جامع الکمالات علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ

جامع الکمالات علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ13/دسمبر کو شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کا یوم وفات ہے 13دسمبر 1949ء کو ایک ایسے نابغۂ روزگار عالم کی رحلت ہوئی تھی جو مسلمانانِ پاکستان کے لیے روشنی کا مینار تھا۔ انہیں حضرت نانوتوی کی حکمت کا شارح اور حضرت شیخ الہند کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اُن چند جانباز علماء اور مخلص ترین لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مسلمانانِ ہند کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے چھٹکارا دلاکر آزادی کا پرچم اُن کے ہاتھوں میں تھمایا، اور ان کے لئے آزادانہ مذہبی زندگی گزارنے کا پُرخار راستہ ہموار کیا۔مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ کی زندگی قیام پاکستان کے حوالے سے ان کی سیاسی جد و جہد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان میں شامل علماء میں ان کا کردار سب سے بڑھ کر تھا۔ بلاشبہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء و مشایخ کے ایک جمِ غفیر نے پاکستان کی جد و جہد میں حصہ لیا، مگر مسلمانانِ ہند کی جس طرح راہنمائی مولانا شبیراحمد عثمانی نے کی، وہ کوئی اور نہ کرسکا۔آپ رحمہ اللہ نے تحریک آزادی اور تحریک خلافت میں نمایاں طور پر حصہ لیا اور قیام پاکستان کے لئے بے پناہ خدمات انجام دیں۔چنانچہ قائد اعظم نے خود پرچم کشائی کی رسم ادا نہیں کی۔ بلکہ کراچی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے مبارک ہاتھوں سے پاکستان کی پرچم کشائی کروائی اور پاکستان کے دوسرے حصے یعنی مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں قائداعظم کی ہدایت کے مطابق خواجہ ناظم الدین نے شیخ الحدیث حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کو دعوت دی کہ پرچم کشائی آپ فرمائیں۔چنانچہ یہ اعزاز مولانا ظفراحمد عثمانی رحمہ اللہ نے حاصل کیا۔ ڈھاکہ اور کراچی میں پرچم کشائی کروانے کا جو اعزاز دونوں بزرگوں کو ملا وہ درحقیقت پاکستان کے لئے بے پناہ قربانیوں کے اعتراف کے طور دیا گیا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آپ کی خدمات کے بڑے معترف تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی علامہ شبیر احمد عثمانی پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کا شمار تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے ان عظیم المرتبت قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے علم و فضل، جہد و عمل اور ایثار و استقامت کے ساتھ تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کیا اور آنے والی نسلوں کی رہنمائی کی روشن شمعیں جلا کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے اور جن کانام تاریخ پاکستان میں ہمیشہ زریں حروف میں لکھا جائے گا۔
مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے والد محترم کا نام مولانا فضل الرحمن عثمانی تھا۔مولانا فضل الرحمن عثمانی جید عالم دین تھے اور ان کا شمار دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں ہوتا ہے۔آپ مولانا مملوک علی رحمہ اللہ سے مستفیض تھے۔جید عالم دین ہونے کے علاوہ فارسی اور اردو کے بلند پایہ شاعر تھے۔1857ء میں بریلی میں انسپکٹر مدارس تھے،1325ء بمطابق1907ء میں انتقال کیا۔مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمہ اللہ نے تین نکاح کیے۔پہلی بیوی سے اولاد نہ ہوئی،دوسری اور تیسری بیوی سے اولاد ہوئی۔دوسری بیوی سے مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی مفتی دارالعلوم دیوبند ،مولانا حبیب الرحمن عثمانی مہتمم دار العلوم دیوبند اور حافظ خلیل الرحمن عثمانی پیدا ہوئے۔مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تیسری بیوی سے تھے۔
