بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقام صحابہ کرام و خلفاء الراشدین رضی اللہ عنہم
مقام صحابہ و صحابیات
اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اولیاء اللہ کے سردار ، اہل تقوی کے چیدہ و برگزیدہ ، اہل ایمان کے قدوہ اور مسلمانوں کے اسوہ و نمونہ ہیں ۔ وہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد دنیا میں اللہ کے سب سے بہترین بندے ہیں ۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لایٔ ھویٔ علم کو حاصل کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ انھوں نے دین کے دشمنوں سے جہاد بھی کیا ، انھیں اللہ نے تمام انبیاء کے خاتم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار کے شرف سے نوازا اور خوشی و غم کے ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت سے شرفیاب فرمایا اور انھوں نے اللہ عز و جل کی راہ میں اپنے اموال اور جانوں کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ اپنے انہی اعمال عالیہ کی بدولت وہ ساری مخلوقات میں ( انبیاء و رسل کے بعد ) برگزیدہ لوگ بن گیٔ اور نبی معصوم صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت و گواہی کے ذریعے افضل القرون ( خیر القرون ) بن گیٔ ۔ وہ تمام سابقہ و آئندہ اور پہلی و پچھلی امتوں میں سے بہترین لوگ ہیں۔
یہ وہی تھے جنھوں نے اسلام کے ستون قائم کئے ، دین کے محلات تعمیر کئے ، شرک کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں او دین اسلام کا نور اس آباد دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا ۔ اسلامی مملکت بہت وسیع و عریض ھو گئی اور زمین پر ایمانی شریعت نافذ ھو گئی ۔ وہ لوگوں میں انتہائی دقیق الفہم اور گہرے علم والے تھے ، ایمان کے بہت ہی زیادہ صادق و سچے اور عمل کے بڑے ہی دھنی اور اچھے تھے ۔ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک پر تربیت پائی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علمی چشمۂ صافی سے سراب ھویٔ تھے ۔ انھوں نے قرآن کو نازل ھوتے دیکھا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات و نگرانی میں اسلام کو نافذ کرنے کا زمانہ پایا تھا ۔
فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم:
مسند احمد میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو تمام بندوں کے دلوں میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دل کو سب سے بہترین پایا تو اسے اپنے لیٔ منتخب کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا پیغام رسالت دے کر مبعوث فرمایا ، پھر اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دل کے بعد بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے دل تمام مخلوق کے دلوں سے بہتر پایٔ تو انھیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیٔ وزراء منتخب فرما دیا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لایٔ ھویٔ دین کے لیٔ جہاد و قتال کرتے تھے۔ ( مسند احمد )
شرف صحابیت و صحابہ : قرآن کے کریم آئینے میں:
جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نصیب ھوا یا مسلمانوں میں سے جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ( ایمان کی حالت میں ) دیکھا وہ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل اور ان کے مقام و مرتبہ کو بتانے والی صریح آیات قرآنیہ اور صحیح احادیث موجود ہیں ۔ جن میں سے ہی ایک یہ ارشاد الہی ہے :
اور جن لوگوں نے سبقت کی ( یعنی سب سے ) پہے )ایمان لایٔ ) مھاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنھوں نے خلوص ( نیکوکاری ) کے ساتھ ان کی پیروی کی ، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیٔ جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، ( اور وہ ) ان میں ھمیشہ ھمشیہ رہیں گے ، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ( التوبہ ۔۱۰۰(
