نفل نمازیں

نماز تہجد:
فضیلت: نماز تہجد نفل نمازوں میں سب سے زیادہ اہمیت و افضلیت کی حامل ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اَفْضَلُ الصَّلَاۃِ بَعْدَالْفَرِیْضَۃِ صَلَاۃُ اللَّیْلِ۔
(جامع الترمذی ج 1 ص 99باب ما جاء فی فضل صلوۃ اللیل )
فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔
اس کی فضیلت کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ غُرْفاً تُرَیٰ ظُھُوْرُھَا مِنْ بُطُوْنِھَا وَبُطُوْنُھَا مِنْ ظُھُوْرِھَا فَقَامَ اَعْرَابِیٌّ فَقَالَ لِمَنْ ھِیَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ لِمَنْ اَطَابَ الْکَلَامَ وَاَطْعَمَ الطَّعَامَ وَاَدَامَ الصِّیَامَ وَصَلّٰی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ۔
(جامع الترمذی ج 2ص19 باب ماجاء فی قول المعروف )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے۔ تو ایک اعرابی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا۔ اے اللہ کے رسول! یہ بالا خانے کن لوگوں کے لئے ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے لئے جو اچھا کلام کرے، (مسکینوں کو)کھانا کھلائے، ہمیشہ روزے رکھے اور رات کو نماز پڑھے جب دوسرے لوگ سو رہے ہوں۔
وقت تہجد:
نماز تہجد کا وقت آدھی رات کے بعد شروع ہو جاتاہے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ عشاء پڑھ کر سو جائے، پھر اٹھ کر نماز تہجد ادا کرے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتی ہیں۔
کَانَ یَنَامُ اَوَّلَہٗ وَیَقُوْمُ اٰخِرَہٗ فَیُصَلِّیْ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی فِرَاشِہٖ۔
(صحیح البخاری ج1 ص154 باب من نام اول اللیل و احیی آخرہ، صحیح مسلم ج 1ص255 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے شروع حصہ میں نیند فرماتے اور آخری حصہ میں بیدار ہوتے اور نماز ادا فرماتے۔ پھر اپنے بستر پر واپس آجاتے۔
تعداد رکعات تہجد:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تہجد کی رکعات کے بارے میں مختلف تھی۔ چار، چھ، آٹھ، دس رکعات تک بھی منقول ہیں۔
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ اَبِیْ قَیْسٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا بِکَمْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُوْتِرُ؟ قَالَتْ بِاَرْبَعٍ وَثَلَاثٍ وَسِتٍّ وَّثَلَاثٍ وَثَمَانٍ وَّ ثَلَاثٍ وَلَمْ یَکُنْ یُوْتِرُبِاَکْثَرَمِنْ ثَلٰثَ عَشْرَۃَ وَلَااَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص200 باب فی صلوۃ اللیل)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعتوں کے ساتھ وتر پڑھتے تھے؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا چار اور تین کے ساتھ، چھ اور تین کے ساتھ، آٹھ اور تین کے ساتھ آپ کی وتر (مع تہجد) کی رکعتیں نہ تیرہ سے زیادہ ہوتی تھیں اور نہ سات سے کم۔
:2 عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ تِسْعَ رَکْعَاتٍ فِیْھِنَّ الْوِتْرُ۔
(صحیح ابن خزیمۃ ج 1ص577 رقم الحدیث 1167)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نو رکعت پڑھتے تھے، ان میں وتر بھی ہوتی تھی۔
:3 حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلّٰی بَعْدَالْعَتَمَۃِ ثَلَاثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً۔
(صحیح ابن خزیمۃ ج 1ص576 رقم الحدیث 1165
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔
فائدہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مندرجہ بالا رکعات مختلف اوقات میں پڑھتے تھے، لیکن اکثر معمول آٹھ رکعت تہجد کا تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں۔
مَاکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَزِیْدُفِیْ رَمَضَانَ وَلَافِیْ غَیْرِہٖ عَلٰی اِحْدیٰ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً۔
(صحیح البخاری ج 1ص154 باب قیام النبی ﷺ باللیل فی رمضان و غیرہ،صحیح مسلم ج 1ص254 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ الخ،سنن النسائی ج 1ص248 باب کیف الوتر بثلاث)
