زمینی راستہ سے چائنہ، لاؤس، بھوٹان، نیپال، تھائی لینڈ، اور سمندری راستہ سے بنگلہ دیش اور انڈیا، سات ممالک میں گھرے دو لاکھ اکسٹھ ہزار مربع میل پہ مشتمل رقبے اور تقریباً پانچ کروڑ کی آبادی والے چھوٹے سے ملک (پاکستان کے چوتھے حصے کے برابر ملک) کا سابقہ نام برما موجودہ نام میانمار ہے، جس کا دارالحکومت رنگون (نیا نام ینگون) ہے۔
برطانوی حکومت سے 1948 میں آزاد ہونے والی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی فیڈریشن پہ مشتمل اس ملک کا نام “انڈیپنڈنٹ یونین آف برما” رکھا گیا۔
سات ممالک میں گھرے اس ملک کو آزادی سے قبل تاجروں کی جنت سمجھا جاتا تھا، یہی وجہ تھی، کہ 1824 میں برما پہ برٹش گورنمنٹ کے قبضہ اور اسے برٹش انڈیا کا ایک صوبہ قرار دینے کے بعد برٹش انڈیا کے بڑے بڑے تاجروں جن میں گجراتی کاٹھیاواڑی مسلمانوں (صوبہ گجرات اور کاٹھیا واڑ کے رہائشی) کے علاوہ ہندؤوں اور پٹھانوں کی بھی ایک چھوٹی سی تعداد بھی شامل تھی نے تجارت اور رہائش کے لئےبرما کے سب سے بڑے شھر “رنگون” کو چنا۔
برما منتقل ہونے والے تجار جن کی اکثریت انڈین گجراتی مسلمان، بہت تھوڑی تعداد ہندو، ایک سو کے قریب پٹھان، دنوں میں کروڑوں میں کھیلنے لگی، اور حالات اس مقام پہ آ پہنچے کہ پورے برما کی اقتصادی شہ رگ کے مالک مسلمان بن گئے!
یہ متمول مسلمان اتنے زیادہ مال و دولت کے باوجود اتنے پکے دین دار اور مذہبی تھے، کہ انھوں نے نہ صرف پورے برما میں مساجد و مدارس کے جال بچھائے، بلکہ سعودی عرب، جنوبی افریقہ، کینیا، ملاوی، موزمبیق، مڈغاسکر، یوگنڈا، نائجیریا، ہندوستان میں مساجد، بڑے بڑے مدارس اور ہاسپٹلز کی سرپرستی اور مالی اعانت کرنا بھی اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے!
دو مارچ 1962 کو برمی آرمی نے اپنے ملک کو فتح کرلیا یعنی مارشل لگادیا!
مارشل لگاتے ہی ڈکٹیٹر اور اس کے حواریوں نے اپنے ہی ہموطنوں کی املاک لوٹ لیں، ان کے بنک اکاؤنٹس منجمد کردئے، کاروبارز پہ قبضہ کرلیا، اور ان کے بڑے بڑے گھروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا، کل تک جو لوگ لاکھوں روپیہ ٹیکسز اور فلاح عامہ کے کاموں میں اپنی خوشی سے صرف کرتے تھے، انہیں کوڑی کوڑی کو محتاج کردیا ۔۔۔۔۔ رات کو امیر سونے والے صبح اٹھے تو غریب تھے ۔۔۔۔۔ کئی تخت نشینوں کو تختۂ دار پہ لٹکا دیا گیا ۔۔۔۔ لاکھوں مسلمان صرف اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں بچاکے گرتے پڑتے تھائی لینڈ، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا میں پناہ گزین ہوئے، ان میں سب سے زیادہ تعداد میں لوگ پہلے پہل پاکستان میں آکے کراچی میں آباد ہوئے، اور پھر ان میں سے بہت بڑی تعداد انگلینڈ، یوروپ، امریکہ، کینیڈا، اور سعودی عرب میں جاکے آباد ہوگئے۔
صرف سعودی عرب میں ان کی تعداد کئی لاکھ ہے، اور انگلینڈ میں بھی ان کی کافی تعداد ہے، برطانیہ کے ایک شھر “بری” میں معروف عالم دین اور دارالعلوم بری کے بڑے شیخ الحدیث مولانا محمد بلال رنگونی صاحب جو شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کے آخری خلیفۂ مجاز ہیں اور ان کے بڑے بھائی مولانا محمد اقبال رنگونی جو بہت سی تحقیقی کتب کے مصنف ہیں کے والد ماجد بھی برما سے ہجرت کرکے اپنے خاندان سمیت پہلے کراچی اور پھر برطانیہ میں آباد ہونے والوں میں سے ہیں، اسی طرح تحریک تحفظ ختم نبوت برطانیہ کے مبلغ مولانا عبدالرحمٰن یعقوب باوا صاحب کے والد ماجد بھی ان ہزاروں برمی مہاجرین میں سے ہیں جنہوں نے اپنے خاندان سمیت 1962 کے بعد کراچی کی طرف ہجرت کی۔
برما کی آزادی کے صرف دوسال بعد یعنی 1950 میں برما کے ایک صوبے میں ملکی پالیسیوں اور ترقی سے محروم رکھنے کی وجہ سے آزادی کی تحریک شروع ہوگئی، جس میں اس صوبہ میں رہنے والی تمام اقوام، یعنی بودھ، مسلم، ہندو، کرسچئن شامل تھیں۔
اس صوبہ کو دو ناموں سے پکارا جاتا ہے، نیا نام رخین اور پرانا نام اراکان!
