مسجد اقصیٰ کے بارے میں 40اَہم معلومات

نقش جمال .مدثر جمال تونسوی (شمارہ 624)

اگر کسی مومن کو بیت المقدس کی سرزمین پر گھوڑے کی ایک رسی جتنی جگہ بھی مل جائے کہ جس کی بدولت وہ مسجد اقصیٰ کی زیارت سے مستفید ہوتا رہے تو یہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ یہ مضمون ایک حدیث پاک میں بیان ہوا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک سچے مومن کے دل میں بیت المقدس کی کتنی عظمت ہونی چاہئے اور مسلمانوں کو اس بارے میں کس قدر بیدار مغز اورحساس ہونا چاہئے۔

’’چھوٹا منہ، بڑی بات‘‘، مگر ایک بات کہنا چاہتا ہوں، اور پھر اگر یہ بات بعض معتبر لوگوں سے منقول نہ ہوتی تو شاید ذکر نہ کرتا۔

اس مسجد کے ساتھ مسلمانوں کا کس قدر جذباتی تعلق ہے؟ اس سے اندازہ لگائیے کہ بعض اولیائے کرام اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء معمول کے طور پر مانگا کرتے تھے:’’ اے اللہ! اگر آپ نے ہمارے جسموں کے لیے بیت المقدس کی فتح میں شرکت مقدر نہیں کی، تو ہماری روحوں کے لیے بیت المقدس کی فتح میں شرکت مقدر فرمادیجئے‘‘!

اس موضوع پرکہنے کو بہت کچھ ہے، مگر فی الحال اس مضمون کے ذریعے مسجد اقصیٰ کے بارے میں چالیس اہم معلومات پیش کرنا مقصد ہے جن میں سے بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ بہت سے مسلمان بھی ان سے واقف نہیں ہوتے۔ اس موضوع پر ایک عرب صاحب علم دکتور عیسی القدومی کی تحریر جو سنہ ۲۰۱۵ء میں شائع ہوئی تھی،جس نے خود عرب دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور بیت المقدس کی آزادی کی تحریک سے روشناس کرانے اور مسلمانوں میں موجود غفلت اور ناواقفیت ختم کرنے میں اس نے کافی کردار اداء کیا۔ اللہ کرے یہ معلومات مسجد اقصیٰ سے ہمارے قلبی تعلق اور ظاہری کاوشوں کو مزید قریب تر کردیں۔

(۱)مسجد اقصیٰ ایک مکمل احاطے کا نام ہے ،چنانچہ عام طور سے تصویر میں جو ایک لمبی چوڑی چار دیواری دِکھائی دیتی ہے ، تو اس کے اندر جو کچھ بھی ہے ، یعنی اس میں موجود دروازے، مختلف چھوٹے بڑے صحن،برآمدے، جامع مسجد، قبۃ الصخرہ، مصلیٰ مروانی، قبے، پانی کی سبیلیں اور دیگر جو بھی تاریخ آثار اس چار دیواری میں موجود ہیں ، حتی کہ اس پر موجود اذان دینے کے منارے سب ’’مسجد اقصیٰ‘‘ میں شامل ہے۔ یہ پوری جگہ سوائے قبۃ الصخرہ اور جامع مسجد (عوام کے ہاں عام طور سے اسی جگہ کو مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے)کے بغیر چھت کے ہے۔ چنانچہ علمائے کرام اور مورخین کا اس پر اتفاق ہے اوراسی پر یہ مسئلہ متفرع ہوتا ہے کہ جو شخص اس پورے احاطے میں کہیں بھی نماز پڑھ لیے تو وہ اس فضیلت کا مستحق بنتا ہے جو مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کے بارے میں بیان کی گئی ہے۔

(۲)مسجد اقصی کے کئی نام ہیں جو سب کے سب اس کی فضیلت اور بلندی شان کی اظہار ہیں۔ بعض علماء نے اس کے بیس نام جمع کیے ہیں۔ البتہ مشہور نام تین ہیں: مسجد اقصیٰ، بیت المقدس اور ایلیائ۔

(۳)یہ مسجد بیت المقدس شہر کے ایک ٹیلے پر واقع ہے اور یہ مسجد اس اعتبار سے دنیا کی واحد ترین مسجد ہے کہ اس کے احاطے میں جس قدر تاریخی آثار موجود ہیں وہ کسی اورجگہ موجود نہیں ہیں۔ اس مسجد کا کل احاطہ چالیس ہزار ، ایک سو چار مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

(۴)زمین پر مسجد حرام کے بعد دوسرے نمبر پر بننے والی مسجد یہی ’’مسجد اقصیٰ‘‘ ہے۔ چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: زمین پر سب سے پہلی کون سی مسجد تعمیر کی گئی؟ تو آپ نے فرمایا: مسجد حرام!۔ میں نے پوچھا: پھر اس کے بعد کون سی؟ تو آپ نے فرمایا: مسجد اقصی۔ میں نے پوچھا: ان دونوں کی تعمیر میں کتنی مدت کا فرق ہے؟ تو آپ نے فرمایا: چالیس سال۔‘‘ (بخاری)

(۵)یہ ایسی مسجد ہے کہ خود اس کا اپنا احاطہ بھی اور اس کا اردگرد بھی مبارک علاقہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو ، رات کے ایک حصے میں اپنے مسجد حرام سے اُس مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی، جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے، تاکہ اُسے اپنی نشانیوں میں سے کچھ دِکھائیں، بے شک وہی کامل سننے والا اور کامل دیکھنے والا ہے۔ (سورۃ الاسرائ:۱)

اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ اگراس ایک آیت کے علاوہ، اس مسجد کی فضیلت کے بارے میں اور کوئی بات بھی نہیں ہوتی، تب بھی یہی ایک آیت بہت کافی تھی، پھر جب اس کا اردگرد مبارک ہے تو خود اس مسجد کی برکت کتنی ہوگی؟ شاید یہی وجہ ہے کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے علاوہ باقی تمام مساجد سے اس کا مقام و مرتبہ بڑھ کرہے۔