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میںگیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے (آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعت وتر
نماز اشراق:
نماز اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے پندرہ، بیس منٹ بعد شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی دو یا چار رکعت پڑھی جاتی ہیں، جن کا ثواب ایک حج وعمرہ کے برابر ہے۔
:1 عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلَّی الْفَجْرَفِیْ جَمَاعَۃٍ ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُاللّٰہَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ کَانَتْ لَہٗ کَاَجْرِحَجَّۃٍ وَّ عُمْرَۃٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ تَامَّۃٍ۔
(سنن الترمذی ج 1ص130 باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس فی المسجدالخ، الترغیب والترھیب للمنذری ج 1ص178 الترغیب فی جلوس المرء فی مصلاہ الخ )
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی، پھر وہیں اللہ کا ذکر کرنے بیٹھ گیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں تو اس کے لئے ایک مکمل حج اور عمرہ کا ثو اب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ’’ مکمل‘‘ کا لفظ تین بار ارشاد فرمایا۔
:2 عَنْ حَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلَّی الْفَجْرَثُمَّ قَعَدَفِیْ مَجْلِسِہٖ یَذْکُرُاللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ قَالَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَی النَّارِاَنْ تَلْفَحَہٗ اَوْتَطْعَمَہٗ۔
(شعب الایمان للبیہقی ج 3ص85 فصل امشی الی المساجد، رقم الحدیث2958،جامع الاحادیث للسیوطی ج 20 ص494 رقم الحدیث 22717 )
ترجمہ: حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے فجر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالی کا ذکر کرنے لگا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالی آگ پر حرام کر دیں گے کہ اسے کھائے۔
:3 حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے اسی مضمون کی روایت مروی ہے:
ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ اَوْاَرْبَعَ رَکْعَاتٍ۔
(الترغیب والترہیب للمنذری ج 1ص178 الترغیب فی جلوس المرء فی مصلاہ الخ )
ترجمہ: پھر وہ دو رکعتیں پڑھے یا چار رکعات۔
نماز چاشت:
فضیلت:
:1 عَنْ اَبِی الدَّرْدَآئِ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلَّی الضُّحٰی رَکْعَتَیْنِ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ وَمَنْ صَلّٰی اَرْبَعاًکُتِبَ مِنَ الْعَابِدِیْنَ وَمَنْ صَلّٰی سِتًّاکُفِیَ ذٰلِکَ الْیَوْمَ وَمَنْ صَلّٰی ثَمَانِیًاکَتَبَہُ اللّٰہُ مِنَ الْقَانِتِیْنَ وَمَنْ صَلّٰی ثِنْتَیْ عَشَرَۃَ بَنَی اللّٰہُ لَہٗ بَیْتًافِی الْجَنَّۃِ۔
(مجمع الزوائد للھیثمی ج2 ص494 باب صلوٰۃ الضحیٰ، رقم الحدیث 3419)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے چاشت کی دو رکعات پڑھیں تو ا س کا نام غافلین میں نہیں لکھا جائے گا۔ جس نے چار رکعات پڑھیں تو اس کانام عابدین میں لکھا جائے گا۔ جس نے چھ رکعات پڑ ھیں اس دن اس کی کفایت کی جائے گی، جس نے آٹھ پڑھیں اسے اللہ تعالی اطاعت شعاروں میں لکھ دیں گے اور جس نے بارہ رکعات پڑھیں تو اس کے لئے اللہ تعالی جنت میں گھر بنا دیں گے
:2 عَنْ اَبِیْ ذَرٍّرَضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ یُصْبِحُ عَلٰی کُلِّ سَلَامٰی مِنْ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ فَکُلُّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَھْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃٌ وَاَمْرٌبِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ وَنَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِصَدَقَۃٌ وَیُجْزِیُٔ مِنْ ذٰلِکَ رَکْعَتَانِ یَرْکَعُھُمَامِنَ الضُّحٰی۔
(صحیح مسلم ج1 ص 250 باب استحباب صلوۃ الضحی الخ)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہوتا ہے۔ ہر با ر سبحان اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار الحمد للہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر با ر لا الہ الا اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر با ر اللہ اکبرکہنا ایک صدقہ ہے، اچھی بات کا حکم کرنا ایک صدقہ ہے، بری بات سے روکنا ایک صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں جنھیں انسان پڑھ لیتا ہے۔