برما کے مغرب میں بے آف بنگال کے ساتھ واقع رخین (Rakhine) صوبہ جسے اراکان (Arakan) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پانچ اضلاع پہ مشتمل ہے، جس میں 17 ٹاؤن (چھوٹے شہر) اور 1164 دیھات ہیں۔
اراکان صوبہ کا کل رقبہ 36778 مربع کلومیٹر ہے۔
اس صوبہ کی کل آبادی 2014 کی حکومتی مردم شماری کے مطابق 32 لاکھ افراد پہ مشتمل ہے، لیکن اس تعداد میں سب سےاہم اور بنیادی بات یہ ہے، کہ اس مردم شماری میں مسلمانوں کو گنا ہی نہیں گیا!
صرف اندازے سے مسلمانوں کی تعداد بتائی گئی۔
انہیں روہنجا یا روہنجن مسلمان کہا جاتا ہے (روہنجا مسلمانوں کے تلفظ کے مطابق ان کے نام کا تلفظ روہنگین نہیں بلکہ اردو، انگلش، عربی، برمی تمام زبانوں میں “روہنجن اور روہنجا” ہے)
میرے مختلف مسلمان برمی دوستوں جن میں چند روہنجا مسلمان بھی شامل ہیں، کے مطابق روہنجا مسلمانوں کی صرف اراکان صوبہ میں 2012 سے پہلے تعداد پچیس لاکھ سے زائد تھی۔
ان کے علاوہ سعودی عرب میں 4 لاکھ، پاکستان میں 2 لاکھ، بنگلہ دیش میں 2012 تک 5 لاکھ، تھائی لینڈ میں 1 لاکھ، انگلینڈ میں 50 ہزار، جن میں سے انگلینڈ کے ایک شہر شیفیلڈ میں پانچ سو سے زیادہ گھرانے آباد ہیں، ملشیا میں 41 ہزار، انڈونیشیا میں 12 ہزار، اور امریکہ میں بھی 12 ہزار ہے۔
پورے اراکان صوبہ میں 380 سے زائد دیھاتوں کی پچانوے فیصد سے زائد آبادی روہنجن مسلمانوں کی تھی، جن میں سے ہر گاؤں کی آبادی چھ سے دس ہزار افراد تھی۔
اور بقیہ 784 دیھاتوں اور 17 ٹاؤنز میں بھی دس تا پندرہ فیصد روہنجن مسلمان آباد تھے. حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اراکان میں 52.2 فیصد بودھ 42.7 فیصد مسلمان 1.8 فیصد کرسچئن 0.5 فی صد ہندو اور بقیہ 2.8 فیصد دیگر اقوام ہیں۔
برما میں 1962 کے مارشل لا کے بعد کچھ اصلاحات نافذ کی گئیں، جن میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقوام کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی، جن اقوام کی بھی رجسٹریشن کی گئی، مسلمانوں کو چھوڑ کے بقیہ تمام اقوام کو کچھ عرصہ بعد شناختی کارڈ بھی جاری کئے گئے،
برما کے قانون کے مطابق جس شخص کے پاس برمی شناختی کارڈ موجود ہے، وہ برما میں کسی بھی جگہ سفر کرسکتا ہے، یا برما سے باھر جانے کے لئے پاسپورٹ بنواسکتا ہے، جس کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں، وہ شخص دن کی روشنی میں صرف اپنے شھر میں گھوم پھر بھی سکتا ہے، محنت مزدوری یا چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرسکتا ہے، لیکن رات کو صرف اپنے ہی گھر میں سو سکتا ہے، اپنے ہی شھر میں کسی بھی قریبی ترین عزیز چاہے وہ بیٹا/ بیٹی ہو یا باپ/ ماں کے گھر میں رات کو قیام کرنے سے قبل اسے پولیس کو اطلاع کرکے ان سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے، اگر کوئی شخص بلا اجازت اپنے کسی عزیز کے گھر میں ٹھہرتا ہے، تو شکایت ہونے پہ اسے کم از کم ایک ماہ کے لئےجیل میں ڈال دیا جاتا ہے، مالی جرمانہ اتھارٹیز کی صوابدید پہ ہے، جتنا مرضی کرلیں، میزبان پہ علیحدہ اور مہمان پہ علیحدہ!
برطانیہ میں رہنے والے میرے ایک عالم دوست مولانا سید علی جن کا برمی نام Min Naung ہے نے بتلایا کہ ان کے دادا (جو کہ پٹھان تھے) نے ایک بدھ مت سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو مسلمان کرکے اس سے شادی کی، جس کی وجہ سے ان کے لئے اپنے شھر سے رنگون (دارالحکومت) آنے جانے میں آسانیاں پیدا ہوئیں، کیونکہ ان کے سسرالی خاندان کے اکثر افراد مرکزی حکومت میں اعلٰی عہدوں پہ فائز تھے، بعد میں جب شناختی کارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا، تو ان کے دادا کو تو کارڈ جاری کردیا گیا لیکن بچوں کو محروم رکھا گیا، مولانا سید علی کے مطابق جب وہ عالم بن گئے، تو انھوں نے شناختی کارڈ کے حصول کی جدوجہد شروع کی، لیکن ناکامی مقدر بنتی رہی!
