بڑے دنوں کا نصاب رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 511)

 

اللہ تعالیٰ خالق ہے، مالک ہے، قادر ہے… باقی ہر چیز خواہ وہ کتنی افضل کیوں نہ ہو… اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، مملوک ہے… کعبہ شریف بھی مخلوق، حجر اسود شریف بھی مخلوق، حرم شریف بھی مخلوق … اور تمام حضرات انبیاء علیہم السلام بھی اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلوق… اور حضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل علیہم السلام جیسے عظیم ملائک بھی … اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلوق…

حادثہ ہو گیا

کعبہ شریف میں بھی حادثہ ہو سکتا ہے… ماضی میں وہاں حادثات ہوتے رہے ہیں… اس سال بھی وہاں ایک حادثہ ہو گیا… اسلام نے جھوٹے مذاہب کی طرح کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس کے مقدس مقامات ہر طرح کے حوادث سے محفوظ ہیں…نہیں بلکہ… مقدس ترین مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم اور قانون چلتا ہے… وہاںسردی بھی آتی ہے اور گرمی… بارش بھی برستی ہے اور سیلاب بھی آ سکتے ہیں… وہاں رحمت تو ہر لمحہ برستی ہے مگر کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ اور قہر کے تھپیڑے بھی پڑ سکتے ہیں… کعبہ شریف کے گرد طواف سے جہاں روزانہ لاکھوں افراد رحمت، نور اور ہدایت پاتے ہیں… وہیں بعض افراد کو وہاں بلا کر سخت سزا بھی دی جاتی ہے… پھر بعض لوگوں کو سزا دے کر پاک کر دیا جاتا ہے… اور بعض بد نصیبوں کے دلوں پر شقاوت اور بد بختی کی حتمی مہر لگا دی جاتی ہے… وہاں کے حادثات بعض افراد کے لئے رحمت ہوتے ہیں ، بعض کے لئے عذاب اور بعض کے لئے تنبیہ اور سبق… اس بارے میں بڑے عجیب واقعات ماضی میں سامنے آئے…وہ سب سے بڑی جگہ ہے وہاں جو پا گیا اب وہ محروم نہیں ہو سکتا… اور وہاں جو محروم رہ گیا وہ کسی اور جگہ پا نہیں سکتا… سوائے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت پھر ڈھانپ لے… ایک اللہ والے بزرگ طواف کر رہے تھے ،شیطان نے حملہ کیا اور طواف کے دوران بد نظری کر بیٹھے… کعبہ شریف سے ایک ہاتھ بلند ہوا اور ان کے چہرے پر ایسا تھپڑ لگا کہ ایک آنکھ ضائع ہو گئی… آنکھ ضائع ہو گئی مگر ایمان بچ گیا… وہ اس تنبیہ اور معذوری پر ساری زندگی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہے کہ… دائمی اور سچی توبہ نصیب ہوئی…اور گناہ کی سزا نقد ختم ہو گئی… تنبیہ نہ ہوتی اور طواف کے دوران یہ گناہ چلتا رہتا تو سوچیں کہ کیا بنتا؟… جس گناہ کا گواہ کعبہ شریف ہو ، حجر اسود ہو، رکن یمانی ہو، مقام ابراہیم ہو… مطاف ہو، ملتزم ہو… اس گناہ کو کوئی لے کر مرا تو کس قدر خسارے کی بات ہے؟… مگر وہ صاحب اللہ تعالیٰ کے پیارے تھے اس لئے تنبیہ فرما دی گئی … بہت سے لوگ کعبہ شریف کے گرد اس گناہ سے زیادہ بڑے گناہ کرتے رہتے ہیں…ان کو تنبیہ نہیں کی جاتی… ہاں! بد نصیب ہمیشہ تنبیہ سے محروم رہ کر بڑی سزا کے مستحق بن جاتے ہیں… یا اللہ ! آپ کی پناہ…

