور ذلیل شہری بن چکا ہے کہ…ہر کوئی اس سے اپنا دامن بچا رہا ہے…گذشتہ دنوں اسے گولف کھیلنے کا شوق ہوا تو اس کے عملے کے افراد جگہ ڈھونڈتے رہ گئے مگر کسی گولف کلب نے اسے اپنے ہاں آنے کی اجازت نہ دی…
اسے کہتے ہیں:
خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ
نہ دنیا ملی نہ آخرت…اس نے ایک مسلمان کے گھر آنکھ کھولی…پھر کفر کی گود میں گرا، جان توڑ محنت کی اور امریکہ کا صدر بنا…مسلمانوں پر مظالم کئے،نامور ہستیوں کو شہید کیا کہ ہیرو بن جائے مگر آج جب زندگی بھی اختتام پر ہے وہ محض ایک ’’زیرو‘‘ ہے…
بس بھائیو! یہی حال ہے دنیا کی عزت کا…جو بھی دنیا کی عزت کے چکر میں پڑتا ہے اور لوگوں میں محبوب و مقبول ہونے کو ہی اپنا ہدف بناتا ہے وہ بالآخر اسی دنیا میں ذلت پاتا ہے…اوبامہ تو ایک کافر ہے…بہت سے مسلمان رات دن مقبولیت و محبوبیت کے چکر میں پڑے رہتے ہیں…اس کے لئے طرح طرح کے وظیفے کرتے ہیں…طرح طرح کے پتھر اپنی انگوٹھیوں میں ڈالتے ہیں…ہرن کی کھال پر نقش بنواتے ہیں…اور معلوم نہیں کیا کچھ کرتے ہیں…اللہ تعالیٰ ایسی فکر سے ہماری حفاظت فرمائے…اصل عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہو…اصل عزت دین کی عزت ہے…کبھی نہ ختم ہونے والی عزت،کبھی نہ پرانی ہونے والی عزت…یہ عزت اہل اخلاص کو ملتی ہے…جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو راضی اور خوش کرنے کے لئے اعمال کرتے ہیں…جو دین کی خاطر قربانی دیتے ہیں…جو خود کو مٹاتے ہیں…جو مخلوق کی خدمت کرتے ہیں…اور جو آخرت کے طلبگار ہوتے ہیں…
Oقاتل مودی کا رخ اس وقت کشمیر کی طرف ہے…وہ کشمیر میں انتخابات جیتنا چاہتا ہے اور پھر کشمیر اسمبلی کے ذریعہ…کشمیر کو انڈیا کی مکمل غلامی میں لانا چاہتا ہے…اس کے لئے اس نے بھر پور انتظامات کر لئے ہیں…مگر ’’مودی‘‘ جو کچھ سوچ رہا ہے وہ ان شاء اللہ ہر گز نہیں ہو گا…کشمیر میں انتخابات وہ جیت سکتا ہے کیونکہ اکثر کشمیری مسلمان ووٹ ہی نہیں ڈالتے…مگر وہ نہ تو کشمیریوں کے دل جیت سکتا ہے اور نہ ہی آزادی کی سوچ کشمیریوں کے ذہنوں سے کھرچ سکتا ہے…ہاں! اس کے مظالم البتہ تحریک کو پھر گرم کر دیں گے…اور ان شاء اللہ جہاد کشمیر کا ایک نیا دور دہلی کے ایوانوں کو لرزا دے گا…
مودی یاد رکھنا! یہ دھمکی یا لفاظی نہیں…زمینی حقیقت ہے جسے ان شاء اللہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھے گی…
نیکی جاری رکھیں
آج ’’صبر‘‘ کے موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا…صبر ایمان کا آدھا حصہ اور کامیابی کی چابی ہے…صبر وہ سب سے بھلی اور وسیع نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطاء فرماتے ہیں…اور صبر کا اجروثواب بے حساب ہے…قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نوّے(90) مقامات پر صبر کا تذکرہ فرمایا ہے،صبر کا حکم دیا ہے …اور صبر کے فضائل،فوائد اور مناقب بیان فرمائے ہیں…صبر کے تین اجزاء ہیں:
(۱) نیکیوں پر ڈٹے رہنا
(۲) مصیبتوں سے نہ لڑکھڑانا
(۳) گناہوں سے خود کو روکنا
اس میں سب سے پہلا اور اہم درجہ یہ ہے کہ …انسان ایمان پر اور نیک اعمال پر مضبوط ہو…حالات جیسے بھی ہوں…نتائج جیسے بھی سامنے آئیں…مسلمان اپنی نیکی اور اپنے عمل کو جاری رکھے…آج ہمارے اندر اس بارے میں بے حد کمزور آ چکی ہے…وہ اعمال جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے شروع کئے جاتے ہیں…اچانک کسی پریشانی،مایوسی یا حالات کی خرابی کی وجہ سے چھوڑ دئیے جاتے ہیں…جو اس بات کا ثبوت بن جاتا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں تھا…اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا تو پھر کیوں چھوڑا جاتا؟
ذرا سی تکلیف آئی تو عمل بند…لوگوں نے ذرا سی ناقدری کی تو عمل بند…ذرا سا وسوسہ کسی شیطان نے دل میں اتارا تو عمل بند…دنیاوی نتائج میں تھوڑی سی تاخیر ہوئی تو عمل بند دعاء بند…یہ وفاداروں کا طریقہ نہیں…کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ہر طرح کے حالات میں لگے رہتے ہیں،ڈٹے رہتے ہیں…اور نتائج سے بے فکر ہو کر اپنی نیکی اور اپنے عمل کو جا ری رکھتے ہیں…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اسلام کی عزت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 467)
اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور سلام نازل ہوں،حضرت سیدنا امیر المؤمنین عمر بن خطاب پر …رضی اللہ تعالیٰ عنہ…سلام اللّٰہ علیہ ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ…جزاہ اللّٰہ خیر الجزاء عنا وعن امۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم…
لیجئے نیا اسلامی ہجری سال شروع ہو چکا ہے …اس کا نام ہے 1436؁ھ…
ہجری سال اور ہجری تقویم یعنی کیلنڈر کا آغاز…حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا…اس سال 1436؁ھ میں جب ’’چھ‘‘ کا ہندسہ نظر آیا تو نبوت کا چھٹا سال یاد آ گیا…دل نے خوش فالی لی کہ جس طرح 6؁ نبوی میں مسلمانوں کو ایک عظیم خوشی ،طاقت اور فتح ملی تھی…تو ان شاء اللہ 1436؁ھ بھی مسلمانوں کے لئے خوشی اور فتوحات کا سال ہو گا…یہ کوئی پیشین گوئی نہیں بلکہ ایک آرزو ہے، ایک دعاء ہے…
’’یا اللہ! اس نئے سال کو امت مسلمہ کے لئے خوشی اور فتوحات کا سال بنا دیجئے‘‘
نبوت کے چھٹے سال صرف تین دن میں مسلمانوں کو دو بڑی خوشیاں اور کامیابیاں ملیں… پہلی یہ کہ عرب کے مثالی بہادر شہسوار،حضرت آقا مدنی ﷺ کے حسین و جمیل اور با کمال چچا محترم…حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول فرمایا…
اس وقت مسلمان مردوں کی تعداد چالیس تک بھی نہیں پہنچی تھی…بس مظلومیت تھی اور صبح شام کا دردناک تشدد…حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوئے تو یہ جماعت یکایک ایک طاقت بن گئی…آغاز اس قوت کا اس وار سے ہوا جو حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کے سر پر کیا اور اس ملعون کو لہولہان کر دیا…مسلمان مکہ میں بھی اپنی طاقت اور بساط کے مطابق لڑتے تھے…کئی واقعات سیرت کی کتب میں موجود ہیں…مگر عمومی حکم ہاتھ روکنے اور نماز قائم کرنے کا تھا…باقاعدہ جہاد کی اجازت نہ تھی…ہاں! دفاع کا حق اسلام نے کسی مسلمان سے ایک دن کے لئے بھی نہیں چھینا…حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے پر حضرت آقا مدنی ﷺ اور آپ کے حضرات صحابہ کرام کو جو خوشی ہوئی ہو گی…اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا…اللہ کی شان دیکھیں! اس خوشی کو تین دن ہوئے تھے کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ…حضرت آقا مدنی ﷺ کے زیر اقامت گھر کے دروازے پر پہنچ گئے…اندر موجود صحابہ کرام نے یہ سمجھا کہ حملہ کرنے آئے ہوں گے تب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی تلوار چمکنے لگی کہ آنے دو…نیت اچھی ہے تو مرحبا! اور اگر کوئی اور ارادہ ہے تو پھر آج زندہ واپس نہ جائیں گے…حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت ستائیس سال کے ایک دراز قد،معاملہ فہم ،عزتمند اور بے حد بہادر نوجوان تھے…اتنی سی عمر میں سرداران قریش میں ان کا شمار ہو تا تھا… رعب ، وجاہت،فصاحت اور ذہانت ایسی تھی کہ…اس وقت وہ اہل مکہ کے باقاعدہ سفیر تھے…باہر سے آنے والے حکام اور سفراء سے مذاکرات آپ کی ذمہ داری تھی…طبیعت شروع سے مضبوط تھی… اپنے آباء و اجداد کے دین پر پکے تھے اور اسلام سے سخت دشمنی تھی…روایات میں آیا ہے کہ حضرت آقا مدنی ﷺ نے…ایک جمعہ کی رات آپ کو اللہ تعالیٰ سے مانگ لیا…سبحان اللہ! کیسی عظیم سعادت ہے…اسلام کی عزت کے لئے سیدنا عمر بن خطاب کو مانگا گیا…
دعاء قبول ہوئی…کچھ حالات و واقعات ایسے بنے کہ دل پر اسلام کا نور چمکا…وہ دل جو ازل سے بناہی اسلام کے لئے تھا فوراً کلمہ طیبہ کے لئے مچل اٹھا…بارگاہ نبوت میں حاضری ہوئی…اسلام قبول کرنے کا اعلان فرمایا تو مظلوم مسلمانوں نے بے اختیار ایسا بلند آہنگ نعرہ لگایا کہ پورا مکہ گونج اٹھا…
اللہ اکبر کبیرا…اللہ اکبر کبیرا…اللہ اکبر کبیرا…
اسلام قبول ہوتے ہی عرض کرنے لگے کہ…جب ہم حق پر ہیں تو پھر کعبہ شریف میں کھلم کھلا سب کے سامنے نماز ادا کریں گے…چالیس مسلمانوں کا قافلہ گھر سے دو صفوں کی صورت میں نکلا…ایک صف کی کمان حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری صف کی قیادت حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرما رہے تھے…
سبحان اللہ! حضرت آقا مدنی ﷺ کے جانثاروں کا پہلا باضابطہ قافلہ سوئے حرم جا رہا تھا…حضرت آقا مدنی ﷺ کی امارت اور امامت میں جب یہ قافلہ حرم شریف کو بڑھ رہا ہو گا تو …یقیناً آسمان بھی جھک جھک کر زمین کو شوق سے دیکھتا اور اس کی قسمت پر رشک کرتا ہو گا…حرم شریف میں روئے زمین کے قدسیوں کا یہ قافلہ داخل ہوا تو مشرکین مکہ ہکّے بکّے رہ گئے…وہ پریشان ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ … یہ سب کیسے ممکن ہوا؟…معلوم ہوا کہ عمر بن خطاب مسلمان ہو چکے ہیں…تب مشرکین مکہ دل پکڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے آج اسلام اور مسلمانوں نے ہم سے عبرتناک بدلہ لے لیا ہے…اس دن سے لے کر یکم محرم 24؁ھ کا وہ دن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روضہ رسول ﷺ کے قرب میں تدفین ہو رہی تھی…اسلام بڑھتا گیا،اسلام بلندیوں کی طرف چڑھتا گیا…اسلام طاقتور ہوتا چلا گیا…اور اسلام دنیا میں پھیلتا چلا گیا…حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسلام کی اس عزت اور ترقی میں اپنا عظیم حصہ ہر دن اور ہر رات پاتے چلے گئے…وہ کون سی سعادت ہے جو آپ نے حاصل نہ کی…وہ کون سا مقام ہے جسے آپ نے پیچھے نہ چھوڑا…اور وہ کون سی خیر ہے جس میں آپ کا حصہ شامل نہ ہوا…اے مسلمانو! سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے احسان کو سمجھو،دیکھو اور تسلیم کرو…اللہ تعالیٰ نے ’’حق‘‘ اور ’’عمر‘‘ کو لازم ملزوم بنا دیا…اور حق کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان اور آپ کے دل پر ڈال دیا…اب جہاں ’’عمر ‘‘ ہوتے ہیں حق بھی وہیں ہوتا ہے…اور جہاں حق ہوتا ہے ’’عمر‘‘ بھی وہیں ہوتے ہیں…جو اسلام قبول کرنے کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جڑ گیا اس نے حق کے راستے کو پا لیا…اور جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کٹ گیا وہ حق سے بہت دور جا گرا…اللہ تعالیٰ حضرت علامہ سیوطیؒ کو جزائے خیر عطاء فرمائے…آپ نے حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مناقب پر چالیس احادیث کا ایک مجموعہ مرتب فرمایا ہے…ہر مسلمان کو یہ مجموعہ پڑھنا چاہیے تاکہ ہم حق کے ساتھ دل کی محبت سے جڑے رہیں…علامہ سیوطیؒ نے کمال یہ فرمایا ہے کہ اس مجموعے کی پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لائے ہیں…
عن علی کرم اللّٰہ وجہہ ان رسول اللّٰہ ﷺ قال: ابو بکر و عمر سیدا کہول اہل الجنۃ من الاولین والآخرین ما خلا النبیین والمرسلین
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ابو بکر و عمر جنت کے تمام پکی عمر والوں کے سردار ہیں…انبیاء اور رسولوں کے علاوہ تمام اولین و آخرین کے…
اس مجموعہ میں ایک روایت یہ بھی ہے:
عمر منی وانا من عمر والحق بعدی مع عمر حیث کان
ارشاد فرمایا: عمر مجھ سے ہیں اور میں عمر سے ہوں اور میرے بعد حق ہرحال میں عمر کے ساتھ ہے…
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں…آپ روحانی دنیا کے بادشاہ اور تاجدار ہیں…شیطان ہمیشہ آپ کے نام تک سے ڈرتا ہے…روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد شیطان جب بھی آپ کے سامنے آیا تو فوراً منہ کے بل زمین پر جا گرا…حضور اقدس ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عرفات کے دن فرشتوں کے سامنے تمام اہل عرفہ پر فخر فرمایا… اور پھر خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر فخر فرمایا…اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے پر فخر فرماتے ہیں تو مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ…ہم ان سے محبت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں…اور اگر کسی مسلمان کے دل میں…حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ دوری ہو تو وہ استغفار کرے…توبہ کرے…اپنے دل کو شیطانی اثرات سے پاک کرے…حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا…جو عمر سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے…
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ…حضور اقدس ﷺ کے جلیل القدر صحابی،حضور اقدس ﷺ کے زمین پر وزیر…حضور اقدس ﷺ کے محترم سسر اور…حضور اقدس ﷺ کے اہل بیت میں سے ہیں…آپ سابقین اولین مہاجرین میں سے ہیں…آپ اصحاب بدر میں سے ہیں…آپ ان میں سے ہیں جو احد کے دن پسپائی کے وقت آپ ﷺ کے ساتھ ڈٹے رہے…آپ اصحاب بیعت رضوان میں سے ہیں…آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں…آپ الہام و کشف کی دنیا کے امام…اور فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی رضامندی والے کاموںکی سمجھ رکھنے والے ہیں…آپ امیر المومنین اور اسلام کے نامور فاتح ہیں…مصر کی عورتیں آپ کے ایک مختصر خط کی برکت کو …آج بھی یاد کرتی ہیں…ورنہ دریا چلانے کے لئے ان کو زندہ دریا برد کیا جاتا تھا…ہر عفت مآب خاتون جب پردے کے انوارات پاتی ہے تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دعائیں دیتی ہے…
آپ نے زمین پر ایسی خلافت قائم کی کہ…چودہ سو برس سے زائد کا عرصہ گذر گیا کوئی بھی ایسی حکومت قائم نہ کر سکا…آپ کی روحانی قوت کا حال یہ تھا کہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر اپنے لشکروں کو خود چلاتے اور ان کے لئے راستے ہموار کراتے اور انہیں خطرات سے آگاہ کرتے تھے…آپ نے جس شخص کو بھی کوئی عہدہ دیا اس سے صحابہ کرام کی موجودگی میں یہ عہد لیا کہ…وہ عیاشیوں اور دنیا داریوں میں نہیں پڑے گا…سواری اور کھانے پینے تک میں سادگی اختیار کرے گا…اور اس کا دروازہ ہر وقت رعایا کے لئے کھلا رہے گا…آپ روئے زمین کے بادشاہ تھے مگر جب خطبہ دینے کھڑے ہوتے تو کُرتے پر کئی کئی پیوند نظر آتے…ان تمام فضائل و اعمال کے باوجود…اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کا یہ عالم تھا کہ زیادہ رونے کی وجہ سے چہرے پر آنکھوں کے نیچے باقاعدہ آنسوؤں کے نشانات پڑ چکے تھے…اسلام قبول کرنے کے بعد سے آپ کی ایک بڑی خواہش یہ تھی کہ…آپ کو شہادت کی موت نصیب ہو…شہادت کی فضیلت کی یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صاحب علم اس کی شدید خواہش اور تمنا رکھتے تھے…غزوہ احد کے دن آپ نے اپنی زرہ اپنے بھائی کو دینا چاہی تو انہوں نے فرمایا…بھائی! آپ اپنے لئے جو چاہ رہے ہیں مجھے بھی اسی کی خواہش ہے…یعنی شہادت پھر دونوں بھائی بغیر زرہ میدان میں اتر گئے…آخری حج اپنی محترم ماؤں یعنی امہات المومنین کو بھی کرایا…واپسی پر گڑگڑا کر شہادت مانگی مگر ساتھ یہ بھی کہ…مدینہ منورہ میں یہ نعمت ملے…مدینہ منورہ امن کا گہوارہ…اور ہر طرف سے محفوط تھا بظاہر وہاں شہادت ملنے کی کوئی صورت نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نے انتظام فرما دیا…اللہ تعالیٰ حضرت عمر رضی اللہ کی برکات ہم سب کو اور امت مسلمہ کو وافر عطاء فرمائے…
آمین یا ارحم الراحمین…لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
انسان کی کامیابی کا راز
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 466)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک مختصر سورت نازل فرمائی ہے…ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرات صحابہ کرام میں سے جب بھی دو افراد آپس میں ملتے تو وہ پہلے ایک دوسرے کو یہ سورت سناتے…پھر سلام دعاء ہوتی…حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں…اگر لوگ قرآن مجید کی صرف اسی ایک سورت میں غور کریں تو یہ اُن کی ہدایت اور اصلاح کے لئے کافی ہو جائے…یہ کونسی سورت ہے؟آپ سب جانتے ہوں گے یہ ’’سورہ والعصر‘‘ ہے…
والعصران الانسان لفی خسر
العصر،وقت،زمانہ،عمر
’’والعصر‘‘ کے شروع میں جو ’’واو‘‘ ہے اس کا ترجمہ ہے:
’’ میں قسم کھاتا ہوں‘‘