تعداد رکعات نماز چاشت:
چاشت کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں۔
:1 حدیث ابو الدرداء رضی اللہ عنہ جس میں دو سے بارہ رکعت کا ذکر ہے، پیچھے گزر چکی ہے۔
(مجمع الزوائد للھیثمی ج2 ص494 باب صلوٰۃ الضحیٰ، رقم الحدیث 3419)
:2 حضرت معاذہ العدویہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی الضُّحٰی اَرْبَعًاوَیَزِیْدُ مَاشَائَ اللّٰہُ۔
(صحیح مسلم ج 1ص249 باب استحباب صلوۃ الضحی الخ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی (عموماً) چار رکعت پڑھتے تھے اور (کبھی) اس سے زیادہ بھی پڑھتے جو اللہ تعالی کو منظور ہوتا۔
:3 عَنْ اُمِّ ھَانِیِّ رضی اللہ عنہا قَالَتْ اِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم دَخَلَ بَیْتَھَا یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَاغْتَسَلَ وَصَلّٰی ثَمَانِیَ رَکْعَاتٍ فَلَمْ اَرَ صَلٰوۃً قَطُّ اَخَفَّ مِنْھَا غَیْرَ اَنَّہٗ یُتِمُّ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ… وَقَالَتْ فِی رِوَایَۃٍ اُخْریٰ… وَذٰلِکَ ضُحیً۔
(مشکوٰۃ المصابیح ج1 ص115 باب صلوۃ الضحی،صحیح مسلم ج 1ص249 باب استحباب صلوۃ الضحی الخ)
حضرت ام ھانی رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن میرے گھر تشریف لائے، غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ میں نے کبھی اس سے ہلکی پھلکی نماز نہیں دیکھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں بھی رکوع و سجود پورا کر رہے تھے۔ ام ھانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ چاشت کی نماز تھی۔
:4 حدیث ابی ذر رضی اللہ عنہ جس میں دو رکعت کا ذکر ہے۔، پیچھے گزر چکی ہے
(صحیح مسلم ج1 ص 250 باب استحباب صلوۃ الضحی الخ)
چاشت کا وقت:
سورج کے طلوع ہونے کے بعد شروع ہوجاتا ہے اور زوال تک رہتا ہے۔ لیکن افضل یہ ہے کہ دن کے چوتھائی حصہ گزرنے کے بعد پڑھے جیسا کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْنَ حِیْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ۔
(صحیح مسلم ج 1ص257 باب صلوۃ اللیل و عدد رکعات النبی ﷺ الخ)
ترجمہ: چاشت کی نماز اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب اونٹنی کے بچے کے پائوں گرمی سے جھلسنے لگیں۔
بقول ملا علی قاری یہ وقت دن کے چوتھائی حصہ سے شروع ہو جاتاہے۔
(حاشیہ مشکوٰۃ ج1 ص116 باب صلوۃ الضحی)
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلوۃ ضحی (چاشت) کو صلوۃ الاوابین بھی کہا جاتا ہے۔
نماز اوابین:
نماز مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھی جاتی ہیں۔ احادیث میں اس کا بڑا ثواب منقول ہے۔
:1 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃََ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلّٰی بَعْدَالْمَغْرَبِ سِتَّ رَکْعَاتٍ لَمْ یَتَکَلَّمْ فِیْمَابَیْنَھُنَّ بِسُوْئٍ عُدِلْنَ لَہٗ بِعِبَادَۃِ ثِنْتَیْ عَشَرَۃَ سَنَۃً۔
(جامع الترمذی ج 1ص98 باب ما جاء فی فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب،سنن ابن ماجۃ ج 1ص98 باب ما جاء فی الصلوۃ بین المغرب و العشائ،الترغیب والترہیب للمنذری ج 1ص227 الترغیب فی الصلوۃ بین المغرب و العشاء )
ترجمہ: حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہیں کی تو اسے بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملے گا۔
:2 حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
رَاَیْتُ حَبِیْبِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّیْ بَعْدَ الْمَغْرَبِ سِتَّ رَکْعَاتٍ وَقَالَ مَنْ صَلّٰی بَعْدَالْمَغْرَبِ سِتَّ رَکْعَاتٍ غُفِرَتْ لَہٗ ذُنُوْبُہٗ وَاِنْ کَانَ مِثْلَ زَبَدِالْبَحْرِ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی ج5 ص255 رقم الحدیث 7245،مجمع الزوائد للھیثمی ج 2ص483 باب الصلوۃ قبل المغرب و بعدھا، رقم الحدیث 3380، الترغیب والترہیب للمندری ج1 ص227 الترغیب فی الصلوۃ بین المغرب و العشاء )