(۶)مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔

اس کی تفصیل حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنئے۔ فرماتے ہیں:

ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر ، سولہ یا سترہ مہینوں تک بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نمازیں پڑھیں، پھر ہمارا رُخ قبلہ بیت اللہ کی طرف پھیر دیاگیا(بخاری و مسلم)

یاد رہے کہ قبلے کی تبدیلی کے بعد بھی اس مسجد اقصیٰ کی اہمیت ختم نہیں ہوئی، بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں اور اسلامی شریعت میں پہلے کی طرح ہمیشہ کے لیے اس کی عظمت برقرار رہی ہے اور برقرار چلی آرہی ہے۔ الحمد للہ

(۷)نبی کریمﷺ نے اس مسجد کی فضیلت اور عظیم شان کو بیان فرمایا ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ ہر سچے مسلمان کا دل اس کے ساتھ جُڑا رہتا ہے اور اسے براہ راست دیکھ لینا بھی اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔

حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی موجودگی میں اس بات کا مذاکرہ کیا کہ آیا مسجد اقصی افضل ہے یا مسجد نبوی؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز ، مسجد اقصی میں چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ وہ بھی بہت ہی اچھی نماز کی جگہ ہے۔ اوریہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بندے کو اگر وہاں زمین کا فقط گھوڑے کی رسی کی جگہ جتنا ٹکڑا مل جائے کہ جس کی بدولت وہ وہاں رہ کر بیت المقدس کی زیارت سے مشرف ہوسکے تو یہ بات اس کے لیے پوری دنیا سے بہترہوگی‘‘۔ (مستدرکِ حاکم۔ وافقہ الذھبی)

(۸)نبی کریمﷺ نے اس کے فتح ہونے سے پہلے ہی اس کے فتح ہونے کی بشارت عطاء فرمائی جو ایک طرف ہمارے نبیﷺ کا معجزہ ہے اور دوسری جانب اس مسجد کی عظمت کا نشان بھی ہے۔

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: غزوہ تبوک کے موقع پر میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا، اُس وقت آپ چمڑے کے بنے ہوئے ایک خیمے میں موجود تھے، اس وقت آپ نے فرمایا:

یہ بات شمار کرکے رکھ لو کہ قیامت سے پہلے یہ چھ باتیں ضرور ہوں گی: (۱) میری وفات (۲) پھر بیت المقدس کی فتح (۳) پھر دو ایسے عام موتیں جو تم بکریوں کی وباء کی طرح پھیل جائیں گی(۴)پھر مال میں اس قدر اضافہ کہ اگر کسی کو ایک سو دینار بھی دیئے جائیں گے تو وہ اس پر بھی(کمی محسوس کرکے) ناراضی ظاہر کرے گا (۵)پھر ایک ایسا فتنہ آئے گا عرب کے کسی بھی گھر میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہے گا (۶)پھر تمہارے اور بنو اصفر(رومیوں) کے درمیان ایک صلح کا زمانہ آئے گا، مگر وہ تم سے بدعہدی کریں گے اور تم سے لڑنے کے لیے اسی جھنڈوں تلے جمع ہوکر آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار سپاہی ہوں گی(بخاری:۳۱۷۶)

(۹)مسجد اقصیٰ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ طائفہ منصورہ کی قیام گاہ اور اہل ایمان کا مضبوط گڑھ ہے۔ یعنی اس جگہ ہمیشہ ایک جماعت ایسی رہے گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مددیافتہ اور پختہ ایمان والوں کی ہوگی۔

رسول کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق کی حمایت کے لیے قتال کرتی رہے گی، جو اپنے مخالفین پر غالب رہے یہاں تک کہ ان کی آخری طبقہ مسیح دجّال سے قتال کرے گا۔ (مسند احمد۔ سنن ابی داؤد۔ مستدرک حاکم۔ طبرانی)

اگرچہ یہ جماعت دنیا میں بکھری ہوئی بھی وقتا فوقتا موجود رہے گی مگر بیت المقدس میں یہ جماعت بہرحال رہے گی کیوں کہ دوسری حقیقت یہ ہے کہ دجال نامی فتنے کو قتل کرنے کے لیے جب حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ فلسطین کے باب لُد کے مقام پر ہی اسے قتل کریں گے، تو یقینا اس وقت خود حضرت عیسی علیہ السلام اوران کے ساتھ موجود مجاہدین جس سرزمین پر موجود ہوں گے وہ یہی بیت المقدس اور فلسطین کا علاقہ ہے۔

(۱۰) مسجد اقصیٰ، بیت المقدس اور بلادِ شام : یہ ارضِ محشر(جمع ہونے کی جگہ) بھی ہے اور ارضِ منشر(دوبارہ زندہ کرکے اُٹھائے جانے کی جگہ) بھی۔

نبی کریمﷺ کی باندی حضرت میمونہ بنت سعد فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! آپ ہمیں بیت المقدس کے بارے میں کچھ بتائیے! تو آپ نے فرمایا: وہ جمع ہونے اور دوبارہ جی اُٹھنے کی جگہ ہے۔ (سنن اِبنِ ماجہ)

(۱۱)مسجد اقصیٰ کا یہ بھی امتیاز ہے کہ اس سرزمین کے اہل ایمان دجال سے حفاظت کے لیے اس میں پناہ لیں گے اور دجال اس میں داخل نہیںہوسکے گا۔

رسول کریمﷺ کا ارشادہے:

(دجال کی) ’’علامت یہ ہے کہ وہ چالیس دن زمین پر رہے گا، ہر پانی کے گھاٹ تک اس کی حکومت پھیل جائے گی، البتہ چار مسجدوں تک وہ نہیں آسکے گا: کعبہ، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ اور طور‘‘۔ (مسند احمد، مجمع الزوائد، رجالہ رجال الصحیح)
مسجد اقصیٰ کے بارے میں 40اَہم معلومات(۲)
نقش جمال .مدثر جمال تونسوی (شمارہ 625)

