محرم الحرام اور چند ضروری باتیں

محرم الحرام اور چند ضروری باتیں
کلمہ¿ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد( ہفت روزہ القلم شمارہ 515)
محرم الحرام کا مہینہ اسلامی ہجری قمری سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اسلام سے پہلے زمانہ¿ جاہلیت کے لوگ بھی سال کے جن چار مہینوں کو حرمت والا مہینہ کہتے اور مانتے تھے، اُن میں سے ایک یہی محرم کا مہینہ ہے ۔ عرب کے لوگ آپس میں خوب لڑتے بھڑتے تھے ، ڈاکے مارنا اور خونریزی کرنا اُن کا پسندیدہ مشغلہ تھا لیکن محرم کے مہینے میں پورے عرب میں امن و امان مثالی ہوتا تھا اور حرمت والا مہینہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس میں بلاخوف و خطر سفر کرتے تھے ۔
اسلام کی نظر میں بھی محرم الحرام بڑی فضیلت والا مہینہ ہے ۔ واقعہ کربلا کے پیش آنے سے بہت پہلے رحمت ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فضائل بیان فرمائے تھے ۔ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے:….
’’ ماہ ِ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے ہیں۔‘‘)ابو داﺅد(
محرم الحرام اگرچہ پورا ہی حرمت و عظمت کا مہینہ ہے مگر اس کی دسویں تاریخ یعنی یومِ عاشورا ئ خصوصی برکات و سعادات کا دن ہے ، اس دن کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب فرمائی ، صومِ عاشورائ کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحا میں متعدد روایات منقول ہیں ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ وہ عاشورائ کا روزہ رکھتے ہیں ، ان سے وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ : اس روز اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا ، اس لئے ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ، حضورﷺ نے فرمایا :
’’ہم تمہاری بہ نسبت موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں ، اور آپﷺنے اس دن کے روزے کا حکم فرمایا ۔‘‘)ابو داﺅد(
صحیح مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دسویں محرم کے روزے کے بارے میں عرض کیا تھا کہ یوم ِ عاشورائ تو ایسا دن ہے کہ یہود و نصاریٰ جس کی تعظیم کرتے ہیں تو کیا ہمارے اس دن روزہ رکھنے سے اُن کے ساتھ مشابہت تو نہیں ہو جائے گی ؟
اس پر پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ اگر میں اگلے سال تک تمہارے درمیان رہا تو میں نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھوں گا ‘‘۔
اس حدیث کے پیش نظر دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ یا گیارہویں تاریخ کا روزہ ملا لینا افضل ہے لیکن اگر صرف دسویں محرم کا روزہ رکھا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
یومِ عاشورائ کے سلسلے میں روزے کے علاوہ دوسری جس چیز کا ثبوت روایات میں ملتا ہے ، وہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺنے اس روز اہل و عیال پرکھانے پینے اور خرچے میں فراخی اور کشادگی کرنے کی ترغیب فرمائی ہے
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہﷺنے فرمایا : جو شخص عاشورا کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں فراخی کرے گا ، اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے لئے کشادگی فرمائیں گے ۔ (مشکوٰة ، بیہقی )
بہت سے محدثین فرماتے ہیں کہ ہم نے اس بات کا خود تجربہ کیا ہے اور اس کو یوں ہی پایا ہے ۔
روزہ رکھنے اور اہلِ و عیال پر وسعت یعنی عام معمول سے زیادہ خرچ کرنے کے علاوہ ہمارے معاشرے میں دیگر جو کام کیے جاتے ہیں مثلاً کچھ لوگ کالے رنگ کے کپڑے سوگ کی علامت کے طور پر پہنتے ہیں ۔ کچھ لوگ پانی کی سبیلیں لگاتے ہیں ۔ کچھ لوگ اس دن سرمہ لگانے کو باعث ِ فضیلت سمجھتے ہیں اور کچھ کھانے پینے کے شوقین لوگوں نے تو قسما قسم کے مزیدار کھانے بنانے کو بھی عبادت سمجھ رکھا ہے اور وہ یوں خیال کرتے ہیں کہ اس طرح وہ کربلا کے عظیم شہدائ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں حالانکہ شہدائ کربلا نے تو اس دن بھوکے پیاسے ، جامِ شہادت نوش فرمایا تھا بہر حال ان سب باتوں اور عادتو ں کا اسلام سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے اور قرآن و حدیث ‘ تعلیمات صحابہ کرام و اہل بیت عظام میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔
چونکہ یکم محرم الحرام ۴۲ھ کو سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اور دس محرم الحرام ۱۶ھ کو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ، اسی مناسبت سے یہ ذکر کر دینا ضروری ہے حضرات صحابہ کرام اور حضرات ِ اہل بیت دونوں ہی سے محبت و عقیدت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔ اگر صحابہ کرامؓ ہمارے سروں کے تاج ہیں تو حضرات ِ اہل بیت عظام بھی ہماری آنکھوں کا نور اور دلوں کا سرور ہیں ۔ ان حضرات کے باہمی تعلقات بھی انتہائی محبت و خلوص پر مبنی ، بے مثال اور خوشگوار تھے ۔
یہاں حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور حسنین شریفین رضی اللہ عنہما کے باہمی بہترین تعلقات کا ایک مختصر سا نقشہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ہر باشعور و ذی فہم آدمی ان حضرات کے باہمی حسنِ تعلقات کا اندازہ ان واقعات سے بآسانی کر سکتا ہے۔
(۱)….حضرت عمررضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ بن عمرؓسے حسنینؓکے فضائل مروی ہیں :
بخاری شریف جلد اول ، کتاب الفضائل ، مناقب الحسنؓوالحسینؓمیں ابن ِ عمر ؓکا ایک واقعہ درج ہے :
’’ ایک بار ایک عراقی شخص نے ابن عمرؓسے مسئلہ دریافت کیا کہ احرام کی حالت میں کوئی شخص مکھی یا مچھر مار ڈالے تو کیا حکم ہے ؟ اور اس کی کیا سزا ہے ؟ ابن عمرؓنے جواب دیا کہ عراقی لوگ مکھی و مچھر کے قتل پر مسئلے دریافت کرتے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے لڑکے کو قتل کر ڈالا ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں فرمایا تھا کہ یہ دونوں )نواسے( ہماری اس عالم کی خوشبو میں سے بہترین خوشبو ہیں۔‘‘
(۲)….مختلف واقعات اور روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی آمد ورفت پائی جاتی اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرف سے ان کی ’’قدردانی‘‘ اور عزت افزائی کی جاتی تھی ۔چنانچہ حافظ ابن عساکر نے اپنی’’ تاریخ ابن عساکر‘‘ میں یہ واقعہ باسند ذکر کیا ہے جس کا حاصل مطلب یہ ہے :
’’ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ کسی وقت ہمارے ہاں تشریف لایا کریں ۔ ایک بار حضرت حسین ؓحضرت عمرؓکی ملاقات کے لیے پہنچے ۔ عبداللہ بن عمرؓسے ملے ۔ انہوں نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کام میں مصروف ہیں ) مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں ملی ۔ یہ صورت ِ حال دیکھ کر حسین بن علی رضی اللہ عنہ واپس آگئے ۔ اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ملنا ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے حسین ملاقات کے لیے نہیں آئے ؟ کیا بات ہوئی ؟ تو سیدنا حسینؓ نے کہا کہ میں )فلاں وقت( آپ سے ملنے کے لیے گیا تھا لیکن عبداللہ بن عمرؓ کو بھی اس وقت اجازت نہیں ملی تھی اس وجہ سے میں واپس چلا گیا ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا آپ ابن عمرؓکے درجہ میں ہیں؟ اس کا اور مقام ہے ۔ آپ کا اور مرتبہ ہے ۔ یعنی ہرگز ایسا نہیں ہے یہ جو کچھ ہمیں عزت نصیب ہے یہ سب آپ لوگوں کی وجہ سے حاصل ہے۔‘‘
(۳)….اسی طرح اکابر مو¿رخین نے ایک واقعہ نقل کیا ہے اس میں حضرت عمرؓکی طرف سے حسنین شریفین رضی اللہ عنہما کی تکریم و توقیر کا مکمل طور پرلحاظ کیا گیا ہے ۔ اور اُن سے اپنے قلبی تعلق اور محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ذہبی نے سیر اعلام النبلائ ،تذکرئہ حسین رضی اللہ عنہ میں لکھا ہے :
’’ )فتوحات ہونے پر باہر سے کپڑا آیا( تو حضرت عمرؓنے صحابہ کرامؓکی اولاد کو پوشاکیں عنایت کیں ۔ ان میں حضرت حسنؓو حضرت حسینؓکے مناسب کوئی لباس نہ تھا ۔ حضرت عمرؓنے علاقہ یمن کی طرف آدمی روانہ کر کے حکم بھیجا کہ ان دونوں صاحبزادوں کے موافق لباس تیار کر کے ارسال کیا جائے )جب یہ لباس آیا اور حسنینؓنے زیب تن کیا( تو اس وقت عمر فاروقؓنے فرمایا کہ اب میری طبیعت خوش ہوئی ہے ۔‘‘