جو لوگ اس حادثے میں… بحالت ایمان شہید ہوئے ان کو سلام… انہیں سفر حج کی موت ملی جو کہ قیامت تک کا حج ہے… ان کو مطاف کی موت ملی…جہاں سے جنت بہت قریب ہے… ان کو جمعہ کا دن ملا… جو عذاب قبر سے نجات کی ضمانت ہے… اور ان کو حادثاتی موت ملی جو کہ لاریب شہادت ہے… اب وہ پکے حاجی بن گئے … بغیر ویزے، پاسپورٹ اور ٹکٹ کے ہر سال کا حج… ان کو مبارک اور ان کے اہل خانہ سے قلبی تعزیت…

ایک مفروضہ

اتفاق کی بات ہے کہ حادثے کے دن کی تاریخ… گیارہ ستمبر بنتی ہے…یعنی’’ نائن الیون‘‘ … ممکن ہے کہ بعض لوگ اس میں سازش کا پہلو ڈھونڈ یں کہ… امریکہ نے یہ حادثہ کرا کے مسلمانوں سے انتقام لیا ہے… آج کل کی مہلک سائنس میں مصنوعی بارش، مصنوعی طوفان … اور مصنوعی زلزلوں کا تذکرہ بھی کچھ عرصہ سے چل رہا ہے… مگر بظاہر اس میں کوئی سازش نظر نہیں آتی … حرم شریف میں درجنوں بار سیلاب آ چکا ہے … تاریخ کی کتابوں میں ستر سیلابوںکی تفصیلات موجود ہیں…بعض سیلاب تو ایسے بھی آئے کہ پورا مطاف پانی میں ڈوب گیا اور کئی افراد نے تیر کر طواف کیا… کعبہ شریف پر دشمنوں کے حملوں کی بھی ایک تاریخ موجود ہے… حضور اقدس ﷺ کی ولادت سے کچھ پہلے ابرہہ حبشی نے حملہ کیا…اس حملے اور حملہ آوروں کے انجام کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے… ابرہہ سے پہلے بھی ایک یمنی بادشاہ ’’ازماع‘‘ نے کعبہ شریف پر حملہ کیا تھا… اسلام کے بعد ۶۳؁ھ میں حصین بن عمیر نے اور پھر حجاج نے حملہ کیا… ۳۱۷؁ھ میں قرامطہ نے حملہ کیا …یہ فاطمی بھی کہلاتے تھے انہوں نے حجر اسود پر بھی قبضہ کیے رکھا…

ان تمام حملوں میں…اللہ تعالیٰ نے ابتدائی آزمائش کے بعد اہل ایمان کو بڑی عظیم خیریں اور فتوحات عطاء فرمائیں  اور اللہ تعالیٰ کے عظیم گھر کا… فیض آج بھی پورے عالم میں جاری و ساری ہے… اس بار کا حادثہ اگر کسی کا حملہ ہے تو ان شاء اللہ…حملہ آور چالیس دن یا چار ماہ کے عرصہ میں اس کی عبرتناک سزا بھگت لیں گے… مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ …کافروں کی طاقت کے تذکرے کر کے… اور ان کی سازشوں کے فرضی قصے بنا کر مسلمانوں کو مرعوب کرتے رہیں… کافروں کی قوت اور شوکت کا جواب جہاد فی سبیل اللہ ہے… جہاد فی سبیل اللہ کے سامنے نہ کوئی کفریہ طاقت ٹھہر سکتی ہے اور نہ اس کا کوئی اسلحہ اور ٹیکنالوجی… حجاج کرام اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں… بہت سے لوگ وہاں جا کر غافل ہو جاتے ہیں… کئی بازاروں میں پھنس جاتے ہیں… کئی گناہوں میں غرق ہونے لگتے ہیں… اور کئی اپنے وقت کو ضائع کرنے والے بن جاتے ہیں… ایسے لوگوں کے لئے اس طرح کے حوادث تنبیہ اور سبق کا کام کرتے ہیں … اس طرح کے حوادث مسلمانوں کا عقیدہ مضبوط بناتے ہیں… اس طرح کے حوادث سے وہاں کی حکومت اور انتظا
میہ کو بھی اپنی بہت سی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے… اور وہ غلط اور مضر تعمیرات سے بچ جاتے ہیں… بہرحال کعبہ شریف مرکز ہدایت ہے… وہ چادریں چڑھانے یا دنیا کی ہر جائز و ناجائز حاجتیں پوری کرنے والا دربار نہیں ہے… وہاں جانا اسلام کے فرائض میں سے ہے… موت برحق ہے… یہ ایمان والوں کے لئے ایک بڑی نعمت اور پل ہے… اور موت کسی بھی جگہ آسکتی ہے… اگر کسی کو کعبہ شریف کے پاس ایمان کی حالت میں موت ملے تو اسے اور کیا چاہیے… عقیدہ درست رکھیں…اور اپنے دل میں کعبہ شریف کی محبت بڑھاتے جائیں…