مولانا سید علی کے نانا نانی بھی بودھ تھے، نانی مسلمان ہوگئیں، تو ان کے بدھسٹ خاوند نے انہیں طلاق دے دی، وہ اپنی بچی کو لے کے علیحدہ رہنے لگیں، اسی بچی کی بعد میں مولانا سید علی کے والد سے شادی ہوئی، اس حساب سے مولاناسید علی کے ننہیالی تمام رشتہ دار نانی کے علاوہ بدھسٹ ہیں! آٹھ سال کی کوشش کے باوجود شناختی کارڈ کے حصول میں ناکامی کے بعد اپنی والدہ کے ماموں یعنی اپنی مرحومہ نانی کے بھائی جن کی عمر ستر سال سے زائد تھی، اور وہ “مونگ” تھے یعنی بدھوں کے پادری عالم یا روحانی پیشوا جو بھی کہ لیں کے پاس گئے، اور اپنی کتھا بیان کی!
وہ انہیں اپنے ساتھ شناختی کارڈ آفس لےگئے، اور سیدھے بڑے آفیسر کے روم میں بلا اجازت داخل ہوئے، اسے صرف اتنا کہا، یہ میرا نواسہ ہے اسے شناختی کارڈ جاری کیا جائے!
اور دس منٹ میں وہ شناختی کارڈ جاری ہوگیا، جس کے لئے وہ آٹھ سال سے دفتروں میں ٹھوکریں کھارہے تھے!
یہ حال اس قوم کا ہے، جن کی رشتہ داریاں بدھسٹوں کے ساتھ ہیں، اور انہیں برمی زبان میں “زیربادی برمیز ” کہاجاتا ہے یعنی برمی اور دوسری کسی قوم سے مخلوط نسل، اور یہ زیربادی برمیز دوسرے درجے کے شہری ہیں، اگر ان کے بدھسٹ رشتہ دار کسی پوسٹ پہ موجود ہیں تو ان کے لئے بھی کافی آسانیاں ہیں، لیکن ان کے بلمقابل روہنجا قوم کو برما میں صدیوں سے آباد ہونے کے باوجود مکمل خارجی اور اجنبی سمجھا اور کہا جاتا ہے!
روہنجا قوم کےدوستوں کے دعوے کے مطابق وہ اراکان کے صوبہ میں نویں صدی عیسوی یعنی تیسری صدی ہجری سے آباد ہیں، اور ان کا تعلق عرب نسل سے ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق وہ تیسری صدی ہجری میں برما کے ساحلی علاقوں میں سمندری راستے سے اسلام کی تبلیغ کے لئے آنے والے ان عرب مبلغین کی اولاد ہیں، جو اپنے خاندانوں سمیت یہاں تبلیغ کے لئے آئے، اور یہیں رچ بس گئے!
لیکن برمیز گورنمنٹ کے مطابق روہنجا قوم کا 1824 سے قبل برما میں دستاویزی دلائل کے ساتھ وجود ثابت نہیں برمیز گورنمنٹ کے مطابق برما (موجودہ میانمار) پر انگریزوں نے 1824 میں قبضہ کیا تھا، اور 1824 تا 1948 برما برٹش انڈیا کا ایک صوبہ رہا ہے، اسی عرصہ کے دوران برٹش انڈیا کے مختلف علاقوں سے بے شمار لوگ پیسہ کمانے کی خاطر برما آئے، رنگون اور اس کے گرد و نواح میں صوبہ گجرات کی مختلف اقوام آئیں، اور اراکان صوبہ میں بنگال کے مختلف علاقوں خصوصاً چٹاگانگ کے علاقہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آئے، وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں، کہ روہنجن مسلمانوں کی شکلیں، زبان، کلچر، عادات بود و باش اور لب و لہجہ بہت حد تک بنگالی زبان سے ملتا جلتا ہے، اور ان کی رشتہ داریاں بھی زیادہ تر بنگالیوں کے ساتھ ہیں، حالانکہ یہ کوئی دلیل نہیں، کوئی بھی قوم جب تھوڑی تعداد میں اپنے علاقہ سے مائگریٹ کرکے دوسرے علاقوں میں آکے بستی ہے، تو ان کی زبان رسم رواج کلچر بھی اپناتی ہے اور ان سے رفتہ رفتہ رشتہ داریاں بھی کرلیتی ہے۔
برما میں 1982 میں برمیز سٹیزن شپ قوانین بنائے گئے، جن کی رو سے 1823 کے بعد برما میں رہائش یا کاروبار کے لئے آنے والوں اور ان کی اولادوں کو 160 سال برما میں رہنے کے بعد بھی غیر قانونی امیگرینٹس کا اسٹیٹس دیتے ہوئےان کے لئے برمی شھریت کا حصول ناقابل حصول بنادیا گیا، بنیادی طور پہ یہ قانون بنایا ہی صرف مسلمانوں کے لئے کیا گیا تھا، کیونکہ برما میں رہنے والی دیگر اقوام، مثلا ہندو، عیسائی وغیرہ نے تو اپنی رشتہ داریاں بدھسٹ کے ساتھ بہت پہلے سے کرلی تھیں، ایک مسلمان ہی واحد قوم تھی، چاہے وہ روہنجا تھے، انڈین گجراتی تھے یا بنگالی، انہوں نے اپنےمذہب کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا، اور اپنے اسلامی کلچر اور رسم و رواج سے بھی بندھے رہے، ہزاروں میں کسی ایک کے علاوہ اکثریت نے اپنی اور اپنے بچوں کی شادیاں مسلمانوں ہی میں کیں، یوں وہ ایک ایسے ملک میں جہاں کے مجموعی قومی اعداد و شمار میں تمام مسلمانوں کی مجموعی تعداد 4.3 فیصد سے زائد نہیں تھی، اپنا مذہبی تشخص صدیوں تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے، حالانکہ اسی ملک میں کرسچئنز کی تعداد 6.2 فیصد ہے، لیکن جو پابندیاں مسلمانوں پہ ہیں، وہ ان پہ نہیں، بلکہ انہیں برمیز یعنی پہلے درجہ کے شہری کی مراعات حاصل ہیں،
اراکان میں رہنے والے روہنجا مسلمان نہ تو سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، اور نہ ہی اسٹیٹ کے فری اسکولز میں اپنے بچوں کو داخل کرواسکتے ہیں، اور نہ ہی ان کی نوے فیصد سے زیادہ اکثریت نے آج تک اپنے ملک کے دارالحکومت کا تو کیا، اپنے ہی صوبہ میں اپنے ضلع کے علاوہ بقیہ چار اضلاع کا منہ دیکھا ہے، کیونکہ انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لئے سفری اجازت نامہ بھی کسی بدھسٹ کی سفارش اور بھاری رشوت کے حصول کے بعد جاری کیا جاتا ہے، اور یہ دونوں کام ان کے مسلمان ہونے اور غریب ہونے کی وجہ سے مشکل نہیں ناممکن ہوتے ہیں۔
روہنجا مسلمانوں کے علاقہ اراکان میں جب 1950 میں علیحدگی کی تحریک چلی تو اس تحریک کے سرخیل بدھسٹ تھے، اور مسلمان عام ورکر!