(۱۲)اِسی مسجد اقصیٰ کی جانب نبی کریمﷺ کو معراج کی شب سیر کرائی گئی اور اس میں عجیب حکمت یہ ہے کہ اس سیر کی ابتداء مسجد حرام سے ہوئی جوزمین پر بننے والی پہلی مسجد ہے اور اس زمینی سیر کی آخری منزل مسجد اقصیٰ بنائی گئی جو زمین پر بننے والے دوسری مسجد ہے ، اس طرح نبی کریمﷺ کے لیے دو قبلے اوران کی فضیلت جمع کردی گئیں اور اسی کے ساتھ آپﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا بلیغ اِشارہ بھی دے دیا گیا ۔

نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: میرے پاس براق کو لایا گیا، یہ ایک سفید رنگ کا قدرے لمبا جانور تھا، جو گدھے سے کچھ بڑا اور خچر سے کچھ چھوٹا تھا۔ اس کا قدم وہاں تک پڑتا تھا جہاں تک آدمی کی نظر پڑتی ہے۔ میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچا ۔ پھر اسے اس حلقے کے ساتھ باندھ دیا جہاں دیگر انبیائے کرام اپنی سواریوں کو باندھتے ہیں۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوااور وہاں دو رکعت نماز پڑھی اور پھر باہر آیا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس دو برتن لائے ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ۔ میں نے دودھ والا برتن لے لیا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے فطری چیز کو پسند فرمایا ہے اور پھر ہمیں وہاں سے آسمان کی طرف لے جایا گیا…(مسلم شریف)

(۱۳)یہ مسجد اقصیٰ وہ واحد مبارک جگہ ہے جہاں انسانی تاریخ کا سب سے عظیم الشان اجتماع ہوا ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے نبی حضرت محمدﷺ تک جتنے بھی نبی گزرے ہیں وہ سب کے سب اس مبارک جگہ پر معراج نبوی کے موقع پر جمع ہوئے اور نبی کریمﷺ کی امامت میں نماز اداء کی۔ جس میں یہ پیغام بھی تھا کہ یہ نبی تما م نبیوں کے امام ہیں اور یہ بھی پیغام تھا کہ اب اس مبارک جگہ کی خلافت و وراثت امت محمدیہ کے سپرد کی جارہی ہے۔ اب دین وہی قبول ہوگا جو سیدنا محمدﷺ لے کر آئے ہیں اور جو ان کی امت میں داخل ہوگا وہی کامیاب ہوگا ۔

(۱۴)اس مسجد کی طرف کجاوے کَس کر سفر کیا جاتا ہے اور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی باقاعدہ محنت و مشقت اٹھا کر اور کجاوے کس کر اس مسجد کی طرف سفر کرے تو یہ مستحب اور بڑی فضیلت والا عمل ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:’’ تین مساجد: یعنی مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے سوا کسی اور کی طرف کجاوے نہ کَسے جائیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)

اسی لیے متعدد صحابہ کرام نے دوردراز سے سفر کیے تاکہ مسجد اقصی کی زیارت کرسکیں اور وہاں نماز پڑھ سکیں، بلکہ بہت سے سلف صالحین تو اپنے اپنے زمانے میں تعلیم وتعلیم کے حلقوں کے ذریعے اس مسجد کو آباد کرتے رہے ہیں۔

(۱۵)اس مسجد میں نماز پڑھنے کااجر وثواب کئی گنابڑھا دیا جاتا ہے۔ ’’حضرت ابوذررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھ کر اس بات کا مذاکرہ کر رہے تھے کہ کون سی مسجد افضل ہے ؟آیا رسول اللہﷺ کی مسجد یا بیت المقدس ؟تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:میری مسجد میں نماز پڑھنا ، بیت المقدس کی چار نمازوں سے افضل ہے۔ البتہ وہ بھی نماز پڑھنے کے لیے بہت ہی اچھی جگہ ہے اور عنقریب ایسا بھی ہوگا کہ کسی شخص کو یہ بات دنیا و مافیہا سے بہتر معلوم ہوگی کہ اسے بیت المقدس میں صرف گھوڑے باندھنے جتنی جگہ مل جائے تاکہ وہ وہاں رہ کر بیت المقدس کو دیکھ سکے ۔‘‘ (اخرجہ الحاکم وصححہ و وافقہ الذہبی)

(۱۶)حضرت عمرو رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ: جس وقت حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوچکے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں:

ایک یہ کہ انہیںفیصلہ کرنے کی ایسی صلاحیت دی جائے کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ہو

دوسری یہ کہ انہیں ایسی بادشاہت ملے کہ ان کے بعد ویسی بادشاہت کسی کو بھی نہ ملے

اور تیسری دعاء یہ کی کہ جو شخص بھی اس مسجد کی طرف کسی بھی اور مقصد کے بجائے، صرف اس میں نماز پڑھنے کے لیے آئے تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف کردیاجائے جیسا کہ وہ اس دن تھا جب اسے ماں نے جنا تھا۔

یہ فرما کر نبی کریمﷺ نے فرمایا: پہلی دو باتیں تو ان کی پوری کردی گئی ہیں اور مجھے امید ہے کہ تیسری بات بھی قبول کر لی گئی ہوگی۔(سنن النسائی۔ سنن ابن ماجہ)

(جاری ہے)
مسجد اقصیٰ کے بارے میں 40اَہم معلومات(۳)
نقش جمال .مدثر جمال تونسوی (شمارہ 626)

(۱۷)مسجد اقصیٰ، القدس اور فلسطین کو اللہ تعالی نے پہلے دن سے ہی مقدس بنایا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:

اے میری قوم! تم مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ (سورۃ المائدۃ:۲۱)

