قربانی کے متعلق غلط فہمیاں:…

٭…ٹی وی ،وی سی آر ،ڈش،ناجائز مضامین کی آڈیو ویڈیو کیسٹیں جیسی چیزیں ضروریات میں داخل نہیں بلکہ لغویات ہیں اور وہ تما م چیزیں جو گھروں میں رکھی رہتی ہیں اور سال بھر میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہیں ہو تیں ،ضرورت سے زیادہ ہیں اس لئے ان سب کی قیمت بھی حساب میں لگا ئی جا ئے گی۔
٭…بعض خواتین سمجھتی ہیں کہ سونا !چاندی اگر استعمال ہو تو اس پر قربانی یا زکوٰۃ لازم نہیں خواہ کتنی زیادہ ہو اور اگر استعمالی نہ ہو تو لازم ہے یہ سراسر غلط فہمی ہے۔
٭…مکان ،دکان،کاروبار شادی بیاہ وغیرہ کی ضروریا ت کے لئے رکھی ہو ئی رقم اور زیورات پر بھی قربانی واجب ہے۔
٭…بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ زکوٰۃ اور قربانی کا نصاب ایک ہی ہے اور ہم چونکہ زکوٰۃ فرض نہیں ،لہٰذا قربانی بھی واجب نہیں ،حالانکہ دونوں کا نصاب علیحدہ علیحدہ ہے ۔زکوٰۃ صرف چار قسم کی چیزوں پر فرض ہو تی ہے:…
(۱)…سونا(۲)…چاندی(۳)…روپیہ ،پیسہ (۴)…تجارت کا سامان۔
اور قربانی میں ان چار چیزوں کے علاوہ ضرورت سے زیادہ چیزوں کو بھی شامل کیا جا تا ہے ۔پس قربانی کے دنوں میں جس شخص کے پاس زکوٰۃ والا نصاب ہو اس پر قربانی بھی واجب ہے اور اگر کسی شخص کے پاس زکوٰۃ والا نصاب نہ ہو لیکن ضرورت سے زیادہ مال یا سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو اس پر قربانی واجب ہے اگر چہ اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
٭… عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جا تی ہے کہ جب تک ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی نہ ہو تو اس پر کسی حل میں قربانی واجب نہیں ،حالانکہ وزن کا اعتبار اس صورت میں ہے کہ جب کسی کی ملکیت میں صرف سونا یا صرف چاندی ہو ،تجارت کا سامان ذرا سا بھی نہ ہو ،نقدی ایک پیسہ بھی نہ ہو اور ضرورت سے زیادہ کوئی چیز بھی نہ ہو(اور آج کل کچھ نہ کچھ نقدی اور فالتو سامان ہو تا ہی ہے)اگر کسی مرد یا عورت کی ملکیت میں دو یا زیادہ طرح کی چیزیں ہوں تو ہر ایک کا علیحدہ نصاب پورا ہونا ضروری نہیں بلکہ اس صورت میں سب کی مالیت ملا کر دیکھی جائے گی اگر سب کی ملکیت ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو جا ئے تو قربانی واجب ہے چنانچہ خواتین کے پاس کئی کئی تولہ سونا ہو تا ہے اور کچھ نہ کچھ نقدی بھی ضرورہوتی ہے ضرورت سے زیادہ اور فالتو سامان کے ڈھیر ہوتے ہیں مگر وہ نہ زکوٰۃ ادا کرتی ہیںاور نہ قربانی اس کی اصلاح بہت ضروری ہے ۔
٭…بعض خواتین پر قربانی واجب ہو تی ہے اس کے باوجود یہ سمجھتی ہیں ہماری قربانی ہمارے شوہروں کے ذمہ لازم ہے اور اگر ان کے شوہر ادا نہ کریں تو وہ بھی ادا نہیں کرتیں جبکہ عورت کے مال اور زیورات وغیرہ کی قربانی ان کے شوہروں پر لازم نہیں بلکہ ان پر خود اپنے مال سے لازم ہے ۔خواہ اس لئے زیور وغیرہ کیوں نہ بیچنا پڑے ،البتہ اگر کسی عورت کا شوہر اپنی رقم سے اس کی طرف سے قربانی کردے تو جا ئز ہے(جبکہ بیوی کی طرف سے صراحتاً یا دلا لتاً اجازت ہو۔
٭…بعض جگہ گھر کا سربراہ ایک قربانی کرلے تو اسے یا بکرے وغیرہ کو سب افراد خانہ کی طرف سے کافی سمجھا جاتا ہے حالانکہ سربراہ کے علاوہ گھر کا کوئی اور فرد یا افراد نصاب کے مالک ہو ں تو ان پر الگ سے اپنی قربانی واجب ہے اس صورت میں گھر کی سب افراد کی طرف سے ایک بکرے کو یا گھر کے سربراہ کی طرف سے ایک قربانی کا فی سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے سربراہ کی نماز کو سب گھر والوں کی طرف سے کافی سمجھا جائے ،ہاں اگر اپنی اولاد سب کمائی مالکانہ طور پر والد یا سربراہ کے دے دیتی ہے اور اولاد کی ملکیت میں اور کوئی مال اور ضرورت سے زیادہ سامان نصاب کے برابر بھی نہیں تو قربانی صرف والد ہی کرے اولاد پر نہیں۔