رفتہ رفتہ مرکزی گورنمنٹ نے بدھسٹوں کو تو مراعات دے کے اپنے ساتھ ملالیا، اور ان لیڈروں نے بھی مسلمانوں کو استعمال شدہ ٹشو پیپر سمجھ کے پھینک دیا، تو مرکزی گورنمنٹ نے ان پہ پابندیاں لگانا شروع کردیں، شناختی کارڈ کی پابندی تو 1962 کے مارشل لا کے بعد لگی، لیکن سفری پابندیاں حصول تعلیم میں رکاوٹ، سرکاری ملازمتوں پہ پابندی 1951 میں شروع کردی گئی، جن تھوڑے سےلوگوں کے پاس کچھ دولت موجود تھی، وہ حالات کو بھانپ گئے، اور اسی زمانہ میں سعودی عرب، مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) منتقل ہونا شروع ہوگئے، مثال کے طور پہ ایک روہنجا مسلمان محمد یوسف بن سلیمان کا تذکرہ کرنا چاہونگا، انھوں نے آنے والے حالات کی نزاکت کو بروقت بھانپا اور 1951 میں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ اراکان سے بذریعہ کشتی مشرقی پاکستان، وہاں سے کراچی اور پھر کراچی سے پاکستانی پاسپورٹ پہ سعودی عرب چلے گئے، وہاں مکہ مکرمہ میں رہائش اختیار کی، وہیں 1952 میں الله تعالی نے انھیں ایک بیٹے سے نوازا، جس کا نام انھوں نے محمد ایوب رکھا، اس بچے محمد ایوب نے 1965 میں وزارت اوقاف سعودی عرب کے زیرسرپرستی جاری شعبہ تحفیظ القرآن ’’مسجد بن لادن‘‘ میں شیخ خلیل بن عبدالرحمن کے پاس 12 برس کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل کی۔ اس کے بعد متوسطہ وثانویہ تک تعلیم ’’معھد المدینہ العلمی‘‘ میں حاصل کی، پھرجامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شریعة کالج میں داخل ہوئے اور بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1976 سے لے کر 1978 تک کلیة القرآن میں معاون استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور ساتھ ہی تدریسی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔اس کے بعد جامعہ اسلامیہ ہی سے تفسیر اور علوم تفسیر میں ماسٹر (M.A) اور پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔ اور دونوں مرحلوں میں ’’تفسیر سعید بن جبیرکی روایات ‘‘ پر گرانقدر کام کیا ۔ اور دونوں مرحلے 1978 سے لے کر 1988 پر مشتمل ہیں،
اس کے بعد تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تقریبا 11 سال مدینہ منورہ کی مختلف مساجد میں امامت و خطابت کرنے کے بعد حرم نبوی میں معاون امام مقرر ہوئے اور پورے سات سال حرم مدنی شریف میں معاون امام رہے، بعد ازاں مسجد قبا کے امام مقرر ہوئے جہاں اپنی وفات تک مختلف نمازوں کی امامت کے ساتھ ساتھ نماز تراویح اور قیام الیل کی امامت بھی ان کے ذمہ تھی،
سن 2016 میں ان کا انتقال ہوا اور یہ جنت البقیع میں دفن ہوئے!
اراکان میں علیحدگی کی تحریک سے بدھسٹوں اور مسلمانوں کو جدا کرنے کے بعد جب مسلمانوں پہ عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا، تو مسلمانوں نے ہلکا پھلکا احتجاج کا سلسلہ شروع کیا، لیکن 1962 کے مارشل لا کے بعد پورا ملک ایک جیل خانہ میں تبدیل ہوگیا تھا، اور پھر اس جیل کے اندر ایک اور جیل تھی جس کے قیدی صرف مسلمان تھے، چاہے وہ اراکان میں تھے، رنگون میں تھے، یا ملک کے دیگر حصوں میں، ان پہ روزگار اور تعلیم کے مواقع مکمل بند کردئے گئے، کچھ عرصہ بعد رنگون اور دیگر صوبوں میں حصول تعلیم کے لئے کچھ چھوٹ دے دی گئی، لیکن اراکان میں مسلمانوں کی اکثریت چونکہ انتہائی غریب تھی، اکثریت کھیتی باڑی، ریڑھی، ٹھیلا، اور ماہی گیری کے کاموں سے منسلک تھی، انہیں کسی بھی چھوٹ کے قابل نہ سمجھا گیا، عام بدھسٹ عوام تو ان معاملات سے لاتعلق رہے، لیکن سرکاری اتھارٹیز یعنی فوج، پولیس، اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کئے رکھا کہ الامان الحفیظ!