یہ خطاب ایک ایسے وقت میں ہواکہ جب ابھی تک بنی اسرائیل فلسطین میں داخل نہیںہوئے تھے اور بنی اسرائیل کے وہ انبیاء بھی ابھی اس میں نہیں آئے تھے کہ جن کی بنیاد پر یہودی لوگ اس زمین کی وراثت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے تذکرے میں بتایا ہے کہ:

اور ہم نے اسے (یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام)اور لوط (علیہ السلام) کو نجات دے کر اس زمین میں پہنچا دیا جس میں ہم نے جہان والوں کے لیے برکت رکھی ہے(سورۃ الانبیائ:۷۱)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اس زمین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آنے سے قبل بھی اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی تھی ۔ اسی لیے یبوسی لوگ اس مقام کے آس پاس آباد ہوئے ، خود اس جگہ پر آباد نہیں ہوئے کیوں کہ یہ عبادت کی جگہ تھی۔

(۱۸)پوری تاریخ میں مسجد اقصیٰ ہمیشہ ایک اسلامی مسجد کے طور پر موجود رہی ہے اور مسلمانوں کی ملک میں رہی ہے۔ حتی کہ یہود کے آنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ فلسطین انبیائے کرام مثلا حضرت ابراہیم ، حضرت یعقوب ، حضرت موسی ، حضرت عیسی ، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور دیگر انبیاء علیٰ نبینا و علیہم السلام کی زمین ہے اور یہ سب کے سب مسلمان تھے اور ہم ان میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اور ملتِ ابراہیم سے تو وہی شخص اعراض کرتا ہے جو بے وقوف ہے اور بلاشبہ ہم نے تو انہیں دنیا میں چن لیا تھا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے۔ جب ان کے رب نے ان سے کہا کہ تم فرماں بردار بن جاؤ تو انہوں نے کہا: میں رب العالمین کا فرماں بردار بنتا ہوں۔ اور اسی کی وصیت کی تھی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے بیٹو! بے شک اللہ تعالی نے تمہارے لیے دین چنا ہے، پس تم مسلمان ہونے کی حالت میں ہی مرنا۔(سورۃ البقرۃ:۱۳۲)

(۱۹)اس مسجد میں بہت سے صحابہ کرام داخل ہوئے، انہوں نے اس کی طرف باقاعدہ سفر کیے، اس جگہ کو آباد کیا، یہاں عبادات اور وعظ و ارشاد کے ساتھ اس جگہ کو آباد کیا۔ ان کبار صحابہ میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ جو ملک شام کی فتوحات میں اسلامی افواج کے قائد تھے، حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ، جو بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاضرہوئے، اور مسجد اقصی میں اذان دی، اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جنہیں حضرت ابوعبیدہ نے اپنی وفات کے وقت یہاں کا نائب بنایااور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو بیت المقدس کی فتح کے وقت حاضر ہوئے، اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ انہوں نے تو باقاعدہ اس جگہ رہائش اختیار کر لی اور مسلمانوں میں سے یہ پہلے شخص ہیں جو بیت المقدس کے قاضی بنائے گئے اور وہیں دفن ہوئے۔ اسی طرح حضرت تمیم داری اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما بھی ہیں۔ اور ان کے علاوہ بھی ایسے بے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔

(۲۰) مسجد اقصی اور بیت المقدس وہ واحد شہر ہے کہ اس کی فتح کے وقت اس کی کنجیاں لینے کے لیے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ سے خاص اسی مقصد کے لیے سفر فرمایا اور سنہ۱۵ھ میں جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے مسجد اقصی کی فتح آسان فرمادی تو مسجد اقصی کے صحن میں ایک مصلّٰی بنایااور جمہور مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد اقصیٰ کی چار دیوار کے مقابل قبلے کی جانب میں ایک مسجد قائم کرائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود اس کی جگہ متعین کی تاکہ وہ مسجد اقصیٰ کے اگلے اور ابتدائی حصے میں شامل ہو جائے ۔

(۲۱) مسجد اقصیٰ : اُن مساجد میں سے ہے جو تاریخ کے اکثر اَدوار میں علمی اور تدریسی حلقوں سے آباد رہی ہیں۔ چنانچہ یہاں متعدد ایسی نشست گاہیں بنائی گئیں جہاں طلبہ علم بیٹھ کر اپنے اساتذہ سے حصول علم میں مشغول رہ سکیں۔ خاص کر گرمیوں کے موسم میں آب و ہوا کہ معتدل ہونے کی وجہ سے اس کے صحن میں علم کی بہاریں ہوتیں۔ چنانچہ ایک اندازے کے مطابق تیس کے قریب ایسی نشست گاہیں اس مسجد کے صحن میں شمار کی گئی ہیں ۔ ان میں سے بعض نشست گاہیں ایسی ہیں جو عصر مملوکی میں بنائی گئیں اور زیادہ تر ایسی ہیں جو خلافت عثمانیہ کے دور میں بنائی گئیں اور اس طرح یہ مسجد تاریخ کے ایک طویل ترین دور تک علمی و تعلیمی حلقوں سے پُربہار بنی رہی۔

(۲۲) مسجد اقصیٰ کو بعض لوگ ’’حرم‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ تعبیر درست نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ تعبیر اسلامی شریعت میں ایک خاص مفہوم رکھتی ہے یعنی ایسی جگہ جہاں شکار کرنا اور درخت وغیرہ کاٹنا ممنوع ہو جیسا کہ حرم مکی کا حکم ہے۔ مگر چونکہ یہ احکامات بیت المقدس کے لیے نہیں ہیں اس لیے اسے ’’حرم‘‘ سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ اس نام کے علاوہ کتاب و سنت میں اس کے جو نام آئے ہیں ان میں یہ تین نام سب سے زیادہ مشہور ہیں: مسجد اقصی، بیت المقدس، مسجد ایلیائ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انہی ناموں سے اس مسجد کو یاد کیا جائے۔