٭…بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ زندگی میں ایک شخص کی طرف سے ایک دفعہ قربانی ہوجائے تو پھر قربانی کرنا واجب نہیں رہتا یہ بھی غلط ہے قربانی ہر سال نصاب والے شخص پر واجب ہو تی ہے جبکہ ہر سال قربانی کے دنوں میں اس شخص کے اندر قربانی کی شرائط موجود ہوں جس طرض زکوٰۃ اور صدقۂ فطر ہر سال واجب ہو تا ہے ۔
٭…بعض لوگوں کے ہاں دستور ہے کہ باری باری قربانی کرتے رہتے ہیں کبھی اپنی طر ف سے قربانی کر لی ،کبھی بیوی کی طرف سے کر لی ،کبھی لڑکے کی طرف سے اور کبھی لڑکی کی طرف سے ،کبھی والد یا کسی اور کی طرف سے کر لی، حالا نکہ اگر سب یا جو لوگ بھی الگ الگ نصاب کے مالک ہوں تو ہر ایک پر علیحدہ علیحدہ قربانی واجب ہے ۔
٭…قربانی واجب ہو نے کے لئے مرد یا عورت کا شادی شدہ ہو نا ضروری نہیں کنوارے بالغ لڑکے ،بالغ لڑکی ،بیوہ عورت پر بھی قربانی واجب ہے۔جبکہ نصاب کے مالک ہوں۔
٭…قربانی واجب ہونے کے لئے کسی شخص بر سر روزگار ہونا بھی ضروری نہیں اگر کو ئی شخص نصاب کا مالک ہے تو اس پر قربانی واجب اگرچہ وہ برسرروگار نہ ہو ۔
قربانی حضرت ابر اہیم علیہ الصلوٰۃُ والسلام کے جس عظیم الشان عمل کی یادگارہے اس سے ایک مسلمان کو یہ سبق حاصل ہو تا ہے کہ:…
ہروقت اپنے پروردگار کی اطاعت اور اس کے لئے ہرقسم کی قربانی کے لئے تیار رہے اور دنیا کی محبت ،موت کی کراہیت چھوڑ کر یہ جذبہ پیدا کرے کہ اگر بیٹے ہی کو ذبح کرنے کا حکم ہماری شریعت میں باقی رہتا تو ہم بخوشی اس پر عمل کرتے۔قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے اس لئے قربانی کی روح کو حاصل کرنے کی کوشش بھی ہونی چاہیے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃُ والسلام نے صرف ایک جانور کی قربانی نہیں کی بلکہ پوری زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کی اطاعت و فرمانبرداری میںگذارا۔جو حکم بھی اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا فوراً عمل کیا۔جان ،مال،،ماں باپ،وطن ومکان ،لختِ جگر،غرض سب کچھ اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کے راستے میںقربان فرمایاہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ دین کا جو تقاضا اور اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر عمل کریں گے۔
اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرماکر دنبے کو حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃُ والسلام کا فدیہ بنادیا اور اب بیٹے کی قربانی کا حکم نہیں،مگر جہاد فی سبیل اللہ میں جان،مال کی قربانی کا حکم تو ہمیشہ کے لئے ہے اور جہاد تو قیامت تک جاری رہے گا ۔اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کی رضا جو ئی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیناہی انسانیت کی تکمیل ہے اور اس پر عبدیت کے حق سے سبکدوشی نہیں ہو سکتی۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ماخذ:…
(۱)…ذی الحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام
از:…مفتی محمد رضوان صاحب
(۲)…ماہنامہ محاسن اسلام ملتان اگست ۲۰۱۷ء؁
از:…حافظ محمداسحٰق ملتانی
(۳)…ماہنامہ الفاروق کراچی ذی الحجہ ۱۴۳۸ھ؁
از:…جامعہ فاروقیہ کراچی
(۴)…قربانی کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا
از:…مفتی محمد انعام الحق صاحب قاسمی