یومِ وفات سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا‘‘۔(بخاری، الصحيح، 3: 1361، رقم: 3510)
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرماکر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں۔(ابوداود)
حضرت حسن ؓ وحضرت حسین ؓ کی والدہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء ؓ کی ولادت بعثت نبوی سے تقریباً پانچ سال قبل حضرت خدیجہؓ کے بطن سے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔سیدہ فاطمہؓ کے القاب میں چند مشہور القاب زہرا، بتول، طاہرہ، سیدۃ النساء اہل الجنتہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ حضرت فاطمہ ؓ کی ولادت کے وقت نبی اکرم ا کی عمر تقریباً۳۵ سال تھی ۔ اور یہ وہ وقت تھا جب کعبہ کی تعمیر نو ہورہی تھی۔ اسی تعمیر کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین تدبیر کے ساتھ حجر اسود کو اس کی جگہ رکھ کر باہمی جنگ کے بہت بڑے خطرے کو ٹالا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تدبیر نے عرب کے تمام قبائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت واحترام میں اضافہ کردیا تھا۔
آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں مشہور قول کے مطابق حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ ان کا اسم گرامی ’’فاطمہ‘‘ ہے ،حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی کا نام فاطمہ اسلئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے۔ حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت امِ کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہن، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کی اولاد شریف ہیں اور باہمی حقیقی بہنیں ہیں۔ان کی پرورش اور تربیت خانۂ رسول خدا کے مبارک ماحول میں ہوئی اور اپنی والدہ محترمہ کی نگرانی میں سنِ شعور کو پہنچیں اور اپنے والدین شریفین کے نفوسِ طیبہ سے مستفید ہوتی رہیں۔ ابھی حضرت فاطمہ ؓ ۱۵ سال کی تھیں کہ ماں کی شفقت سے محروم ہوگئیں۔حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کی خصوصی تربیت فرمائی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آیا (مربیہ): حضرت ام ایمنؓ اور حضرت علیؓ کی والدہ: حضرت فاطمہؓ بنت اسد نے بھی حضرت فاطمہؓ کی تربیت اور پرورش میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ حضرت فاطمہؓ کی بہنوں نے بھی حضرت فاطمہ ؓ کی ہمہ وقت دل جوئی فرمائی ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد نرینہ کی وفات بالکل بچپن ہی میں ہوگئی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تینوں بیٹوں میں سے کوئی بھی بیٹا ۲۔۳ سال سے زیادہ باحیات نہ رہ سکا۔ چاروں بیٹیوں میں سے بھی تین کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی میں ہوگئی تھی۔ حضرت فاطمہؓ کا انتقال آپ اکی وفات کے چھ ماہ بعد ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیوں میں سے کوئی بھی بیٹی ۳۰ سال سے زیادہ با حیات نہ رہ سکی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سالوں میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہات ومحبت کا مرکز فطری طور پر حضرت فاطمہؓ بن گئی تھیں، یوں بھی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی چہیتی بیٹی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بیٹیاں مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان (البقیع) میں مدفون ہیں۔
حضرت فاطمہ زہراء ؓ بچپن سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی خدمت کرتی تھیں ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے، قریش کے چند بدمعاشوں نے شرارت کی غرض سے اونٹ کی اوجھڑی لاکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دی اور خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔ کسی نے حضرت فاطمہ ؓ کو خبر دی تو وہ دوڑی دوڑی آئیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سے اوجھڑی کو اتار کر پھینکا۔
اسی طرح ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ کسی بدبخت نے مکان کی چھت سے آپ اکے سر مبارک پر گندگی پھینک دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ حضرت فاطمہؓ نے یہ حالت دیکھی تو رونے لگیں اور پھر سر مبارک اور کپڑوں کو دھویا۔