اور ’’العصر‘‘ کہتے ہیں زمانے کو…وہ وقت اور زمانہ جس میں انسان کوئی خیر کا کام کرتا ہے یا گناہ کا کام کرتا ہے…اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں … میں زمانے کی قسم کھاتا ہوں کہ انسان یقیناً خسارے میں ہے…خسارہ یعنی نقصان…وقت گیا، انسان گیا، وقت ختم انسان ختم …نہ بادشاہ،بادشاہ رہا نہ افسر،افسر…نہ کوٹھی کا مالک اپنی کوٹھی کا مالک رہا…اور نہ جائیداد کا مالک اپنی جائیداد کا … ایک منٹ پہلے جو سب کچھ تھا وقت ختم ہوتے ہی کچھ نہ رہا…وہ جو بڑا باخبر تھا اب خود ’’خبر‘‘ بن گیا…وہ جو ہر طرف اڑتا پھرتا تھا اب ایک ’’قبر‘‘ بن گیا…جو کچھ بنایا تھا وہ سارا ’’اِدھر‘‘ رہ گیا…
آہ! جن چیزوں پر اپنی عمر لگائی،اپنا زمانہ لگایا…وہ سب کچھ ایک منٹ میں ہاتھ سے نکل گیا…ارشاد فرمایا:
میں قسم کھاتا ہوں زمانے کی کہ بے شک انسان خسارے میں ہے…
ٹائم بم
ایک بم ہوتا ہے جسے ٹائم بم کہتے ہیں…اس میں گھڑی یا کوئی آلہ لگا کر ایک وقت مقرر کر دیتے ہیں…چند منٹ یا چند گھنٹے یا چند دن… وہ مقرر کیا ہوا وقت جب آ جاتا ہے تو دو تاریں آپس میں ٹکراتی ہیں اور بم پھٹ کر ختم ہو جاتا ہے…اللہ تعالیٰ نے انسان میں بھی ایک گھڑی ایک آلہ لگا دیا ہے…کسی میں چند منٹ کا…کسی میں چند گھنٹوں کا …کسی میں چند مہینوں اور چند سالوں کا… جب مقررہ وقت آ جاتا ہے تو…روح کو جسم کی ڈبیا میں روکنے والی پن ہٹا دی جاتی ہے…اور پھر قصہ ختم…اب ایک منٹ کے لئے بھی مہلت نہیں ملتی کہ انسان کچھ کر سکے…دھماکہ ہوا اور بم پھٹ گیا…معلوم ہوا کہ انسان نام ہے کچھ وقت کا…اس وقت میں سے جتنا وقت کم ہوتا جاتا ہے…انسان بھی اسی قدر کم ہوتا جاتا ہے…کوئی ساٹھ سال کی عمر لایا تھا اب چالیس گذر گئے تو یہ اب بیس سال کا رہ گیا…کوئی دس ہزار دن لایا تھا آج اس کے نو ہزار نو سو نناوے دن گذر گئے ہیں تو اب یہ ایک دن کا انسان رہ گیا ہے…کھا رہا ہے،پی رہا ہے،ہنس رہا ہے،بڑے بڑے سودے کر رہا ہے…بلڈنگ خرید رہا ہے،زمین اور باغ خرید رہا ہے…کسی کو پھنسا رہا ہے،کسی سے وعدے کر رہا ہے…کسی سے جھوٹ بول رہا ہے …کسی کو دھوکہ دے رہا ہے…کسی سے دس سال کا قرضہ لے رہا ہے…کسی سے بیس سال کا ٹھیکہ لے رہا تھا… جب کہ اس کی سوئی آخری دن کی گنتی کر رہی ہے…اگلے دن وہ گنتی پوری ہو گئی…اور یہ قبر میں جا لیٹا…سارے کھیل تماشے ختم…
مالک نے ارشاد فرمایا…
میں زمانے کی قسم کھاتا ہوں انسان گھاٹے میں ہے…
زمانہ گواہ ہے
اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر…یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ …انسان کے گھاٹے اور خسارے کی کہانی تمہیں اگر سمجھ نہیں آتی تو…زمانے سے پوچھ لو…آج جو زندہ ہے اسے تو ایک ’’لمحہ ‘‘مرنے کا خیال نہیں آتا…مگر تھوڑا سا پیچھے تو جھانک کر دیکھو…جن مکانوں میں تم بیٹھے ہو ان کے نیچے تم جیسے بلکہ تم سے زیادہ بھر پور زندگی گزارنے والوں کی لا تعداد لاشیں خاک بن چکی ہیں…بڑے بڑے منصوبہ ساز عقلمند گذرے وہ بھی مر گئے… بڑے نامور حکمران آئے وہ بھی مر گئے…اپنی خاطر دوسروں کو قتل کرنے والے جابر آئے وہ بھی مر گئے…اپنے جادو سے زمین ہلانے والے جادوگر آئے وہ بھی مر گئے…ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے ماہرین فلکیات اور سائنس دان بھی مر گئے…مسیحا کا لقب پانے والے حکیم، طبیب اور ڈاکٹر بھی مر گئے…اپنے ناز اور انداز سے دوسروں کو مارنے والے حسین بھی مر گئے…فخر و تکبر میں گردن نہ جھکانے والے سرکش بھی مر گئے…ہر طرف موت ہی موت ہے،ڈیڑھ دو سو سال پرانا کوئی شخص زندہ نظر نہیں آ رہا…اور اگلے سو پچاس سال میں…آج موجود سب لوگ بھی خاک ہو جائیں گے…
اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا…
میں زمانے کی قسم کھاتا ہوں کہ انسان سراسر نقصان میں ہے…
نقصان اور خسارے کا معنی ہے ’’کمی‘‘…ہر منٹ گذرنے کے ساتھ انسان کم ہو جاتا ہے … اس کی عمر کم ہو جاتی ہے…یہ نقصان نہیں تو اور کیا ہے؟…
رحمت والا اِلّا
عربی زبان میں ’’اِلّا‘‘ کے معنی ہیں ’’مگر‘‘ … اللہ تعالیٰ صرف یہی فرماتے کہ سب انسان خسارے میں ہیں تو …بس اتنے الفاظ سن کر ہی لوگوں کے دل پھٹ جاتے مگر رحمت والے رب نے نہایت رحمت کے ساتھ… ’’اِلّا‘‘ فرما دیا …کہ ہاں مگر کچھ لوگ خسارے میں نہیں ہیں … وہ ہرگز گھاٹے میں نہیں ہیں…وقت کا گذرنا ان لوگوں کو ’’کم‘‘ نہیں کرتا…زمانے کا گذرنا ان لوگوں کا کچھ نہیںبگاڑ سکتا…حتی کہ …پوری عمر کا ختم ہو جانا بھی ان لوگوں کے لئے خسارے کی کوئی بات نہیں ہے…بلکہ یہ لوگ کامیاب ہیں، کامران ہیں…ان کا جینا بھی نفع والا…اور ان کا مرنا بھی نفع والا…وقت کے سال تو کیا صدیاں بھی انہیں پرانا نہیں کر سکتیں…ہاں بے شک سب لوگ خسارے میں ہیں مگر یہ لوگ جن کا تذکرہ ’’الّا‘ ‘ کے بعد آیا ہے یہ نفع ہی نفع میں ہیں…انہوں نے تھوڑا لگا کر زیادہ پا لیا…انہوں نے ادنیٰ قربان کر کے اعلیٰ حاصل کر لیا…انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے زمانے کی قدر کی…اور اس مختصر زمانے کی مختصر محنت کے ذریعے …ہمیشہ ہمیشہ کے عیش و آرام اور کامیابی کو پا لیا…
یہ خوش نصیب کون؟
فرمایا: ’’والعصر‘‘ میں قسم کھاتا ہوں زمانے کی ’’ان الانسان لفی خسر‘‘ یقیناً انسان خسارے میں ہے…سارے انسان خسارے میں ہیں…الاالذین مگر وہ لوگ ہرگز خسارے میں نہیں اٰمنوا جو ایمان لائے وعملواالصالحات اور انہوں نے نیک اعمال کئے وتواصوا بالحق اور انہوں نے حق کی دعوت دی وتواصوا بالصبر اور صبر کی دعوت دی…سبحان اللہ! خسارے سے بچنے کا نصاب معلوم ہو گیا…
ایمان لے آؤ…ایمان لانے کے بعد جن اچھے کاموں کا حکم ہے ان میں لگے رہو…دوسروں کو حق کی دعوت دو…حق پر ڈٹے رہو،مضبوط رہو،ثابت قدم رہو اور دوسروں کو بھی مضبوطی اور ثابت قدمی کی دعوت دیتے رہو…
سب سے پہلے ایمان کو سمجھنا ہے…دل میں اتارنا ہے…اعمال صالحہ معلوم کرنے ہیں اور اپنا وقت ان میںلگانا ہے…حق کی دعوت کو ہر کسی تک پہنچانا ہے… اب تکلیفیں آئیں گی،آزمائشیں آئیںگی…وساوس آئیں گے … مجبوریاں آئیں گی…بڑھاپا آئے گا…مایوسیاں آئیں گی…فتنے آئیں گے…تب بھاگ نہیں جانا، بیٹھ نہیں جانا،گھبرا نہیں جانا…بلکہ خود بھی ڈٹے رہنا ہے اور دوسروں کو بھی استقامت کی طرف بلانا ہے…
بس یہ ہے کامیابی کا نسخہ…جو اس پر اپنا وقت لگائے گا وہ کامیاب ہو جائے گا…اور جو اس میں کمی کرے گا اس کی کامیابی بھی کمزور ہو جائے گی…اور جو اس نسخہ کو نہیں اپنائے گا…وہ دنیا میں جتنا بھی کامیاب سمجھا جائے وہ ناکام ہے…بالکل ناکام ہے…یا اللہ ناکامی سے بچا…
ایک عجیب نکتہ
کامیابی بس ان چار چیزوں ہی میں ہے…اور کسی چیز میں نہیں…
فرعون کی اس دنیا میں ہر خواہش پوری ہوئی …مگر وہ ناکام…اور حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی کوئی خواہش بھی پوری نہ ہوئی…حتی کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہونے کے باوجود ایسی مجبوری آئی کہ …حضرت آقا مدنی ﷺ کے دیدار سے محروم رہے…مگر کامیابی کا نسخہ مکمل تھا…ایسے کامیاب ہوئے کہ حضرت آقا مدنی ﷺنے اپنے جلیل القدر صحابہ کرام سے فرمایا کہ …اویس سے ملنا اور ان سے دعاء کروانا…
حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کی شادی ہوئی…خاوند بھی ایسے کامل مکمل انسان ملے … اللہ کے جلیل القدر نبی اور رسول…حضرات انبیاء علیہم السلام روحانی حسن کے ساتھ ساتھ جسمانی حسن میں بھی کامل ہوتے ہیں…مگر یہ عورت ناکام ہو گئی،جہنم میں جا گری…جبکہ حضرت مریم علیہا السلام کی شادی ہی نہ ہوئی…مگر کامیابی کا نسخہ مکمل تھا تو آج بھی ان کے کامیابی کے ہر طرف چرچے ہیں…اس پر کسی نے یہ عجیب جملہ لکھا ہے…
آج کی مسلمان لڑکیوں نے شادی کو ہی کامیابی سمجھ لیا ہے…اور اسی کی فکر میں روتی کڑھتی رہتی ہیں…کیا انہوں نے حضرت مریم کو نہیں دیکھا…کامیابی ایمان، اعمال صالحہ،حق کی دعوت اور صبر میں ہے…کاش آج کی ہر مسلمان لڑکی اپنا وقت انہیں چار کاموں میں لگائے…شادی میں خیر ہو گی تو خود دروازے پر آ جائے گی…خیر نہیں ہو گی تو ایسی شادی عذاب ہے…کتنی شادی شدہ عورتیں شادی کے بعد برباد ہو گئیں…اور جن کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہے وہ بھی…نا شکری،بے صبری نہ کریں…خود کو بد نصیب نہ سمجھیں… حضرت سیدہ خدیجہؓ سالہا سال سے بیوہ بیٹھی تھیں …صبر کا پھل ان کو ایسا ملا کہ حضرت آقا مدنی ﷺ کی زوجہ مطہرہ بنیں…اور آج تک زمانہ ان پر رشک کرتا ہے…
جماعت کی نعمت
کامیابی کے چار نکاتی نصاب پر عمل ’’جماعت‘‘ کی برکت سے آسان ہو جاتا ہے…
حدیث شریف میں آیا ہے
اَلْجَمَاعَۃُ بَرَکَۃٌ
جماعت برکت ہے…
ہم الحمد للہ اس برکت کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ …جو کام انسان صدیوں میں نہیں کر سکتا وہ جماعت کی برکت سے ہفتوں اور مہینوں میں ہو جاتا ہے…کیونکہ جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے…ارشاد فرمایا
یداللّٰہ مع الجماعۃ
اللہ تعالیٰ کا ہاتھ…یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوتی ہے…دوسری روایت میں ’’یداللّٰہ علی الجماعۃ‘‘ کے الفاظ ہیں…جن کا مطلب یہ کہ جماعت اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتی ہے…اسی لئے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں…
’’فان الفرقۃ ھلکۃ والجماعۃ نجاۃ‘‘
تفرقہ ہلاکت ہے اور جماعت ’’نجات‘‘ ہے…ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی برکت سے انسان،خیانت،دل کے کینے اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے،جماعت کی دعوت کلمہ طیبہ ہے…جو ایمان ہے…نماز کی اقامت یہ اعمال صالحہ کا سرتاج ہے…اور جہاد فی سبیل اللہ جو اعمال صالحہ کی بلند چوٹی،حق کی عملی دعوت اور صبر کا اصل میدان ہے…جماعت ہمیں ان کاموں میں لگائے رکھتی ہے اور یوں ہماری زندگی کا زمانہ اور وقت قیمتی بنتا ہے…وگرنہ یہی وقت گناہ ،غیبت،سازش،جھوٹ اور فتنے میں ضائع ہو سکتا ہے…
یا اللہ ہم سب کی ’’خسارے‘‘ سے حفاظت فرما…آمین یا ارحم الراحمین
لاالہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
امن کہاں اور کونسا؟
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 465)
اللہ تعالیٰ ہمارا انجام اچھا فرمائے…اور ہمیں دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب سے بچائے…
اَللّٰہُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الآخِرَۃِ
بے چاری
بے چاری ’’ملالہ‘‘ پر صلیبیوں نے ’’نوبیل انعام ‘‘ بھی لاد دیا…اُس کا باپ عجیب طرح کی خوشی کا اظہار کر رہا تھا…توبہ توبہ! اللہ تعالیٰ کسی مسلمان بیٹی یا بہن کو ایسا باپ نہ دے…اس شخص نے اپنی بیٹی کو کافروں کا تماشہ اور آلہ کار بنا دیا… صرف مال اور شہرت کی ہوس میں…وہ اپنے انٹرویو میں کہہ رہا تھا ملالہ ہر پاکستانی ماں کی بیٹی ہے…بالکل غلط،بالکل جھوٹ…
پاکستانی ماؤں کی بیٹیاں تو بڑی شان والی ہیں…کتنی ایسی ہیں جو قرآن مجید کی حافظہ ہیں…سبحان اللہ! …بس ایک آیت بتا دو تو وہ اللہ تعالیٰ کے عظیم کلام کو زبانی پڑھتی چلی جاتی ہیں…کئی کئی پارے،بغیر رکے ، بغیراٹکے …قرآن مجید کے انوارات ان کے پاکیزہ چہروں اور آنکھوں میں رچ بس جاتے ہیں …کاش ملالہ کا باپ بھی اپنی بیٹی کو یہ عظیم الشان اور بے مثال نعمت حاصل کرواتا…مگر کہاں؟ وہ بد نصیب تو دن رات اپنی بیٹی کو رسوا کرا رہا ہے… پاکستانی ماؤں کی بیٹیاں تو بہن عافیہ جیسی ہوتی ہیں …با حیا، باغیرت، علم والیاں،دین والیاں… اور بہادر…پاکستانی ماؤں کی بیٹیاں تو…باپردہ ایمان والیاں ہیں…ان کے سر سے اُترا دوپٹا آسمان بھی نہیں دیکھ پاتا…وہ راتوں کی تنہائیوں میں سجدے کرتی ہیں اور سیدہ مریم کی دعاء ہی… ان کی سب سے بڑی امنگ ہے
رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتاً فِی الْجَنَّۃِ
نوبیل انعام کا منحوس سلسلہ ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصہ سے شروع ہے…امن کا پہلا انعام …سرخ صلیب یعنی ریڈ کراس کے بانی کو ملا … اور اب تک کا آخری انعام… ایک انڈین ہندو کیلاش…اور ملالہ کو مشترکہ طور پر ملا ہے…ملالہ کے ابا کو افسوس تو ضرور ہو گا کہ اب…آدھی رقم ملے گی…مگر نوبیل کا نام بڑا ہے…اس پر مزید پیسہ بھی ملتا رہتا ہے…کاش ملالہ! اللہ تعالیٰ کے دین سے وفاداری کرتی…اللہ تعالیٰ کا انعام ہر انعام سے بڑا ہے…ساری دنیا کے نوبیل انعام مل کر بھی…استغفار کے ایک آنسو برابر نہیں ہو سکتے …یہ آنسو جہنم کی آگ کو بجھا دیتا ہے…نوبیل انعام سے نہ تو عمر بڑھتی ہے نہ موت ٹلتی ہے…نہ رزق بڑھتا ہے اور نہ صحت اچھی ہوتی ہے…الحمد للہ ہماری مسلمان بیٹیوں کے پاس جو کچھ موجود ہے…نوبیل انعام اس کے سامنے خاک سے بھی زیادہ حقیر ہے…
کلمہ طیبہ ،نماز، قرآن مجید،پردہ،حیا…ذکر اللہ،درود شریف،استغفار،جہاد کی خدمت… دین کی خدمت…اے مسلمان بہنو! یہ سب نعمتیں مبارک ہیں…ملالہ لندن،سویڈن،امریکہ،کینیڈا میں پھرتی رہے…اللہ تعالیٰ آپ کو مکہ شریف لے جائے…مدینہ منورہ لے جائے…اپنا عظیم گھر دکھائے…شکر کریں وہ بیٹیاں اور بہنیں…جن کو ایسے والدین اور بھائی ملے ہیں جو …انہیں قرآن مجید کی تعلیم دلواتے ہیں…جو انہیں پردہ اور حیاء کی بات سمجھاتے ہیں…جو انہیں ذکر اللہ اور جہاد کی بلندیوں سے آشنا کرتے ہیں…جو انہیں آخرت کی وسعتوں سے متعارف کرتے ہیں…اور جو ان کے دین،ایمان،غیرت اور شان کی حفاظت کرتے ہیں…
بے چارے
مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت ایسی ہمکنار ہوئی ہے کہ …ماشاء اللہ روز نئی فتوحات،روز نئی ترقی…اور روز نئی خوشخبریاں… یہ سب شہداء اسلام کے خون کی برکت ہے… اسلام کے لئے جانیں لگیں،خون لگا تو آج الحمد للہ مسلمانوں کے لشکر جس طرف کا رخ کرتے ہیں …فتوحات ان کے قدم چومتی ہیں…
فلسطینی مجاہدین نے اس رمضان المبارک میں …اسرائیل کی دم کاٹ دی ہے…عراق و شام میں دولت اسلامیہ نے ایک نئی دھوم اٹھا دی ہے…افغانستان میں طالبان نے اتحادی لشکر کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے…کشمیر میں مجاہدین کے حملوں اور یلغار نے مودی کے ایسے دانت توڑے کہ وہ…اب پاکستان پر بمباری اور گولہ باری کر کے اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہا ہے…سبحان اللہ! فتوحات ہی فتوحات…ہر دن سینکڑوں، ہزاروں لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں…یورپ چیخ رہا ہے،امریکہ چلا رہا ہے،انڈیا کراہ رہا ہے کہ…مسلمان عورتوں تک میں… بنیاد پرستی اور شدت پسندی بڑھ رہی ہے…اب یہ بدبودار پروپیگنڈہ ہے کہ …مسلمان لڑکیاں شادی کے لئے بھاگ بھاگ کر عراق اور شام جا رہی ہیں …کوئی تھوڑی سی عقل رکھتا ہو تو سوچ سکتا ہے کہ…جسمانی خواہشات کے لئے امریکہ اور یورپ سے بڑھ کر کھلا میدان اور کہاں مل سکتا ہے؟…کوئی بھی شادی کے لئے نہیں جاتا… جھوٹ سو فی صد جھوٹ…یہ اسلام کا نور ہے جو خوش نصیب افراد کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے…ان حالات کو دیکھ کر دشمنان اسلام سخت پریشان ہیں …ان کی صدیوں کی محنت خاک میں مل رہی ہے…وہ ہر میدان میں پے درپے شکست کھا رہے ہیں…اب ان کے آخری سہارے یہی رہ گئے ہیں کہ…مسلمانوں میں سے گمراہ افراد کو … پیسہ اور ظاہری عزت دیکر مسلمانوں میں بھیجا جائے تاکہ وہ…مسلمانوں کو دین اور جہاد سے دور کریں …اسی پریشانی اور بوکھلاہٹ میں انہوں نے ’’ملالہ‘‘ کو نوبیل انعام دیا ہے…آپ اندازہ لگائیں کہ یہ لوگ کس قدر حواس باختہ اور پریشان ہیں…ملالہ کا امن کے نوبیل انعام سے کیا تعلق؟ کہاں کا امن اور کونسا امن؟ دنیا کے کس ملک، خطے، شہر یا محلے میں…اس سترہ سالہ لڑکی نے امن قائم کیا ہے؟…چلیں شہر اور محلہ چھوڑیں،اس گلی کا نام بتا دیں،جہاں ’’ملالہ‘‘ نے امن قائم کیا ہو…یا ان مسلح دستوں کا نام بتا دیں جن کے درمیان ملالہ نے صلح کروائی ہو…یا کم از کم وہ منصوبہ ہی بتا دیں جو ملالہ نے امن کے لئے کسی کے سامنے پیش کیا ہو؟…