اگر کوئی شخص کسی ناروا سلوک یا ظلم وستم پہ ذرا سی آواز بھی بلند کرتا تو اس کے پورے خاندان کو صفحۂ ہستی سے غائب کردیا جاتا، مارشل لا سے قبل جو تھوڑی بہت چھوٹ تھی مارشل لا کے بعد اتنی ہی زیادہ سختی کردی گئی،
لاوا اندر ہی اندر پکتا گیا،
پہلی بار 1978 میں چند لوگوں نے اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا، تو روہنجا مسلمانوں کے علاقوں پہ پہلی بار ملٹری کریک ڈاؤن کیا گیا، سینکڑوں کو ماراگیا، ہزاروں کو جیلوں میں بھردیاگیا، ہزاروں لاپتہ ہوگئے، اور دو لاکھ سے زائد لوگ سمندری راستہ سے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے، بہت تھوڑے لوگ بنگلہ دیش میں رکے زیادہ تر بنگلہ دیش سے پاکستان، سعودیہ، تھائی لینڈ، ملیشیا، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں جابسے!
اس زمانہ میں نہ تو کسی غیر ملکی کو اراکان صوبہ میں داخلہ کی اجازت تھی، اور نہ ہی کوئی روہنجا مسلمان اپنے ضلع کے صدر مقام کے علاوہ کہیں آجاسکتا تھا اور وہ بھی خصوصی اجازت کے ساتھ! اور نہ ہی کسی انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کا کوئی تصور موجود تھا!
اس زمانہ میں انٹرنیشنل خبروں کے لئے وائس آف امریکہ یا بی بی سی لندن کی ریڈیو سروسز ہی دو ذرائع تھے، لیکن ان کی توجہ اور دلچسپی کے لئے اس وقت اور بہت سے معاملات تھے، خصوصاً افغانستان میں روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور شہنشاہ ایران کے ایران میں کروٹیں لیتی انقلاب کے نام پہ بغاوت!
اس لئے ان دونوں ریڈیو اسٹیشنز کی توجہ سے روہنجا مسلمانوں کا قتل عام اور دربدری محروم رہی، اور نام نھاد امن کے پرچارک بدھسٹ ظلم و بربریت کا ناچ ناچتے رہے اور انسانیت ان کے امن کے پھولوں سے لہولہان ہوتی رہی!
پہلے ملٹری کریک ڈاؤن کے بعد 1991 تک چھوٹے موٹے اکادکا واقعات کے علاوہ سکون رہا، لیکن 1991 اور پھر چند ماہ بعد 1992 کا ملٹری کریک ڈاؤن برمی آرمی کی طرف سے ایک یکطرفہ جنگ تھی، جو نہتے اور کمزور مسلمانوں کے خلاف لڑی گئی؛
روہنجا مسلمانوں کے خلاف 1991 اور پھر 1992 کا ملٹری کریک ڈاؤن اس لحاظ سے 1978 کے کریک ڈاؤن سے مختلف تھا، کہ 1978 میں روہنجا مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے والے صرف برمی ملٹری کے افراد تھے، لیکن 1991 اور پھر چند ماہ بعد 1992 میں ملٹری کریک ڈاؤن میں اک نئی بات یہ تھی، کہ پہلے فوجی دستے کسی ایسے گاؤں کا محاصرہ کرکے جس میں مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی، گھر گھر کی تلاشی لیتے، گھر کے استعمال میں کام آنے والے چاقو چھریوں اور جلانے کی لکڑی کاٹنے کے لیے اکا دکا گھروں میں موجود کلہاڑیوں کو خطرناک اسلحہ قرار دے کے اسے ضبط کیا جاتا، اور نام نہاد امن کے پرچارک بدھسٹ دہشت گردوں کو حکم دیا جاتا، کہ یہ نہتے مسلمان اب تمہارا شکار ہیں جو چاہے ان کے ساتھ سلوک کرو۔ان دونوں واقعات میں بھی ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا، خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں، مال و اسباب لوٹ کے ان کے گھروں کو جلادیا گیا، کئی گھروں میں تو زندہ انسانوں کو بھی جلایا گیا، 1992 وہ پہلا سال ہے، جس میں روہنجا مسلمانوں کےاڑھائی لاکھ سے زائد لوگوں نے بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کی!
