عشرۂ ذی الحجہ:پروفیس حافظ عبد الشکور صاحب

عشرۂ ذی الحجہ
اﷲتعالیٰ جسے چاہتے ہیںـ’’فضیلت ‘‘عطا فرماتے ہیں ۔وہ کوئی شخص ہو،مہینہ ہو،دن ہو یا عمل ہم پر لازم ہے کہ اﷲتعالیٰ کی دی ہوئی ’’فضیلت‘‘کا احترام کریںاور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اسلامی اعتبار سے ذی الحجہ کا مہینہ اسلامی وقمری سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے،اس مہینہ کے ختم ہونے پر اسلامی سال بھی ختم ہو جا تا ہے ۔اسلامی سال کے مہینوں کے بالترتیب نام یہ ہیں:…
(۱)…مُحَرَّمُ(۲)…صَفَرْ(۳)…رَبِیْعُ الْاَوَّلُ
(۴)…رَبِیْعُ الثَّانیْ(۵)…جُمَا دَی الْاُوْلٰی(۶)…جُمَادَیَ الْاُخْریٰ
(۷)…رَجَبْ(۸)…شَعْبَانْ(۹)…رَمَضَانْ(۱۰)…شَوَّالْ
(۱۱)…ذُوالْقَعْدَہ(۱۲)…ذُوالْحِجَّہْ۔
ذی الحجہ عربی زبان کا جملہ ہے ،اور یہ دراصل دولفظوں کا مجموعہ ہے ،ایک ’’ذی‘‘اور دوسرا ’’الحجہ‘‘ذیؔ کے معنی ہیں ’’والا‘‘اور الحجہؔ کے معنی ’’حج کرنے ‘‘کے آتے ہیں ۔تو ذی الحجہ کے معنی ہوئے’’حج کرنے والا مہینہ ‘‘۔اس مہینہ میں کیونکہ حج کی ادائیگی کی جاتی ہے اور حج اسلام کا ایک عظیم رکن ہے،لہٰذا اس مہینہ کے ساتھ حج کی ادائیگی کا تعلق ہونے کی وجہ سے اس کو ذی الحجہ یعنی حج والا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔
ماہِ ذی الحجہ کی فضیلت:…
اس مبارک مہینے میں اسلام کا ایک اہم رکن ’’حج‘‘ادا ہوتا ہے اس لئے اس مہینے کو ذی الحجہ(یعنی حج والا مہینہ کہتے ہیں اور حج کے علاوہ اس مبارک مہینے میں اسلامی تہوار’’عیدالاضحی‘‘کی شکل میں ادا کیا جاتا ہے۔جس میں لاکھوں بندگانِ خدابارگاہِ خداوندی میں قربانی کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اس کے علاوہ یہ مہینہ عظمت و فضیلت والے مہینوں میں سے ہے جس میں عبادت کا خاص مقام ہے اور اس مہینہ کا پہلا عشرہ تو بہت ہی فضیلت رکھتا ہے۔اور عرفہ (یعنی نوی ذی الحجہ) کے دن کی فضیلت کا تو ٹھکانہ ہی نہیں۔
قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ کا ارشادہے:…
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃ’‘ حُرُم’‘ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ ۔(سورۃ توبہ آیت ۳۶پ ۱۰)
ترجمہ:…’’یقیناََشمار مہینوں کا (جوکہ) کتابِ الٰہی(یعنی احکامِ شرعیہ )میں اﷲکے نزدیک (معتبر ہیں) بارہ مہینے (قمری) ہیں(اور کچھ آج سے نہیں بلکہ)جس روز اﷲتعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے تھے(اسی روز سے اور)ان میں چار خاص مہینے ادب کے ہیں (ذی قعدہ ،ذی الحجہ ،محرم، رجب ) یہی(امرِ مذکور) دینِ مستقیم ہے (یعنی ان مہینوں کا بارہ ہونا اور چار کا بالتحصیص (اَشْھُرْ حُرْم ہونا )سو تم ان سب مہینوں کے بارے میں(دین کے خلاف کر کے جو کہ موجبِ گناہ ہے) اپنا نقصان مت کرنا۔ (بیان القرآن ملحض)
فرمانِ نبوی (ﷺ) ہے:…
’’ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں چار مہینے حرمت وعزت والے ہیں جن میں تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ’’ذیقعدہ،ذی الحجہ،محرم‘‘اور ایک ’’رجب‘‘کا مہینہ ہے جو کہ جمادی الاخریٰ اور ماہِ شعبان کے درمیان آتا ہے۔(بخاری ومسلم)
اس آیتِ شریفہ اور حدیث شریف سے واضح ہوا کہ ان مہینوں کی جو ترتیب اور ان مہینوں کے جو نام (یعنی محرم،رجب ،ذیقعدہ، ذی الحجہ)اسلام میں معروف و مشہور اور رائج ہیں وہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ربُّ العالمین نے جس دن آسمان و زمین پیدا کئے تھے اسی دن یہ ترتیب اور یہ نام اور ان کے ساتھ خاص مہینوں کے خاص احکام بھی متعین فرمادیئے تھے،ان احکام کو ان مہینوں کے مطابق رکھنا ہی دینِ مستقیم ہے،اور ان میں اپنی طرف سے کمی،زیادتی اور ترمیم وتبدیلی کرنا فہم کے ٹیڑھے اور سوچ کے ناقص ہونے کی نشانی ہے اور ان مہینوں میں ان کے متعینہ احکام و احترام کی خلاف ورزی کرنا،اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری کو چھوڑ دینا، کوئی گناہ کرنا،اور عبادت میں کوتاہی کرنا اپنے اوپر ظلم ہے۔
تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوںمیں سال کے بارہ مہینے مانے جاتے تھے اور ان میںسے چار ’’یعنی ذیقعدہ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب کے ’’مہینے بڑے مبارک اور فضیلت و عظمت ، ادب وشرافت ، اعزاز و اکرام اور احترام والے مہینے بڑے مبارک اور فضیلت و عظمت ، ادب و شرافت ، اعزاز و اکرام اور احترام والے مہینے سمجھے جاتے تھے ،تمام نبیوں کی شریعتیںاس بات پر متفق ہیں،کہ ان چار مہینوں کا ثواب زیادہ ہوتا ہے،حضور ﷺ سے پہلی شریعتوں میں ان مہینوں کے اندر جہاد وقتال بھی منع تھا،ان چار مہینوں کو عربی زبان میں ’’اَشھر حرم‘‘ یعنی عظمت و احترام والے مہینے کہا جاتا ہے، ان چار مہینوں کو عظمت اور احترام والے مہینے دو وجہ سے کہا گیا ہے ایک تو اس وجہ سے کہ ان مہینوں میں جہاد و قتال حرام تھا،دوسرے اس وجہ سے کہ یہ مہینے عظمت و فضیلت اور ادب و شرافت والے ہیں ،ان کا احترام ضروری ہے اور مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ان دونوں میں سے پہلا حکم یعنی جہاد و قتال کا منع ہونا تو ہماری اسلامی شریعت میں منسوخ اور ختم ہو گیا اور اب ان مہینوں میں قتال وجہاد جائز ہے۔
اور دوسرا حکم یعنی ادب و احترام اور عبادت کا اہتمام اب بھی اسلام میں باقی ہے،مفسّرِ عظیم امام ابوبکر جصَّاص رحمہ اﷲ اپنی تفسیر ’’احکام القرآن ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ان بابرکت مہینوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کر کے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچا کر رکھے تو باقی سال کے مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔
ایک روایت میں ہے :…
سَیِّدُ الشُّھُوْرِ شَھْرُ رمَضَانَ وَاَعْظَمُھَا حُرْمَۃً ذُو الْحِجَّۃِ۔(بیہقی)
ترجمہ:…تمام مہینوں کا سردار رمضان کا مہینہ ہے اور تمام مہینوں میں زیادہ معظم و مکرم ذوالحجہ کا مہینہ ہے۔ ( بیہقی فی شعب الایمان،الجامع الصغیر)
لہٰذا ذی الحجہ کے با برکت مہینے کی قدر کرتے ہوئے گناہوں سے بچنے اور نیکی و تقوے کا اہتمام کرنا چاہیئے۔
ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی فضیلت:…
اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ نے ’’ذی الحجہ‘‘کے پہلے دس دنوں کو خاص فضیلت عطا فرمائی ہے۔عشرہ ذی الحجہ کے فضائل قرآن مجید میں بھی ہیں اور احادیث صحیحہ میں بھی۔
ویسے تو ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہی اپنی ذات میں خیرو برکت والا مہینہ ہے،لیکن اس مہینہ کا پہلا عشرہ خصوصیت کے ساتھ مزید فضیلت کا حامل ہے۔
وَالْفَجْرِہ وَلَیَالٍ عَشْرٍہ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِہ
’’قسم ہے فجر (کے وقت )کی اور (ذی الحجہ کی) دس راتوں (یعنی دس تاریخوں) کی (کہ وہ نہایت فضیلت والی ہیں ، کذا فسر فی الحدیث)اور جفت کی اور طاق کی (جفت سے مراد دسویں تاریخ ذی الحجہ کی اور طاق سے نویں تاریخ کذا فی الحدیث‘‘ )
