غلطی اور خطا سے مبرا کوئی بشر نہیں

کوئی شخص یہ دعوی کر ہی نہیں سکتا کہ وہ غلطیوں سے پوری طرح سے مبرا ہے. انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے. لہذا اگر کسی سے خطا کا صدور ہو تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں. اہم بات یہ ہے کہ آدمی غلطی پر مصر نہ رہے بلکہ جیسے ہی غلطی واضح ہو حق کی طرف رجوع کرلے. آج ہم جب اصلاح معاشرہ کی بات کرتے ہیں تو اس میں بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جب ہمیں معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط باتوں یا غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہوتا ہے، ہمیں سامنے والے کو اس کی غلطی بتانی ہوتی ہے. ظاہر ہے کہ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے اس لیے کہ جلدی کوئی اپنی غلطی مانتا نہیں ہے.
خطا اور غلطی میں فرق:
بیٹے نے باپ سے پوچھا:
ابا جی غلطی اور خطا میں کیا فرق ھے؟
باپ نے اسے موجودہ حالات کے مطابق اس مثال کے ذریعے سمجھایا جس سے ھر نمازی کو آئے دن واسطہ پڑتا ھے، اس نے کہا کہ بیٹا اگر آپ اپنی پرانی چپل مسجد میں چھوڑکر نئ چپل پہن کر آ گئے ھو تو یہ خطا ھے – اور اگر اپنی نئ چپل چھوڑ کر کسی کی پرانی پہن کر آ گئے ھو تو یہ غلطی ھے –
ابن عباس رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله تجاوز عن أمتي الخطأ والنسيان وما استُكرهوا عليه
بلاشبہ اللہ تعالى نے ميرى امت سے خطا (غلطی) و نسيان (بھول چوک) اور جس (کام) پر انہيں (زور زبردستی سے) مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے
حديث حسن، اسے ابن ماجہ اور البیہقی وغيره نے روایت کیا ہے۔ سابقہ امتوں کو ان کی خطاؤں پر پکڑ ہوتی تھی اور ان کا اپنے تمام افعال پر محاسبہ ہوتا تھا، جس میں جہالت اور نسیان کے عذر ان کے لئے معافی کا سبب نہ ہوتے، یا ان کی در گزر کا سبب نہ ہوتے، جبکہ اس امت سے ان کی دعا کی قبولیت اور ان پر اللہ کے رحم کے باعث یہ قید ہٹا دی گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس ارشاد مبارک میں واضح فرماتے ہیں:
ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به (البقرة : 286)
اے ہمارے رب!اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمیں مت پکڑ، ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا، اور ہمارے رب، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور سبحانہ و تعالیٰ کا یہ قول:
وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به ولكن ما تعمدت قلوبكم وكان الله غفورا رحيما (الأحزاب : 5)
اور جو تم نے غلطی سے کیا ہے اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں، لیکن اس میں ہے جس کا تمہارے دلوں نے ارادہ کیا ہے، اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے
اور یہ حدیث جو ہمارے سامنے ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے بندشیں اورپابندیاں اٹھائے جانے کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے، اور اگر ہمیں علم ہو تو ہی بات آشکارہ ہوتی ہے کہ علم کے مختلف ابواب کے تحت بہت سے شرعی احکام اس حدیث کےدائرے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس حدیث میں (اتنے ) فوائد اور اہم امورشامل ہوتے ہیں کہ اگر انہیں جمع کیا جائے تو ایک مصنف بن جائے۔
اور اس سلسلے میں امام نے سچ فرمایا ہے، کیونکہ اگر ہم بندوں کے افعال پر غور کریں تو یہ ان دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتے: مکلف سے قصدواختیار کے ساتھ صادر ہوتے ہیں اور یہ عمل سمجھ بوجھ کے ساتھ عمداً ہوتا ہے جس پر عمل کرنے والے کا محاسبہ ہوتا ہے اوراس کامواخذہ ہوتا ہے ، یا پھر اس کا عمل قصد و اختیار کے ساتھ نہیں ہوتا ہے، اور اس میں اکراہ اور نسیان اور خطا شامل ہے، اور اس حدیث کے بیان میں اسی کا تذکرہ ہے۔