برمیز گورنمنٹ نے روز اول سے یہ قانون بنایا ہوا ہے، کہ روہنجا مسلمانوں کے پیدا ہونے والے بچوں کو برتھ سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیا جاتا، مبادا کوئی روہنجن اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پہ کسی کو رشوت دے دلا کے شناختی کارڈ حاصل نہ کرلے، یا اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پہ کسی دوسرے ملک میں پناہ نہ حاصل کرلے۔حالانکہ دوسرے صوبوں خصوصاً ینگون میں رہنے والے مسلمانوں کو ان کے بچوں کی پیدائش پہ برتھ سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے، کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں، چھوٹا موٹا کاروبار یا ملازمتیں کرتے ہیں، اور اپنےآپ کو انڈین کہلواتے ہیں، ضرورت پڑنے پہ ان لوگوں کو شناختی کاغذات اور پاسپورٹ بھی دیے جاتے ہیں، لیکن ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، نیز ان کا روہنجا نسل سے کوئی خونی، لسانی یا علاقائی تعلق بھی نہیں۔
1992 کے کریک ڈاؤن اور بدھسٹ دہشت گردی کے بعد پھر بیس سال کا عرصہ کسی بڑی نسل کُشی کے بغیر گزر گیا، 2012 میں برمیز گورنمنٹ نے پورے ملک کی بجائے صرف روہنجا مسلمانوں کے لیے دو بچے ایک گھرانہ کا قانون نافذکیا، اور دو سے زائد بچے ہونے کی شکل میں سخت ترین سزا مقرر کی۔اس امتیازی قانون کے خلاف روہنجا مسلمانوں نے جب احتجاج کیا تو پھر ان پہ بدھ دہشت گرد چھوڑ دیے گئے، جنہوں نے 1992 سے بھی زیادہ بربریت کا مظاہرہ کیا، معصوم دودھ پیتے بچوں کے جسموں کے ٹکڑے کیے گئے، عورتوں کی عصمتیں لوٹ کے انہیں زندہ جلایاگیا، تو امن کے پرچارک بدھسٹوں کی ننگا ناچ ناچتی بربریت کو قرارآیا۔
اس بار صرف 3 سال کا وقفہ آیا اور 2015 میں ایک بار پھر کائنات کی ارزاں ترین شے خونِ مُسلم کو بے دردی سے بہایا گیا، اس بار بھی ہزاروں لوگ اپنا مال و متاع اور گھر بار چھوڑ کے ہجرت پہ مجبور ہوئے!اگلے سال 2016 میں ایک گاؤں میں بچوں کے جھگڑوں میں بڑے جب میدان میں کودے تو بدھسٹوں نے اسے اپنے اوپر حملہ قرار دے کے پورے علاقہ میں فسادات شروع کروادیے اور ہزاروں مسلمانوں کو جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک ایک وقت میں دو دو سو سے زائد انسانوں کو بلاتفریق جنس و عمر زندہ جلادیا گیا۔
ظلم جب حد سے بڑھتا ہے، تو مظلوم و مقہوراقوام میں کچھ سرفروش سروں پہ کفن باندھ کے ظالم کا ہاتھ روکنے کے اور اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے میدان عمل میں آجاتے ہیں! 2016 کے فسادات سے پہلے انٹرنیشنل میڈیا پہ روہنجا مسلمانوں کی جانوں اور عزت و ناموس کو بچانے کے لیے دبا دبا سا ایک نام ” حرکة الیقین ” سُننے میں آیا، جسے انگلش میڈیا نے انگلش میں ( Faith Movement ) کا نام دیا، حرکة الیقین پہ برمی گورنمنٹ نے اپنی دہشت گردی چھپانے کے لیےالزام لگایا، کہ فسادات اس گروپ کی طرف سے ہمارے برما بنگلہ دیش بارڈر کی پوسٹوں پہ حملہ آور ہونے اور ان میں ہمارے 9 بارڈر آفیسرز اور 4 سولجرز کے قتل کے بعد ان کے ورثاء کی طرف سے بطور احتجاج ہوئے ہیں!
15 نومبر 2016 کو برمی آرمڈ فورسز کے ایک آفیشل نے فسادات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ جھوٹ بھی بولا کہ ان فسادات میں ہمارے ہاتھوں صرف باغیوں کی 69 ہلاکتیں ہوئی ہیں، عام عوام کو ہم نے کچھ نہیں کہا، حالانکہ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا نے کھلی آنکھوں سے سینکڑوں مسلمانوں کو زندہ اور مردہ جلانے کے واقعات کا مشاہدہ کیا! لیکن نہ ہی عالمی ضمیر جاگا اور نہ ہی سوکالڈ انسانیت کے علمبرداروں کو یہ وحشت و درندگی نظر آئی!
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے نام سے 1995 میں بننے والی ایک تنظیم جس کا ہیڈ کوارٹر بیلجئم کے شہر برسلز میں ہے، اور جس کا نعرہ یہ ہے، کہ ہم دنیا سے جھگڑوں کو مٹانا چاہتے ہیں اور وہ اپنا ماٹو یہ بھی بتلاتے ہیں کہ ہم غیر سرکاری اورنان پرافٹ ایبل تنظیم ہیں، ہم دنیا بھر میں بڑے جھگڑوں کے فریقین کو آپس میں بٹھانےاور ان کےجھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے میڈیا اور دنیا بھر کے سیاست دانوں کی مدد سے کوششیں کرتے ہیں، اس گروپ کے مطابق ان کی اس آرگنائزیشن کو چلانے کے لیے 49 فیصد فنڈز مغربی ممالک کی حکومتوں اور 51 فیصد فنڈز دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بڑی بڑی کمپنیوں، خیراتی اداروں، اور مخیر حضرات سے ملتے ہیں اس تنظیم نے برمیز ملٹری آفیشلز کی پریس کانفرنس کے ٹھیک ایک ماہ بعد 14 دسمبر 2016 کو روہنجا مسلمانوں کی آزادی کے لیے چند ماہ قبل بننے والی تنظیم ” حرکة الیقین ” پہ یہ الزام لگایا کہ اس تنظیم کو پاکستان اور سعودی عرب سے فنڈنگ ملتی ہے، اور اس کا الزام بھی حرکة الیقین کے لیڈروں پہ لگادیا کہ ان کے انٹرویوز سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے۔