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے
(اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم)ب مومن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو اللہ ان سے خوش ھو گیا اور جو ( صدق و خلوص ) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کر لیا اور ان پر تسلی نازل فرمائی اور انھیں جلد فتح عنائت فرمائی اور بہت سی غنیمتیں جو انھوں نے حاصل کیں ۔ اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔ ( الفتح ۔۱۸ ، ۱۹(
اور جس سے اللہ راضی ھو جایٔ اس کے لیٔ ممکن ہی نہیں کہ اس کی موت کفر پر آیٔ کیونکہ اصل اعتبار اسلام پر وفات کا ہے اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت ( رضوان ) کی تھی ان میں سے کوئی شخص جہنم میں نہیں جایٔ گا۔ ( ترمذی ، ابوداؤد ، مسنداحمد )
اور ارشاد ربانی ہے
)تم بہترین امت ھو جو لوگوں ( کی اصلاح ) کے لیٔ نکالے گے ھو(۔ ( آل عمران ۔۱۱۰(
اس آیت میں اللہ تعالی نے تمام امتوں پر اس امت اسلامیہ کی خیر و بہتری ثابت فرما دی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیٔ اللہ کی اس شہادت کے مقابلے میں دوسری کوئی چیز نہیں آ سکتی ۔ اور ارشاد الہی ہے
اور ان مفلسین ، تارکین وطن کے لیٔ بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گیٔ ہیں ( اور ) وہ اللہ کے فضل و خوشنودی کے طلبگار ہیں اور اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مددگار ہیں یہی لوگ سچے ( ایماندار ) ہیں ۔ اور ( ان لوگوں کے کے بھی ) جو مہاجرین سے پہلے ( ہجرت کر کے ) گھر ( مدینہ منورہ ) میں مقیم اور ایمان میں ( مستقل ) رہے ( اور ) جو لوگ ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں ، ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انھیں ملا اسی سے اپنے دل میں کچھ خواہش نہیں پاتے اور انھیں اپنی جانوں سے بھی مقدم رکھتے ہیں خواہ انھیں خود ضرورت ہی ھو اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ فلاح و مراد پانے والے ہیں(۔ )الحشر۔۸ ، ۹ )
اور ارشاد باری تعالی ہے
اس دن اللہ نبی ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کو اور جو ان کے ساتھ ایمان لایٔ ہیں ، انھیں رسوا نہیں کرے گا بلکہ ان کا نور ایمان ان کے آگے اور دائیں جانب ( روشنی کرتا ھوا ) چل رہا ھو گا۔( التحریم ۔۸(
اور ایک مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا ہے
محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) ہیں وہ کافروں کے خلاف تو بڑے سخت ہیں لیکن آپس میں بڑے رحم دل ہیں ۔ آپ انھیں دیکھتے ہیں کہ ( اللہ کے آگے ) جھکے ھویٔ سر بسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب و تلاش کر رہے ہیں ( کثرت ) سجود سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ھوئے ہیں ۔ ( الفتح ۔۲۹(
فضائل و شرفہ صحابہ : احادیث کی روشنی میں :
قرآن کریم کی ان آیات کی طرح ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث بھی فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ناطق ہیں چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔
میری امت کا بہترین طبقہ وہ لوگ ہیں جو کہ میرے زمانے والے ہیں ۔ پھر وہ جو ان کے بعد والے ( تابعین ) ہیں ۔ اور پھر وہ جو ان کے بعد والے ( تبع تابعین ) ہیں۔
حضرت عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے زمانے کے بعد دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین کا( صحیح بخاری ) اور بخاری و مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو گالی نہ دو ، تم میں سے اگر کوئی شخص جبل احد کے برابر سونا بھی صدقہ کر دے تو وہ کسی صحابہ کے ایک مد ( مٹھی بھر دانے ) صدقہ کرنے کا اجر تو کیا اس کا آدھا ثواب بھی نہیں پا سکتا۔ ( بخاری و مسلم )