ترجمہ: میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھیں تو اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
فائدہ: اس نماز کو’’ اوابین’’ کہا جاتا ہے، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درج ذیل آثار سے ثابت ہے۔
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرََ رضی اللہ عنہ قَالَ صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ مَابَیْنَ اَنْ یَّنْکَفِتَ اَھْلُ الْمَغْرِبِ اِلٰی اَنْ یُّثَوَّبَ اِلَی الْعِشَائِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص266،267،فی الصلوۃ بین المغرب و العشائ، رقم 5973 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ’’ صلوۃ الاوابین‘‘ کا وقت اس وقت سے ہے کہ جب نمازی نماز مغرب پڑھ کر فارغ ہوں اور عشاء کا وقت آنے تک رہتا ہے۔
:2 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ اِنَّ الْمَلَا ئِکَۃَ لَتَحُفُّ بِالَّذِیْنَ یُصَلُّوْنَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ اِلَی الْعِشَائِ وَھِیَ صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْنَ۔
(شرح السنۃ للبغوی ج 2ص439 باب الصلوۃ بین المغرب و العشاء، رقم الحدیث 892)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ’’ صلوۃ الاوابین‘‘ ہے۔
صلوٰۃ التسبیح
صلوۃ التسبیح بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی چار رکعت ایک سلام کے ساتھ ہیں۔ ہر رکعت میں پچہتر(75) بار یہ تسبیح سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھنی چاہئے۔ طریقہ اس حدیث میں منقول ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ یَاعَبَّاسُ! یَاعَمَّاہ! اَلاَاُعْطِیْکَ اَلاَاَمْنَحُکَ اَلاَاَحْبُوْکَ اَلاَاَفْعَلُ بِکَ عَشْرَ خِصَالٍ اِذَااَنْتَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ غَفَرَاللّٰہُ لَکَ ذَنْبَکَ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ قَدِیْمَہٗ وَ حَدِیْثَہٗ خَطَأَہٗ وَعَمَدَہٗ صَغِیْرَہٗ وَکَبِیْرَہٗ سِرَّہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ عَشْرَخِصَالٍ اَنْ تُّصَلِّیَ اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ تَقْرَئُ فِیْ کُلِّ رَکَعَۃٍ فَاتِحَۃَالْکِتَابِ وَسُوْرَۃً فَاِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَائَۃِ فِیْ اَوَّلِ رَکَعَۃٍ وَاَنْتَ قَائِمٌ قُلْتَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُخَمْسَ عَشَرَۃَ مَرَّۃً ثُمَّ تَرْکَعُ فَتَقُوْلُھَاوَاَنْتَ رَاکِعٌ عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَاْسَکَ مِنَ الرُّکُوْعِ فَتَقُوْلُھَاعَشْرًا ثُمَّ تَھْوِیْ سَاجِدًا فَتَقُوْلُھَاوَاَنْتَ سَاجِدٌ عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَاْسَکَ مِنَ السُّجُوْدِ فَتَقُوْلُھَاعَشْرًا ثُمَّ تَسْجُدُ فَتَقُوْلُھَا عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَاسَکَ فَتَقُوْلُھَاعَشْرًا فَذَالِکَ خَمْسٌ وَّسَبْعُوْنَ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ تَفْعَلُ ذٰلِکَ فِیْ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ اِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تُصَلِّیَھَافِیْ کُلِّ یَوْمٍ مَرَّۃً فَافْعَلْ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ کُلِّ جُمْعَۃٍ مَرَّۃً فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ کُلِّ شَھْرٍمَرَّۃً فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ کُلِّ سَنَۃٍ مَرَّۃً فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ عُمْرِکَ مَرَّۃً۔