(۲۳)مسجد اقصیٰ کے بارے میں جو بعض غلط فہمیاں مشہور ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں موجود ’’قبۃ الصخرۃ‘‘ جو زرد رنگ لیے ہوئے ہے، اس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے شاید مستقل کوئی تقدیس حاصل ہے۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی مستقل فضیلت اور تقدیس نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مسجد اقصیٰ کے گنبدوں میں سے ایک گنبد ہے اور اس کا ایک حصہ ہے اور اس حصہ ہونے کے ناطے جو عمومی فضائل ہیں وہ اسے بے شک حاصل ہیں۔

(جاری ہے)
مسجد اقصیٰ کے بارے میں 40اَہم معلومات(۴)
نقش جمال .مدثر جمال تونسوی (شمارہ 627)

(۲۴)مسجد اقصیٰ کا ایک اہم حصہ وہ ہے جسے آج کل ’’دیوارِ گریہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ مسجد اقصیٰ کی جنوب مغرب جانب کی دیوار ہے اور یہ بھی اسلامی مملوکات میں سے ہے۔ اس اسرائیلی جارحیت و غاصبیت سے پہلے کبھی بھی اس کے بارے میں یہودیوں کا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیاتھا۔ اور پھر جب اس زمانے کے یہودیوں نے ایسا دعویٰ کھڑا کیاتو امت مسلمہ نے ان کے اس جھوٹے دعوے کو ردکیا حتی کہ 1930ء میں اقوام متحدہ نے بھی یہ فیصلہ دیا کہ ’’یہ دیوار صرف اور صرف مسلمانوں کی ہی ملکیت ہے اور یہ مسجد اقصیٰ کا ہی ایک حصہ ہے جسے اس سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور یہ اسلامی اوقاف کی ملکیت میں ہی ہے۔‘‘

(۲۵)مسجد اقصیٰ: اسلامی تاریخ کے اکثر اَدوار میں اسلامی حکومت کے ماتحت ہی رہی ہے۔ حتی کہ اس شہر میں موجود کنیسے، اور دیگر یہودی و عیسائی ایک اسلامی ریاست کے ماتحت کے ذمی بن کر رہے اور اسلامی حکومت ہی ان کے جان و مال کی محافظ و ضامن رہی ہے اور اس شہر میں جس قدر امن و امان اور عدل وانصاف اسلامی اَدوار حکومت میں رہا ہے، وہ پوری تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اور یہ سب ایسے حقائق ہیں جس پر علمائے تاریخ کا سب کا اتفاق ہے۔

(۲۶)مسجد اقصیٰ پر اسلامی تاریخ میں پہلی بار سنہ ۴۹۲ھ ، ماہ شعبان کی تئیس تاریخ جمعہ کے دن صلیبیوں نے قبضہ کیا ، کم و بیش ستر ہزار مسلمانوں کو قتل کیا اور ان میںمسلمانوں میں سے اکثر ایسے تھے جو اپنے وطن کو چھوڑ کر علم و عبادت وغیرہ کے لیے اس مقدس مقام پر آباد ہوئے تھے۔ پھر تقریباً 91سال تک صلیبی اس مقدس مقام پر قابض رہے اور اس قبضے کے دوران انہوں نے اس مقدس مقام کی بارہا بے حرمتی کی اور مسجد اقصیٰ کے تاریخی آثار و نقوش کو مٹانے اور تبدیل کرنے میں لگے رہے۔ چنانچہ اس مسجد اقصیٰ کے ایک طرف انہوں نے ایک کنیسہ بنایا اور ایک جانب اپنے گھڑ سواروں کے لیے رہائش گاہ اور ذخیرہ اندوزی کے لیے ایک گودام بنایا ، اور نماز پڑھنے والی جگہ خنزیر اور دیگر جانور بسا دیئے گئے اور قبہ الصخرہ کے اوپر انہوں نے اپنی سب سے بڑی صلیب نصب کردی تھی۔

(۲۷)مسجد اقصیٰ کو جس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے آزاد کرایا تو اس جامع مسجد کی اصلاح و تعمیر نو کا حکم دیا تاکہ یہ واپس اسی اصلی حالت پر آجائے جس حالت پر صلیبیوں کے قبضے سے پہلے تھی۔ پھر انہوں نے حلب سے ایک شاندار منبر منگوایا، جس کے بنانے کا حکم اس فتح سے بیس سال پہلے سلطان نورالدین زنگی رحمہ اللہ تعالیٰ نے دیا تھا۔ چنانچہ پھر وہ منبر مسجد اقصیٰ میں رکھ دیا گیا تاکہ خطیب اس پر کھڑے ہو کر جمعہ کے دن خطبہ دیا کرے ۔ پھر یہ منبر کئی صدیوں تک باقی رہا تاآناکہ سنہ 1969ء ، اگست کی اکیس تاریخ کو یہودیوں نے اس کو آگ لگائی اور اسی کے ساتھ انہوں نے نماز پڑھنے والی جگہ جسے المصلی الجامع کہتے ہیں، اسے بھی آگ لگائی۔

(۲۸)مسجد اقصیٰ ، بیت المقدس اور ہمارے نبیﷺ کے معراج و اسراء کی سرزمین تاریخ کے اکثر زمانوں میں اسلامی سرزمین کے طور پر جانی جاتی رہی سوائے اُن چند زمانوں کے جب اس پر کچھ قاتل اور ظالم لوگ مسلط ہوگئے۔ چنانچہ دورِ محمدی سے ایسی ہی ایک قوم تھی جس کا بادشاہ جالوت تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کے ہاتھوں اس جابر بادشاہ کو قتل کرایا ۔ اسی طرح بعد کے متعدد زمانوں میں رومی اور یورپ کے صلیبی اور اس دور میں یہودی ایسے ہی ظالم و قاتل لوگ ہیں جس عارضی طور پر اس مقدس مقام پر قابض و مسلط ہیں۔ اور ایک وقت آئے گا کہ ان کے ناپاک ہاتھوں سے اس مقدس مقام کو آزادی ملے گی۔ ان شاء اللہ