اوبامہ کو امن کا نوبیل انعام ملا تھا…ہزار اختلاف کے باوجود بہرحال یہ تو سچ ہے کہ اس نے عراق سے امریکی فوج واپس بلائی تھی…اس کے اس اقدام سے امن قائم نہیں ہوا مگر یہ ایک بڑا اور مشکل قدم تھا…چلو اس پر اسے نوبیل انعام ملا…ملالہ نے کون سی فوج کس جگہ سے واپس بلائی ہے؟یاسر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ ایک امن سمجھوتہ کیا تھا…وہ کوئی اچھا اقدام نہیں تھا بہرحال عام دنیا کی نظر میں وہ ایک مشکل اور بڑا فیصلہ تھا…اس پر اسے امن کا نوبیل انعام ملا…ملالہ نے کس کے ساتھ امن کا سمجھوتہ کیا ہے؟…ہاں ممکن ہے اپنے ابو اور امی کے درمیان کوئی صلح کروائی ہو…وہ بھی آج تک میڈیا پر نہیں آئی…پھر آخر وہ کونسا کارنامہ ہے جس پر اسے دنیا کا اہم ترین سمجھا جانے والا ایوارڈ دے دیا گیا؟ … جواب واضح ہے کہ کوئی نہیں!…بس اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے … زیادہ مؤثر اور زیادہ معتبر بنانے کی ایک فضول اور ناکام سی کوشش ہے…چنانچہ مغربی میڈیا کو حکم دیا گیا کہ وہ ملالہ کو انعام ملنے کی خبر اُچھالے… ساتھ ہی یہ دباؤ بھی ڈالا گیا کہ…پاکستان میں اس فیصلے پر خوشی منائی جائے …منافق قسم کے کالم نویسوں نے بی بی سی وغیرہ پر…طرح طرح کے مضامین لگائے اور اس بات کا رونا رویا کہ…آخر پاکستان میں ملالہ کو انعام ملنے کی خوشی کیوں نہیں منائی جا رہی …یہ سب کچھ تین چار دن تک چلتا رہا مگر الحمد للہ! پاکستان میں اس کا کوئی اثر نہیں دیکھا گیا…میڈیا پر ایک آدھ دن خبر چلی اور بس…حکمرانوں نے چند رسمی بیانات دئیے اور بس…کچھ بیوقوفوں نے خوشی کے کالم لکھے اور بس الحمد للہ نہ یہاں کوئی جشن منایا گیا اور نہ ملالہ کی یاد میں کوئی آنسو گرا…نہ کسی نے ملالہ کو واپس آنے کی دعوت دی…اور نہ ائیر پورٹوں پر اس کے لئے سرخ قالین بچھے…نہ یہاں کی بچیوں نے ملالہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیا… اور نہ لوگوں نے اس واقعہ کو کوئی خاص اہمیت دی …اور یوں…الحمد للہ بے چارے دشمنان اسلام کا…کروڑوں ڈالر کا منصوبہ خاک میں مل گیا… صرف سوشل میڈیا پر تھوڑی سی ٹائیں ٹائیں اور کائیں کائیں ہوئی…مگر جب سے پرویز مشرف کی سوشل میڈیا مقبولیت کا پردہ چاک ہوا ہے لوگ سوشل میڈیا کو سنجیدگی سے نہیں لیتے…
اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں سمجھایا ہے کہ… یہ کافر لوگ دین اسلام کے خلاف مال خرچ کرتے ہیں…مگر پھر اس پر پچھتاتے ہیں…وجہ یہ کہ اتنا مال خرچ کر کے بھی وہ دین اسلام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے…
وہ جو سمجھ رہے تھے کہ…ملالہ کو نوبیل انعام دے کر اسے پاکستان کی مسلمان بچیوں کے لئے ’’ہیرو‘‘ بنا دیں گے…وہ آ کر دیکھ لیں ملالہ اب بھی زیرو ہے…زیرو پلس زیرو…یہاں کی غیرت مند مسلمان بچیوں کی دعاؤں،ارمانوں … اور آنسوؤں میں…ملالہ نہیں عافیہ مہکتی ہے…
محترم بہن جی…عافیہ صدیقی حفطہا اللہ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مجلسِ تکبیر
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 464)
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ… واللّٰہ اکبر،
اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
آج کیا کالم لکھنا… اور کیا تبصرے کرنا! چھوڑیں بس… تکبیر پڑھتے ہیں تکبیر، اپنے عظیم ربّ کی بڑائی اور عظمت پکارتے ہیں… ارے بھائیو! تکبیر کہنا، تکبیر پڑھنا بڑا اونچا کام ہے…
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ… واللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
حج بیت اللہ کے دن قریب آگئے ہیں… اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو بار بار حج مبرور نصیب فرمائے… حج بیت اللہ کا اس عظمت کے ساتھ ہر سال قائم ہونا… یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے…بڑے بڑے فتنے کعبہ شریف کے خلاف اٹھے… کئی بار منحوس طیارے خطرناک بم اٹھائے روانہ ہوئے… کچھ ظالموں نے روضہ اطہر اور مسجد نبوی کو ویران کرنے کی بڑی خوفناک سازشیں کیں… کئی فتنے حج کا معنیٰ مطلب بدلنے کو بھی اٹھے… کئی بہروپیوں نے حج کے منسوخ ہونے کے فتوے بھی دیئے…حجاز کا وہ خطہ جہاں کعبہ شریف ہے اسے مکمل طور پر سیلابوں میں گم کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں کہ… بس سمندر ہی سمندر نظر آئے… مگر ساری تدبیریں مکڑی کا جالا بن گئیں… وہ دیکھو! کعبہ شریف کس شان سے کھڑا ہے… اور لاکھوں مسلمان اس کے گرد دیوانہ وار گھوم کر… اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کااور عظمت کا اقرار کر رہے ہیں… مسلمانو! شکر کرو کعبہ شریف بھی تمہارا… اور حج مبارک بھی تمہارا… تمہارے سوا نہ کسی کے پاس کعبہ نہ کسی کے پاس حج…
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ… واللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
وہ دیکھو! عید الاضحیٰ بھی تشریف لارہی ہے… سبحان اللہ، سبحان اللہ! کیا مناظر ہیں… ہر مسلمان قربانی پیش کرنے کی فکر میں ہے… جانوروں کی منڈیاں ہر سو سجی ہیں… اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح ہونا بھی سعادت اور اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنا بھی سعادت… حضرت آقا مدنیﷺ نے سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی… ان میں سے اکثر کو اپنے ہاتھ مبارک سے نحر فرمایا… وہ اونٹ خود آگے بڑھ بڑھ کر… شوق اور بے تابی سے اپنی گردن پیش کرتے تھے… قربانی بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتی ہے… اسی لئے شیطان کے کارندے مسلمانوں کو قربانی سے روکتے ہیں… کوئی کہتا ہے گوشت ضائع جاتا ہے… کوئی کہتا ہے اس رقم سے غریبوں کا علاج کرالو… وہ اپنی عیاشیوں بدمعاشیوںمیں سے تو ایک پائی کی کٹوتی کو تیار نہیں… بس مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے قُرب سے دور کرنے کیلئے… درد بھری باتیں بناتے ہیں… بس اتنا یاد رکھیں… ہم بندے ہیں، ہمارا کام اُن کا حکم ماننا ہے… اگر اپنے ذہن سے اپنا دین بنائیں گے تو مارے جائیں گے…کیونکہ ذہن ناقص ہے… وہ تویہاں تک کہہ سکتا ہے کہ تم پیدا ہی نہ ہو… تاکہ ماں کو تکلیف نہ ہو… بس قصہ ہی ختم… قربانی کے مخالفین نے لاکھ زور لگا لئے… مزید بھی لگا رہے ہیں… مگر قربانی اللہ تعالیٰ کے’’شعائر‘‘ میں سے ہے… سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کے خاص اور پسندیدہ ترین اعمال میں سے ہے… اسی لئے تو اتنی سازشوں کے باوجود ماشاء اللہ قربانی بڑھتی ہی جارہی ہے… وہ کونسی سازش ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت سے بڑی ہو… کوئی نہیں، کوئی نہیں… اللہ ہی بڑا ہے… اللہ تعالیٰ سب سے بڑاہے…
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ… واللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
یہ جو دس دن عشرہ ذی الحجہ کے ہیں… اور پھر ان کے بعد تین دن ایام تشریق کے… ان میں ’’تکبیر‘‘ کی فضیلت بڑھ جاتی ہے… بس یوں کہیں کہ یہ تمام دن’’تکبیر‘‘ کا سیزن ہیں… یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ ’’تکبیر‘‘ کہنے کی توفیق عطاء فرمادے… ورنہ اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ، کیا حاجت؟… اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت کسی کے کہنے ،سننے اور ماننے پر موقوف نہیں ہے… اتنا بڑا عرش، بڑے بڑے آسمان اور زمینیں، سمندر اور بادل… یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرتے ہیں… طاقتور حکمرانوں کا منٹوں میں ختم یا بے بس ہو جانا… بڑے جابر لوگوں کا کینسر کے درد سے کڑھنا اور تڑپنا… دن کی جگہ رات… اور رات کی جگہ دن کا آنا جانا… ان میں سے کچھ بھی انسان کے بس میں نہیں… ہر چیز اللہ ہی اللہ پکارتی ہے… خوش نصیب ہے وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے… اور یاد کرے… اور بڑا بد نصیب ہے وہ جو اللہ تعالیٰ کو بھلا دے… فرمایا جو ہمیں بُھلا دیتا ہے ہم اسے بُھلا دیتے ہیں…
نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ
انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بُھلا دیا… تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بُھلا دیا…
اللہ تعالیٰ کا بُھلا دینا یہ ہے کہ… اب خیر کے دروازے بند، ہر طرف شر ہی شر… صبح شام کفر، گناہ، بدکاری… اور بُرائی…
نہ کوئی خیر… نہ کوئی نیکی… نہ کسی اچھے کام کی توفیق… نہ اجر و ثواب کا کوئی موقع… ایک جانور کی طرح جی کر مرگئے… اور مستقل جہنم کا ایندھن بن گئے… یا اللہ! امان… مگر وہ جنہیں اللہ تعالیٰ یاد فرماتے ہیں…اُن کو تو ہر قدم پر خیر، ہر قدم پر بھلائی… اور ہر آن سعادتیں عطاء فرماتے ہیں…جب جس خیر کا موقع آیا… اُن کو اس کی توفیق عطاء فرمادی…تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے بادشاہ بن جائیں…اب ذی الحجہ آیا تواُن کو تکبیر پر لگا دیا کہ اپنے رب کا نام بلند کرتے جاؤ… اور خود اپنے رب کے قرب کی طرف بلند ہوتے جاؤ…
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ… واللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
حضرات صحابہ کرام کو’’تکبیر‘‘ کا بڑا ذوق تھا… دراصل وہ بڑی محنتوں سے’’تکبیر‘‘ تک پہنچے تھے… وہ جس معاشرے میں اٹھے تھے اس میں… بہت سی چیزیں ’’بڑی‘‘ بن چکی تھیں… اور ایسی بڑی کہ اُن کو چھوٹا کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیںسکتا تھا… بڑے بڑے بت تھے… اور اُن بتوں کے آستانے اور تیر… قبائلی روایات اور خاندانی فخر و غرور کے پہاڑ… خونریزی اور جھوٹی غیرت کی ناقابل تبدیل رسومات… شیطان کی صدیوں کی محنت کہ پورا معاشرہ ایک خاص رنگ پر پختہ ہو چکا تھا… اور تبدیلی کادور دور تک تصور بھی نہیں تھا کہ… اچانک کوہ صفا سے آواز آئی
قولوا لا الہ الا اللّٰہ
کہہ دو… صرف اللہ، صرف اللہ، فقط اللہ ہی معبودہے…
کہہ دو… اللہ اکبر، اللہ سب سے بڑا ہے… اللہ ایک ہے…
یہ کلمات جو ہم آج آسانی سے لکھ لیتے ہیں، بول لیتے ہیں… اُس وقت آسان نہ تھے… یہ کلمات اُس وقت سرخ موت اور کالے تشدّد کو پکارنے کے مترادف تھے… حضرات صحابہ کرامؓ نے ان مبارک کلمات کی بہت بھاری قیمت ادا کی … اور یہ کلمات اپنے خون کے بدلے میں حاصل کئے… چنانچہ انہیں… ان کلمات سے عشق تھا … وہ جب پڑھتے دل کے یقین… اور دل کی آواز سے پڑھتے… وہ چاہتے تھے کہ اور سب لوگ بھی ان کلمات تک پہنچ جائیں… اور ان کلمات کو پالیں…
حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ… جب منیٰ میں ’’تکبیر‘‘ بلند فرماتے تو آواز بہت دور تک جاتی… پھراس سچی آواز کو سن کر دوسرے لوگ بھی تکبیر پکارتے تو وادی گونج اٹھتی… جی ہاں! ایسی بارعب، والہانہ گونج کا تصور آج لاوڈ سپیکر اور دیگر آلات کی موجودگی میں بھی نہیں کیا جا سکتا…اُدھر حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ… اور حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عشرہ ذی الحجہ… بازاروں میںنکل جاتے اور لوگوں کو تکبیر کہلواتے… اور یوں بازار تکبیر کی آواز سے گونجنے لگتے…
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ… واللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
یاد رکھیں! تکبیر میں قوت ہے، تکبیر میں طاقت ہے، تکبیر میں سکون ہے… تکبیر میں سکینہ ہے… اور تکبیر میں عزت ہے…
اللہ اکبر… اللہ سب سے بڑا ہے… جی ہاں! دنیا کی اُن طاغوتی طاقتوں سے بھی بڑا ہے … جو خود کو ناقابل شکست سمجھ بیٹھی ہیں… اور ہمیں غلام بنانا چاہتی ہیں… اللہ اکبر، اللہ اکبر… اللہ تعالیٰ اُن فکروں، غموں اور پریشانیوں سے بھی بڑا ہے… جو ہمیں گھیر کر دنیا میں پھنسانا چاہتی ہیں…
اللہ اکبر، اللہ اکبر… اللہ تعالیٰ کی رحمت اُن گناہوں سے بھی بڑی ہے جن کو کرنے کے بعد بہت سے لوگ مایوسی کی کھائی میں جا گرے کہ… اب معافی نہیں… اور پھر سرتاپا گناہوں میں پھنس گئے…
الغرض…تکبیر جوں جوں دل میں اترتی ہے … یہ دنیا، اس کی طاقتیں، اس کے مسائل اور اس کی پریشانیاں… انسان کے دل میںچھوٹی ہوتی چلی جاتی ہیں… اور انسان آزاد ہو کر… اپنے رب سے قریب تر ہوتا چلاجاتا ہے…
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ… واللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
دل تو نہیں چاہتا کہ’’مجلس تکبیر‘‘ ختم ہو… مگر اختصار مطلوب ہے… الحمدللہ عشرہ ذی الحجہ میں جہاد کی طرف مسلمانوں کا رجوع بڑھ رہا ہے… حج اور جہاد کا آپس میں بڑا جوڑ ہے… اہل علم نے خوب کھول کر حج اور جہاد کے جوڑ کو بیان فرمایا ہے … وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں… حج کے ساتھ جہاد کا تذکرہ جڑا ہوا ہے… پہلے اشہرِ حرم میں جہاد کی چھٹی تھی… بعد میں عمومی اجازت دے دی گئی … جہاد اور تکبیر کا بھی آپس میں گہرا جوڑ ہے … جہاد’’تکبیر‘‘ سے قوت پکڑتا ہے… اور’’تکبیر‘‘ جہاد کی برکت سے دور دور تک گونجتی اور پہنچتی ہے… آج عالم کفر نے بھی الحمدللہ… جہاد کی طاقت کو مان لیا ہے… اور اب وہ اس طاقت کو مٹانے کی کوشش میں دن رات مِٹ رہے ہیں… ہماری طرف سے تمام حجاج کرام کو… مبارک… تمام غازیان اسلام کو مبارک…
اور تمام اُمت مسلمہ کو… عیدالاضحیٰ مبارک
اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ… واللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭…٭…٭
افضل ایّام الدنیا
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 463)
اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں’’فضیلت‘‘ عطاء فرماتے ہیں… وہ کوئی شخص ہو، مہینہ ہو، دن ہو یا عمل…ہم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ’’فضیلت‘‘ کا احترام کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں…
شکر کا مقام ہے
اللہ تعالیٰ نے پورے رمضان المبارک کو خاص فضیلت عطاء فرمائی ہے… اورپھر خصوصاً آخری عشرے کی راتوں کو… الحمدللہ مسلمانوں کو اس فضیلت کا شعور ہے… رمضان المبارک اور آخری عشرہ میں دنیا کا رنگ ہی بدل جاتا ہے… مساجدخوب آباد رہتی ہیں اور مسلمان رمضان المبارک کے فضائل سے وافر حصہ پاتے ہیں… یقیناً یہ شکر کا مقام ہے…
والحمدللّٰہ رب العالمین
فکر کی بات ہے
اللہ تعالیٰ نے’’ذوالحجہ‘‘ کے مہینہ کے پہلے دس دنوں کو خاص فضیلت عطاء فرمائی ہے…’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے فضائل قرآن مجید میں بھی ہیں… اور احادیث صحیحہ میں بھی… اور فضائل بھی ایسے کہ دل جھوم اُٹھے… حتی کہ کئی اہل علم کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دن رمضان المبارک کے آخری دنوں سے بھی افضل ہیں… مگر فکر اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثرمسلمانوں کوان فضائل کا علم اور شعور نہیں ہے… اکثر کو تو پتا ہی نہیں چلتا کہ ذوالحجہ کا مہینہ کب شروع ہوا… اور اس مہینہ میں اعمال کی کیا قیمت ہے؟…
چنانچہ وہ زندگی کے یہ قیمتی ترین دن… جن کو حضرت آقا مدنیﷺ نے ’’افضل ایام الدنیا‘‘ قرار دیاہے… ضائع کر دیتے ہیں… دنیا میں انسان کی عمر کے سب سے قیمتی دن… بغیر کچھ کمائے اور بغیر کچھ بنائے گزر جاتے ہیں…
یقینا دُکھ، افسوس اور فکر کی بات ہے…
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون…
سمجھدار اور عقلمند افراد کا جنون
حضرات صحابہ کرامؓ اور ہمارے اَسلاف بہت سمجھدار اور بے حد عقل مند تھے… جی ہاں! آج کل کے سائنسدانوں سے بہت زیادہ ذہین اور بہت زیادہ سمجھدار… انہوں نے قرآن و سنت میں جب ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے والہانہ فضائل دیکھے تو بس ان دنوں کوکمانے اور بنانے میں جان توڑ محنت لگا دی… چونکہ ان دنوں میں ہر عبادت کا اجر و ثواب عام دنوں کی عبادت سے بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے … چنانچہ حضرات اَسلاف نے اپنے اپنے رنگ میں ان اَیام کو پانے کی جستجو کی… چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:
o… حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ہمارے ہاں یعنی حضرات صحابہ کرامؓ میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس عشرہ کا ہردن… فضیلت میں ایک ہزار دنوں کے برابر ہے، جبکہ عرفہ(یعنی نو ذی الحجہ) کا دن دس ہزار دنوں کے برابر ہے…
o…مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر شہیدؒ کا طریقہ یہ تھا کہ جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہوتا تو آپ عبادت میں ایسی سخت محنت فرماتے کہ… معاملہ بس سے باہر ہونے لگتا… اور آپ فرمایا کرتے تھے … لوگو! ان راتوں میں اپنا چراغ نہ بجھایا کرو… یعنی ساری رات تلاوت وعبادت میں رہا کرو…
o… حضرت حسن بصریؒ فرمایا کرتے تھے کہ… عشرہ ذی الحجہ کا ہر روزہ دو مہینوں کے روزوں کے برابر ہے