چنانچہ خطا غیر ارادی طور پر انجانے میں ہونے والا کام یہ ہے کہ انسان کرنا کچھ چاہ رہا ہوتا ہے مگر اس سے ہو کچھ اور جاتا ہے، اس کے بارے میں شریعت میں واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرمایا ہے اور ایسا کرنے والے کا مواخذہ نہیں ہو گا۔ اس  میں لطیف اور باریک ترین مثالوں سے وہ ہے جسے بخاری اور مسلم نے ذکر کیا ہے، جب غزوہ خیبر میں جلیل القدر صحابی عامر بن الاکوع رضی اللہ عنہ ایک مشرک سے نبرد آزما تھے تو عامر نے اس مشرک کو قتل کرنا چاہا مگر ان کی ضرب انہی کو واپس آلگی اور وہ وفات پا گئے، اصحابِ رسول کے ایک گروہ نے کہا کہ عامر نے اپنے آپ کو قتل کرکے اپنے اعمال رائیگاں کر دیئے، تو ان کے بھائی سلمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے ہوئے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےوجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامرنے اپنے اعمال رائیگاں کر دیئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کس نے کہا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا: آپ کے اصحاب کے ایک گروہ نے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے جھوٹ بولا ہے، ان کے لئے تو دوہرا اجر ہے۔ پس اس واقعے میں ان صحابی نے اپنا آپ قتل کرنا نہیں چاہا تھا بلکہ وہ اس مشرک کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر ان کی ضرب انہیں ہی لگ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا کہ ان کی یہ خطا معاف تھی۔
تاہم خطاکار سے گناہ اور اٹھا لینے کا لازما مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پر خطا کے احکام بھی لاگو نہیں ہوں گے، بالخصوص جو حقوق العباد سے متعلق ہوں، لہٰذا اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کر دے تو اس سے دیت اور کفارہ لیا جائے گا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد میں واضح فرمایا ہے:
وما كان لمؤمن أن يقتل مؤمنا إلا خطأ ومن قتل مؤمنا خطأ فتحرير رقبة مؤمنة ودية مسلمة إلى أهله إلا أن يصدقوا فإن كان من قوم عدو لكم وهو مؤمن فتحرير رقبة مؤمنة وإن كان من قوم بينكم وبينهم ميثاق فدية مسلمة إلى أهله وتحرير رقبة مؤمنة فمن لم يجد فصيام شهرين متتابعين توبة من الله وكان الله عليما حكيما (النساء : 92)
کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں، مگر غلطی سے ہوجائے تو اور بات ہے، جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرانا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کردیں، اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے، اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی ضروری ہے، پس جویہ نہ کر پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں،اللہ سے بخشوانے کے لئے، اور اللہ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے
نسیان بھول چوک کے بارے میں بھی شریعت میں واضح ہے کہ یہ معاف کیا گیا ہے، اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول گواہ ہے:
ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا (البقرة : 286)
اے ہمارے رب!اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمیں مت پکڑ
اور اس کے ساتھ ہی ساتھ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے ، دیگر احکام بھی مرتب ہوں گے، پس جو نماز ادا کرنا بھول گیا تو اسے چاہیئے کہ یاد آجانے پر اسے ادا کرے، اور جو وضو کرنا بھول گیا اور نماز ادا کر لی تو اسے وہ نماز دوبارہ ادا کرنی ہو گی (وضو کر کے)۔
اور ان حالات میں تیسرا حال اکراہ (زور زبردستی کی وجہ سے کسی کام پر مجبور ہونا) کا ہے، چنانچہ بندہکسی ایسے کام پر مجبور کیا جاتا ہے جو وہ کرنا نہیں چاہتا تو پھر اس پر گناہ نہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ ارشاد نازل فرمایا:
