٭…قربانی ہر اس عاقل ،بالغ، مقیم مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے جو نصاب کا مالک ہے یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا سامان ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کے قیمت کے برابر ہے ۔
یعنی ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو یا رہائشی مکان کے زائد مکانات یا جا ئیدادیں وغیرہ ہوں یا ضرورت سے زیادہ گھریلو سامان ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا مالِ تجارت شئیرز وغیرہ ہوں تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہے ۔
٭…قربانی واجب ہونے کے لئے نصاب کے مال ،رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گذرنا شرط نہیں ،اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ،ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے مالک ہوجائے اس پر قربانی واجب ہے ۔
٭…قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن بھی کسی صورت میں نصاب کے برابر مال یا ضرورت سے زائد سامان کا مالک ہو جائے تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
٭…جس کے پاس رہائش کے مکان کے علاوہ زائد مکان موجود ہیں خواہ تجارت کے لئے ہو یا نہ ہو ،ضروری مکان کے لئے پلاٹ کے لئے پلاٹ ہیں ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہیں ،تو یہ شخص قربانی کے حق میں صاحب نصاب ہے اس پر قربانی واجب ہے۔
٭…تجارتی سامان خواہ کو ئی بھی چیز ہو اگر ساڑھے باون تو لہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس کے مالک پر قربانی واجب ہو گی۔
قربانی پر اقتصادی شبہ:…
بعض لوگ روحانیت سے غافل ہو کر یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ قوم کا اتنا روپیہ تین دن میں جانوروں کے ذبح پر ہر سال فضول اور بے جا خرچ ہو جا تا ہے اور اس کا کوئی مفاد نظر نہیں آتا اگر یہی فیصلہ رفاہی اور قومی مفادات پر لگا یا جا ئے تو بہت فائدہ ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ قربانی کرنا اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کا حکم اور اہم عبادت ہے ،جیسے حج کرنا ،زکوٰۃ دینا،اور اسی طرح کے دوسری مالی عبادات ہیں تو کیا ان عبادات کے بارے میں یہی کہا جائے گا اور مال کو بے جا خرچ کرنا ہے ؟اس طرح تو دین کا بہت بڑا حصہ اور بہت سے دینی احکام ہی کا اسلام سے تعلق ختم ہو جاتا ہے یہ کون سا دین ہے؟پس جب شریعت میں قربانی کا حکم ہے اس سے عقلی اعتراضوں اور ذہنی ڈھکوسلوں کا اشکال بنانا کسی طرح جا ئز نہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی دوسری اور اصل فضول خرچیاں (جن کا شریعت نے حکم بھی نہیں دیا )ان لوگوں کو نظر نہیں آتیں۔جبکہ اصل تو ان کے ختم کرنے اور مٹانے کی ضرورت ہے ملک کی اتنی بڑی تعداد ایسی ہے جو منشیات کرکٹ ،ہاکی اور دوسرے کھیل ،جوئے بازی ،گھوڑ دوڑ ،فحش انٹرنیٹ پروگرام،ٹی وی،کیبل،وی سی آر،سینما،فضول تصویر سازی اور مووی اور دوسری فحش میڈیائی پروگرام،فحش اخبار ورسائل اردو اور دیگر ناول اور ڈائجسٹ ،بسنت،عید کارڈ ،شادی کارڈ، گانا اور دیگر غلط پروگراموں کی آڈیو ویڈیوکیسٹیں اور سی ڈیز،ویڈیو گیمز،آتش بازی ،شادی بیاہ مرگ وموت ،اور غمی خوشی کی رسومات مختلف فیشن غیر شرعی بیوٹی پارلر وغیرہ کی زد میں ہے جن کو چھوڑے اور توبہ کئے بغیر دنیا وآخرت کی فلاح وکامیابی ملنا مشکل ہے اور یہی پیسہ اگر قومی اور رفاہی مفادات پر خر چ کیا جا ئے تو بہت جلد ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اب اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کے حکم کے مطابق ما ل خرچ کرنے کے بارے میں سنیے اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کا ارشاد ہے:…
وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج
ترجمہ:…’’یعنی جو چیز تم حکم خداوندی میں خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ (اپنا خزانہ غیب سے تمہیں) اس کا بدل دیتے ہیں۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ نے صرف انسان حیوانات کے لئے پیدا فرمائی ہیں جب تک وہ خرچ ہو تی رہتی ہیں ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے کائنات عالم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ اس کی پیدوار بھی بڑھا دیتا ہے اور جب ضرورت کم ہو تی ہے تو پیدوار بھی گھٹ جاتی ہے آسمان سے پانی نازل ہو تا ہے انسان اور جانور اس کو بے دھڑک استعمال وخرچ کرتے ہیں ،کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں وہ پانی ختم نہیں ہو تا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو تا جاتا ہے اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جا تا ہے اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے اگر کوئی شخص کنویں کے پانی پر رحم کھا کر اس سے نکالنا چھوڑ دے کہ کہیں ختم نہ ہو جا ئے تو اس کے سونتھ بند ہو جائیں گے اور کنواں پانی نہ دے گا انسان غذ اکھا کر بظاہر ختم کرلیتا ہے ،مگر اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کردیتے ہیں ،بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہوجا تے ہیں ان کی جگہ دوسرے اجزاء اس کے متبادل بن جا تے ہیں۔اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کی عام عادت یہ ہے کہ بچہ بعد میں پیدا ہو تا ہے اور ماں کی چھاتی میں دودھ پہلے پیدا فرمادیتے ہیں۔
جانوروں میں بکرے اورگائے کا سب سے زیادہ خرچ ہے کہ ان کو ذبح کرکے گوشت کھایا جا تا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں عموماً حج و عمرہ کے موقع پربکثرت ان کو ذبح کیا جا تا ہے،وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیںاللہ تعالیٰ جل شانہ‘ اتنی ہی زیادہ پیدوار بڑھا دیتے ہیںجس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے،کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے ،کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں حالانکہ کتے،بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے پیدا کرتے ہیں،گائے ،بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے ہی دیتی ہے،گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی رہتی ہے ،کتے ،بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا،مگر پھر یہ مشاہدہ ناقابل انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعدادبہ نسبت کتے،بلی کے زیادہ ہے۔
آج اگر وہ تمام لوگ جن پر قربانی واجب ہے قربانی انجام دینا شروع کردیں تو پھر اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ اسی نسبت سے ان کی پیداوار بڑھا کر قیمت سستی فرمادیں۔