o …بعض محدثین کرام کا طرز عمل یہ تھا کہ جیسے ہی عشرہ ذی الحجہ شروع ہوتا وہ اپنے اَسباق میں ضعیف احادیث بیان کرنا بالکل بند کر دیتے… حالانکہ ان احادیث کے ساتھ یہ بتایا جاتاتھا کہ یہ ضعیف ہیں… مگر ان ایام کے تقدس کا ایسااحترام کہ ضعیف حدیث زبان پر نہ لاتے…
o… بعض اَسلاف کا ان ایام میں عبادت کا یہ رنگ تھا کہ تعلیم و تدریس تک چھوڑ دیتے کہ اس میں کچھ نہ کچھ قیل و قال ہوجاتی ہے… بس خود کو ذکر و عبادت کے لئے وقف کر دیتے…
o… بعض اَسلاف ان ایام میں حاجیوں کی طرح احرام کی چادریں اوڑھ لیتے اور صبح شام تکبیرات بلند کرتے رہتے…
o …اِبن عساکرؒ جو مشہور محدث، مؤرخ اور بزرگ گزرے ہیں وہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے… اور پھر عشرہ ذی الحجہ بھی پورا اعتکاف میں گزارتے…
o …حضرت امام عبداللہ بن مبارکؒ کی پوری زندگی کا معمول ان ایام میں یہ تھا… یا تو جہاد پر ہوتے یا حج پر تشریف لے جاتے…
اور ان سب سے بڑھ کر ان دو جلیل القدر… اہل علم صحابہ کرام کا عمل دیکھیں… یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ… اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں…
یہ دونوں حضرات ان ایام میں خاص طور پر صرف اس لئے بازار جاتے کہ… لوگوں کو’’تکبیر‘‘ کی طرف متوجہ کریں کہ… یہ ایام اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کے ہیں… چنانچہ آپ بازار تشریف لے جاتے اور زور زور سے تکبیرات بلند فرماتے… اس پر بازار والے بھی آپ دونوں کے ساتھ تکبیرات بلند کرنے میں مشغول ہوجاتے … اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان مبارک ایام میں پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ… ظہر تا عصر منبر پر جلوہ اَفروز ہوتے اورلوگوںکو حج کے اَحکامات تلقین فرماتے…
خلاصہ یہ ہے کہ… چونکہ یہ تمام حضرات ان دنوں کی قیمت کو جانتے تھے اس لئے وہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک اَعمال کا ذخیرہ اور خزانہ اپنے لئے جمع کر لیتے… اور ان ایام میں ان حضرات پر عبادت کا ایک خاص حال طاری رہتاتھا… اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس میں سے کچھ حصہ نصیب فرما دے…
ہر عمل وزنی اور قیمتی
عشرہ ذی الحجہ کے فضائل کو تفصیل سے لکھا جائے تو ایک اچھی خاصی کتاب بن سکتی ہے رات اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی… قرآن مجید میں تھوڑا سا غور کیا تو اس عشرہ کے بارے آیات پر آیات سامنے آتی چلی گئیں… اس پر خود حیرانی ہوئی کہ اس موضوع پر اتنی زیادہ آیات مبارکہ کی طرف پہلے کبھی توجہ نہیں ہوئی تھی… پھر احادیث مبارکہ کو دیکھنا شروع کیا تو بالکل ممکن لگا کہ صرف اس عشرہ مبارکہ کی فضیلت پر… چالیس احادیث کا مجموعہ آسانی سے تیارکیاجا سکتا ہے… ارادہ بھی ہوا کہ آج کا’’رنگ ونور‘‘ عشرہ ذی الحجہ کی چہل احادیث پر آجائے… مگراس کے لئے جگہ زیادہ چاہئے… اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے کہ چہل حدیث کا یہ مجموعہ الگ کتابچے کی صورت میں آجائے… خلاصہ یہ ہے کہ یہ دس دن بہت قیمتی ہیں… عام دنوںسے ہزار گنا زیادہ قیمتی… ان دنوں کا جہاد عام دنوں کے جہاد سے بہت افضل ہے…مبارک ہو انہیں جو یہ دن محاذوں پر… یا جہادی محنت میں گزارتے ہیں… ان دنوں کا روزہ عام دنوںکے نفلی روزے سے بہت زیادہ قیمتی ہے … مبارک ہو ان کو جو ان نو دنوں کے روزے کماتے ہیں… خود حضرت آقامدنیﷺ عشرہ ذی الحجہ کے نو روزوں کا مکمل اہتمام فرماتے تھے… کتب احادیث میں تفصیل موجود ہے…
ہاں بعض اوقات کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھنے کا تذکرہ بھی’’حدیثِ عائشہؓ ‘‘ میں موجود ہے… ان دس مبارک ایام کی تہلیل، تکبیر اور تسبیح عام دنوں کے ذکر سے بہت افضل ہے… خاص طور پر’’ لا الہ الا اللہ‘‘ اور’’اللہ اکبر‘‘ کی کثرت… اور ’’سبحان اللہ وبحمدہ‘‘… اگر تیسرے کلمے کا اہتمام کر لیا جائے تو اس میں سب کچھ آجاتا ہے…
اسی لئے کئی اللہ والے… ان ایام میں صلوٰۃ التسبیح اداء کرتے ہیں…اس میں چار رکعت کے دوران تین سو بار یہ مبارک کلمات ادا ہو جاتے ہیں… ان دس مبارک ایام کی تلاوت عام دنوں کی تلاوت سے بہت افضل ہے… مبارک ہو ان لوگوں کو جو ان ایام میں قرآن مجید کو زیادہ وقت دیتے ہیں… اور اللہ تعالیٰ کے کلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں… اسی طرح اس مبارک عشرے میں توبہ کرنا عام دنوں کی توبہ سے زیادہ افضل، زیادہ محبوب اور زیادہ قیمتی ہے…خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس عشرے میں گناہوں سے بچتے ہیں… اور توبہ، اِستغفار کی کثرت کرتے ہیں …اسی طرح اس مبارک عشرہ میں جہاد پر خرچ کرنا، صدقہ دینا، والدین کی مالی خدمت کرنا… عام دنوں کے خرچ سے بہت افضل اور بہت قیمتی ہے… خوش بخت ہیں وہ لوگ… جو ان ایام میں اپنی جیب ہلکی اوراپنا نامہ اعمال وزنی کر لیتے ہیں… جیب تو پھر بھی بھر جاتی ہے مگر ایسے قیمتی دن روز روز نہیں آتے … اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان دنوںکاحج فرض کے بعد سب سے افضل عمل قربانی ہے… عام دنوں میں کوئی ایک سو اونٹ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ذبح کرے تو وہ دس ذوالحجہ یعنی عیدالاضحیٰ کے دن ایک بکرے کی قربانی کے برابر نہیں ہو سکتے… جی ہاں! عیدالاضحیٰ کی قربانی بہت بڑا عمل ہے… اور مسلمانوں کو چاہئے کہ بہت شوق، بہت رغبت اور بہت کھلے دل کے ساتھ قربانی کیا کریں… شیطان اور اس کے کارندے… قربانی کے خلاف طرح طرح کے دلائل اور وساوس لاتے ہیں مگر ان کی ایک بھی نہ سنیں، بلکہ بہت اچھی اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں… اور اپنے گھر کے علاوہ ’’الرحمت ٹرسٹ‘‘ کی وقف قربانی میں بھی اپنا حصہ بڑھ چڑھ کر ڈالیں…آپ کی قربانی کا گوشت اُمت مسلمہ کے افضل ترین افراد تک پہنچے گا… کسی محترم شہید کے بچوں کا لقمہ بنے گا تویہ… کتنی بڑی سعادت ہوگی… مال تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ … اس سے جنت خریدی جائے، اس سے آخرت بنائی جائے… بس بھائیو! اور بہنو! عشرہ ذی الحجہ تشریف لارہا ہے… اس کے آنے سے پہلے ہی تیاری کر لیں کہ ہم نے اس عشرہ کو کس طرح سے کمانا ہے، کس طرح سے بنانا ہے اور کس کس طرح سے پانا ہے…اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگیں، جسم کو روزے اور عبادت کی مشقت کے لئے تیار کر لیں …جیب کا منہ کھولیں… جہاد میںمال اور جان لگائیں… قربانی کھلے دل سے کریں… اور یہ مبارک عشرہ اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ کرنے کی ترتیب بنا لیں…
قرآن مجید سے ایک جھلک
(۱) اللہ تعالیٰ نے اس مبارک عشرہ کی راتوں کی قسم کھائی ہے… جوکہ ان ایام کے لئے بڑی فضیلت کی دلیل ہے… وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ
(۲) اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے حج کا اعلان کروایا… وَأذِّنْ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ… اور پھر اسی آیت میں عشرہ ذی الحجہ کو… ’’ایام معلومات‘‘ کا لقب عطاء فرمایا…
(۳) قرآن مجید میں حج کے بارے میں جہاں آیات ہیں… وہاں ضمناً ان مبارک ایام کا تذکرہ موجود ہے…اسلام کا مقدس ’’فریضۂ حج‘‘ انہیں مبارک ایام میں ادا ہوتا ہے… اور حج کے تمام فرائض عشرہ ذی الحجہ میں ادا ہوتے ہیں… اور بعض مناسک ایامِ تشریق میں…
سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم
(۴) سورۃ الکوثرمیں… کئی مفسرین کے نزدیک :
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ
میں دس ذی الحجہ کی نماز فجر، یا عید کی نماز اور قربانی کا تذکرہ ہے…
(۵) سورۃ ’’والصّافات ‘‘میں حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب… اور اپنے لخت جگر کی قربانی کا واقعہ ہے… یہ سب اسی مبارک عشرہ میں پیش آیا…
(۶) سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کی خلوت کے لئے اللہ تعالیٰ نے طلب فرمایا… پھر دس دن مزید روک لیا… کئی مفسرین کے نزدیک یہ دس دن عشرہ ذی الحجہ کے تھے…
(۷)دین اسلام کے مکمل اور کامل ہونے کاعظیم قرآنی اعلان… اور اِتمامِ نعمت کا اعلان اسی مبارک عشرہ کے ایک دن… یعنی نو ذی الحجہ کو ہوا…
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
مسک الختام
آج کی مجلس کا اختتام رسول اکرمﷺ کی دو مبارک احادیث پر کرتے ہیں، یہ احادیث مبارکہ… اُن تمام باتوں کی واضح دلیل ہیں جو اوپر عرض کی گئی ہیں…
(۱) صحیح بخاری کی روایت ہے، رسول نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
کسی بھی دن کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا محبوب نہیں جتنا ان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا ہے… صحابہ کرام نے عرض کیا… یا رسول اللہ! جہاد بھی نہیں؟ ارشاد فرمایا! جہاد بھی نہیں مگر یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور اپنا مال لے کر جہاد میں جائے اور پھر ان میں سے کچھ بھی واپس نہ لائے… (یعنی شہید ہو جائے)(بخاری)
(۲) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: افضل ایام الدنیا ایام العشر یعنی عشر ذی الحجۃ
دنیا کے ایام میں سب سے افضل… یہ دس دن ہیں یعنی عشرہ ذی الحجہ…(صحیح ابن حبان، البزاز)
لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭……٭…٭
مستحکم نظریات
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 461)
اللہ تعالیٰ ’’فتنوں‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…فتنے ظاہری ہوں یا باطنی…
حضرت آقا محمد مدنی ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ…ہم فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کریں:
اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ
اس دعاء کو اپنی نمازوں میں شامل کر لیں… قعدہ اخیرہ میں سلام سے پہلے اور نوافل کے سجدوں میں…
الحمد للہ! اسلامی جہاد…اپنی شاندار فتوحات کے دور میں داخل ہو رہا ہے…یہ وہ دور ہوتا ہے جب شہرت پسند ریاکار طبقہ بھی جہاد اور مجاہدین کی حمایت میں نکل آتا ہے…اور فتوحات اور تنظیموں کا ناجائز وارث بن بیٹھتا ہے…آپ سب کو امارت اسلامیہ افغانستان کے عروج کا زمانہ یاد ہو گا؟…اس وقت پاکستان میں ہر طرف طالبان کے حمایتی،طالبان کے وارث،طالبان کے سرپرست،اور طالبان کے مشیر نظر آتے تھے…بہت سے لوگوں نے ان جیسی شباہت بھی اختیار کرلی تھی…وہی عمامے،وہی قندھاری کرتے…اور وہی انداز…پھر آزمائش کا دور آیا،امارت اسلامیہ کے سقوط کا دردناک لمحہ آیا تو یہ…ڈھولچی طبقہ ایک دم غائب ہو گیا…
طالبان کے بڑے بڑے رہنما ’’پناہ‘‘ کے لئے دربدر پھرتے تھے مگر انہیں…پاکستان کے اکثر دروازے اپنے لئے بند ملے…لوگوں نے پگڑیاں چھپا لیں،قندھاری کرتے غائب کر دئیے …اور لمبے بال کتروا لئے…اور طالبان کے لئے اپنے دروازے بند کر دئیے…کچھ لوگوں نے ابتداء میں چند زور دار جلوس اور چند بڑی ریلیاں نکالیں اور پھر اپنے کاموں میں مشغول ہو کر… طالبان کو اتحادی فورسز کے سامنے اکیلا ڈال دیا … مگر اہل استقامت اس وقت بھی امارت اسلامیہ کے ساتھ کھڑے رہے اور پھر جنگ و جہاد میں بھی ان کے ساتھ میدان میں موجود رہے…خیر یہ ایک مثال تھی امید ہے کہ منظر آپ کے ذہن میں تازہ ہو گیا ہو گا…اب آتے ہیں موجودہ حالات کی طرف…
عراق و شام میں مظلوم مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اتری…اور ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ نامی جماعت جسے ’’داعش‘‘ بھی کہا جاتا ہے ایک دم چھا گئی…ایک زمانہ جس طرح مسلمانوں نے افغان جہاد کا رخ کیا تھا اور پشاور تا پل خمری دنیا بھر کے مجاہدین سے آباد تھا…یہی صورتحال عراق میں بھی پیش آئی…دنیا بھر کے اکیاسی ممالک کے مجاہدین ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ تنظیم میں شامل ہیں…صدام حسین شہید کے بچے کھچے رفقاء بھی اس جماعت کا حصہ ہیں…اور یورپ و امریکہ سے آئے ہوئے مجاہدین بھی اس جماعت میں موجود ہیں…جب کوئی علاقہ ظلم و ستم کی آگ میں جلتا ہے تو وہاں جہاد اور مجاہدین کے لئے راستے کھل جاتے ہیں… ترکی کی قدرے اسلام پسند حکومت نے شامی مہاجرین کو جگہ دی اور عراق و شام کے مجاہدین کو کچھ سہولیات دیں…قطر کی قدرے اسلام پسند حکومت نے مالی تعاون کیا…اور عرب دنیا میں موجود اہل خیر نے بھی دل کھول کر مجاہدین کی امداد کی…ادھر پاکستان میں مجاہدین کے لئے راستے بند ہوئے تو بہت سے چیچن اور عرب مجاہدین نے بھی عراق کا رخ کیا…عراق کے سنی قبائل جو ایران کے ظلم و ستم سے سخت اذیت میں تھے انہوں نے اپنے گھر اور دل مجاہدین کے لئے کھول دئے…اُدھر بشار الاسد کے مظالم نے شام کو جہاد کی چنگاری دی جو وہاں کے بہادر اور غیور مسلمانوں نے شعلوں میں بدل دی…ایران کا معاملہ صرف فرقہ پرستی کا نہیں ہے…یہ ملک اور اس کا نظام مسلمانوں کا بدترین دشمن ہے…آپ نے تازہ خبروں میں سن لیا ہو گا کہ…اب ایران نے ’’سوڈان‘‘ کے مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنے کے لئے ایک نئے پلان پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہے…اس سے پہلے یہ وسطی ایشیا کی ریاستوں میں بھی اپنی نجاست پھیلا چکا ہے…افغان جہاد کے دوران بھی اس نے مسلمانوں کے خلاف امریکہ اور نیٹو کا بھر پور ساتھ دیا…اور عراق اور شام کی جنگ تو باقاعدہ…ایران کی کمان میں مسلمانوں کے خلاف لڑی جا رہی ہے … پاکستان میں بد امنی اور فرقہ واریت کے پیچھے بھی ایران کا ہاتھ ہے…مگر پاکستان میں ان کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ ایران کے خلاف دو لفظ لکھنے یا بولنے پر…خفیہ ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں اور فوراً فرقہ پرستی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے…ایران کے انڈیا کے ساتھ تو بالکل ویسے ہی گہرے مراسم ہیں جس طرح مشرکین اور مجوسیوں کے ہمیشہ سے رہے ہیں…آپ کبھی ایران کا ریڈیو سنیں…پچھتر فیصد خبریں اور تبصرے پاکستان کے خلاف ہوتے ہیں…مگر پاکستان کی ہر حکومت ایران سے یاری کو اپنا مقدس فریضہ سمجھتی ہے…ایران کے ان مظالم نے غیور مسلمانوں کو ایسا تڑپایا کہ وہ دیوانہ وار جہاد کی طرف دوڑے اور یوں…مسلمانوں کو امارت اسلامیہ افغانستان کے بعد ایک اور بڑی جہادی جماعت’’ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام‘‘ کی صورت میں مل گئی…بلاشبہ یہ ایک اسلامی اور جہادی جماعت ہے…اور افرادی قوت کے اعتبار سے یہ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی جہادی تنظیم ہے…امارت اسلامیہ افغانستان کے پاس مقامی مجاہدین لاکھوں کی تعداد میں ہیں…اور ان کے معاونین پاکستانی مجاہدین بھی ہزاروں میں ہیں…جبکہ ’’داعش‘‘ کے پاس مقامی اور غیر مقامی تیس سے پچاس ہزار تک موجود ہیں…والحمد للہ رب العالمین
داعش کی فتوحات سامنے آنے کے بعد…ڈھولچی طبقہ بھی زمین پر اپنے بلوں سے باہر نکل رہا ہے…بس اسی سے ہوشیار کرنا مقصود ہے…داعش کا جہاد عراق اور شام میں ہے اور ان کے لئے وہاں ابھی کافی کام موجود ہے… افغانستان میں الحمد للہ امارت اسلامیہ افغانستان بر سرپیکار ہے…یہ ایک خالص اسلامی اور منظم جماعت ہے اور اس کے ’’امیر محترم‘‘ زمانے کے معتبر ترین شخص…حضرت ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ تعالیٰ ہیں…اور یہ جماعت باقاعدہ شرعی بیعت کے نظام پر قائم ہے…اور اس جماعت نے اسلام کے ’’نظام نصرت‘‘ کے لئے ایسی عظیم قربانی دی ہے کہ …صدیوں میں اس کی مثال نہیں ملتی…اس جماعت کا جہادی نظام اتنا مؤثر،جدید اور پائیدار ہے کہ…چالیس ملکوں کا اتحادی لشکر دنیا کا ہر اسلحہ اور ہر ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے باوجود…نہ اس جماعت کو توڑ سکا اور نہ اسے کمزور کر سکا…مگر طالبان کا نظام…شہرت پسندی اور کھلی بھرتی سے بہت دور ہے…
