ٹرانسجینڈراور ہم جنس پرستی کا ہولناک گناہ

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلٍ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي عَمَلُ قَوْمِ لُوطٍ ،

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ !ﷺ ارشاد فرمایا:مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیاد ہ جس چیز(ہولناک گناہ)کا خوف ہے وہ قوم لوط والے عمل (یعنی مردوں کی ہم جنس پرستی )کا ہے۔(سنن ترمذی:1457)
اِنسانی مُعاشرے میں ابلیس کے پیروکار ہمیشہ سے ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اُس کی ناراضگی اور عذاب والے کاموں کی ترویج میں اپنے پیر و مُرشد کے لیے کام کرتے چلے آرہے ہیں ، کبھی سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے، اور کبھی انجانے میں یہ لوگ، جو بظاہر ہوتے تو اِنسان ہی ہیں ، اور بسا اوقات مُسلمانوں کے نام و نسب بھی رکھتے ہیں ، لیکن درحقیقت یہ اِنسانیت کی تمام حُدود سے خارج ہو چکے ہوتے ہیں ، اور ایسے کاموں میں ملوث ہوتے ہیں اور اُن کاموں کی طرف مائل کرتے ہیں جن کاموں سے کوئی بھی صاف اور اچھی ذہنیت والا اِنسان کراھت کرتا ہے ، خواہ مُسلمان ہو یا کافرکیونکہ وہ اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ وہ کام اِنسان کے کرنے کے ہیں ہی نہیںاِنہی کاموں میں سے ایک کام جِنسی تعلقات کی آزادی ہے ، اور اِس آزادی کا ایک انداز ہم جِنس پرستی ہے۔
اسلامی معاشرے پر تہذیبی غلبہ پانے کیلئے مختلف ادوار میں کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔حالیہ دور میں ٹرانسجینڈر ایکٹ کے ذریعے پاکستان کے خاندانی اور معاشرتی نظام پر شدید حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس حملے کا اگربروقت تدارک نہ کیا گیا تو اس کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔ٹرانس جینڈر بل قرآن و سنت سے بغاوت ہے۔ اس بل کے حوالے سے بڑی چالاکی کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ قوانین تو خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنائے جا رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالاگیا اس بل میں یہ کہا گیا کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہو گا۔اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کوئی مرد اٹھے اوراعلان کر دے کہ مجھ میں تو عورت والی حسیات پیدا ہو چکی ہیں لہٰذا آج سے مجھے عورت سمجھا جائے تو نہ صرف اس کے دعوے کو قبول کیا جائے گا بلکہ اس کے مطابق اس کو دستاویزات یعنی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ بھی جاری کیے جائیں گے۔
انسانی جسم کے حوالے سے قرآن کریم کا بڑا واضح حکم ہے کہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے جسم میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرے کہ جس سے اس کی ساخت تبدیل ہو جائے کیوں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان اپنے جسم کا خود مالک ہی نہیں بلکہ یہ اس کے پاس اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی امانت ہے اور وہ اس امانت میں اللہ کی طرف سے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہی تصرف کر سکتا ہے۔تاہم’’میرا جسم میری مرضی‘‘والے طبقے کی خوشنودی کیلئے مذکورہ قانون کے تحت ایک سنگین فتنے کا راستہ کھول دیا گیا ہے جس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں رکھی گئی۔
اسی طرح رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کا حلیہ اختیار کرتی ہیں اور ایسے مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا حلیہ اختیار کرتے ہیں لیکن ٹرانس جینڈر ایکٹ کےذریعے اس کی مکمل آزادی دے دی گئی ہے۔اور اگرجنس میں تبدیلی کا اختیار اگر عوام کو دے دیا جائے تو نہ صرف اسلامی تعلیمات کی واضح اور صریح خلاف ورزی ہوگی بلکہ آئین پاکستان کی بھی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔اس قانون کے مطابق اگر عورتوں اور مردوں کو اپنی جنس کی تبدیلی کا کھلا اختیار دے دیا جائے تو پھر اس کے عمل درآمد میں اتنی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی ،جن کا تصور ہی محال ہے۔اس قانون کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔اس قانون کے مطابق کوئی بھی مرد خود کو عورت قرار دے کر کسی بھی مرد سے شادی کر سکے گا یہی صورت عورتوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
اِنسان کو اُس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد سمجھنے اور سمجھانے والے “اِنسانی اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد ، بلکہ حیوانیت کی حدود سے بھی خارج ہو جانے والے “وہ لوگ جو “لبرلز ” کہلاتے ہیں ، اِنسانوں کو دِینی، مذھبی، اخلاقی ، حتیٰ کہ فِطری اِنسانی پابندیوں سے بھی آزاد کروانے کے لیے اپنے آقا ابلیس کے ہر فلسفے کا پرچار کرتے ہیں۔یہ لوگ کِسی بھی قِسم کے اِنسانی ، مُعاشرتی ، اخلاقی اور دِینی ضوابط کا کوئی بھی لحاظ رکھے بغیر جنسی طلب کی تکمیل کو بھی اِنسان کا ایک ایسا حق بنا کر دِکھانے اور سمجھانے کی کوششیں کر تے ہیں جِس کے لیے اِنسان کو کِسی بھی قِسم کی کوئی پابندی قُبول نہیں کرنا چاہیے۔کیونکہ اس وجہ سے معاشرتی بگاڑ کا ایک ایسا دروازہ کھل جائے گا جو معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گا۔اگر اس معاملے پر بھی ہم وہی روایتی بے حسی کامؤقف اختیار کرکے سوئے رہے تو ہمیں قدرت کے غیظ و غضب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔خالق نے اپنے مخلوق کو جِن کاموں سے منع فرمایاہے اُسی میں مخلوق کی عافیت ہے ، دُنیاوی طور پر بھی ، دِینی طور پر بھی ، اور اُخروی طور پر بھی اِنسانوں کی دو جِنس ہیں اور ظاہر ہے کہ ہم جِنس پرستی اپنی اپنی جِنس کے فرد کے ذریعے اپنی جِنسی خواہش کی تکمیل کا نام ہے۔اللہ تعالیٰ نے صِرف اِنسانوں میں ہی نہیں ، جانوروں میں بھی مخالف جِنس کے ساتھی کو جوڑا بنایا ہے ، اِن “لبرلز ” نامی حیوانات سے تو وہ اصلی حیوانات بہتر ہیں جو اپنے خالق کی مقرر کردہ فطرت پر عمل پیرا رہتے ہیں ، اور سوائے خنزیز اور گدھے کے کوئی اور جانور اِس کراہت زدہ گِھن آلود فعل میں ملوث نہیں ہوتے. اللہ تعالیٰ نے اِنسان کا جوڑا مرد اور عورت بنایا ہے ، اور اِسی طرح زندگی میں بسر کرنے میں سکون و اطمینان رکھا ہے.