(۴)….مستند تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ حسنین شریفین رضی اللہ عنہماکے مالی حقوق کی رعایت حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرف سے مکمل طور پر کی جاتی تھی ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے حقوق کو ادا کرنا اپنا فرض منصبی اور فریضہ¿ دینی یقین کرتے تھے ۔ حقداروں کے حق ادا کیے بغیر ان کا انصاف و عدل نا تمام رہتا تھا ۔ جہاں بھی محدثین نے اور باانصاف غیر متعصب مو¿رخین نے یہ مسئلہ لکھا ہے وہاں انہوں نے حسنین رضی اللہ عنہماکے مالی وظائف متعین کیے جانے کا ضرور ذکر کیا ہے ۔ ان سب روایات کا حاصل مضمون یہ ہے :
’’ جب عمر فاروقؓنے ( اہل اسلام کی خاطر مال فے وغیرہ سے بطور وظیفہ امداد جاری کرنے کے لیے( فہرستیں بنوائیں تو اس وقت حضرت حسنؓو حضرت حسینؓکے لیے ان کے والد شریف کے حصہ کے موافق وظیفہ مقرر کیا یعنی ( بدری صحابہ کرام کی طرح ) پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کیا اس لیے کہ یہ دونوں حضرات ،سردارِ دوجہاں حضور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے۔‘‘
(۵)….مو¿رخین نے امام حسن مجتبیٰ کی ایک کرامت ذکر کی ہے جس کو ہم ذیل میں ان کی عبارت میں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سے یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ سیدنا حسنؓبن علیؓبن ابی طالب خلافت ِ فاروقی کے دوران اسلامی فوج میں شمولیت کیا کرتے تھے اور جنگی معاملات میں شریک ہوتے تھے ۔ شیخ عباس قمی نے اپنی تصنیف ’’ تتمتہ المنتہی فی وقائع ایام الخلفائ ‘‘ میں معتضد باللہ کی خلافت کے حالات میں لکھا ہے:
’’ شہر اصفہان میں ایک مسجد ہے اس کو’’ لسان الارض‘‘( زمین کی زبان( کہتے ہیں ۔ وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ عمر بن الخطاب ؓکی خلافت کے دوران اسلامی لشکر کے ساتھ امام حسن ؓ فتوحات کی خاطر اس مقام میں تشریف لائے تو اس وقت یہ زمین امام حسنؓ سے ہم کلام ہوئی اور گفتگو کی ۔ اس وجہ سے لوگ اس مقام کو ’’لسان الارض‘‘ کہتے ہیں۔‘‘
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ :….
(۱)….حضرت سیدنا عمر بن الخطاب ؓاور اُن کی اولاد کے نزدیک حسنینؓ شر یفین کی بڑی قدرو منزلت تھی ۔
(۲)….ان حضرات کی ایک دوسرے کی جانب آمدورفت رہتی تھی اور باہمی تو قیرو عزت کا پورا پورا خیال رکھتے تھے ۔
(۳)….سیدنا فاروق اعظمؓکی طرف سے بعض اوقات حسنین کریمینؓ کو پوشاک و لباس بھی عنایت کیا جاتا تھا ۔
(۴)….فاروقی خلافت کی جانب سے حسنینؓکے لیے باقاعدہ سالانہ وظائف اور عطایا و ہدایا دئیے جاتے تھے اور وہ ان کو قبول کرتے تھے ۔
(۵)….فاروقی خلافت کے دوران سیدنا حسنؓ اسلامی فوج میں شمولیت رکھتے تھے اور شریک کار رہتے تھے ۔
نیز بعض اہل تشیع مجتہدین کی تحقیق کے موافق تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ایک بیوی اسلامی فتوحات میں سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہی عطا کی تھی اور انہوں نے بخوشی قبول کی تھی۔ اسی محترمہ خاتون سے حضرت زین العابدین ؒ پیدا ہوئے ۔
اس واقعہ کے ذریعہ ثابت ہوا کہ :….
خلافت فاروقی برحق تھی اور اس کے تمام معاملات درست تھے اسی لیے اس کے غنائم کو لینا شرعاً صحیح تھا حضرت علیؓاور ان کے صاحبزادے، فاروق اعظمؓسے اپنے تمام حقوق مالی وصول فرماتے تھے ۔ اور ان حضرات کا آپس میں کوئی سیاسی و مذہبی اختلاف ہرگز نہ تھا ۔ یہ تاریخی واقعات ان حقائق پر کھلے ہوئے گواہ ہیں۔
ہم نے یہ سارے حوالہ جات ‘ محقق العصر حضرت مولانا محمد نافع ؒ کی کتاب ’’رحمائ بینھم ‘‘ سے لیے ہیں ۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک ایسی جامع ‘ مدلل اور مستند دستاویز ہے کہ اردو تو کیا ‘ عربی اور فارسی لٹریچر میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
اللہ کریم ہم سب کو حضرات صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام کی محبت و عقیدت کے ساتھ اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔)آمین ثم آمین(