تمام تر خیر و بھلائی اسی میں ہے جس پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے انہی کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنی کتاب کا تحفظ کروایا ، وہ امین در امین تھے حتی کہ انھوں نے اللہ کی اس امانت کو اس دیانتداری سے ادا کیا کہ پہلی امتوں میں ان کی مثال نہںن ملتی ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک جماعت سنت و حدیث کے تحفظ کے لیٔ تیار ھوئی اور وہ رویٔ زمین کے کونے کونے میں پھیل گئی تا کہ وہ اسے عام کریں اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خلافت و نگرانی کی ذمہ داری اٹھائی ، جہاد کیا او فتوحات حاصل کیں اور امتوں کی امتیں اسلام میں داخل کر دیں ، ان کے نفوس کی تطہیر و تزکیہ کیا اور انھیں اللہ کے صراط مستقیم پر چلایا ۔ اور اللہ تعالی نے ان کے اوقات ( اور عمروں ) میں بڑی برکت فرمائی اور ان کے ہاتھوں پر صرف ایک سو سال میں اللہ نے وہ کارنامے اور انقلابات رونما کئے جو دوسری کسی قوم سے ممکن نہ ھو ۔
وہ ہر خیر و بھلائی کے معاملے میں لوگوں سے سبقت لے جانے میں کوشاں رہتے تھے ، میدان جہاد و قتال ھو کہ میدان دعوت و ارشاد۔ اسلام کی خاطر خرچ و عطا ھو یا پھر کثرت عبادت و نوافل وہ ہر میدان کے شہسوار تھے ۔ رضی اللہ عنہم ۔
انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ?غزوات اور جنگوں میں آپ کی مدد و نصرت میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور انھوں نے اللہ کی راہ میں اپنی جانیں تک قربان کر دینے کے لیٔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم خندق کی طرف تشریف لے گیٔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے انصار و مہاجرین بذات خود سب خندق کھود رہے ہیں اور ان کے پاس غلام نہیں تھے جو کہ یہ خدمت انجام دیتے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علہ و سلم نے جب انھیں بھوک اور تھکن سے چور چور دیکھا تو ارشاد فرمایا :
اے اللہ ! اصل زندگی تو آخرت کی ہی زندگی ہے ۔اے اللہ ! ان تمام انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما دے( صحیح بخاری )
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت و ملاقات کا شرف اعظم حاصل رہا اور انھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرنے اور آپ کی تعظیم و توقیر کرنے کا حظ وافر نصیب ھوا جو ان سے پہلے کھبی کسی کو حاصل نہ ھوا اور نہ کوئی شخص آئندہ یہ مقام پا سکے گا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ لوگوں کی محبت کیسی تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا :
” اللہ کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم ھمیں اپنے مال و اولاد ، ماؤں باپوں اور سخت پیاس میں ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ پیارے تھے ” ۔
بے مثال محبت و جان نثاری :
ابو سفیان بن حرب ابھی مسلمان نہیں ھویٔ تھے بلکہ کفر و شرک کی حالت میں ہی تھے کہ انھوں نے حضرت زید بن د ئنہ رضی اللہ عنہ سے اس وقت پوچھا جبکہ انھیں قتل کرنے کے لیٔ اہل مکہ نے حرم سے نکالا اور وہ ان کے یہاں اسیر و قیدی تھے ، اے زید ! میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ھوں : کیا تمھیں یہ پسند ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) تمھاری جگہ ھوں اور ھم ان کی گردن مار دیں اور تمھیں چھوڑ دیں اور تم اپنے اہل و عیال میں جا نکلو ؟ اس پر حضرت زید نے فرمایا
” مجھے اللہ کی قسم ہے ، مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے اہل و عیال کے مابین جا بیٹھوں اور میری جگہ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) آ جائیں اور انھیں کانٹا جبھنے کی اذیت بھی برداشت کرنی پڑے ” ۔ یہ سن کر ابوسفیان نے کہا تھا :