(۲۹)مسجداقصیٰ کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ یہی مقدر فرمایا کہ اسے مسلمان، ظالموں سے آزاد کرائیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد اُن کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں اُس وقت کے اہل ایمان نے اس مبارک مسجد اور مبارک علاقے کو فتح کیا۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر۵۸ میں بیان ہوا ہے کہ:

’’اور جب کہا ہم نے : تم لوگ اس بستی میں داخل ہوجاؤ اور پھر وہاں جو چاہو مزے سے کھاؤ، اور اس کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا‘‘

امام قرطبی مفسر فرماتے ہیں کہ: اس بستی سے مراد بیت المقدس ہے اور اس کی آزادی میں جو اہل ایمان مجاہدین شریک تھے، اُن میں ایک حضرت داؤد علیہ السلام بھی تھے جنہوں نے جالوت نامی ظالم بادشاہ کو قتل کیا تھا اوراسی عمل کی بدولت جالوت اوراس کے لشکر کو شکست ہوئی تھی۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام آئے اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

سلیمان، داؤد کا وارث بنا(سورۃ النمل:۱۶)

اس زمانے میں بھی یہ بیت المقدس اُس وقت کے اہل ایمان کا ہی دارالحکومت تھا۔ یہودیوں کا دارالحکومت نہیں تھا۔

پھر جب اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت سیدنا محمدﷺ تشریف لائے اورآپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ مل کر جہاد شروع فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی زمین کو اللہ تعالیٰ کے دین سے آباد کرنا شروع فرمایا، تو یہ سلسلہ چلتے چلتے مسجد اقصیٰ تک بھی پہنچا اور حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت میں وہ وقت آیا کہ مسلمانوں نے اس مبارک سرزمین کو فتح فرمایا اور یوں یہ مبارک مسجد اور پورا بیت المقدس اور یہ پورا علاقہ اہل اسلام نے آزاد کرالیا۔ جب کہ اس سے پہلے تقریبا سات صدیوں سے رومی لوگ اس پر قابض چلے آرہے تھے۔ پھر یہ مبارک سرزمین پانچویں صدی ہجری تک اسلامی خلافت کے زیرنگین امن و امان اور علم و ایمان کی آماجگاہ بنی رہی، یہاں تک کہ ایک بار پھر صلیبی لشکروں نے اس جگہ قبضہ کرلیا

اور یہاں سے ایمان و علم کی کفر و شرک اور جہالت و ضلالت پھیلانے لگے۔ تب سلطان نور الدین زنگی اور سلطان صلاح ا لدین ایوبی رحمہما اللہ تعالیٰ جیسے مسلمان مجاہدین اُٹھے اورانہوں نے 91سالہ محنت کے بعد اس مبارک سرزمین کو آزاد کرایا ۔ پھر تقریبا چھ صدیوں تک اسلام کے زیر سایہ رہنے کے بعد جب مسلمانوں کی خلافت کمزور ہوئی تو دوبارہ یہ مبارک سرزمین صلیبیوں کے قبضے میں چلی گئی اور انہوں نے وہاں اسرائیل کے نام سے ایک ملک بھی بنالیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ بہت جلد دوبارہ اہل اسلام کے ہاتھوں اس جگہ کو آزاد کرائے۔ آمین

(۳۰)مسجد اقصیٰ کو جب سنہ ۱۳۸۷ھ مطابق۱۹۶۷ء میں یہودیوں نے ہتھیایا تو انہوں نے سب سے پہلے دیوارِ براق پر قبضہ جمایا اور وہاں کا نقشہ و نگار تبدیل کردیا اور وہاں کے رہنے والے سب مسلمانوں کو وہاں سے بھگا دیاگیا۔ دیواربراق اوراس کے آس پاس مسلمانوں کی جو یادگار چیزیں انہوں نے ختم کیں اس میں چار جا معات، ایک مدرسہ افضلیہ تھا اور بھی متعدد اسلامی اوقاف تھے اور اس سب کا مقصد یہ تھا کہ یہاں موجود تمام اسلامی اوقاف اور یادگاروں کا نام و نشان مٹا دیاجائے اور پھر اس پر اپنے حق کا جھوٹا دعویٰ کھڑا کیاجائے۔

(۳۱) مسجد اقصیٰ کے بارے میں ایک اہم اور دلدوز بات یہ ہے کہ یہودیوں نے اِسے گرانے اور اس کی جگہ اپنا مزعومہ ہیکل بنانے کے لیے کئی منصوبے بنا رکھے ہیں۔ یہ وہ بات ہے کہ جس پر اس وقت کے تقریبا سب ہی یہودی اوران کی سب ہی سیاسی جماعتیں اوران کے سب ہی سرپرست متفق ہیں۔

(۳۲)مسجد اقصیٰ کو گرانے کے لیے یہودی قابضین وقتا فوقتا مختلف چھوٹے بڑے حربے اختیا ر کرتے رہتے ہیں۔ حتی کہ اسی کی پیش بندی کے لیے اب تک وہ فلسطین اور خاص کر بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے آس پاس میں کئی سڑکوںاور گراؤنڈز وغیرہ کے اسلامی شناخت والے نام بھی تبدیل کرچکے ہیں۔ چنانچہ جس جگہ مسجد اقصیٰ قائم ہے اس جگہ کا نام انہوں نے ’’جبل ہیکل‘‘ یعنی ہیکل کا پہاڑ رکھ دیا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ پہاڑی جگہ ’’جبل بیت المقد س یا جبل مسجد اقصی‘‘ کے نام سے جانی پہچانی جاتی رہی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے تاکہ اس مبارک مسجد سے ہر قسم کی اسلامی شناخت ختم کی جائے۔ لیکن ان کی یہ مذموم کاوشیں بالآخرناکام ہوں گی۔ ان شاء اللہ

