اللہ ناراض ھو تو کیا ھوتا ھے؟ غور کرنے اور ڈرنے والی باتیں ۔۔۔ سوچئے کہیں ھم تو ان میں شامل نہیں ۔۔ محسوس اور غیرمحسوس کی جانے والی سزائیں؛
⚠کسی طالب علم نے اپنے استاد سے کہا:
“ہم کتنے گناہ کرتے ہیں نا اور اللہ ہمیں سزا نہیں دیتا.”
استاد محترم نے فوراً جواب دیا:
یہ بھی سزا ہے کہ اللہ ہمیں سزائیں دیتا ہے اور ہمیں محسوس نہیں ہوتا.”
⚫ تمہارے دل کی سختی اور آنسو کا خشک ہوجانا کیا اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہیں؟؟
نیک صالح اعمال کے طرف قدم بڑھانے میں کاہلی، کیا اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہیں ؟؟
تمہیں قرآن کریم کے تلاوت چهوڑے جو ہفتے اور مہینے بیت جاتے ہیں کیا اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہیں ؟؟
⛔ کتنی بار یہ آیت تمهاری نظروں سے
گزرنے کے بعد بهی تم انجان بنے رہتے ہو؟
“اگر یہ قرآن ہم کسی پہاڑ پر نازل فرماتےتو وہ اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتا.”
♨ کتنی طویل راتیں تمہارے زندگی میں گزرتی رہیں لیکن قیام اللیل کی نوافل سے محروم رہنا، کیا اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہیں ؟؟
کتنے خیر وبرکت کے مواقع تمہاری زندگی میں آئے ..
{رمضان، عید، ذوالحجہ}
تمہاری غفلت اور گناہوں کی دلدل میں غرق رہنا کیا اس بات کی گواہی نہیں ہے
کہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہیں؟
زندگی میں تعلیم وتفسیر قرآن سیکھنے کے بہترین مواقع آئے لیکن اسے نظرانداز کرکے تم دنیاوی لذتوں میں کهوئے رہے، کیا یہ اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہیں؟
کیا اس سے بھی بڑی کوئی سزا ہوسکتی ہے؟
نیک عمل تمھیں بوجھ کیوں محسوس ہوتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے زبان کیوں لڑکھڑانے لگتی ہے؟
اپنی شیطانی ونفسانی خواہشات کے
سامنے تم کمزور کیوں پڑجاتے ہو؟
دنیاوی چکاچوند دیکھ کر تمہارا دل کیوں تڑپنے لگتا ہے؟
کیا تم دنیا، پیسے اور عزت وشہرت کے غرور میں مبتلا نہیں ہوئے؟ بهلا اس سے بڑھ کر کوئی سزا ہوسکتی ہے؟
اللہ نے تمہیں اپنی غلطیاں بهلاکر
دوسروں کی عیب جوئی، جهوٹی اور بہتان تراشی میں مصروف کردیا
آخرت بهلا کر تمہاری سب سے بڑی تمنا دنیا اور اسے حاصل کرنا بنادیا .. کیا یہ بهی سزا کی ایک شکل نہیں ہے؟
تم نے کبهی اس آیت پر دهیان دیا:
“اللہ تعالیٰ نے ان کے جانے کو پسند نہیں کیا، اسی لیے انہیں توفیق بهی نہیں عطا فرمائی اور یوں کہہ دیا گیا کے اپاہج لوگوں کے ساتھ تم بهی یہاں ہی بیٹھے رہو”
سورہ التوبۃ ..
بیٹا، اللہ سے ڈرو ..
اللہ تعالٰی کے طرف سے سب سے چھوٹی سزا مال اولاد اور صحت میں ہوتی ہے
لیکن سب سے بڑی سزا غیرمحسوس ہوتی ہے ..
اسے صرف مومن ہی اپنے دل کے حال تبدیل ہونے پر پہچانتا ہے ..