من كفر بالله من بعد إيمانه إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان (النحل : 106)
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو
جب مشرکین نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا، تو یہ آیت ایسی حالت سے دوچار ہونے والے ہر شخص پر سے گناہ کی نفی کی دلیل ٹھہری۔
تاہم اہلِ علم نے مسائل میں سے کچھ کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو اکراہ کی صورت میں گناہ لاگو نہ ہونے کے قاعدے کے تحت نہیں آتے، جیسے معصوم جان کا قتل، یا زنا اور ایسے ہی امور جن کا اہلِ علم نے فقہ کے قواعد کی کتب میں ذکر کیا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ حدیث اسلام کے آسان اور درگزر والے مذہب ہونے کی واضح ترین دلیلوں میں سے ہے، اسی طرح یہ اس امت کے دیگر امتوں پر افضل ہونے کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اس سے قبل والی امتوں کی نسبت نرمی فرمائی ہے، پس اسلام کی نعمت پر پہلی اور آخری تمام تعریف اللہ کے لئے ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: بے شک اللہ تعالى نے میرى وجہ سے میری امت سے خطا، نسیان اور ہر چیز كو معاف کردیا ہے جس پر انہیں مجبور کیا جائے- اس حديث كو ابن ماجہ نے ابو ذر غفاری رضی الله عنه سے روايت كيا ہے جو کہ نبی صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں، اوراسے طبرانی (امام) نے [الكبير] میں روايت كيا ہے، اور حاکم نے [المستدرك] میں روایت کیا ہے وہ دونوں حضرت ابن عباس رضی الله عنهما سے روايت كرتے ہیں اور وہ نبی صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں، اور حاکم (امام) نے کہا کہ یہ ان دونوں کی شرط پر صحیح ہے، اور ابو حاتم نے کہا کہ یہ ثابت نہیں ہے، اور اسے حافظ ابن حجر نے [بلوغ المرام] میں ذکر کیا ہے، اور اسے طبرانی (امام) نے [الكبير] میں حضرت ثوبان رضی الله عنه سے روایت کیا ہے جو کہ نبی صلى الله عليه وسلم کے غلام تھے، لیکن ضعیف سند کے ساتھـ جيساكہ هيثمی (امام) نے [مجمع الزوائد] میں کہا ہے خطا کا مطلب یہاں عمد{جان بوجھ کر کسی کوم کو کرنا} کی ضد ہے، اور نسيان حفظ {یاد رہتے ہوئے کسی کام کو کرنا} کی ضد ہے، اور اس کا معنی یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی امت کے سلسلے میں عزت سے نوازا ہے بایں طور کہ ان میں کسی نے غلطی سے اگر ممنوعہ چیز کا ارتکاب کیا یا غلطی سے یا بھول کر واجب ترک کیا تو اللہ کے ہاں وہ گناہ گار شمار نہیں ہوگا اور اس پر کسی قسم کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ معلم انسانیت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی غلطی واضح کرتے تھے اور ان کی اصلاح کرتے تھے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق اصلاح عموماً نرمی پر مبنی ہوتا تھا. اللہ تعالی نے فطرتاً آپ کو انسانیت کے حق میں انتہائی نرم بنایا تھا اور دلوں کو فتح کرنے کا ملکہ بھی آپ کو اسی نرمی اور خوش کلامی کے سبب حاصل تھا. اللہ فرماتا ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ
(اے نبي!) اللہ تعالٰی کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت ‘دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سُو آپ ان سے درگُزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالٰی پر بھروسہ کریں بیشک اللہ تعالٰی توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سوره آل عمران: 159)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی نرم طبیعت کا تقاضا تھا کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ بھی نرمی اور ملائمت کا سلوک کرتے تھے جو آپ کے ساتھ ناشائستہ سلوک کرجاتے تھے.
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:
«السام عليكم.»