حضرت فاطمہؓ نہ صرف عمومی حالات میں بلکہ سخت ترین حالات میں بھی نہایت دلیری اور ثابت قدمی سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتی تھیں چنانچہ جنگ احد میں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوگئے تھے اور پیشانی پر بھی زخم آئے تھے تو حضرت فاطمہؓ احد کے میدان پہونچیں اور اپنے والد محترم کے چہرے کو پانی سے دھویا اور خون صاف کیا۔ غرضیکہ حضرت فاطمہؓ نے اپنے والد کی خدمت کا حق ادا کیا۔
خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ فاطمۃؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں ، ایک اور موقعہ پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فاطمۃ ؓ (عورتوں میں سے) سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگی۔احادیث مبارکہ میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے بہت زیادہ فضائل و مناقب آئے ہیں ۔ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے طوروطریق کی خوبی، اخلاق و کردار کی پاکیزگی، نشست و برخاست، طرز گفتگو اور لب و لہجہ میں حضور ﷺ کے مشابہہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا ایک اور موقعہ پر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کے سوا سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ سے سچا اور انصاف گو کسی کو نہیں دیکھا ۔
ماہ رجب2 ہجری میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کانکاح حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا، نکاح کے وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اکیس یا چوبیس برس اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر پندرہ یا اٹھارہ برس تھی۔(تفسیر القرطبی(
حضور ﷺ نے حضرت علی المرتضیٰؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس ”حق مہر“ ادا کرنے کیلئے بھی کچھ ہے؟ سیدنا حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ ایک زرہ اور ایک گھوڑے کے سوا کچھ نہیں ہے، حضور ﷺ نے فرمایا کہ گھوڑا تو جہاد کیلئے ضروی ہے، زرہ کو فروخت کر کے اس کی قیمت لے آؤ۔ سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ نے یہ زرہ فروخت کرنے کیلئے صحابہ کرامؓ کے سامنے پیش کی خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے یہ زرہ 480 درہم میں خریدلی اور پھر سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نے یہ زرہ بھی حضرت علی المرتضیٰؓ کو ہدیۃً، واپس کر دی، حضرت علیؓ یہ رقم لیکر حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو حضور ﷺ نے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔
حضور ﷺ نے حضرت علی المرتضیٰؓ سے فرمایا کہ اس رقم میں سے دو تہائی خوشبو وغیرہ پر صرف کر دو اور ایک تہائی سامان شادی اور دیگر اشیائے خانہ داری پر خرچ کرو۔ پھر حضور ﷺ نے حضرت انس بن مالکؓ کو حکم دیا کہ جاؤ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ اور دیگر مہاجرین و انصار کو مسجد نبوی میں بلا لاؤ خود حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ اس سے پہلے حضور ﷺ پر وحی آنے کی سی کیفیت طاری ہوئی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کا نکاح سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ سے کر دیا جائے۔
جب صحابہ کرامؓ مسجد نبوی میں جمع ہوگئے تو حضور ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ ”اے گروہ مہاجرین و انصار مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ فاطمۃ بنت محمد (ﷺ) کا نکاح علی بن ابی طالبؓ سے کر دوں، میں تمہارے سامنے اللہ کے اس حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔“ اس کے بعد حضور ﷺ نے خطبہ نکاح پڑھا اور دعائے خیر فرمائی۔ صحیح روایت کے مطابق یہ نکاح 3ھ میں ہوا اور فوری رخصتی عمل میں آئی (از کتاب سیرت فاطمۃ الزہراؓ، صفحہ نمبر 94)
حضرت فاطمہؓ کی رخصتی صرف اس طرح ہوئی کہ حضرت ام ایمنؓ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دولہا کے گھر بھیج دیا۔ یہ دونوں جہاں میں سب سے افضل بشر کی صاحبزادی کی رخصتی تھی جس میں نہ دھوم دھام نہ پالکی اور نہ روپیوں کی بکھیر، نہ حضرت علیؓ گھوڑے پر سوار ہوئے، نہ حضرت علیؓ نے بارات چڑھائی، نہ آتش بازی کے ذریعے اپنا مال پھونکا۔ دونوں طرف سے سادگی سے کام لیا گیا، قرض ادھار لے کر کوئی کام نہیں کیا گیا۔۔ آج ہم سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کی اتباع اور اقتداء میں اپنی اور خاندان کی ذلت اور عار سمجھتے ہیں۔
