استقبالِ رمضان

استقبال رمضان

از قلم: قاری محمد اکرام چکوالی

                                           حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے شوق و محبت سے ماہ رمضان کا استقبال فرماتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رجب کے مہینے سے ماہ رمضان کی تمنا شروع فرماتےبلکہ جب شعبان کا مہینہ آتا تو لسانِ نبوت سے یوں موتی بکھرتے اللھم ھذا شعبان و بلغنا رمضان اے اللہ جیسے آپ نے ہم پر فضل و احسان کیا کہ ہمیں شعبان عطا فرمایا، اے اللہ! ہمیں رمضان کی مبارک ساعتیں بھی نصیب فرما۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو ماہ پہلے اپنے اس مبارک مہمان (رمضان) کا استقبال فرماتے اور جونہی شعبان کی آخری رات آتی آپ اپنے جانثار صحابہ کو جمع فرماتے ان کے سامنے رمضان المبارک کی اہمیت ،افادیت،خصوصیت،امتیازی حیثیت کا دلآویز تذکرہ فرماتے،اور یہ حقیقت ہے کہ انسان کسی بھی مشق سے بغیر منصوبہ بندی اور ذہنی تیاری کے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ انسان کی اسی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اﷲ کے رسول اکرم ﷺ نے بھی شعبان کے آخری روز ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا تھا، جس میں رمضان کے فضائل کے ساتھ اس کی خصوصیات کا بھی ذکر فرمایا اور اس میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی تلقین بھی کی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے آپ کے ان فرامین کو نقل فرمایا ہے :
ترجمہ: ” تم پر ایک مہینہ آ رہا ہے جو بہت بڑا اوربہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب کی چیز بنایا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نیکی کر کے اﷲ کا قرب حاصل کرے گا ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر ا س روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائےگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ( یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی بندہ ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لسّی کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اﷲ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تواللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں اور آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اﷲ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے رب تعالیٰ شانہ ( روزِ قیامت) میرے حوض سے اس کوایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔“
ہمیںاپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہیے کہ ہم پورا مہینہ اس ماہ مبارک کی دل و جان سے قدر کریں اور اس کے تقاضوں کو شرائط و آداب کے ساتھ پورا کریں ۔ توبہ و استغفار کی کثرت کریں، ذوق شوق سے تراویح کی بیس رکعات اد ا کریں، تین رکعات وتر اد اکریں ،سوتے وقت کی دعا پڑھیں اَللّٰهُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْيا۔‘‘’اے اللہ! میں تیرے ہی نام سے سوتا ہوں اور (تیرے ہی نام سے) اٹھتا ہوں۔‘‘اورسورۃ ملک پڑھیں اور آیۃ الکرسی بھی پڑھ لیں ،اور خوب دعائیں مانگ کرسنت کے مطابق دائیں پہلوپرجلد سوجائیں تاکہ صبح سحری کے وقت اٹھنے میں دِقَّت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ :یہ وہ مہینہ ہے جس کے عمدہ طریقے سے استقبال اور ایسے انداز سے الوداع کرنے پر دین اسلام نے ابھارا ہے جو انسانیت نوازی والے اعمال سےبھر پور اور تالیفی مافات کا بہترین موقعہ ہے۔رمضان کا استقبال اس مہینہ کی مقام و مرتبہ کے شایان شان آو بھگت خلوص نیت روحانی عملی اور شعوري تیاري کے ساتھ ہونا چاہیے۔’’ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لئے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے۔‘‘اس لئےآمد رمضان سے قبل فرائض وواجبات کی ادائیگی کا اہتمام کریں، اگر ذمے میں قضا نمازیں یا روزے ہوں تو ادائیگی کی ترتیب بنائیں، سابقہ زندگی کی تمام لغزشوں پر سچی توبہ کریں دل کو گناہوں اور برے خیالات سے پاک کریں،آنکھ،کان، زبان، ہاتھ، پاؤں اور دل و دماغ غرض جسم کے کسی بھی حصے سے صادر ہونے والے گناہوں پر پکی توبہ کریں تاکہ آپ گناہوں سے پاک ہوکر رمضان المبارک کا استقبال کریں۔