(تمہیں موت آئے) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس کا مفہوم سمجھ گئی اور میں نے ان کا جواب دیا کہ
«وعليكم السام واللعنة.»
(یعنی تمہیں موت آئے اور لعنت ہو) بیان کیا کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ٹھہرو، اے عائشہ! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی اور ملائمت کو پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس کا جواب دے دیا تھا کہ «وعليكم» (اور تمہیں بھی)۔ (صحیح بخاری: 6024)
لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی غلط بات پرغصہ نہیں آتا تھا اور آپ غضبناک نہیں ہوتے تھے. بلکہ جب کبھی اللہ کے دین کے ساتھ استہزاء وتمسخر کا معاملہ ہوتا یا قانون الہی سے بغاوت کی بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سختی سے صحیح موقف کو اپنے اصحاب کے سامنے واضح کرتے. حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ کے بڑے محبوب صحابی تھے لیکن ایک بار جب انہوں نے حدود شریعت کے سلسلے میں سفارش کرنی چاہی تو آپ نے کیسی شدت کے ساتھ اس کی تردید کی:
حضرت عائشه رضي الله عنها فرماتى هيں کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) جس نے (غزوہ فتح کے موقع پر) چوری کرلی تھی، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں. (صحيح بخاري:3475)
اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق اصلاح مخاطب کی رعایت کے مطابق ہوتا تھا. اگر غلطی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص اصحاب میں سے کسی سے ہوتی اور اس کا تعلق دین کے بنیادی امور سے ہوتا تھا تو آپ نہایت سخت موقف اپناتے تھے. حقیقت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ذاتی اغراض کے پیش نظر کسی سے ناراض نہیں ہوتے تھے البتہ جب حدود شریعت پامال کی جاتی تو آپ کسی قسم کی رو رعایت نہ برتتے. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوتی بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس میں گناہ کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا لیکن اگر اللہ کی حرمت کو کوئی توڑتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ضرور بدلہ لیتے تھے۔ (صحيح بخاري:3560)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نادان اور ناواقف شخص کو اس کی غلطی پر انتہائی صبر وتحمل کے ساتھ سمجھا بجھا کر اس کی غلطی واضح فرماتے تھے.
ایک بار مسجد نبوی میں ایک اعرابی نے پیشاب کر دیا. لوگ اس پر جھپٹنے لگے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دو۔ اور اس کے بعد آپ نے بہت پیارا جملہ ارشاد فرمایا:
“فإنما بعثتم ميسرين، ولم تبعثوا معسرين”
“کیونکہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔” (صحیح بخاری: 220)
غلطیوں کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طریق کار یہ بھی تھا کہ آپ برائی کا ارادہ کرنے والے کے دل میں اس برائی کی ایسی نفرت ڈال دیتے اور اس کی قباحتوں کو اس طرح واضح کر دیتے کہ وہ انسان راہ راست پر آجاتا. ایک مرتبہ ایک نوجوان آپ کے پاس آیا اور زنا کی اجازت مانگنے لگا.
ابوامامہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہنے لگا:
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے زنا کی اجازت دے دیں ، تولوگ اس کی طرف متوجہ ہوکر اسے ڈانٹنے لگے اوراسے کہا کہ اسے چھوڑ دو یہ بات نہ کرو ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا میرے قریب آجاؤ تووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گیا ۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ بیٹھ گیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم اسے اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی والدہ کے لیے اسے پسندنہیں کرتے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے: کیا تم اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لیے اسے پسندنہیں کرتے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم یہ کام اپنی بہن کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی بہنوں کے لیے اسے پسند نہیں کرتے ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لیے اسے پسندنہیں کرتے ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے : کیا تم اسے اپنی خالہ کے لیے پسند کرتے ہو؟ وہ نواجوان کہنے لگا : اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرمانے لگے اورلوگ بھی اپنی خالاؤں کے لیے اسے پسندنہیں کرتے ۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ھاتھ اس نوجوان پر رکھا اورفرمایا: اے اللہ اس کے گناہ معاف کردے اوراس کے دل کوپاک صاف کردے ، اوراس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما ، تو اس کے بعد اس نوجوان نےچيز کی جانب پلٹ کربھی نہیں دیکھا ۔
حافظ عراقی رحمہ اللہ تعالی نے الاحیاء کی احادیث تخریج کرتے ہوۓ اس حدیث کے بارہ میں کہا ہے کہ اسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے اوراس کے رجال صحیح کے رجال میں سے ہیں ۔ ا ھـ
سبحان اللہ کتنا پیارا اور دل پذیر انداز ہے اصلاح کا، اور اس قدر موثر کہ ایک ہی بار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سیدھے اس نوجوان کے دل میں اترگئی اور وہ سچے دل سے تائب ہو گیا.
