عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَمِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ.سنن ابنِ ماجہ – آداب کا بیان۔ – حدیث نمبر 3819
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے استغفار کو لازم کرلیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا، اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا، اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا ۔(سنن ابنِ ماجہ – آداب کا بیان۔ – حدیث نمبر 3819)
آج ہم گناہوں کے سمندر میں غرق ہیں۔ قدم قدم پر رب کریم کی نافرمانیاں کررہے ہیں۔ ہماری صبح، ہماری شام، ہماری رات معصیتوں سے آلودہ ہیں۔ نفس و شیطان کے چنگل میں پھنس کر ہم اپنے رحیم و مہربان پر وردگار کی بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ دنیا کی محبت نے ہمیں آخرت سے غافل کررکھا ہے۔ اس فانی، عارضی اور ختم ہوجانے والی زندگی کو ہم نے اپنا مطمح نظر بنایا ہوا ہے۔ خوفِ ِخدا، فکر ِآخرت اور بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا احساس ختم ہوتا جارہا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ گناہوں کی کثرت نے ہم پر آفات و بلیات، اور مصائب وآلام کے وہ پہاڑ توڑے کہ الامان والحفیظ!اس حدیث مبارکہ میں ہمارے پیارے نبی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو کوئی استغفار کو لازم پکڑے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی میں آسانی، ہر غم سے دوری (کا سامان) پیدا فرمائیں گے اور اُسے ایسی جگہ سے رزق نصیب فرمائیں گے، جہاں اس کا گمان بھی نہ ہوگا۔‘‘
ہر انسان سے خطا، لغزش اور غلطی کاصدور ہوسکتا ہے، لیکن بہترین خطار کار اور گناہ گاروہ ہے جو اپنے کیے پر نادم و شرم سار ہو، جسے اس حقیقت کا احساس ہو کہ میرا بد عمل محفوظ کرلیا گیا ہے اور میرا رب مجھ سے اس بارے میں یقیناپوچھے گا۔ یہی وجہ ہے صاحبانِ ایمان کو بار بار گناہوں کے ’’تریاق‘‘ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی درجنوں آیاتِ مبارکہ توبہ و استغفار کی اہمیت بیان کرتی ہیں، سیکڑوں احادیثِ مبارکہ میں انابت اور رجوع الیٰ اللہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بندہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد مایوس و پریشان ہو جائے، بلکہ کتابِ مبین میں خطا کاروں کے واسطے صاف صاف اعلان کردیا گیا ہے : ’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔‘‘پھر سچے دل سے استغفار وتوبہ اور باری تعالیٰ کے سامنے اقرارِ معصیت کی خیر و برکات دونوں جہانوں میں نصیب ہوتی ہیں۔استغفار کا عمل اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک عمل سے بھی اُمت کو استغفار کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ کے سامنے توبہ کرو، بے شک میں بھی دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں (صحیح مسلم)بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم توبہ کے باوجود گناہوں سے باز نہیں آرہے تو پھر ایسی توبہ اور ایسے استغفار کا کیا فائدہ؟ حالاں کہ حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص استغفار کرتا رہے، اُسے (گناہ پر) اصرار کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، اگرچہ دن میں ستر مرتبہ وہ اس گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کرے۔‘‘ (سنن ابو دائود)
گناہوں پر شرم سار ہونا، اپنی لغزش کا اقرار کرنا اور اپنے جرم کا اعتراف کرنا ،وہ مبارک و بابرکت عمل ہے جس کا توڑ شیطان کے پاس نہیں ۔اسی لئے ابلیس نے کہا: ’’میں انسانوں کے درمیان ایسی چیز پھیلائوں گا جس پر انہیں استغفار کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔‘‘ امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں: ’’شیطان نے انسانوں میں خواہشات و تمنائوں کو پھیلایا (جسے کوئی گناہ نہیں سمجھتا اور اس پر استغفار بھی نہیں کرتا)‘‘ (سنن دارمی)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جناب نبی کریم سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک شیطان نے (حق تعالیٰ سے) کہا تھا: ’’اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا، جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں موجود رہیں گی۔‘‘ (جواب میں) اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: ’’میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم! میرے بلند مرتبے کی قسم!جب تک میرے بندے مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے ، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا۔‘‘
آخر میں سمجھنے کی اہم بات یہ ہے کہ توبہ کی تین شرائط ہیں: پہلی شرط: آدمی گناہ سے فی الفور باز آجائے۔ دوسری شرط: اپنے کیے پر نادم ہو۔ تیسری شرط آئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو۔ اگر اِن باتوں میں سے ایک بھی کم ہو تو توبہ نامکمل رہے گی۔ اور یہ شرائط اُس وقت ہیں جب معصیت وگناہ کا تعلق بندے اور رب کے درمیان ہو، اگر وہ گناہ کسی انسان سے بھی متعلق ہے تو اس میں چوتھی شرط یہ ہے کہ صاحبِ حق کو اس کا حق لوٹایا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کثرتِ استغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یارب العٰلمین)