” میں نے لوگوں میں کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی محبت محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کے ساتھی ان سے کرتے ہیں‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں اپنی اور اپنے مال کی باگ ڈور دے دی اور عرض کیا : یہ ھمارے اموال آپ کے قدموں میں ڈھیر ہیں ، ان میں آپ جو فیصلہ چاہیں فرمائیں اور یہ ھماری جانیں بھی آپ کے لیٔ حاضر ہیں ۔ اگر ھمارے سامنے سمندر بھی آیا تو ھم اس میں بھی کود جائیں گے ، ھم آپ کے سامنے ، اپ کے پیچھے آپ کے دائیں اور آپ کے بائیں ہر جگہ لڑیں گے ” ۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان کی زبردست محبت کی سچی تعبیر تھی ۔
ہیبت و جلالت مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ کرمجھے کوئی دوسرا محبوب نہیں تھا ۔ اور نہ ہی آپ سے بڑھ کر میری نگاہ میں کوئی جلیل القدر تھا ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جلالت شان کی وجہ سے آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ نہیں سکتا تھا اور اگر مجھ سے کہا جایٔ کہ میں آپ کے اوصاف بیان کروں تو یہ بات میرے بس سے باہر ہے کیونکہ میں نے کبھی آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ ہی نہیں سکا ۔
حب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم :
ھم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے ہیں اور ان میں سے کسی کی محبت میں افراط و غلو میں مبتلا نہیں ھوتے اور نہ ہی ان میں سے کسی سے بری ھونے کا اظہار کرتے ہیں اور انھیں صرف خیر و بھلائی کے ساتھ ہی یاد کرتے ہیں۔
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انصار و مہاجرین کے لیٔ جنت ، رضاء الہی ، اجر و ثواب اور رحمت الہی کی گوائی موجود ہے اور یہ بات ضروری ہے کہ آپ کا علم اس بات کا اقرار کرے اور دل سے آپ کو یقین ھو کہ وہ شخص جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو چاہے ایک گھڑی ( گھنٹہ ) کے لیٔ ہی کیوں نہ دیکھا ھو ، آپ کا دیدار و زیارت ہی نہیں آپ پر ایمان بھی لایا اور آپ کی اتباع و پیروی بھی کی ۔ وہ شخص اس سے بدرجہا افضل ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ کے دیدار و زیارت سے شرفیاب ھوا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چھوٹے ھوں یا بڑے ، پہلے ھوں یا پچھلے ، ان سب کے لیٔ رحمت و مغفرت اور رضاء کی دعا کرنا ، ان کے اوصاف حسنہ کا ذکر کرنا ، ان کے فضائل و محاسن کو عام کرنا ، ان کے طریقے کی پیروی کرنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا ھم سب کے لیٔ ضروری ہے ۔
مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ھمارا موقف:
ھم مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ( ان کے باھمی تنازعات ) کے بارے میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ غزوات و جہاد میں شرکت کی اور فضیلت کے اعتبار سے لوگوں سے گویا سبقت لے گیٔ اللہ نے ان کی مغفرت فرما دی اور ان کے لیٔ مغفرت طلب کرنیکا حکم فرمایا ہے ۔ اور ان سے محبت کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک کے ذریعے فرض قرار دیا ہے ۔لھذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لرزشوں یا کوتاہیوں کی تاڑ و تلاش صرف وہی شخص کرتا ہے جس کا دل دینی اعتبار سے فتنہ میں مبتلا ھو چکا ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی برائیوں کے بارے میں مروی آثار میں سے کچھ تو وہ ہیں جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں اور بعض وہ ہیں جن میں خود لوگوں نے اپنے مخصوص مقاصد و مفادات کے لیٔ کمی بیشی کر دی ہے اور انھیں ان کے اصل رخ سے موڑ کر رکھ دیا ھوا ہے اور وہ آثار جو صحیح ہیں ، ان میں جن امور کا تذکرہ ہے ، ان میں وہ معذور )عذر والے ) ہیں کہ انھوں نے اجہتاد کیا اور صحیح و صواب کو پا گیٔ ( دوھرا اجر لیٔ گیٔ ) یا پھر اجتہاد کیا مگر خطا کر کیٔ ( پھر ایک اجر ان کے ہے ) ۔