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے تم (اِنسانوں) کے لیے تمہاری ہی جِنس میں سے بیویاں بنائیں تا کہ تم لوگ (اپنی )اُس ) بیوی میں سکون پاؤ ، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت مہیا کی ، یقیناً اِس میں غور فِکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ۔(سُورۃالروم (
پس جو کوئی اِس جوڑے کے عِلاوہ کوئی اور جوڑا بناتا ہے ، سب سے پہلے تو وہ اپنے خالق کی مقرر کردہ راہ کو چھوڑ کر اپنے لیے اللہ کی ناراضگی حاصل کرتا ہے ، اور اِس کے عِلاوہ دُنیاوی طو رپر بھی حقیقتا کوئی سکون نہیں پاتا ، محض اپنی حیوانی خواہش کو مکمل کرتا ہے اور اُس میں ملنے والی وقتی سی ، معمولی سی جسمانی لذت کو ابلیسی وحی کے زیر اثر سکون سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ہر پابندی ، اللہ تعالیٰ کا ہر حکم اُس کے بندوں کی خیر کے لیے ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر اُس کی رحمت ہی ہے ، اور ہر اُس سوچ سے نہ صِرف خود بچیے بلکہ سب کو بچانے کی کوشش کیجیے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف لے جاتی ہو ، خواہ اُس کا عنوان کتنا ہی دلکش ہو ۔معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً علمائے کرام سے گزارش کروں گا کہ وہ مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈالیں ،اس اہم مسئلے پر اپناکردار ادا کریں اور اس قانون کی واپسی کی سبیل نکالیں ورنہ معاشرتی بے راہ روی کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