یہ حضرات نہ تو خواتین کو بھرتی کرتے ہیں اور نہ ان کی پریڈ لگاتے ہیں…اور نہ جہادی شادیوں کے اشتہار چلاتے ہیں…ان کا ویڈیو آڈیو نظام بھی چمک دمک سے دور اور جہاد کے قریب ہے…یہ اپنے لیڈروں کو میڈیا سے دور رکھتے ہیں اور روز روز نئے ’’ہیرو‘‘ نہیں بناتے…آج ساری دنیا میں جہاں بھی جہاد کی روشنی ہے وہ سب افغانستان سے ہی چمکی ہے…اور افغان جہاد اس زمانے کی تحریکوں کے لئے اصل مرکز اور منبع کی حیثیت رکھتا ہے…اور افغان جہاد کی یہ کامیابی… اخلاص، سادگی اور شریعت کی پابندی کی وجہ سے ہے… ظاہر بات ہے یہ وہ چیزیں ہیں جو شہرت پسند طبقے…اور انٹرنیٹ کے جہادیوں کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی کشش نہیں رکھتیں…چنانچہ اب افغانستان اور پاکستان میں بھی ’’داعش‘‘ کے خود ساختہ اور ناجائز ولی وارثوں نے…اپنا کام شروع کر دیا ہے…آپ چند دن تک ایسے افراد بھی دیکھیں گے جو یہ کہتے پھرتے ہوں گے کہ ہم…پاکستان میں ’’داعش‘‘ کے نمائندے ہیں … کچھ لوگوں نے داعش کا لٹریچر بھی انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے چھاپنا شروع کر دیا ہے…اور کئی لوگوں کا یہ دعوی بھی ہے کہ وہ مستقل داعش کے رابطے میں ہیں…افغانستان اور پاکستان میں یہ ساری صورتحال…یقیناً تشویشناک ہے… داعش ایک جہادی جماعت ہے اور جہادی جماعت کی قیادت اس زمانے میں خفیہ ہوتی ہے…تو پھر یہاں موجود افراد کا داعش کی قیادت سے رابطہ کس طرح ممکن ہے؟
داعش کی قیادت اگر فون اور انٹرنیٹ پر بیٹھی ہوتی تو کب کی شہید ہو چکی ہوتی…وہ حضرات تو ایک بڑی گھمسان کی جنگ میں مشغول ہیں… ہاں ان کے بہت سے حامی انٹرنیٹ پر موجود رہتے ہیں…اور لوگ انہیں سے رابطے کو…قیادت کے ساتھ رابطہ قرار دے دیتے ہیں…
دوسری طرف امت میں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو چکا ہے جو…خلافت کے نام پر مسلمانوں کو مسلسل تقسیم اور گمراہ کر رہا ہے…دیکھیں کیسا ستم ہے کہ …خلافت ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کو جوڑنے کا واحد ذریعہ ہے…مگر ان کم عقل لوگوں نے خلافت کے نام کو مسلمانوں میں مزید تقسیم اور تفریق کا ذریعہ بنا لیا ہے…یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسلح جہاد نہیں کرتے مگر ہمارا عقیدہ ہمارا اسلحہ ہے اور ہم اسی کے ذریعے خلافت قائم کریں گے…یہ کافی خطرناک اور گمراہ کن نعرہ ہے اور اس تنظیم کی ساری قیادت امریکہ اور برطانیہ میں بیٹھی ہوئی ہے…یہ لوگ جہاد اور خلافت کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں…اور مسلمانوں کو ایک مقدس نام سے گمراہ کر رہے ہیں…جہاد و قتال کے بغیر خلافت کا قیام ایک غیر فطری بات ہے…افغانستان میں جب خالص اسلامی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے ایک پائی یا ایک گولی کی مدد نہیں کی…پھر یہ کون سی خلافت چاہتے ہیں…اب جب ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ نے فتوحات حاصل کیں تو یہ لوگ ان کی صفوں میں گھس گئے اور وہاں سے ’’خلافت‘‘ کا اعلان کرا دیا…حالانکہ خلافت تو زمین پر ہوتی ہے…
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً
زمین فتح ہی نہیں ہوئی تو اس پر خلافت کا کیا مطلب ؟ … ہاں جتنی زمین فتح ہو چکی اس پر خلافت کی طرز سے ا سلامی امارت اور حکومت قائم ہوتی ہے…جو افغانستان میں طالبان نے …اور عراق و شام کے کئی علاقوں میں ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ نے قائم کی ہے…اور مجھے یقین ہے کہ ’’الدولۃ الاسلامیہ‘‘ اگر عراق کے بعد ایران کو فتح کر لے تب بھی وہ افغانستان میں …امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد سے بیعت کر کے…امارت اسلامیہ کا حصہ بن جائے گی…کیونکہ امارت اسلامیہ کا نظام زیادہ مستحکم،اور شریعت کے زیادہ قریب اور مطابق ہے…جبکہ داعش کو ابھی بننے اور سنبھلنے میں وقت لگے گا…اس میں ہر رنگ،ہر نسل اور طرح طرح کے نظریات کے افراد شامل ہیں…جنگ گرم ہونے کی وجہ سے سب کو قابو میں کرنا اور ایک عقیدہ اور نظام پر لانا آسان نہیں ہے…پچھلے دو ماہ میں داعش اپنے پانچ بڑے کمانڈروں کو معزول اور گرفتار کر چکی ہے…ایک کمانڈر تکفیری تھا…ایک کمانڈر انٹرنیٹ پر جماعت کو بدنام کر رہا تھا…اور باقی تین بھی اسی طرح کے جرائم میں ملوث تھے…
اچھا اب ایک اور بات سنیں…پاکستان میں ’’داعش‘‘ کے کئی نمائندے اور ولی وارث وہ لوگ بنے ہوئے ہیں جو جمہوریت کے تحت انتخابات میں حصہ لیتے ہیں…جبکہ’’داعش‘‘ کے اعلان کردہ عقیدے کے مطابق جمہوری انتخابات میں حصہ لینا ’’کفر‘‘ ہے…اب اسی سے آپ ان کی نمائندگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں…اے مسلمانو! جھوٹ،شہرت پسندی اور فضول کاموں سے بچو…قربانی والے فریضے جہاد کو مذاق نہ بناؤ…اللہ تعالیٰ امارت اسلامیہ افغانستان کو فتوحات اور اپنی نصرت عطاء فرمائے…اللہ تعالیٰ ’’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام‘‘ کو بھی فتوحات اور اپنی نصرت عطاء فرمائے…جہاد ایک خالص اسلامی فریضہ ہے جیسا کہ نماز…نماز وہی قبول ہوتی ہے جو شریعت کے مطابق ہو…جہاد بھی وہی قبول ہوتا ہے جو شرعی احکامات کے مطابق ہو…اپنے نظریات کو فتنوں سے بچائیں اور وقتی نعروں اور شور شرابوں سے اپنے نظریات تبدیل نہ کیا کریں…
مستحکم،مضبوط اور مستقل نظریات ہی… مقبول اور پسندیدہ ہوتے ہیں…
کل ہی خبروں میں پڑھا کہ …وہ لوگ جو ہمیں ایجنسیوں کا ایجنٹ قرار دے کر بھاگ گئے تھے…اور پاکستان فتح کرنے کا کہتے تھے…انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم اپنی کارروائیاں افغانستان تک محدود کر رہے ہیں…پاکستان میں ہم صرف’’ تبلیغ دین‘‘ کا کام کریں گے…کس منہ سے؟
کس منہ سے؟…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
آزمائش
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 462)
اﷲ تعالیٰ اپنے غضب اور عذاب سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… پہلے وزیرستان کے مسلمان بے گھر ہوئے… ان کی آہ لگی یا کس کی… اب پنجاب اور آزاد کشمیر کے لاکھوں مسلمان بھی خیمہ بستیوں میں ہیں… مقبوضہ کشمیر میں صدی کا سخت ترین سیلاب ہے اور اوپر حکمران بھی کشمیری مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں…

حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل
نائن الیون کے واقعہ کو تیرہ سال بیت چلے… اس بار بہت خاموشی سے برسی منائی گئی… تیرہ سال پہلے مسلمانوںکے خلاف جو جنگ شروع کی گئی تھی… اور اُسے دہشت گردی کے خلاف آخری اور حتمی لڑائی کا نام دیا گیا تھا… اُس جنگ نے کیا نتائج حاصل کئے؟… آج صرف اسی موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا… اور خیال جی نے ایک دلچسپ کہانی کے ذریعہ اس موضوع کے ہر پہلو پر بات کی ہے… مگر سیلاب سے تباہ حال مسلمانوں کا درد ایسا ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی اورموضوع پر لکھنا اچھا نہیں لگ رہا … جس طرف بھی نظر اٹھائیں درد ہی درد ہے اور حقیقی دردناک کہانیاں… کہیں لوگ اپنے وفات پائے ہوئے عزیزوں کو اُٹھائے پھرتے ہیں کہ پانی نے تدفین کی جگہ ہی نہیں چھوڑی… اور کہیں اسی پانی نے ہنستے کھیلتے آباد علاقوں کو خود ہی قبرستان بنا دیا ہے… پانی میں غرق ہو کر مرنا کافر اور منافق کے لئے دردناک عذاب کا آغاز ہے… فرعون کے عذاب کی ابتداء پانی میں غرق ہونے سے ہوئی… پانی کی موت بڑی سخت ہوتی ہے، بہت تکلیف دہ اور بہت ہیبت ناک… مگر مؤمن کے لئے پانی میں غرق ہو کرمرنا شہادت ہے… جبکہ مجاہد کے لئے دورانِ جہاد پانی میں غرق ہونا… ایک ایسی نعمت ہے جو ساری دنیا کی تمام نعمتوں پر بھاری ہے… ایسے شہید کو دُگنا اجر ملتا ہے اوراس کی روح اللہ تعالیٰ… خود قبض فرماتے ہیں… سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ خود استقبال فرماتے ہیں… درمیان میں فرشتوں کا واسطہ بھی نہیں رہتا…
کوئی انسان نہیں جانتا کہ اس کی موت کیسے آئے گی… ڈوب کر مریں گے یا آگ میں جل کر… چھت گرنے سے مریں گے یا سڑک کے حادثے سے… کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گایا گولی مار دے گا… سانپ بچھو کاٹے گا یا کوئی زہر دے ڈالے گا… کوئی پھانسی پر لٹکا دے گا… یا کوئی دواء اُلٹا اثر کر جائے گی… موت کے ہزاروں طریقے ہیں… بعض موتیں دیکھنے میں بڑی خوفناک نظر آتی ہیں مگر حقیقت میں بہت میٹھی ہوتی ہیں… جبکہ بعض موتیں ظاہر میں بڑی پُرسکون نظر آتی ہیں مگر وہ حقیقت میں بہت تکلیف دِہ ہوتی ہیں… مرنے و الے پر جو کچھ بِیت رہا ہوتا ہے وہ اس دنیا میں رہنے والوں کو نہ نظر آتا ہے نہ محسوس ہوتا ہے… ہاں بعض علامات سے کچھ اَندازے لگائے جا سکتے ہیں مگر وہ اندازے بھی حتمی نہیں ہوتے… مثلاً ایک آدمی موت سے پہلے سخت تکلیف میں ہوتا ہے… بہت بے چین بہت بے قرار…لوگ اسے موت کا درد سمجھتے ہیں حالانکہ وہ موت کا درد نہیں ہوتا بلکہ دنیوی بیماری کا درد ہوتا ہے جو آخری لمحے تک اُس انسان کو پاک کرتا رہتا ہے… اور جب اس کی موت شروع ہوتی ہے تو وہ بڑی آسان ہوتی ہے… بس بھائیو! اور بہنو!… موت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے اور ہمیشہ اچھی موت، اچھے خاتمے اور مقبول شہادت کی فکر اور دعاء کرنی چاہئے…
موت نے تو آنا ہے… اسے یاد کرتے رہو، اس کی تیاری کرتے رہو تو یہ ’’محبوبہ‘‘ بن کر آتی ہے… اور ایسی محبوبہ کہ جس کے آتے ہی سارے دکھ، درد اور تنہائیاں ختم ہوجاتی ہیں…اور موت سے غافل رہو تو موت ایک ایسی مصیبت بن کر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امان… اس دعاء کو روزآنہ پچیس بار توجہ سے پڑھا کریں:
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِی فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوتْ
دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو نعمتیں عطاء فرماتا ہے… ان نعمتوں کی حفاظت کا نسخہ قرآن مجید نے سورۃ الکہف میں سکھا دیا ہے… مگر اکثر لوگ اُس سے غافل ہیں… نسخہ بہت آسان ہے کہ نعمتوں کو دیکھ کر یہ کلمات پڑھو…
مَاشَائَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
اپنے گھر میں داخل ہوئے تو فوراً
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہی عطاء فرمایا ہے… میرا اس میں کوئی ہنر، کوئی کمال نہیں… اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک منٹ میں ’’بے گھر‘‘ کر دے… اس زمانہ میں جبکہ دین پر عمل کمزور ہوچکا ہے کسی مسلمان کا بے گھرہونا ایک بڑی سخت آزمائش ہے…
دین پرعمل ہوتا تو… بے گھر مسلمانوں کے لئے ہر مسلمان کا گھر عزت، احترام اور حفاظت کے ساتھ کھلا رہتا… ناموس کی حفاظت اپنے گھر سے زیادہ دوسرے مسلمانوں کے گھروں میں ہوتی … بہن بیٹی کی عزت سلامت رہتی… اور پناہ دینے والے حقارت اور نفرت کی ایک نظر بھی نہ ڈالتے… مگر اب ماحول بدل گیا ہے… مسلمانوں کے نزدیک’’مہاجر‘‘ کا لفظ نعوذ باللہ، گالی… اور حقارت کا استعارہ بن گیا ہے…اور آنکھوں سے حیاء کی نعمت چھن گئی ہے… ایسے حالات میں اپنے گھر والوں سمیت بے گھر ہوجانا بڑی سخت آزمائش ہے… اس لئے جس کے پاس جیسا بھی مکان ہے… اپنا ہو یا کرائے کا… ذاتی ہو یا کسی نے رہنے کے لئے دے دیا ہو… کچا ہویا پکّا… ہمیشہ اسے دیکھ کر اور اس میں داخل ہوتے وقت دل کے یقین سے پڑھیں:
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
یعنی یہ میرے اللہ نے مجھے دیا ہے… یہ میرے اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے… یہ میرے اللہ تعالیٰ کی مجھ پر نعمت ہے… والحمدللہ رب العالمین…
لوگ سمجھتے ہیں کہ’’ماشاء اللہ‘‘ کا مطلب ہے، بہت اچھا، بہت عمدہ… یہ درست نہیں… بلکہ ماشاء اللہ کا مطلب ہے… یہ میرا نہیں میرے اللہ تعالیٰ کا ہے… اور انہون نے محض اپنے فضل سے مجھے عطاء فرمایا ہے… اور اس میں میرا کوئی ہنر اور کمال نہیں… یہی حال ہر نعمت کا ہے… وہ ایمان کی نعمت ہو یا دین کی… وہ صحت کی نعمت ہو یا مال کی… جو فخر کرتا ہے وہ مارا جاتا ہے … جو اپنا کمال سمجھتا ہے وہ محروم رہ جاتا ہے… اورجو اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھتا ہے وہ کامیاب رہتاہے…
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
قرآن مجید میں سب کچھ موجود ہے … سیلاب کے مسئلہ پر قرآن مجید کی ایک پوری سورت بائیسویں پارے میں سورۃ سبا کے نام سے موجود ہے… ایک قوم تھی جس کا نام’’قوم سبأ‘‘ تھا… ان کا ایک شہر تھا جس کا نام’’مأرب‘‘ تھا… یہ قوم پانی کی نعمت سے مالا مال تھی… اور پانی جس کو مل جائے اُسے ہر نعمت مل جاتی ہے کیونکہ زمین پر اللہ تعالیٰ نے پانی کو… ہرنعمت کی بنیاد بنایا ہے… اس قوم سے کہا گیا کہ…
کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْالَہٗ
اپنے رب کی نعمتیں کھاؤ، خوب استعمال کرو… مگر شکر ادا کرتے رہو… ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھو… ان نعمتوں کو اپنا حق اور اپنا کمال نہ سمجھو… مگر قوم کے لوگوں نے اس نصیحت اور حکم کو بُھلا دیاا ور فخر میں پڑ گئے… وہ ان نعمتوں کو اپنا ہنر اوراپنا کمال سمجھنے لگے… دیکھو! ہم نے کس طرح سے پانی کو بڑا بند اور ڈیم بنا کر… اپنے قابو میں کر لیا ہے … اور اب یہ پانی ہم اپنی مرضی سے استعمال کر کے… باغات اور زمینوں کو آباد کرتے ہیں… دیکھو! ہم تجارت میں کتنے ماہر ہیں کہ بین الاقوامی راستوں پر… اپنا کاروبار چمکا چکے ہیں… اب ہر کوئی ہمارا محتاج ہے… اسی طرح اپنی پلاننگ، اپنی ٹیکنالوجی او ر اپنی تاجرانہ سوچ پر فخر… اللہ تعالیٰ نے پانی کو اشارہ فرمایا… پانی ایسا بپھرا کہ اُن کے بند اور ڈیم تنکوں کی طرح بہہ گئے… بڑے بڑے باغات اور کھیتیاں کھنڈر کھلیان بن گئے… اور تجارت تباہ و برباد ہو گئی… ایک مثال دے کر قرآن مجید نے پانی اور سیلاب کا سارا معاملہ سمجھا دیا… آج ہمارے حکمرانوں کے دماغ پر… صرف اور صرف تجارت سوار ہے… تجارت کی خاطر دین بیچنا پڑے، ضمیر بیچنا پڑے، ملک بیچنا پڑے یہ سب کچھ انہیں گوارہ ہے… تجار ت کی خاطر شہداء کرام کے مقدس خون سے دن رات غداری کی جارہی ہے… تب سیلاب ہی آئے گا کوئی رحمت تو نہیں برسے گی… تجارت کوئی بُری چیز نہیں مگر تجارت ہمیشہ وہی درست ہے جو شریعت کے تابع ہو…ورنہ تجارت محض خسارہ ہی خسارہ ہے… سیلاب کی آزمائش جن مسلمانوں پر نہیں آئی… وہ سیلاب زدہ مسلمانوں کی مدد کریں… اُن کے لئے مستقل دعائیں کریں… اور اُن کی عزت و حرمت کا خیال رکھیں… اور خود استغفار کرتے رہیں… اپنی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکریں اور کثرت سے پڑھیں…
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
اگر کبھی پانی سے واسطہ پڑے تو اسماء الحسنیٰ میں سے
یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ
کا ورد پانی کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کردیتا ہے…
یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ
کتنے ہی مسلمان… ان دومبارک اسماء الحسنیٰ کی برکت سے ڈوبنے سمیت دیگر آبی آفات سے محفوظ رہے… بے شک اللہ تعالیٰ کے ’’ اسماء الحسنیٰ‘‘ میں بڑی تأثیر اور بڑی طاقت ہے… ہمیں ہمارے عظیم رب نے حکم دیا ہے کہ ہم ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مانگا کریں…
او ر وہ مسلمان جو سیلاب کی آفت کا شکار ہیں… وہ اس آفت کو اپنے لئے’’سعادت‘‘ بنا لیں… آزمائش اور ابتلاء اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے… اور یہ ایک مؤمن کو اللہ تعالیٰ کے بہت قریب کرنے کا ذریعہ ہے…
اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو دنیا کی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں… تاکہ اُن کا مقام اور اونچا ہو جائے… ان کی منزل اور قریب ہو جائے… اُن کے گناہ معاف ہو جائیں… اُن کے لئے آخرت کا بوجھ بالکل ہلکا ہو جائے… اور اُن کے لئے آخرت کی دائمی نعمتیں پکی ہو جائیں… قرآن و سنت میں غور کریں تو ایک مؤمن مسلمان پر جو دنیوی تکلیفیں اور آزمائشیں آتی ہیں… اُن کے فوائد اور ثمرات بے شمار ہیں… ان میں سے چند یہ ہیں…
(۱) گناہوں کا بالکل مٹ جانا اور معافی نصیب ہونا
(۲) آخرت کے اونچے اونچے درجات کا ملنا
(۳)اس بات کا شعور نصیب ہونا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حقوق میں کتنی کوتاہی کی ہے… اس پر اپنے نفس کو ملامت کرنے کی سعادت ملنا
(۴) اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، انکساری اورتواضع نصیب ہونا
(۵) توبہ اور استغفار کی زیادہ توفیق ملنا
(۶) دعاء کی زیادہ توفیق ملنا
(۷) بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہونا کہ… دنیا میں نعمت ملے یا نہ ملے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت قائم رہے…
(۸) محروم اور مصیبت زدہ لوگوں کے درد کو محسوس کرنے کی استعداد پیدا ہونا
(۹) دنیا سے بے رغبتی نصیب ہونا اور دنیا کے فانی ہونے کا یقین مضبوط ہونا
(۱۰) اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونے کی قوت نصیب ہونا اور اس قوت کی برکت سے ایمان کا مضبوط اور اعلیٰ درجہ نصیب ہونا…
