از:حمد ضمیر رشیدی،وارثپورہ، کامٹی، ناگپور
کلمئہ طیبہ لآ الٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ ہے۔ اسے کلمئہ توحید ،کلمئہ اخلاص ،کلمئہ تقویٰ،کلمئہ پاک، قو ل ثابت، دعوة ا لحق، عروة الوثقیٰ(مضبوط حلقہ)، ثمن الجنہ (جنت کی قیمت) اور مقالید السمٰوات والارض (آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ) بھی کہا جاتا ہے۔قرآن پاک میں بے شمار آیتوں میں یہ کلمہ موجود ہے، اکثر جگہ پورا کلمہ مذکور ہے، کہیں مختصر اور کہیں دوسرے الفاظ میں بعینہ اس کے معنی مذکور ہیں۔ ایسی آیتیں اسّی سے زیادہ ہیں، مثلاً
لا الٰہ الا اللہ (نہیں کوئی معبود مگر اللہ ۔سورة : ۴۷: محمد، ۱۹)۔
لا الٰہ الاانت (نہیں کوئی معبود مگر تو۔سورة :۲۱: انبیاء، ۸۷)
کہیں لا الٰہ الا ھو (نہیں کوئی معبود اس کے سوا ۔ سورة :۲: بقرہ ، ۲۵۵ )
لا الٰہ الاانا( میرے سوا کوئی معبود نہیں۔سورة :۱۶ :النحل :۲ )
چونکہ یہ کلمہ تمام شرائع اور سارے انبیاء کی محنت کا خلاصہ اور حاصل ہے، لہٰذا جس کثرت سے قرآن و حدیث میں اس کا بیان ہو ، وہ قرین قیاس ہے۔یہ دین کی اصل اور ایمان کی جڑ ہے؛بلکہ دنیا کے وجود کا مدار اسی کلمہ پر ہے۔ اس کے دونوں جزو میں ” اللہ“ شامل ہے ، اس کے تکرار سے زبان کو تراوٹ ملتی ہے۔اس کے ورد سے ایمان کی تجدید ہوتی ہے اوردل کا فکر و غم دور ہوتا ہے، وغیرہ۔ اسم اعظم کے متعلق حدیث میں کثرت سے یہ مضمون آیا ہے کہ جو دعا بھی اس کے بعد مانگی جائے ، وہ قبول ہوتی ہے؛البتہ اس کے تعین میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔اکثر عارفین کی تحقیق یہ ہے کہ اسم اعظم ” اللہ“ ہے بشرطیکہ جب اس پاک ذات کا نام ” اللہ ‘ ‘ پوری عظمت سے لیا جاوے، پیٹ حرام غذاسے اور دل غیر اللہ سے خالی ہو ، نیز ذات و صفات کا استحضاربھی ہو ۔ اس وقت ایسی کیفیت ہو کہ جیسے کوئی شخص دریا میں غرق ہو رہا ہو اور کوئی بھی اس کا بچانے والا نہ ہو۔ ایسے وقت جس خلوص سے نام لیا جاوے گا ، وہ ظاہر ہے۔
اس کلمہ کے تعلق سے چند باتیں قابلِ توجہ ہیں۔ اول یہ کہ اس کلمہ کو حروف کی صحیح ادائیگی کا لحاظ کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ پڑھا جائے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ امتِ مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ صحیح تلفظ کے ساتھ اس کلمہ کو پڑھنے سے محروم ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ کسی عالم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کو صحیح تلفظ، اخلاص اورکیفیت کے ساتھ پڑھنا سیکھا جائے۔کلمہ کا اخلاص یہ ہے کہ وہ حرام کاموں سے روک دے۔دوسری بات یہ ضروری ہے کہ کلمہ کے معنی کا علم ہو؛ چنانچہ سلیس ترجمانی یوں کی جاسکتی ہے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد… اللہ کے رسول ہیں۔ تیسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ کلمہ کے مطلب کا علم ہو۔ کلمہ کے دو جزو ہیں۔ پہلا جزو لا الٰہ الا اللہ اور دوسرا محمدرسول اللہ ہے۔ ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے “کا مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ہستی ” الٰہ“ یعنی معبود (جس کی عبادت کی جائے، نہیں ہے) وہ واجب الوجود ہے۔ وہ ایک ہے ۔ اس جیسا کوئی نہیں۔ اس کی ذات و صفات میں کوئی شریک نہیں۔ وہ یکہ و تنہا ہے۔ نیز وہ بے نیاز ہے؛ اس لیے اسے کسی کی ضرورت نہیں ، وہ ہر عیب ، زوال ، نقصان، خوف، ضعف، کمزوری، ضرورت، حاجت غرضے کہ ہر قسم کی محتاجگی وغیرہ سے پاک ہے۔وہ تمام خوبیوں کا مالک ہے۔ وہ فاعلِ حقیقی ہے۔ اس کائنات میں ما سوا ء اس کے جو کچھ ہے، اسی کی خلق ہے اوراپنے وجود ، بقاء ، حرکت اور فناوغیرہ میں اس کے ایک امر محض کی محتاج ہے، پھر ان کے نفع و نقصان پہنچانے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ سب اس کے حکم کے محتاج ہیں۔ اور وہ ہر شئے پر قادر ہے، کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔وہ سب کچھ کے بغیر سب کچھ کر سکتا ہے ۔مختصر یہ کہ اللہ کو اس کی ذات و صفات کے ساتھ کما حقہ مانا جائے۔ حضرت محمد… کو اللہ کا رسول ماننے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے ہر معاملات میں صبح سے شام تک، پیدائش سے موت تک اور سر کے بال سے پیر کے ناخن تک؛ ہر کام میں آنحضور … کے طریقوں کے مطابق زندگی بسر کی جائے ۔ان کے طریقوں میں پوری کامیابی ہے اور اس کے علاوہ جتنے طریقے ہیں، ان میں ناکامی ہیں ۔چوتھی قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ کلمہ کے تقاضے کا علم ہو۔کلمہ کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے اوامر کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر بجا لانا۔ اور جن کا موں سے اللہ عزَّ و جلَّ نے منع فرمایا ہے، ان کاموں سے اجتناب کرنا۔
صحابہ کی زندگی کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہے کہ اس کلمہ کے پڑھنے کے بعد ان کی زندگی میں ایک زبردست انقلاب آگیا، اس لحاظ سے اگر اس کلمہ کو ”کلمئہ انقلاب“ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ اس کلمہ کو اخلاص کے ساتھ پڑھنے کے بعد انسان کا تعلق دنیا میں پیغمبرِ انقلاب” حضرت محمد… “ اور کتاب انقلاب ”قرآن مجید“ سے قائم ہو جا تا ہے اور کلمہ گو کی زندگی کی کایا پلٹ ہوجاتی ہے۔بہ الفاظِ دیگر کفر و شرک اور بدعت و گمراہی، ایمان و توحید اور سنت سے بدل سکتی ہے۔جہالت ، علم سے اورغفلت ،ذکر سے بدل سکتی ہے وغیرہ، بشرطیکہ اس کلمہ کی حقیقت اور اس کے نور کو دل میں اتار لیا جائے کہ ہدایت کی راہوں کا کھلنا سخت محنت و جد و جہدکے ساتھ مشروط ہے۔” جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔“ ( سورة نمبر ۲۹ : العنکبوت ۔ آیت نمبر: ۶۹ )
$ $ $