قال الكسائي النحْوي؛ قارىء الكوفة:
“صليت بهارون الرشيد، فأعجبتني قراءتي ، فغلطت في آية ما أخطأ فيها صبي قط ، أردت أن أقول : ﴿ لعلهم يرجعون ﴾ فقلت: (لعلهم يرجعين)، قال: فوالله ما اجترأ هارون أن يقول لي: أخطأت ، ولكنه لمّا سلمت قال لي: يا كسائي ! أي لغة هذه؟
قلت يا أمير المؤمنين! قد يعثر الجواد، فقال: أما هذا فنعم” اﻫـ .
قال الحافظ الذهبي- رحمه الله -:
من وعى عقله هذا الكلام علم أن العالم مهما علا كعبه، وبرَّز في العلم ، إلا أنه لا يسلم من أخطاء وزلات، لا تقدح في علمه ولا تحط من قدره ولا تنقص منزلته، ومن حمل أخطاء أهل العلم والفضل على هذا السبيل حمدت طريقته، وشكر مسلكه، ووفق للصواب” اﻫـ .
(سِيَر أعلام النبلاء376/13).
امام علی کسائی رحمة الله عليه فرماتے ہیں ایک دفعہ بادشاہ ہارون الرشید کو نماز پڑھاتے ہوئے مجھے اپنی قرآت کی عمدگی کا احساس ہوا (اچانک ہی) مجھ سے ایسی غلطی سرزد ہوگئی جو عموماً بچوں سے بھی نہیں ہوتی. میں نے پڑھنا تھا:
(لعلهم يرجعون)
میں نے غلطی سے پڑھ دیا:
(لعلهم يرجعين)
امام صاحب فرماتے ہیں، اللہ کی قسم ہارون الرشید نے مجھے سختی سے نہیں کہا کہ:
تم نے غلط پڑھا ہے بلکہ جب نماز مکمل ہوئی تو فرمایا:
“اے کسائی  یہ کونسی لغت ہے؟”
امام علی کسائی فرماتے ہیں:
یا امیر المؤمنين (یہ لغت کوئی نہیں) شہسوار پھسل گیا تھا.”
ہارون الرشید کہا:
“کوئی بات نہیں.”
علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس واقعے کے بعد فرماتے ہیں اس واقعہ کو پڑھنے کے اور سمجھنے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کوئی چاہے جتنا مرضی علم و عرفان کی بلندیوں پر پہنچ جائے وہ غلطی اور خطا سے  نہیں بچ سکتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کسی بڑے سے بڑے عالم سے غلطی سرزد ہونا اس کی علمی شان وشو کت اور  مقام و مرتبہ کے منافی ہرگز نہیں اور جو طالب علم اپنے اساتذہ سے ہونے والی بشری لغزشوں سے درگزر کرکے ان کے علم و ادب کے موتی اپنے دامن میں سمیٹتا ہے، درحقیقت وہی صحیح معنوں میں ہدایت یافتہ اور حقیقی طالب علم ہوتا ہے.
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
ایک داعی اور مصلح کے لیے اس میں بہت سی نصیحتیں ہیں.