حضرت علیؓ نے دوسرے روز (مختصر) اپنا ولیمہ کیا جس میں سادگی کے ساتھ جو میسر آیا کھلادیا۔ ولیمہ میں جو کی روٹی، کھجوریں، حریرہ ، پنیر اور گوشت تھا۔ (سیرت سرور کونین ۔ مفتی محمد عاشق الہی مدنی ؒ) ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی لختِ جگر، سب سے چھوٹی لاڈلی بیٹی، خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کو جو جہیز دیا۔ مختلف روایتوں کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے،
٭… ایک بستر مصری کپڑے کا جس میں اون بھری ہوئی تھی ٭… ایک نقشی تخت یا پلنگ ٭… ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ٭… ایک مشکیزہ، ٭… دو مٹی کے برتن (یا گھڑے) پانی کیلئے٭… ایک چکی (ایک روایت کے مطابق دو چکیاں)٭… ایک پیالہ ٭… دو چادریں٭… دو بازو بندنقرائی٭… ایک جائے نماز۔
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ ”مدارج النبوۃ“ میں رقمطراز ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے درمیان گھریلو کاموں کی تقسیم فرما دی تھی، چنانچہ گھر کے اندر جتنے کام تھے مثلاً چکی پیسنا، جھاڑو دینا، کھانا پکانا وغیرہ وہ سب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے ذمہ تھے، اور باہر کے سب کام مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ سیدنا حضرت علیؓ کے ذمہ تھے اس طرح ان کی ازدواجی زندگی میں نہایت خوشگوار توازن پیدا ہو گیا تھا۔
حضور ﷺ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے ہر رنج و راحت میں شریک ہوتے، تقریباً ہر روز ان کے گھر تشریف لے جاتے، ان کی خبر گیری کرتے، کوئی تکلیف ہوتی تو اسے دور کرنے کی کوشش فرماتے، اگر حضور ﷺ کے گھر میں کوئی چیز پکتی تو آپ ﷺ اس میں سے کچھ نہ کچھ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کو بھی بجھواتے تھے۔
حضرت فاطمہؓ کے بطن سے تین صاحبزادے حسنؓ ، حسینؓ اور محسنؓ اور دو صاحبزادیاں زینبؓ اور ام کلثومؓ پیدا ہوئیں۔ حضرت محسنؓ کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے ذریعہ ان کے نانامحترم حضور اکرم اکا سلسلۂ نسب چلا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سے جو نسل چلی وہ آپ کی نسل سمجھی گئی ورنہ قاعدہ یہ ہے کہ انسان کی نسل اس کے بیٹوں سے چلتی ہے۔
ایک بار حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کو بخار آ گیا، رات انھوں نے سخت بے چینی میں کاٹی، سیدنا حضرت علی المرتضیٰؓ کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا پچھلے پہر ہم دونوں کی آنکھ لگ گئی، فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ سیدہ فاطمۃؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں، میں نے کہا کہ فاطمۃؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا، رات بھر تمہیں بخار رہا، صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا اب چکی پیس رہی ہو، خدا نہ کرے زیادہ بیمار ہو جاؤ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ نے سر جھکا کر جواب دیا کہ اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جاؤں تو کچھ پروا نہیں ہے، میں نے وضو کیا نماز پڑھی اللہ کی اطاعت کیلئے اور چکی پیسی تمہاری اطاعت و فرمانبرداری اور بچوں کی خدمت کیلئے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کیلئے کبھی اپنی کسی رشتہ دار یا ہمسایہ کو اپنی مدد کیلئے نہیں بلاتی تھیں ،کام کی کثرت اور نہ ہی کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی،حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کو عبادت الٰہی سے بے انتہا شغف تھا، خوفِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں ،مسجد نبویﷺ کے پہلو میں گھر تھا، سرور عالم ﷺ کے ارشادات و مواعظ گھر بیٹھے سنا کرتی تھیں ، ان میں عقوبت اور محاسبہ آخرت کا ذکر آتا تو ان پر ایسی رقت طاری ہوتی کہ روتے روتے غش آ جاتا تھا، تلاوتِ قرآن کرتے وقت عقوبت و عذاب کی آیات آ جاتیں تو جسم اطہر پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی، عبادت کرتے وقت سیدہ فاطمہؓ کا نورانی چہرہ زعفرانی ہو جاتا تھا، جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا، اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کے احکامات کی تعمیل، اس کی رضا جوئی اور سنت نبویﷺ کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سما گئی تھی،وہ دنیا میں رہتے ہوئے اور گھر کے کام کاج کرتے ہوئے بھی ایک اللہ کی ہو کر رہ گئی تھیں اسی لیے حضرت فاطمۃؓ کا لقب ”بتول“ پڑ گیا تھا۔