عدالت و ثقاہت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم :
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وہ چند افعال جنھیں باعث نکیر سمجھا جاتا ہے وہ بھی بہت تھوڑے سے ہیں اور ان کے فضائل و محاسن کے مقابلے میں قابل معافی و مغفرت ہیں کیونکہ وہ اللہ پر ایمان لایٔ ، ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لایٔ ، انھوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، اللہ کی خاطر ، ہجرت کی ، اللہ کے دین اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد و نصرت میں حد کر دی ، علم نافع حاصل کیا اور وہ عمل صالح کا بہترین نمونہ تھے ۔ ان سب محاسن و فضائل کے مقابلے میں ان میں سے بعض سے سرزد ھونے والی چند کوتاہادں معمولی و قابل بخشش ہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت و ثقاہت کے بارے میں پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جو کہ طے پا چکا کیونکہ وہ کتاب و سنت کی نصوص اور امت کے معتبر لوگوں کے اجماع کی رو سے سب کے سب ہی عدول ( عادل و ثقہ ) ہیں حتی حضرت انس بن مالک ر سے مرفوعا مروی ہے : ( کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
ایمان کی نشانی حب انصار ہے اور انصار سے بغض و نفرت نفاق کی علامت ہے۔ ( صحیح بخاری )اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم مںت مرفوعا مروی ہے ( کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا )کوئی وہ شخص جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتاہے وہ انصار سے بغض و نفرت نہں رکھ سکتا۔( مسلم )
خلفاء راشدین اور عشرہ مبشرہ:
فضائل ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے افضل ترین لوگ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ہیں ، ان کے بعد باقی چھ صحابہ جن سمیت دس لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جنت کی بشارت دی تھی اور وہ سب عشرہ مبشرہ کہلواتے تھے ۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے :
اس مت کے نبی کے بعد اس کے بہترین لوگ ابوبکر اور پھر عمر ہیں۔ ( مسند احمد )
ایک حدیث میں فرمایا
میرے بعد میں آنے والے دو لوگوں ابوبکر? و عمر ? کی اقتداء و پیروی کرو ۔( ترمذی ، ابن ماجہ ، مسند احمد )
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک سفر میں تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علہ و سلم نے فرمایا :
اگر لوگ ابوبکر و عمر کی اطاعت کریں گے تو رشد و ھدایت پر رہیں گے۔ ( صحیح مسلم )
مقام ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ :
جبکہ صحیح بخاری میں حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا :
” اے مرحے ابا جان ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سب سے بہتر کون شخص ہے ؟ انھوں نے فرمایا : بیٹا ! کیا تمھیں معلوم نہیں ؟ میں نے عرض کیا : نہیں : تو انھوں نے فرمایا : وہ ابوبکر )رضی اللہ عنہ )ہیں ”
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں تو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کئی آیات نازل فرمائیں ہیں ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
اور تم میں سے جو لوگ فضیلت والے اور اہل ثروت و دولت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں ، محتاجوں اور وطن چھوڑ کر ہجرت کر جانے والوں کو کچھ خرچہ نہیں دینگے ، انھیں چاہییٔ کہ معاف کر دیں اور در گزر کریں ، کیا تم پسند نہیں کرتے ھو کہ اللہ تمھیں بخش دے اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔ ( النور ۔۲۲ )
اور اس بات میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ھوئی ہے اور اس میں انھیں اہل فضل ( فضیلت والی شخصیت ) قرار دیا گیا ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد الہی ہے : )دو میں سے دوسرے جبکہ وہ دونوں غار ( ثور ) میں تھے ) ( التوبہ ۔۴۰(