اللہ سے مغفرت اور عافیت طلب کرو …
سوال : جب ھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ھے تو کیا اس کا مطلب یہ ھے کہ اللہ تعالی’ ھم سے ناراض ھے؟
جواب: اللہ تعالی’ سب کو ناراضگی سے بچاۓ اور اللہ کی ناراضگی کا سب سے بڑا اور خطرناک عالم یہ ھوتا ھے کہ خدا کہتا ھے تم مجھے بھول گۓ میں تمہیں بھول گیا۔ تو خدا کی یاد سے محو ھو جانا سب سے بڑا عذاب، سب سے بڑی تکلیف ھے۔ اور یہ بہت ساری قوتوں اور قوموں کو جب آپ ترقی یافتہ دیکھتے ھیں، ان کو کھاتا پیتا دیکھتے ھیں، تو یہ اللہ کے نزدیک محو ھو چکے ھیں، یا ختم ھو چکے ھیں۔ خدا نے ان کو بھلا دیا اور خدا نہ کرے آپ اللہ کو بھولیں۔ باقی تکالیف کا جو اللہ کا معیار ھے وہ
اللہ نے قرآن میں لکھا ھو ھے فرمایا:
مَّا يَفۡعَلُ ٱللَّهُ بِعَذَابِڪُمۡ [ سُوۡرَةُ النِّسَاء: 147 ] ھمیں کیا پڑی ھے کہ کسی کو عذاب دیں تکلیف دیں
إِن شَكَرۡتُمۡ وَءَامَنتُمۡ [ سُوۡرَةُ النِّسَاء: 147 ] اگر تم ھمیں یاد کرنے والے ھو اور ایمان رکھتے ھو ھم پر تو ھمیں کیا پڑی ھے کہ کسی کو عذاب دیں۔
وَكَانَ ٱللَّهُ شَاڪِرًا عَلِيمً۬ا (١٤٧) [ سُوۡرَةُ النِّسَاء: 147 ] اللہ تو یاد قبول کرنے والا ھے، علم والا ھے۔
تو یہ ایک بڑیkey قسم کی آیت ھے جسے کہتے ھیں کہ key solution والی آیت ھے کہ ھمیں کیا پڑی ھے کسی کو تکلیف دیں اگر تم ھمیں یاد کرنے والے ھو، ایمان رکھنے والے ھو تو ھمیں کوئی مطلب ھی نہیں ھے کہ تمہیں تکلیف دیں۔
خواتین و حضرات! اس آیت کو سمجھیۓ اور اللہ کی یاد جاری رکھیۓ اور اسے آپ مت بھلایۓ وہ آپ کو نہیں بھلاۓ گا۔ چھوٹی موٹی آزمائش اور عذاب میں ایک فرق ھوتا ھے، عذاب ٹھرنے والا، غلیظ تر اور اس سے نجات ممکن نہیں ھوتی اور تکلیف وقتی اور ایک آنے جانے والی چیز ھے۔ ” إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ [ سُوۡرَةُ البَقَرَة: 156 ] ” جب دل پہ کوفت بڑھ جاۓ، تکلیف بڑھ جاۓ تو مختصر اللہ تعالی’ سے یہ اقرار کر لیجیۓ۔ اللہ تعالی’ نے آپ کو تین بڑی آیات بخشی ھیں۔ تکالیف کو ٹالنے کے لیۓ ایک تو یہ ھے کہ
” إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ کہ
وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَىۡءٍ۬ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٍ۬ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٲلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٲتِۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ (١٥٥) ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٌ۬ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ(١٥٦)سُوۡرَةُالبَقَرَة
اور (دیکھو) ہم تمھارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجیے ۔ (۱۵۵) (جن کی یہ عادت ہے)کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (مع مال واولاد حقیقتہً)الله تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اور ہم سب (دنیا سے) الله تعالیٰ ہی کے پاس جانیوالے ہیں۔ (۱۵۶)۔ سورہ نمبر 2، البقرہ (آیت نمبر: 155، 156) [ترجمہ: اشرف علی تھانویؒ]