اسی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں ایک الزام یہ بھی لگایا، کہ افغانی اور پاکستانی جہادیوں نے اراکان کے جنگلات میں روہنجا مسلمانوں کو لڑائی کی ٹریننگ بھی دی ہے۔مزے کی بات یہ ہے، کہ اس وقت تک برمی گورنمنٹ کا مؤقف اس کے بالکل برعکس تھا، برمی گورنمنٹ کے مؤقف کے مطابق گرفتار شدہ حرکة الیقین کے افراد سے تسلی بخش تفتیش کے باوجود ہمیں دوسرے ممالک کے جہادی گروپوں کے ساتھ ان کے روابط کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔آگے بڑھنے سے قبل ذرا ہم اس الزام کا جائزہ لے لیں کہ کیوں انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے سعودیہ اور پاکستان پہ ” حرکة الیقین ” کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام لگایا۔۔۔حرکة الیقین کے بانی اور لیڈر کا نام عطاءالله ہے، یہ روہنجن مسلمان ہے، 1978 کے فسادات کے بعد دیگر ہزاروں روہنجا مسلمانوں کی طرح اس کے والدین بھی براستہ بنگلہ دیش پہلے کراچی آئے، کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ سعودیہ منتقل ہوگئے اس عطاء الله کی پیدائش تو کراچی کی ہے، لیکن بچپن اور نوجوانی کا دور اس کا سعودی عرب میں گزراہے۔
غیر جانبدار حلقوں کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت مکہ، مدینہ، جدہ کے علاوہ مختلف شہروں میں روہنجا مسلمانوں کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہے، لیکن خود روہنجا اور دیگر اقوام کے برمی مسلمانوں کے نزدیک ان کی سعودیہ میں تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے، مکہ مکرمہ میں رہنے والے ایک روہنجا عالم دوست کے مطابق ان دس لاکھ میں سے سات لاکھ سے زیادہ ان روہنجا مسلمانوں کو شاہ سلمان خاموشی سے سعودی نیشنیلٹی دے چکے ہیں، جنہوں نے کسی نہ کسی طرح پروف کردیا، کہ وہ روہنجا ہیں اور برمی بدھسٹ دہشت گردوں کی دہشت گردی کا شکار ہوکے بے وطن ہوئے ہیں،جو لوگ ابھی تک اپنے آپ کو روہنجا ثابت نہیں کرسکے، لیکن برمی ثابت کرچکے ہیں، ان کو اقامہ میں وہ چھوٹ دی گئی ہے، جو دنیا کی کسی قوم کو نہیں دی گئی، حتٰی کہ یمنی پناہ گزینوں کو بھی وہ سہولت نہیں دی گئی۔کسی بھی برمی مسلمان کو ہرسال سعودیہ میں اقامہ کی تجدید نہیں کروانی پڑتی، بلکہ ان کے لیے چار سال بعد اقامہ کی تجدید کا قانون بنایا گیا ہے، اور وہ بھی بغیر کسی بھی قسم کی فیس کے۔
حالانکہ پاکستانیوں سمیت بہت سی دیگر اقوام کے لیے ہر سال تجدید اقامہ بمعہ بھاری بھرکم فیس ضروری ہے۔ہمارے جذباتی نوجوان جو کافی دنوں سے اسی روہنجن بحران کو لے کے سعودی حکومت، 40 ملکی فوجی اتحاد اور پاک افواج کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنارہے ہیں، انہیں نہ تو زمینی حقائق کا علم ہے، اور نہ ہی ممالک کے باہمی معاملات کا،یہ اکیسویں صدی ہے، اسےآپ آج سے تین چار سو سال پہلے کے حالات کے مطابق نہیں دیکھ سکتے،آج کی جنگ کئی محاذوں پہ لڑی جاتی ہے، اور ہم مسلمان بحیثیت قوم ہر محاذ پہ بہت سی اقوام سے زیادہ پسماندہ ہیں۔
میں نے جو چند تحاریر روہنجن مسلمانوں کے معاملات پہ فیس بک پہ دیکھیں، ان میں مجھے Safdar Cheema بھائی کی پوسٹ میں بیان کردہ نُکات سب سے زیادہ قابل عمل نظر آئے، جن میں اہل عقل و دانش مزید بہتری لاکے اسے مؤقر حلقوں تک پہنچا سکتے ہیں۔روہنجا مسلمانوں کی نسل کُشی کو بہت ہی وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے،بحرانوں کا پُر امن حل تلاش کرنے کا سوکالڈ دعوٰی کرنے والے انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے اپنی رپورٹس میں حرکة الیقین کو آج سے ایک سال قبل پاکستانی اور افغانی جہادیوں کا بغل بچہ اور ٹرینر اور سعودیہ کے مخیر حضرات پہ ان کے فنانسر ہونے کا الزام لگاکے ان دونوں ممالک کو مسلم دشمن مغربی ممالک کا اگلا شکار بنانے کی کوشش کی ہے، جسے سمجھنے کے لیے جذبات کی بجائے بالغ نظری کی ضرورت ہے۔
پاکستان، اس کی ایٹمی اور میزائل قوت، پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت پہلے ہی ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح نہیں بلکہ شہتیر کی طرح چبھتی ہیں، ایسے میں ہر فریق کو عقل و ہوش کے دامن کو تھامتے ہوئے بہت ہی دور رس فیصلے کرنے پڑیں گے،جو اسلام، عالم اسلام اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور سعودی عرب کے شایانِ شان بھی ہوں،عقل مند حکومتیں شور مچاکے نہیں بلکہ خفیہ سفارتکاری کے ساتھ دور رس خوشگوار اور دیرپا فوائد کے حامل فیصلے کرتی ہیں، نہ کہ ہماری فیس بُکی جذباتی پوسٹوں کو دیکھ کر۔
22 جون 2017 کو برمی گورنمنٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے سے ایک رپورٹ میڈیا پہ نشر کروائی، جس میں یہ دعوٰی کیا گیا، کہ بنگلہ دیشی بارڈر کے ساتھ اراکان کے جنگلات میں حرکة الیقین جس کا اب نام ( ASRA ) اسلامک روہنجین سالویشن آرمی ہےکے ایک ٹریننگ کیمپ پہ اٹیک کیا گیا، وہاں حفاظت پہ مامور تین مسلم باغیوں کو ہلاک کیا گیا، ٹریننگ کیمپ میں سے ٹریننگ کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی کی بندوقیں، گن پاؤڈر، اور بڑی تعداد میں مختلف اشیاء ملیں!