(سنن ابی داؤد ج1 ص190 باب صلوۃ التسبیح، جامع الترمذی ج 1ص109 باب ما جاء فی صلوۃ التسبیح، سنن ابن ماجۃ ج 1ص99 باب ما جاء فی صلوۃ التسبیح،الترغیب والترہیب للمنذری ج 1ص268 الترغیب فی صلوۃ التسبیح)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا۔ اے چچا ! کیا میں آپ کو ایک ہدیہ، تحفہ اور ایک خبر نہ دوں؟ کیا میں آپ کو دس باتیں نہ بتائوں کہ جب آپ انہیں کرلیں تو اللہ تعالی آپ کے نئے پرانے بھول کرکئے اور جان بوجھ کر کئے ہوئے، چھوٹے بڑے، چھپ کر کئے یا ظاہر سب گناہ معاف فرما دیں۔ وہ دس خصلتیں(باتیں) یہ ہیں کہ آپ چار رکعت پڑھیں۔ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھیں۔ جب پہلی رکعت میں قرات سے فارغ ہوں تو قیام ہی کی حالت میں یہ کلمات سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر پندرہ بار پڑھیں، جب رکوع کریں تو حالت رکوع میں دس بار پڑھیں، پھر رکوع سے سر اٹھائیں تو دس مرتبہ کہیں۔ پھر سجدہ کے لئے جھک جائیں تو سجدہ میں دس مرتبہ کہیں۔ پھر سجدہ سے سر اٹھائیں تو دس مرتبہ کہیں۔ پھر سجدہ کریں تو دس مرتبہ کہیں، پھر سجدہ سے سر اٹھائیں تو دس مرتبہ کہیں (پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو جائیں)ہر رکعت میں یہ کل پچہتربار ہوگئے۔ آپ چار رکعت میں ایسا ہی کریں۔ اگر ہر دن پڑھنے کی طاقت ہو تو ہر دن پڑھیں، اگر ایسا نہ کرسکیں تو ہر جمعہ کو ایک بار پڑھیں، ہر جمعہ کی طاقت نہ ہوتو ہر مہینہ میں ایک بار پڑھیں، اگر ہر مہینہ میں نہ پڑھ سکیں تو سال میں ایک بار پڑھیں اور اگر سال میں بھی نہ پڑھ سکیں تو عمر بھر میں ایک بار ضرور پڑھیں۔
ایک دوسرا طریقہ بھی صلوۃ التسبیح کے متعلق مروی ہے۔ وہ یہ کہ ثناء پڑھنے کے بعد مذکورہ تسبیح پندرہ بار پڑھے۔ پھر رکوع سے پہلے رکوع کی حالت میں، رکوع کے بعد، سجدہ اولیٰ میں، سجدہ کے بعد بیٹھنے کی حالت میں، پھر دوسرے سجدہ میں دس دس بار پڑھے پھر سجدہ ثانی کے بعد نہ بیٹھے بلکہ کھڑا ہو جائے۔ باقی ترتیب وہی ہے۔
(جامع ترمذی ج1 ص109 باب ما جاء فی صلوۃ التسبیح،الترغیب والترہیب للمنذری ج 1ص269 الترغیب فی صلوۃ التسبیح)
دونوں طریقوں میں سے جس کو اختیار کرے، اس کے مطابق پڑھ سکتا ہے لیکن یہ خیال رہے کہ تسبیح ہر رکعت میں پچہتر بار ہونی چاہیے۔
صلوٰۃ الحاجۃ
آدمی کو جب کوئی ضرورت پیش آئے تو اسے چاہئے کہ اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت صلوۃ الحاجۃ پڑھے۔ پھر باری تعالی کی حمد و ثناء کرے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور عاجزی و انکساری سے دعا کرے تو یقیناً اللہ تعالی اس کی حاجت پوری فرمائیں گے چنانچہ احادیث میں وارد ہے:
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ اَبِیْ اَوْفٰی رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ کَانَتْ لَہٗ اِلَی اللّٰہِ حَاجَۃٌ اَوْاِلٰی اَحَدٍ مِّنْ بَنِیْ اٰدَمَ فَلْیَتَوَضَّاْ وَلْیُحْسِنِ الْوُضُوْئَ ثُمَّ لِیُصَلِّ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ لِیُثْنِ عَلَی اللّٰہِ وَلِیُصَلِّ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ لْیَقُلْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلّ ِ بِرٍّ وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَا تَدَعْ لِیْ ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَہٗ وَلَاھَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہٗ وَ لَاحَاجَۃً ھِیَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَھَا یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
(جامع الترمذی ج 1ص108 باب ما جاء فی صلوۃ الحاجۃ، سنن ابن ماجۃ ج 1ص98 باب ما جاء فی صلوۃ الحاجۃ،الترغیب والترہیب للمندری ج1 ص273الترغیب فی صلوۃ الحاجۃ و دعائھا )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ کی طرف یا مخلوق کی طرف کوئی ضرورت ہو تو اسے چاہئے کہ اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعتیں پڑھے۔ پھر اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودبھیجے، پھر یہ دعا پڑھے:)ترجمہ یہ ہے) اللہ حلیم و کریم کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اللہ تعالی پاک ہے،عرش عظیم کا مالک ہے۔، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام عالمین کا رب ہے۔(اے اللہ!) میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کی رحمت کو واجب کرنے اور بخشش کو لازم کرنے والی چیزوں کا، اور ہر نیکی سے حصہ اور ہرگناہ سے سلامتی کا۔ میرے کسی گناہ کو معاف کئے بغیر نہ چھوڑ، کسی غم کو دور کئے بغیر نہ چھوڑ، اور کوئی حاجت جو آپ کی رضا کا سبب ہو پورا کئے بغیر نہ چھوڑ۔ اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والی ذات!