اس میں بھی کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ یہاں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں گویا کہ اللہ رب العالمین نے ان کے صحابی ھونے کی گواہی دی ہے اور انھیں سکیت کے نزول کی بشارت سے نوازا ہے اور انھیں دو میں سے دوسرے ھونے کا حلۂ عظمت و وقار عطا فرمایا ہے جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :دو میں سے دوسرے سے افضل کون ھو سکتا ہے ؟ جبکہ ان کا تیسرا خود اللہ تعالی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :
مجھے کسی مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے ۔ ( یہ سن کر فرط مسرت کے جذبات سے مغلوب ھو کر ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور عرض کیا :
اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں اور میرا مال صرف آپ کے لیٔ ہی تو ہیں ۔(ابن ماجہ )
مقام عمر فاروق رضی اللہ عنہ :
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد صحیح بخاری میں ہے :شیطان تمھیں جس راستے آتا ھوا ملتا ہے وہ اس تیرے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے میں بھاگ جاتا ہے۔ (بخاری )
اور آپ کا ارشاد ہے :
پہلی امتوں میں ” محدث ” ( وہ روشن ضمیر ، صائب الرائے جسے اللہ کی طرف سے الہام ھوتا ھو ) ھوا کرتے تھے ؟ اور اگر میری امت میں بھی کوئی محدث ھو تو وہ حضرت عمرؓ ھونگے)صحیح مسلم )
محدث کا معنی ہے وہ شخص جسے الہام ھوتا ھو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو واقعی الہام ھوتا تھا حتی کہ کئی مواقع پر قرآن کریم نے ان کی تائید و موافقت کی ۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ اپنی ازواج مطہرات کو پردہ کروائیں ۔ ایک مرتبہ انھوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! اگر آپ مقام ابراھیم کو جائے نماز بنا لیں تو کیسا رہے ؟ اور بدری قیدیوں کے بارے میں انھوں مشورہئقتل دیا ۔ اور ان تمام مواقع پر اللہ تعالی نے ملہم و محدث امت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رایٔ کی موافقت کو قرآن کی تائید عطا فرمائی ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بہت سی فتوحات کے دروازے کھولے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حتی کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر نکتہ چینی کرتے ہیں ۔ تو انھوں نے فرمایا :
اس میں تم تعجب والی کیا چیز پاتے ھو ؟ ( وفات کی وجہ سے ) ان کے اعمال کا مسئلہ تو منقطع ھو گیا لیکن اللہ نے یہ چاہا کہ ان کے اجر کا سلسلہ ختم نہ ھونے پایٔ ( لوگوں کے ان کی چغلی کھانے سے انھیں اجر و ثواب پہنچ رہا ہے
مقام عثمان غنی رضی اللہ عنہ:
جبکہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جیش العسر? ( غزو ہء عسرہ کے لشکر ) کی تیاری شروع کی تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنی چادر میں اس ایک ھزار دینار ڈال کر لے آیٔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دییٔ ( جھولی میں ڈال دییٔ ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دیناروں کو اپنے دست مبارک سے الٹنا پلٹنا شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرماتے جا رہے تھے :
آج کے بعد ابن عفان چاہے کوئی بھی عمل کرتا رہے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ آپ یہ کلمات بار بار دھرا رہے تھے ۔
مقام علی مرتضی رضی اللہ عنہ :
غزوہء خیبر کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
