پب جی (PUBG) گیم کا حکم
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
عصر حاضر میں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد جن لایعنی اور غیر مناسب چیزوں میں ضیاع وقت کا شکار ہے ان میں سے ایک ”پب جی“ بھی ہے۔”پب جی“ (PUBG) کا تعارف موجودہ متمدن دنیا کے اکثر کھیل نہ اخلاقی حدود کے پابند ہیں اور نہ کسی صحیح مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں بلکہ فقط وقت گزاری اور وقت بربادی کا سامان ہیں۔ یہی حال ”پب جی“ کا بھی ہے یہ ایک ایسا آنلائن ملٹی پلیئر گیم ہے جس میں کھیلنے والا(پلئیر)کسی ایک مقام پر خالی ہاتھ برہنہ اترتا ہے اور پھر ہتھیار اور دیگر اشیاء سے لیس ہو کر اپنی بقا کے لئے جنگ کرتا ہے اور لوگوں کو قتل کرتا پھرتا ہے۔ آخر میں جو بچتا ہے اسکو فاتح گردانا جاتا ہے اور چکن ڈنر کی شکل اسے انعام سے نوازا جاتا ہے۔موجودہ دور میں یہ کھیل بے حد مقبول ہو چکا ہے، خاص طور سے نوجوان اور بچوں کا طبقہ اس کھیل کا عادی ہو چکا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کھیل ایک نشہ بن چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ جب کوئی اس گیم کو کھیلتا ہے تو دنیا وما فیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔اپنے قیمتی اوقات کے ضائع ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔اوروقت ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تیزرفتاری سے گزرتا ہے اور گزرنے کے بعد واپس نہیں آتا،وقت کی قدروقیمت کاموازنہ دنیاکی کسی بھی دوسری چیز سے نہیں ہوسکتا،جو لوگ وقت کی قدرنہیں کرتے ناکامیاں اور مایوسیاں ان کامقدر بن جاتی ہیں۔قوموں کی ترقی کاراز بھی یہی ہے کہ جو قومیں وقت کی رفتار کا ساتھ دیتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کی اہلیت حاصل کرچکی ہیں ان پر کامیابیوں اور ترقیوں کے نت نئے دَور آتے ہی چلے جاتے ہیں۔ترقی یافتہ کہلانے والی ان قوموں کاہرفرد خوش حال دنیا کی ہرآسائش اور سہولت کاحامل اور مالامال ہوتاہے جبکہ وقت کی قدروقیمت کااحساس نہ کرتے ہوئے اسے بربادکرنے والی قومیں خود برباد ہوجاتی ہیں ان کاتقریباً ہرفرد بدحال دنیا کی ہرتکلیف و پریشانی میں مبتلا اور کنگال دکھائی دیتاہے۔ دنیامیں قیمتی ترین شئے ’’وقت‘‘ہے۔مگر افسوس!! ہمیں وقت کی قدر و قیمت کااحساس ہی نہیں ،سستی،کاہلی اور لاپرواہی کے ساتھ ساتھ فضول سرگرمیوں ،بے مقصد مصروفیات اور مختلف گیمزمیں وقت ضائع کرکے ہم اپنے آپ کوبربادکررہے ہیں۔لیکن افسوس کہ اس بربادی کابھی ہمیں کوئی احساس نہیںخدارا!اپنی روش کو بدلیے اور شرعی احکام وقوانین کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔
پب جی (PUBG) گیم کئی طرح کے شرعی ودیگر مفاسد پر مشتمل ہے، اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ ، یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری کے لیے کھیلی جاتی ہے، جو لایعنی کام ہے، اور اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعت مطہرہ ایسے لایعنی لہو لعب پر مشتمل کھیل کی اجازت نہیں دیتی، نیز مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں۔اور یہ کہ اس گیم کو کھیلنے سے مزاج میں شدت پسندی اور اشتعال انگیزی پیدا ہوتی ہے۔ لوٹ مار، قتل وغارت گری اور جرائم کو فروغ ملتا ہے۔ اور نوبت یہاں تک پہونچ جاتی ہے کہ لوگ ذہنی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتا کئی لوگ تو مسلسل کچھ گھنٹے اس گیم کو کھیلنے کے بعد اپنے آپ کو ہلاک کر کے جرم عظیم کے مرتکب ٹھہرے۔ اور کچھ ناعاقبت اندیشوں نے کھیلنے سے منع کرنے پر اپنے ہی اہل خانہ کو قتل کر دیا۔ جیسا کہ بعض اخبارات اور نیوز چینلز میں ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلسل گیم کھیلنے سے انگلیوں، آنکھوں اور سر وغیرہ پر اثر پڑتا ہے۔