:2 حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ تَوَضَّاَ فَاَسْبَغَ الْوُضُوْئَ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ یُتِمُّھُمَااَعْطَاہُ اللّٰہُ مَاسَاَلَ مُعَجِّلاً اَوْمُؤَخِّرًا۔
(مسند احمد بن حنبل ج18 ص568 رقم الحدیث 27370،غایۃ المقصد فی زوائد المسند للھیثمی ج 1ص1362 باب صلوۃ الحاجۃ)
ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر دو رکعتیں خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھیں تو اللہ تعالی اس کے سوال کو جلدی یا دیر سے ضرور پورا کرے گا۔
تحیۃ الوضوء
اس کی دو رکعتیں ہیں۔ وضو کرنے کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔ احادیث میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے۔ چند احادیث پیش خدمت ہیں:
:1 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ یَا بِلَالُ!حَدِّثْنِیْ بِاَرْجٰی عَمَلٍ عَمِلْتَہٗ فِی الْاِسْلَامِ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَیْکَ بَیْنَ یَدَیَّ فِی الْجَنَّۃِ؟ قَالَ مَاعَمِلْتُ عَمَلًا اَرْجٰی عِنْدِیْ اَنِّیْ لَمْ اَتَطَھَّرْطُھُوْرًا فِیْ سَاعَۃِ لَیْلٍ اَوْنَھَارٍاِلَّاصَلَّیْتُ بِذٰلِکَ الطُّھُوْرِمَاکُتِبَ لِیْ اَنْ اُصَلِّیَ۔
(صحیح البخاری ج 1ص154باب فضل الطھور باللیل و النھار، صحیح مسلم ج 2ص292باب من فضائل ام سلیم ام انس بن مالک و بلال رضی اللہ عنہ، الترغیب والترہیب للمنذری ج1 ص106 الترغیب فی رکعتین بعد الوضوئ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اے بلال! مجھے بتا کہ اسلام میں تیرا وہ کون سا عمل ہے جس کی مقبولیت کی زیادہ امید ہو؟ کیونکہ میں نے تیرے جوتوں کی آواز جنت میں سنی ہے۔ تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرا ایسا عمل تو کوئی نہیں، لیکن اتنی بات ہے کہ جب بھی میں نے طہارت کی ہے (وضو وغیرہ) دن میں یارات کو کسی بھی وقت تو اس طہارت کے ساتھ جتنا ہو سکا میں نے نماز ضرور پڑھی ہے۔
:2 حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَامِنْ مُّسْلِمٍ یَّتَوَضَّاُفَیُحْسِنُ وُضُوْئَہٗ ثُمَّ یَقُوْمُ فَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ مُقْبِلٌ عَلَیْھِمَابِقَلْبِہٖ وَوَجْھِہٖ اِلَّاوَجَبَتْ لَہٗ الْجَنَّۃُ۔
(صحیح مسلم ج 1ص122 باب الذکر المستحب عقب الوضوئ،سنن النسائی ج 1ص36 باب ثواب من احسن الوضوء ثم صلی رکعتین)
ترجمہ: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے، پھر دورکعتیں اس طرح پڑھے کہ قلب و ظاہر کی تمام توجہ ان دو رکعات کی طرف ہو تو اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔
:3 عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدِالْجُھَنِیَّ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ تَوَضَّاَ فَاَحْسَنَ وُضُوْئَہٗ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ لَایَسْھُوْفِیْھِمَاغُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔
(سنن ابی داؤد ج1 ص138 باب الکراہیۃ الوسوسۃ و حدیث النفس فی الصلوۃ،شرح السنۃ للبغوی ج 2ص524 باب فضل من تطھر فصلی عقبیہ، رقم الحدیث 1008،الترغیب والترہیب للمنذری ج 1ص106 الترغیب فی رکعتین بعد الوضوئ)
ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر دو رکعت نماز پڑھی جن میں غفلت نہ برتی تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
تحیۃ المسجد
جب کوئی مسلمان مسجد میں داخل ہو تو مستحب یہ ہے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ لے بشرطیکہ مکروہ وقت نہ ہو۔
عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ السَّلَمِیِّ رَضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَادَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ اَنْ یَّجْلِسَ۔
(صحیح البخاری ج 1ص63 باب اذا دخل احدکم المسجد فلیرکع رکعتین،صحیح مسلم ج 1ص248باب استحباب تحیۃ المسجد برکعتین الخ )
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہوتو اسے چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے۔
صلوۃ استخارہ
جب کسی کو کوئی کام پیش آئے اور اس کے کرنے نہ کرنے میں تردد ہو رہا ہو اور یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ کروں یا نہ کروں؟ جلدی کروں یا دیر سے؟ تو اسے چاہیے کہ دو رکعت نماز استخارہ پڑھ کر دعاء استخارہ مانگے، پھر جس طرف دل کا میلان ہو جائے اسی کو اختیار کرے۔
