عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِیَ اللہُ تَعَا لٰی عَنہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ: الْحَيَاءُ، وَالتَّعَطُّرُ، وَالسِّوَاكُ، وَالنِّكَاحُ۔ (سنن ترمذی 1080)
سیدنا حضرت ابوایوب انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چار باتیں انبیاء و رسل کی سنت میں سے ہیں: حیاء کرنا، عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر 1080)
اللہ تعالیٰ سب کا خالق، مالک، مربی اور حاکم ہے، کائنات کی کوئی چیز اس کی تخلیق، ملکیت، تربیت اور حاکمیت سے باہر نہیں۔ اسی نے انسانیت کی فوز و فلاح کے لیے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات کو مبعوث فرمایا اور سب سے آخر میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بناکر رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مقتدا، پیشوا اور اُسوۂ حسنہ بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں اخلاقی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، ازدواجی، خانگی، عائلی اور دنیوی واُخروی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ومسلَّم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزارنے کے تمام اصول وآداب اور اخلاق وکردار اُمت کے سامنے پیش کردیاہے،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو عفت، عصمت، پاک دامنی اور شرم وحیا اختیار کرنے کا درس دیا، جس سے معاشرہ پاکیزہ اور صالح بنتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا، جس پر ملائکہ بھی رشک کرتے تھے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے تھے اور اس دائرہ سے باہر جھانکنے کو گناہ، حیا کے خلاف اور حیا کی موت تصور کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لِکُلِّ دِیْنٍ خُلُقٌ وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْـحَـیَـاءُ۔‘‘(ابن ماجہ)
’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے۔ ‘‘
گویا شریعت کی نظر میں حیا وہ صفت ہے، جس کے ذریعہ انسان بے ہودہ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رُک جاتا ہے۔ دینِ اسلام میں حیا اور پاک دامنی اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ انسان اسے اپناکر معاشرہ کو پرامن بنانے میں اہم کردار ادا کرے۔ اور منکرات وفواحش کے قریب جانے سے روکا گیا ہے، تاکہ معاشرہ اَنارکی اور فساد سے بچ جائے۔ حیا انسان کو پاک باز، پرہیزگار، عفت مآب اور صالح انسان بناتی ہے۔ اگر بندے سے کوئی گناہ و معصیت اور لغزش سرزد ہوتی ہے، تو یہ حیا ہی ہے جو اُس کو عار، شرمندگی اور ندامت کا احساس دلاتی ہے۔ باحیا انسان کسی غلط کام کے ارتکاب کے بعد لوگوں کا سامنا کرنے سے جھجھک محسوس کرتا ہے۔ حیا مؤمن کی صفت، ایمان کی شاخ، ایمان میں داخل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں فرمایا کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ باحیا تھے۔‘‘ حیا اسلامی تہذیب وتمدن کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی پر پاکیزہ معاشرہ کی اَساس اور بنیاد ہے۔بہرحال مرد ہوں یا خواتین، حکمران ہوں یا رعایا، علماء ہوں یا عوام، سب کو اس معاشرہ سے اس بے حیائی وبے شرمی کو ختم کرنے کی اپنی سی استطاعت اور کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