کل میں اس شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عطا کرے گا اور وہ شخص اللہ اور اس کے رسول کو پسند کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسے پسند کرتے ہیں۔ لوگوں نے رات گزاری اور ہر شخص سوچتا رہا کہ کل جھنڈا کسے دیا جائیگا اور ہر شخص کی خواہش تھی کہ جھنڈا اسے ہی دیا جایٔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : علی کہاں ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ ان کی آنکھیں خراب ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھوں میں لگایا اور ان کے لیٔ شفا کی دعاء کی تو ان کی آنکھیں ( اسی وقت ) ٹھیک ھو گئیں اور یوں ھو گئیں کہ جیسے انھیں کچھ ھوا ہی نہ تھا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں جھنڈا عنائت فرما دیا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
میں ان سے تب تک جنگ کرتا رھوں گا جب تک کہ وہ ھماری طرح کے ( مسلمان ) نہ ھو جائیں ۔ نبی صلی اللہ عیہ و سلم نے فرمایا : آرام آرام سے روانہ ھو جاؤ ، یہاں تک کہ ان ( یہودیوں ) کے علاقے میں پہنچ جاؤ ، پھر انھیں اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتاؤ کہ ان پر کیا واجب ہے ۔ اللہ کی قسم ! تمھارے ذریعے اللہ کسی ایک شخص کو ھدایت دے دے تو یہ تمھارے لیٔ سرخ اونٹوں کی دولت سے بھی بہتر ہے۔(بخاری و مسلم )
تمام صحابہ ہی جنتی:
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی اہل جنت میں سے ہیں ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، اور قتال کیا ہے وہ ( دوسروں کے ) برابر نہیں ، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنھوں نے فتح کے بعد قرانیاں دیں اور جہاد کیا ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالی کا سب سے ہے جو کچھ تم کر رتے ھو ، اس سے اللہ خبردار ہے۔ )الحدید ۔۱۰(
یکم محرم یوم شہادت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
کچھ پیاری باتیں امیرالمو مین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابو بکر، عمر اور عثمان )رضوان اللہ علیہم اجمعین( کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احد قرار پکڑ )ٹہر جا، تھم جا( کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق )ابو بکر( اور دو شہید )عمر اور عثمان( ہیں.(صحیح بخاری 3675جلد 5)
نوٹ: نبی اللہ کے اذن )حکم( کے بغیر کچھ نہیں کہتے. مذکورہ بالا حدیث خلفاء ثلاثہ کے بارے میں زبان درازی کرنے والوں کے لیے لمحہء فکریہ ہے۔
رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ ایسے لوگ ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ )سیدنا( عمر(رضی اللہ عنہ)ہیں.(صحیح بخاری 3689جلد 5)
رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے )عمر( ابن خطاب (رضی اللہ عنہ)اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کبھی شیطان تم کو کسی راستے پر چلتا دیکھ لیتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔(صحیح بخاری 3683 کا کچھ حصہ جلد 5)
رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) ہوتا۔(سنن ترمذی 3686مسند احمد 17540صحح الحاکم 85/3)
جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے:
سیدنا عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : ائے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب ، دونوں میں جو تیرے محبوب ہیں ان کے ذریعے اسلام کوغلبہ عطا فرما۔)جامع ترمذی شریف، باب فی مناقب عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)،حدیث نمبر: 4045))
حضرت عمر ر(رضی اللہ عنہ)کے سنہری اقوال
٭…مجھے سب سے زیادہ عزیز وہ شخص ہے جو مجھے میرے عیب بتائے ۔۔
٭…زبان درست ہو جائے تو دل بھی درست ہو جاتا ہے
٭…’دنیا کی عزت مال میں ہے اور آخرت کی عزت اعمال ِ صالحہ میں ہے”
٭…یہ دنیا ایک ایسا تنگ رستہ ہے جس کے ارد گرد کانٹے دار جھاڑیاں ہیں۔کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے آپ کو اس تنگ راستے سے بچا کر گزرا جائے۔
٭…اے لوگو!…”اللہ کا “ذکر” کیا کرو،کیونکہ اس میں “شفاء” ہے .اورلوگوں کے”عیب” بیان نہ کیا کرو،کیونکہ اس میں “بیماری” ہے “.