عَنْ جَابِرِبْنِ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُعَلِّمُنَا الْاِسْتِخَارَۃَ فِی الْاُمُوْرِکُلِّھَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْاٰنِ یَقُوْلُ اِذَا ھَمَّ اَحَدُکُمْ بِالْاَمْرِفَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ مِنْ غَیْرِ الْفَرِیْضَۃِ ثُمَّ لِیَقُلْ: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لَا اَقْدِرُ وَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَخَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ اَوْ قَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ فَاقْدِرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ اَوْقَالَ فِیْ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہٗ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ ارْضِنِیْ بِہٖ قَالَ وَیُسَمِّیْ حَاجَتَہٗ۔
(صحیح البخاری ج 1ص155 باب لا جاء فی التطوع مثنی مثنی،سنن ابی داؤد ج 1ص222 باب فی الاستخارۃ،جامع الترمذی ج 1ص109باب ما جاء فی صلوۃ الاستخارۃ )
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام امور میں استخارہ کرنا سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ فرماتے تھے کہ جب تمہیں کوئی کام پیش آئے تو دو رکعتیں نماز (استخارہ) پڑھو پھر یہ دعا مانگو: (دعا کا ترجمہ یہ ہے) اے اللہ! میں تیرے علم کی مدد سے تجھ سے بھلائی اور تیری قدرت کی مدد سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کا سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا، اور تو ہی تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (اس جگہ اپنے کام کا نام لے) میرے دین، زندگی، انجام کار اور میری دنیا و آخرت کے اعتبار سے بہتر ہے تو اسے میری قدرت میں دے دے اور اسے میرے لئے آسان فرما دے اور اگر تو اس کام کو میرے دین، زندگی، انجام کار اور دنیا و آخرت کے لئے برا سمجھتا ہے تو اس کو مجھے سے اور مجھ کو اس سے پھیر دے اور میرے لئے بھلائی عطا فرما جہاں کہیں بھی ہو، پھر مجھے اس کے ساتھ راضی بھی فرما۔
صلوۃ التوبہ
اگر کسی سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو اسے چاہئے کہ اچھی طرح وضو کرے، دو رکعت نماز پڑھ کر توبہ کرے اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَامِنْ رَجُلٍ یُذْنِبُ ذَنْبًاثُمَّ یَقُوُمُ فَیَتَطَھَّرُثُمَّ یُصَلِّیْ ثُمَّ یَسْتَغْفِرُاللّٰہَ اِلَّاغَفَرَاللّٰہُ لَہٗ ثُمَّ قَرَاَ ھٰذِہٖ الْاٰیَۃ:{ وَالَّذِیْنَ اِذَافَعَلُوْافَاحِشَۃً اَوْظَلَمُوْااَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوْا اللّٰہَ} الْاٰیَۃِ
(آل عمران:135 )
(جامع الترمذی ج 1ص92 باب ما جاء فی الصلوۃ عند التوبۃ، سنن ابن ماجۃ ج 1ص100 باب ما جاء فی ان الصلوۃ کفارۃ، سنن ابی داؤد ج 1ص220 باب فی
ترجمہ: فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس شخص سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ وضو کرے اور (دور رکعت) نماز ادا کرے اور اللہ تعالی سے معافی مانگے تو اللہ تعالی اسے معاف فرمادیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ) اور جب وہ کوئی فحش کام کرتے ہیں یاا پنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخش دے اور وہ لوگ اپنے کئے ہوئے پر اصرار نہیں کرتے اور وہ جانتے ہیں۔
صلوۃ سفر:
سفر پر جاتے وقت اور سفر سے واپسی پر دو رکعت پڑھنا مستحب ہے۔
:1 عَنِ الْمُطْعِمِ بْنِ الْمِقْدَامِ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَاخَلَفَ عَبْدٌعَلٰی اَھْلِہ ٖ اَفْضَلَ مِنْ رَّکْعَتَیْنِ یَرْکَعُھُمَاعِنْدَھُمْ حِیْنَ یُرِیْدُ السَّفْرَ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج3 ص552،553، الرجل یرید السفرالخ، رقم 4914)
ترجمہ: حضرت مطعم بن مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص سفر کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے گھر والوں کے پاس دو رکعت سے زیادہ افضل شے نہیں چھوڑتا۔
:2 عَنْ عَلِیٍّ رَضی اللہ عنہ قَالَ اِذَاخَرَجْتَ فَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج3 ص553 باب الرجل یرید السفر،رقم 4915)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تو سفر پر نکلے تو دو رکعت نماز پڑھ لیا کر۔