ہماری محبتیں، ہمدردیاں او ر دعائیں… تمام مصیبت زدہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں…آپ حضرات و خواتین… مکمل صبر اور رضا کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں… اور اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل یقین کے ساتھ متوجہ ہو جائیں…
دنیا کی طرح یہاں کی مصیبتیں اوریہاں کی نعمتیں سب فانی ہیں… اصل ایمان کی نعمت ہے … اسے زنگ نہ لگنے دیں… اللہ تعالیٰ آپ سب کی آزمائش دور فرمائے اور دنیا و آخرت میں نعمتِ عافیت عطاء فرمائے
آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭ آزمائش
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 462)
اﷲ تعالیٰ اپنے غضب اور عذاب سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… پہلے وزیرستان کے مسلمان بے گھر ہوئے… ان کی آہ لگی یا کس کی… اب پنجاب اور آزاد کشمیر کے لاکھوں مسلمان بھی خیمہ بستیوں میں ہیں… مقبوضہ کشمیر میں صدی کا سخت ترین سیلاب ہے اور اوپر حکمران بھی کشمیری مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں…

حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل
نائن الیون کے واقعہ کو تیرہ سال بیت چلے… اس بار بہت خاموشی سے برسی منائی گئی… تیرہ سال پہلے مسلمانوںکے خلاف جو جنگ شروع کی گئی تھی… اور اُسے دہشت گردی کے خلاف آخری اور حتمی لڑائی کا نام دیا گیا تھا… اُس جنگ نے کیا نتائج حاصل کئے؟… آج صرف اسی موضوع پر لکھنے کا ارادہ تھا… اور خیال جی نے ایک دلچسپ کہانی کے ذریعہ اس موضوع کے ہر پہلو پر بات کی ہے… مگر سیلاب سے تباہ حال مسلمانوں کا درد ایسا ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی اورموضوع پر لکھنا اچھا نہیں لگ رہا … جس طرف بھی نظر اٹھائیں درد ہی درد ہے اور حقیقی دردناک کہانیاں… کہیں لوگ اپنے وفات پائے ہوئے عزیزوں کو اُٹھائے پھرتے ہیں کہ پانی نے تدفین کی جگہ ہی نہیں چھوڑی… اور کہیں اسی پانی نے ہنستے کھیلتے آباد علاقوں کو خود ہی قبرستان بنا دیا ہے… پانی میں غرق ہو کر مرنا کافر اور منافق کے لئے دردناک عذاب کا آغاز ہے… فرعون کے عذاب کی ابتداء پانی میں غرق ہونے سے ہوئی… پانی کی موت بڑی سخت ہوتی ہے، بہت تکلیف دہ اور بہت ہیبت ناک… مگر مؤمن کے لئے پانی میں غرق ہو کرمرنا شہادت ہے… جبکہ مجاہد کے لئے دورانِ جہاد پانی میں غرق ہونا… ایک ایسی نعمت ہے جو ساری دنیا کی تمام نعمتوں پر بھاری ہے… ایسے شہید کو دُگنا اجر ملتا ہے اوراس کی روح اللہ تعالیٰ… خود قبض فرماتے ہیں… سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ خود استقبال فرماتے ہیں… درمیان میں فرشتوں کا واسطہ بھی نہیں رہتا…
کوئی انسان نہیں جانتا کہ اس کی موت کیسے آئے گی… ڈوب کر مریں گے یا آگ میں جل کر… چھت گرنے سے مریں گے یا سڑک کے حادثے سے… کوئی پکڑ کر ذبح کر دے گایا گولی مار دے گا… سانپ بچھو کاٹے گا یا کوئی زہر دے ڈالے گا… کوئی پھانسی پر لٹکا دے گا… یا کوئی دواء اُلٹا اثر کر جائے گی… موت کے ہزاروں طریقے ہیں… بعض موتیں دیکھنے میں بڑی خوفناک نظر آتی ہیں مگر حقیقت میں بہت میٹھی ہوتی ہیں… جبکہ بعض موتیں ظاہر میں بڑی پُرسکون نظر آتی ہیں مگر وہ حقیقت میں بہت تکلیف دِہ ہوتی ہیں… مرنے و الے پر جو کچھ بِیت رہا ہوتا ہے وہ اس دنیا میں رہنے والوں کو نہ نظر آتا ہے نہ محسوس ہوتا ہے… ہاں بعض علامات سے کچھ اَندازے لگائے جا سکتے ہیں مگر وہ اندازے بھی حتمی نہیں ہوتے… مثلاً ایک آدمی موت سے پہلے سخت تکلیف میں ہوتا ہے… بہت بے چین بہت بے قرار…لوگ اسے موت کا درد سمجھتے ہیں حالانکہ وہ موت کا درد نہیں ہوتا بلکہ دنیوی بیماری کا درد ہوتا ہے جو آخری لمحے تک اُس انسان کو پاک کرتا رہتا ہے… اور جب اس کی موت شروع ہوتی ہے تو وہ بڑی آسان ہوتی ہے… بس بھائیو! اور بہنو!… موت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے اور ہمیشہ اچھی موت، اچھے خاتمے اور مقبول شہادت کی فکر اور دعاء کرنی چاہئے…
موت نے تو آنا ہے… اسے یاد کرتے رہو، اس کی تیاری کرتے رہو تو یہ ’’محبوبہ‘‘ بن کر آتی ہے… اور ایسی محبوبہ کہ جس کے آتے ہی سارے دکھ، درد اور تنہائیاں ختم ہوجاتی ہیں…اور موت سے غافل رہو تو موت ایک ایسی مصیبت بن کر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امان… اس دعاء کو روزآنہ پچیس بار توجہ سے پڑھا کریں:
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِی فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوتْ
دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو نعمتیں عطاء فرماتا ہے… ان نعمتوں کی حفاظت کا نسخہ قرآن مجید نے سورۃ الکہف میں سکھا دیا ہے… مگر اکثر لوگ اُس سے غافل ہیں… نسخہ بہت آسان ہے کہ نعمتوں کو دیکھ کر یہ کلمات پڑھو…
مَاشَائَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
اپنے گھر میں داخل ہوئے تو فوراً
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہی عطاء فرمایا ہے… میرا اس میں کوئی ہنر، کوئی کمال نہیں… اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک منٹ میں ’’بے گھر‘‘ کر دے… اس زمانہ میں جبکہ دین پر عمل کمزور ہوچکا ہے کسی مسلمان کا بے گھرہونا ایک بڑی سخت آزمائش ہے…
دین پرعمل ہوتا تو… بے گھر مسلمانوں کے لئے ہر مسلمان کا گھر عزت، احترام اور حفاظت کے ساتھ کھلا رہتا… ناموس کی حفاظت اپنے گھر سے زیادہ دوسرے مسلمانوں کے گھروں میں ہوتی … بہن بیٹی کی عزت سلامت رہتی… اور پناہ دینے والے حقارت اور نفرت کی ایک نظر بھی نہ ڈالتے… مگر اب ماحول بدل گیا ہے… مسلمانوں کے نزدیک’’مہاجر‘‘ کا لفظ نعوذ باللہ، گالی… اور حقارت کا استعارہ بن گیا ہے…اور آنکھوں سے حیاء کی نعمت چھن گئی ہے… ایسے حالات میں اپنے گھر والوں سمیت بے گھر ہوجانا بڑی سخت آزمائش ہے… اس لئے جس کے پاس جیسا بھی مکان ہے… اپنا ہو یا کرائے کا… ذاتی ہو یا کسی نے رہنے کے لئے دے دیا ہو… کچا ہویا پکّا… ہمیشہ اسے دیکھ کر اور اس میں داخل ہوتے وقت دل کے یقین سے پڑھیں:
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
یعنی یہ میرے اللہ نے مجھے دیا ہے… یہ میرے اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے… یہ میرے اللہ تعالیٰ کی مجھ پر نعمت ہے… والحمدللہ رب العالمین…
لوگ سمجھتے ہیں کہ’’ماشاء اللہ‘‘ کا مطلب ہے، بہت اچھا، بہت عمدہ… یہ درست نہیں… بلکہ ماشاء اللہ کا مطلب ہے… یہ میرا نہیں میرے اللہ تعالیٰ کا ہے… اور انہون نے محض اپنے فضل سے مجھے عطاء فرمایا ہے… اور اس میں میرا کوئی ہنر اور کمال نہیں… یہی حال ہر نعمت کا ہے… وہ ایمان کی نعمت ہو یا دین کی… وہ صحت کی نعمت ہو یا مال کی… جو فخر کرتا ہے وہ مارا جاتا ہے … جو اپنا کمال سمجھتا ہے وہ محروم رہ جاتا ہے… اورجو اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھتا ہے وہ کامیاب رہتاہے…
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
قرآن مجید میں سب کچھ موجود ہے … سیلاب کے مسئلہ پر قرآن مجید کی ایک پوری سورت بائیسویں پارے میں سورۃ سبا کے نام سے موجود ہے… ایک قوم تھی جس کا نام’’قوم سبأ‘‘ تھا… ان کا ایک شہر تھا جس کا نام’’مأرب‘‘ تھا… یہ قوم پانی کی نعمت سے مالا مال تھی… اور پانی جس کو مل جائے اُسے ہر نعمت مل جاتی ہے کیونکہ زمین پر اللہ تعالیٰ نے پانی کو… ہرنعمت کی بنیاد بنایا ہے… اس قوم سے کہا گیا کہ…
کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْالَہٗ
اپنے رب کی نعمتیں کھاؤ، خوب استعمال کرو… مگر شکر ادا کرتے رہو… ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان سمجھو… ان نعمتوں کو اپنا حق اور اپنا کمال نہ سمجھو… مگر قوم کے لوگوں نے اس نصیحت اور حکم کو بُھلا دیاا ور فخر میں پڑ گئے… وہ ان نعمتوں کو اپنا ہنر اوراپنا کمال سمجھنے لگے… دیکھو! ہم نے کس طرح سے پانی کو بڑا بند اور ڈیم بنا کر… اپنے قابو میں کر لیا ہے … اور اب یہ پانی ہم اپنی مرضی سے استعمال کر کے… باغات اور زمینوں کو آباد کرتے ہیں… دیکھو! ہم تجارت میں کتنے ماہر ہیں کہ بین الاقوامی راستوں پر… اپنا کاروبار چمکا چکے ہیں… اب ہر کوئی ہمارا محتاج ہے… اسی طرح اپنی پلاننگ، اپنی ٹیکنالوجی او ر اپنی تاجرانہ سوچ پر فخر… اللہ تعالیٰ نے پانی کو اشارہ فرمایا… پانی ایسا بپھرا کہ اُن کے بند اور ڈیم تنکوں کی طرح بہہ گئے… بڑے بڑے باغات اور کھیتیاں کھنڈر کھلیان بن گئے… اور تجارت تباہ و برباد ہو گئی… ایک مثال دے کر قرآن مجید نے پانی اور سیلاب کا سارا معاملہ سمجھا دیا… آج ہمارے حکمرانوں کے دماغ پر… صرف اور صرف تجارت سوار ہے… تجارت کی خاطر دین بیچنا پڑے، ضمیر بیچنا پڑے، ملک بیچنا پڑے یہ سب کچھ انہیں گوارہ ہے… تجار ت کی خاطر شہداء کرام کے مقدس خون سے دن رات غداری کی جارہی ہے… تب سیلاب ہی آئے گا کوئی رحمت تو نہیں برسے گی… تجارت کوئی بُری چیز نہیں مگر تجارت ہمیشہ وہی درست ہے جو شریعت کے تابع ہو…ورنہ تجارت محض خسارہ ہی خسارہ ہے… سیلاب کی آزمائش جن مسلمانوں پر نہیں آئی… وہ سیلاب زدہ مسلمانوں کی مدد کریں… اُن کے لئے مستقل دعائیں کریں… اور اُن کی عزت و حرمت کا خیال رکھیں… اور خود استغفار کرتے رہیں… اپنی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکریں اور کثرت سے پڑھیں…
مَاشَاء اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہْ
اگر کبھی پانی سے واسطہ پڑے تو اسماء الحسنیٰ میں سے
یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ
کا ورد پانی کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کردیتا ہے…
یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ
کتنے ہی مسلمان… ان دومبارک اسماء الحسنیٰ کی برکت سے ڈوبنے سمیت دیگر آبی آفات سے محفوظ رہے… بے شک اللہ تعالیٰ کے ’’ اسماء الحسنیٰ‘‘ میں بڑی تأثیر اور بڑی طاقت ہے… ہمیں ہمارے عظیم رب نے حکم دیا ہے کہ ہم ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مانگا کریں…
او ر وہ مسلمان جو سیلاب کی آفت کا شکار ہیں… وہ اس آفت کو اپنے لئے’’سعادت‘‘ بنا لیں… آزمائش اور ابتلاء اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے… اور یہ ایک مؤمن کو اللہ تعالیٰ کے بہت قریب کرنے کا ذریعہ ہے…
اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو دنیا کی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں… تاکہ اُن کا مقام اور اونچا ہو جائے… ان کی منزل اور قریب ہو جائے… اُن کے گناہ معاف ہو جائیں… اُن کے لئے آخرت کا بوجھ بالکل ہلکا ہو جائے… اور اُن کے لئے آخرت کی دائمی نعمتیں پکی ہو جائیں… قرآن و سنت میں غور کریں تو ایک مؤمن مسلمان پر جو دنیوی تکلیفیں اور آزمائشیں آتی ہیں… اُن کے فوائد اور ثمرات بے شمار ہیں… ان میں سے چند یہ ہیں…
(۱) گناہوں کا بالکل مٹ جانا اور معافی نصیب ہونا
(۲) آخرت کے اونچے اونچے درجات کا ملنا
(۳)اس بات کا شعور نصیب ہونا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حقوق میں کتنی کوتاہی کی ہے… اس پر اپنے نفس کو ملامت کرنے کی سعادت ملنا
(۴) اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، انکساری اورتواضع نصیب ہونا
(۵) توبہ اور استغفار کی زیادہ توفیق ملنا
(۶) دعاء کی زیادہ توفیق ملنا
(۷) بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہونا کہ… دنیا میں نعمت ملے یا نہ ملے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت قائم رہے…
(۸) محروم اور مصیبت زدہ لوگوں کے درد کو محسوس کرنے کی استعداد پیدا ہونا
(۹) دنیا سے بے رغبتی نصیب ہونا اور دنیا کے فانی ہونے کا یقین مضبوط ہونا
(۱۰) اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونے کی قوت نصیب ہونا اور اس قوت کی برکت سے ایمان کا مضبوط اور اعلیٰ درجہ نصیب ہونا…
ہماری محبتیں، ہمدردیاں او ر دعائیں… تمام مصیبت زدہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں…آپ حضرات و خواتین… مکمل صبر اور رضا کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں… اور اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل یقین کے ساتھ متوجہ ہو جائیں…
دنیا کی طرح یہاں کی مصیبتیں اوریہاں کی نعمتیں سب فانی ہیں… اصل ایمان کی نعمت ہے … اسے زنگ نہ لگنے دیں… اللہ تعالیٰ آپ سب کی آزمائش دور فرمائے اور دنیا و آخرت میں نعمتِ عافیت عطاء فرمائے
آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مختصر، مختصر
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 460)
اللہ تعالیٰ میری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے…آج کچھ مختصر باتیں
توبہ، اِستغفار نہ چھوڑیں
اگر شیطان اور نفس کا غلبہ ایسا ہو چکا کہ گناہ نہیں چھوٹتے…بار بار ہو جاتے ہیں تو بس ایک ہمت کریں کہ توبہ کرنا نہ چھوڑیں…اِستغفار سے نہ بھاگیں …شیطان توبہ اور اِستغفار کے وقت طرح طرح کے وسوسے ڈالے گا…منہ چڑائے گا…منافق منافق کے نعرے لگائے گا…مگر آپ لگے رہیں…
معافی مانگتے رہیں،معافی مانگتے جائیں…کوئی گناہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے بڑا نہیں…اور یہ سوچنا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف نہیں فرمائے گا…ہاں بس! گناہ کو گناہ سمجھیں،اس پر نادم ہوں اور اسے برا سمجھیں…’’اہل ھویٰ‘‘ اس لئے مارے جاتے ہیں کہ وہ اپنے گناہ کو نیکی سمجھ بیٹھتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے…
محدود اور وسیع
آج کل ایک نیا شوشہ میڈیا میں اُڑ رہا ہے… محدود نظریہ والے جہادی اور وسیع نظریہ والے جہادی…وہ جو افغانستان میں چالیس ملکوں کی فوج سے لڑ رہے ہیں…اور کشمیر میں بھارتی سامراج سے برسرپیکار ہیں…ان کو ’’محدود جہادی‘‘ اور ایجنسیوں کا غلام قرار دیا جا رہا ہے…اور جو صرف پاکستانی حکومت سے لڑ رہے ہیں وہ ہیں…عالمی جہادی، وسیع نظریہ والے جہادی…ایسی نابغۃ العصر جاہلانہ تشریح…زندگی میں پہلی بار سنی ہے…اکتالیس طاقتوں سے لڑنے والے محدود اور غلام…اور ایک طاقت سے لڑنے والے وسیع اور آزاد…بلکہ یہ بھی سنا ہے کہ…کچھ لوگ سرے سے جہاد میں اُترے ہی نہیں… وہ صرف انٹرنیٹ پر ویڈیو چلانے اور انگلیاں گھمانے کا کام کرتے ہیں …مگر اُن کا خیال یہ ہے کہ…وہ ’’انٹرنیشنل مجاہد‘‘ اور بہت بڑے جہادی ہیں…
اللہ تعالیٰ نفس اور شیطان کے فریب سے تمام اہلِ اسلام اور تمام اہلِ جہاد کی حفاظت فرمائے…ہر مجاہد ایمان اور تقویٰ کی راہ چلے اور خود اپنے مال،جان، وقت کی قربانی دے…بس یہی بڑی کامیابی ہے…باتیں کرنا،تنقید کرنا،غیبت کرنا،فخر اور عجب میں مبتلا ہونا…کوئی کمال کی بات نہیں…
داعش کا شکریہ
داعش نے امریکی جاسوس’’جیمز فولی‘‘ جو صحافی کے روپ میں کام کر رہا تھا کے بدلے…محترم بہن جی عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا…امریکہ نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا،جس کے نتیجے ’’جیمزفولی‘‘ جان سے گیا…بہن جی کی رہائی کا مطالبہ پورے عالم اِسلام کے جذبات کی ترجمانی ہے…عافیہ صدیقی سب مسلمانوں کی محترم بہن ہیں…اور ان کی آزادی کا خواب ہر مجاہد کی آنکھ میں چمکتا ہے…داعش نے بہن جی کی رہائی کے لئے ایک کوشش کی…اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطاء فرمائے اور فتنوں سے ان کی حفاظت فرمائے…ایسے مطالبات اور ایسی کوششیں کامیاب نہ بھی ہوں تب بھی ان میں کامیابی پوشیدہ ہوتی ہیں…عالم کفر کے سامنے اُمت مسلمہ کی غیرت اور باہمی دردمندی کا ثبوت آ جاتا ہے…اور یہ ثبوت ان پر رُعب طاری کر دیتا ہے…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ…ایسی مبارک کوششوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے…امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا…
داعش والوں کا شکریہ! …
خوش آمدید