آپ10محرم الحرام 1305ھ بمطابق ستمبر 1887ء بجنورمیں پیدا ہوئے۔آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا۔اس وقت آپ کی عمر سات سال تھی۔آپ نے جن اساتذہ سے علوم حاصل کیے ان کے نام درج ذیل ہیں۔حافظ محمد عظیم دیوبندی،حافظ نامدار خان،مفتی منظور احمد،شیخ الہند مولانا محمود حسنمولانا غلام رسول خان ،مولانا حکیم محمد حسن چاند پوری،مولانا مفتی عزیز الرحمان عثمانیمولانا حافظ محمد احمد نانوتوی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین
علامہ شبیر احمدؒ عثمانی ایک ایسی جامع الکمالات شخصیت تھے جو بیک وقت اپنے دور کے بہت بڑے محدث، مفسر، متکلم، محقق اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ بصیرت سیاستدان بھی تھے اور انہوں نے علم و فضل کے ہر شعبہ میں اپنی مہارت اور فضیلت کا لوہا منوایا۔مولانا شبیراحمد عثمانی کی زندگی کا ایک پہلو خالص علمی و تحقیقی ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کی تفسیر کا تکملہ لکھا جواُنہوں نے مالٹا جیل میں سورۃ النساء تک لکھی تھی۔ اِس تفسیر کی تکمیل آپؒ نے اِس خوبی سے کی کہ بڑے بڑے علماء کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔حدیث کے میدان میں آئے تو صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم عربی زبان میں تصنیف کرڈالی ۔ تدریس کے میدان میں آئے تو علمی جوہر دکھلائے۔ آپ کا شماردار العلوم دیوبند کہنہ مشق اور اعلیٰ مدرسین میں ہوتا تھا۔ آپؒ نے 1910ء سے 1928ء تک دارالعلوم دیوبند میں متوسط کتب سے لے کر صحیح مسلم تک کی تدریس کی۔ 1928ء میں آپؒ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ضلع سورت چلے گئے، اور وہاں تفسیر و حدیث پڑھاتے رہے۔ 1935ء میں دارالعلوم دیوبند کے صدر مہتمم قرار دیے گئے اور1943ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تحریک پاکستان کے حامی علماء پر مشتمل ایک جماعت ’’جمعیت علمائے اسلام ‘‘ کے نام سے تشکیل دی، جس پہلے صدر آپؒ منتخب ہوئے، اور نائب صدر علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کو مقرر کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے بعد پاکستان کا وجود اِن دونوں حضرات کا مرہونِ منت ہے۔ اگر یہ حضرات مسلم لیگ میں شرکت کرکے شریعت اسلامیہ کی رُوشنی میں متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے سوادِ اعظم کی رہبری نہ کرتے تو مسلم لیگ کی طرف ہوا کے رُخ کو موڑنا اور نظریۂ پاکستان کی طرف سیاست کے دھارے کا منہ پھیرنا ناممکن نہیں تو دُشوار ضرورر تھا۔ علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے اِس سلسلہ میں جمعیت علمائے اسلام کے صدر کی حیثیت سے ملک بھر کے دورے کیے ، سرحد کے ریفرینڈم میں کامرانی حاصل کی ، آزادیٔ کشمیر کی جد و جہد میں حصہ لیا اور قیام پاکستان کی تحریک کو اپنی علمی، تحقیقی، اور سیاسی تجربات کی بنیاد پر کام یابی سے ہم کنار کرایا۔
تحریک پاکستان کی یہ کوشش اور جد و جہد محض اِس مقصد کے لئے کی گئی تھی کہ اِس خطۂ زمین میں مسلمانانِ پاکستان قرآن و سنت کے قوانین نافذ کریں گے اور اپنی تہذیب و ثقافت، علوم و فنون اور اپنی قومی اُردُو زبان کو فروغ دینے کے لئے کسی کے تابع و محتاج نہیں رہیں گے۔ اسی عظیم مقصد کی خاطر علماء و مشائخ نے قربانیاں دیں ، بالخصوص علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے اپنی حیاتِ مستعار کے آخری سال مقصد کے حصول کی خاطر قربان کیے ۔ آپؒ کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ وطن عزیز ملک پاکستان میں اسلامی احکام اور دینی قوانین کا اجراء اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں، مگر قدرت نے جس سے جتنا کام لینا مقرر کیا ہوتا ہے اُسی قدر اُس سے کام لیا جاتا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کی زندگی کا مشن مسلمانانِ ہند کے لئے علیحدہ ایک نئے خطے کی صورت میں وطن عزیز ملک پاکستان کا عدم سے وجود میں لانا تھا۔ اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی زندگی کا مطمح نظر قدرت کے نزدیک قرار دادِ مقاصد کی تجویز کا پاس کراکر اِس مملکت خداداد کا آئین و دستور قرآن و سنت پر رکھنا تھا۔
چنانچہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کی منظوری بنیادی طور پر علامہ شبیر احمدؒ عثمانی ہی کی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ یہ قرارداد پاکستان کی نظریاتی اساس بنی اور اس نے پاکستان کی دینی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا۔ کشمیر پر بھارت کی فوجی یلغار علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی زندگی میں ہوئی، چنانچہ انہوں نے پاکستان کی سالمیت کے تحفظ اور استحکام کے لیے جہاد کا فتویٰ دیا،لیکن صد افسوس ان محسنوں کو بھلا دیا گیا اور جس مقصد کے لئے ملک حاصل کیا گیا اور جان و مال اور عزت و آبرو تک لٹائے گئے۔73 سال بیت گئے مگر پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ۔آج اس نعرہ کے کلمات بھی سرکاری تقاریب میں سننے کو نہیں ملتے۔نفاذ اسلام کا تو اب قریب قریب نام و نشان تک نظر نہیں آتا ۔یہی بے وفائی یا وعدہ خلافی ہے اللہ تعالیٰ سے اور پاکستان کے لیئے قربانیوں کے سمندر عبور کرنے والوں سے کہ ملک دن بدن زوال پذیر ہے، ہمارے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں،، پاکستان ہمارا وطن ہے اور اس کے ایک ایک چپہ کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔
المختصر!آپ رحمہ اللہ کی تمام زندگی خدمت اسلام میں گزری اور آپ کے کردار نے مسلمانوں میں زندگی کی روح دوڑادی۔٭… سیاسی اور ملکی خدمات میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔٭… تحریک خلافت میں آپ جمیعت علمائے ہند کی مجلس عامہ کے زبردست رکن تھے۔٭… مسلم لیگ میں شریک ہو کر تحریک پاکستان کو تقویت بخشی اور ایک جماعت “جمیعت علمائے اسلام“ کے نام سے تشکیل دی جس کے پہلے صدر آپ منتخب ہوئے۔٭… کشمیر کی جدوجہد آزادی میں بھی نمایاں حصہ لیا۔٭… پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان ہونے کے باعث آپ نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں قانون اسلامی کی تجویز “قرارداد مقاصد“ کے نام سے پاس کرائی۔٭… غرض یہ کہ تحریک پاکستان میں اگر ایک طرف دنیاوی حیثیت کے لوگوں کی خدمات ہیں تو دوسری طرف اتنی ہی علامہ شبیر احمد عثمانی کی دینی خدمات ہیں۔
آپ رحمہ اللہ علیہ کی تصانیف:… تفسیر عثمانی٭… فتح الملہم (مسلم شریف کی نامکمل شرح)٭… اعجاز القرآن،٭… اسلام کے بنیادی عقائد،٭… العقل و النقل،٭… فضل الباری شرح صحیح بخاری،٭… الشباب٭… مجموعہ رسائل ثلاثہ۔
دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اس سلسلہ میں مزید عملی پیش رفت کے لیے اپنے رفقاء کے ساتھ صلاح و مشورہ کر رہے تھے کہ پیغامِ اجل آپہنچا۔ آپ بہاولپور ریاست کے وزیراعظم کی دعوت پر جامعہ عباسیہ کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے بہاولپور تشریف لے گئے وہیں پرآپ رحمہ اللہ کو 8 دسمبر 1949ء کی شب کو بخار ہوا، صبح طبیعت ٹھیک ہوگئی، آٹھ بجے صبح پھر سینہ میں تکلیف ہوئی اور سانس میں رُکاوٹ ہونے لگی۔ بالآخر مؤرخہ 13 دسمبر 1949ء بمطابق 21 صفر 1369ھ کو 11:40.AMمنٹ پر سہ شنبہ (منگل کے روز) 64 سال کی عمر میں علم و عمل اور دین و اسلامی سیاست کا یہ آفتاب و ماہتات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اِس عالم رنگ و بو سے غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا ا لیہ راجعون۔ یہ خبر بجلی کی طرح سارے عالم اسلام میں پھیل گئی۔ اور دُنیا بھر میں ایک کہرام مچ گیا۔ سرکاری دفاتر اور کاروباری ادارے بند ہوگئے۔ گورنر جزل خواجہ نظام الدین اور وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے اپنے دورے منسوخ کردیئے۔ عوام و خواص اور ممالک اسلامیہ میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ میت بغداد الجدید بہاول پور سے کراچی پہنچائی گئی۔ آپؒ کے شاگردِ رشید علامہ بدرِ عالم میرٹھی رحمہ اللہ نے آپؒ کو غسل دیا اور مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے آپؒ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تقریباً دو لاکھ سے زائد مسلمانوں نے آپؒ کے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ اور آپؒ کا جسد خاکی اسلامیہ کالج جمشید روڈ کراچی میں سپردِ خاک کردیا ۔