اس گیم کو کھیلنے والا جب ایک مرحلہ (Level) عبور کر لیتا ہے تو اس کو انعام (reward) ملتا ہے۔ اس طرح درجہ بدرجہ خیالی کامیابی اور انعامات کے حصول کی وجہ سے انسان اس گیم کو کھیل کر خوش ہوتا ہے۔ضرورت ہے کہ یہ بات اپنے ذہن میں راسخ کی جائے کہ حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے اور دنیا وآخرت میں کامیابی دین پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
یہ گیم کھیلنے والے کو ہیرو بننے کا موقع فراہم کرتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان ہیرو بننے کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا اس بنا پر بھی لوگ اس کھیل میں دلچسپی لیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقتا یہ ہیروگری نہیں بلکہ بیوقوفی ہے۔ ہیروگری دکھانی ہے تو علم کے میدان میں دکھائیں جیسے ہمارے اسلاف نے اس میدان میں کمال پیدا کیا اور اس امت کے ہیرو قرار پاکر امام ومرجع بن گئے۔ اسی طرح میدان عمل میں ہیروگری دکھائیں اور ایسے اعمال انجام دیں جن کی بنا پر بروز قیامت ہیرو ٹھہرائے جائیں۔ مثلا اپنی جوانی کو اللہ کی عبادت میں لگائیں بروز قیامت ان شاء اللہ عرش الہی کے سایہ میں جگہ پا کر ہیرو قرار پائیں گے۔ (صحیح بخاری: 660) اسی طرح اللہ کی محبت حاصل کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو اللہ کی محبت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ جبرائیل علیہ السلام، دیگر ملائکہ اور اہل دنیا کی محبت حاصل ہو گی۔
یہ گیم محض لایعنی ہے، اس میں وقت، صحت اور دماغی قوت وطاقت کی بربادی کے علاوہ کوئی قابل ذکر دینی یا دنیوی فائدہ نہیں ہے۔ اور اسلام اس طرح کی لایعنی وبے فائدہ ؛ بلکہ وقت وغیرہ برباد کرنے والی چیزوں کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ گیم موبائل یا کمپیوٹر پر نیٹ کنکشن کے ساتھ ہی کھیلا جاسکتا ہے، اس کے بغیر نہیں اور بعض اصحاب نظر کی رائے یہ ہے کہ یہودی لابی، اس گیم کے ذریعہ لوگوں (بالخصوص مسلمانوں)کا پرسنل ڈاٹا محفوظ کرنا چاہتی ہے؛ تاکہ بچے کھچے چند مسلمانوں میں جو کچھ عفت وپاک دامنی وغیرہ باقی رہ گئی ہے ، اسے تارتار کردیا جائے اور پوری دنیا کو شیطانی جال کا شکار بنادیا جائے۔
اگر آپ کے پاس اتناہی وقت ہے تو قضانمازوں کواداکرو،نوافل کااہتمام کرو،کلمۂ طیبہ کی کثرت کرو، درودپاک کاوِرد کرو،دینی کتب کامطالعہ کرویاخاموش رہو،خاموش رہنے پر بھی ساٹھ سالہ بے ریاعبادت کاثواب ہے۔ اور حضورﷺنے فرمایاجو خاموش رہانجات پاگیا۔ایک سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ کیاقوم مسلم کے پاس اتنی وافر مقدار میں وقت ہے کہ اسے پاس کرنے کے لیے اب وہ مختلف گیمز کاسہارالے رہی ہے جبکہ اسے خاک وخون میں نہلانے اور اسلام کو نشانۂ ہدف بنانے کا منصوبہ نہ صرف بنالیاگیابلکہ اس پر سالوں سے عمل بھی ہورہاہے۔یورپین قومیں بڑی شاطر ہیں،خود اپنے وقت کااستعمال تحقیق وتفتیش اور اﷲ کے سربستہ رازوں کو جاننے کے لیے کررہی ہیں اور ہمارے ہاتھوں میں موبائیل تھمادیا،نہ اس سے چھٹکاراپائیں گے ،نہ ہی ترقی کی راہوں کوعبور کریں گے اور نہ ہی اسلام کی تبلیغ وترویج اور اشاعت کے حوالے سے کام کرپائیں گے۔افسوس!ہماری قوم ان باتوں سے صرفِ نظرکرتے ہوئے بڑی آسانی سے مکاروں کے دام فریب کاشکارہوجاتی ہے۔واضح رہے کہ آج کل جس طرح سے یہود ونصاری نے مسلمانوں کے ذہنوں پر باطل کی محنت کرکے انہیں کھیل کود ، لہو ولعب اور سیرو تفریح جیسے ضیاع وقت کے اسباب میں مشغول کرکے اپنے مقصدِ اصلی سے ہٹا دیا ہے اور اس مختصر سی زندگی کے قیمتی لمحات وہ جس طرح سے لایعنی میں ضائع کرتے ہیں کہ انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا، اسلام قطعاً ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔بلکہ ہمارااولین فرض یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر ہر موڑ پر شریعت کے حکم کو معلوم کرکے اپنی تمام تر اغراض، خواہشات او رمفادات کو پس پشت ڈال کر ، حکم خداوندی کی تعمیل کریں، یقینا اسی میں ہمار ی ابدی کامیابی اور دنیا وآخرت کی سرخروئی ہے۔یقینا جس مرد مومن کو اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی مطلوب ہو اس کے لیے اﷲ تعالیٰ کے ایک حکم کے سامنے اپنی ہزاروں خواہشات کو قربان کرنا آسان ہوتا ہے نہ کہ حکم خداوندی کو پامال کرنا۔پھر وہ کسی قسم کا حیلہ اور بہانہ تلاش نہیں کرتاہے۔