٭…جس نے رب کے لیئے جھکنا سیکھ لیا وہی علم والا ہے کیوں کہ علم کی پہچان عاجزی ہے اور جاہل کی پہچان تکبر ہے
ایک دفعہ ایک نصرانی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہُ کے پاس بھیجے۔ ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ سوالات درج ذیل ہیں:…
پہلا سوال:… ایک ماں کے شکم سے دو بچے ایک دن ایک ہی وقت پید اہوئے۔ پھر دونوں کا انتقال بھی ایک ہی دن ہوا۔ ایک بھائی کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی سوسال چھوٹی ہوئی۔ یہ کون تھے؟ اور ایسا کس طرح ہوا؟
دوسرا سوال:…وہ کونسی زمین ہے کہ جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک دفعہ سورج کی کرنیں لگیں’ نہ پہلے کبھی لگی تھیں نہ آئندہ کبھی لگیں گی۔
تیسرا سوال:…وہ کونسا قیدی ہے جس کی قید خانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے۔
چوتھا سوال:…وہ کونسی قبر ہے جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ اور قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی پھرتی تھی۔ پھر وہ مردہ قبر سے باہر نکل کر کچھ عرصہ زندہ رہ کر وفات پایا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہُ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہُ کو بلایا اور فرمایا کہ ان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہُ نے قلم برداشتہ جواب تحریر فرمادیا۔
پہلاجواب:… جو دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت پیدا ہوئے اور دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی اور ان کی عمر میں سو سال کا فرق۔ یہ بھائی حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام تھے۔ یہ دونوں بھائی ایک دن ایک ہی وقت ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ان دونوں کی وفات بھی ایک ہی دن ہوئی۔ لیکن بیچ میں حضرت عزیر علیہ السلام کو اپنی قدرت کاملہ دکھانے کیلئے پورے سو سال مارے رکھا۔ سو سال موت کے بعد اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشی۔ سورہ آل عمران میں یہ ذکر موجود ہے۔ “وہ گھر گئے پھر کچھ عرصہ مزید زندہ رہ کر رحلت فرمائی۔” دونوں بھائیوں کی وفات بھی ایک دن ہوئی۔ اس لیے حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر اپنے بھائی سے چھوٹی ہوئی اور حضرت عزیر علیہ السلام کی عمر سو سال بڑی ہوئی۔
دوسرا جواب:…وہ زمین سمندر کی کھاڑی قلزم کی تہہ ہے کہ جہاں فرعون مردود غرق ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے دریا خشک ہوا تھا۔ حکم الٰہی سے سورج نے بہت جلد سکھایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مع اپنی قوم بنی اسرائیل پار چلے گئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر داخل ہوا تو وہ غرق ہوگیا اس زمین پر سورج ایک دفعہ لگا پھر قیامت تک بھی نہ لگے گا۔
تیسرا جواب:…جس قیدی کو قیدخانہ میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لیے زندہ رہتا ہے وہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے شکم میں قید ہے۔ خداوند تعالیٰ نے اس کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا اور نہ وہ سانس لیتا ہے۔
چوتھا جواب:…وہ قبر جس کا مردہ بھی زندہ اور قبر بھی زندہ۔ وہ مردہ حضرت یونس علیہ السلام تھے اور ان کی قبر مچھلی تھی جو ان کو پیٹ میں رکھے جگہ جگہ پھرتی تھی یعنی سیر کراتی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ سے باہر آکر عرصہ تک حیات رہے پھر وفات پائی۔
ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ دربار کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے….اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے …لگا …….امیر المومنین آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجئے……آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک درا پیٹھ پر مارا اور کہا، جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہو ں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آ جاتے ہو……….
بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس شخص کو )جسے درا مارا تھا( بلوایا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو میں نے تم سے زیادتی کی ہے ….وقت کا بادشاہ ،چوبیس لاکھ مربع میل کا حکمران ایک عام آدمی سے کہہ رہا ہے میں نے تم سے زیادتی کی مجھے ویسی ہی سزا دو اس شخص نے کہا میں نے آپ کو معاف کیا ……آپ رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں نہیں ..کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا تم مجھے ایک درا مارو تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہو جائے…..آپ رضی اللہ عنہ روتے جاتے تھے اور فرماتے ….اے عمر تو کافر تھا …..ظالم تھا…..بکریاں چراتا تھا……خدا نے تجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کیا۔
٭…٭…٭…٭