(۳۳)مسجداقصیٰ کے بارے میں یہودیوں کا گمان یہ ہے کہ یہ مسجد ، اُن کے مزعومہ عبادت گاہ ہیکل کی جگہ پر بنائی گئی ہے۔ اسی بنیاد پر اپنے حق کی واپسی کے لیے دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے اوراپنی مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ نہ تو تاریخی حقائق کو جھٹلانے سے گریز کرتے ہیں اور نہ ہی تورات جیسی مقدس کتاب میں تحریک کرنے سے کتراتے ہیں اور جو قوم اپنے مذموم مقاصد کے لیے آسمانی کتاب کو بدلنے اورا س میں تحریف کرنے سے نہ کتراتی ہو، اس سے بھلا دیگر حقائق میں سچ کی کیا توقع رکھنا؟؟
مسجد اقصیٰ کے بارے میں 40اَہم معلومات(آخری قسط)
نقش جمال .مدثر جمال تونسوی (شمارہ 628)

اور یہاں سے ایمان و علم کی کفر و شرک اور جہالت و ضلالت پھیلانے لگے۔ تب سلطان نور الدین زنگی اور سلطان صلاح ا لدین ایوبی رحمہما اللہ تعالیٰ جیسے مسلمان مجاہدین اُٹھے اورانہوں نے 91سالہ محنت کے بعد اس مبارک سرزمین کو آزاد کرایا ۔ پھر تقریبا چھ صدیوں تک اسلام کے زیر سایہ رہنے کے بعد جب مسلمانوں کی خلافت کمزور ہوئی تو دوبارہ یہ مبارک سرزمین صلیبیوں کے قبضے میں چلی گئی اور انہوں نے وہاں اسرائیل کے نام سے ایک ملک بھی بنالیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ بہت جلد دوبارہ اہل اسلام کے ہاتھوں اس جگہ کو آزاد کرائے۔ آمین

(۳۰)مسجد اقصیٰ کو جب سنہ ۱۳۸۷ھ مطابق۱۹۶۷ء میں یہودیوں نے ہتھیایا تو انہوں نے سب سے پہلے دیوارِ براق پر قبضہ جمایا اور وہاں کا نقشہ و نگار تبدیل کردیا اور وہاں کے رہنے والے سب مسلمانوں کو وہاں سے بھگا دیاگیا۔ دیواربراق اوراس کے آس پاس مسلمانوں کی جو یادگار چیزیں انہوں نے ختم کیں اس میں چار جا معات، ایک مدرسہ افضلیہ تھا اور بھی متعدد اسلامی اوقاف تھے اور اس سب کا مقصد یہ تھا کہ یہاں موجود تمام اسلامی اوقاف اور یادگاروں کا نام و نشان مٹا دیاجائے اور پھر اس پر اپنے حق کا جھوٹا دعویٰ کھڑا کیاجائے۔

(۳۱) مسجد اقصیٰ کے بارے میں ایک اہم اور دلدوز بات یہ ہے کہ یہودیوں نے اِسے گرانے اور اس کی جگہ اپنا مزعومہ ہیکل بنانے کے لیے کئی منصوبے بنا رکھے ہیں۔ یہ وہ بات ہے کہ جس پر اس وقت کے تقریبا سب ہی یہودی اوران کی سب ہی سیاسی جماعتیں اوران کے سب ہی سرپرست متفق ہیں۔

(۳۲)مسجد اقصیٰ کو گرانے کے لیے یہودی قابضین وقتا فوقتا مختلف چھوٹے بڑے حربے اختیا ر کرتے رہتے ہیں۔ حتی کہ اسی کی پیش بندی کے لیے اب تک وہ فلسطین اور خاص کر بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے آس پاس میں کئی سڑکوںاور گراؤنڈز وغیرہ کے اسلامی شناخت والے نام بھی تبدیل کرچکے ہیں۔ چنانچہ جس جگہ مسجد اقصیٰ قائم ہے اس جگہ کا نام انہوں نے ’’جبل ہیکل‘‘ یعنی ہیکل کا پہاڑ رکھ دیا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ پہاڑی جگہ ’’جبل بیت المقد س یا جبل مسجد اقصی‘‘ کے نام سے جانی پہچانی جاتی رہی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے تاکہ اس مبارک مسجد سے ہر قسم کی اسلامی شناخت ختم کی جائے۔ لیکن ان کی یہ مذموم کاوشیں بالآخرناکام ہوں گی۔ ان شاء اللہ

(۳۳)مسجداقصیٰ کے بارے میں یہودیوں کا گمان یہ ہے کہ یہ مسجد ، اُن کے مزعومہ عبادت گاہ ہیکل کی جگہ پر بنائی گئی ہے۔ اسی بنیاد پر اپنے حق کی واپسی کے لیے دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے اوراپنی مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ نہ تو تاریخی حقائق کو جھٹلانے سے گریز کرتے ہیں اور نہ ہی تورات جیسی مقدس کتاب میں تحریک کرنے سے کتراتے ہیں اور جو قوم اپنے مذموم مقاصد کے لیے آسمانی کتاب کو بدلنے اورا س میں تحریف کرنے سے نہ کتراتی ہو، اس سے بھلا دیگر حقائق میں سچ کی کیا توقع رکھنا؟؟

(۳۴)مسجد اقصیٰ یہودیوں کا عبادت خانہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ شروع سے ہی امت مسلمہ کی مسجد رہی ہے۔ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اس مسجد کی جو تعمیر کرائی تھی، وہ یہود کے مزعومہ ہیکل کی تعمیر نہیں تھی، بلکہ یہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام سے بھی پہلے سے موجود مسجد کی تجدیداور تعمیر نو تھی، کیوں کہ یہ مسجد زمین پر بننے والے دوسری مسجد ہے۔

چنانچہ حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت سلیمان علیہم السلام نے اس مسجد کی جو بھی تعمیر کی وہ درحقیقت نئی تعمیر نہیں تھی بلکہ تجدید تھی جس طرح کہ اُمت مسلمہ محمدیہ نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کو فتح کرنے کے بعد اس کی تجدیداور تعمیر نو کی۔