مسلمانوں کی اکثریت کمپیوٹر،لیپ ٹاپ اور باالخصوص موبائیل میں گیمس کھیلناپسند کررہی ہے۔اینڈرائیڈسسٹم میں من چاہے گیمس کی موجودگی نے اس شوق کو مزیدپروان چڑھایاہے۔اب کچھ دنوں سے یہ لَت جُواکی شکل اختیار کرچکی ہے۔جس کے بہت سے نقصانات ہیں۔(1)اس کھیل میں دِینی اور جسمانی کوئی فائدہ مقصود نہیں ہوتا اور جو کھیل ان دونوں فائدوں سے خالی ہو، وہ جائز نہیں۔(2)اس میں وقت اور روپیہ ضائع ہوتا ہے اور ذکر اﷲ سے غافل کرنے والا ہے۔(3)سب سے شدید ضَرر یہ کہ اس کھیل کی عادت پڑنے پر چھوڑنا دُشوار ہوتا ہے۔(4)گیم کھیلتے وقت بچے اساتذہ ،والدین اور سرپرستوں کی حکم عدولی کرتے ہیں بلکہ شرعی احکام وضوابط کا بھی خیال نہیں کرتے۔(5)علاوہ ازیں اس سے بچوں کا ذہن بھی خراب ہوتا ہے،ذہن میں ماردھاڑ اور اشتعال انگیزمناظرگردش کرتے ہیں۔(6) کھیل سے بامقصد تعلیم میں خلل واقع ہوتا ہے، پھر بچوں کو پڑھائی اور دوسرے فائدے والے کاموں میں دِلچسپی نہیں رہتی وغیرہ۔
اسلام جہاں ہمیں ایک بامقصد زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں لہو ولعب سے اجتناب کرنے کی بھی نصیحت کرتا ہے۔ اسی طرح اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ انسان اپنے قیمتی لمحات دنیا وآخرت کی بھلائی کے کاموں میں صرف کرے اور ہمیشہ اپنا مطمح نظر آخرت کو بنائے اور اس کے لئے خاص طور سے تگ ودو کرے کیونکہ یہ دنیوی زندگی اخروی زندگی کے لئے کھیتی کی مانند ہے جیسا ہم یہاں بوئیں گے کل یوم آخرت ویسا ہی بدلہ پائیں گے۔ لہذا اگر ہم نے وقت کی قدر کرتے ہوئے اس دنیوی زندگی کو اعمال صالحہ کا بیج بونے میں صرف کیا، لغو باتوں اور لہو ولعب سے اجتناب کیا تو اخروی زندگی باہیں پھیلائے فلاح ونجات اور جنت کے باغات کی شکل میں ہماری منتظر ہوگی۔ فرمان الہی ہے:”کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔“(سورۃ المؤمنون: 115)اور فرمان نبوی ہے:”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فارغ البالی کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔“( الترغيب والترہيب ط مکتبۃ المعارف: 3/311، رقم الحدیث: 3355)اورساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ ہمیشہ نفع بخش کاموں میں مشغول رہنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ۔”جس چیز سے تمہیں (حقیقی) نفع پہنچے اس کے حریص بنو۔“(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2664)
حاصل یہ ہے کہ اگر کسی آن لائن گیم میں مذکورہ خرابیاں پائی جائیں، یعنی اس میں مشغول ہوکر شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً جان دار کی تصاویر، موسیقی اور جوا وغیرہ ہوں یا اسے محض لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو اس طرح کی گیم کا کھیلنا جائز نہیں ہوگا۔ لہذا پپ جی اور اس جیسے دیگر گیم کھیلنا شرعاً جائز نہیں ہے۔اور یہ بھی واضح رہے کہ کسی بھی کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:(1) وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔(2)اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت ہو، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔(3) کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔(4)کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔اس لیے شریعت اسلامیہ کی رو سے پوب جی گیم کھیلنا ہرگز جائز نہیں ہے، لوگوں کو اس طرح کی چیزوں سے بہت زیادہ دور رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی حفاظت فرمائیں۔