:3 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنِّیْ اُرِیْدُاَنْ اَخْرُجَ اِلَی الْبَحْرَیْنِ فِیْ تِجَارَۃٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلِّ رَکْعَتَیْنِ۔
(مجمع الزوائد ج 2ص 572باب الصلوٰۃ اذا اراد سفرا، رقم الحدیث 3684 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تجارت کے سلسلے میں بحرین جانا چاہتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو رکعتیں نماز پڑھ لو۔
:4 عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ لَایَقْدِمُ مِنْ سَفَرٍ اِلَّا نَھَاراً فِی الضُّحٰی فَاِذَا قَدِمَ بَدَئَ بِالْمَسْجِدِ فَصَلّٰی فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ جَلَسَ فِیْہِ۔
(صحیح مسلم ج 1ص 248 باب استحباب رکعتین فی المسجد لمن قدم من سفر )
ترجمہ: حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت چاشت کے قریب سفر سے واپس تشریف لاتے تھے۔ جب واپس آتے تو مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز ادا کرتے پھر مسجد میں تشریف فرما ہوتے۔
:5 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃََ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَادَخَلْتَ مَنْزِلَکَ فَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ تَمْنَعَانِکَ مَدْخَلَ السُّوْئِ وَاِذَاخَرَجْتَ فَصَلِّ رَکْعَتَیْنِ تَمْنَعَانِکَ مَخْرَجَ السُّوْئِ۔
(مجمع الزوائد ج 2ص 572 باب الصلوٰۃ اذا دخل منزلہ، رقم الحدیث 3686)
ترجمہ: حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم سفر سے واپسی پر اپنے گھر میں داخل ہو تو دو رکعتیں ادا کرو، تو یہ تمہیں برے داخلے سے روک دیں گی اور جب سفر کے لئے نکلو تو بھی دو رکعتیں پڑھو یہ تمہیں باہر جانے کی برائی سے روک دیں گی۔
صلوۃ استسقاء
اگر بارش نہ ہو رہی ہو تو دو رکعت صلوۃ الا ستسقاء پڑھی جاتی ہے اور کبھی صرف دعا مانگی جاتی ہے۔ احادیث مبارکہ میں دونوں طریقے منقول ہیں۔
:1 عَنْ عُبَّادِبْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عَمِّہٖ (عَبْدُاللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ رضی اللہ عنہ )قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِلَی الْمُصَلّٰی یَسْتَسْقِیْ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَقَلَّبَ رِدَائَہٗ۔
(صحیح البخاری ج1 ص140 باب الاستسقاء فی المصلی، صحیح مسلم ج 1ص293 کتاب صلوٰۃ الاستسقاء )
حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقاء کے لئے عید گاہ کی طرف نکلے، قبلہ کی طرف منہ فرمایا اور دو رکعتیں پڑھیں اور اپنی چادر کا رخ بدلا۔ (یعنی دائیں طرف کو بائیں کندھے پر اور بائیں طرف کو دائیں کندھے پر کیا
:2 عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ بَیْنَمَارَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ اِذْجَائَ رَجُلٌ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَحَطَ الْمَطَرُفَادْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّسْقِیَنَافَدَعَا فَمُطِرْنَافَمَاکِدْنَااَنْ نَّصِلَ اِلٰی مَنَازِلِنَا فَماَ زِلْنَانُمْطَرُ اِلَی الْجُمْعَۃِ الْمُقْبِلَۃِ قَالَ فَقَامَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ اَوْغَیْرُہٗ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّصْرِفَہٗ عَنَّا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَاوَلَاعَلَیْنَاقَالَ لَقَدْرَاَیْتُ السَّحَابَ یَتَقَطَّعُ یَمِیْناً وَّشِمَالاً یُمْطَرُوْنَ وَلَایُمْطَرُاَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ۔
(صحیح البخاری ج1 ص138 باب الاستسقاء علی المنبر، صحیح مسلم ج 1ص293 کتاب صلوٰۃ الاستسقاء )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! بارش رک گئی ہے، اللہ سے دعا کیجئے کہ (بارش برسا کر) ہمیں سیراب کر دے۔ آپ نے دعا کی تو بارش ہونے لگی اور ہم اپنے گھروں کو بمشکل واپس ہوئے۔ دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش کو روک دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہ برسا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ دائیں بائیں بادل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اس طرف (یمن اور شام) تو بارش ہو رہی تھی لیکن مدینہ میں نہیں ہو رہی تھی۔