کیا میں عورت ہوں؟

کیا میں عورت ہوں؟
انتخاب:… قاری محمد اکرام چکوالی
مرد اپناکاروبار چمکانے اور اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے عورت کو کہاں کہاں استعمال کررہاہے اور عورتیں خوشی خوشی استعمال ہورہی ہیں ،کبھی سوچا ہے آپ نے۔عورت یعنی چھپی ہوئی چیز کی ایسی ایسی عریاں تصاویر بنائی جاتی ہیں کہ شریف عورت دیکھے تو شرم سے پانی پانی ہو جائے ان تصاویروں کو ہزاروں لوگ ہوس بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں ،پھر اسٹیج پر بیہودہ ڈرامو ں میں عورت کو دکھانے کے ساتھ ساتھ جذبات کو برانگیختہ کرنے والے نہایت بیہودہ جملے اس پر اچھالے جاتے ہیں جن سے دیکھنے سننے والے خوب حظ اٹھاتے ہیں یوں نوجوان لڑکیاں خوب گمراہ ہوتی ہیں اور گھروں کے گھر اجڑ جاتے ہیں۔ میں عورت ہوں ،اورمیرے لئے نہایت شرم کا مقام ہے، کہ مجھے محض اپنی ہوس کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اور میں امت محمدیہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے لئے فتنۂ بربادی کا سبب بن رہی ہوں ۔لیکن مجھ پر تو آزادی خیالی رنگ چڑھا ہوا ہے ،مجھے کسی بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے میری غیرت گویا مر چکی ہے کیا میں عورت ہوں ؟بے حیائی کی انتہا ہو چکی ہے اور اس ساری بے حیائی کی وجہ میں ہوں ۔عورت کہتے ہیں چھپی ہوئی چیزکو عورت حیا ہے لیکن مجھ میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے ،میں اسٹیج اور ٹی وی پر کیا کچھ کررہی ہوں کسی سے مخفی نہیں ہے ۔مرد تو چلو اکثر ہیں ہی شکاری ،لیکن میں بھی کوئی اتنی معصوم نہیں ۔اب دیکھیں ’’کوئی بھی ایرا غیر ا ،نتھو خیرا‘‘ اٹھ کو لیڈی آپریٹر کے لئے اشتہار دے دیتا ہے صرف اور صرف اپنا ٹائم پاس کرنے اوراپنا کاروبار چمکانے کے لئے اور یہ بات تو صاف ہے کہ فون پر بات کرنے کے لئے عورت کو ترجیح کیوں دیتا ہے ۔
اگر ایک عورت کا ایک لڑکی کا پی سی او ،پر بیٹھنا کوئی خیرکاکام ہوتا تو وہ جو مالک ہیں وہ اپنی ہی کسی عورت کو بٹھا لیتے نا ،لیکن مجھے اس سے کیا میں تو ٹھہری شیطان کی ایجنٹ ،اور پھر مجھے بھی یہ اچھا لگتا ہے کیونکہ میرا ٹائم بھی اچھا پاس ہوجا تا ہے گھر میں بیٹھنا اور وہ بھی عزت سے کون سارا دن گھر میں بیٹھ کر بور ہوتا رہے۔ اور پھر میں نے مغربی تہذیب کی غلامی بھی تو کر نی ہے، میری یہ بھی تو خواہش ہے کہ میرے بھی بوائے فرینڈز ہوں اس لئے میں پی سی او،انٹر نیٹ ،کلب وغیرہ سے آگے بڑھنے کا سوچتی ہوں ،کوئی بڑا بزنس مین جب اشتہار دیتاہے کہ مجھے اپنے آفس کے لئے پرائیویٹ سیکرٹری کی ضرورت ہے تعلیم بی اے ہو ،ہوشیار بے شک نہ ہو ،سمارٹ ضرورت ہونی چاہئے بس میری تو سمجھئے لاٹری لگ گئی ۔حالانکہ مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ وہ مجھے بیٹی بنا کر نہیں رکھیں گے۔کبھی میں ہوٹلوں ،کلبوں اور کمپنیوں کے استقبالیہ پر نظر آتی ہوں غیر محرم مردوں سے ملائم گفتگو کرنا میری ڈیوٹی میں شامل ہے مجھے اچھی طرح علم ہے کہ بن سنور کر نامحرموں کے سامنے جانے اور ان سے ملائم لہجے میں گفتگو کرنے کی کیا سزا ہے؟غرض یہ کہ میں ہر جگہ فتنہ پھیلانے کے لئے تیار ہوں میںہر وقت تیار ہوں مجھے کہیں سے بھی جاب کی آفر آئے تو سہی۔ چاہے کو ئی سودی بینک ہو،چاہے انشورنش کمپنی ہو،میں بڑے بڑے ملوں کے مالکان کو ان کے گھر، ان کے آفس میں جاکر انہیں اپنی انشورنس پالیسی کی مناتی ہوں ،یہی میری ڈیوٹی ہے ۔مجھے اپنے مسلمان ہونے کا ذرا بھی خیال نہیں ہے بس چار پیسے ہوں ،عیش ہو،آزادی ہواور کیا چاہئے۔کچھ صدیاں پہلے میرا وجود صرف گھروں کی زینت تھا ۔لیکن اب کوئی بھی جگہ میرے وجود سے خالی نہیں ہے ،چاہے ہوائی جہاز ہو،بس ہوبینک ہو،کسی قسم کا دفترہو ۔کبھی میں یہ بتاتی ہوں کہ میں نرس ہوں،اور مریضوں کی تیمارداری کرنا تو عبادت ہے کیونکہ میں تو معاذاللہ! رب تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم سے زیادہ جانتی ہوں ناکہ کیا عبادت ہے؟ اور کیا نہیں ؟اور پھر مریض بے چارہ جب ہسپتال سے ڈسچارج ہوتا ہے تو پہلے سے زیادہ خطرناک بیماریاں ساتھ لے کر جا تا ہے ۔اور میںجب ہسپتال جانے کے لئے گھر سے نکلتی ہوں تو پانچ دس من چلے چوراہے پر موجود ہوتے ہیں کچھ میرے پیچھے چل پڑتے ہیں ہسپتال میں ،میں کیا کسی کا ایکسرے کروں گی وہاں موجود بیس سے اسی سال کے مرد اپنی بری نظروں سے میرا ایکسرے کرتے رہتے ہیں ۔میں نے بچپن میں کسی سے سنا تھا کہ اللہ پاک عورت کو گھر میں رہنے کا حکم دیتا ہے اور اسلام میں عورت پر کمانا کسی دور پر فرض نہیں کیا گیا اگر بیٹی ہے تو اس کی ذمہ داری باپ پر ہے ،اگر بہن ہے بھائی کی ذمہ داری ہے کہ کما کر کھلائے اگر بیوی ہے تو وہ خاوند کے ذمے ہے اگر ماں ہے تو وہ بیٹوں کی ذمہ داری ہے۔
یعنی میرا یعنی عورت کا بطور فیشن کمانے کے لئے باہر نکلنا بالکل بھی جا ئز نہیں ہے مالی حالات بھی ٹھیک ٹھاک ہیں پھر بھی باہر نکلنے کی جو عادت پڑگئی ہے طرح طرح کے لوگوں سے بات کرنے کا مزہ جو دل کو لگ گیا ہے تو میں کیا کروں ۔ہاں مجبوری ہے تو عورت باہر نکلے عورت ہی سے پڑھے ،اور بچیوں کو بھی پڑھائے ،کوئی ذمہ داری لینے والا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ کے مانگنے پر ہزار راستے کھل جا تے ہیں ،جہاں سب خواتین ہو تی ہیں پھر جب مکمل شرعی پردے میں گھر سے نکلے تو کیا حرج ہے ،نامحرم سے بات کرنی پڑجائے تو سخت لہجے میں بات کرے ۔حدیث کا مفہوم ہے:کہ تین آدمی جنت میں کبھی داخل نہیں ہوں گے ،ایک شراب کا عادی ،دوسرا عورتوں کی نقل اتارنے والا ،اور تیسرا دیوث۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دریافت کیا کہ دیوث کون ہے؟آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے جواب دیا دیوث وہ بے حیا شخص ہے جسے اس بات کی پرواہ نہیں کہ اس کی بیوی کے پاس کون شخص آتا جاتا ہے ۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر بھائی کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ اس کی بہن کہاں ہے؟ اور کس کے ساتھ ہے اور باپ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ میری بیٹی کی کن کن سے دوستی ہے ؟تو یہ بھی دیوث کہلا ئیں گے۔اورمیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی خود کو شیطان کی غلامی آزاد نہیں کر پارہی ہوں ،میری خواتین کا اسلام کی قاریات بہنوں سے گزارش ہے کہ خدا کے واسطے وہ مجھے کوئی مشورہ دیں کہ میںشیطان کی غلامی سے رہا ئی پاؤں وہ شیطان کی بندی بننے سے رحمان کی بندی بننے میں میری مدد کرے ۔(تحریر:…بنت شعیب ،ماخذ:…ہفت روزہ خواتین کا اسلام کراچی شمارہ نمبر ۹۱۶)