جولائی 2017 میں برمی گورنمنٹ نے ARSA پہ الزام لگایا کہ ان کی کارروائیوں سے اب تک 45 کے قریب بدھسٹ سولین ہلاک اور اغوا، اور 22 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
25 اگست 2017 کو برمی گورنمنٹ کی سنٹرل کمیٹی فار کاؤنٹر ٹیررازم نے ARSA پہ عام روہنجن مسلمانوں کی مدد سے آرمی بیسز اور پولیس چوکیوں پہ حملوں کا ذمہ دار ٹھہرا کے دہشت گرد تنظیم ڈیکلیئر کردیا۔اسی روز برمی گورنمنٹ نے یہ اعلان بھی کیا، کہ ARSA اور روہنجن مسلمانوں کے ساتھ تصادم میں سکیورٹی فورسز کے 12 افراد ہلاک ہونے کے بعد ہمارے جوابی حملوں میں 77 روہنجن باغی ( عام مسلمان ) بھی ہلاک ( شہید ) ہوئے ہیں۔
25 اگست سے جاری حالیہ نسل کُش فسادات روہنجن مسلمانوں کے اس مطالبہ کے بعد شروع ہوئے، جب انہوں نے برمیز گورنمنٹ کی طرف سے پچھلے 69 سال سے بنیادی انسانی حقوق کی عدم دستیابی پہ اپنے لیے علیحدہ سرزمین کا مطالبہ کیا، تو ایک منظم طریقے سے فورسز کے ٹرینڈ سولین افراد کے ذریعہ ان کی نسل کُشی شروع کردی گئی، اور الزام یہ لگایا گیا کہ ARSA کے ہزاروں جنگجوؤں نے آرمی بیسز اور پولیس چوکیوں پہ حملے کیے۔حالانکہ برمیز آفیشلز کے اپنے اعلامیہ نومبر 2016 کے مطابق ARSA کے ممبرز کی تعداد 500 سے زائد نہیں۔
اس وقت اراکان کے مسلم اکثریتی علاقوں کی صورت حال یہ ہے، کہ ایک لاکھ کے قریب بے کس افراد بنگلہ دیش کے بارڈر پہ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں، بنگلہ دیش کہ جہاں پہلے ہی پانچ لاکھ روہنجا مسلمان پناہ گزین کی حالت میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں، مزید لوگوں کو لینے سے انکار کرچکا ہے،دس ہزار سے زائد، مرد عورتیں بچےبوڑھے جوان مظلومانہ شہید ہوچکے ہیں، سینکڑوں باعصمت عورتوں کی زبردستی عزت لوٹی جاچکی ہے،سوکالڈ امن کے داعی بدھسٹ دہشت گردوں نے لوگوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو آگ لگا ان کی راکھ کو سمندر میں بہانا شروع کردیا ہے، تاکہ اقوام متحدہ کی انویسٹی گیشن ٹیم کو کسی بھی جرم کا کوئی سراغ نہ مل سکے۔اراکان میں سرکاری اندازے کے مطابق 2012 میں 10 سے 13 لاکھ روہنجن مسلمان تھے، اور روہنجن مسلمانوں کے مطابق 2012 میں ان کی تعداد 20 لاکھ سے اوپر تھی،جن میں سے اس وقت اراکان میں 7 لاکھ سے بھی کم افراد بچے ہیں، اگر سرکاری اعداد و شمار ہی کو صحیح تسلیم کرلیا جائے، تو بقیہ 6 لاکھ افراد کہاں چلے گئے ؟
انہیں زمین کھا گئی یا آسمان؟؟
الطاف حسین حالی رح کی ایک نظم کے چند اشعار پہ اپنی تحریر کا اختتام کرنا چاہوں گا۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسرٰی
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے
جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر ، غنا بھی
اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے
ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی
دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے
عالم ہے سو بےعقل ہے، جاہل ہے سو وحشی
منعم ہے سو مغرور ہے ، مفلس سو گدا ہے
یاں راگ ہے دن رات وداں رنگِ شب وروز
یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق
بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے
شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور
زیور ہے اگر علم تو مال سے کی جلا ہے
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
جس قصر کا تھا سر بفلک گنبدِ اقبال
ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے
بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار
جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے
وہ روشنیِ بام و درِ کشورِ اسلام
یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے
روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج
بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے
عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہرسو
اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے
چاوش تھے للکارتے جن رہ گزروں میں
دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے
وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی
وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اے چشمہ رحمت بابی انت و امی
دنیا پہ تیرا لطف صدا عام رہا ہے
کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے
امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن
دل دادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے
ہر چپقلش دہر مخالف میں تیرا نام
ہتھیار جوانوں کا ہے، پیروں کا عصا ہے
کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا
اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تری کہ مقبول خدا ہے
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے خواہاں
پر فکر ترے دین کی عزت کی صدا ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے!
تحریر؛ صاحبزادہ ضیاءالرحمٰن ناصر