ماحول بن رہا ہے

ہمارے ہاں آج انتیس ذی القعدہ ہے… جبکہ حرمین شریفین میں آج ’’ذو القعدہ ‘‘ کی تیس تاریخ ہے… یعنی دنیا میں…کل اور پرسوں اس دنیا کے سب سے افضل ایام شروع ہونے والے ہیں… جی ہاں! ذوالحجہ کے پہلے دس دن…ہم نے اپنے بچپن اور اوائل جوانی میں دیکھا کہ ہمارے ماحول میں … ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے بارے کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی تھی… نہ روزے، نہ عبادات…نہ فضائل کامذاکرہ…اور نہ ذکراللہ کی کثرت…

مدارس میں عید الاضحیٰ کے موقع پر چھٹیاں ہوتی ہیں تو… اساتذہ اور طلبہ گھر جانے، ٹرین کا ٹکٹ کرانے…اور سفر کی تیاری میں لگے رہتے ہیں … علماء اور طلبہ جب تعطیل پر ہوں تو ’’عشرہ ذی الحجہ‘‘ کے فضائل امت کو کون سنائے… الحمد للہ قربانی کا عمل نیک لوگ اہتمام سے کرتے تھے اور کر رہے ہیں… اور عرفہ کے دن کا روزہ بھی عبادت گذار لوگ رکھ لیتے تھے…اور بس…

حالانکہ عشرہ ذی الحجہ کے فضائل جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں…ان کا اگر ٹھیک ٹھیک مذاکرہ ہو جائے تو… ماحول کا رنگ ہی بدل جائے … یہ انسانی زندگی کے قیمتی ترین دن ہیں… حجاج کرام کے لئے بھی… اور غیر حجاج کے لئے بھی … حتی کہ کئی ائمہ کرام نے ان دس دنوں کو رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے بھی افضل قرار دیا ہے… خیر وہ ایک علمی بحث ہے…

مگر ان ایام کی فضیلت کا کسی کو انکار نہیں… اور ان ایام میں ہر نیک عمل کی قدر و قیمت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے…اور ان دنوں کی عبادت اس جہاد سے بھی افضل ہے جس میں مجاہد کی جان قربان نہ ہوئی ہو…یہ وہ دن ہیں جن کی راتوں کی قسم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کھائی ہے… اور ان دنوں میں خاص طور سے ذکر کا حکم قرآن مجید میں فرمایا ہے … یہ وہ دن ہیں جن میں اسلام کے محکم فرائض میں سے ایک فریضہ…حج بیت اللہ ادا ہوتا ہے…اور وہ ان دنوں کے علاوہ کبھی ادا نہیں ہو سکتا … ان دس دنوں میں ’’عرفہ‘‘ کا دن ہے جس دن سب سے زیادہ افراد کو جہنم سے نجات دی جاتی ہے… ان دس دنوں میں ’’یوم النحر‘‘ یعنی عید کا دن ہے …جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا اور سب سے عظیم دن ہے…

اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کو ’’ایام معلومات‘‘ کا بڑا لقب عطاء فرمایا ہے…اور ان دنوں اللہ تعالیٰ کا فضل اپنے بندوں پر بہت زیادہ متوجہ ہوتا ہے… ان دنوں کی فضیلت میں اتنی صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں کہ…اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک رسالہ بن سکتا ہے…

الحمد للہ ان فضائل اور احادیث کے مذاکرہ سے اب ماحول میں…کچھ تبدیلی نظر آ رہی ہے … ماشاء اللہ بہت سے لوگ پورے نو دن کے روزے رکھتے ہیں… تکبیرات کا والہانہ اہتمام ہوتا ہے… کئی افراد ان دنوں کو پانے کے لئے محاذوں کا رخ کرتے ہیں…حج بیت اللہ کا شوق بھی الحمد للہ بڑھ رہا ہے… اور اس مبارک عشرے کو کمانے والے مسلمانوں کی تعداد میں الحمد للہ روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے…

عشرہ ذی الحجہ کا مختصر نصاب

جو مسلمان حج بیت اللہ پر نہیں گئے… ان کے لئے اس مبارک عشرے کو پانے اور کمانے کا ایک آسان سا نصاب عرض کیا جا رہا ہے…اللہ تعالیٰ میرے لئے اور آپ سب کے لئے یہ نصاب آسان فرمائے… اور اسے اپنے فضل سے قبول فرمائے…

(۱) قربانی بہت ذوق و شوق اور اہتمام سے کریں…استطاعت ہو تو واجب کے ساتھ نفل قربانی بھی کریں…

(۲) یکم ذی الحجہ تا ۹ ذی الحجہ…تمام نو دن یا کم از کم آخری تین دن روزے کا اہتمام کریں…

(۳) تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ، تکبیر اور تحمید کی کثرت کریں… آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر دن اور ہر رات تین تین سو بار تیسرا کلمہ ان تمام دنوں میں پڑھ لیں… ان شاء اللہ ایسا فائدہ ہو گا جو بیان سے باہر ہے… ساتھ اپنا بارہ سو بار کلمہ کا معمول جاری رہے…ان دنوں کا اصل تحفہ ’’تکبیر‘‘ ہے…اس کی بہت کثرت…

اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد

(۴) تلاوت میں کچھ اضافہ کر دیں… اور یہ اضافہ عید کے دن بھی جاری رہے… مثلاً آدھے پارہ والے ایک پارے پر… اور ایک پارے والے دو پارے پر چلے جائیں…

(۵) روزانہ جہاد فنڈ دیں… خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہو… روز جمع کرنے کی سہولت ہو تو جماعت کے بیت المال میں جمع کراتے جائیں … اگر یہ سہولت نہ ہو تو لفافہ بنا کر روز اس میں ڈالتے جائیں، جب موقع ملے جمع کرا دیں…

(۶) جہاد کی محنت، جہاد کی دعوت، نفل قربانی اور کھالوں کی محنت میں اخلاص کے ساتھ وقت لگائیں…

(۷) سحری پابندی سے کھائیں، یہ بڑا برکت والا کھانا ہے… اور جب سحری کو جاگیں تو تہجد کا مزا بھی لوٹ لیں…

(۸) والدین اور اہل و عیال کا خرچہ ان دنوں حسب استطاعت بڑھا دیں اور گھر میں عشرہ ذی الحجہ کے فضائل کا مذاکرہ کرتے رہیں…اسی طرح صلہ رحمی،کھانا کھلانا اور صدقہ خیرات کی کثرت…

(۹) جنہوں نے قربانی کرنی ہو وہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد… اپنے ناخن، بال وغیر
ہ نہ کاٹیں جب تک کہ قربانی ذبح نہ ہو جائے…

(۱۰) ان تمام دنوں میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز کا زیادہ التزام کریں…عید الاضحیٰ کی تیرہ سنتیں یاد کر کے ان کو عمل میں لائیں… اور دوسرے مسلمانوں کو بھی عشرہ ذی الحجہ کے اعمال کی طرف متوجہ کرتے رہیں…

وما توفیقی الا باللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب

لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ

٭…٭…٭