جہاد کی عمومی برکات ظاہر ہو رہی ہیں…اور الحمد للہ پوری دنیا میں اِسلام تیزی سے پھیل رہا ہے…یہ بڑا حوصلہ افزا اِتفاق ہے کہ جب بھی خبریں پڑھتے ہیں تو کسی نہ کسی معروف شخصیت کے مسلمان ہونے کی خبر دل کو باغ باغ کر دیتی ہے…ایسا پہلے نہیں تھا…یہ سب جہاد کے پھیلاؤ کے بعد ہوا کہ مسلمانوں کو مانا جا رہا ہے،دیکھا جا رہا ہے اور ان کے وجود کو تسلیم کیا جا رہا ہے…اور اُن دینی کاموں کو سرپر بٹھایا جا رہا ہے جن میں جہاد کی بات نہیں ہے…چنانچہ اسلام کی روشنی ہر طرف پہنچ رہی ہے…معروف شخصیات کے علاوہ …جو غیر معروف افراد مسلمان ہو رہے ہیں ان کی تعداد بے شمار اور ان کا اسلامی جنون قابل رشک ہے…موجودہ زمانے میں کامیابی کا سفینہ ایک ہی ہے…اور وہ ہے ’’سفینۂ اسلام‘‘ اس سفینے پر سوار ہونے والے نئے بھائیوں اور بہنوں کو …سلام اور خوش آمدید…
بے شک شہدائِ اسلام کا خون…خوب رنگ لا رہا ہے…
مجاہدین اور میڈیا
مجاہدین کی کامیابی اسی میں ہے کہ …وہ مروّجہ میڈیا سے دور رہیں،ہوشیار رہیں اور اس سے بچیں…اگر تمام مجاہدین مکمل عزم کے ساتھ یہ کام کر لیں تو جہاد کی منزل بہت قریب آ سکتی ہے…اس میڈیا نے مجاہدین کو لڑایا،گمراہ کیا، مروایا اور فتنوں میں ڈالا…مجاہدین کو چاہیے کہ خالص اسلامی اصولوں پر اپنا میڈیا فعال کریں…اپنی کتابیں،رسائل ،اپنے اخبارات…اور اپنا مواصلاتی نظام…اپنا سمعی بصری نظام…یاد رکھیں! دنیا بھر کا میڈیا آپ کا محتاج ہے…مگر جب آپ خود کو ان کا محتاج بناتے ہیں…اُن کے ہر سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں…اور ان کے ہاں موجود رہنے کو ہی اپنی زندگی سمجھتے ہیں تو …ناکامیاں اور فتنے آپ کو گھیر لیتے ہیں…شہرت پسندی سے بچیں اور شہادت پسندی کو اپنا شعار بنائیں…اگر آپ زندہ نظر آنا چاہتے ہیں تو اپنے عمل سے نظر آئیں…نہ کہ اپنی تصویروں اور میڈیا بیانات کے ذریعے…
کسی کو یہ بات سمجھ نہ آئے تو…وہ مُردہ قذافی کی تصاویر،ڈرامے اور ناٹک شمار کر لے…
لیبیا سے ٹھنڈی ہوا
براعظم افریقہ کے تاریخی اسلامی ملک… لیبیا سے اسلامی جہاد کی ٹھنڈی ہوائیں چل پڑی ہیں …یہ اس پورے خطے کے لئے بہت اہم پیش رفت ہے…مصر وغیرہ کے طواغیت تو ابھی سے ایسے خوفزدہ ہیں کہ…وہ لیبیا کے مجاہدین پر بمباری بھی کر آئے ہیں…ان کے پڑوس میں غزہ دن رات ذبح ہوتا رہا…ڈھائی ہزار مسلمان شہید اور ایک لاکھ مسلمان زخمی ہو گئے…مگر مصر نے اسرائیل کی طرف ایک تھوک بھی نہ پھینکی…لیکن لیبیا کے مجاہدین پر بمباری کرنا انہوں نے ضروری سمجھا…لیبیا کے مجاہدین کو سلام…
تین سو تیرہ میں سے پینسٹھ
اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر’’ تین سو تیرہ‘‘ مساجد کا ارادہ ’’جماعت‘‘ نے کر رکھا ہے…الحمد للہ ’’اٹھاون‘‘مساجد تعمیر ہو چکی ہیں…اس سال ان شاء اللہ کوشش کریں گے کہ ان تمام مساجد کا تعارف اور تصاویر ڈائری میں آ جائیں…یہ اٹھاون مساجد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعمیر ہوئی ہیں…ورنہ ہم بے وسائل لوگوں کے بس میں ایک مسجد بھی نہ تھی…اس سال ان شاء اللہ سات مساجد مزید تعمیر کی جائیں گی…ان سات مساجد کی فہرست اور تعیین حتمی ہو چکی ہے…جس کا اعلان…ان شاء اللہ عید الاضحی کے فوراً بعد کر دیا جائے گا…اور کوشش ہو گی کہ رمضان المبارک تک ان تمام مساجد میں اذان گونجے،خطبہ جمعہ اور با جماعت نماز کا نور چمکے…تمام رُفقائِ کار کو مبارک…اللہ تعالیٰ سے نصرت اور قبولیت کی اِلتجا ہے…
لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
٭…٭…٭
مؤثر نسخہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 459)
اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے جہاد میں کامیابی کا نسخہ ارشاد فرما دیا ہے:
واذکرواللّٰہ کثیرالعلکم تفلحون
اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو…کامیابی یقینی ہے…
الحمد للہ پشاور میں دورہ تربیہ شروع ہو چکا ہے …اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ آگے چل کر ملک کے ہر ڈویژن میں یہ مبارک دورہ شروع ہو جائے گا…
سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم
دین کا درد رکھنے والے افراد کے لئے کتنی آسانی ہو گئی…ہر شخص خود نہ تو اچھی طرح دین سمجھا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں پھنسے ہوئے کسی مسلمان کا ذہن درست کر سکتا ہے…
اب آسانی ہو گئی کہ… دعوت دے کر،منت سماجت کر کے ’’دورہ تربیہ‘‘ میں لے آئے… یہاں ماشاء اللہ سب کچھ ہے…الف اللہ سے بات شروع ہوتی ہے…کلمہ دل میں اترتا ہے اور پھر دین کی سب سے اونچی چوٹی’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ تک بات پہنچ جاتی ہے…
ماحول میں نورانیت ہوتی ہے…خدمت اور رہنمائی کے لئے اہل محبت…اکرام اور محبت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں…اور گناہوں سے الحمد للہ دوری کا ماحول ملتا ہے…
آپ اندازہ لگائیں کہ …دین کے دشمن کیسے سرگرم ہوئے کہ…فتنوں اور گناہوں کو ہر مسلمان کے گھر میں داخل کر دیا…گھر تو اب بڑی بات ہر مسلمان کی جیب میں گناہوں اور فتنوں کا پورا سامان پہنچا دیا گیا ہے…ظالموں نے دن رات محنت کی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے بندوں کو گمراہ کریں…اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے دور کریں…یہ ان کی محنت ہے کہ آج ہر گناہ سستا ہو گیا،آسان ہو گیا، ہر کسی کو میسر ہو گیا…اور اللہ معاف فرمائے ہر کسی کی زندگی اور معاشرے کا حصہ بن گیا…اب کون کس کی نگرانی کرے…اور کون کس کو گناہ سے باز رکھے…سود کی لعنت ایسی عام کر دی کہ مسلمان حلال کو ترسے…ہر طرف جوا ہی جوا اور سود ہی سود ہے…
صرف ایک گھنٹے میں ہر کسی کو اس کے موبائل پر…پانچ بار گناہ کی دعوت ملتی ہے…لاٹری کھیل لو…گانے سن لو…بدمعاشی دیکھ لو…سودی انعامی مقابلے میں کود پڑو…میوزک بجا لو…آہ افسوس! اس ماحول نے دل کی مٹھاس اور چہرے کا پانی چھین لیا…
دل ایسے سخت اور قساوت زدہ ہوئے کہ دو آنسو بھی اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ٹپکتے…موبائل فون ہر کسی کے گلے میں بندھی ہوئی رسی ہے…یا یوں سمجھیں کہ ناک کی نکیل ہے… ایک منٹ فارغ نہیں چھوڑتا کہ انسان کچھ اپنے اندر جھانک لے…اپنی روح کو کچھ وقت دے …اپنے دین کو کچھ درست کرے…اپنی قبر کی کچھ فکر کرے…
موبائل نے انسان کو ایک بے وقوف مشین بنا دیا ہے…فلاں گر گیا،فلاں اٹھ گیا، فلاں بیمار ہے،فلاں کا ایکسیڈینٹ ہو گیا…فلاں آخری سانس لے رہا ہے…فلاں یہ کہہ رہا ہے …اب ہم فلاں،فلاں اور فلاں کے ہو گئے… اور ’’اپنے‘‘ نہ رہے…
اپنے لئے تو ہمارے پاس وقت ہی نہیں کہ کچھ اپنا بھی بنا لیں کہ…آگے جب اکیلی قبر میں ہوں گے تو وہاں ہمارے ساتھ جائے گا اور کام آئے گا…
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے … بات یہ چل رہی تھی کہ اہل فساد اور اہل فتنہ نے دن رات محنت کی…اور ہر گناہ کو ہمارے گھر کے دروازے تک پہنچا دیا…کیا ’’اہل دین‘‘ کا فرض نہیں بنتا کہ وہ محنت کریں اور مسلمانوں کو گناہوں کے ماحول سے نکال کر …خالص دینی ماحول میں لے جائیں …ساز اور گانے کے شور سے نکال کر …اللہ، اللہ ، اللہ کی صداؤں میں لے جائیں… دنیا کی تنگی اور گھٹن سے نکال کر…آخرت کی وسعت یاد دلانے والی جگہوں پر لے جائیں… دنیا پرستی کے تعفن سے نکال کر…شوق شہادت کی خوشبوؤں میں لے جائیں…الحمد للہ دورہ تربیہ کا نصاب ایک مسلمان کو ایمان،ذکر ،جہاد ہر ایک کی لذت چکھاتا ہے…اور زندگی کو تنگ گلی سے نکال کر کھلی شاہراہ پر ڈالتا ہے…آپ اپنے بچوں پر بھی یہ احسان کریں کہ جو بالغ ہو چکے ان کو دورہ تربیہ میں بھیجیں اور بار بار بھیجیں…آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی یہ بڑی بھلائی کریں…وہ رشتہ دار مالدار ہوں یا غریب آپ ان کے پاس چل کر جائیں…اور انہیں منت سماجت کے ساتھ ترغیب دیں کہ…آپ اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے اپنی زندگی کا ایک ہفتہ دے دیں…ان شاء اللہ اس ایک ہفتہ کی روشن راتیں اور معطر دن آپ کے بہت کام آئیں گے…یہی دعوت اپنے پڑوسیوں کو بھی دیں…جماعت کے ذمہ دار دورہ تربیہ کی قدر کریں اور اس میں بڑھ چڑھ کر خود حصہ لیا کریں…اپنے اندر ایمانی کیفیات مضبوط ہوں گی تو ہماری دعوت میں بھی برکت ہو گی اور ہمارے اوقات میں بھی…
اہل برکت،بہت تھوڑے وقت میں سالہا سال کا کام کر لیتے ہیں…اپنے نفس کی اصلاح ہر مسلمان کے ذمہ لازم اور فرض ہے…دورہ تربیہ اصلاح نفس کا بہترین اور آسان نسخہ ہے…ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کرتا رہے اور دورہ تربیہ ایمان کی تجدید کا بہترین ذریعہ ہے…اپنے گناہوں پراستغفار اور سچی توبہ کرنا یہ ہر مسلمان کے لئے لازم ہے…دورہ تربیہ سچی توبہ اور سچے استغفار کی بہترین مجلس ہے …جہاد کو ماننا فرض ہے اور جہاد میں نکلنا بھی فرض ہے…جہاد کو مانے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا… اور جہاد میں نکلے بغیر اعمال صالحہ کی بلند چوٹی نصیب نہیں ہوتی…دورہ تربیہ جہاد سمجھاتا ہے اور جہاد کی راہیں دکھاتا ہے…ذکر اللہ ہر عمل کی روح ہے… ذکر ہی میں مسلمانوں کی اصل ترقی ہے …اور ذکر ہی تمام اعمال کا سرتاج ہے…دورہ تربیہ ذکر اللہ کی شاندار محفل ہے…کئی لوگوں نے بتایا کہ ہم نے دورہ تربیہ کے سات دنوں میں جتنا ذکر کیا ہے…اتنا اپنی پوری سابقہ زندگی میں نہیں کیا تھا…
جب بندہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کا ذکر فرماتے ہیں:
سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم
محبت پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے…
ویحبھم
یہ محبت دل میں اتر کر اس دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے محبت پیدا کرتی ہے
ویحبونہ
یعنی عرش کے اوپر سے محبت آتی ہے…اور مومن کے دل میں اتر جاتی ہے…پھر اس دل سے محبت بلند ہوتی ہے…اور عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتی ہے…
ویحبھم ویحبونہ
اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرماتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں
ذکر اللہ اسی محبت کا پھل ہے…بہت میٹھا اور بہت لذیذ پھل
اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ
نماز ایک مسلمان کے لئے…اس کی زندگی کا سب سے اہم کام اور اہم فریضہ ہے…دورہ تربیہ …نماز سکھاتا ہے،نماز سمجھاتا ہے اور فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا ذوق عطاء کرتا ہے…دراصل نماز اسی مسلمان کی محفوظ رہتی ہے جس کو نوافل کا ذوق ہو…تب فرائض ،واجبات اور سنن اس کے لئے بہت آسان ہو جاتے ہیں…الغرض دورہ تربیہ ایک مختصر سا نصاب مگر بہت انمول نعمت ہے…اہل پشاور کو مبارک کہ ان کے ہاں یہ ’’دورہ‘‘ پہنچ گیا…زندگی مختصر ہے اس دورہ سے خوب فائدہ اٹھائیں…یہ دورہ زندگی کو قیمتی اور کامیاب بنانے کا مؤثر نسخہ ہے…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
’’امیر المومنین‘‘ کی فراست
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 458)
’’اللہ تعالیٰ‘‘ حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کی حفاظت فرمائے…اور انہیں اس وقت موجود پوری امت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے…ماشاء اللہ انہوں نے تاریخ اسلام کی گود میں ایک بڑی فتح ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے…ایک ایسی فتح جسے کبھی نہیں بھلایا جا سکے گا…ایک ایسی فتح جو تاقیامت مسلمانوں کا عزم اور حوصلہ بڑھاتی رہے گی…
سبحان اللہ! کارنامہ ہو تو ایسا ہو…نہ سنانے کی ضرورت،نہ منوانے کی حاجت…ساری دنیا خود کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے…افغانستان میں ’’امیر المومنین‘‘ کی فتح اللہ تعالیٰ کی کھلی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے…یہ آیۃ من آیات اللہ ہے…وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت سے ہو گیا جو کل تک نا ممکن نظر آتا تھا…قارئین سوچتے ہوں گے کہ آج کے ماحول میں…جبکہ ہر طرف جلوس،لانگ مارچ اور دھرنوں کی گہما گہمی ہے…میں یہ کیا موضوع لے کر بیٹھ گیا ہوں…مگر آپ ہی بتائیں کہ دھرنوں اور لانگ مارچوں پر کیا لکھا جائے؟…سب کچھ خبروں میں آ رہا ہے…اخبارات،ٹی وی، اور نیٹ سب پر تازہ ترین صورتحال دستیاب ہے… موجودہ حکومت بھی اس قابل نہیں کہ اس کی حمایت یا وکالت کی جائے … ہندوستان میں مسلمانوں کے قاتل کو جس طرح ساڑھیاں بھیج کر…شہداء کشمیر…شہداء ہند کے مبارک اور معطر خون سے غداری کی گئی…اس کا فوری رد عمل زمین پر جلوہ افروز ہوا کہ…کل تک جو تکبر اور رعونت کا بت بنے بیٹھے تھے…آج وہ خوف،گھبراہٹ اور عدم تحفظ کے احساس میں گردن تک دفن ہیں…شہداء کا وارث اللہ تعالیٰ ہے وہ اپنے ان وفادار عاشقوں کے کام،عمل اور اجر کی حفاظت فرماتا ہے…یہ حکمران بے چارے تو چار دن کھا پی کر…عیاشی کر کے،خزانے جمع کر کے مر کھپ جاتے ہیں…جبکہ شہداء کرام زندہ رہتے ہیں…اور زندہ رہیں گے…کشمیر میں تو ایسے ایسے اللہ والے صدیقین شہید ہوئے کہ وہ…اس زمانے میں اپنی مثال آپ تھے…حالیہ حالات میں اگر موجودہ حکومت ختم ہوئی تو اس کا اصل اور حقیقی سبب ایک ہی ہو گا…اور وہ ہے قاتل انڈیا کے ساتھ ناجائزیاری کا جذبہ…واقعی یہ جذبہ منحوس ہے،ناپاک ہے اور ناجائز ہے…اور آج کل حکومت اسی نحوست کے وبال میں ہے…یہ بات تو ہوئی حکومت کی…جبکہ دوسری طرف دھرنے والے جو دو حضرات ہیں ان کی تائید اور حمایت بھی بہت مشکل کام ہے…ایک تو ان میں کافروں کا چھوڑا ہوا غبارہ ہے…جبکہ دوسرا بالکل بے اعتبارا ہے … اسی لئے اس موضوع پر نہ کچھ لکھا ہے اور نہ ہی لکھنے کا فی الحال ارادہ ہے…الا ان یشاء اللہ
اب سوال یہ ہے کہ حضرت ملا محمد عمر صاحب مدظلہ العالی آج کیسے یاد آ گئے؟…پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ آج یاد نہیں آئے ،روز یاد آتے ہیں اور بار بار یاد آتے ہیں…ان کے ساتھ ہمارا تعلق دنیا کے لئے نہیں آخرت کی کامیابی کے لئے ہیں…اور جو تعلق آخرت میں کام آنے والا ہو وہ بہت قیمتی ہوتا ہے…
جی ہاں! بے حد قیمتی…ایسے تعلق کی حفاظت کے لئے انسان کو جو قربانی دینی پڑے خوشی سے دے دینی چاہیے … کیونکہ آخرت میں ہمیشہ رہنا ہے…حقیقی محبت کا جذبہ انسان کو اندر سے بے حد مضبوط کر دیتا ہے…اور یہ وہ محبت ہوتی ہے جو کسی دنیاوی نقصان سے کم نہیں ہوتی…محبوب سے ملاقات ہوتی ہے یا نہیں؟حقیقی محبت کو اس کی ضرورت نہیں:
’’جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘‘
محبوب اس محبت کی قدر کرتا ہے یا نہیں؟…حقیقی محبت کو اس کی بھی ضرورت نہیں…محبت تو انسان کے اپنے اندر ہوتی ہے…اور یہ محبت خود محبت کرنے والے کو طرح طرح کے فوائد عطا کرتی ہے…اپنی مختصر سی زندگی میں بہت سے اہل دل اور اہل کمال کو دیکھا…اللہ تعالیٰ نے ایک زمانہ میں سیاحت فی الارض بھی آسان فرما دی تھی…ملک ملک نگر نگر کا پانی پیا…اور اصحاب کمال سے ملاقاتیں نصیب ہوئیں… ماشاء اللہ …اللہ تعالیٰ کی زمین کبھی صادقین،صدیقین اور اولیاء کرام سے خالی نہیں ہوتی…
سب اہل دل اور اہل بصیرت کو سلام…مگر حضرت ملا محمد عمر مجاہد کی بات ہی کچھ اور ہے…
اللہم اغفرلہ واحفظہ وبارک لہ
ان سے بہت کم ملاقات رہی…الحمد للہ ایسا تعلق بن گیا تھا کہ مزید صحبت کی امید بن چلی تھی کہ اچانک وہ بادلوں میں چھپ گئے…اپنی رائے کسی پر نہیں ٹھونستا مگر اس کا اظہار ضرور کرتا ہو ں کہ…اپنی زندگی میں ان جیسا باکمال کوئی اور نہیں دیکھا…
ماشاء اﷲ لا قوۃ الا باﷲ وبارک اﷲ علیہ ولہ