ان آیات میں اﷲتعالیٰ نے کئی چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں۔اور اﷲتعالیٰ کا کسی چیز کی قسم کھانے سے یقینی طور پر اس چیز کا عظمت و فضیلت والی چیز ہونا ثابت ہوتا ہے۔پہلی چیز جس کی قسم کھائی گئی ،’’فجر‘‘ یعنی صبح صادق کا وقت ہے۔ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد ہر روز کی صبح ہو کہ وہ عالم میں ایک عظیم انقلاب لاتی ہے اور حق تعالیٰ شانہٗ کی قدرت کاملہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے کسی خاص دن کی فجر مراد ہو(فی صورۃ لام العھد فی الفجر) بعض مفسرین حضرات نے اس سے خاص دس ذی الحجہ کی صبح مراد لی ہے۔
٭…حضرت امام قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس تاریخ کے خاص ہونے کی ایک علمی وجہ بھی لکھی ہے جس کے مطابق دس ذی الحجہ کی صبح دنیا کے تمام دنوں میں ایک خاص شان رکھتی ہے۔(معار ف القرآن بتغیر)
٭…دوسری ؔچیز جس کی قسم کھائی گئی ہے وہ دس راتیں ہیں ۔
٭…جمہور مفسرین ائمہ حضرات حضرت ابن عباسؓ،حضرت قتادہ ؓرضی اللہ تعالیٰ عنہمااورحضرت مجاہدـؒ،حضرت سدیؒ،حضرت ضحاکؒ ،حضرت کلبی رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دس راتوں سے مرادذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں ،کیونکہ حدیث میں ان کی بڑی فضیلت آئی ہے۔
٭…خود رسول اللہ!ﷺان دس راتوں کی تفسیر میں فرمایا:کہ اس سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔
٭…حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:کہ یہ دس راتیں وہی ہیں ،جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃُ والسلام کے قصے میں آئی ہیں :وَاَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ۔(اعراف ۱۴۲)
٭…کیونکہ یہی دس راتیں سال کے ایام میں افضل ترین ہیں۔
٭…امام قرطبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث سے ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کا تمام دنوں میں افضل ہونا معلوم ہوا اور اس سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃُ والسلام کے لئے بھی یہی دس راتیں ذی الحجہ کی مقرر کی گئی تھیں۔
٭…تیسری ؔاور چوتھی ؔچیزجس کی قسم کھائی گئی ہے شفع اور وتر ہے اور شفع کے لغوی معنی جوڑ کے ہیں جس کو اردو میں جفت کہتے ہیں اور وتر کے معنی طاق اور فرد کے ہیں ۔قرآن کریم کے الفاظ میں یہ متعین نہیں کہ اس جفت اور طاق سے کیا مراد ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں :…
(وَالْفَجْرِہ وَلَیَالٍ عَشْرٍ)قَال ھُوَ الصُّبْحُ وَعَشْرُ النَّحْرِ وَالْوَتْرُ یَومُ عَرْفَۃَ وَالشَّفْعُ یَوْمُ النَّحْرِ۔(قرطبی ج ۲۰ص۳۹)
یعنی رسول اللہ!ﷺ نے وَالْفَجْرِہ وَلَیَالٍ عَشْرٍہمتعلق فرمایا:کہ فجر سے مرادصبح اور عشر سے مراد عشرہ نحرہ ہے(اور یہ عشرہ ذی الحجہ کاپہلا ہی عشرہ ہو سکتا ہے جس میں یوم نحر یعنی دس ذی الحجہ شامل ہے )اور فرمایا وتر سے مراد عرفہ کا دن اور شفع سے مراد یوم نحر (دسویں ذی الحجہ )ہے۔
٭…اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ نے اس مبارک عشرہ کی راتوں کی قسم کھائی ہے ،جوکہ ان ایام کے لئے بڑی فضیلت کی دلیل ہے۔وَالْفَجْرِہ وَلَیَالٍ عَشْر۔
٭…اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے حج کا اعلان کروایا:… وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ اور اسی آیت میں عشرہ ذی الحجہ کو’’ایام معلومات‘‘کا لقب عطا فرمایا۔
٭…قرآن مجید میں جہاں حج کے بارے میں آیات ہیں،وہاں ضمناً ان مبارک ایام کا تذکرہ موجود ہے ،اسلام کا مقدس’’فریضہ ٔ حج‘‘انہی مبارک ایام میں ادا ہوتا ہے اور حج کے تمام فرائض عشرۂ ذی الحجہ میں ادا ہوتے ہیں اور بعض مناسک ایام تشریق میں۔سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔
٭…سورۃ الکوثر میں،کئی مفسرین کے نزدیک:… فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرمیں دس ذی الحجہ کی نماز،فجر یا عید کی نماز اور قربانی کا تذکرہ ہے۔
٭…سورۂ والصَّا فات میں حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب اور اپنے لختِ جگر کی قربانی کا واقعہ ہے یہ سب اسی مبارک عشرہ میں پیش آیا۔
٭…حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کی خلوت کے لئے اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ طلب فرمایا،پھر دس دن مزید روک لیا،کئی مفسرین کے نزدیک یہ دس عشرہ ٔ ذی الحجہ کے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ !ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے کے یہاں ان (ذی الحجہ کے)دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو ۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ !ﷺکیا یہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے مگر وہ شخص جو جان ومال لے کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکلے ،پھر ان میں کوئی چیزبھی واپس لے کرنہ آئے(سب اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کے راستے میں قربان کردے اور شہید ہوجائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے۔(بخاری وابو داو‘د)
٭…خلاصہ یہ ہے کہ یہ دس دن بہت قیمتی ہیں ،عام دنوں سے ہزار گنا قیمتی ۔
٭…ان دنوں کا جہاد عام دنوں کے جہاد سے بہت افضل ہے ،مبارک ہو انہیں جو یہ دن محاذوں پر ،یاجہادی محنت میں گزارتے ہیں ۔
٭…ان دنوں کا روزہ عام دنوں کے نفلی روزے سے بھی بہت زیادہ قیمتی ہے،مبارک ہو ان کو جو ان نو دنوں کے روزے کماتے ہیں خود حضرت آقامدنی ﷺ عشرۂ ذی الحجہ کے نو روزوں کا مکمل اہتمام فرماتے تھے کتب حدیث میں تفصیل موجود ہے۔
٭…ان دس مبارک ایام کی تہلیل تکبیر اور تسبیح عام دنوں کے ذکر سے بہت افضل ہے ،خاص طور پر لاالٰہ الاللہ اور اللہ اکبر کی کثرت او رسبحان اللہ وبحمدہ ٖ اگر تیسرے کلمے کا اہتمام کرلیا جا ئے تو اس میں سب کچھ آجا تا ہے۔
اس لئے کئی اللہ والے ان ایام میں صلوٰۃ التسبیح ادا کرتے ہیں اس میں چار رکعت کے دوران تین سو مرتبہ یہ مبارک کلمات ادا ہوجاتے ہیں ۔
٭…ان مبارک دس ایام میں قرآن کی تلاوت عام دنوں کی تلاوت سے بہت افضل ہے ،مبارک ہو ان لوگوں کو جو ان ایام میں قرآن مجید کو زیادہ وقت دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کے کلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔
اسی طرح اس مبارک عشرے میں توبہ کر ناعام دنوں کی توبہ سے زیادہ افضل زیادہ محبوب اور زیادہ قیمتی ہے۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس عشرے میں گناہوں سے بچتے ہیں اور توبہ استغفار کی کثرت کرتے ہیں ۔
٭…اسی طرح اس مبارک عشرہ میں جہاد پر خرچ کرنا صدقہ دینا ،والدین کی مالی خدمت کرنا عام دنوں کے خرچ سے بہت افضل اور بہت قیمتی ہے خوش بخت ہیں وہ لوگ جو ان ایام میںاپنی جیب ہلکی اورنامۂ اعمال وزنی کر دیتے ہیں جیب تو پھر بھی بھرجاتی ہے مگر ایسے قیمتی دن روز روز نہیں آتے۔
٭…سب سے بڑھ کر یہ کہ ان دنوں کا حج فرض کے بعد سب سے افضل عمل قربانی ہے،عام دنوں میں کوئی ایک سو اونٹ بھی اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کی رضا کے لئے ذبح کرے تو وہ دس ذی الحج یعنی عیدا لاضحیٰ کے دن ایک بکرے کی قربانی کے برابر نہیں ہو سکتے۔جی ہاں! عید الاضحیٰ کی قربانی بہت بڑا عمل ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ بہت شوق اور بہت رغبت اور بہت کھلے دل کے ساتھ قربانی کیا کریں۔