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ غلام اور باندیاں آئیں تو حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کو مشورہ دیا کہ اس موقع پر تم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر ایک خادمہ کا مطالبہ کرو ، جو تمہاری گھریلو ضروریات میں تمہارے ساتھ تعاون کرسکے۔ چنانچہ حضرت فاطمہؓ اسی غرض سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اُس وقت آپ اکی خدمت میں کچھ لوگ حاضر تھے ، اس لئے حضرت فاطمہؓ واپس آگئیں۔ بعد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے تو اس وقت حضرت علیؓ بھی موجود تھے۔ حضور اکرم نے دریافت فرمایا کہ فاطمہؓ تم اُس وقت مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھیں؟ حضرت فاطمہؓ تو حیا کی بنا پر خاموش رہیں، لیکن حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! چکی پیسنے کی وجہ سے فاطمہؓ کے ہاتھوں میں چھالے اور مشکیزہ اٹھانے کی وجہ سے جسم پر نشان پڑ گئے ہیں۔ اس وقت آپ کے پاس کچھ خادم تھےتو میں نے ہی ان کو مشورہ دیا تھا کہ یہ آپ اسے ایک خادم طلب کرلیں تاکہ اس مشقت سے بچ سکیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اے فاطمہ! کیا تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے۔ جب تم رات کو سونے لگو تو ۳۳ مرتبہ سبحان اللّٰہ، ۳۳ مرتبہ الحمد للّٰہ اور ۳۴ مرتبہ اللّٰہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ (ابو داؤد ج۲ ص ۶۴) غرضیکہ آپ نے اپنی چہیتی بیٹی کو خادم یا خادمہ نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا بہترین بدلہ یعنی تسبیحات عطا فرمائیں، ان تسبیحات کو امت مسلمہ تسبیح فاطمی کے نام سے جانتی ہے۔
حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے یہی اوصاف حمیدہ تھے کہ ان کی وفات کے بعد جب کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپؓ کے ساتھ حضرت سیدہ فاطمۃؓ کا حسنِ معاشرت کیسا تھا تو حضرت علیؓ نے آبدیدہ ہو کر جواب میں فرمایا ”فاطمۃؓ جنت کا ایک ایسا خوشبودار پھول تھا کہ جس کی خوشبو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے اس نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی کسی شکایت کا موقعہ نہیں دیا“ آپؓجودو سخا کی پیکر تھیں ایک دفعہ کسی نے حضرت سیدہ فاطمۃؓ سے پوچھا کہ چالیس اونٹوں کی زکوٰۃ کیا ہو گی سیدہ فاطمۃؓ نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف ایک اونٹ اور اگر میرے پاس چالیس اونٹ ہوں تو میں سارے ہی راہ خدا میں دیدوں۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے پوچھا بیٹی عورت کی سب سے اچھی صفت کونسی ہےﷺ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ نے جواب میں عرض کیا کہ عورت کی سب سے اعلیٰ خوبی اور صفت یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ ہی کوئی غیر مرد اس کو دیکھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا جب نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتیں تو آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم (ان کی رعایت خاطر کے لیے) کھڑے ہو جاتے تھے اور پیار کرنے کے لیے ہاتھ پکڑ لیتے اور بوسہ دیتے اور اپنے بیٹھنے کے مقام پر بٹھا لیتے تھے۔