انبیاء کی سنتوں میں سے دوسری چیز خوشبو ہےجو رسولِ اکرم ﷺ کو دنیا کی چیزوں میں سے خوشبو بہت زیادہ محبوب تھی۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سُکَّۃ تھا، اُس میں سے خوشبو استعمال فرماتے تھے۔ ’’سُکَّۃ‘‘ کے معنی میں علماء کے دو قول ہیں: بعض تو اس کا ترجمہ عطردان اور اُس ڈبہ کا بتلاتے ہیں، جس میں خوشبو رکھی جاتی تھی۔ یعنی اس عطردان میں سے نکال کر استعمال فرماتے تھے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ مردانہ خوشبو وہ ہے، جس کی خوشبو پھیلتی ہوئی ہو اور رنگ غیرمحسوس ہو، (جیسے: گلاب، کیوڑہ، وغیرہ) اور زنانہ خوشبو وہ ہے، جس کا رنگ غالب ہو اور خوشبو مغلوب ہو، (جیسے: حنا، زعفران، وغیرہ)۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ مردوں کو مردانہ خوشبو استعمال کرنا چاہیے کہ رنگ اُن کی شان کے مناسب نہیں ہے اور عورتوں کو زنانہ خوشبو استعمال کرنا چاہیے کہ دُور اجنبیوں تک اس کی خوشبو نہ پہنچے۔
خوشبو کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے زیادہ پسند کرتے تھے کہ (اللہ تعالیٰ کی پاکیزہ مخلوق) فرشتے بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ اورمشک اور عود کی خوشبو کو تمام خوشبوؤں میں زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ (زادالمعاد)
مشاہدہ ہے کہ خوشبو آدمی کی طبیعت میں فرحت و نشاط اور چستی پیدا کرتی ہے۔ خوشبو کے ذریعے آدمی کو خود بھی اور دوسروں کو بھی ایک خوش گوار احساس ہوتا ہے۔ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن وغیرہ سے دور رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بدبو سے طبیعت میں بیزاری اور گھٹن پیدا ہوتی ہے۔’’معطر ہوائیں اور عطربیز فضائیں روحِ انسانی کے لیے غذا کا کام کرتی ہیں اور روحِ قوی کے لیے سرمایۂ حیات ہیں۔ خوشبو سے روح میں توانائی پیدا ہوتی ہے، جس سے دماغ کو کیف اور اعضائے باطنی کو راحت نصیب ہوتی ہے۔ خوشبو سے نفس کو سرور اور روح کو انبساط حاصل ہوتا ہے۔دوسرے الفاظ میں خوشبو روح کے لیے حد درجہ خوش گوار اور خوب تَر چیز ہے۔ خوشبو اور پاک روحوں میں گہرا تعلق ہے۔
عطر لگانے کا کوئی خاص طریقہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا جس طرح بھی عطر لگا لیا جائے، اس سے ان شاءاللہ سنت ادا ہو جائے گی اور سنت کا ثواب ملے گا، ہمارے بزرگ اکابرین رحمہم اللّٰہ (جو کہ بہت متبع سنت بزرگ تھے) سے عطر لگانے کا یہ طریقہ منقول ہے کہ وہ حضرات عطر کو پہلے ہتھیلی میں لیتے تھے، پھر دونوں ہاتھوں سے ہتھیلی کو ملتے تھے، پھر داہنی بغل میں پھر بائیں بغل میں لگاتے، اس کے بعد کندھے اور سینہ پر مل لیتے تھے، اس طرح داہنی طرف سے ابتدا کرنے سے سنت پر عمل ہو جائے گا اور عطر کی سنت بھی ادا ہو جائے گی۔
انبیاء علیہم السلام کی سنتوں میں تیسری چیز کے متعلق حضورِانور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ میری امت مشقت اور تنگی میں پڑجائے گی تو میں ہر وضو کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔”(موطا امام مالک رحمہ اللہ)مسواک کی فضیلت وضو میں ایک سنت مسواک کرنا بھی ہے یہ سنت مؤکدہ ہے، اس کا بہت ثواب ہے۔ حدیث پاک میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے۔
مسواک آغاز میں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی موٹائی کے بقدر موٹی، اور ایک بالشت لمبی ہونی چاہئے۔ کسی خاص درخت کا ہونا ضروری نہیں، البتہ پیلو یا پھر زیتون کے درخت کا ہونا زیادہ بہتر ہے۔ پھر مسواک کرنا وضوء کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ نیند کے بعد، گھر میں داخل ہونے سے پہلے، مجمع میں جانے سے پہلے اور تلاوت وغیرہ کئی اوقات میں سنت ہے۔ لیکن لوگوں کی نظافت طبع کاخیال رکھنا چاہئے، سب کے سامنے جھاگ نکالنا یا تھوکنا ٹھیک نہیں، اس سے لوگ سنت سے متنفر ہوسکتے ہیں۔ مسواک کے کئی فوائد ہیں، منہ کی صفائی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ موت کے وقت کلمہ شہادت یاد آنے کا سبب ہے۔ اور برش وغیرہ سے طہارت و پاکیزگی کی سنت تو ادا ہوجاتی ہے لیکن خاص لکڑی سے مسواک کرنے کی سنت حاصل نہیں ہوتی۔ مسواک کا ذکر کئی احادیث میں آیا ہے؛ اس لئے اگر کوئی شخص بلا وجہ جان بوجھ کر مسواک کا مذاق اڑائے یا ہٹ دھرمی سے مطلقا سرے سے ہی اس کا انکار کرے تو دائرہ اسلام سے خارج ہوجائےگا کیونکہ اس کا ثبوت تواتر سے ہے اور تواتر کا منکر کافر ہوتاہے۔ اور مسواک عورت کے لیے بھی سنت ہے، لیکن اگر مسوڑھے مسواک کے متحمل نہ ہوں اور اس میں تکلیف ہو تو عورت کے لیے دنداسہ مسواک کے قائم مقام ہے اور نیت کے ساتھ دنداسہ سے بھی سنت ادا ہوجائے گی۔ مسواک کرنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسندیدہ اور دائمی عمل تھا۔
انبیاء علیہم السلام کی سنتوں میں چوتھی چیز کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا !اے جوانوں کی جماعت ! جو شخص تم میں سے گھردستی کا بوجھ اٹھانے کی ہمت رکھتا ہو اس کو نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچی رکھنے والا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہے۔(حیٰوۃ المسلمین)
اگر وسعت کے ساتھ بہت زیادہ تقا ضا ہے کہ بدون نکاح کیے حرام کا مرتکب ہو جائے گا تو نکاح کرنا فرض ہے۔اگر ضرورت ہو مگر وسعت نہ ہو توواجب ہے اور وسعت کاتدارک محنت،مزدوی اور قرض سے کرے جس کی ادئیگی کا مصمم ارادہ ہو۔اگر ضرورت نہیں لیکن وسعت ہے تب بھی نکاح سنت ہے۔نامرد کا نکاح کرناگناہ ہے۔
بعض روایا ت میں نکاح کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے حدیث شریف کے مطابق سب سے خرچ والا نکاح سب سے زیادہ برکت والا ہوتا ہے،گنجائش سے زیادہ خرچ کر نا مناسب نہیں بالخصوص رسومات سے بچ کر نکاح کرنا اس میں برکت ہی برکت ہے۔
نسل انسانی کی بقاء وافزائش کاآسان اور فطری ذریعہ نکاح ہے،نکاح ایسا عمل ہے جوصرف دنیاوی ہی نہیں بلکہ شریعت محمدیہ میں اسے ایک عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔
حدیث مبارک ہے: نکاح میری سنت ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی میری سنت سے اعراض کر وہ مجھ سے نہیں ہے۔
انسان مرد ہو یا عورت نکاح سے باوقار بنتا ہے فطری تقا ضے پورے ہوتے ہیں غیر فطری تقاضوں سے بچنا آسان ہوتا ہے۔ ایمان کی سلامتی کا بہت بڑا اور مئوثر ذریعہ نکاح ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نکاح کے متعلق مصروفیات اپنانا نفلی عبادت سے بہتر ہے۔
حضرتِ انس رضی الله تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص نکاح کرلیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کرلیتا ہے، لہذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں الله تعالیٰ سے ڈرتا رہے- (بیہقی)
نکاح کے بارے میں مذکورہ احادیث و دیگر متعلقہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح نہ کرنے والا نکاح کی سنت کے اجر و ثواب سے محروم رہتا ہے۔ نکاح انسان میں شرم و حیا پیدا کرتا ہے اور نکاح آدمی کو بد کاری سے بچاتا ہے۔نکاح باہمی مودت و محبت کا بہترین ذریعہ ہے۔نکاح انسان کے لیے باعثِ راحت و سکون ہے۔نکاح سے دین مکمل ہوتا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے، ہم سب کے حال پر رحم فرمائے، اوراللہ تعالیٰ کے احکامات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کی توفیق سے نوازے، اور ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین۔وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین۔
Dars e Hadees Hadees 35 چار چیزیں تمام پیغمبروں کی سنت ہیںFour Things are Sunnah of all Prophets Uma ویڈیو
Please watch full video, like and share Dars e Hadees Hadees 35 چار چیزیں تمام پیغمبروں کی سنت ہیںFour Things are Sunnah of all Prophets Uma. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 12:55