اب وہ بادلوں کے پیچھے ہیں…مگر روشنی تو چھم چھم آتی ہے نا؟…وہ روشنی جو مایوسی کی رات نہیں پڑنے دیتی…یہ تو ہوئی پہلی بات…اب آئیے دوسری بات کی طرف کہ آج وہ خاص طور سے کیوں یاد آئے کہ ہماری محفل کو ہی مہکا دیا …دراصل شام و عراق میں مجاہدین کی جماعت…الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام…کے بارے آجکل دینی طبقوں میں طرح طرح کی بحثیں گرم ہیں…کچھ بحثیں تو بالکل فضول،لا یعنی اور ضرر رساں ہیں…ٹویٹر اور فیس بک پر لاکھوں مسلمان…ان لا یعنی بحثوں میں الجھ کر اپنے اعمال اور اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں…القلم کے صفحات پر عزیزم مولانا طلحہ السیف کا اس بارے مضمون بہت عمدہ اور نافع تھا…ان بحثوں میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفریق اور تفرقے میں اضافہ ہوتا ہے…اور آپس کی طعن تشنیع اور گالم گلوچ سے اعمال بھی برباد ہوتے ہیں…بہت سے افراد کو اپنی زبان کی خارش اور کھجلی دور کرنی ہوتی ہے… یہ لوگ قرآن مجید کا ایک پارہ تلاوت کریں تو تھک جاتے ہیں…جبکہ اس طرح کی بحثوں میں گھنٹوں تک بک بک کرنا یا کمپیوٹر سے جڑے رہنا ان کے لئے آسان ہوتا ہے…اللہ تعالیٰ اس بری عادت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے…شام کا جہاد بھی مبارک ہے… فلسطین کا جہاد بھی مبارک ہے…افغانستان کا جہاد بھی مبارک ہے … کشمیر کا جہاد بھی مبارک ہے…الغرض جہاں بھی شرعی شرائط کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ ہو رہا ہے وہ مبارک ہے…ہمیں اپنی مکمل استطاعت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں لگ جانا چاہیے…جہادی تربیت لینا،محاذوں پر جانا… جان سے جہاد کرنا،مال سے جہاد کرنا…زبان کے ذریعہ جہاد کی دعوت دینا وغیرہ…اور اس میں ترتیب یہ ہو گی کہ ہمیں جہاد کا جو محاذ میسر ہو ہم اس میں اپنی مکمل صلاحیتیں لگا دیں…نفس اور شیطان کا دھوکہ یہ ہے کہ قریب ہی جہاد موجود ہوتا ہے…اور شیطان بہکاتا ہے کہ نہ ابھی شرکت نہ کرو… حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کی علامات قریب ہیں وہ تشریف لائیں گے تو ان کے ساتھ نکل کر لڑنا…بس اس انتظار میں عمر کٹ جاتی ہے،جسم اور عزائم کمزور ہو جاتے ہیں…اور جہاد میسر ہونے کے باوجود محرومی قسمت بن جاتی ہے…اسی طرح یہ خیال کہ…میں صرف فلاں جگہ جا کر لڑوں گا؟…اللہ کے بندو!جس جہاد کی کمان زمانے کا معتبر ترین مسلمان…ملا محمد عمر مجاہد کر رہا ہو…اس جہاد سے رکے رہنا اور دور دور کی تیاریوں میں اپنا وقت لگانا…یہ کون سی دانش ہے اور کونسا کارنامہ؟…قریب ہی غزوہ ہند کی بہاریں ہیں جس میں حافظ سجاد خان شہید، غازی بابا شہیدؒ… اور افضل گورو شہیدؒ اونچی چوٹیوں سے مسکراتے ہیں…اسے چھوڑ کر بیٹھے رہنا کہ میں نے تو دور جا کر لڑنا ہے…پھر بتائیے کہ اگر یہ سوچ یہاں سب کی ہو گئی تو… ان دشمنان اسلام سے کون لڑے گا؟…اگر یہ سوچ سب کی ہو جاتی تو اسلام کی تاریخ میں اتنی بڑی فتح کیسے لکھی جاتی کہ…آج چالیس ملکوں کے لشکر زخمی زخمی شکست خوردہ اپنا سامان باندھ کر بھاگ رہے ہیں…اور افغانستان میں لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کا ڈنکا بج رہا ہے…خیر یہ بات تو درمیان میں آ گئی…عرض یہ کرنا تھا کہ اس وقت علمی طبقوں میں …مسئلہ خلافت اور مسئلہ امارت بہت شدت کے ساتھ زیر بحث ہے…اور یہ بحث لا یعنی بھی نہیں…کیونکہ زمین پر خلافت قائم کرنا…دین اسلام کے عظیم ترین مقاصد میں سے ہے…اس میں ایک یہ نکتہ سمجھ لیں تو ان شاء اللہ گمراہی سے حفاظت رہے گی…شادی صرف ’’دعوی‘‘ کرنے سے نہیں ہو جاتی…کوئی آدمی دعوی کر دے کہ میں فلاں حکمران کا داماد ہوں…کیا یہ کہہ لینے سے اسے ’’داماد‘‘ کے حقوق مل جائیں گے؟…جواب واضح ہے حقوق تو بالکل نہیں ملیں گے البتہ جوتے وغیرہ پڑ سکتے ہیں…بس اس طرح کوئی یہ دعوی کر دے کہ میں ’’خلیفہ‘‘ ہوں…اس دعوے کا کوئی وزن،کوئی اعتبار اور کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے…آج کل کوئی لوگ ’’مہدی‘‘ ہونے کا دعوی کرتے ہیں…ارے اللہ کے بندو! مہدی کو کسی دعوے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی…وہ خود زمین پر چھا جائیں گے…اور ان کی خلافت و حکومت ہر کسی کو اپنی آنکھوں سے نظر آئے گی…دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اصل میں مسلمانوں کا خلیفہ ساری دنیا میں ایک ہوتا ہے…ایسا کئی صدیوں تک رہا…اور ان شاء اللہ قرب قیامت میں پھر ایسا ہو جائے گا…ایسی خلافت کو ’’خلافت کبری‘‘ کہتے ہیں…تیسری بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں سے خلافت کبری کی نعمت چھن گئی اور مسلمان کئی ملکوں اور ٹکڑوں میں بٹ گئے تو ایسے حالات میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان حاکم کو زمین کے کسی خطے پر غلبہ نصیب ہو جائے…وہ وہاں قبضہ کر لے…اس کا حکم وہاں نافذ ہوتا ہو تو یہ شخص اس خطے کے مسلمانوں کا حاکم یا امیر ہو گا…اسلام اس کی حاکمیت اور امارت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کے زیر انتظام مسلمانوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہے…شرط یہ ہے کہ وہ اسلامی حاکمیت کے اصول پورے کرے…اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے خلاف حکم نافذ نہ کرے … اب اگر اس علاقے کے مسلمان اپنے اس حاکم یا امیر کو ’’خلیفہ‘‘ کا لقب دے دیں تو یہ بھی جائز ہے…مگر اس کی امارت یا خلافت بس وہاں تک ہوگی…جہاں تک اس کا حکم نافذ ہوتا ہے…وہ دور کے مسلمان جو دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں…یہ نہ ان کا خلیفہ ہوگا اور نہ ہی امیر… کیونکہ خلیفہ وہ ہوتا ہے کہ جس کی کمان میں جہاد کیا جائے…جو دشمنوں سے تحفظ فراہم کرتا ہو…جو مظالم میں انصاف دے سکے…اب جب آپ ایک ملک میں رہتے ہیں…اور خلیفہ دوسرے ملک میں ہے تو و ہ آپ کا حاکم اور خلیفہ کس طرح ہو سکتا ہے؟…جہاں اس کا حکم ہی نہیں چلتا تو وہ وہاں کا حاکم کیسا؟…اب حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد…دامت برکاتہم العالیہ کی دینی فراست اور زمینی حقائق پر نظر دیکھیں کہ جب انہوں نے…افغانستان میں قبضہ کیا تو وہاں جو حکومت قائم کی اس کا نام خلافت کی بجائے’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ رکھا…اپنے خلیفۃ المسلمین ہونے کا دعوی نہیں کیا…افغانستان سے باہر کسی مسلمان کو اپنی اطاعت کا حکم نہیں دیا…یہ ہے ایمان اور یہ ہے اسلام کی سمجھ…چنانچہ کوئی فتنہ نہ اٹھا اور امارت اسلامیہ نے سات سال تک مسلمانوں کو…قرون اولیٰ کے مزے یاد کرا دئیے…اور پھر وہ ایک عظیم جہاد میں اتر گئی…اور اب الحمد للہ فاتح ہو گئی…عراق و شام کے مجاہدین نے خلافت اور خلیفہ کا نام استعمال کیا تو…ہر طرف سے شور پڑ گیا اور مسلمانوں میں طرح طرح کی بحثوں نے جنم لے لیا…واللہ اعلم آگے کیا ہو گا…فی الحال تو مسلمانوں کو وہاں برسرپیکار تمام مجاہدین کے ساتھ حسن ظن رکھنا چاہیے…ان کے لئے دل کی توجہ سے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں…اور ان کے لئے ہر طرح کے ممکنہ تعاون کا جذبہ دل میں رکھنا چاہیے…’’داعش‘‘ نے خلافت کبری کا علان کیا ہو، ایسا ہمارے علم میں نہیں ہے…جن علاقوں پر آنے کا قبضہ ہے وہاں ان کی شرعی حکومت اور امارت قائم ہو چکی ہے…مسلمانوں کو اس کی حمایت کرنی چاہیے…ایران کا مجوسی عفریت…اور شام کا نصیری اژدھا جس طرح سے عراق و شام میں مسلمانوں پر مظالم ڈھا رہا تھا اسے سن کر دل خون کے آنسو روتا تھا…ان مجاہدین نے وہاں اس ظلم کا مقابلہ کیا ہے…اور کسی حد تک مسلمانوں کے قلوب کو ٹھنڈک پہنچائی ہے…تمام مسلمانوں کو ان کے اس کارنامے کی قدر کرکے اور ان کا ممنون ہونا چاہیے … داعش کے مجاہدین کے خلاف ساری دنیا کا کفر جمع ہو چکا ہے…ایسے حالات میں اہل ایمان کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے…اور خود داعش والوں کے لئے ضروری ہے کہ…وہ دعووں سے دور اور عمل میں مگن رہیں…زمین خود بتا دیتی ہے کہ اس کا حاکم اور خلیفہ کون ہے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مسلسل دعوت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 457)
اللہ تعالیٰ اُن ایمان والے مردوں… اور ایمان والی عورتوں پر ’’رحمت‘‘ فرماتے ہیں… جو نیکیوں کی دعوت دیتے ہیں… اور برائیوں سے روکتے ہیں… والحمدللہ رب العالمین
ایک صاحب یاد آگئے
کراچی میں دعوتِ جہاد کا کام شروع ہوا تو آغاز… چھوٹے چھوٹے رسائل اور چھوٹی چھوٹی نشستوں سے ہوا… چند مختصر رسالے تھے… آہ بابری مسجد، میرا بھی ایک سوال ہے، اسلام اور جہاد کی تیاری، اللہ والے، بنیاد پرستی، جہاد رحمت یا فساد وغیرہ…
پھر ایک ماہنامہ بھی شروع ہوا’’صدائے مجاہد‘‘… اتوار کی شام ناظم آباد کی ایک دوکان میں دعوتِ جہاد کی نشست چلتی تھی… کبھی کبھار چھوٹے جلسے بھی ہو جاتے تھے… جہاد کے معاملے میں کافی اجنبیت اور بے رُخی تھی مگر… اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام آگے بڑھ رہا تھا… جہادی نظموں کی ایک کیسٹ بھی نہیں ملتی تھی… ایک رات عشاء تا فجر محنت ہوئی اور الحمدللہ کیسٹ تیار ہوگئی… خیر یہ سب کچھ اپنی جگہ… اصل بات یہ بتانی ہے کہ ایک دن ایک صاحب تشریف لائے… بڑی عمر کے تھے مگر چاک و چوبند… فرمانے لگے اب بس دعوتِ جہاد ہی اوڑھنا بچھونا ہے… کپڑے کا ایک تھیلا اُن کے پاس تھا اس میں جہادی کتابچے تھے… فرمانے لگے یہ تقسیم کرتا رہتا ہوں اور لوگوں کو دعوت دیتا رہتا ہوں… اپنی دعوت بھی انہوں نے سنائی بندہ نے دعوت کی کچھ تصحیح اور اُن کی حوصلہ افزائی کی… اگر وہ انتقال فرما چکے تو اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے… اور حیات ہیں تو ایمانِ کامل اور حسن خاتمہ اُن کا مقدر بنائے… سائیکل پر چلتے تھے اور دن رات دعوت میں مگن رہتے تھے… بعد میں اُن جیسے کچھ اور حضرات بھی زندگی میں آئے… اُن سب کی عزیمت اور اُن سب کے ذوق کو سلام… جہاد کی بہاریں جہاں جہاں تک پھیلیں اور پھیل رہی ہیںاور جہاں تک ان شاء اللہ پھیلیں گی… اُن سب میں ان باذوق اور محنتی حضرات کا حصہ ہے… سبحان اللہ! ایک ایسا صدقہ جاریہ جس کی وسعت اور پھیلائو کا خود ان حضرات کو بھی کبھی اندازہ نہیں ہوگا… مگر جب اعمال کے دفتر کھلیں گے… تو ایسے لوگ کتنے خوش اور کتنے حیران ہوں گے… اور ان شاء اللہ کیسے جھوم جھوم کر جنت کے بالا خانوں میں جائیں گے… بے شک دعوت کا بڑا مقام ہے… بہت بڑا، بہت بڑا
الحمدللہ اب بھی ہیں
ایک صاحب برطانیہ میں تھے… کیسٹ سن کر دین پر آئے اور پھر خود کو دعوت کے لیے وقف کر دیا… خود دعوت نہ دے سکتے تھے… زندگی ایک بُرا کلب چلاتے گذری تھی… انہوں نے کیسٹوں کا سہارا لیا… جدید مشینیں خریدیں اور اُس طبقے تک دعوت پہنچائی جس کے شرکے خوف سے شرفاء اُن تک پہنچ ہی نہیں سکتے… کیا معلوم کیسٹیں سنتے، سناتے اور تقسیم کرتے… اللہ تعالیٰ نے اُنکی زبان بھی کھول دی ہو… بعد میں اُن سے رابطہ نہ رہا… جماعت کے رفقاء میں… اس ’’محبوبانہ ذوق‘‘ والے چند افراد اب بھی ہیں… اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے اور اُن کے کام کو خصوصی قبولیت عطاء فرمائے… اس ذوق کو ’’محبوبانہ‘‘ اس لیے لکھا کہ حدیثِ صحیح ہے… رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
احب الناس الی اللّٰہ انفعھم
لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو دوسروں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو… زیادہ نفع تو صرف ’’دعوت الی اللہ‘‘ کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے… ایمان کی دعوت، نماز کی دعوت، جہاد کی دعوت… اور پورے دین کی دعوت کے ذریعہ… ہاں! کسی کو کھانا کھلانا، کپڑے دینا، علاج کرنا یہ بھی نفع ہے… مگر عارضی… جبکہ کسی کو اللہ تعالیٰ سے جوڑ دینا یہ ہمیشہ کا دائمی نفع ہے… کسی کو جہاد جیسے فلاح کے راستے پر لانا یہ ہمیشہ کا دائمی نفع ہے… پس جسے اللہ تعالیٰ یہ دھن اور فکر عطاء فرما دے… اُس کے محبوب الی اللہ ہونے میں کیا شبہ ہے؟… کاش ایسا ہو کہ … جماعت کے سب ساتھیوں کو یہ ذوق، یہ دُھن اور یہ فکر نصیب ہو جائے… کوئی انہیں کہے یا نہ کہے… مہم کے دن ہوں یا نہ ہوں… کوئی ان کی سنے یا انہیں دھتکارے… وہ غریب مزدوروں کے درمیان بیٹھے ہوں یا جہاز اور ائرپورٹ پر مالداروں کے درمیان… ہر حال میں ہر جگہ دعوت، دعوت اور دعوت… تب پتا ہے کیا ہوگا؟ایسے افراد پر اللہ تعالیٰ کی رحمت چھم چھم برسے گی… خود اُن کا دین پختہ اور مضبوط ہو جائے گا… اور وہ ’’اہل خسارہ‘‘ میں سے نکال دئیے جائیں گے… فرمایا:
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ
بے شک تمام انسان خسارے اور نقصان میں جا رہے ہیں… مگر دین کی دعوت دینے والے… ان اہل خسارہ میں شامل نہیں… وہ تو ایسا نفع کما رہے ہیں… جس نفع کا کھاتہ قیامت تک کھلا رہے گااور بڑھتا رہے گا… افسوس کہ بہت سے مسلمان دین کی دعوت دیتے ہوئے شرماتے ہیں… اور جہاد کی دعوت سے گھبراتے ہیں… اسی وجہ سے اُن کا اپنا معاملہ ایسا کمزور ہو جاتا ہے کہ… ذرا سا دنیاداروں کے ماحول میں جاتے ہیں تو اپنی پگڑی، اپنی ٹوپی اور اپنی پیاری داڑھی… انہیں بوجھ اور عار محسوس ہونے لگتی ہے… آہ افسوس… حضرت آقا مدنی ﷺ کی شان والی، عزت و عظمت والی شباہت جب ایک مسلمان کو عار لگنے لگے تو وہ خود سوچ لے کہ وہ کیسا مسلمان ہے؟ یہی حال مسلمان بہنوں کا ہے… جو دعوت نہیں دیتیں وہ جب بے وقوف عورتوں کے ماحول میں جاتی ہیں تو ان کے طرح طرح کے … فیشنوں سے متأثر ہو جاتی ہیں… ایسے فیشن جن کو سوچ کر بھی الٹی اور ابکائی آتی ہے… ہاے کاش اے بہنا… تیرے دوپٹے پر امی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دوپٹے جیسا پیوند ہوتا… تیرے کرتے پر امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے کرتے جیسا پیوند ہوتا… اور تیرے دل میں ایمان سورج کی طرح… اور تیرے دماغ میں شکر چاند کی طرح چمک رہا ہوتا… اور تو اپنی حالت پر خوش اور مسرور ہوتی… تب تجھ سے خیر کے قیامت تک جاری رہنے والے چشمے پھوٹتے…
استقامت اور ترقی کا راز
کئی لوگ دیندار تھے… پھر دین سے محروم ہوگئے… کئی نمازوں کے شان والے پکّے تھے پھر ان کی کمر پر شیطان نے تالے ڈال دئیے… کئی جہاد میں نامور تھے مگر پھر وہ جہاد سے اور جہاد اُن سے روٹھ گیا… ایسا کئی وجوہات سے ہوتا ہے… مگر اہم ترین وجہ دعوت نہ دینا ہے… دعوت دیتے رہو، پختگی پاتے رہو… دعوت دیتے رہو ترقی پاتے چلے جائو… دعوت دیتے رہو خیر کے باغات میں رہو… وجہ یہ ہے کہ … دعوت دینے سے انسان کا اپنا دل زندہ رہتا ہے… دعوت دینے سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے… اور دعوت دینے والے کے لیے آسمانی رحمتوں اور نصرتوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے…
یہ دیکھیں حدیثِ صحیح… رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان اﷲ عزوجل و ملائکتہ واھل السمٰوٰت والارض حتی النملۃ فی حجرھا وحتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر…
بے شک اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے اور آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اور مچھلیاں… اُس شخص پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں جو لوگوں کو خیر سکھاتا ہو…
اللہ تعالیٰ کا ’’صلوٰۃ‘‘ بھیجنا یہ ہے کہ … اللہ تعالیٰ اُس پر اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں… اور اپنے ملائکہ کے سامنے اس کی تعریف فرماتے ہیں… جبکہ مخلوق کا صلوٰۃ بھیجنا… استغفار ہے… کہ ساری مخلوق ایسے شخص کے لیے استغفار کرتی ہے… اور اُس کے لیے رحمت کی دعاء مانگتی ہے…
پس اسی لیے جو دعوت میں لگے رہتے ہیں… اُن کا دین اور ایمان محفوظ رہتا ہے اور وہ جہاد کے راستے میں ترقی کرتے ہیں… مگر جو دعوت چھوڑ دیتے ہیں خود اُن کے اندر کمزوری اور دنیا سے متاثر ہونے کا مرض آجاتا ہے، عبادت میں غفلت اور سستی آجاتی ہے…
ابھی وقت ہے
صرف صرف اپنے فائدے کے لیے… اپنے دین کی مضبوطی کے لیے… اپنی نسلوں میں دین کو جاری رکھنے کے لیے… اپنی قبر، حشر اور آخرت بنانے کے لیے … اور خود کو ملعون دنیا کے دھوکے میں پھنسنے سے بچانے کے لیے… دعوت کا کام شروع کر دیں… اپنے گھر میں تعلیم اور دعوت، اپنے آس پڑوس میں دعوت، دن دعوت، رات دعوت… یہ بڑا اونچا عمل ہے… آپ کی دعوت کے اثرات کہاں تک جائیں گے… آپ کو اندازہ بھی نہ ہوگااور حالت یہ ہوگی کہ… آپ مزے سے سو رہے ہوں گے اور آپ کے نامہ اعمال میں دھڑا دھڑ نیکیاں جمع ہو رہی ہوں گی… دعوت کے لیے نہ لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت… نہ سر پر قراقلی اور اونچی آواز کی ضرورت… نہ جلسے اسٹیج اور اعلان کی ضرورت… نصاب آپ کے پاس بہت اونچا اور جامع موجود ہے… کلمہ، نماز اور جہاد فی سبیل اللہ…
سیدھے سادے الفاظ میں… درد کے ساتھ… اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت کرتے ہوئے… دل میں اُمت اور دین کی فکر گرماتے ہوئے… اہل اسلام کے لیے خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ… دشمنان اسلام سے شدید نفرت شدید عداوت کے جوش کے ساتھ… مظلوم مسلمانوں کے ساتھ غیر مشروط وابستگی کے رشتے کے ساتھ… دعوت دیتے جائیں، دعوت دیتے جائیں… آپ جس قدر اس میں محنت کریں گے… تکلیف اٹھائیں گے، اسی قدر راستے کھلتے جائیں گے، روشنی پھیلتی جائے گی… اور اندھیرے دور ہوتے جائیں گے… ان شاء اللہ، ان شاء اللہ
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیراً کثیرا…
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
٭…٭…٭