” جب کسی پر چھوٹے موٹے خوف کی، غم کی، مال کے نقصان کی، جان کی کوئ آفت آ جاۓ تو ھماری طرف سے خوشخبری دو، دیکھیۓ اللہ تعالی’ نے لفظ استعمال کیا ھے کہ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ (١٥٥) ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٌ۬ کہ جب کوئی اس قسم کی تکلیف آۓ تو ھماری طرف سے خوشخبری دو کہ جنہوں نے صبر کیا اور یہ کہا کہ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ کہ ھر تکلیف اللہ کی طرف سے ھے اور اسی کی طرف پلٹ جاۓ گی تو پھر آپ کی تکلیف بھی چلی جاۓ گی آپ کا دکھ بھی رفع ھو گا اور مشکل سے آسانی پیدا ھو جاۓ گی۔ دوسری بات جو اللہ نے کہی حضرت یونسؑ بن متی کی زبان میں کہ جب وہ گبھرا کے چلا اور اس نے سوچا کہ ھو اس پر زمین تنگ نہ کریں گے تو ھم نے اس پر زمین تنگ نہ کریں گے تو ھم نے اس پر زمین تنگ کر دی ” فَنَادَىٰ فِى ٱلظُّلُمَـٰتِ أَن لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبۡحَـٰنَكَ إِنِّى ڪُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ [ سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء : 87 ] ” جب ھم نے یونسؑ کو ظلمات میں گھیرا تو اس نے بڑی سادگی سے ھمیں کہا کہ اے اللہ تۘو پاک ھے، تجھ میں کوئی خطا نہیں، میری بنیاد میں خطا ھے، میں خطا کر سکتا ھوں، میں نے کی ھے۔ بڑی سادگی سے اللہ کے رسولؑ نے کہا ” إِنِّى ڪُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ ” مجھے میری خطا سے برأت بخش۔ اللہ نے کہا أس نے اِس خوبصورت انداز میں میں مجھ سے برأت مانگی، آزادی مانگی، اتنے سادہ طریقے سے مانگی کہ نہ صرف یہ کہ ھم نے ٱسے ٱس کربِ عظیم سے نجات دی، مچھلی کے پیٹ سے بلکہ وعدہ فرمایا ” وَكَذَٲلِكَ نُـۨجِى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ” کہ اگر ھر مومن تنگی میں، مشکل میں، مصیبت میں، ھم سے اس طرح نجات مانگے گا تو ھم اسے نجات دیں گے۔ اب اتنے بڑے وعدے کے بعد کون ھے جو تکلیف میں رھنا پسند کرتا ھے۔ کیوں نہیں آپ ” إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٲجِعُونَ ” پڑھ لیتے، کیوں نہیں آپ آیتِ کریمہ پڑھ لیتے۔
خواتین و حضرات! مگر یہ جو آپ نے طریقہ ڈھونڈھا ھے آپ نے آیتِ کریمہ کا، وہ کچھ زیادہ صحیح نہیں ھے۔ ایک دن مجلس بلانے، محلے بلانے، محلے والے اکٹھے کرنے اور روڑیاں، گیٹیاں اکٹھی کرنا اور سوا لاکھ مرتبہ پڑھنا اور اگلے دن خدا کو بھلا دینا، یہ کوئی طریقہ نہیں، آپ سو دفعہ پڑھ لو، روز پڑھو۔ ٱم المومنین حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے رسولۖ کو سب سے اچھا کون سا عمل لگتا تھا؟ فرمایا تھوڑا مگر متواتر۔ اگر آپ تیس مرتبہ بھی روزانہ پڑھ لو، آیتِ کریمہ کو، خلوصِ دل سے تو بھی آپ کے لیۓ بہتر ھے۔ ایک بارہ سوا لاکھ مرتبہ پڑھ کے بھلا دینے سے بات نہیں بنتی۔