اور جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تو احتراماً حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کھڑی ہوجاتیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دست مبارک کو چوم لیتیں اور اپنی نشست پر بٹھا لیتی تھیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا وصال صحیح روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے چھ ماہ بعد ۳/ رمضان ۱۱ہجری کو ہوا، اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر صحیح روایت کے مطابق ۲۹/ سال یا اس سے کچھ کم تھی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اکثر بیمار وغمگین رہا کرتی تھیں، انتقال کے قریب ان کی طبیعت سخت ناساز ہوگئی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لے گئے، خیر خیریت دریافت فرمائی اور مسئلہ میراث کے سلسلہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جو ناراضگی تھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے دور فرمایا اور گھر آکر اپنی اہلیہ حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا: حضرت فاطمہ کی تیمار داری میں ان کے پاس جاکر رہو، چناں چہ وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال فرمانے تک انہی کے پاس رہیں۔ انتقال سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انھیں غسل وغیرہ کے متعلق وصیت فرمائی، پھر ان کی وصیت کے مطابق انھیں غسل دیا گیا، غسل دینے والوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور حضرت سلمی ام رافع رضی اللہ عنہا تھیں۔چنانچہ حسب وصیت حضرت اسماء بنت عمیس نے آپ رضی اﷲ عنہا کے غسل کا انتظام کیا ان کے ساتھ غسل کی معاونت میں بعض اور بیبیاں بھی شامل تھیں مثلاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام ابورافع رضی اﷲ عنہ کی بیوی سلمیٰ رضی اﷲ عنہا اور اُمِ ایمن رضی اﷲ عنہا وغیرہ ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ اس سارے انتظام کی نگرانی کرنے والے تھے۔
غسل اور تجہیز و تکفین کے مراحل کے بعد حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ عنہا کے جنازہ کا مرحلہ پیش آیا تو آں محترمہ رضی اﷲ عنہا کے جنازہ پر خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ او ردیگر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم جو اس موقع پر موجود تھے، تشریف لائے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں جواب میں حضرت علی المرتضیٰ نے ذکر کیا کہ آنجناب خلیفۂ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں جناب کی موجودگی میں مَیں جنازہ پڑھانے کے لیے پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ نماز جنازہ پڑھانا آپ ہی کا حق ہے آپ تشریف لائیں اور جنازہ پڑھائیں اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ آگے تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا چار تکبیر کے ساتھ جنازہ پڑھایا۔ باقی تمام حضرات نے ان کی اقتداء میں صلوٰۃِ جنازہ ادا کی۔
حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال اور ارتحال خصوصاً اس وقت کے اہلِ اسلام کے لیے ایک عظیم صدمہ تھا۔ جو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم مدینہ منورہ میں موجود تھے ان کے غم والم کی انتہا نہ رہی اور ان کی پریشانی حد سے متجاوز ہوگئی۔ تمام اہلِ مدینہ اس صدمہ سے متاثر تھے خصوصاً مدینہ طیبہ میں موجود صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اس صدمۂ کبریٰ کی وجہ سے نہایت اندوہ گین تھے اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا اندوہ گین ہونا اس وجہ سے بھی نہایت اہم تھا کہ ان کے محبوب کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بلاواسطہ اولاد کی نسبی نشانی اختتام پذیر ہوگئی تھی۔ ان حالات میں سب حضرات کی خواہش تھی کہ ہم اپنے نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیاری صاحبزادی کے جنازہ میں شامل ہوں اور اس سعادتِ عظمیٰ سے بہرہ اندوز ہوں۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کا بعد از مغرب اور قبل العشاء انتقال ہونا علماء نے ذکر کیا ہے۔ اس مختصر وقت میں جو حضرات موجود تھے وہ سب جمع ہوئے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ رفتار و گفتار میں حضور ﷺ کی بہترین نمونہ تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ فاطمۃؓ خواتین امت کی سردار ہیں۔واضح رہے کہ ہر دَور کی مسلم خواتین کے لئے حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت طیبہ قابل تقلید اور جنت میں لے جانے والی ثابت ہوگی، بالخصوص دورِ حاضر کی خواتین کو ان کی حجابانہ زندگی سے سبق لینا چاہئے کہ آپ نے انتقال سے قبل یہ وصیت فرمائی تھی کہ ’’میرا جنازہ دن کی روشنی میں نہ لے جایا جائے، تاکہ اس پر کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے‘‘۔