حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور ہمارے اسلاف بہت سمجھدار اور بے حد عقل مند تھے۔
انہوں نے قرآن وسنت میں جب عشرۂ ذی الحج کے والہانہ فضائل دیکھے تو بس ان دنوں کو کمانے اور بنانے میں جان توڑ محنت لگادی ۔کیونکہ ان دنوں میں ہر عبادت کا اجروثواب عام دنوں کی عبادت سے بہت زیادہ بڑھ جا تا ہے ۔
چنانچہ حضرات اسلاف نے اپنے اپنے رنگ میں ان ایام کو پانے کی جستجو کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:…
٭…ان سب سے بڑھ کر دو جلیل القدر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عمل دیکھیں یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن رضی اللہ تعالیٰ عنہماہیں یہ دونوں حضرات ان ایام میں خاص طور پر صرف اس لئے بازار جاتے کہ لوگوں کو تکبیر کی طر ف متوجہ کریں کہ یہ ایام اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کی بڑائی بیان کرنے کے ہیں ،چنانہ آپ بازار تشریف لے جاتے اور زور زور سے تکبیرات بلند فرماتے اس پر بازار والے بھی ان دونوں کے ساتھ تکبیرات بلند کرنے میں مشغول ہو جاتے ۔
٭…اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہماان مبارک ایام میں پابندی اور باقاعد گی کے ساتھ ظہر تا عصر ممبر پر جلوہ افروز ہوتے اور لوگوں کو حج کے احکامات تلقین فرماتے ۔
٭…حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہمارے ہاں یعنی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس عشرۂ کا دن فضیلت میں ایک ہزار دنوں کے برابر ہے جبکہ عرفہ (یعنی نوذی الحج )کادن دس ہزار دنوں کے برابر ہے ۔
مشہور تابعی حضرت سعید بن جیبر شہید رحمہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ تھاکہ جب عشرۂ ذی الحج شروع ہوجاتا تو آپ عبادت میں ایسی سخت محنت فرماتے کہ معاملہ بس سے باہر ہونے لگتا اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں ان راتوں میں اپنا چراغ نہ بجھایا کرویعنی ساری رات تلاوت و عبادت میں رہا کرو۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ عشرہ ذی الحجہ کا ہر روزہ دو مہینوں کے روزوں کے برابر ہے۔
یعنی محدثین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ جیسے عشرۂ ذی الحج شروع ہوتا تو اپنے اسباق میں ضعیف حدیث بیان کرنا بند بالکل کردیتے حالانکہ ان حدیث کے ساتھ یہ بتا یا جا تا تھا کہ یہ ضعیف ہے ۔مگر ان ایام کے تقدس کا ایسا احترام کرتے کہ ضعیف حدیث زبان پر نہ لاتے ۔
بعض اسلاف کا ان ایا م میں عباد ت کا یہ رنگ تھا کہ تعلیم وتدریس تک چھوڑ دیتے کہ اس میں کچھ نہ قیل وقال ہو جاتی بس خود کو ذکر وعبادت کے لئے وقف کردیتے ۔
بعض اسلاف کا ان ایام میں حاجیوں کی طرح احرام کی چادریں اوڑھ لیتے اور صبح وشام تکبیرات بلند کرتے رہتے ۔
ابن عساکر جو مشہور محدث اور مؤرخ بزرگ گزرے ہیں وہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے اور پھر عشرۂ ذی الحج میں گذار دیتے ۔
حضرت امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ کی پوری زندگی کا معمول ان ایام میں یہ تھا یا تو جہاد پر ہوتے یا حج کے لئے تشریف لے جا تے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ کیونکہ یہ تما حضرات ان دنوں کی قیمت کو جانتے تھے اس لئے وہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کا ذخیرہ اور خزانہ اپنے لئے جمع کر لیتے اور ان ایام میں ان حضرات پر عبادت کا ایک خاص حال طاری رہتا تھا ۔اللہ تعالیٰ جل شانہ ہمیں بھی اس میں سے کچھ حصہ نصیب فرمادے۔
ماخذ:…
(۱)…ذی الحجہ اور قربانی کے فضائل واحکام
از:…مفتی محمد رضوان صاحب
(۲)…عشرۂ ذی الحجہ افضل ایام الدنیا