(۳۵)مسجد اقصیٰ ان شاء اللہ ضرور بالضرور امت مسلمہ محمدیہ کے پاس دوبارہ لوٹ کر آئے گی، اور اس پر قابض یہودیوں سے قتال بھی ہوگا اور مسلمان مجاہدین، یہودیوں کے سردار دَجّال اور خود یہودیوں کا کام تمام کریں گے،اور پھر یہ وہ وقت ہوگا کہ پوری انسانیت یہودیوں کے شر وفسادسے نجات پائے گی۔

صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

قیامت تب تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ مسلمان یہودیوں سے قتال نہ کرلیں، چنانچہ مسلمان، یہودیوں سے قتال کریں گے، یہاں تک کہ یہودی درخت اورپتھر کے پیچھے جاچھپیں گے(مگر انہیں وہاں بھی پناہ نہیں ملے گی)، بلکہ درخت یا پتھر بول اُٹھیں گے کہ: اے مسلم! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہے، آؤ اور اسے مار ڈالو، سوائے غرقد درخت کے کہ وہ نہیں بولے گا کیوں کہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔

(۳۶)مسجد اقصیٰ کی شان اور عزت کی تکمیل اور عروج کسی اور طرح ممکن ہی نہیں۔ بلکہ اُسے یہ سب کچھ اسی دین اسلام اور اس اسلام کے ماننے والوں کے ذریعے ہی ملے گا جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا صحیح اقرار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فرائض کا بجا لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے اس مبارک سرزمین کو اسلام کے ساتھ جوڑا ہے اور یہی اس کی اصل اور پہچان ہے، اور اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت کا وعدہ جڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشادِ گرامی ہے:

اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جواس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے ۔ (سورۃ النور:۵۵)

(۳۷)مسجدِ اقصیٰ اور مسئلۂ فلسطین، فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اسلامی مسئلہ اور اسلامی قضیہ ہے اور جب سے اس کی چابیاں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئیں تب سے دُنیا کے تمام مسلمانوں کا حق اِس سے جڑا ہوا ہے، اور یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے صلیبی یلغار کے وقت اپنے جان و مال کی قربانی دے کر اس کی حفاظت بھی کی اور اس کو آزاد بھی کرایا، چنانچہ ایک اسلامی اوقاف کا حصہ ہے اور مسلمانوں کے سپرد کی گئی امانت ہے۔

(۳۸)مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی ہی ہے، چاہے اس پر اَغیار کا قبضہ تھوڑے وقت کے لیے رہے یا زیادہ وقت کے لیے۔ انجام کار یہ حق متقین و مسلمین کا ہی ہے، اور اگرچہ آج اس پریہودی قابض ہے مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے بہر حال یہ اہل اسلام اور اہل ایمان کے پاس ہی لوٹ کر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ یہ سرزمین اس امت کا حق بنائی ہے جس کے سب سے مقدس دین اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے مقبول دین ہے، اور یہ امت محمدیہ ہی ہے جسے نبی آخر الزمان خاتم النبیینﷺ کی بدولت یہ نعمت نصیب ہوئی ہے۔ رومیوں اور صلیبیوں کی یلغار اور مسجد اقصی کی بے حرمتیوں کے وقت یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے اس کے لیے اپنے جان و مال کو فدا کیا، اگر یہ یہودیوں کا حق ہے توپھر تاریخ کے ہر مشکل دور میں یہ یہودی کہاں غائب ہوجاتے ہیں؟ اور کیوں کر ایسا ہوا کہ ہر مشکل وقت میں امت مسلمہ نے ہی اس مقدس مقام کی پہرے داری کی اوراس کے آداب و حرمات کو ملحوظ رکھا!!

(۳۹)مسجد اقصیٰ اہل اسلام کی ہے، اس پر تاریخ بھی گواہ ہے اور زمینی و آسمانی حقائق بھی۔ یہ سرزمین اسلامی امانت ہے اور کسی بھی صورت یہ جائز نہیں ہے کہ یہ مقدس سرزمین اس بدبخت قوم کے حوالے کردی جائے جو انبیاء کرام علیہم السلام کی قاتل ہے ۔ اس لیے مسلمانوں کا یہ عہد ہے کہ اس کا ایک چپے سے بھی اپنے سے دستبرداری نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کوئی ایسا عہد و پیمان قبول کیاجائے گا کہ یہودی اس مقدس سرزمین کے رئیس اور اہل اسلام کے سردار قرار پائیں!!

(۴۰)مسجد اقصیٰ مسلمانوں کو دینی و مذہبی میراث ہے، اس لیے اس کی امامت بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، نبی کریمﷺ کی ترغیبات بھی اس پر موجودہیں اور آپﷺ نے صحابہ کرام کے دلوں میں اس کی محبت پیوست کی اور انہیں بیت المقدس فتح ہونے کی بشارت بھی عنایت فرمائی ۔یہ سب کچھ اسی حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ مسجد اور یہ مبارک سرزمین مسلمانوں کی دینی و مذہبی میراث ہے۔ اس لیے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی محبت کے چراغ ہمیشہ اہل اسلام کے دلوں میں روشن رہیں گے۔ یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ اور دشمن کبھی مسلمانوں کے دلوں سے اس کی محبت ختم نہیں کرسکتے اور ان شاء اللہ ، قیامت تک یہ محبت باقی رہے گی کیوں کہ یہ سرزمین مسلمانوں کا ایک اہم ٹھکانہ اور طائفہ منصورہ کا مرکز ہے اور دنیا ماضی میں بھی اس کے مناظر دیکھ چکی ہے اور مستقبل میں بھی یہ حقیقت پوری ہو کررہے گی اور دنیا اس کا مشاہدہ کرکے رہی گی۔ ان شاء اللہ